سال ۲۰۱۳ء کا ’رائل سویڈیش اکیڈمی آف سائنس‘ کا نوبل انعام برطانیہ کی ایڈنبرا یونی ورسٹی کے طبیعیات کے ۸۴سالہ اعزازی پروفیسر پیٹر ہِگز (Peter Higgs) اور بلجیم کے ۸۰سالہ پروفیسر فرانکوئس اینگلرٹ (Francois Englert) نے مشترکہ طور پر حاصل کیا ہے۔ یہ نوبل انعام ۲ء۱ ملین ڈالر کا ہے جو انھیں ’ہِگزبوسَن‘ یا ’خدائی ذرّہ‘ کی صبرآزما ۵۰سالہ تحقیقات پر دیا گیا ہے۔ اس انعام کے ہمراہ تعریفی بیان میں کہا گیا ہے: یہ اس طریقۂ عمل کے نظری اکتشاف پر دیا گیا ہے جس سے ادنیٰ ایٹمی ذرّوں میں وزن کے ظہور یا پیدایش کی تشریح ہوتی ہے۔ اُس تجربے سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ اس میںایک بنیادی ذرّے کی پیدایش کی نشان دہی ہوئی جو اٹلاس اور سی ایم ایس تجربات کے ذریعے سرن (سوئٹزرلینڈ) کی تجربہ گاہ میں ایک بڑے ہڈرون تصادمی آلے میں وقوع پذیر ہوا۔
۱۹۶۰ء میں ایک برطانوی سائنس دان پیٹرہِگز اور بلجیم کے ماہرطبیعات فرانکوئس اینگلرٹ اور علم طبیعیات کے بعض دوسرے محققین کائنات اور اس کی ابتدا پر تحقیقات میں مصروف تھے اور یہ جاننا چاہتے تھے کہ جب کائنات کا وجود نہیں تھا اور فضا میں صرف مختلف قسم کی توانائی کی لہریں تھیں، تو کس طرح اس توانائی سے ایٹمی ذرّات، یعنی پروٹون اور دوسرے ذرّات نہ صرف پیدا ہوئے بلکہ مستحکم ہوئے۔ ان میں کمیت (mass) پیدا ہوئی، یہ آپس میں جڑے، جس کے نتیجے میں ایٹم تشکیل ہوا اور اس طرح مادہ پیدا ہوا جس سے کائنات وجود میں آئی۔ عموماً ہوتا یوں ہے کہ برقی قوت کے زیراثر پروٹون تو پیدا ہوجاتے ہیں، لیکن اگر ان میں کمیت پیدا نہ ہو تو چندلمحات میں معدوم ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ بالکل غیرمستحکم ہوتے ہیں لیکن اگر ان میں کمیت پیدا ہوجائے تو یہ بڑے طویل عرصے تک قائم رہتے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر محققین نے یہ نظریہ قائم کیا کہ ایٹمی ذرّات، یعنی پروٹون اور دوسرے ذرّات میں کمیت پیدا ہونے کی وجہ ایک اور ذرّہ ہے۔ یہ ابتداے کائنات میں ایک پل کے لیے پیدا ہوا اور ایٹمی ذرّات کو کمیت دے کر خود معدوم ہوگیا اور ایٹمی ذرّات مستحکم ذرّات بن گئے۔
پروفیسر ہِگز اور ان کے ساتھی محققین نے اس ذرّے کو ’ہِگز بوسَن‘ کے نام سے موسوم کیا اور عام اصطلاح میں اسے ’خدائی ذرّہ‘ کا نام دیا گیا اور یہی ذرّہ سائنس دانوں کی نگاہ میں کائنات کی وجۂ تخلیق قرار پایا۔ یہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ادنیٰ ایٹمی ذرّہ ۱۹۶۰ء سے سائنس دانوں کی تحقیق کی آماج گاہ رہا ہے۔اس ذرّے کی تلاش کے لیے ہِگز اور الگرٹ نے ایک تجرباتی منصوبہ اور طریقۂ عمل تشکیل دیا۔ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر سرن (Cern) کے علاقے میں کثیراخراجات کرکے (۲۷کلومیٹر طویل ) ایک سرنگ نُما تجربہ گاہ بنائی گئی جس میں توانائی کو مادے میں تبدیل کرنے اور اس مقصد کے لیے ’ہِگز بوسَن‘ ذرّے یا تخیلاتی عنصر کو حاصل کرنے اور اس کے ذریعے پروٹونز میں کمیت پیدا کرکے ان میں استحکام پیدا کرنے اور مادہ حاصل کرنے کے لیے مختلف آلات نصب کیے گئے۔ اس سرنگ کو لارج ہڈرون کولائڈر (Large Hadron Collider) کا نام دیا گیا۔ گذشتہ چندبرسوں سے اپنے پروگرام کے مطابق مختلف تجربات کیے گئے اور ۲۰۱۲ء میں وہ ہِگزبوسَن نامی تخیلاتی لطیف عنصر یا ادنیٰ ایٹمی (sub-atomic) ذرّہ، جسے کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے اور کائنات کا بنیادی جز سمجھا جاتا ہے، کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کامیابی کا اعلان سوئٹزرلینڈ کے سرِن ہال میں ایک پُرہجوم کانفرنس میں کیا گیا۔
اس ذرّے کے بارے میں تحقیقات کرنے والے سائنس دانوں کے مختلف مشاہدات اور تاثرات میں ایک مشاہدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ہِگز بوسَن بھاری توانائی لے کر آیا تو تمام عناصر اس کی وجہ سے آپس میں جڑنے لگے تو اس سے ماس یا کمیت پیدا ہوگئی۔ تجربے کے دوران میں پروٹونز نے ۲۷میٹر لمبی سرنگ کے ایک سیکنڈ میں ۱۱ہزار سے زیادہ چکر لگائے۔
دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایسا ذرّہ ہے جس کا وزن ۳ء۱۲۵ گیگاالیکٹرون ولٹس (volts) تھا۔ یہ ذرّہ ہرایٹم کے مرکزے میں موجود پروٹونز سے ۱۳۳گنا بھاری تھا۔ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ نیا دریافت شدہ ہِگزبوسَن ہی ہے۔ یہ اس صدی کی سب سے بڑی دریافتوں میں سے ایک اہم دریافت ہوگی۔ بعض ماہر طبیعیات اس ذرّے کو ۱۹۶۰ء کی دہائی میں پہلی مرتبہ انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے واقعے کے برابر قرار دیتے ہیں۔
بعض اور صاحبانِ سائنس کا خیال ہے کہ ان تجربات سے ایسی یقینی صورت حال واضح ہوئی ہے کہ اسے ’دریافت‘ کا درجہ دیا جاسکے۔ تاہم ابھی اس سلسلے میں بہت کام باقی ہے کہ آیا سائنس دانوں نے جس کا مشاہدہ کیا ہے وہ وہی ہِگزبوسَن ہے یا نہیں۔
سرن کے ڈائرکٹر جنرل پروفیسر رالف دانتر ہیونز کا کہنا ہے کہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے ہم کامیاب ہوگئے ہیں لیکن سائنس دان کی حیثیت سے میں کہوں گا کہ ہم نے کیا تلاش کیا ہے؟ ہمیں ایک ذرّہ ملا ہے جسے ہم ’بوسَن‘ کہتے ہیں لیکن ابھی پتا چلانا ہے کہ یہ کس قسم کا بوسَن ہے؟ بہرحال یہ ایک تاریخی سنگِ میل ہے مگر ابھی تو کام کا آغاز ہے!کچھ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کسی فیصلہ کن ثبوت اور اسے ایک دریافت قرار دینے کے لیے انھیں ابھی مزید تجربات کرنا ہوںگے۔
گذشتہ ۵۳برسوں کی طویل اور صبرآزما تحقیق اور زرِکثیر صرف کرنے کے بعد سائنس دانوں کی ایک ٹیم اس قابل ہوئی کہ ان کے بقول انھوں نے ’بوسن‘ یعنی خدائی ذرّہ نامی کسی ذرّے کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق یہ خلا میں موجود توانائی کو مادی ایٹمی مواد میں تبدیل کرنے اور اس کمیت کو پیدا کرکے مادی کائنات کی تشکیل کا بنیادی مواد پیدا کرنے کا موجب بنا اور کائنات کی تشکیل میں ممدومعاون ہوا۔ اس حوالے سے قرآنِ حکیم انسان کو جو رہنمائی عطا فرماتا ہے وہ یہ ہے:
کیا وہ لوگ جنھوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے (اللہ نے) انھیں جدا کیا… کیا وہ ہماری خلّاقی کو نہیں مانتے؟… (الانبیاء ۲۱:۳۰-۳۲)
اور وہی (اللہ ہی) ہے جس نے آسمان اور زمین چھے دن میں پیدا کیے اور اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔(ھود۱۱:۷)
کیا تم اس اللہ سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیراتے ہو، جس نے زمین کو دودنوں میں بنا دیا، وہی تو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اُس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد) اس پر پہاڑ جما دیے… اس میں ہرایک کی طلب اور حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کردیا، یہ سب کام چار دن میں ہوگئے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا: وجود میں آجائو خواہ تم چاہو یا نہ چاہو۔ دونوں نے کہا: ہم آگئے فرماں برداروں کی طرح۔ تب اس نے (اللہ نے) دو دن کے اندر سات آسمان بنادیے اور ہرآسمان میں اُس کا قانون وحی کردیا اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اُسے خوب محفوظ کردیا۔ یہ سب کچھ ایک علیم ہستی کا منصوبہ ہے۔ (حم السجدہ ۴۱:۹-۱۲)
اور آسمانوں کو ہم ہی نے بنایا اور یقینا ہم کشادگی کرنے والے ہیں۔ اور زمین کو ہم ہی نے بچھایا تو (دیکھو) ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں(الذاریات ۵۱:۴۷ -۴۸)
یہ چند جواہر پارے اس مستند کتاب سے لیے گئے ہیں جسے چودہ سو سال قبل مالک و خالق السمٰوات والارض نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کیا تھا، یعنی قرآنِ حکیم۔ یہ جواہرپارے جن حقیقی اور واقعی باتوں پر مشتمل ہیں، وہ یہ ہیں:
کائنات کی تخلیق سراسر اللہ کی قدرت، اُس کی حکمت اور اس کے منصوبے کے تحت ہوئی۔ متعصب سائنس دان اور مغربی اہلِ دانش وجودِ باری تعالیٰ کے انکاری ہیں اور ہرواقعے کی مادی توجیہہ پر بس کرتے ہیں، لہٰذا انھوں نے کائنات کی تخلیق پر اللہ کی کتاب، قرآن کو اُٹھا کر دیکھا بھی نہیں۔ مسلمان سائنس دانوں نے بھی نہ خود قرآن سے اس معاملے پر رہنمائی حاصل کی اور نہ مادیت پسند سائنس دانوں کو ہی اس طرف توجہ دلائی ۔ لامذہبی سائنس دانوں کا اللہ اور اللہ کے وجود سے بے اعتنائی کا رویہ ان کے خودساختہ پروٹوکول کا نتیجہ ہے جو انھوں نے قائم کر رکھا ہے۔ اس بارے میں ہارورڈ یونی ورسٹی کا ایک معروف ماہر جینیات رچرڈ سی لیونٹس اعتراف کرتا ہے:
ایسا نہیں ہے کہ سائنس کی تحقیق کے طریقے اور ادارے ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم دنیا میں ہونے والے واقعات کی مادی تاویلیں ہی تسلیم کریں بلکہ اس کے برعکس ہم مجبور ہیں کہ بنیادی طور پر مادی طریقۂ تحقیق اورمادی نظریات سے بھی ہم آہنگ رہیں اور مادی تعبیر ہی پیش کریں، اس سے قطع نظر کہ یہ کسی کی نگاہ میں کتنی ہی غیرمعتبر ہوں۔ پھر مادیت ایک بدیہی حقیقت ہے لہٰذا ہم الٰہی قدم کو اس دروازے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
اللہ رب العزت نے تو چودہ سو صدی قبل ہی کائنات کے بارے میں بتا دیا تھا: ’’آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں جدا کیا‘‘۔ اور یہ کہ ’’اس سے قبل اس کا عرش پانی پر تھا‘‘۔ مگر بیسویں صدی کی ابتدا تک سائنس دان خیال کرتے تھے کہ کائنات جس طرح اب نظر آتی ہے ہمیشہ سے اسی طرح ہے، یعنی جامد ہے۔۱۹۲۲ء میں ایک روسی ماہر ریاضیات الگزینڈر فریڈمین نے ریاضی کے معادلوں (mathemetical equations) کے نتائج سے واضح کیا کہ کائنات جامد شے نہیں ہے بلکہ وسعت پذیر ہے۔ ۱۹۲۷ء میں جارجس لماٹری نے کائنات میں ستاروں کے جھرمٹوں کا زمین سے دُور ہوتے جانے کا مشاہدہ کیا اور وضاحت کی کہ ایسا ہونا دراصل کائنات کی وسعت پذیری کے باعث ہے۔ اسی فاضل امریکی ماہرطبیعیات نے ۱۹۳۱ء میں یہ خیال بھی پیش کیا کہ جب مستقبل میں کائنات پھیلتی جارہی ہے تو لازم ہے کہ ماضی میں یہ سکڑی ہوئی تھی اور اس آخری حد تک سکڑی ہوئی تھی کہ جس کے بعد اس کا سکڑنا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا یہ ایک نقطے کی مانند تھی اور یہ کہ اس حالت سے قبل کائنات کا کوئی وجود نہ تھا۔ وقت اور زماں اور مکان کا بھی وجود نہ تھا۔ یوں یہ کائنات بے وجودی کی کیفیت میں تھی اور اس حالت سے وجود پذیر ہوئی۔ ۱۹۲۴ء تا ۱۹۳۹ء میں ایک امریکی ماہرفلکیات ایڈون حبل کے مشاہدات نے لماٹری کے خیالات پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ مگر وہ اللہ کی کبریائی سے بے بہرہ رہا۔
اگر درج بالا بیان کے حوالے سے سائنس دانوں کا دعویٰ صحیح ہے کہ انھوں نے ’ہِگزبوسَن‘ (خدائی ذرّہ) کا مشاہدہ کیا ہے جس نے کائنات کی تخلیق کے وقت پروٹونز اور نیوٹرونز کو جوڑ دیا تھا اور ان کے اندر ایک کمیت پیدا ہوگئی تھی جس کے بعد کبیر دھماکا ہوا (بگ بینگ) اس وقت ایک سوہزار ملین ڈگری سنٹی گریڈ تپش پیدا ہوئی اور کائنات تیز روشنی سے بھرگئی۔ یہ کائنات کی ابتدا تھی۔ یہ کیوں اور کیسے ہوا۔ اس بارے میں ہم بالکل اندھیرے میں ہیں اور جاننا بھی مشکل امر ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں دُور دُور تک تشکیل پانے والے مادے کے ٹکڑے بکھر گئے اور ہرٹکڑا ایک طویل عرصے میں اس قانون اور ہدایات کے مطابق ڈھل گیا جو خالق کائنات نے اس کو ودیعت کیا تھا۔ آسمان، زمین، ستارے، سیارے اور ان کے جھرمٹ (کہکشاں) اور ان پر موجود اشیا تشکیل پاگئیں۔ سائنس دانوں کو تو خالق ارض و سموات کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا چاہیے تھا کہ اللہ نے ان کو اپنی کائنات کے ابتدائی منصوبے سے واقفیت بخشی۔ اس منصوبے کو رُوبہ عمل لانے میں ان کا کوئی کردار نہیں سواے اس کے کہ کائنات کے تخلیقی منصوبے کی تھوڑی جھلک دیکھ پائے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اس بات کے لیے کافی نہیں کہ اللہ یعنی خالقِ کائنات کے وجود پر یقین لے آیا جائے۔ کائنات میں ایسی بہت سی واضح نشانیاں ہیں جن کی سائنس دانوں نے بھی وضاحت کی ہے اور کئی آسمانی کتب میں بھی بیان کی گئی ہیں ان میں چند ایک بیان کی جاتی ہیں تاکہ اہلِ علم کو وجودِ باری تعالیٰ کا حق الیقین ہوجائے۔
کرئہ ارض کی مخصوص شکل___ شمال اور جنوب، یعنی قطب شمالی اور جنوبی پر قدرے چپٹی جب کہ مشرق اور مغرب میں گولائی لیے ہوئے___پھر اس میں مخصوص کششِ ثقل (gravity) ہے۔ لہٰذا اس کے گرد نائٹروجن اور آکسیجن وغیرہ گیسوں کا ایک پرت ہے جو صرف ۵۰میل تک موجود ہے۔ اگر کرئہ ارض کی جسامت بڑی ہوتی تو پرت میں صرف ہائیڈروجن گیس ہوتی، آکسیجن نہ ہوتی جیسے کہ جوپیڑ سیارے کے گرد ہے، اورجسامت چھوٹی ہونے کی صورت میں گیسوں کی پرت کا وجود ناممکن تھا جیساکہ مرکری (mercury) سیارے کے گرد ہے۔ صرف کرئہ ارض اپنی موجودہ جسامت کے باعث گیسوں کے صحیح توازن کے ساتھ اس پرت کو سنبھالے ہوئے ہے جس کے باعث یہ کرئہ ارض پودوں، حیوانات اور انسانوں کو اپنے اُوپر قائم رکھنے کے قابل ہے۔
کرئہ ارض سورج سے ایک خاص فاصلے پر واقع ہے، تقریباً ۹۳ملین میل ، لہٰذا زمین پر درجۂ حرارت ۲۰- تا ۱۲۰+ ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔ اگر یہ فاصلہ کم ہوجائے، سب حیات خاکستر ہوجائے اور اگر فاصلہ زیادہ ہوجائے تو سب یخ بستہ ہوجائیں۔ پھر زمین بھی اس فاصلے کو قائم رکھے ہوئے سورج کے گرد ۶۷میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگاتی رہتی ہے اور ساتھ ہی اپنے مدار پر گھومتی بھی جاتی ہے، لہٰذا زمین کے سارے علاقے یکساں طور پر یکے بعد دیگرے گرم و سرد حالات سے گزرتے رہتے ہیں۔
کرئہ ارض کے چاند کی مخصوص جسامت اور زمین سے اس کا فاصلہ اتنا متوازن ہے کہ اس کی کششِ ثقل ایک خاص حد میں رہتی ہے جس کے باعث سمندروں میں مدوجزر آتے ہیں اور لہریں اُٹھتی ہیں۔ اس کے باعث پانی نہ تو ساکت رہ کر گندا ہوتا ہے اور نہ ہی سمندر کے کناروں سے نکل کر زمینی علاقوں کو اَتھل پتھل کرتا ہے۔
کرئہ ارض اور متعلقہ بیان زیادہ تر سائنسی تحقیقات پر مشتمل ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ قرآنِ حکیم میں اس حوالے سے کیا بیان ہوا ہے۔ بے شمار آیات میں سے صرف دو بیان کی جاتی ہیں:
نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔ (یٰسین ۳۶:۴۰)
سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں… آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔(الرحمٰن ۵۵:۵-۷)
اللہ رب السموات والارض نے پانی بے رنگ، بے بو اور بے مزا بنایا ہے۔ اس کے باوجود کسی بھی جان دار کا اس کے بغیر گزارا نہیں۔ ہر جان دار کے جسم کے اندر مخصوص مقدار میں پانی ہوتا ہے۔ انسان کے جسم کا ۳/۲ حصہ پانی ہے۔ درج ذیل خاصیتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ پانی زندگی کے لیے کتنا لازمی ہے:
ا: پانی کا نقطۂ انجماد اور نقطۂ اُبال غیرمعمولی طور پر زائد ہوتا ہے، لہٰذا پانی کا درجۂ حرارت ۶ء۹۸ ڈگری پر ہمارے جسموں کو بہترین سطح پر رکھتا ہے اور ہم پانی کے درجۂ حرارت کی وسیع تبدیلیوں میں بھی زندگی بسر کرلیتے ہیں۔
ب: پانی عمومی محلول ہے ، یعنی اس میں اکثر اشیا حل ہوجاتی ہیں، مثلاً اکثر کیمیکل (chemicals)، معدنیات (minerals) غذائی اجزا پانی ہی میں حل ہوکر جسم کے ہرہرحصے میں دوران کرتے ہیں اور باریک ترین خون کی نالیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
ج: پانی کیمیاوی طور پر غیرفعال (neutral) ہے، یعنی اشیا میں بغیر تبدیلی لائے ان کی ترسیل کرتا ہے۔ غذا، دوا، معدن وغیرہ میں تبدیلی لائے بغیر جسم کے مختلف حصوں میں پہنچاتا ہے تاکہ جسم ان اشیا کو استعمال میں لاسکیں۔
د- پانی میں سطحی دبائو (surface tension) ہوتا ہے جس کی وجہ سے پانی پودوں اور درختوں کے جسم کی نالیوں میں اُوپر کی جانب کشش ثقل کے خلاف بہتا ہے۔ اس طرح زندگی بردار پانی اوراس میں شامل غذائی اجزا اُونچے اُونچے درختوں کے اُوپری سروں تک پہنچا دیے جاتے ہیں۔
ح- پانی اپنی بالائی سطح سے نیچے کی جانب منجمد ہوتا جاتا ہے، لہٰذا صرف بالائی سطح اور کسی قدر زیریں سطح پر یعنی ۳،۴فٹ سرد علاقوں میں برف تیرتی رہتی ہے۔ اس خصوصیت کے باعث مچھلیاں اور دوسرے آبی حیات پانی میں برف کے نیچے سردیاں گزار لیتے ہیں اور منجمد نہیں ہوتے۔
و- کرئہ ارض پر ۹۷ فی صد پانی سمندروں میں ہوتا ہے لیکن ارضی کرہ پر حکیم و علیم اللہ نے یہ عجب نظام قائم کردیا ہے کہ سمندری پانی سے ایک خاص طریقہ پر نمکیات علیحدہ کر کے اسے میٹھے یا سادے پانی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ پھر اس کو کرۂ ارض کے تمام علاقوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سمندری پانی آبی بخارات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ بخارات بادلوں کی صورت اختیار کرتے ہیں اور ہوا کے دوش پر دُور دراز علاقوں میں پھیلا دیے جاتے ہیں جہاں وہ بارش کی صورت میں برس کر زمین کو سیراب کرتے ہیں، اور زمین پر موجود نباتات، حیوانات اور انسانوں کو صاف اور تازہ میٹھا پانی فراہم ہوتا ہے۔ سمندر میں پانی کو گندگی اور نمکیات سے پاک صاف کرنے اور اس کو زمینی حیات کے لیے قابلِ استعمال بنانے کا اللہ رب العزت کا یہ ایک خوب صورت اور بہترین نظام ہے۔
پانی کے حوالے سے بے شمار آیاتِ قرآنی ہیں۔ ذیل میں صرف تین کا حوالہ دیا جاتا ہے:
… پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی، کیا وہ ہماری اس خلّاقی کو نہیں مانتے۔(الانبیاء ۲۱:۳۰)
اور آسمانوں سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا۔ ہم جس طرح چاہیں کرسکتے ہیں۔ پھر اس پانی کے ذریعے ہم نے تمھارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کیے۔ (المومنون ۲۳:۱۸)
اور پانی کے دونوں ذخیرے یکساں نہیں ہیں، ایک میٹھا اور پیاس بجھانے والا ہے، پینے میں خوش گوار، اور دوسرا سخت کھاری کہ حلق چھیل دے، مگر دونوں سے تم تروتازہ گوشت حاصل کرتے ہو، پہننے کے لیے زینت کا سامان نکالتے ہو اور اس پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی چلی جارہی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اُس کے شکرگزار بنو۔(فاطر ۳۵:۱۲)
یہ بیک وقت مختلف اور بے شمار معلومات کا اِدراک کرتا ہے مثلاً تمام اقسام کے رنگ اور چیزیں جو ہم دیکھتے ہیں، ہمارا اِردگرد کا درجۂ حرارت، ہمارے پیروں کا فرش پر دبائو اور وہ آوازیں جو ہمارے اِردگرد آتی ہیں، منھ کی خشکی، ہمارے تمام جذبات و احساسات کا اِدراک، ہمارے خیالات اور یادداشتوں کا احاطہ اور ساتھ ہی تمام افعال کا اِدراک مثلاً سانس لینے کا عمل، پلکوں کا جھپکنا، بھوک و پیاس، ہاتھوں اور پیروں کے عضلات کی حرکت وغیرہ۔ ہمارا دماغ ایک سکینڈ میں ایک ملین سے زائد اطلاعات کا اِدراک کرتا ہے اور ان کا جائزہ لیتا ہے اور ان میں سے غیراہم معلومات علیحدہ کرلیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم مؤثر طریقے پر اپنے اہم کام کرگزرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ہمارا دماغ دوسرے اعضا سے مختلف انداز میں کام کرتا ہے مثلاً ا س کے ذریعے کوئی کام کرنے کی قابلیت، کسی بات کو سمجھنے اور سمجھانے میں دلائل اور ان کی اہمیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح کام کی منصوبہ بندی، کسی بات کا فیصلہ اور اس پر عمل اور دوسرے انسانوں سے تعلق بھی دماغ کے تحت ہوتا ہے۔
قرآنِ حکیم میں اکثر مقامات پر آیاتِ قرآنی کی تلاوت، تدبروتفکر اور ذکروفکر ، فرائض و واجبات کی ادایگی، اچھے اعمال کرنے اور بُرے اعمال سے بچنے کا ذکر سب ہی دماغ اور اس کی صلاحیتوں کے مطابق انجام پاتے ہیں۔ اس اعتبار سے صحیح الدماغی اللہ رب العزت کی بڑی نعمت ہے۔
یہ سات ملین رنگوں میں امتیاز کرلیتی ہے۔ اشیا کو دیکھنے کے لیے خود کار فوکس (Focus) کا نظام ہے اور ۵ء۱ ملین معلومات کی بہ یک وقت پہچان کرلیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتہائی پیچیدہ دماغ اور آنکھوں کے نظام کی موجودگی اور ان کے کام کرنے کو نظریۂ ارتقا بھی واضح کرنے میں بے بس نظر آتا ہے۔
قرآنِ حکیم بتاتا ہے: ’’اور اس نے تم کو کان، آنکھیں اور دل عطا کیے تاکہ تم شکر کرو‘‘ (النحل ۱۶:۸۷)۔ ’’تمھارے کان، آنکھیں اور دل بنائے، تم بہت کم شکر کرتے ہو‘‘۔ (السجدہ ۳۲:۹)
اب سائنس دانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ کائنات ہمیشہ سے اسی طرح قائم نہیں ہے بلکہ اس کی ایک ابتدا ہے۔ یہ ابتدا کیسے ہوئی اور اس کی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں ان کے پاس کچھ زیادہ معلومات نہیں۔ بس ظن اور تخمین سے اتنا بتا دیتے ہیں کہ ابتدا میں ایک شدید دھماکا ہوا جسے ’بگ بینگ‘ یا ’کبیردھماکا‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دھماکا برق اور توانائی لیے ہوئے تھا۔ اس کا درجۂ حرارت ایک سو ہزار بلین ڈگری سنٹی گریڈ تھا اور خلا میں چہارطرف تیزروشنی پھیلی تھی۔ بس یہ کائنات کی ابتدا تھی جس کے نتیجے میں سخت گرم مادہ چاروں طرف دُور دُور تک بکھر گیا۔ مادے کا ہرٹکڑا آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہوتا گیا اور اس کی سرشت میں جیسا کچھ تھا وہ اس میں تبدیل ہوگیا اور وہ چیز نمودار ہوگئی جو اس میں مخفی تھی، مثلاً جگہ، وقت کی ابتدا، اور کائنات میںنظر آنے والی مختلف چیزیں۔ ایک ماہرطبیعیات رابرٹ جسٹرو کا بیان ہے کہ: ’’اس طرح کائنات کی ہرشے کا بیج بو دیا گیا اور کائنات حرکت میں آگئی۔ مثلاً ہرستارہ، ہر سیارہ، ہرزندہ جسم رفتہ رفتہ اپنے اپنے وقت میں وجود پاتے گئے، کائنات بنتی چلی گئی۔ مگر اس کی اصل وجہِ تخلیق کیا ہے، اس کا علم ایک مشکل کام ہے (Message from Prof. Robert Jastrow, Leader U. com, 2002)۔ قرآنِ حکیم کائنات کی ابتدا اور تخلیق کے بارے جو کچھ بتاتا ہے ا س کا اندازہ اس مضمون میں بیان کی گئی آیات سے لگایا جاسکتا ہے۔
کائنات میں مختلف حالات و واقعات پر غور کیا جائے تو یہ برسوں ایک جیسے نظر آتے ہیں، مثلاً کششِ ثقل ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ ہمیشہ ہوتا ہے کہ میز پر رکھی گرم چائے کی پیالی آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوجاتی ہے، زمین ۲۴گھنٹے سورج کے گرد ایک جیسی رفتار سے چکر لگاتی رہتی ہے، روشنی کی رفتار زمین پر اور کہکشائوں میں ایک جیسی رہتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں قوانینِ فطرت ایک جیسے رہتے ہیں اور کیوں تبدیل نہیں ہوتے؟ کائنات اتنی منظم، باترتیب اور بھروسے کے قابل کیوں ہے؟ عظیم سائنس دان کائنات کی ان خصوصیات سے مبہوت ہیں۔ کائنات کی یہ منطقی ضرورت نہیں ہے کہ وہ ان قوانین پر کاربند رہے جب کہ وہ ریاضی کے قوانین پر بھی کاربند رہتی۔ سائنس دانوں کا یہ تعجب اس خیال کا عکاس ہے کہ کائنات کے لیے ضروری نہیں کہ مذکورہ بالا قوانین پر عمل پیرا رہے۔ ایسی کائنات کا تصور آسان ہے جس میں حالات و واقعات لمحہ بہ لمحہ کسی پیش بینی کے بغیر تبدیل ہوتے رہتے ہیں، یا ایسی کائنات جس میں چیزیں ظاہر ہوتی ہوں اور جلد اپنا وجود کھو بیٹھتی ہوں۔ طبیعیات کا نوبل انعام یافتہ سائنس دان رچرڈ فین مین (Richard Feynman) تعجب کا اظہار کرتا ہے کہ یہ معمہ ہے کہ ’’قدرت کیوں ریاضی کے اصولوں پر کاربند نظر آتی ہے اور یہ حقیقت کہ کائنات میں قوانین پر کاربند ہونا ایک تعجب خیز بات ہے‘‘۔ (The meaning of it all. Thought of a citizen - scientist, Newyork Basic Books, 1998)
ہرزندہ خلیے میں ڈی آکسی رائبوز نیوکلک ایسڈ نامی کیمیاوی مادہ ہوتا ہے۔ یہ چارقسم کے کیمیوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کو سائنس دان A.T.G.C کے حروف سے ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارے جسم کے ہرخلیے میں ان کیمیوں کی ترتیب ایک جیسی ہوتی ہے۔ ایک انسانی خلیے میں یہ اس طرح ترتیب یافتہ ہوتے ہیں: CGTGTGACTCGCTCCTGAT.....۔ ہرخلیے میں اس طرح ترتیب یافتہ تین ملین کیمیے ہوتے ہیں۔ تین ملین کیمیوں پر مشتمل ڈی این اے ہر اس خلیے کو ہدایات دیتا ہے جس میں یہ ہوتا ہے، اور خلیہ ان ہدایات پر خصوصی طور پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ خلیے کی ہدایاتی کتاب ہے۔
قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ننھے سے خلیے میں ایسی محیرالعقل شے کیوں ہے؟ پھر یہ بھی کہ اتنی گمبھیر معلومات کیوں کر خلیے میں سمائی ہوتی ہیں؟ یہ کیمیے سادہ سے کیمیے نہیں ہیں بلکہ خصوصی کیمیے ہیں جن میں خلیے اور اس سے مستقبل کے لیے تفصیلی ہدایات پوشیدہ ہیں۔ ان ہدایات کی روشنی میں خلیہ ان خطوط پر ہی پروان چڑھتا ہے جو رفتہ رفتہ خلیے پر واضح ہوتے رہتے ہیں۔ خلیے میں ڈی این اے کے اس نظام کے حوالے سے قدرتی اور حیاتیاتی وجوہات کا اب تک کوئی علم نہیں کہ یہ ہدایات خلیے پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہیں اور خلیہ ان پر کس طرح عمل کرتا ہے۔ ان سب کا علم جان جوکھوں کا کام ہے۔
اللہ رب السمٰوات والارض سے متعلق مذکورہ بالا چند نشانیوں اور ان کے سائنسی حقائق سے متاثر ہوکر بعض دہریے اور بعض سائنس دان بھی اللہ کی طرف رجوع ہوئے ہیں۔ یہ بدیہی حقیقت سب کو جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا حسّی مشاہدہ ناممکن ہے۔ اُس کو صرف کائنات میں پھیلی نشانیوں پر صحیح غوروفکر کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتا ہے اور اُس پر مکمل یقین لانے کے لیے تو آسمانی کتب خصوصاً قرآنِ حکیم میں بیان کردہ نشانیاں نہایت اہم ہیں اور اس سے بڑھ کر ان انسانوں کی سیرت و کردار سے رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے جو اللہ رب العزت کے متعین کردہ پیغمبر اور اس کے رسول ہیں خصوصاً آخری پیغمبر اور رسولؐ اللہ کی شخصیت اور سیرت کے گہرے مطالعے ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
نائیجیریا براعظم افریقہ کے مغرب میں بحیرۂ اٹلانٹک کے طویل ساحل کے تقریباً وسط میں حبشی النسل قبائل کی ۹لاکھ ۲۳ہزار ۷سو۶۸ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی دنیا کی ساتویں بڑی آبادی پر مشتمل مملکت ہے۔ اس کا رقبہ اور آبادی، دونوں پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ برطانوی قوم کی توسیع پسندی اور ہوس ملک گیری کے نتیجے میں یہ علاقہ بیسویں صدی کے شروع میں برطانوی کالونی قرار پایا، اور برطانوی حکومت نے ۱۹۱۴ء میں اس کے ۲۵۰ سے زائد قبائل پر نائیجیریا نام کا ملک برطانوی کالونی کی صورت میں تشکیل دیا۔ یہ سب قبائل اپنے عقائد، مذہب، روایات اور عادات و اطوار میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ اس مملکت کا شمالی علاقہ زیادہ تر صحارا کے ریگستان میں واقع ہے اور حوسا اور چند دوسرے قبائل پر مشتمل ہے۔اس علاقے کی ۷۰فی صد آبادی مسلمان ہے، جب کہ بقیہ آبادی عیسائی ہے اور روایت پرستوں پر مشتمل ہے۔
نائیجیریا میں اسلام شمالی افریقہ کے مسلمان ممالک، مثلاً مراکش، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر وغیرہ اور مشرق سے سوڈان، صومالیہ، یمن، سعودی عرب کے راستے داخل ہوا۔ مغربی نائیجیریا میں زیادہ تر پروبا قبائل آباد ہیں اور ان کی اکثریت بھی مسلمان ہے۔ مشہور بندرگاہ لاگوس اسی علاقے کے ساحل پر واقع ہے، جو نائیجیریا کا پہلا دارالخلافہ تھا۔ مشرقی علاقہ بھی زیادہ تر سمندر کے کنارے واقع ہے۔ اس علاقے کی جانب سے برطانوی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور عیسائی مبلغین کا طائفہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس علاقے میں اگبو اور دوسرے قبائل رہتے تھے جن کی اکثریت کو ان مبلغین نے عیسائی بنا لیا۔ اسی لیے اس علاقے کے قبائل یا تو عیسائی ہیں اور جو عیسائی نہ بن سکے وہ اپنی روایت پرستی پر قائم رہے۔ اس علاقے کی ساحلی پٹی پٹرول سے مالامال ہے، اور یہاں سے دنیا کا بہترین پٹرول حاصل ہوتا ہے۔
بین الاقوامی حالات اور ملک میں اندرونی تحریکوں کے دبائو کے تحت برطانوی آبادکاروں کو اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا۔ اس طرح ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا آزاد ملک قرار پایا۔ آزادی کے فوراً بعد ملک فوجی انقلاب کی نذر ہوگیا۔ ایک عیسائی جنرل برونسی کی قیادت میں یہ خونیں ثابت ہوا۔ معروف سیاسی اور مذہبی رہنما قتل کردیے گئے جو زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل تھے۔ ان میں ابوبکر تفاوا بلیوا اور احمد بیلو قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں گہری خلیج پیدا ہوئی۔ کچھ عرصے بعد مسلمان اور عیسائی فوجی جرنیلوں پر مشتمل ایک نئی فوجی قیادت اُبھری۔
۱۹۶۷ء میں مشرقی نائیجیریا کے اگبوقبائل کے ایک عیسائی فوجی کرنل اجوکو نے مرکزی حکومت سے بغاوت کرکے اس علاقے کو بیافرا کے نام سے نئی حکومت بنا کر علیحدہ کرلیا۔ برطانیہ، فرانس، اور دوسری مغربی حکومتوں نے اس نئی حکومت کی مدد کی، کیونکہ اس علاقے میں دنیا کا بہترین پٹرول نکلتا ہے اور یہ عیسائی علاقہ ہے۔ مرکزی حکومت کی خفیہ مدد مصر، لیبیا اور سوڈان نے اس بغاوت کو فرو کرنے میں کی۔ بغاوت ناکام ہوئی مگر اس میں ۱۰لاکھ سے زائد افراد کام آئے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ باغی لیڈر کرنل ایمسکا اجوکو ،کو حال ہی میں (اوائل مارچ ۲۰۱۲ئ) نائیجیرین حکومت کی طرف سے عزت و احترام سے دفنایا گیا اور نائیجیریا کے صدر نے اس کے جنازے میں بذاتِ خود شرکت کی ہے۔
برطانوی استعمار کے دوران عیسائیت نائیجیریا میں داخل ہوئی اور عیسائی مبلغین کی سرگرمیوں کے باعث مشرقی علاقوں کے قبائل نے عیسائیت اختیار کی۔ پھر برطانوی دور میں قائم کیے گئے تعلیمی اداروں کے ذریعے بھی عیسائیت کو فروغ ملا۔ ہر ادارے میں بائبل اور عیسائیت کی تعلیم لازم تھی۔ عالمی عیسائیت نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں براعظم افریقہ میں بڑے پیمانے پر عیسائیت کی تبلیغ اور عیسائی براعظم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس پروگرام کے تحت بے شمار مبلغین مغربی ممالک اور امریکا سے لائے گئے۔ یہ تحریک ہزار جتن کے باوجود کامیاب نہ ہوسکی۔ دل چسپ مناظر یہ دیکھنے میں آئے کہ مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کا صدر جو خود عیسائی مبلّغ تھا اور عیسائیت کی تبلیغ و توسیع کا ذمہ دار تھا، اس کے اپنے گھر کے افراد نے اسلام قبول کرلیا۔ اسی طرح نائیجیریا میں عیسائی بشپ کی اپنی بیٹی اموجہ سے مسلمان ہوگئی کہ اسے مسلمانوں میں شادی کے بندھن کے طریقے بڑے سادہ اور پُراثر نظر آئے۔
نائیجیریا میں اسلام اور عیسائیت ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل رہے۔ لہٰذا یہاں کچھ عرصے بعد کہیں نہ کہیں عیسائی مسلم فساد ضرور ہوتا ہے۔ دونوں طرف سے بڑی تعداد میں اموات ہوتی ہیں اور گرجا اور مساجد اور گھر جلائے اور مسمار کردیے جاتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ۱۹۹۹ء سے اب تک مذہبی اور سیاسی فسادات ۱۶ہزار انسانوں کو نگل چکے ہیں۔ صرف ۲۰۱۱ء میں شمالی نائیجیریا میں ۸۰۰؍افراد موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔ اسی سال کے دوران میں بائوچی، بنوئے،نساروا اور ترابا ریاستوں میں ۱۲۰؍افراد فساد کی نذر ہوئے۔ یہ سب ریاستیں شمالی نائیجیریا کی ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ فسادات ہوتے کیوں ہیں؟ مشرقی اور جنوبی ریاستوں کے عیسائی افراد روزگار اور تجارت کی غرض سے شمالی نائیجیریا آتے ہیں اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرنا اور قبضہ جمانا شروع کردیتے ہیں۔ عیسائیت اور اسلام کی بنیاد پر بُغض و عناد جو پہلے سے ہی ہے اور اس پر قبائلی عناد بھی۔ بس پھر کہیں سے شعلہ بھڑکتا ہے، علاقے کے باسی دوسرے علاقے کے واردین کو علاقہ چھوڑنے کو کہتے ہیں اور یہی فساد کی جڑ بن جاتا ہے۔ اس کے ردعمل میں عیسائی علاقوں میں بھی یہی صورت پیدا ہوتی ہے۔
بوکوحرام گروپ خالص مقامی لوگوں پر مشتمل سمجھا جاتا ہے مگر اس کو کیا کہیے کہ اقوام متحدہ کے آفس کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں اس گروہ کا تعلق القاعدہ سے تلاش کرلیا گیا ہے۔ یہ اس طرح ہوا کہ اس گروپ کے سات ممبران جو نائیجر (نائیجیریا کی ہمسایہ اسٹیٹ) سے گزر رہے تھے، جب گرفتار ہوئے تو ان کے قبضے سے ملنے والی بعض چیزوں کا تعلق القاعدہ سے پایا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو القاعدہ نے ’اسلامی مغرب‘ میں تربیت بھی دی تھی۔