محمد ابراہیم خان


قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ ۝۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ۝۳۲

(اٰل عمرٰن۳:۳۲) (اے نبیؐ) ان سے کہو کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت قبول کرو۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک لا متناہی اور متلاطم سمندر ہے۔ علم سیرت محض ایک شخصیت کی سوانح عمری ہی نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب، ایک تمدن، ایک قوم، ایک ملت اور ایک الٰہی پیغام کے آغاز اور ارتقاء کی ایک انتہائی اہم، انتہائی دلچسپ اور انتہائی مفید داستان ہے۔ اس مضمون میں  ہم سیرت النبیؐ کی جمع، تدوین اور اس کے مختلف مراحل، جہتیں اور مناہج کا مطالعہ کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ایک مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو باعمل، باشرع، اور بامقصد بنانے میں سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا کردارادا کرتا ہے۔

  • سیرت کی تعریف: سیرت کے لغوی معنی طریقۂ کار یا چلنے کی رفتار اور انداز کے ہیں۔ عربی زبان میں سیرت کے معنی کسی کا طرزِ زندگی (Life Style) یا زندگی گزارنے کا اسلوب کے بھی ہیں مگر جلد ہی سیرت کا لفظ ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز حیات کے لیے مخصوص ہوگیا، اور آج دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں سیرت کا لفظ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسلامی علوم و فنون کی اصطلاح میں سیرت کا لفظ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کے لیے استعمال کیا گیا جو آپؐ نے غیرمسلموں سے معاملہ کرنے اور جنگوں یا صلح اور معاہدات کے معاملات میں اپنایا۔ قدیم مفسرین، فقہا، محدثین اور سیرت نگاروں نے سیرت کے لفظ کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔
  • علم سیرت کا پس منظر اور مواخذ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو بہت سی دوسری اقوام سے واسطہ پڑا۔ بڑے بڑے علاقے فتح ہوئے۔ بڑی اقوام اسلام میں داخل ہوئیں۔ مختلف اقوام کے ساتھ جنگ اور صلح کے معاہدات کرنے پڑے۔ ان تمام معاملات میں مسلمانوں کو قدم قدم پر اس کی ضرورت پیش آئی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ، تفصیلی قوانین اور احکام و ہدایات ان کے سامنے ہوں۔ ہمارے نبیؐ نے مختلف اقوام اور قبائل سے معاہدے کیے، غیر مسلموں، مشرکین، یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی معاہدے ہوئے۔ نو مسلموں کو مراعات بھی دی گئیں۔ چارٹر اور منشور جاری کیے گئے۔ ان سب چیزوں کی بنیاد پر فقہائےاسلام نےایک نئےقانون، نظام اورعلم کی تشکیل و بنیاد رکھی اور اس کےلیےسیرت اور’سِیَرْ‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ جیسے جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بارے میں معلومات جمع ہوتی گئیں ان کی تدوین کا کام بھی شروع ہو گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان معلومات کے دو حصے یا پہلو نمایاں ہوتے گئے۔ ایک حصہ وہ تھا جس میں تاریخی پہلو زیادہ نمایاں تھا۔ اس حصے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں مختلف واقعات کو ترتیب سے جمع کیا گیا تھا۔ یہ حصہ ’مغازی‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسرا پہلو یا حصہ وہ تھا جس میں قانون کا پہلو نمایاں تھا۔ جس میں فقہی رہنمائی اور ہدایات زیادہ نمایاں تھیں۔ وہ سیرت یا ’سِیَرْ،  کے نام سے نمایاں ہوگیا۔ آج علم سیرت ایک وسیع اور جامع علم ہے جس کے بہت سے حصے اور شعبے ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ ’مغازی‘ اور دوسرا ’سِیَرْ،   کہلاتا ہے۔ ’مغازی‘ کا انداز تاریخی اور’سِیَرْ‘ کا انداز قانونی ہے۔ ’مغازی‘ میں حیات مبارکہ کے دیگر پہلوؤں کی تفصیلات بھی شامل ہوتی گئیں۔ اس کا نام کہیں علم سیرت و مغازی اور کہیں علم مغازی و سیر رکھا گیا۔ بالآخر اس کا نام علم سیرت قرار پایا اور ’مغازی‘ اس کا ایک شعبہ بن گیا۔

سیرتِ پاکؐ کا اولین اور بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے۔ قرآن پاک شاید پہلی اور یقینا آخری مذہبی کتاب ہے جس کواس کے نزول کے ساتھ تحریر کیا گیا، تو کہا جا سکتا ہے کہ جب قرآن پاک جمع ہورہا تھا اور اس کو مدون کیا جارہا تھا تو اس کے ساتھ ساتھ سیرت بھی مدون ہورہی تھی۔ یہ تدوین سیرت کا آغاز تھا یعنی قرآن پاک کی تدوین اور جمع ایک طرح سے سیرت کی جمع اور تدوین کے مترادف تھی۔ سیرت کا دوسرا ماخذ احادیث صحیحہ ہیں۔ حدیث کی تدوین کی تاریخ بھی ایک اعتبار سے سیرت کی تدوین کی تاریخ ہے۔ حدیث کی ہر کتاب میں سیرت پاک سے متعلق مستند اور ضروری مواد موجود ہے۔ علمِ حدیث مسلمانوں میں روز اول سے ایک انتہائی محترم اور مقدس اور مقبول علم رہا ہے۔ ہر دور کی سعید روحوں اور بہترین دماغوں نے علم حدیث کی خدمت کی ہے۔ ان دو بنیادی مواخذ کے علاوہ کتب سیرت ومغازی، کتب تاریخ، کتب ادب/ادبیات بھی مواخذ سیرت شمار کیے جاتے ہیں۔

  • علومِ سیرت: اس ضمن میں اس بات کو اپنے ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے کہ تمام بانیانِ مذاہب میں رسول جل جلالہ کی ذاتِ مبارکہ وہ واحد شخصیت ہے جو تاریخ میں غیرمتنازع مقام رکھتی ہے۔ ان کی پوری زندگی دنیائے انسانیت کے سامنے ہے۔ ہمارے دین کی بنیاد قرآن مجید کے بعد احادیث نبوی پر ہے۔ اسی لیے محدثین نے اپنی تمام تر توانائیاں یہ جاننے پر خرچ کیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، افعال و اعمال اور تقاریر کس بنیاد پر ہیں؟ کیا چیز جائز ہے اور کیا ناجائز ہے۔ کون سی چیز سنت کا حصہ ہے اور کون سی چیز سنت کا حصہ نہیں ہے؟ اس کے برعکس سیرت نگاروں کا زور اس پر ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی طرزِ عمل، شخصیت اور مختلف مواقع پر رویہ کیا تھا؟ اس لیے ان دونوں علوم کے مضامین میں فرق پایا جاتا ہے۔ بہت سے موضوعات ہیں جو حدیث کا حصہ ہیں اور سیرت کا بھی۔ کچھ موضوعات ایسے ہیں جو صرف حدیث کا حصہ ہیں اور کچھ ایسے کہ وہ صرف سیرت کا حصہ ہیں۔ مگرحدیث کی ہر بڑی کتاب میںسیرت کے بارے میں بیش قیمت معلومات اور مخصوص ابواب ہوتے ہیں۔ سیرت نگاروں نے اپنے کام کی ابتداء حلیۂ مبارک کی لفظی تصویرکشی سے کی، ساتھ ہی ساتھ ذاتی عادات و اطوار، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا وغیرہ کو ’شمائل سیرت‘ کے عنوان کے تحت مدون کیا۔

