پاکستان کے وسیع و عریض رقبے پر کھڑا سیلابی پانی اترنا شروع ہوچکا ہے۔ ہر طرف تباہی و بربادی کے افسانے بکھرے ہوئے ہیں۔ ڈیڑھ ہزار لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں،جب کہ ۳ء۳ کروڑ لوگ متاثر ہیں جن کے گھر، کھیت، کاروبار اور مال مویشی تباہ ہو چکے ہیں۔ اس سانحے نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان بلکہ پوری دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ امسال سیلابوںنے جو تباہی مچائی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے لیکن یہ یاد رہنا چاہیے کہ پچھلے دو عشروں میں بڑے پیمانے کے سیلابوں کی تعداد دگنا ہو چکی ہے۔ علاوہ بریں ماحولیاتی تبدیلی سے شدید تر متاثر ہونے والے ۱۰ میں سے ۸ ممالک ایشیا میں واقع ہیں۔ اگر اقوام عالم نے اس مسئلے کو سائنسی بنیادوں پر حل کرنے، محفوظ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور قومی استعداد کو بڑھانے کے لیے طویل المدت سرمایہ کاری نہ کی، تو موسمی شدت سے رُونما ہونے والے یہ واقعات بڑھتے ہی جائیں گے۔
ماحولیات کے شعبے میں ہونے والی تمام تر تحقیق اسی بات پر منتج ہوتی ہے کہ اگر انسانیت مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنا چاہتی ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے: ’’عالمی سطح پر خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں کاربن کے اخراج کو کم سے کم کیا جائے‘‘۔
تاہم، سائنس دان ایسے کامیاب طریقے بھی وضع کر چکے ہیں، جنھیں بروئے کار لا کر پاکستان اور دوسرے معاشی پس ماندہ ممالک، ماحولیاتی آفات جیسے سیلاب،شدید گرمی اور خشک سالی کے اثرات سے کسی حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یہ حادثات ترقی پذیر ممالک کے نظامِ خوراک، دیہی آبادی اور ماحول پر اثر انداز ہوتے ہوئے انھیں کئی دہائیاں مزید پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر اب ایسے خودکار نظام موجود ہیں جو موسمی حالات کا تجزیہ کرکے حکام کو بہت پہلے ہی کسی متوقع سیلاب سے خبردار کر سکتے ہیں۔یوں حکومت کے پاس لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے اور اہم شعبوں مثلاً زراعت میں ہنگامی اقدامات کرنے کے لیے زیادہ وقت ہو گا۔
عالمی ادارہ برائے انتظام آب (International Water Management Institute) اور اس کے اشتراک کاروں نے مل کر سیلاب سے متعلق ایسے ماڈل تشکیل دیے ہیں، جن سے سیلاب کی شدت اور پھیلاؤ کو سمجھنے میں پیشگی مدد ملتی ہے۔
مزید برآں حکومتی مدد سے چلنے والی بیمہ سکیمیں بھی کسی حادثے کے بعد چھوٹے دکان داروں، کسانوں اور کم آمدنی والے گھرانوں کو نقصان سے نپٹنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ بین الاقوامی ادارہ برائے انتظام آب اور اس کے مددگار اداروں نے مل کر بنگلہ دیش میں ایسی اسکیمیں متعارف کروائی ہیں، جن کے تحت سیلاب یا مخصوص مقدار میں بارش کی صورت میں کسانوں کو رقم ادا کر دی جاتی ہے، جس سے دیہات میں بسنے والے افراد کی زندگیاں اور کاروبار بچانے میں مدد ملتی ہے اور نتیجتاً نظامِ خوراک اور دستیابی ٔ خوراک پر ان حادثات کا اثر کم ہو جاتا ہے۔۲۰۱۷ء سے ۲۰۲۰ءتک اس سکیم کے ذریعے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے ایک لاکھ ۵۰ ہزار ڈالر ادا کیے گئے اور اس رقم سے ۷ہزار خاندانوں نے فائدہ اُٹھایا۔
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ سیلابوں سے نپٹنے کے لیے قدرت کے وضع کردہ نظام یا ماحول دوست انفراسٹرکچر کو استعمال کیا جائے۔ مثلاً مرطوب زمینی خطوں (Wetlands) میں پانی کو روکنے اورسیلابی پانی کو جذب کرنے کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے، جسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ۱۹۹۱ء کے معاہدۂ تقسیم آب کی رو سے دریائے سندھ کے پانی پر تمام صوبائی حکومتوں کو مختلف شرح سے حق دیا گیا ہے۔ اسی معاہدے کے مطابق زائد سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کا اختیار بھی صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔تاہم، آج تک قدرتی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے کسی حکومت کی جانب سے پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
تاہم، حالیہ برسوں میں ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی سرگرمیوں کے باعث ایسے بہت سے خطے تباہ ہو چکے ہیں۔ انھیں بحال کر کے آیندہ سیلابوں سے بچا جا سکتا ہے۔ جنگلات کی بحالی بھی ماحول کی پائیداری کو بڑھانے، زمینی کٹاؤ کو روکنے اور سیلاب کے خطرے کو کم کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ حکومت پاکستان کو واقعی ’بلین ٹری‘ کے نام سے جنگلات کی بحالی اور نئے جنگلات کی کاشت اور جنگلی حیات کی واپسی کا قابلِ عمل منصوبہ شروع کرنا چاہیے۔ساحلی علاقوں میں مینگروف (Mangrove) جنگلات کی کاشت سے ساحلی کٹاؤ سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
پانی سے متعلقہ منصوبوں کی ساخت اور تعمیر میں بھی سائنسی طور پر مصدقہ طریق کار کو استعمال کر کے ماحولیاتی حادثات کے خلاف تحفظ حاصل کیا جا سکتا ہے، مثلاً ڈیموں کا جدید خطوط پر انتظام۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع گومل زم ڈیم کو دیکھ لیجیے۔ انتظامِ آب میں پیش آنے والے مختلف مسائل اس منصوبے کو اپنی پوری استعدادتک پہنچنے سے روک سکتے ہیں۔ بین الاقوامی ادارہ برائے انتظامِ آب حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر پانی سے متعلقہ منصوبوں کے انتظام کو بہتر بنانے اور ان منصوبوں میں سائنسی معلومات کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح ذخیرۂ آب کے دیگر منصوبوں کا انتظام بہتر بنا کر ہم مقامی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف بہتر تحفظ حاصل کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف زرعی شعبے کو بھی ماحول دوست اقدامات کی تشکیل اور نفاذ کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، تا کہ یہ شعبہ خشک سالی اور سیلاب کے نقصانات سے بہتر طور پر عہدہ برآ ہو سکے۔ مثلاً فصلوں کی ایسی اقسام تیار کی جا سکتی ہیں جو شدید قسم کے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں تا کہ لوگوں کا روزگار اور خوراک کی دستیابی متاثرنہ ہو۔ اسی طرح زرعی پانی کے انتظام میں بھی جدت لائی جا سکتی ہے، یعنی بارش کے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے اور مصنوعی طور پر زیر زمین پانی کی سطح بحال کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں یہ سیلاب یقیناً آخری سیلاب نہیں تھا۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ سائنسی بنیادوں پر حفاظتی اقدامات کا بندوبست کیا جائے تا کہ آیندہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