شوکت عبدالقادر


معاشرے کی تعمیروتشکیل میں جہاں اور بہت سی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز ایفائے عہد بھی ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے میں ایک ایسا توازن پیدا ہوتا ہے، جس سے ماحول خوش گوار بن جاتا ہے اور وقتی رنجش ہو یا دائمی، سب کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی بات پر کوئی معاملہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے، لیکن بروقت اس کی تعمیل نہ کرسکے تو ایسی صورت میں ایک قسم کی بدمزگی پیداہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایفائے عہد کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ جو معاملہ کرو یا کسی سے وعدہ کرو اس کو بروقت پورا کرو۔

وعدہ پورا کرنـے کی فضیلت اور تاکید

اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات بابرکات کے حوالے سے متعدد مقامات پر فرمایا ہے:

اِنَّ اللہَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۝۳۱(الرعد ۱۳:۳۱) یقینا اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

وَمَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ (التوبہ ۹:۱۱۱) اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہے؟

وعدے کا پورا کرنا اللہ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں بھی اس صفت کو جلوہ گر دیکھنا چاہتا ہے، اس لیے اس نے عہد کی پابندی کی بار بار تاکید کی ہے:

وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۝۳۶ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۷) اور عہد کو پورا کرو، عہد کے بارے میں (اللہ کے یہاں) ضرور بازپُرس ہوگی۔

اور ایک جگہ ہے:

وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ (النحل ۱۶:۹۱) اللہ کے عہد کو پورا کرو، جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد کیا ہو اور قسموں کو توڑا نہ کرو۔

ایک اور جگہ عہد ِالٰہی کے ایفا کی نصیحت کی گئی ہے، فرمایا:

وَبِعَہْدِ اللہِ اَوْفُوْا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۱۵۲ۙ (انعام۶:۱۵۲) اور اللہ کا قرار پورا کرو۔ یہ اسی نے تم کو نصیحت کردی ہے تاکہ تم دھیان رکھو۔

مومنین کا ایک وصف یہ بھی قرار دیا گیا کہ وہ نہایت درجہ امانت دار اور پابند ِ عہد ہوتے ہیں:

وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۝۸ۙ (المومنون۲۳:۸) اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں۔

دوسری آیت میں ہے:

وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰ۚ(البقرہ۲:۱۷۷) اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے پورا کریں۔

وعدے  کا مفہوم اور وسعت

عہد، ایک تو وہ معاہدہ (Agreement) ہے، جو طرفین کے درمیان کسی معاملے میں انجام پاتا ہے۔ اس کا پورا کرنا فرض ہے اور اس کے خلاف کرنا غدر اور دھوکا ہے، جو کہ حرام ہے۔ دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتےہیں کہ کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے، اس کا پورا کرنا بھی شرعاً لازم و واجب ہے۔ حدیث میں آیا ہے: الْعِدَّۃُ دِین (وعدہ ایک قسم کا قرض ہے)۔ جس طرح قرض کا ادا کرنا واجب ہے، اسی طرح وعدہ کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ عام طور پر لوگ عہد کے معنٰی صرف قول و قرا ر کے سمجھتے ہیں۔ اسلام میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ حقوق اللہ، حقوق العباد، معاشرت، سیاست، تجارت، اخلاق اور معاملات کی ان تمام صورتوں کو محیط ہے، جن کی پابندی انسان پر عقلاً، شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً فرض ہے۔ امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:

اَلْاَمَانَۃُ وَالْعَھْدُ یَجْمَعُ کُلَّ مَا یَحْمِلُہٗ الْاِنْسَانُ  مِنْ أَمْرِ دِیْـنِہٖ  وَدُنْیَاہُ قَوْلًا وَفِعْلًا  (قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، جز۱۲، ص ۱۰۷) امانت اور عہد دینی و دُنیوی معاملے پر حاوی ہے، چاہے وہ قولی ہو یا فعلی اور جس کا انسان پابند اور متحمل ہو۔

علامہ آلوسی فرماتے ہیں:

الآیَۃُ  عِنْدَ أَکْثَرِ الْمُفَسِّرِیْنَ عَامَّۃٌ  فِیْ کُلِّ مَا ائْتُمِنُوْا عَلَیْہِ وَعُوْھِدُوْا  مِنْ جِھَۃِ  اللہِ تَعَالٰی  وَمِنْ جِھَۃِ  النَّاسِ (روح المعانی ، جز۹، ص ۲۱۴) یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک ہر قول و قرار کے لیے عام ہے ، چاہے وہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے مابین ہو یا دو انسانوں کے درمیان۔

عہد اگر خلافِ شرع نہ ہو تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے اور عہد شکنی حرام ہے:

وَاَوْفُوْا بِعَہْدِىْٓ اُوْفِ بِعَہْدِكُمْ۝۰ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ۝۴۰ (البقرہ ۲:۴۰) اور تم پورا کرو میرا قرار تو میں پورا کروں تمھارا قرار اور مجھ ہی سے ڈرو۔

عہد کا ہم معنی لفظ ’عقد‘

قرآن کریم میں عہد کے قریبی معنٰی میں ایک اور لفظ ’عقد‘ استعمال کیا گیا ہے:

 يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۝۰ۥۭ (المائدہ ۵:۱) اے ایمان والو، اپنے وعدوں کو پورا کرو۔

وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ۝۰ۚ (المائدہ ۵:۸۹)مگر جو قسمیں تم کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔

’عقد‘ کےلفظی معنی گرہ کے ہیں۔ اس سے مراد معاملات کی باہمی پابندیوں کی گرہ ہے۔ امام رازیؒ لکھتے ہیں:

 اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ  اللہ تعالیٰ کے قول:  يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ  کے ہم معنٰی ہے۔ اس قول میں تمام عقد و معاملات مثلاً بیع، شرکت، یمین، نذر، صلح اور نکاح وغیرہ داخل ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو انسانوں کے درمیان جو عقد اور جو عہد طے پائے دونوں پر اس کا پورا کرنا واجب ہے۔(التفسیر الکبیر، ج۱۰، ج۲۰، ص ۱۶۸)

حضرت حسن بصریؒ نے اس کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:

اس سے مراد دینی معاملات ہیں جن کو انسان اپنے اُوپر لازم کر دیتا ہے، مثلاً خریدوفروخت،اجارہ، نکاح، طلاق، زراعت، صلح ، تملیک، خیار، آزادی، سیاست و انتظام وغیرہ۔ یہ تمام اُمور شریعت سے خارج نہیں ہیں۔ اسی طرح جو اُمور اطاعت و بندگی سے متعلق ہیں، مثلاً حج، روزہ، اعتکاف، قیامِ لیل، نذر وغیرہ یہ سب اسلامی احکام ہیں۔(قرطبی، الجامع الاحکام القرآن ، ج۵، جز۶، ص ۳۲)

وعدہ  شکنی نفاق کی علامت

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد شکنی کو نفاق کی خصلتوں میں شمار کیا ہے اور وعدہ خلاف شخص کو منافق قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ ، وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ (بخاری، ۳۳) منافق تین باتوں سے پہچانا جاتا ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

اسی مضمون کی ایک حدیث کچھ مختلف الفاظ میں عبداللہ بن عمروؓ سے بھی مروی ہے:

اَرْبَعٌ مِّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ  فِیْہِ  خَصْلَۃٌ مِنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَھَا ، اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ، وَ اِذَا  خَاصَمَ  فَـجَرَ (بخاری، ۳۴، ۲۴۵۹، ۳۱۷۸)چار خصلتیں ہیں کہ جس کے اندر پائی جائیں گی، وہ خالص منافق ہوگا اور جس کے اندر اِن میں سے ایک خصلت پائی گئی اس میں منافقت کی ایک خصلت موجود ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے ترک نہ کردے: ۱-جب بولے تو جھوٹ بولے ۲-جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ۳-جب معاہدہ کرے تو توڑ دے ۴- جب جھگڑے تو گالیاں دے۔