شمائل کے بعد دوسرا میدان حضورؐ کی تقاریر ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر ارشاد فرمائیں۔ سیرت نگاروں نے انھیں ’خطبات سیرت‘ کے عنوان تلے جمع کیا ہے۔ ہمارے نبی افصح العرب ہیں۔ ان کی تقاریر میں فصاحت و بلاغت کا جو معیار تھا آج تک عربی زبان کا کوئی خطیب اس تک پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع اور مناسبت سے بہت سی دستاویزات تیار کروائیں، خطوط تحریر کروائے، ان تمام کو سیرت نگاروں نے ’وثائق سیرت‘ کے عنوان تلے جمع کیا ہے۔ سیرت پر جہاں تحقیقی اور عالمانہ کام ہوئے ہیں وہاں عوامی انداز میں بھی بہت کام ہوا ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اس کے لیے ’لوک سیرت‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس کا اہم نمونہ میلاد نامے اورموالید ہیں۔ سیرت کا ایک اہم موضوع ’تعلیمات سیرت‘ بھی ہے۔ اس سے مراد سیرت کی وہ معلومات یا شعبہ ہیں جن کا تعلق علم کی نشرواشاعت اور تعلیم سے ہے۔ سیرت کا ایک اہم عنوان ’روحانیات سیرت‘ ہے۔ اس میں بنیادی طور پر تزکیۂ نفس کے سلسلے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایات جمع کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی عنوانات کی ایک طویل فہرست ہے جن کے تحت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو مدون کیا گیا ہے۔ ان میں’ادبیات سیرت‘، ’اجتماعیات سیرت‘،’نفسیات سیرت‘، ’جغرافیۂ سیرت‘ اور ’مصادر سیرت‘ اہم ہیں۔

  • مناہج و اسالیب  سیرت:علمائے کرام نے تدوین سیرت کے لیے مختلف طریقۂ کاراور عنوانات اپنائے ہیں۔ سیرت کے دستیاب ذخیرے پر نظر ڈالنے سے سیرت نگاری کے جو بڑے مناہج (Methodology)  سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں:

۱- محدثانہ اسلوب: یہ سیرت نگاری کا قدیم ترین اسلوب ہے۔ اس اسلوب پران شخصیات نے کام کیا ہے جو دراصل حدیث کے متخصص (specialist ) تھے اور ان کی عمر کا بیش تر حصہ علم حدیث کے قواعد اور اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے علم حدیث کی تدریس میں گزرا۔

۲- مؤرخانہ اسلوب: اس اسلوب میں جب سیرت نگار کسی واقعے کو بیان کرتا ہے تو اس سے متعلق تمام معلومات کو یکجا اور مرتب کرکے بیان کرتا ہے۔ مثلاً ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ میں مکہ مکرمہ سے روانگی سے لے کر مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مکان میں ٹھیرنے کی پوری تفصیل کا بیان موجود ہے۔

۳-مؤلفانہ اسلوب: اس اسلوب میں سیرت کے مختلف ماخذ اور کتب کو سامنے رکھ کر تصنیفی اندازجس میں ایک مرتب اور مربوط کتاب لکھی جاتی ہے کا انداز اختیار کرکے سیرت پر کتابیں تیار کی جاتی ہیں۔

۴- فقیہانہ اسلوب: اس اسلوب میں سیرت کے واقعات پر اس طرح سے روشنی ڈالی جاتی ہے کہ ان سے کون کون سے فقہی احکامات نکلتے ہیں۔

۵-متکالمانہ اسلوب: اس اسلوب میں علم کلام کے نقطۂ نظر سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو دیکھا جاتا ہے اور جو چیزیں علم کلام کے نقطۂ نظر سے اہم ہیں انھیں نمایاں کیا جاتا ہے۔ یہاں علم کلام سے مقصد یہ ہے کہ وہ علم یا فن جس میں اسلامی عقائد کو عقلی دلائل سے بیان کیا جائے اور دوسرے مذاہب کے عقائد پر عقلی انداز سے تنقید کی جائے اور عقلی دلائل کی بنیاد پر اسلامی عقائد کی برتری ثابت کی جائے۔

۶-ادیبانہ اسلوب: اس اسلوب میں سیرت کے واقعات کو خالص ادبی اسلوب، نظم یا نثر میں مرتب کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ عامتہ الناس میں وہ لوگ جو سیرت پر تحقیقانہ کتابیں پڑھنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان کے لیے سیرت کے مواد میں ایسی ادبی چاشنی اور رنگ پیدا کردیا جائے کہ غیر متخصص شخص بھی سیرت کا مطالعہ کرنے پر آمادہ ہوجائے۔

۷- مناظرانہ اسلوب: اس سے مراد وہ اسلوب تھا جو مسلمان مسالک یا مدارس فکر کے مناظروں کی وجہ سے وجود میں آیا۔ ان مناظروں کے نتیجے میں مسلمانوں میں مختلف رائے رکھنے والے لوگوں نے سیرت کے مختلف واقعات کی تعبیر اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق کی۔

  • علمِ سیرت کا ارتقاء اور تدوین:اگر علم سیرت کی تدوینی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ علم سیرت اب تک چھ مختلف مدارج و مراحل سے گزرا ہے۔ یہ ادوار بہت ہی متعین اور حتمی طور پر طے شدہ نہیں ہیں لیکن عمومی اندازہ کرنے کے لیے یہ حد بندیاں مفید ثابت ہوتی ہیں۔

۱- تدوین سیرت کا سب سے پہلا مرحلہ معلومات اور ڈیٹا کی جمع اور فراہمی کا مسئلہ تھا۔ اس مرحلے کا اصل اور بنیادی ہدف یہ تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات با برکات کے بارے میں تمام متعلقہ معلومات کو جمع کر لیا جائے، ان کو ضائع ہونے یا فراموش ہونے سے محفوظ کر لیا جائے تاکہ آیندہ آنے والی نسلوں تک اس کو پہنچا دیا جائے۔ اس مرحلہ کے دوحصے ہیں۔ ایک حصہ تو وہ، جو اللہ ربّ العزت کی حکمت بالغہ اور تکوینی حکم سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔ علم الانساب اس کی ایک مثال ہے۔ یقینا ان لوگوں کے علم میں جو یہ معلومات جمع کر رہے تھے کہیں دور دور بھی یہ خیال نہیں تھا کہ یہ معلومات کس کی خاطر جمع کی جا رہی ہیں؟ کس کے جمال کو سامنے لانا مقصود ہے کہ یہ سارے پردے ایک ایک کر کے ہٹائے جارہے ہیں؟ لیکن یہ ساری معلومات انھی حضرات کے ہاتھوں جمع ہوئیں جن کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ وہ یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک جاری رہا۔ اسی پہلے مرحلے کے دوسرے حصے کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے فوراً بعد شروع ہوا اور جب تک صحابہ کرامؓ اس دنیا میں موجود رہے اس وقت تک یہ مرحلہ بھی موجود رہا۔ آخری صحابی کا انتقال کب ہوا؟ اس کے بارے میں محدثین میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ عام طور پر محدثین کا اتفاق ہے کہ ۱۰۵ یا ۱۰۶ ہجری میں آخری صحابی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد صحابہ کرامؓ کے ذریعے آنے والی معلومات کا راستہ بند ہو گیا۔

۲- تدوین سیرت کے دوسرے مرحلہ کو ہم ’دور تدوین و ترتیب‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے جو معلومات آئی تھیں اور پہلے سے جو معلومات حضورؐ کے خاندان، جغرافیۂ عرب اور آپؐ کے قبیلے اور برادری کے بارے میں دستیاب تھیں، ان سب کو اس طرح سے موضوع وار مرتب کرنے کا کام کرلیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا وہ نقشہ مکمل طور پر دنیا کے سامنے آجائے جو آج ہمارے سامنے ہے۔ تدوین و ترتیب کا یہ مرحلہ تابعین اور تبع تابعین کے دور میں مکمل ہوا۔ اندازاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مرحلہ ۲۱۰ ہجری کے لگ بھگ ختم ہوگیا۔ محدثین نے تابعین کا آخری زمانہ ۱۷۰، اور ۱۷۵ ہجری کے قریب قرار دیا ہے اور تبع تابعین کا آخری دور ۲۱۰ اور ۲۱۵ ہجری کے قریب قرار دیا ہے۔ گویا ۲۱۰ اور ۲۱۵ہجری کے درمیان یہ مرحلہ بھی ختم ہوگیا۔ جو جو مجموعہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ہاتھوں مرتب ہونے تھے وہ اس دور میں مرتب ہو گئے۔ وہ سارا ذخیرۂ معلومات محفوظ ہوگیا۔ ساتھ ہی اس وقیع اور قیمتی ذخیرۂ معلومات کےضائع ہونے کا خدشہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

۳-تدوین سیرت کے تیسرے مرحلے کو ’تصنیف و تالیف‘ کا دور کہا جا سکتا ہے۔ یہ دور ۲۰۰ہجری کے لگ بھگ شروع ہوا اور کم و بیش اگلے دو سو سال تک جاری رہا۔ ۴۰۰ ہجری  تک یہ مرحلہ بھی تقریباً مکمل ہوگیا۔ اس دور میں پہلے دونوں ادوار بالخصوص دوسرے دور سے     آنے والے تمام چھوٹے بڑے مجموعوں کو جمع کرکے مفصل اور مکمل کتابیں تیار کی گئیں۔ سیرت کو ایک باقاعدہ علم کے طور پر منظم اور مرتب کیا گیا۔اس دورکی سب سےپہلی اورسب سے اہم کتاب جو انتہائی قابل ذکر ہے وہ علامہ عبد الملک بن ہشام کی کتاب کا وہ نسخہ ہے جو انھوں نے ابن اسحاق کے کام کی بنیاد پر تیار کیا تھا۔

 ۴- چوتھا مرحلہ جو ۴۰۰ ہجری سے شروع ہوا اور آیندہ مزید دو سو سال تک جاری رہا۔ اس کو مرحلہ ’استیعاب و استقصاء‘ کہہ سکتے ہیں، یعنی سیرت سے متعلق تمام بلاواسطہ معلومات کا مکمل سروے اور استیعاب و استقصاء۔ واضح رہے کہ سیرت کے بارے میں علم حدیث اور سیرت کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی بہت سی قیمتی معلومات موجود تھیں۔ مختلف علوم و فنون میں منتشر طور پر یہ معلومات موجود تھیں۔ کچھ معلومات علم تفسیر میں تھیں، کچھ علم حدیث میں تھیں، کچھ مؤرخین مرتب کررہے تھے۔ کچھ معلومات لغت نویس مرتب کر رہے تھے، کچھ معلومات جغرافیہ نویسوں کے پاس تھیں۔ ان سب کو جمع کرکے اور پچھلے دو ادوار میں مرتب کردہ سیرت کے چھوٹے مجموعوں میں دستیاب مواد کو اَزسرنو کھنگال کر بڑے بڑے مجموعوں کی شکل میں مرتب کیا گیا۔ یہ دور سیرتِ مبارکہ پر بڑی بڑی کتابوں کا دور ہے۔ اس دور میں چھ چھ، آٹھ آٹھ اور دس دس جلدوں پر مشتمل ضخیم اور جامع کتابیں لکھی گئیں۔

۵- پانچواں مرحلہ جوکہ تقریباً ۶۰۰ ہجری کے لگ بھگ شروع ہوا اور آج سے کم و بیش ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک جاری رہا۔ یہ ’تجزیہ، مطالعہ اور تشعیب‘ یعنی diversification کا زمانہ ہے۔ اس دور میں سیرت کے مختلف پہلوؤں پر الگ الگ مطالعے سامنے آئے۔ کتاب النبی، وثائق النبی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے بارے میں، صحابہ کرامؓ کے الگ الگ طبقات اور مجموعوں پر سارا کام تقریباً اسی دور میں ہوا۔ اس مرحلے میں سیرت کے بارے میں دستیاب تمام معلومات اور جزئیات کو اہل علم، محدثین اور سیرت نگاروں نے اس طرح جمع کر دیا کہ ایک ایک پہلو الگ الگ ہمارے سامنے آگیا۔

۶- چھٹا دورانیسویں صدی کے نصف دوم (تقریبا" ۱۲۸۰ھ) میں شروع ہوا۔ علومِ سیرت پر ایک نئے انداز سے غور شروع ہوا۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ سیرت کے بارے میں مغربی دانشوروں نے وسیع پیمانے پر زور و شور سے اظہار خیال کیا۔ بہت سے ایسے سوالات اٹھائے جو پہلے گزرے ہوئے مسلمان سیرت نگاروں کے سامنے نہیں تھے۔ بعض سوالات حقیقی اور بظاہر علمی انداز کے تھے۔ ایسے سوالات کا جواب سیرت نگاروں، محدثین اور اہل علم نے دیا اورسیرت کے فن کو ایک نئی جہت سے روشناس کیا۔ ان نئی نئی جہتوں کے ساتھ ساتھ مغربی اہل علم کی طرف سے بہت سے اعتراضات بھی کیے گئے اور شبہات کا اظہار بھی کیا گیا جن کا مسلمان محققین اور سیرت نگاروں کی طرف سے جواب دینے کی کوشش کی گئی۔ اسی لیے اس دور کوتدوین سیرت میں تجدید کا دور بھی کہہ سکتے ہیں۔

  • مطالعہ سیرت کی ممکنہ جہتیں: ڈاکٹر ٘محمود احمد غازی مرحوم اپنی تصنیف محاضرات سیرت  میں مطالعۂ سیرت کے ایک ممکنہ مگر تشنہ پہلو کی نشاندہی کرتے ہیں جس پر یا تو کام نہیں ہوا یا بہت کم ہوا ہے، وہ ہے ’مستقبلیات سیرت‘۔ اس ضمن میں انھوں نے صحیح مسلم کی ایک غیر معمولی روایت کا ذکر کیا ہے۔ امام مسلم نے ایک روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر بن العاصؓ ایک جگہ تشریف فرما تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ آپ کے پاس تشریف لائے اور انھوں نے یہ بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے: جب قیامت قائم ہوگی تو دنیا میں رومیوں کی کثرت ہوجائے گی۔ حضرت عمر بن العاصؓ نےیہ سن کر فرمایاکہ کیاکہہ رہےہو؟اس پراس صحابی نے جواب دیاکہ میں وہی بات کہہ رہا ہوں جو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔ انھوں نے دوبارہ اس بات کو دہرایا۔ جواباً حضرت عمر بن العاصؓ نے کہا کہ اہل روم میں چار خصوصیات ہوتی ہیں۔ اسی لیے وہ اکثر الناس ہوجائیں گے۔ جب وہ کسی فتنے کا شکار ہوتے ہیں تو بہت ٹھیراؤ کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور حوصلہ نہیں ہارتے۔ جب کسی مصیبت کا شکار ہوتے ہیں تو بہت جلد اس کے اثر سے نکل آتے ہیں۔ اگر کسی جنگ میں شکست ہوجائے تو دوبارہ بہت جلد حملے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اپنے مسکین، ضعیف اور یتیم کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں اوراپنے بادشاہوں کو ظلم سے روکنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں۔ (صحیح مسلم ،حدیث ۲۸۹۸ )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل مغرب کو یا تو اہل روم کہا جاتا تھا یا بنی الاسفر کہا جاتا تھا۔ عام اسلامی اصطلاح یعنی زرد قوم کی اولاد۔ ذخیرۂ احادیث میں بنی الاسفر سے مراد اہل یورپ اور خاص طور سے روم کے باشندے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار تبصرے ہیں جو احادیث میں اہل یورپ اور مغرب کے بارے میں ملتے ہیں۔ ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرامؓ بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اہل مغرب کی ان خصوصیات سے واقف تھے اورمسلمانوں کو وقتاً فوقتاً متنبہ بھی کرتے رہتے تھے۔ ایک اور چیز جس کی جانب ڈاکٹر صاحب نے توجہ مبذول کروائی وہ یہ ہے کہ بہت سی احادیث اور سیرت کی کتابوں میں قدیم مذہبی اور آسمانی کتابوں کے حوالے بیان ہوئے ہیں۔ تورات میں یہ آیا ہے، انجیل میں یہ آیا ہے۔ ان میں سے کچھ چیزیں تو مستند احادیث میں بھی آئی ہیں اور کچھ روایات وہ ہیں جو تابعین کے ذریعے آئی ہیں۔ ایسی روایات کا بڑا حصہ ان تابعین کے ذریعے آیا ہے جو اسرائیلیات کی روایات کیا کرتے تھے۔ اگر اسرائیلیات کی روایات کو فی الحال چھوڑ دیا جائے اور صرف ان روایات کو لیا جائے جو احادیث صحیحہ میں آئی ہیں ور صحابہ اور مستند تابعین نے بیان کی ہیں، ان کا حوالہ قدیم کتابوں میں آج کس حد تک دستیاب ہے اور ان بیانات کی اپنی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ اس پر ابھی تک کوئی مناسب تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ یہ موضوع ابھی تشنۂ تحقیق ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مواد کا ازسرنو باقاعدہ مطالعہ کیا جائے اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے اس کا تقابل کیا جائے اور عوام الناس کواس سے روشناس کرایا جائے۔

  • مطالعۂ سیرت کی ضرورت اور اہمیت: ہر مسلمان حضورؐ کی ذات کو قانون اور شریعت کا ماخذ سمجھتا ہے اور یہ بات مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ اگر کسی مسلمان کے لیے کوئی اسوۂ حسنہ ہے تو وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ یہ اسوہ ہم تک تین ذرائع سے پہنچا ہے۔ پہلا قرآن مجید، دوسرا حدیث وسنت، تیسرا ماخذ ہے سیرت مبارکہ۔ علامہ ابن قیم نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں جاننا یعنی سیرت کا علم حاصل کرنا ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات ہمارے لیے ہدایات اور رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو اپنے لیے خیر خواہی اور نجات چاہتا ہے، ضروری ہے کہ آپؐ کی سیرت اور آپؐ کے معاملات سے آگاہی حاصل کرنے کا پابند اور مکلّف ہے(زاد المعاد)۔

ہر مسلمان حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو قانون اور شریعت کا ایک ماخذ سمجھتا ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ رسولؐ اللہ کی اطاعت ہی میں نجات ہے۔ ’’اگرتم اطاعت کرو گے توہدایت پاجاؤ گے‘‘ (النور۲۴: ۵۴)۔ اگر کسی مسلمان کے لیے کوئی اسوۂ حسنہ ہے تووہ صرف رسولؐ اللہ کی ذات گرامی میں ہے۔ اللہ کی اطاعت اگر ہوسکتی ہے تو وہ صرف رسولؐ اللہ کی اطاعت کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ اسوۂ حسنہ کا انگریزی ترجمہ Role Model یا بہترین / واحد Role Model ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ایک ایسا جامع رول ماڈل ہے کہ یہ مقام دنیا میں کسی اورشخصیت کو حاصل نہیں ہے۔ انسان کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں انسانوں کے اجتماعی اور قومی مسائل کا حل بھی ملتا ہے۔ مثال کے طور پہ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ دنیا کی تمام اقوام اور ممالک کو جن مشکلات و مصائب سے واسطہ رہا ہے، ان میں سے ایک مشکل قوموں کی باہمی عصبیت اور دوسری چیز دولت مندوں، غریبوں اور بھوکوں کے درمیان کش مکش ہے۔ ماضی میں انسانیت کو جتنی مشکلات پیش آئیں، جتنی جنگیں ہوئیں اور جتنا خون بہا ہے شاید۹۹ فی صد یا اس سے بھی زیادہ تباہی انہی دو مسائل کی وجہ سے پیش آئی ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے کام کا آغاز کیا تو عرب کے معاشرے میں یہ دونوں مشکلات مکمل طور پر موجود تھیں۔ قومی عصبیت تو قومی سطح پر ہوتی ہے جو بہرحال بڑی سطح ہے، عرب میں تو قبائل کی بنیاد پر بھی شدید عصبیتیں موجود تھی۔ قبیلوں میں پھر مزید ذیلی شاخوں اور ان کے درمیان عصبیت پائی جاتی تھی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ صرف ۲۳سال کے مختصر سے عرصے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عصبیتوں کو ختم کردیا۔ سیرتِ مطہرہؐ نے افراد کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور بھی گہرے اثرات چھوڑے۔ ذیل میں مطالعۂ سیرت کی اجتماعی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

  • مطالعہ سیرت کی ’تہذیبی اہمیت‘: دنیا میں موجود اور گذشتہ تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک چیزبہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اسلام کی تہذیب ’جامع الحضارات‘ ہے یعنی اسلامی تہذیب میں تمام تہذیبوں کا خلاصہ آگیا ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بھی اسلامی تہذیب مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام تمام آسمانی مذاہب کا تسلسل ہے اور سب سے اہم یہ کہ اسلام سے پہلے اوربعد میں جوتہذیبیں ہیں ان میں نقطۂ وصل اسلامی تہذیب ہی ہے۔ اگر اسلامی تہذیب نہ ہوتی توماضی کی تہذیبوں کا جدید تہذیبوں سے ربط قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ اسلامی تہذیب کا ایک اور کردار یہ ہے کہ اگراسلامی تہذیب نہ ہوتی تو جدید تہذیبیں وجود میں نہیں آسکتی تھیں۔ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بھی اسلامی تہذیب مرکزی حیثیت رکھتی ہے، اور اسے ’مجمع الحضارات‘ کہہ سکتے ہیں۔ ابن خلدون اپنی کتاب کے مقدمے میں کہتے ہیں کہ اسلام کا مرکز یعنی خانہ کعبہ زمین کا مرکز ہے۔ اسی لیے اسے ’ناف زمین‘ کہا جاتا ہے۔
  • مطالعہ سیرت کی ’علمی اہمیت‘: اسلام ایک نئے دور کا آغاز تھا اور اس نے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ اس تہذیب کی بنیاد عالم گیریت اورمساوات بشر کے ساتھ ساتھ علمی اورفکری تبدیلی پر ہے۔ یہ تبدیلی انسانی سطح پر اسلام کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ یہ تبدیلی اپنے غیرمعمولی نتائج و ثمرات کے اعتبار سے انسان کی علمی اور فکری تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ انسان کی فکری تاریخ میں ایک Turning Point ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خالص بدوی معاشرے کوایک ایسا عاقلانہ، عالمانہ اور مہذب معاشرہ بنادیا کہ جس نے مختصرعرصہ میں نہ صرف اپنے قرب و جوار بلکہ دنیا کے بیشترعلاقوں کو متاثر کیا۔ ہمارے نبیؐ کی سیرت اوراسلام کی تعلیمات نے توحید کا حقیقی مفہوم لوگوں کی رگ و پے میں اس طرح جاگزیں کردیا کہ بڑی سے بڑی گمراہی اورمصیبت بھی اہل ایمان کو متزلزل نہیں کرسکتی۔ یہ نہ اسلام سے پہلے ہوا اور نہ بعد میں ایسی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔

آخر میں عرض یہ ہے کہ تمام اہل اسلام کو سیرت النبیؐ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے اور پیغام سیرت حتی المقدورپھیلانا چاہیے کہ یہی وقت کی آواز بھی ہے اور ضرورت بھی۔(ماخذ:محاضرات سیرت ، از ڈاکٹر محمود احمد غازی، خطبات مدراس از سید سلیمان ندوی،  The Life and Work of The Prophet of Islam   از ڈاکٹر حمید اللہ)