محمد حدید


ہرسال ۱۵ مئی کو فلسطینی دُنیا بھر میں ’یومِ نکبہ‘ یا بڑی ’تباہی کا دن‘ مناتے اور ۱۹۴۸ء میں اس روز فلسطین میں بڑے پیمانے پر نسلی تطہیر اور ظلم و ستم کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

برطانوی حکومت کی اسرائیل کے قیام کے لیے حمایت حاصل کرنے کے بعد ۱۴مئی ۱۹۴۸ء کو فلسطین میں جیسے ہی برطانوی انتداب (mandate)ختم ہوا، صہیونی قوتوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے پہلی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز کردیا۔ صہیونی فوج نے کم از کم ۷لاکھ ۵۰ہزار فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرکے فلسطین کے ۷۸ فی صد رقبے پر قبضہ کرلیا۔ فلسطین کا باقی ماندہ ۲۲فی صد رقبہ آج مقبوضہ مغربی کنارہ اورمحصور غزہ کی پٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ جنوری ۱۹۴۹ء تک جاری رہی اور پھر مصر، لبنان، اُردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ ۱۹۴۹ء کی جنگ بندی لائن کو گرین لائن بھی کہا جاتا ہے، اورعام طور پر اسے اسرائیل اور مغربی کنارے کے درمیان حدبندی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ گرین لائن کو۱۹۶۷ء سے قبل کی سرحد بھی کہا جاتا ہے جب ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے باقی ماندہ فلسطین پرقبضہ کرلیا تھا۔

اسرائیل کا فلسطین پر فوجی قبضہ عشروں پر محیط مرکزی تنازع ہے جو فلسطینیوں کی زندگی کو مسلسل اور بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔

اسرائیل نے ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۹ء کے درمیان فلسطین کی نقشہ کشی کے لیے صہیونی فوجیوں کے ذریعے فلسطین کے بڑے شہروں پرحملہ کیا اور ۵۳۰ دیہات کو تباہ کر دیا۔ بڑے پیمانے پر قتل عام اور سفاکیت کے نتیجے میں ۱۵ہزار فلسطینی مارے گئے۔ ۹؍اپریل ۱۹۴۸ء کو صہیونی فوجیوں نے دیریاسین گائوں میں جو یروشلم کے مغربی دیہاتی علاقے میں واقع ہے، جنگ کے دوران بدنامِ زمانہ قتل عام کیا۔اسرائیلی ریاست کےقیام سے قبل کی Irgun اور Stern صہیونی ملایشیا کے ہاتھوں ۱۱۰سے زیادہ مرد و خواتین اور بچے مارے گئے۔ فلسطینی محقق سلمان ابوستہ نے اپنی کتاب: The Atlas of Palestine میں ان ۵۳۰ دیہات پر جو تباہی و بربادی گزری، اس کا مفصل تذکرہ اعداد و شمارکےساتھ کیا ہے۔ نیز مختلف چارٹوں اور گراف کی مدد سے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔

فلسطینی پناہ گزین کہاں ہیں؟

۶۰ لاکھ رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزین ۵۸ کیمپوں میں رہتے ہیں جو پورے فلسطین اور ہمسایہ ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی فلسطینی مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے ایجنسی (UNRWA) مشرق قریب میں مہاجرین کو بنیادی ضروریاتِ زندگی اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سیکڑوں اسکولوں کو چلانے میں معاونت کر رہی ہے۔ اس وقت اُردن میں ۲لاکھ ۳۰ہزار فلسطینی مہاجرین ہیں، جب کہ ایک لاکھ ۵۰ہزار فلسطینی مہاجرین غزہ میں، ۸لاکھ ۷۰ہزار فلسطینی مہاجرین مقبوضہ مغربی کنارہ میں، ۵ لاکھ ۷۰ہزار فلسطینی مہاجرین شام میں اور ۴لاکھ ۸۰ہزار فلسطینی مہاجرین لبنان میں ہیں۔ ان میں بڑے فلسطینی مہاجر کیمپ بقع، اُردن، جبلیا، غزہ، جنین ،مقبوضہ مغربی کنارہ، یرموک، شام اور ال ہلوان، لبنان میں ہیں۔

غزہ کے ۷۰ فی صد سے زیادہ رہایشی مہاجرین ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ ۵۰ہزار فلسطینی مہاجرین غزہ کی پٹی میں قائم آٹھ مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں۔بین الاقوامی قانون کے مطابق مہاجرین اپنے گھروں اور زمینوں پر واپس آباد ہونے کا حق رکھتے ہیں، جہاں سے انھیں نکالا گیا تھا۔ بہت سے فلسطینی آج بھی فلسطین واپسی کی اُمید کے ساتھ جی رہے ہیں۔

فلسطینی مہاجرین کی حالت ِ زار کے پیش نظر یہ دُنیا کا طویل ترین ناقابلِ حل مہاجرین کا مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کے فوجی کنٹرول کی وجہ سے ان کی زندگی کا ہرپہلو متاثر ہے، خواہ وہ سہولیات کا حصول ہو یا سفر کرنا ہو، شادی کرنا ہو یا کہیں رہنا ہو۔ معروف بین الاقوامی این جی او ہیومن رائٹس واچ (HRW) کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف انسانیت کی توہین، نسلی امتیاز اور ظلم و سفاکیت کے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے‘‘۔

’ہیومن رائٹس واچ‘ نے اسرائیل کی زیادتیوں کے ثبوت فراہم کیے ہیں، جن مظالم میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی جائیدادوں اور زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنا، لاقانونی قتل و غارت گری، زبردستی علاقے سے بے دخلی، نقل و حمل پر شدید پابندیاں، نظربندی اور قیدوبند اور فلسطینیوں کو شہریت کے حق سے محروم رکھنا شامل ہیں۔

ہرسال اسرائیل فلسطینیوں کے سیکڑوں گھر تباہ کر دیتا ہے۔ مصدقہ اعدادوشمار کےمطابق ۲۰۰۹ء اور ۲۰۲۲ء کے درمیان کم از کم ۸ہزار ۴سو ۱۳ فلسطینیوں کے مکانات اسرائیلی فوج نے گرا دیئے اور اس کے نتیجے میں ۱۲ہزار ۴سو ۹۱ افراد بے گھرہوگئے۔بین الاقوامی قانون کے مطابق لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ان مکانات میں سے بیش تر (۷۹ فی صد) مقبوضہ مغربی کنارے کے Area C میں واقع ہیں، جو اسرائیل کے زیرانتظام ہے۔ ان میں سے ۲۰ فی صد مکانات مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ہیں۔

اسرائیل نے ۴ہزار ۴سو ۵۰ فلسطینیوں کو قید کر رکھا ہے جن میں ۱۶۰بچے اور ۳۲خواتین شامل ہیں اور ۵۳۰ افراد کو قانونی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر قید کیا ہوا ہے۔ ہرسال ۱۷؍اپریل کو ’فلسطینی یومِ قید‘ منایا جاتا ہے تاکہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں پر ظلم و ستم کو نمایاں اور فلسطین کی آزادی اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے ان کی جدوجہد کو اُجاگر کیا جاسکے۔

فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی بستیاں مضبوط حصاروں کے ساتھ غیرقانونی طور پر تعمیر کی جارہی ہیں۔ تقریباً ۷لاکھ ۵۰ہزار اسرائیلی آبادکار تقریباً ۲۵۰ غیرقانونی بستیوں میں مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں رہتے ہیں۔ اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قانون کے مطابق غیرقانونی ہیں۔ اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں پر اکثر حملہ آور ہوکر ان کے مکانات اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں تقریباً تین لاکھ فلسطینی یہ عذاب سہہ رہے ہیں۔

اسرائیلی حکومت اسرائیلی یہودیوں کے رہنے کے لیے ان بستیوں کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈ فراہم کرتی ہے اور انھیں رہنے کے لیے مختلف سہولتوں کی پیش کش کے ساتھ ساتھ سستے گھر بھی فراہم کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آبادکاروں کی آبادی اسرائیل کی آبادی کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

غزہ کی پٹی ۲۰۰۷ء سے اسرائیل کی زمینی اور فضائی ناکہ بندی سے دوچار ہے۔ ۲۰۰۸ء سےاسرائیل فلسطینی علاقےپر چار جنگیں مسلط کرچکا ہے۔اسرائیل اور مصر کی سرحدوں کے درمیان بحیرہ روم کے ساحل پر واقع غزہ کی پٹی ۳۶۵ مربع کلومیٹر (۱۴۱ مربع میل) پرمشتمل ہے، جو کیپ ٹائون، ڈیٹریٹ یا لکھنؤ کے برابر ہے۔ یہ دُنیا میں سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے اور اسرائیل کے مسلسل قبضے کی وجہ سے اسے ’دُنیا کی سب سے بڑی جیل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر حالیہ بمباری میں جو ۱۰ سے ۲۱مئی ۲۰۲۱ء تک جاری رہی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس میں اسرائیلی فوج نے ۲۶۱ ؍افراد کو ہلاک کیا جن میں ۶۷ بچے بھی شامل ہیں اور ۲ہزار ۲ سو سے زائد افراد کو زخمی کیا۔ فلسطینیوں کے لیے ’نکبہ‘ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک مسلسل جاری عمل ہے جس کے نتیجے میں انھیں گھر سے بے گھر اور زمینوں سے بے آباد کیا جارہا ہے اور یہ عمل کبھی نہیں رُکتا۔ (الجزیرہ، ۱۵مئی ۲۰۲۲ء)