وعدے کی پابندی نہ کرنے والے پر وعید

اسلام نے محض ایفائے عہد کی تعلیم و تلقین ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ اس کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے عذاب کی وعیدیں بھی آئی ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَاَيْـمَانِہِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللہُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَلَا يُزَكِّـيْہِمْ ۝۰۠ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۷۷(اٰل عمرٰن ۳:۷۷) وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کر ے گا، بلکہ ان کے لیے تو سخت دردناک سزا ہے۔

مذکورہ بالا آیت میں عہد کی خلاف ورزی کرنے والے پر پانچ وعیدیں مذکور ہیں:

۱- ان کو جنت کی نعمتوں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ ایک حدیث میں رسولِ کریمؐ نے فرمایا:

مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، فَقَدْ أَوْجَبَ الله لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ  وَاِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيْرًا، يَا رَسُولَ اللّهِ؟ قَالَ: وَ اِنْ قَضِيْبًا  مِنْ أَرَاكٍ (مسلم، کتاب الایمان، باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار، ۲۲۱) جس آدمی نے جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق دبا دیا تو اس نے اپنے لیے آگ کو واجب کرلیا۔ راوی نے عرض کیا کہ خواہ وہ چیز معمولی ہو تب بھی اس کے لیے آگ واجب ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں خواہ وہ درخت کی سبز ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔

۲- اللہ تعالیٰ ان سے بات نہیں کرے گا۔

۳- اللہ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے دن رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔

۴- اللہ تعالیٰ ان کے گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ کیوں کہ عہد کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے بندے کا حق تلف ہوا ہے، جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔

۵- اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اِذَا جَمَعَ اللّٰہُ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃُ  یُرْفَعَ  لِکُلِّ غَادِرٍ  لِـوَاءٌ  فَقِیْلَ: ہٰذِہٖ غَدْرَۃُ  فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ (مسلم، باب تحریم الغدر: ۳۳۵۲) اللہ تعالیٰ حشر کے میدان میں جہاں تمام اوّلین و آخرین جمع ہوں گے، عہدشکنی کرنے والے کے پاس ایک جھنڈا بطورِ علامت لگا دے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں ابن فلاں کی غداری کا نشان ہے۔

لِکُلِّ غَادِرٍ  لِـوَاءٌ  یَوْمَ الْقِیَامَۃِ  یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدْرِ غَدْرِہٖ  اَلَا  وَلَا غَادِرَ  أَعْظَمُ  غَدْرًا  مِنْ أَمِیْرِ عَامَّۃٍ (مسلم ،باب تحریم العذر، ۴۵۳۸) ہر غدار و عہد شکن کی بے ایمانی کا اعلان کرنے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جو اس کے غدرکے مطابق ہوگا اور یاد رکھو کہ جو سردارِ قوم غدر کرے اس سے بڑا کوئی غدار نہیں ہے۔

اس سے یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آگئی کہ قیامت کے روز وعدہ ایفا نہ کرنے والے شخص کی ذلت و رُسوائی میں کوئی کسر باقی نہ رہے گی۔ ناکامی، ذلت اور نکبت کا ساراسامان بہم ہوگا۔

وعدے کا پابند خدا کا محبوب

جس شخص سے معاہدہ ہے چاہے وہ کافر و مشرک ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ عہدشکنی نہ کرے تو اس کے لیے عہد کی پابندی و استواری اور اس کا پاس و لحاظ رکھنا ناگزیر ہے اور یہی تقویٰ کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۷ (التوبہ ۹:۷) ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے؟ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا، تو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیوں کہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔

بَلٰي مَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۷۶  (اٰل عمرٰن ۳:۷۶) جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور بُرائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا ، کیوں کہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔

متذکرہ بالا دونوں آیتوں سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ عہد کا ایفا اللہ کی خوشی و مسرت اور محبت و رضامندی کا موجب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندے کے لیے عظیم انعام و اعزاز ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی اِکرام نہیں۔