زبیدہ عزیز


شعبان المعظّم قمری کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ ہے، جو رجب اور رمضان کے درمیان آتا ہے۔ اس مہینے میں لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ شعبان وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے رکھے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان فرماتے ہیں:

قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللہِ لَمْ اَرَکَ تَصُوْمُ شَھْرًا مِنَ الشُّھُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ قَالَ ذَلِکَ شَھْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبٍ  وَ رَمَضَانَ وَ ھُوَ شَھْرٌ تُرْفَعُ فِیْہِ الْاَعْمَالُ اَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ فَاُحِبُّ اَنْ یُرْفَعَ عَمَلِیْ وَاَنَـاصَائِمٌ (سنن النسائی، کتاب الصیام، حدیث: ۲۶۲۴) میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ!میں نے آپؐ کو شعبان کے علاوہ کسی مہینے کے اتنے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس کی فضیلت سے لوگ غافل ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ پس میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے کی حالت  میں ہوں۔

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان کے پورے مہینے میں اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے کسی ایک دن کو مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔

اُم المو منین حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں:

مَا رَایْتُ النَّبِیَّ یَصُوْمُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ الَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ (ترمذی ، ابواب الجمعۃ، ابواب الصوم عن رسو ل اللہ ، باب ماجاء فی وصال شعبان برمضان، حدیث: ۷۰۰) میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے علاوہ پے در پے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:

کَانَ رَسُوْلُ اللہِ  یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ: لَا یُفْطِرُ وَ یُفْطِرُ  حَتّٰی نَقُوْلَ:  لَا  یَصُوْمُ ،    فَمَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ اسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ اَلَّا رَمَضَانَ وَ مَا رَأَ یْتُہُ اَکْثَرَ صِیَاماً مِنْہُ فِیْ شَعْبَان (بخاری ، کتاب الصوم، باب صوم شعبان، حدیث: ۱۸۸۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے آپؐ روزہ رکھنا نہ چھوڑیں گے، اور آپ ؐ روزے چھوڑتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ؐ کبھی روزہ نہ رکھیں گے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے آپؐ کو شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔

ان احادیث سے ماہِ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی اہمیت کا علم ہوتا ہے۔ تاہم، پورے شعبان کے روزے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مختص تھے، جب کہ امت کو نصف شعبان کے بعد عمومی طور پر روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ وہ افراد اس سے مستثنیٰ ہیں جو ایامِ بیض یا پیر اور جمعرات کے روزے رکھتے ہوں یا گذشتہ رمضان کے قضا روزے رکھنا چاہتے ہوں۔ (سنن ابن ماجہ )

شعبان اور شب برا ٔ ت

 نصف شعبان کی رات عمومی طور پر شب ِ برأ ت کے نا م سے منائی جاتی ہے جس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔ نیز اس کی فضیلت کے بارے میں کسی روایت میںبھی لیلۃ البرأت کا نام نہیں ملتا۔ برأ ت کے لفظی معنی اظہار بیزاری کے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ توبہ میں فرمایا:

بَرَاۗءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ (التوبہ ۹:۱) اعلانِ برأت ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے۔

اس آیت مبارکہ میں برأ ت کا لفظ مشرکین مکہ سے بیزاری کے اظہار کے لیے استعمال ہوا ہے۔ بالفرض اس لفظ کو اس رات کی وجۂ تسمیہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون کس سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے اور اس کا نصف شعبان کی رات سے کیا تعلق ہے ؟

  • نصف شعبان کی رات اور نزولِ قرآن : بعض لوگ نصف شعبان کی رات کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے سورۃ الدّخان کی ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۝۳  فِيْہَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۝۴ۙ (الدخان ـ۴۴:۳-۴)ہم نے اِسے ایک بڑی خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیوں کہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہرمعاملے کا حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ان آیات میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد نصف شعبان کی رات ہی ہے یا اس سے مراد کوئی اوررات ہے؟ لیلۃ مبارکۃ کے بارے میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا اور مبارک رات سے مراد لیلۃ القدر ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ  (القدر۹۷:۱ ) ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا‘‘۔ اور یہ لیلۃ القدر رمضان کی رات تھی جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:  شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ ۲:۱۸۵ ) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ، ص۴۰۸)

