قرآنِ حکیم علم و حکمت کا بحرِ بے کنار ہے۔ یہ وہ کتابِ مبین ہے جو ہدایت کا منبع اور معارف کا خزانہ ہے۔ اس کا موضوع انسان ہے، اس کے مضامین و موضوعات انسانی زندگی کی کامیابی اور فلاح کی ترجمانی کرتے ہیں۔ پھر اس کا دائرۂ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ انفرادیت اور اجتماعیت، تصورات و اعتقادات کی وضاحت کرتا ہے۔ وحدت اور مساوات کی صراحت کرتا ہے۔ اخلاقی اقدار اور اعمال و افعال کی تطہیر کرتا ہے۔
تزکیۂ نفس کے حوالے سے یہ امر ذہن نشین رہے کہ تزکیہ کے لغوی معنی پاکی، صفائی اور نشوونما کے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو آلایشوں سے پاک صاف کرنا، نیکی کی نشوونما کرنا اور اس کو ترقی دینا ہے۔ مگر قرآ نی مفہوم کے مطابق تزکیہ کے معنی نفس کو تمام ناپسندیدہ، مکروہ اور قبیح عناصر سے پاک کرکے خداخوفی، نیکی اور تقویٰ جیسی خوبیوں سے آراستہ کرنا ہے۔ رذائلِ اَخلاق سے بچنا اور فضائلِ اخلاق سے منور ہوکر بندگیِ خالقِ کائنات کو درجۂ کمال تک پہنچانا ہے۔ اس کے احاطے میں کردار و اَطوار، اعمال و افعال اور مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ احکامات کی تعمیل بھی آتے ہیں۔یہ تمام اُمور انسانی طاقت سے باہر نہیں۔ انسان انھیں بہ رضا و رغبت اور بلاتردّد و کراہت انجام دے سکتا ہے۔ اس میں اشکال اور دقّتیں نہیں، صرف تعلیماتِ قرآن سے محبت درکار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی عظمت و عزت خلیفۃ اللہ ہونے کے ناتے دیگر مخلوقات سے برتر ثابت کرنے کے لیے تزکیہ کو اختیار کرنے پر زور دیا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o (الشمس ۹۱:۹) ’’یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا‘‘۔
قرآنِ حکیم کی تعلیمات میں اس پر بار بار زور دیا گیا ہے۔ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ نے انبیاے کرام ؑ کو بھی تزکیہ کی تلقین کو اپنی تبلیغ کی اساس بنانے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ میں اس دعا کو بیان فرمایا، جو حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ مانگ رہے تھے جس میں تزکیے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ دراصل دعاے ابراہیمی ؑ ہے جس میں رسولِ اکرمؐ کی بعثت کی استدعا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزند ِ ارجمند حضرت اسماعیل ؑ مکہ مکرمہ میں اللہ کے گھر کی دیوار اُٹھا رہے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے: ’’اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے۔ تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم، مطیع فرمان بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘ (البقرہ۲:۱۲۷-۱۲۸)۔ یاد رکھیے یہ ایک برگزیدہ رسول ؑ کی دلی کیفیات کی ربِ کائنات کے حضور التجائیں ہیں۔
یہ تمنائیں، آرزوئیں اور ندائیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ روح کی صدائیں بصد احترام ہوا کے دوش پر تڑپ اُٹھتی ہیں۔ یہی حالت حضرت ابراہیم ؑ کی ہے۔ وہ استدعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (البقرہ ۲:۱۲۹) اے ہمارے رب! ان لوگوں میں خود انھی کی قوم سے ایک ایسا رسول اُٹھائیو، جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔
یہ ہے سیدنا ابراہیم ؑ کی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہلی دعا، جس میں تزکیے کے فرض کوا دا کرنے کا بھی خصوصی ذکر ہے۔ گویا تعلیمِ قرآن وہ حاصل تزکیۂ نفس ہے جس میں زندگی سنوارنے، اخلاق، سخاوت، معاشرت، تمدن، سیاست غرضیکہ ہرچیز کو سنوارنا شامل ہے۔
محسنِ انسانیتؐ کی پوری زندگی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا تزکیہ کیا۔ جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر سپیدۂ سحر کی طرح منور کیا، دلوں کو آلودگی سے پاک کیا۔ رحم و کرم کی صفات سے متصف کیا۔ یہی تزکیہ کا عمل ہے جس نے صحابہ کرامؓ کو تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پہنچا دیا۔ اسی پر تو خالقِ کائنا ت نے فرما دیا:
کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۱) میں نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمھیں میری آیات سناتا ہے۔ تمھاری زندگیوں کو پاکیزہ بناتا ہے، تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔
یہ ایک فریضہ بھی ہے جو دیگر فرائض کے ساتھ سونپا گیا۔ یہ سلسلہ خاتم النبیین حضرت محمدؐ سے شروع نہیں ہوا بلکہ قبل ازیں بھی اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام ؑ کو تزکیۂ نفسِ انسانی کی ہدایت کی ہے۔ ذرا حضرت موسٰی ؑ کے تذکرے میں اس کام کو انجام دینے کے حکم پر غور کیجیے:
ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی o اِِذْ نَادٰہُ رَبُّہٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی o اِذْہَبْ اِِلٰی فِرْعَوْنَ اِِنَّہٗ طَغٰی o فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِِلٰٓی اَنْ تَزَکّٰی o وَاَھْدِیَکَ اِِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی o(النازعات ۷۹:۱۵-۱۹) کیا تمھیں موسٰی ؑ کے قصے کی خبر پہنچی ہے، جب اس کے رب نے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا کہ فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہہ: کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور مَیں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو اس کا خوف تیرے اندر پیدا ہو۔
ابن زید کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی تزکٰی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس سے مراد اسلام قبول کرنا ہی ہے۔ چنانچہ وہ مثال میں قرآنِ مجید کی حسب ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں: وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی o (طٰہٰ ۲۰:۷۶) ’’اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے‘‘، یعنی اسلام لے آئے۔ وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓo (عبس ۸۰:۳) ’’اور تمھیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے‘‘، یعنی مسلمان ہوجائے۔ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰیٓ o (عبس ۸۰:۷) ’’اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے‘‘، یعنی مسلمان نہ ہو۔ (تفہیم القرآن، جلدششم، ص ۲۴۲، بحوالہ ابن جریر)
یہی وہ حکمِ ربانی ہے جو حضرت موسٰی ؑ کو دیا گیا کہ تزکیے کی دعوت دو۔ اللہ تعالیٰ کا اَبرِ لطف و کرم اہلِ ایمان پر ہمیشہ برستا رہا۔ یہ رحمت کی انتہا ہے کہ اللہ کے بندے پاکیزہ و مصفا ہوجائیں۔ گناہوں کی دلدل سے بچ جائیں اور دنیا میں پھیلے کانٹوں سے دامن بچاکر خوفِ خدا کو حرزِ جاں بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخ رو ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس موقعے پر مسلمانوں کے تزکیے کا حکم دیا جب مدینہ کے کچھ منافقین سچے دل سے ایمان لے آئے۔ فرمایا:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ ط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ ط وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (التوبہ ۹:۱۰۳) اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور اس سے تزکیہ کرو (نیکی کی راہ میں انھیں بڑھائو) اور ان کے حق میں دعاے رحمت کرو کیوںکہ تمھاری دعا ان کے لیے وجۂ تسکین ہوگی،اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
کتنی رحمت و شفقت ہے کہ خالق بنی نوع انسان اپنے بندوں کی تطہیر اور تزکیہ کا فریضہ اپنے رسولِؐ مقبول کو اس وقت بھی سونپتا ہے جب انسان ضلالت کی راہ سے نکل کر منزلِ ہدایت کو پانے کے تمنائی ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو علم و حکمت کا خزانہ بنایا ہے۔ اس کی ہر آیت اہلِ ایمان کو ایسے ایسے جواہر عطا کرتی ہے، جن میں ایسے ایسے انوار ہدایت چمکتے دمکتے ہیں، جن کی قدرومنزلت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ پھر ان کو عطا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا بھی اظہار کرتا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو پاکیزہ بناتا ہے(تزکیہ کرتا ہے) اور ان کو کتاب (قرآن) اور دانائی (حکمت) کی تعلیم دیتا ہے، حالاںکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
یہ آیات قرآنِ حکیم میں تین بار دہرائی گئی ہیں جن سے رسولِ اکرمؐ کے فریضۂ نبوت کی نشان دہی کی گئی ہے۔ سورئہ جمعہ میں اس آیت ِ کریمہ کے کچھ تبدیلی کے ساتھ تقریباً یہی الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تکرار سے بعثت ِ رسول مکرمؐ کی ضرورت اور اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ منصب ِ نبوت، کارِ نبوت اور مقامِ نبوت کی بھی وضاحت کردی ہے کہ یہ کتابِ مبین، یہ صحیفۂ ہدایت اور یہ متاعِ حکمت تیری پونجی ہے جسے تو نے بانٹنا ہے۔ علاوہ ازیں خالقِ ارض و سماوات بندے کو خود بھی اپنا تزکیہ کرتے رہنے کی تلقین فرماتا ہے۔ مختلف اسلوب ہیں جن کے ذریعے ایک انسان تزکیہ کر کے فلاح دارین حاصل کرسکتا ہے، بُرائیوں سے بچ سکتا ہے۔ مقصدِ تخلیق کو سمجھ کر اس کو پورا کرنے کی سعی کرتا ہے۔ کائنات کا ہر انسان اپنا بوجھ خود اُٹھائے گا۔ کوئی بھی اس کا بوجھ اُٹھانے والا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں کی وضاحت قرآنِ مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کرتا ہے۔ انسان کو سمجھاتا ہے بلکہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ ان کا تذکرہ کرو یہ ان کے لیے بہتر ہے۔
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِھَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْئٌ وَّ لَوْ کَانَ ذَاقُرْبٰی اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ط وَ مَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ ط وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُo (فاطر ۳۵:۱۸) اور کوئی اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے تو کوئی اس میں سے کچھ نہ اُٹھائے گا اگرچہ قرابت دار ہی ہو۔ (اے پیغمبرؐ!) تم ان لوگوں کو نصیحت کرسکتے ہو جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو شخص پاک ہوتا ہے اپنے ہی لیے پاک ہوتا ہے اور (سب کو) اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسان کو تزکیے کی تلقین کی ہے۔ جتنے بھی احکامات ہیں، جتنی بھی ہدایات ہیں، سب کی اساس تزکیہ ہے۔ جو انسانی زندگی کو اس طرح نکھارتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور محسنِ انسانیتؐ کی اطاعت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور دُنیوی و اُخروی فلاح کو پانے کی جدوجہد کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک خاص عائلی مسئلے میں تزکیے کی برکت کا یوں اظہار کرتا ہے:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْھَرُ ط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo(البقرہ ۲:۲۳۲) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرتجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا اگرتم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ نے اس ناپسندیدہ عمل سے گریز کرنے کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے بچنا بھی تزکیے کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o فَاِِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْ وَاِِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ o (النور ۲۴:۲۷،۲۸) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پائو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دی جائے۔ اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جائو تو واپس ہوجائو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کس قدر ہمدرد، مصلح اور انسانوں کی مددگار ہے کہ وہ ان اسباب کا خاتمہ کرنے کی بھی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں ، اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔
جاہلیت میں اہلِ عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ صبح بخیر، شام بخیر کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہرشخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے (privacy) کا حق ہے اور کسی دوسرے شخص کو اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اس کی اجازت کے بغیر دخل انداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رُو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتیٰ کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبانؓ (نبیؐ کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اذا دخل البصر فلا اذن ’’جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کی اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا‘‘(ابوداؤد)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپناقاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو آپؐ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوکر اجازت طلب فرمایا کرتے (ابوداؤد)۔ کوئی ایسی اور بھی احادیث مختلف کتب ِ حدیث میں منقول ہیں۔ اگر تین دفعہ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد صاحب ِ خانہ کی طرف سے اجازت نہ ملے یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہی پاکیزہ طریقہ کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی تزکیہ ہے جو نفسانی خواہشات، بے راہ روی اور فحش اقدام سے بچاتا ہے۔
ان تعلیمات کے بعد پھر ربِ جلیل نے محسنِ انسانیتؐ کو اہلِ ایمان کے تزکیے کے لیے ایک انداز کا حکم فرمایا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ o(النور ۲۴:۳۰) اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھنے کو حلال نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ بُری نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کا زنا ہے، آواز سے لذت لینا کانوں کا زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ اور پائوں کا زنا ہے (بخاری، مسلم، ابوداؤد)۔ آںحضورؐ سے اس نظربازی کے سلسلے میں بہت سی احادیث منقول ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالی جائے، فوراً پھیر لی جائے یا نیچی کرلی جائے۔ مسلم، ابوداؤد اور احمد نے نبی کریمؐ کا ارشاد نقل کیا ہے: کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے، کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے۔ الغرض جس شخص نے اپنی آنکھوں کی حفاظت کی اس نے تزکیہ کیا اور گناہوں سے محفوظ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پاکیزگی کے عمل کو پسند فرمایا ہے۔
ستر کی حفاظت کے لیے محسنِ انسانیتؐ کے بہت سے ارشادات کتب ِ سنن میں موجود ہیں۔ آپؐ نے تو یہاں تک فرما دیا: فاللّٰہ تبارک وتعالٰی احق ان یستحیا منہ ’’تو اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘۔(ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے کیا گل کھلائے ہیں۔ گھر، ٹی وی کی یلغار کی زد میں ہیں۔ کیا اشتہار، کیا ہوس ناکی سے لبریز ڈرامے اور کیا نغمہ و سُرود سب فحاشی کی دعوت دیتے ہیں۔ ان پروگراموں کو اہتمام سے دیکھا جاتا ہے۔ غضِّ بصر کا لحاظ کہاں رکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی نفس پرستی کے ارتکاب سے ربِ جلیل منع فرماتا ہے اور ان فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے غضِّ بصر کا حکم دیتا ہے بلکہ فرماتا ہے: ذٰلِکَ ازکٰی لھُم کہ ان کے لیے نظربازی سے بچنا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا پاکیزہ عمل ہے۔ یعنی یہی تو تزکیہ ہے۔ اسی طرح ہادیِ برحقؐ سے یہ بھی اسی سورہ میں فرمایا جارہا ہے: وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ …(النور ۲۴:۳۱) اور ’’اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں،اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بنائوسنگھار نہ دکھائیں‘‘۔ اس کے بعد ان محرمان کا ذکر ہے جن کے سامنے بغیر پردہ جاسکتی ہیں۔
سورئہ لیل کا مطالعہ کیجیے، جس میں زندگی کے دو مختلف راستوں کا فرق اور ان کا انجام واضح کیا اور ان نتائج کو دل میں اُتارا گیا ہے، جن میں ایک بھلائی کا راستہ ہے اور دوسرا بُرائی کا راستہ۔ پہلی قسم کی خصوصیت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلی یہ کہ انسان مال دے، خداترسی اور پرہیزگاری اختیار کرے اور بھلائی کو بھلائی مانے۔ دوسری یہ کہ انسان بخل کرے۔ خدا کی رضا اور ناراضی کی فکر سے بے پروا ہوجائے اور بھلی بات کو جھٹلا دے۔ یہ دونوں راستے نتائج کے لحاظ سے ہرگز یکساں نہیں۔ پہلے طریقے میں بھلائی کرنے والے کے لیے بدی کرنا مشکل ہوجائے گا اور دوسرے طرزِعمل میں اللہ تعالیٰ اس کے عامل کے لیے زندگی کے بدی کے راستے کو سہل کردے گا۔
سورہ کے دوسرے حصے میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے انسان کو بے خبر نہیں چھوڑا، اس نے یہ راستہ بتا دینا اپنے ذمے لیا ہے کہ زندگی میں انسان کے لیے سیدھا راستہ کون سا ہے۔ دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کا مالک اللہ ہے۔ دنیا مانگو تو دنیا دے گا۔ آخرت کی فلاح مانگو تو فلاح دے گا۔ تیسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو بدبخت اس بھلائی کو جھٹلائے گا، جو رسولؐ اور کتاب کے ذریعے سے پیش کی گئی ہے، اس کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار ہے۔ اور جو خدا ترس آدمی پوری بے غرضی کے ساتھ محض رضاے الٰہی کے لیے اپنا مال راہِ خیر میں خرچ کرے گا، اس کا رب اس سے راضی ہوگا اور اسے اتنا کچھ دے گا تو وہ خوش ہوجائے گا۔
اس سورت کی آخری پانچ آیات تزکیہ اور اس کے انعامات کو بیان کرتی ہیں:
وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی o الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی o وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی o اِِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی o وَلَسَوْفَ یَرْضٰی o (اللیل ۹۲:۱۷-۲۱) جو بڑا پرہیزگار ہے وہ بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو۔ وہ اس لیے نہیں دیتا کہ اس پر کسی کا احسان ہے، جس کا وہ بدلہ اُتارتا ہے، بلکہ اپنے خداوند اعلیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے اور وہ عنقریب خوش ہوجائے گا۔
یہی رضاے الٰہی کا حصول ہی تو حقیقی تزکیہ ہے، جو انسان کی متاعِ آخرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو واضح طور پر بتلا دیا ہے کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے۔ اس کی شیطنت صحرا بہ صحرا، دریا بہ دریا، کو بہ کو پھیلی ہوئی ہے۔ کیسے کیسے وساوس، کیسے کیسے حربے اور کیسے کیسے نفس پرستی کے ہچکولے اس کی سرشت میں جلا پاتے ہیں کہ ہرانسان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا دیتا ہے۔ حقیقتاً وہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اسی لیے تو خالقِ بنی نوع انسان نے ہمیں متنبہ کیا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِِنَّہٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ ط وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّی مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o(النور ۲۴:۲۱) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہوسکتا۔ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے،اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
اس آیت سے قبل اس سورت میں واقعۂ افک کا تذکرہ کیا ہے، جس میں اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی گئی تھی، مگر اس کے بارے میں ربِ علیم و خبیر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم نے حُسنِ ظن کیوں نہ کیا، سوے ظن کیوں کیا۔ اس کے بعد اس آیت میں اہلِ ایمان کو خبردار کیا ہے کہ شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو۔ وہ تو فحش اور بدی کی طرف بلاتا ہے۔ تم لوگ نہیں جانتے اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں۔ کتنے افراد متاثر ہوتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کے نقصانات کتنے ہیں جو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں، بہت بڑی باتیں ہیں۔ شیطان کے ان حربوں سے بچو۔ ان وساوس کی زد میں آکر کوئی شخص بھی پاک صاف نہیں ہوسکتا۔
قرآنِ حکیم نے نفسِ انسانی کے تزکیے کے لیے رہنمائی دی ہے اور بتلا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا تزکیہ کرتا ہے۔ انبیاے کرام ؑ کو اہلِ ایمان کا تزکیہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر اہلِ ایمان کو خود تزکیہ کی روش اختیار کرنے کی ہدایت فرماتا ہے تاکہ اس کے بندے نیکی، خداخوفی اور فضائلِ اخلاق سے آراستہ ہوکر اس کے پسندیدہ بندے بن جائیں اور دنیوی اور اُخروی کامیابی سے ہم کنار ہوں۔
قرآنِ کریم نے تزکیۂ نفس کے اور بھی عوامل کا ذکر کیا ہے۔ تقویٰ اختیار کریں، انفاق فی سبیل اللہ کو اپنی فائدہ مند تجارت بنائیں، باطنی صفات میں اخلاص کو کلید ِ تزکیہ بنائیں۔ ذکروفکر سے تزکیے میں مدد لیں اور خلوصِ دل سے استغفار کے لیے نماز، زکوٰۃ اور فریضۂ حج کو اپنی فلاح کا ذریعہ بنائیں۔ چنانچہ دل کی گہرائیوں میں اُتار لیں کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷:۱۴،۱۵) ’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی‘‘۔
خالقِ ارض و سماوات کے بنی نوع انسان پر لاتعداد اور لامتناہی احسانات ہیں۔ اس کائنات کا ایسا کوئی انسان نہیں ہے، خواہ پیغمبر ہو یا قطب و ابدال، ولی ہو یا مفکرو سائنس دان، یا محقق و معلم، جو اکرام و الطاف اور عنایات و مراعاتِ رب ذوالجلال کا ادراک نہ کرسکے۔ جملہ احسانات میں سے ایک قرآنِ حکیم ہے جو بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے ربِ کائنات کا ودیعت کردہ ابدی اور دائمی دستورِ حیات ہے، جس کے قوانین و ضوابط ہمہ جہت اور متنوع ہیں۔ یہ انسانی زندگی پر رحمتوں اور مہربانیوں کا ایسا بحرِبیکراں ہے، جس کا احاطہ کرنا اور تمام فیوض و برکات کو ورطۂ تحریر میں لانا انسانی قدرت و طاقت کے بس میں نہیں۔ اس کے موضوعات کی کہکشاں ہروقت، ہرلمحے چمکتی دمکتی رہتی ہے۔ یہ ضیائیں انفرادی، عائلی، عمرانی، قومی، بین الاقوامی، ثقافتی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقی وغیرہ اللہ تعالیٰ نے اس کتابِ مبین میں پھیلا دی ہیں جسے ہم آفتابِ جہاں تاب کے تعلیماتی انوار بھی کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیماتِ رُشد و ہدایت، انسانی زندگی کی دنیوی اور اُخروی فلاح و کامرانی کی ضامن ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی بات کا اظہار یوں کیا ہے ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
یہ کتابِ الٰہی ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اسے انسان کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے:
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ اسے یَسَّرنَا القُرآن بھی کہتا ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو سمجھنا آسان بنا دیا ہے۔ اس کو سمجھنے سے انسان اپنی عملی زندگی کو ضیابار کرتا ہے اور یہی مقصدِ حیات ہے۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی تفسیر تفہیم القرآن کے مقدمے میں نزولِ قرآن کی غایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس کا مدعا انسان کو صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے‘‘ (ص ۲۰)۔ علامہ اقبال بھی قرآن حکیم میں غوطہ زن ہونے کی دعوت دیتے ہیں ؎
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
قرآنِ مجید نے انسانی فہم وفراست اور علم و حکمت کے لیے کچھ ایسی چیزیں بیان کردی ہیں جو آج کی اس دنیا کے انسانوں کے لیے بے حد اہم ہیں۔ آج جب سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے گن گائے جارہے ہیں، قرآن حکیم روحانی اور اخلاقی اقدار ہی نہیں، کائنات میں تخلیق کردہ اشیا سے بھی انسان کو استفادے کی دعوت دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان فیوض و برکات کو انسانیت کی فلاح قرار دیتا ہے۔ آیئے ان الطاف و عنایات میں سے چند احسانات کی افادیت کا مطالعہ کریں۔
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo(اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰) زمین اور آسمانوں کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی مزید وضاحت فرما دی:
الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o( اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اورزمین اور آسمانوں کی ساخت میں غورو فکر کرتے ہیں۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں ) ’’پروردگار یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اِس سے کہ عبث کام کرے ۔پس اے رب ،ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
یہ ہے وہ تسخیر کرنے کی واضح دعوت جو ربِ کائنات نے اہلِ بصیرت کو دی ہے۔ تحقیق کا ایک میدان ان کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ یہ اُولی الالباب ہیں جنھیں علمِ لدّنی اور حکمت کے خیرکثیر سے نوازا گیا ہے۔ وہ تحقیق کے میدان میں کودیں، پہاڑوں میں، سیاروں میں، آسمانوں کے آفتاب و ماہتاب میں، دشت و صحرا اور بحرِظلمات میں، زمین میں پنہاں خزانوں میں، سیال تیل اور گیس کے ذخیروں میں، دَل کے دَل پرندوں اور دندناتے درندوں میں، دریائوں اور سمندروں کے آبی جانوروں میں، الیکٹرون، پروٹون میں، عنصر اور ایٹم میں پوشیدہ قوتوں میں غوروخوض کریں۔ تحقیق کے زور پر تسخیر کے عمل کو مضبوط بنائیں۔ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ قرآن سے پہلے کہاںیہ تحقیقی عمل کا انکشاف تھا۔ انسان کب تحقیق کی قوت اور کائنات کے حقائق کو جاننے کا علم رکھتا تھا، بلکہ کب وہ اس بات سے باخبر تھا کہ کائنات کی ہرچیز اس کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ تو قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ انسانیت کی بہبود کے لیے سائنس دان، مفکر، معلم قرآنِ مجید کے عطا کردہ علم سے فیض یاب ہوکر علم و تحقیق کے نتائج پر ہرچیز فراہم کر رہے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
قرآن ہی اس نورِ تحقیق کا منبع ہے۔ اگر قرآن تحقیق کی یہ ضیائیں نہ پھیلاتا تو قافلۂ انسانیت تاریکیوں میں بھٹکتا رہتا۔
یہی نہیں، یہ نسلی تفاوت مغرب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ امریکا، برطانیہ وغیرہ ترقی یافتہ تہذیب کے نمایندے کہلاتے ہیں مگر وہاں ان سیاہ فام انسانوں سے کیا سلوک کیا جاتا رہا ہے اور اب تک کیا جا رہا ہے۔ امریکن اور یورپین آج بھی رنگ و نسل کی مخاصمت میں اعلیٰ تہذیب و تعلیم کا دعویٰ کرنے کے باوجود کالے گورے کی تخصیص میں مبتلا ہیں۔ یہی کیفیت جغرافیائی حدبندیوں سے اظہرمن الشمس ہے۔ یہ امتیازی سلوک اور اُونچ نیچ قومی تصادم کو جنم دیتی ہے۔ براعظموں کے تذکار میں ان اختلافات کے مہیب نتائج آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح لسانی اور اعتقادی امتیازات ہیں جن کی بدولت دشمنیاں پھیلتی ہیں، جنگیں برپا ہوتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل عرب میں قبیلوں کی لڑائیاں برسوں چلتی رہتی تھیں۔ پاکستان میں دہشت گردی اور سیاسی مخاصمت بھی انھی امتیازات کا پیش خیمہ ہے۔
یہ قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ اس نے ان امتیازات پر ضرب لگائی اور ان بتوں کو پاش پاش کیا۔ وحدتِ الٰہ کا درسِ عظیم دیا۔ اس کائنات کا صرف ایک الٰہ ہے، ایک خالق ہے، ایک مالک ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ اور حاکم نہیں۔ قرآن حکیم نے اسی حوالے سے وحدتِ آدم کا اصول بیان فرما دیا۔ بنی آدم تو وہی ہیں جنھیں مٹی سے پیدا کیا گیا:
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ o( اٰل عمرٰن ۳:۵۹) اللہ کے نزدیک عیسٰی ؑکی مثال آدم ؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہوگیا۔
لہٰذا رنگ، نسل، زبان اور ملکی یا براعظمی امتیاز، سب دائرۂ اختیارِ آدم سے باہر ہے۔ یہ عطاے ربانی ہے جو اس کی پیدایش کے وقت ہی اس کے ساتھ آیا ہے:
یاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔
یہ ہے وہ وحدتِ انسانی جو تعارف کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ یہی بنی نوع انسان کو اس عالمِ فانی میں مساوات کا درس دیتی ہے۔ گویا ہم نے جو امیر و غریب اور کالے گورے کی تفریق پیدا کررکھی ہے یہ اللہ کو پسند نہیں۔ تمام انسان وحدت کی لڑی میں پروے ہوئے ہیں۔ یہ قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ اس نے رنگ، نسل، زبان اور جغرافیائی بتوں کو پاش پاش کر دیا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ o اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ o (التین ۹۵:۴ تا۶) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پرپیدا کیا، پھر اُسے اُلٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ اُن کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اَجر ہے۔
اس احسان و برکت کے تذکرے کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید نے انسان کو عطا کردہ ایک اور اسی سلسلے کے فیض کو بھی بیان کر دیا ہے کہ اس کائنات میں انسان ایک ذمہ دار ہستی ہے۔ وہ کائنات میں کوئی کھلونا نہیں ہے بلکہ وہ اس کی ہر چیز پر تصرف کا حق رکھتا ہے۔ تمام وسائل اس کے لیے خدمت اور ضرورت کے وقت مفید بن سکتے ہیں اگر وہ خود کمزوری کا اظہار نہ کرے:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اورانھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیںاور اُن کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔
یہ انسانی زندگی کے وہ مراحل ہیں جن میں آسایشیں ہیں، عزت و وقار ہے، انسانی فلاح ہے،وسائل کو پانے اور ان سے فائدہ اُٹھانے کی ترغیب ہے۔ یہ ایسے پُرکشش احسانات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی رحمت، محبت اور رہنمائی جھلکتی ہے۔ وہ انسان کو اس کی دنیوی اور اُخروی زندگی میں اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے۔ وہ رحمن اور رحیم ہے، اس لیے ہدایت فرماتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآئَ بِنَآئً وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقاً لَّکُمْ (البقرہ ۲:۲۱-۲۲) لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اُس رَبّ کی جو تمھارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے ، تمھارے بچنے کی توقع اِسی صُورت سے ہو سکتی ہے۔ وُہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اُو پر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمھارے لیے رزق بہم پہنچایا۔
انسانی زندگی کی بہبود اور آسودگی کے لیے مہیا کردہ وسائل کا تذکرہ تو اللہ کا اپنے بندے پر احسانِ عظیم ہے کہ اُسے زندگی کی سرگرمی کا صحیح رستہ دکھا دیا اور نشیب و فراز سے آگاہ کر دیا ورنہ انسان بھٹکتا رہتا اور مشکلات و مصائب سے دوچار رہتا۔
اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا o (مریم ۱۹: ۹۳) زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی حیثیت بیان کردی ہے۔ انسان کا تعلق باری تعالیٰ سے اس کے بندے ہونے کا ہے۔ یہاں تک کہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے بندے اور رسول ہیں:
تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَانِ o(الفرقان ۲۵:۱) نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہاں والوں کے لیے خبر دار کر دینے والا ہو۔
یہ ایک اعزاز ہے کہ خالقِ کائنات جو ہر چیز کا مالک ہے، آقا ہے، انسان اس کا بندہ ہے جسے اپنا بندہ بنانے کے بعد اپنا خلیفہ مقرر کر دیا۔ خلیفہ اپنے آقا سے رابطہ رکھتا ہے۔ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو تو انسان (خلیفہ) ہروقت، ہرلمحے، ہرجگہ اور ہرحالت میں براہِ راست اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرسکتا ہے کیونکہ آقا (اللہ) تو خود فرماتا ہے:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ ۲:۱۸۶) اور اے نبیؐ ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں ، توانھیںبتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔
یہ تعلق باللہ انسان کو باور کراتا ہے کہ دعائیں، مناجاتیں صرف اللہ قبول کرتا ہے۔ یہ واسطے، یہ سفارشیں بے معنی اور لایعنی ہیں۔ وہ حاکم اور مالک ہے اور انسان اس کا بندہ ہے۔ یہ آقا اور غلام کا رشتہ ہے۔ ضرورت ہے تو صرف اس کا بندہ بننے اور اس کی اطاعت کی ہے۔ اس کے رسولؐکی اتباع کی ضرورت ہیجس پر یہ احکام نازل ہوئے ہیں اور جس نے ان پر عمل کرکے دکھایا ہے۔
ایک بات اور بھی واضح ہوجانی چاہیے کہ باری تعالیٰ جزوی اطاعت کا طالب نہیں بلکہ وہ حکم دیتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو‘‘۔ یہاں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اطاعت و فرماں برداری مطلوب ہے۔ یہ بندے کی بزرگی کو منور کرتی ہے۔ قرآن حکیم کا یہ انسان پر احسان ہے کہ اس نے انسان کو خالق و مالک کی معرفت سے آشنا کیا کہ وہ قادر مطلق ہے۔ اس کی ذات میں کوئی شریک و سہیم نہیں۔ وہ واحد اور کارسازِ حقیقی ہے۔
یہ قرآن کریم کا احسان ہے کہ اس نے انسان کو نورِ حق سے منور کیا اور باطل کے چنگل سے چھڑایا۔ انسان کو بہت سے خدائوں کی حدود سے باہر نکال کر خداے واحد کی سلطنت کا فرد بنایا:
اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُo (البقرہ ۲:۱۶۳) تمھارا خدا ایک ہی خدا ہے،اُس رَحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔
قرآنِ مجید کا یہ فیض یہ احسان کیا کسی اور ذریعے سے میسر آتا ہے؟ یہ آقا اور بندے کا معاملہ ہے۔ یہ عبدیت کا ذی شان اظہار ہے جس میں انسانیت کی عزت اور وقار ہے کہ اُمت ِ آدم کا یہ تصور انسان کو قرآنِ حکیم نے عطا کیا اور اس کائنات میں انسان کی عزت و عظمت کا معیار بھی بیان کر دیا تاکہ وہ ہرحال میں اس معیارِ فضیلت پر پورا اُترنے کی کوشش کرے:
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۳) درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
انسان پر یہ بات واشگاف الفاظ میں واضح کر دی کہ اس دنیا میں پُرفریب تصور قائم ہے کہ بڑا انسان وہ ہے جو متاعِ دنیا، دولت، جایداد، جاگیر، مِلیں اور کارخانے یا کثیر اولاد، عزیز و اقارب اور احباب و رشتہ دار رکھتا ہے۔ درحقیقت اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان، قبیلہ اور نسل و نسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے، بلکہ یہ معیار تقویٰ ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ و اختیار میں ہے۔
الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍo (ھود ۱۱:۱) ا ل ر، فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے۔
گویا پہلے کسی مضمون کو مختصراً ایک جملہ میں اجمالاً بیان کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کی تفصیل بیان کردی جاتی ہے۔ اس طرح اس مضمون کی جڑ پانے کے بعد اس کی شاخیں سامنے آجاتی ہیں اور اس تفصیل سے اس کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ مثلاً سورئہ بقرہ کی دوسری آیت کے پہلے دو الفاظ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ بیان کرنے کے بعد آیندہ آیات میں اس کی تفصیل، اس کے ثمرات اور اس کے لوازمات بیان کردیے ہیں جن سے قاری اس کی اہمیت، اس کی غرض و غایت سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات اس اسلوب کا ایک اور فائدہ اس طرح بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ ابتدا کا جو مضمون بیان ہورہا تھا، آخر میں پھر اس کا ذکر کر دیا اور درمیان میں جگہ جگہ اس مضمون کی مناسبت سے دیگر مضامین بیان کردیے گئے ہیں۔ یوں وہ مضمون آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ قرآنِ حکیم میں اس کی مثالیں جگہ جگہ ملتی ہیں، خصوصاً چھوٹی سورتوں میں اس کا اظہار ہے۔یہ قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ ہر اہلِ قلم، ہر ادیب اور ہرخطیب اس اسلوب کو اپناکر اپنے مضمون کو مؤثر اور پُرکشش بنا سکتا ہے۔
قرآن کا ایک اور اسلوب بھی ہر ذی شعور اور اہلِ علم و فکر کی رہنمائی کرتا ہے، وہ ہے مقفٰی اور مسجع اندازِ بیان۔ یہ متحیر کن اسلوب خالقِ کائنات کی صناعی کا مظہر ہے اور انسان کو حُسن و جمالِ عبارت سے آشنا کرتا ہے۔ اس کا قاری اور سامع اس اسلوب اور طرزِبیان کی قرأت اور سماعت سے کسی دوسری دنیا میں پہنچ جاتا ہے اور اس کے مضامین اس کے سامنے نئے نئے نقوش پھیلا دیتے ہیں۔ سورئہ رحمن، سورئہ مرسلات اور سورئہ شعرا بلکہ بہت سی سورتوں میں یہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔
اسلوب کی تفصیل میں جائیں تو اس کے مختلف رنگ قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں، صرف ایک اور حُسنِ اسلوب بیان کرکے اس جمالیاتی رنگ سے آگے بڑھتے ہیں، وہ ہے ایک لفظ یا ایک جملہ کا بار بار دہرانا۔ اس تکرار کی خوبی اور خوب صورتی قرآنی اسلوب کی نمایاں خصوصیت ہے۔ سورئہ رحمن میں فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ کی آیت کس قدر مؤثر ہے اور بار بار ایک خاص انداز اور وقفے کے ساتھ استعمال کی جارہی ہے۔ اسی طرح سورئہ مرسلات میں وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ کی حسین و جمیل تکرار اور مضمون کا زور متاثر کرتا ہے، یا سورئہ شعراء میں وَمَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کا بار بار دہرایا جانا کس قدر پُرزور تاثیر کا حامل ہے۔
یہ قرآن کے اسلوب کا ایک اعجاز ہے۔ یہ کتاب تو بحرِبیکراں ہے۔ اس لیے اس کا مطالعہ اور تدبر و تفکر بھی دوسرے علوم و فنون کے مطالعے سے جدا ہے۔ لہٰذا اس سے فیضِ اسلوب کے حصول کے لیے بھی انسان کی عقلی اور دماغی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ قلبی اور روحانی صلاحیتیں بھی پوری طرح شریک ہونی چاہییں۔ گویا اس فیض کو پانے کے لیے علم وفکر کے ساتھ ساتھ حکمت بھی درکار ہے۔
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
قرآنِ حکیم کا یہ احسان ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے ماضی کے واقعات اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کو مختلف انداز میں بیان کر دیا ہے۔ خصوصاً ان انبیاے کرام ؑ کے زمانے کو پیش کیا ہے جو اپنی اپنی قوم کو صراطِ مستقیم دکھاتے رہے اور ان کی رہنمائی کے اثرات انسانوں پر کسی طرح ظاہر ہوتے رہے۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک لاکھ ۲۴ ہزار پیغمبر ؑ مبعوث ہوئے۔ قرآن بھی کہتا ہے: وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (الرعد ۱۳:۷) ’’اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے‘‘۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ یہاں تک فرما دیا: وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر ۳۵:۲۴) ’’اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو‘‘۔ ایک اور مقام پر قرآن بیان کرتا ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا (النحل ۱۶:۳۶) ’’اور ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا‘‘۔
قرآن کریم میں ۱۵ ؍انبیاے کرام ؑ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کے بارے میں اہلِ عرب جانتے تھے اور ان کی اُمتوں کا جو حشر ہوا وہ بھی ان کے علم میں تھا۔ ان انبیاے کرام ؑکی تعلیمات کے اثرات اور ان کی قوموں کے حالات اور عذاب آنے کے تذکار کو بیان کرنے کی غرض و غایت بھی یہ ہے کہ انسان ماضی کی اُمتوں کے حالات و واقعات سے عبرت پکڑے۔ اس سے اُمت محمدیہؐ اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو متنبہ کیا جائے کہ ایسی صورت سے دوچار ہونے والا انسان تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ درسِ ہدایت ہے جو انسانوں کو مستقبل سنوارنے کی دعوت دیتا ہے اور حال کو تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔
ہر پیغمبر ؑ نے اپنی اُمت کے سامنے اپنی اخلاقی زندگی کا نمونہ پیش کیا۔ قرآن حکیم ان کے صبر، شکر، قربانی، طاغوتی وصف کے حامل حکمرانوں کے سامنے بے حد جرأت سے حق گوئی کی مثال پیش کر کے ہر انسان کی اخلاقی حیثیت کو بیدار کرتا ہے۔ انبیاے کرام ؑکے ان اوصاف اور سیرت کے انوار کے تذکرے سے بار بار مثالیں پیش کرتا ہے تاکہ ان کی روحانی اور عملی زندگی کے نقوش واضح ہوجائیں اور انسان بار بار ان کے مطالعے سے اپنے اخلاق اور عملی کردار کو منور کرسکے۔ یہ احسان دنیا اور آخرت کی کامیابی کی راہ دکھاتا ہے۔
قرآن ان انبیاے صالحین علیہم السلام کی مثالیں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے حکمرانوں جو شیطان کے نمایندے ہیں اور ایسے لوگ جو دولت و ثروت کے نشے میں چُور ہیں، ان کی ناکامیوں اور راہِ مستقیم سے بھٹکنے کے نتائج سے بھی ہر قاری کو روشناس کرتا ہے تاکہ وہ ان نتائج سے سبق حاصل کرلے اور اپنی زندگی کو سنوارے۔ قرآنِ مجید تو ہدایت کے ان راستوں سے آگے گزر کر رول ماڈل انبیاے کرام ؑ جو دنیا میں بے حد جلیل القدر تھے، ان کی بے وفا اور نافرمان بیویوں اور کسی کے باپ اور کسی کے بیٹے کی شیطانی خصلتوں سے بھی آگاہ کرتا ہے کہ یہ ربانی ہدایات سے منہ موڑ کر دوزخ کی آگ کا ایندھن بنے، جب کہ بدکار شوہر فرعون کی نیک بیوی کا تذکرہ جنت کے حصول کی راہ دکھاتا ہے۔ قرآن کا یہ احسانِ عظیم ہے جو انسانوں کی غلط فہمیوں کو دُور کرتا ہے اور دونوں جہانوں کی کامیابی کا مژدہ سناتا ہے۔
قرآنِ حکیم نے بنی نوع انسان کو مستحکم بنیاد فراہم کردی ہے اور اسی کی پیروی میں انسان کی دنیوی اور اُخروی زندگی کی فلاح ہے۔ یہ احسان، یہ فیض فکروعمل انسان کی متاعِ عزیز ہے۔ وہ انسان کس قدر خوش قسمت ہے جو ان فیوض، احسانات اور برکات کو اپنی زندگی کا اثاثہ بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان فیوض و احسانات کا حق ادا کرنے کی استطاعت عطا فرمائے ع
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد