اسامہ رضوی


پاکستان کو اس وقت تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کا سامنا ہے اور دوسری جانب خبروں میں روز جاری ہونے والے تازہ اعداد وشمار اس ہیجانی کیفیت کو ہوا دے رہے ہیں۔

اس صورتِ حال میں سب سے اہم نکتہ جو اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس بار بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مثلاً پیاز جیسی روزمرہ استعمال کی شے ۴۰۰ گنا مہنگی ہو چکی ہے۔

چونکہ ایک آدمی اپنی آمدن کا  ۸ء۵۰ فی صد حصہ انھی بنیادی اشیا کی فراہمی میں صرف کرتا ہے، اس لیے یہ سمجھنا بالکل مشکل نہیں کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا براہ راست نتیجہ جرائم کی شرح بڑھانے اور معاشرتی بے چینی میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ (آثار واضح نظر آرہے ہیں۔ کوئی بھی اخبار دیکھ لیجیے)  

ماہرین معیشت، تجزیہ کاروں اور مفکرین نے ایسے کئی ممکنہ حل پیش کیے ہیں، جن کے ذریعے ملک کو معاشی تباہی اور اس کے بعد ہونے والی سماجی شکست و ریخت سے بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں غیر ذمہ داری کا احساس جڑوں تک اتر چکا ہو، ایسے لوگوں کی آوازیں اکثر وقت کے شور میں دب جایا کرتی ہیں۔ اس لیے اگر ترتیب کو درست کیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ معاشی نہیں، اخلاقی ہے۔

یہاں اعداد وشمار کی بات نہیں دُہرائوں گا کہ وہ انٹرنیٹ پر بہ آسانی دستیاب ہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ یہی پتا چل سکتا ہے کہ حالات کتنے خراب ہیں؟ لیکن کیوں خراب ہیں؟ اس کا جواب ہمیں کہیں اور ڈھونڈنا ہوگا۔

ایک طرف لوگ اس قدر مشکل میں ہیں کہ بنیادی ضرورت کی اشیا بھی ان کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، لیکن دوسری طرف سڑکوں پر جرمن ساختہ کاروں خصوصاً آڈی (Audi) اور مرسیڈیز (Mercedes) کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جن کے ہاں مالی وسائل کا سیلاب ہے، ان کے ہاں کراس اوور (Crossover) یا سپورٹس گاڑیاں لوگوں کی ترجیح بنتی جارہی ہیں۔ اب دولت کی نمایش کے لیے پہلے سے زیادہ دولت خرچ کرنا پڑتی ہے کیونکہ ان گاڑیوں کی قیمت میں ۱۴۹فی صد اضافے کے باوجود ہم ہر سال اربوں روپیہ(۳۴  بلین) ’اُون‘ (ON)کی مد میں خرچ کرڈالتے ہیں۔ ’اون‘ اس زائد قیمت کو کہا جاتا ہے، جو گاڑی بکنگ کے بعد انتظار سے بچنے اور گاڑی کی فی الفور دست یابی کے لیے ادا کی جاتی ہے۔

جائیداد کی خریدو فروخت کے کاروبار پر اس وقت بڑے مگرمچھوں کا قبضہ ہے۔ اس سے مراد وہ افراد ہیں جن کے پاس مارکیٹ کے زیادہ تر وسائل موجود ہیں۔ جس طرح بہار میں پتّے نکلتے ہیں، اس طرح قریہ قریہ نئی رہایشی کالونیاں بن رہی ہیں۔ آپ اپنے کسی بھی امیر کبیر دوست سے پوچھ لیجیے کہ ان کا ذریعۂ روزگار کیا ہے؟ قوی امید ہے کہ آپ کو ایک مبہم سا جواب ملے گا: ’کاروبار‘ اور ذرا تفصیل سے پوچھیں تو: ’پراپرٹی کا‘۔

ہمارا مشاہدہ ہے کہ ملک میں ’کاروبار‘ تو پھیل رہے ہیں، لیکن ہماری کُل قومی پیداوار اسی جمود کا شکار ہے، بلکہ تنخواہیں اُلٹا کم ہو رہی ہیں۔ پیداواری اشاریے تنزلی کی جانب گامزن ہیں اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اگر ملک میں نئے کاروبار شروع ہو رہے ہیں تو صورتِ حال ایسی کیوں ہے؟

بیوروکریسی، افسران اور دیگر صاحبانِ اختیار کی تربیت پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، تاکہ وہ پالیسی سازی کے عمل میں شامل ہو کر ملک کو مستقبل کے لیے کوئی سود مند حکمت عملی مہیا کر سکیں۔ لیکن یہ ’بابو‘ جیسے ہی اپنی بھوری کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں، ان کا ویژن اپنی میز کے طول و عرض تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ انھیں ہرلمحہ اپنے وقت کی قلت کا خدشہ دامن گیر رہتا ہے اور عوامی خدمت کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

اقربا پروری اور فائلوں کا گورکھ دھندا وہ کھونٹیاں ہیں، جنھیں سرکاری دفاتر میں ٹھونک کر ان کے ساتھ قابلیت کے تمام معیار اُلٹے لٹکا دیے جاتے ہیں۔ اس طرح ہمارا وہ سفر جس کے سامنے پہلے ہی کئی طرح کی سرکاری رکاوٹیں موجود ہیں، مزید سُست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ 

ہمارے پالیسی ساز اپنی ہی بنائی ہوئی پالیسیوں کے اثرات سے بے خبر ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان سرکاری اقدامات کو ’پالیسی ‘کہنا بھی مشکل ہے، کیونکہ یہ اکثر کسی نئے حادثے یا واقعے کے ردعمل میں اٹھائے جاتے ہیں۔ خود سے کسی مسئلے کی پیش بینی کر کے اس کے تدارک کی حکمت عملی تیار کرنا ہمارے ہاں مفقود ہے۔

ریلوے کا منتظم ہم ایسا آدمی ڈھونڈتے ہیں جس کے پاس ڈاکٹری کی سند ہو، جب کہ  ضلعی انتظام چلانے کے لیے ہمیں اکثر انجینئر میسر آتے ہیں۔ وطن عزیز کے معاشی و انتظامی ڈھانچے میں وسائل کی ایسی بے جا، غلط اور نقصان دہ تقسیم ہمیں جابجا نظر آتی ہے۔ دوسری طرف پیداواری ذرائع یعنی زمین، محنت اور سرمایہ، معاشرے کو مجموعی طور پر کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے انفرادی دولت کو بڑھانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

راقم اس صورتِ حال کو اخلاقی بحران کیوں سمجھتا ہے؟ کیونکہ سرکاری اداروں میں موجود زیادہ تر لوگ وہ کام نہیں کر رہے ہیں، جس کے لیے انھیں منتخب کیا گیا ہے۔ وہ چیزوں کو وسیع تر تناظر میں نہیں دیکھتے، بلکہ امرواقعہ ہے کہ دیکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔

ان کی ترجیحات اپنی ذات تک محدود ہیں۔ اس میں یقیناً کوئی خرابی نہیں، اپنا شخصی فائدہ دیکھنا بھی ہم سب کا حق ہے لیکن اس فائدے کو اسی قدر دیکھنا چاہیے کہ ملکی معاملات نظر انداز نہ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ عام پاکستانی کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے بھی سعی کی جانی چاہیے۔

مقابلے کا امتحان اور اس کی تیاری خاصے محنت طلب کام ہیں۔ کامیاب امیدوار تعلیمی میدان سے لے کر اپنی شخصی صلاحیتوں تک ہر چیز میں خاصی محنت کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر انسانی دماغ کو ایک مشین فرض کر لیا جائے جس سے کوئی ’آؤٹ پٹ‘ حاصل کرنے کے لیے پہلے ’اِن پٹ‘ ضروری ہوتی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر اچھی اِن پٹ اور تربیت کے باوجود آؤٹ پٹ اس قدر خراب کیوں ہے؟ یقیناً کام کے لیے سازگار ماحول ہونا بھی بہت ضروری ہے، لیکن یہ سازگار ماحول مہیا کرنا کس کا کام ہے؟

بدقسمتی سے ہمارا قومی مزاج کچھ ایسا بن چکا ہے کہ اگر کوئی تخلیقی خیال سامنے آ بھی جائے تو لوگ فوراً اس کی ناکامی کے لیے ایک سو ایک ممکنات اور خدشات پیش کر دیں گے،یا اس کو سرے سے شروع ہی نہ کرنے کے لیے درجنوں وجوہ ڈھونڈ لائیں گے۔ برائی کو ابتدا ہی میں کچل دینا بالکل ضروری ہے، لیکن اگر کہیں سے کوئی ایک آدھ اچھا خیال نکل آئے تو اسے پنپنے کا موقع ملنا چاہیے۔ افسوس ناک بات ہے کہ اب تک ہمارا طرز عمل اس کے الٹ رہا ہے۔

سیاست دان، امیر اور طاقت ور خاندان و افراد، صحافتی شخصیات، ماہرین تعلیم، نوجوان، دکان دار، غرض یہ کہ سب ہماری موجودہ صورتِ حال کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار ہیں۔ تاہم، یہ بھی بجا ہے کہ اس میں زیادہ حصہ انھی کا ہے، جن کے کندھوں پر براہ راست اس ملک کی ذمہ داری ہے۔

اگر آپ کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ ہو اور تین دن سے آپ بھوکے ہوں تو آپ سے مہذب یا تعمیری رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت ہمارے نچلے طبقے کی صورتِ حال یہی ہے۔ ایک طرف امیر مزید امیر اور طاقت ور ہوتا جا رہا ہے اور خیالی دنیا میں رہنے والے فیصلہ ساز اپنے کنویں سے باہر آنے کو تیار نہیں، جب کہ دوسری طرف غریب، انسانیت کش حالات کی چکّی میں کچھ اس طرح پس رہا ہے کہ اندازہ بھی ممکن نہیں۔

ان حالات میں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم کسی فیصلہ کن موڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔پاکستان اس وقت اندھیرے اور اُجالے کے درمیان کھڑا ہے۔

اللہ کرے کہ حالات بہتری کی طرف جائیں اور ہم ایک ایسا نظام تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں جس میں سب کے لیے حصہ ہو۔ ہمارا اگلا سفر اندھیروں کے بجائے روشنی کی جانب ہو۔