ابن کثیر ؒ کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ لیلۃ مبارکۃ سے مراد لیلۃالقدر ہے نہ کہ نصف شعبان کی رات۔ کیوںکہ قرآن مجید لیلۃ القدر میں نازل ہوا اور لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کی ایک رات کا نام ہے۔ نیز لیلۃا لقدر ہی وہ رات ہے جس میں تمام امور کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق بھی لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہیے۔

حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عبادہ بن صامت ؓنے بیان کیا کہ آپؐ اس لیے نکلے کہ ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتائیں۔ اتنے میں دو مسلمان لڑ پڑے تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’میں تمھیں شب قدر کے بارے میں بتانے کے لیے نکلا تھا لیکن فلاں کے لڑنے سے بھول گیا اور شاید تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم اس کو ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷،۲۹ میں تلاش کرو‘‘۔ (بخاری)

اُم المو منین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ؐ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور فرماتے: ’’ رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر تلاش کرو‘‘۔ ( بخاری )

سورۃ الدّخان کی آیات کی تفسیر اور صحیح احادیث مبارکہ لیلۃ القدر کے رمضان میں ہونے کی وضاحت کے بعد یہ دعویٰ درست نہیں کہ لیلۃ القدر نصف شعبان کی رات ہے یا لیلۃ القدر اور لیلۃ مبارکۃ دو مختلف راتیں ہیں۔

  • نصف شعبان کی رات اور عبادات: نصف شعبان کی رات کے حوالے سے بعض عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے جو شرعاً ثابت نہیں ہیں۔ یہ عبادات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ کے دور کے بعد کی ایجاد ہیں۔ صحابہ کرام ؓ امت کے بہترین لوگ تھے۔ اگر اس طرح کی عبادات پسندیدہ ہوتیں تو وہ ان کو اپنانے میں پہل کرتے۔

حافظ ابن رجب لکھتے ہیں: ’’ نصف شعبان کی رات میں اہل شام کے تابعین میں سے   خالد بن معدان ، مکحول اور لقمان بن عامر وغیرہ بڑی محنت سے عبادت کرتے تھے۔ انھی تابعین سے لوگوں نے اس رات کی تعظیم اور فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جن میں بصرہ کے کچھ    عبادت گزار تھے، مگر علماے حجاز کی اکثریت نے اس کا انکار کیا۔ جن میں امام مالک ، عطاء ابن ابی ملیکہ اور دیگر فقہاے مدینہ شامل تھے۔ سب ہی نے اسے بدعت کہا‘‘۔

عبادات کے لیے مخصوص دنوں اور راتوں کا ذکر واضح طور پر قرآن اور احادیث میں ملتا ہے۔ مثلاً محرم الحرام میں یومِ عاشورہ ، عشرہ ذوالحجہ ، یومِ عرفہ، یوم النحر ، ایام تشریق ، ماہ رمضان ، لیلۃ القدر ، یوم جمعہ، ایام بیض، یعنی ہر قمری مہینے کی ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ وغیرہ مگر شب براء ت کی عبادت کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔

  • اَلصَّلاَ ۃُ الْاَلْفِیَۃُ : نصف شعبان کی رات کی جانے والی ایک عبادت اَلصَّلَاۃُ الْاَلْفِیَۃُ ہے۔یہ سورکعت نماز ہے اور ہر رکعت میں سورۃ الاخلاص دس مرتبہ پڑھی جاتی ہے۔ اس طرح سورۃ الاخلاص کی کل تعداد ایک ہزار مرتبہ ہو جاتی ہے۔

برعظیم پاک وہند میں اس نماز کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے۔ لوگ غروب آفتاب سے کچھ پہلے ہی مساجد میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ فرض نمازیں ادا نہ کرنے والے بھی یہ نماز پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ اس رات کی برکت سے ان کے سابقہ تمام گناہ اور خطائیں معاف ہو جائیں گی اور ان کی عمر، کاروبار اور رزق میں برکت ہو جائے گی۔ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات میں کوئی مخصوص نماز نہیں پڑھی اور نہ خلفاے راشدینؓ ہی نے اور نہ ائمہ دین امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ ، امام ثوریؒ ، امام اوزاعیؒ ، اور امام لیث ؒ میں سے کسی نے اسے قبول کیا ہے۔

اس بارے میں جو روایات منقول ہیں بالاتفاق تمام اہل علم اور محدثین کے نزدیک موضوع ہیں۔ اس کی ابتدا کے بارے میں علامہ مقدسی ؒ فرماتے ہیں: ’’ہمارے ہاں بیت المقدس میں نہ صلوٰۃ الرّغائب  (جو رجب کے مہینے میں پہلے جمعہ کو ادا کی جاتی ہے ) کا رواج تھا،      نہ صلوٰۃِ شعبان کا۔ صلوٰۃ شعبان کا رواج ہمارے ہاں سب سے پہلے اس وقت ہوا جب ۴۴۸ھ میں ایک شخص ’ابن ابی الحمراء ‘ نابلس سے بیت المقدس آیا۔ وہ بہت اچھا قرآن پڑھتا تھا۔ وہ شعبان کی پندرھویں تاریخ کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کھڑا ہوا۔ اس کی حسنِ قراء ت سے متاثر ہو کر ایک شخص اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا، پھر ایک اور پھر ایک اور، اس طرح کافی لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر وہ دوسرے سال بھی پندرھویں شعبان کی شب آیا اور حسب سابق لوگوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھی۔ پھر سال بہ سال اسی طرح ہوتا رہا اور یہ بدعت زور پکڑ گئی، بلکہ گھر گھر پہنچ گئی اور اب تک جاری ہے‘‘۔

مُلّا علی قاری صَلَاۃُ الْاَلْفِیَہُ کو موضوع قرار دیتے ہیں۔ مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری کہتے ہیں کہ: نصف شعبان کے روزے کی فضیلت میں مجھے کوئی صحیح اور مرفوع حدیث نہیں ملی۔ (تحفۃ الاحوذی، ج۳، ص ۵۰۵)

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اضافے اصل دین میں ہوتے رہتے ہیں اور فتہ رفتہ دین کا حصہ بن جاتے ہیں ، یوں دین اسلام کی اصل شکل مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔

  • سلامی روزہ: استقبالِ رمضان کے طور پر ، سلامی روزہ شعبان کے آخر میں رکھا  جاتا ہے۔ یہ روزہ نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا اور نہ کسی اور کو رکھنے کا حکم دیا۔    حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب نصف شعبان باقی رہ جائے تو اس کے بعد روزہ نہ رکھو‘‘۔ (ترمذی )

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: ’’رمضان سے ایک یا دو دن پہلے کوئی شخص روزہ نہ رکھے، البتہ وہ شخص جو اپنے معمول کے مطابق روزے رکھتا آ رہا ہے وہ رکھ سکتا ہے‘‘ (بخاری ) ۔یعنی کسی کا فرض روزہ رہتا ہو تو وہ رکھ لے یا وہ شخص جو پیر یا جمعرات کے مسنون روزے رکھتا ہے اور وہ دن رمضان سے پہلے آ رہے ہوں تو ایسا شخص روزہ رکھ سکتا ہے۔

  • مخصوص اذکار و حلقے: نصف شعبان کی رات لوگ مسجدوں میں حلقہ بنا کر بیٹھتے ہیں اور ہرحلقے کا ایک ذمہ دار ہوتا ہے ۔ دیگر افراد ذکر اور تلاوت میں اس کی اقتداء کرتے ہیں، مثلاً کلمہ طیبہ یا دوسرے اذکار کو خاص طرز اور ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں۔یہ خود ساختہ اعمال ہیں جن کی دلیل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔

نصف شعبان کی رات اور مختلف رسومات

  • قبرستان جانا: نصف شعبان کی رات کے بارے میں ایک بات مشہور کر دی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بقیع کے قبرستان تشریف لے گئے اور دلیل کے طورپر مندرجہ ذیل روایت پیش کی جاتی ہے:

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے پاس ہوتی تو آخرِ رات میں بقیع (قبرستان ) کی طرف نکلتے اور کہتے :

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُوْمِنِیْنَ وَاَتَـاکُمْ مَا تُوْعَدُوْنَ غَدًا مُؤَ جَّلُوْنَ وَاِنَّـا اِنْ  شَا ءَ   اللہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ  اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ  لِاَھْلِ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ  ( مسلم ، کتاب الجنائز، باب ما یُقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا ، حدیث ۱۶۷۱) سلام ہو  تم پر اے گھر والو مومنو! جس کل کا تم سے وعدہ تھا کہ تمھارے پاس آنے والا ہے،  وہ تمھارے پاس آ چکا اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ !  بقیع غرقد والوں کو بخش دے۔

اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نصف شعبان کی رات کو خاص طور پر قبرستان جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ آپؐ اپنے معمول کے مطابق قبرستان گئے تھے۔

  • قبر پر لکڑی گاڑنا: قبر پر لکڑی گاڑ کر مُردے کے حسب حال کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور اس سے باتیں کی جاتیں ہیں، دعائیں اور گریہ وزاری کی جاتی ہے ۔ ان اعمال کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
  • روحوں کی واپسی: بعض لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خاندان کی میّتوں کی روحیں  اس رات اپنے گھر آتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ ان کے لیے کیا پکایا گیا ہے۔ چنانچہ لوگ مٹھائیاں، حلوے اور دیگر اشیا بنانے کا اہتمام کرتے ہیں اور انھیں گھروں میں مخصوص مقامات پر رکھا جاتا ہے تا کہ میّت کی روح وہاں آ کر خوش ہو۔ اس طرح گھروں کو صاف کیا جاتا ہے۔ یہ من گھڑت اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ کیونکہ قرآن اور سنت کے مطابق نیک روحیں عِلّیین میں اوربری روحیں سِجّین میں ہوتی ہیں۔ان روحوں کا یہ حصار توڑ کر دنیامیں آ جانا گویا اللہ کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے:

وَمِنْ وَّرَاۗىِٕہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۝۱۰۰ (المومنون۲۳: ۱۰۰ ) اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے، دوسری زندگی کے دن تک۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک شبِ برأ ت کے موقعے پر ختم کی رسم ادا نہ کی جائے تو میت کا شمار مردہ میں نہیں ہوتا اور اس کی روح معلق رہتی ہے۔ یہ بھی ایک غلط عقیدہ ہے جس کا ثبوت قرآن مجید یا احادیث مبارکہ میں نہیں ملتا۔

  • مُردوں کی عید: بعض لوگ نصف شعبان کو مُردوں کی عید کہتے ہیں۔ ان کے مطابق عید الفطر زندوں کی عید، جب کہ شبِ براء ت مُردوں کی عید ہے۔ اگر کوئی مر جائے تو شبِ برأ ت کی فاتحہ دلائے بغیر کوئی خوشی کا دن نہیں منایا جا سکتا ۔ یہ بھی ایک من گھڑت بات ہے۔
  • حلوہ پکانا: نصف شعبان کے دن حلوہ پکا کر تقسیم کرنا بھی ایک ضروری امر بن چکا ہے اور اس فعل میں عوام کی اتنی بڑی تعداد شامل ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جنگ ِ اُحد میں شہید ہوئے تو ان کو حلوہ بنا کر کھلایا گیا۔ حالا ں کہ جنگ ِ اُحد شوال میں ہوئی اور حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی ؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اتباع میں دانت شہید کیے اور انھوں نے حلوہ کھایا۔ اس روایت میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔ اس طرح کی بے بنیادباتوں کی ایک طویل فہرست پائی جاتی ہے۔

  • چراغاں و آتش بازی: گھروں ، چھتوں، مسجدوں، درختوں اور قبرستانوں وغیرہ پر چراغاں کرنا، قندیلیں روشن کرنا، پٹاخے چھوڑنا، آتش بازی کرنا اور پوری رات اس کھیل تماشے کے ساتھ جاگ کر گزارنا، نصف شعبان کی رات میں ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ ہندوئوں کی دیوالی ، مجوسیوں کی آتش پرستی کی نقل کے سوا کچھ نہیں ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلم اقوام کی مشابہت سے سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ  مِنْھُمْ (سنن ابی داؤد ، کتاب اللباس، باب فی بس الشّھرۃ، حدیث ۳۵۳۰) جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انھی میں سے ہے۔

ضعیف روایات

نصف شعبان کی رات کی فضیلت سے متعلق جو روایات بیان کی جاتی ہیں وہ نہایت ضعیف ہیں جن سے استدلال کرنا کسی طور درست نہیں، مثلاً :

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ماہِ رمضان کے بعد کس ماہ میں روزہ رکھنا افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ماہِ رمضان کی تعظیم میں شعبان کا روزہ ۔ پھر دریافت کیا کہ کس ماہ میں صدقہ وخیرات کرنا افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:ماہِ رمضان میں صدقہ کرنا۔

امام ابن الجوزی نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا کیوںکہ اس کا ایک راوی صدقہ بن موسیٰ درست نہیں۔ ابن حبان نے کہا کہ صدقہ جب روایت کرتا ہے تو حدیثوں کو الٹ دیتا ہے۔ امام ترمذی ؒ نے کہا کہ محدثین کے نزدیک صدقہ ، قوی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ روایت ابو ہریرہؓ کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں بیان ہے کہ ماہِ رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کا ہے۔

  • اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات نبی اکرم صلی اللہ    علیہ وسلم کو بستر سے گم پایا۔ میں آپ ؐ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ ؐ بقیع میں ہیں۔ مجھے دیکھ کر    نبی اکرم ؐنے فرمایا: کیا تو اس بات کا خوف کھاتی ہے کہ تجھ پر اللہ اور اس کا رسولؐ ظلم کریں گے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ ! میں نے سمجھا کہ آپ ؐ کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ ماہِ شعبان کی نصف شب کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔

امام ترمذی ؒ نے کہا ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی اس حدیث کو ہم حجاج کی سند سے جانتے ہیں اور میں نے امام بخاری ؒ سے سنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام دارقطنی ؒ نے کہا: یہ حدیث کئی سندوں سے مروی ہے اور اس کی سند مضطرب ہے اور غیر ثابت ہے۔ علامہ البانی ؒ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

موضوع روایات

بہت سی روایات تو ’موضوع‘، یعنی من گھڑت ہیں جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا بھی گناہ ہے۔

  • رجب اللہ کا مہینہ ہے، اور شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔

حافظ ابوالفضل بن ناصرؒ نے اس کے ایک راوی ابو بکر نقاش کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ دجال اور حدیث گھڑنے والا ہے۔ ابن وحیہؒ ، علامہ ابن الجوزیؒ ، علامہ صغانیؒ اور علامہ سیوطیؒ نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔

  • اے علیؓ ! جو شخص نصف شعبان کو سو رکعت نماز پڑھے اور اس کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الاخلاص دس مرتبہ پڑھے۔ اے علیؓ ! کوئی بندہ نہیں ہے جو ان نمازوں کو پڑھے مگر اللہ تعالیٰ اس کی ہر حاجت اور ضرورت کو جو وہ اس رات مانگے پوری کر دیتا ہے۔

علامہ ابن الجوزی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے موضوع ہونے میں مجھے کوئی شک وتردد نہیں ہے اور اس حدیث کے تینوں طُرقُ (طریقوں) میں مجہول اور انتہائی درجے کے ضعیف راوی ہیں۔ علامہ ابن القیم ؒ، علامہ سیوطیؒ اور علامہ شوکانی ؒنے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے۔

جو شخص نصف شعبان کو بارہ رکعت نماز پڑھے جس میں ہر رکعت میں( قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ )  تیس بار پڑھے تو وہ نماز مکمل کرنے سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانا نہ دیکھ لے گا۔

علامہ ابن القیمؒ، علامہ سیوطی ؒاور علامہ ابن الجوزی ؒنے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ اس کے راویوں میں ایک پوری جماعت مجہول لوگوں کی ہے۔

  • حضرت علیؓ بن ابو طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب نصف شعبان ہو تو تم اس رات قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے بعد آسمانِ دنیا میں نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی ہے مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں! کوئی ہے روزی کا خواستگار کہ میں اسے روزی دوں! کوئی ہے مصائب کا گرفتار کہ میں اسے عافیت دوں اور کوئی ہے ___اور کوئی ہے ___یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جائے۔

علامہ بوصیریؒ کے مطابق اس کے راویوں میں ابو بکر بن عبداللہ بن محمد بن ابی سبرہ ہے، جس کے بارے میں امام احمد ؒ، ابن معینؒ اور حافظ ابن حجرؒ وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔

خلاصۂ بحث : ان روایات کے مطالعے کے بعد بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جشنِ شبِ برأ ت اور اس میں کی جانے والی عبادات کی شرعی حیثیت کیا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام عبادات کا اصل مقصد اللہ کی خوشنودی اور رضا کا حصول ہے۔ ہمیں بالکل اختیار نہیں کہ ہم خود سے دین میں ، کسی عبادت کو کسی خاص وقت یا طریقے سے متعین کر لیں، جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں نہیں دیا۔ اگر ہم ایسا کریں تو ہم اللہ کے دین کو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو نامکمل سمجھنے کی عظیم غلطی کر رہے ہیں اور ایک بدعت کے مرتکب ہو رہے ہیں (نعوذ باللہ من ذلک )۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَہَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۲۱ (الشعراء ۴۲: ۲۱) پھر میں تمھارے خوف سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل فرما لیا۔

لہٰذا ضروری ہے کہ جس وقت، طریقے ، تعداد اور انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی، یاکرنے کا حکم دیا ہے، ہم ان کو اسی طرح ادا کریں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱(الحجرات ۴۹: ۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کُلُ مُحْدَثَۃٍ  بِدْعَۃٌ  وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَ کُلُّ ضَلاَلَۃٍ فِی النَّارِ (النسائی ، کتاب صلوٰۃ العیدین، کیف الخطبۃ، حدیث ۱۷۶۷) ہر نیا کام (دین میں داخل کرنا) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں جانے والی ہے۔

عبادات میں آپ ؐ کے طریقے کی من وعن پیروی میں ہی ہماری دین ودنیا کی کامیابی اور اُخروی نجات کا دارومدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ج     وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج    وَاتَّقُوا اللہَ ۝۰ۭ   اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۷ۘ (الحشر۵۹: ۷)جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جائو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

ایسی بہت سی غیر تحقیق شدہ باتیں ہمارے دین میں داخل ہو چکی ہیں۔ اکثر جہالت ، لا علمی یا نادانی کے سبب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور بعض اوقات جانتے بوجھتے غلو کرتے ہوئے ایسا کیا جاتا ہے۔ ان سے اجتناب بہت ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّار (بخاری ، کتاب العلم، باب اِثم من کذب علی النبی، حدیث:۱۰۶)  جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ گھڑا اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اصل دین پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !