ابو سعد


اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت، گھریلو ملازمین اور خدمت گاروں کا وجود ہے۔ صاحب ِ ثروت اور خوش حال گھرانوں میں یہ ملازمین روزمرہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں، قلیل معاوضے پر بڑی راحت پہنچاتے ہیں۔ دن رات کام کے لیے حاضر ہوتے ہیں جس کے عوض مالک کی کوٹھی کے ایک گوشے میں انھیں سرچھپانے کو جگہ مل جاتی ہے۔ معاشرے میں ایک دوسرے پر فوقیت قدرت کے نظام کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت، بعض لوگوں کو بعض پر فوقیت مل جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ط نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ط وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ o (الزخرف ۴۳:۳۲) کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی گزربسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔ اور تیرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (ان کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں۔

عام طور پر لوگ خادم کو مالک یا مخدوم کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ خود خادم کے کیا حقوق ہیں جو مخدوم پر عائد ہوتے ہیں    ؎

تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے

حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

اس پہلو سے بھی ہمارے لیے بہترین اسوہ اور مثالی نمونہ حضوؐر کی ذاتِ مبارک ہے، جو صاحب ِ خلق عظیم بھی ہیں اور اللہ کے آخری رسولؐ بھی۔ قرآنِ مجید میں ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے گھر انے بھی ہیں جہاں خادموں کے ساتھ اچھا معاملہ کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں ایسے گھر بھی بہت ہیں جہاں خادموں پر ظلم ہوتا ہے۔ ان کے حقوق پوری طرح ادا نہیں کیے جاتے۔ اس لیے یہ امر ضروری معلوم ہوا کہ خادموں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بُرے انجام اور حقوق کی پامالی سے جڑی  عبرت ناک سزا سے لوگوں کو خبردار کیا جائے۔ اس مضمون میں خادم سے مراد گھریلو ملازمین ہیں جن سے روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ حضوؐر کے معاملات خادموں کے ساتھ کیسے تھے؟ کتاب و سنت اور سیرت سلف صالحین سے اس باب میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟ اختصار کے ساتھ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

حُسنِ سلوک

نیکی اور خیر کے کاموں میں حُسنِ معاملہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے انسان کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے۔ سیّدالبشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدام کے ساتھ اچھا برتائو کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں۔ حضوؐر کے خادمِ خاص حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں آنحضرتؐ کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا لیکن حضوؐر نے مجھ سے کبھی یہ نہ کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا؟(بخاری)

دینی تعلیم کا اھتمام

مسلمان خادم سے حُسنِ سلوک کا یہ اوّلین تقاضا ہے کہ اُسے دین کی ضروری تعلیم دی جائے۔ توحید باری تعالیٰ سے آغاز کرتے ہوئے دین کے بنیادی عقائد ان پر واضح کیے جائیں اور نماز و روزہ سے متعلق احکام بتائے جائیں۔ اکثر ملازمین ایسے ماحول سے آتے ہیں جہاں جہالت اور بدعت کا رواج ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ رئیس خانہ گھر کا ذمہ دار ہوتا ہے اور گھر والے اس کے ماتحت ہوتے ہیں جن میں گھریلو ملازمین بھی شامل ہوتے ہیں۔ گھر کے ذمہ دار سے آخرت میں بازپُرس ہوگی کہ اس نے اپنے ماتحتوں میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ کہاں تک ادا کیا ۔

نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’آگاہ رہو کہ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اُس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘(متفق علیہ)۔ اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ خادموں سے ذکر  کیا جائے کہ وہ اپنا فطرہ ادا کریں یا پھر اس سے اجازت لے کر مخدوم/مالک اس کا فطرہ خود اداکرے۔ اگر خادم غیرمسلم ہو تو اسے حکمت و محبت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے جو بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’خدا کی قسم تمھاری وساطت سے اللہ تعالیٰ کا کسی ایک شخص کو ہدایت دینا تمھارے حق میں دنیا ومافیہا کی ہرنعمت سے بڑھ کر ہے‘‘۔(متفق علیہ)

خادم پر مال خرچ کرنا

خادم یا خادمہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال خرچ کرنا صدقہ ہے جس کا اجراللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ حضوؐر نے خدام پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے، کیوں کہ وہ روزانہ ساتھ رہتے ہیں اور نفل صدقات سے اس کے اندر مخدوم کے ساتھ خیرخواہی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خادم     رزقِ حلال کمانے کے لیے اپنے گھر اور آرام کو تج کرآپ کو راحت پہنچاتا ہے اور مروت کا تقاضا ہے کہ صدقہ دے کر اس کو بھی مالی راحت پہنچائی جائے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں اِنفاق کرو۔  اس پر ایک شخص نے حضوؐر سے کہا: میرے پاس ایک دینار ہے، میں اس کو کیسے خرچ کروں؟ حضوؐر نے فرمایا: اپنی ذات پر خرچ کرو۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ حضوؐر نے فرمایا: اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ اس شخص نے کہا: میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ حضوؐر نے فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کرو۔ اس کے بعداپنی بصیرت سے اِنفاق کی ترتیب و ترجیح بنالو۔ (بخاری)

خادم کی اُجرت

یہ جائز نہیں کہ خادم کی طے شدہ تنخواہ میں کمی کی جائے یا تاخیر سے دی جائے۔ یہ ملازم کا حق ہے کہ اس کی تنخواہ پوری اور وقت پر ملے ۔ دراصل یہ ایک امانت ہے جو خادم اپنے آقا کے ہاں رکھتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے: ’’مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کردو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے‘‘(النساء۴:۵۸)۔ لہٰذا ملازم کا حق سلب کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ ہے۔ انسان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ روزِقیامت اللہ تعالیٰ اس کے خلاف مقدمہ قائم کریں گے اگر اس نے مزدور و خادم کی اُجرت ادا نہ کی۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں خود تین لوگوں کے خلاف دعویٰ دائر کروں گا۔ ایک وہ جس نے میرا نام لے کر عہد کیا اور پھر اس سے مُکر گیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے ایک آزاد مسلمان کو غلام کی حیثیت سے بیچ کر اس کا مال کھالیا۔ تیسرے وہ شخص جس نے کسی مزدور یا ملازم سے اُجرت پر رکھا اور پورا کام لینے کے بعد اس کی اُجرت عطا نہ کی‘‘۔(بخاری)

عفو و درگزر

ہم میں کون ہے جو خطاکار نہیں اور خطا کی معانی کا طالب نہیں؟ یہی احساسات ایک خادم کے بھی ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمؐ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمیں خادم کو کتنی بار معاف کرنا چاہیے؟ آپؐ نے سکوت فرمایا۔ اس شخص نے پھر اپنی بات عرض کی۔ آپؐ نے پھر سکوت فرمایا۔ جب تیسری دفعہ اس نے عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا: ہر روز ستر بار۔ (ابوداؤد، ح: ۴۵۱۷)

طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا

خادم کے حقوق میں یہ ہے کہ اس پر طاقت سے زیادہ کام کا بوجھ نہ ڈالا جائے، نہ کام کے دائرے ہی کو غیرمعروف طریقے سے بڑھایا جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِؐ خدا نے فرمایا: ’’کھانا اور کپڑا غلام کا حق ہے اور اس سے بس وہی کام لیا جائے جس کے کرنے کی وہ طاقت رکھتا ہو‘‘(مسلم)۔جب غلام کے لیے اتنے حقوق اسلام دیتا ہے تو پھر آزاد ملازم تو اور زیادہ عنایت کا حق دار ہے۔ اگر ملازم کی مقدرت سے بڑھ کر کوئی کام لینا پڑے تو مالک و مخدوم کو چاہیے کہ وہ خادم کی مدد کریں۔

عدم توھین

خادم سے حُسنِ سلوک میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی توہین نہ کی جائے اور نہ اس کو ماراپیٹا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعوت قبول کرو، ہدیے کوواپس نہ لوٹائو اور مسلمانوں پر ہاتھ نہ اُٹھائو‘‘(احمد)۔   نبی کریمؐ نے اپنی پوری زندگی میں جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ اور کہیں کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا۔اسی طرح اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے بھی فرمایا کہ نبی کریمؐ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، نہ کسی جانور کو، نہ اپنی بیویوں کو اور نہ خادم کو، اِلا یہ کہ آپؐ جہاد فی سبیل اللہ میں ہوں(مسلم)۔ نبی اکرمؐ نے اس چیز کی باربار وصیت کی ہے۔ حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ مَیں نے نبی کریمؐ کو دیکھا کہ ان کے پاس دو غلام تھے۔ اس میں سے ایک غلام آپؐ نے حضرت علیؓ کو ہدیہ کیا اور ارشاد فرمایا: ’’اسے مت مارو، میں نے نماز پڑھنے والوں کو مارنے سے منع کیا ہے، اور میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے ‘‘۔(بخاری)

حضور اکرمؐ اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے تھے کہ خادموں کے ساتھ شفقت کا برتائو کریں۔ حضرت ابومسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ: ’’میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا۔ میں نے اپنے پیچھے سے  یہ آواز سنی کہ اے ابومسعود! جان لو کہ اللہ کو تم پر اس سے کہیں زیادہ قدرت حاصل ہے جتنی تمھیں اس غلام پر حاصل ہے۔ مَیں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسولؐ اللہ تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اب یہ خدا کے لیے آزاد ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تمھیں جان لینا چاہیے کہ اگر تم یہ نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں جلا ڈالتی، یا یہ فرمایا: ’’جہنم کی آگ تمھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی‘‘۔(مسلم)

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نرمی اور شفقت کو پسند فرماتا ہے، اور نرم رویہ اختیار کرنے پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی اختیار کرنے پر نہیں دیتا۔ بڑی برائی یہ ہے کہ عمداً خادم کو ماراپیٹا جائے اور خاص طور پر اس کے چہرے پر مارا جائے اور یہ حضوؐر کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے: ’’کوئی کسی کے چہرے پر نہ داغے اور نہ مارے‘‘۔(بخاری) 

طعام خادم (میں نے ہر طریقے سے اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی، لیکں یہ ط کی جگہ ب ہی آ رہا ہے )

اگر خادم کی معاشی حالت مخدوم سے کم تر ہوتو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خادم کو طعام اس کی معاشی سطح سے کم ترنہ دیا جائے۔ معاشی تفریق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے اس دنیا میں رائج ہے۔ اسی لیے نبی اکرمؐ نے حاجت روائی کرنے کی ترغیب دی ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ (غلام) تمھارے بھائی ہیں۔ اللہ نے ان کو تمھارا دست نگر بنایا ہے۔ ان کو وہی کھلائو جو تم خود کھاتے ہو، اور وہی پہنائو جو تم خود پہنتے ہو۔ اور اس کو ایسے کام پر مجبور نہ کروجو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور    اس کے لیے بوجھ ہو۔ اور اگر ایسا کام اس سے لو جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو پھر اس کام میں خود بھی اس کی اعانت اور مدد کرو۔(متفق علیہ)

حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اگر غلام یا خادم، خانساماں (باورچی) ہو تو اس کو اس پکوان میں سے کھانا دیا جائے جو اس نے بنایا ہو کیوں کہ اس نے کھانے کی خوشبو سونگھی اور اس کو دیکھ لیا ہے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں نبی اکرمؐ نے حکم دیا کہ خادم کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا جائے اور اگر کسی کو ساتھ کھانا ناگوار گزرتا ہے تو خادم کے لیے کھانا دے دے(احمد)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اگر تمھارے پاس کھانے کے وقت خادم آئے اور ساتھ شریک نہ ہوسکے، تو چاہیے کہ اسے کھانے میں سے کچھ حصہ دے دے۔(متفق علیہ)

خادم کو کھانا کھلانا صدقہ ہے، اسی طرح جیسے اپنے آپ پر، اپنی بیوی اور بچوں پر کھانے کے لیے خرچ کرنا صدقہ ہے۔ صحابی رسولؐ حضرت المقدام بن معدیکربؓ سے روایت ہے کہ  انھوں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:’’جو کچھ تم نے [رزقِ حلال میں سے] خود کھایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، جو اولاد کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، جو بیوی کو کھلایا وہ تمھارے لیے صدقہ ہے اور جو کچھ اپنے خادم کو کھلایا ہے وہ تمھارے لیے صدقہ ہے‘‘۔(احمد)

خادموں سے پردہ

خادمہ سے حُسنِ سلوک یہ ہے کہ گھر کے مرد غضِ بصر سے کام لیں اور اس سے گھر کے دیگر افراد کی عدم موجودگی میں کام لینے سے احتراز کریں۔ یہ ایک مسلمان کی گردن پر امانت ہے۔ اجنبی عورت سے خلوت کی جو عمومی ممانعت ہے اس کا اطلاق خادمہ پر بھی ہوتا ہے۔ حضوؐرِ اقدس نے ارشاد فرمایا: ’’مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ اختیار کرے اِلا یہ کہ وہ محرم ہو‘‘ (بخاری)۔ صاحب ِ خانہ کو چاہیے کہ ان اخلاقی حدود کی تعلیم اپنے لڑکوں کو بھی دے جو سنِ بلوغ کو پہنچ چکے ہوں۔ عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے خادم سے خلوت میں کام لے، اور نہ اس کی طرف نظریں اُٹھائے۔ وہ اس کے لیے اجنبی مرد ہے جو اُجرت پر کام کے لیے آیا ہوا ہے، اور درج بالا حدیث میں اجنبی مرد کے لیے غضِ بصر اور خلوت کی جو ممانعت ہے وہ      مخدوم عورت اور خادم مرد کے لیے بھی ہے۔ اگر گھریلو ملازم عورت/خادمہ مل جائے تو یہ بہتر ہے، کیونکہ اکثر گھریلو کام کے لیے ملازم گھر کی خواتین سے زیادہ سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک بڑا منکر    یہ بھی ہے کہ عورت تنہا، ملازم ڈرائیور کے ساتھ کار میں گھومتی پھرتی رہے۔

خادم کی نگرانی

سلف صالحین کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ خادموں کی نگرانی کرتے تھے اور اپنے مال و اسباب کو بلاحفاظت نہیں چھوڑتے تھے۔ خادموں کو چوری کرنے اور امانت میں خیانت کے مواقع نہ دیے جائیں۔ صاحب ِ خانہ اپنے روپے اور جواہرات اور دیگر قیمتی اشیا حفاظت سے رکھتے ہیں تو اس سے انھیں دو فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ چوری کو روک سکیں گے۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی چیز کھو جاتی ہے تو وہ خادم کے تعلق سے سوے ظن سے بچ جائیں گے۔ تابعی ابی العالیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم خادم پر نگرانی کریں۔ سامان کو ناپ تول کر اور گن کر رکھیں تاکہ وہ محفوظ رہے۔ غلاموں اور خادموں کے اندر لالچ نہ پروان چڑھے اور وہ چوری اور خیانت میں مبتلا ہوجائیں۔ انھیں گناہوں سے بچانے کی یہ ترکیب ہے اور اپنے آپ کو سوے ظن سے۔

حضرت ابوہریرہؓ جب خادم سے بازار سے گوشت منگواتے تھے تو گوشت کے ٹکڑوں کو گن لیا کرتے تھے اور جب کھانے کے لیے تشریف رکھتے تو خادم کو حکم دیتے کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالے۔ ان سے جب اس معاملے کی علّت پوچھی گئی تو فرمایا: اس طریقے سے دل کی تسلی بھی ہوتی ہے اور وہم و وسوسہ دُور ہوجاتا ہے کہ شاید خادم نے کچھ گوشت چُرا لیا ہوگا(بخاری)۔ اسی طرح حضرت سلمانؓ کا بھی طریقہ تھا کہ وہ گوشت کی ہڈیاں گن لیتے تھے تاکہ سوے ظن سے بچا جائے۔

خادم کے لیے دعا

حضو رسرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع کیا ہے کہ اپنے آپ کے لیے اپنی اولاد اور خادموں اور اپنے مال کے حق میں بددُعا کریں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اپنے لیے بددعا نہ کرو،نہ اپنی اولاد کو بددعا دو، نہ اپنے خادموں کو بددعا دو اور نہ اپنے مال پر بددُعا دو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبولیت دعا کی کوئی گھڑی لکھ دی ہو اور یوں تمھاری بددعا قبول ہوجائے۔(ابوداؤد)

 حضور اکرمؐ اپنے خادم کے حق میں دعا کرتے تھے۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں: دنیا و آخرت کی کوئی بھلائی نہ رہی جس کی حضوؐر نے میرے حق میں دعا نہ کی ہو۔ حضوؐر نے کبھی یوں دعا دی: ’’اے ہمارے رب! انس کو مال و اولاد سے نواز دے اور اس میں برکت عطا فرما‘‘۔ جب آپؐ کو پانی پلایا گیا تو آپؐ نے پانی پلانے والے خادم کے حق میں دعا کی: ’’اے ہمارے رب! تو اپنی طرف سے اس شخص کو کھانا کھلا جس نے مجھے کھلایا، اور اس شخص کو پانی پلا جس نے مجھے پانی پلایا‘‘ (مسلم)۔ امام نوویؒ کہتے ہیں کہ یہ مسنون دعائیں محسن اور خادم کے لیے ہیں۔ ہم میں کتنے لوگ ہیں جو اپنے ملازم کے حق میں دعا دیتے ہیں جب بھی وہ کھانا یا پانی ہماری خدمت میں پیش کرتا ہے۔

اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ آخرت کی جزا عمل سے مربوط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تبارک و تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا‘‘ (متفق علیہ)۔ اگر آپ نے عدل و انصاف سے کام لیا تو آ پ کے لیے اجرعظیم اللہ تعالیٰ کے ہاں منتظر ہے۔ یہ بشارت ہے نبی صادق و مصدوقؐ کی: ’’عدل کرنے والے اللہ تعالیٰ کی جناب میں نور کے منبروں پر تشریف فرما ہوں گے۔ خداے رحمن کے داہنی جانب اور اللہ جل شانہٗ کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اُمور میں، اپنے اہل و عیال اور ماتحتوں کے مابین انصاف کرتے رہے‘‘(مسلم)۔ نبی کریمؐ کی یہ دعا بھی پیش نظر رکھیے: ’’اے ہمارے رب! جو کوئی میری اُمت کے معاملات پر والی مقرر ہو ا اور اس نے میری اُمت پر سختی کی تو اے اللہ! تو بھی اس کے ساتھ سختی کا معاملہ فرما، اور جس کسی نے میری اُمت کے معاملات شفقت و محبت کے ساتھ انجام دیے، اے اللہ! تو بھی اس کے ساتھ شفقت اور محبت بھرا برتائو اختیار فرما‘‘ (مسلم)۔

(اخوانکم خولکم، عربی کتابچے سے اخذ و ترجمہ)