انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں [مارچ ۲۰۱۹ء میں]کالعدم قرار دی گئی جماعت اسلامی سے منسوب ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر[۱۳جون ۲۰۲۲ء کو چار صفحات پر مشتمل مفصل حکم نامے کے ذریعے] پابندی کا اعلان کیا گیا ہے، جس سے ہزاروں طلبہ اور اساتذہ پریشان ہوگئے ہیں۔
ایک متاثرہ خاتون ٹیچر کہتی ہیں: ’’ہم پہلے ہی پریشان تھے۔ کئی کئی ماہ کی تنخواہیں بند پڑی ہیں، نہایت قلیل معاوضے پر ہم کام کرتے تھے۔ لیکن اب حکومت کے اس فیصلے نے مزید پریشان کردیا ہے‘‘۔
واضح رہے کہ ۲۰۱۹ء میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے سے چند ماہ قبل ہی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور سرینگر کے بٹہ مالو علاقے میں قائم اس کا صدر دفتر سیل کر کے اس کے امیر حمید فیاض کو جماعت کے کئی کارکنوں سمیت گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پیر [۱۳ جون]کے روز جس سرکاری حکم نامے میں ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ کے اسکولوں کو دو ہفتوں کے اندر اندر سیل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، ان میں اس پابندی کی فوری وجوہ کا ذکر نہیں ہے۔ تاہم، یہ کہا گیا ہے کہ ’’سال ۱۹۹۰ء میں ہی ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر پابندی عائد تھی اور تب سے اب تک اس کے اسکولوں میں زیرتعلیم طالب علموں کی رجسٹریشن عدالتی احکامات پر ہوتی رہی ہے‘‘۔ حکم نامے میں محکمہ تعلیم کے افسروں کو کہا گیا کہ ’’ٹرسٹ کے اسکولوں میں جو طالب علم زیر تعلیم ہیں اُن کا نزدیکی سرکاری سکولوں میں داخلہ یقینی بنایا جائے‘‘۔ مگر ہزاروں اُستانیوں اور اساتذہ کے بارے میں حکومت نے کچھ بھی نہیں کہا ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟
ٹرسٹ کے ناظم تعلیمات شوکت احمد کہتے ہیں:’’وہ اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کریں گے۔ ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کے زیر نگرانی گذشتہ تین عشروں کے دوران بیش تر اسکول، ٹرسٹ سے علیحدہ ہوچکے ہیں اور حکومت کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے باقاعدہ تسلیم شدہ ہیں۔ حکم نامے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ’’کون سے اسکولوں کو بند کیا جانا ہے، اس کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ اور طالب علموں اور ان کے والدین میں تشویش ہے‘‘۔
شوکت احمد کا یہ بھی کہنا تھا: ’’ہمارا ٹرسٹ ایک ’غیر سرکاری اور غیر منافع بخش‘ ادارہ ہے، جو نہایت قلیل فیس کے عوض اُن لوگوں کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے، جو بڑے اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخلہ نہیں کر پاتے۔ان اسکولوں کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے اسکولوں میں وہی نصاب پڑھایا جاتا ہے، جو سرکاری اور دوسرے نجی اسکولوں میں رائج ہے۔ پھر انڈیا بھر سے ماہرین ہمارے ٹیچر ٹریننگ پروگرام میں شرکت کرتے ہیں‘‘۔
اس پابندی کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ بے روزگار ہوسکتے ہیں اور ہزاروں طلبہ و طالبات کی تعلیمی سرگرمیاں، تعلیمی سیشن کے عین درمیان معطل ہونے سے ان کا تعلیمی مستقبل خراب ہوسکتا ہے۔
اگرچہ سرکاری حکم نامے میں اس پابندی کے واضح محرکات کا ذکر نہیں ہے لیکن بعض سرکاری اہل کار کہتے ہیں: ’’ ان اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں میں حکومت مخالف جذبات اُبھارے جاتے ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ ٹرسٹ کے قیام کے چند ہی سال بعد ۱۹۷۷ء میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمدعبداللہ نے بھی ’فلاح عام ٹرسٹ‘ پر پابندی عائد کی تھی۔ تب ٹرسٹ کے اسکول دوسرے ناموں سے چلتے رہے، یہاں تک کہ۱۹۸۹ء میں ایک بار پھر ٹرسٹ کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اُس وقت ٹرسٹ نے یہاں کی عدالت عالیہ سے رجوع کر کے ایک عبوری ریلیف کی درخواست کی، تو عدالت نے اسکولوں کے بچوں کو مقامی بورڈ کے ذریعے امتحانات میں شرکت کی اجازت دے دی۔ موجودہ حکم نامے پر اگر عمل ہوا تو یہ پچھلے ۳۳ برسوں میں ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر تیسری پابندی ہوگی۔
’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ سے وابستہ ایک کارکن نے بتایا: ’’حکومت یہ بات جانتی ہے کہ ہمارے یہاں سے فارغ بچے زندگی کے مختلف شعبوں میں نام کما چکے ہیں اور ابھی تک ایک بھی بچہ ایسا نہیں جو کسی تخریبی کارروائی میں ملوث پایا گیا۔ دوسری طرف حکومت کی اپنی یونی ورسٹیوں میں سے کئی لڑکے ایسے تھے، جنھوں نے بندوق اُٹھائی، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن یونی ورسٹیوں کو بھی بند کیا جائے؟ ہماری تمام سرگرمیاں عام اور شفاف ہیں، مگر اس کے باوجود ہمیں تنگ کیا جارہا ہے‘‘۔{ FR 675 }
ثمرین گل (فرضی نام) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک میڈیکل کالج میں تیسرے سال کی طالبہ ہیں، جو کشمیر اپنے گھر عید کے لیے آئیں تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انڈیا کی حکومت ان کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان لگا دے گی۔ اسی طرح فواد حسن (فرضی نام) کا تعلق بھی کشمیر سے ہے۔ وہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں میڈیکل کالج کے چوتھے سال کے طالب علم ہیں، وہ کہتے ہیں:’’میرے والدین چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ انڈیا میں کوشش کی مگر داخلہ نہیں ملا۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں کوشش کی تو پاکستان میں نہ صرف داخلہ ہوا بلکہ یہ دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا بھی تھا‘‘۔
ثمرین اور فواد حسن سمیت کشمیر کے کئی طالب علموں کو، جو پاکستان کی یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا حال ہی میں تعلیم مکمل کر چکے ہیں، ان کے لیے انڈیا کے اعلیٰ تعلیم کے وفاقی ادارے یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) اور آل انڈیا کمیشن برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) کا وہ اعلان ذہنی تناؤ کا باعث بن چکا ہے، جس کے مطابق: ’’پاکستان سے حاصل کردہ ڈگری کی بنیاد پر آیندہ سے انڈیا [اور انڈیا کے زیرتسلط کشمیر] میں تعلیم یا نوکری نہیں ملے گی‘‘۔
واضح رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان عشروں سے جاری ’سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام‘ (SEP) کے تحت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے نوجوان ہر سال پاکستانی تعلیمی اور تربیتی اداروں میں داخلہ لیتے تھے۔پاکستان میں فی الوقت زیرتعلیم کشمیریوں کی تعداد کے بارے میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے آج تک کوئی مجموعی اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔
تاہم، پاکستان سے واپس لوٹنے والے طالب علموں کا کہنا ہے: ’’گذشتہ کئی برس سے ہرسال کم از کم ۱۰۰ نوجوان میڈیکل،انجینیرنگ یا کمپیوٹر سائنسز کے شعبوں میں ڈگریاں لے کر کشمیر لوٹتے تھے۔ پاکستان میں کشمیری طالب علموں کی تعداد میں خواتین کا تناسب ۴۰ فی صد ہے۔
۲۰۱۶ء میں مسلح عسکریت کے بعد حال ہی میں انڈین اداروں کا یہ متنازعہ فیصلہ سامنے آیا ہے، اوراس فیصلے سے قبل ۲۰۲۰ء میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بھی ایک متنازعہ مقدمہ سامنے آیا، جو جموں و کشمیر پولیس کے کاؤنٹر انٹیلی جنس کشمیر (CIK) شعبے نے درج کیا۔ اس مقدمے میں الزام لگایا گیا کہ ’’کشمیری علیحدگی پسند رہنما پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلے کے عوض کشمیریوں سے لاکھوں روپے لیتے ہیں اور یہ سرمایہ بعد میں مسلح تشدد کے لیے استعمال ہوتا ہے‘‘۔
حُریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے پولیس کے اس دعوے کو مبالغہ آرائی قرار دیا اور کہا ہے:’’یہ بات تو خود طالب علموں یا اُن کے والدین سے بھی معلوم کی جا سکتی ہے‘‘۔
پاکستان سے ہی ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر واپس لوٹنے والے ایک نوجوان کے والد نے ہمیں بتایا کہ’’یہ نوجوان اپنے ہی پیسوں پر ڈگریاں لیتے تھے، اور ان کی تعلیم و تربیت پر پاکستانی وسائل خرچ ہوتے تھے۔ واپسی پر وہ کشمیر میں ہی کشمیری انتظامیہ کا ایک انسانی وسیلہ بن جاتے تھے۔ لیکن اب اس فیصلے سے برین ڈرین [فرارِ ذہانت] ہوگا۔ ظاہر ہے جب ایک ڈگری یافتہ نوجوان یہاں ناکارہ قرار دیا جائے گا، تو وہ کیا کرے گا؟ وہ یا تو پاکستان واپس جائے گا یا پھر خلیجی ممالک یا برطانیہ اور امریکا جائے گا‘‘۔