جدید سرمایہ دارانہ اقتصادیات کا علم تین بنیادی مفروضوں پر قائم ہے:
قلت کا اظہار بازار میں اشیا کی قیمتوں کی شکل میں ہوتا ہے۔قیمتوں کو دیکھ کر کارخانہ دار ، زمین دار، دست کار یا بیوپاری یہ طےکرتے ہیں کہ کس چیز میں منافع زیادہ ہے اور کس میں کم؟ کون سی چیز کم یا زیادہ پیدا کرنی چاہیے؟ سرمایہ دارانہ اقتصادی اصول کے مطابق اشیا کی پیداوار اور تقسیم کا نظام قیمتوں کو مدنظر رکھ کر افراد کی اکثریت کی ضرورتیں اس طرح سے پوری کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خواہشات کی تسکین فراہم ہو،اور کسی اخلاقی نظریے کی بنیاد پر اس میں رَدو بدل کیا جائے تو وہ اجتماعی خوش حالی کے بجائے بدحالی کی طرف لے جائے گا۔ کیونکہ اس میں ایک فرد یا ادارے کی منفعت میںاضافہ کرنے کے لیے دوسرے کا نقصان کیا جائے گا، اور حق دار سے اُس کا حق چھین کر نا حق دار کو دے دیا جائے گا۔ اس لیے سرمایہ دارانہ فکر کے مطابق بازار، منڈی یا مارکیٹ کو اقتصادی منصوبہ بندی پر ترجیح دی گئی۔ بازار کو انسانی حاجات کی تسکین کا نہایت معقول اورموزوں نظام قرار دیا گیا اور منصوبہ بندی کو اسے مسخ کرنے کا ذریعہ سمجھا گیا۔
سوال یہ ہے کہ بازار کو انسانی ضروریات کی تسکین کا نہایت معقول اور واحد ذریعہ سمجھا جائے یا نہیں؟ بازار کی موزونیت اورحقانیت ثابت کرنے کے لیے بورژوا نظریہ سازی اور تحقیق کا تمام کام ہوا ہے اور اعداد و شمار اکٹھے کیے گئے ہیں۔ نزول اسلام کےوقت بازار اور تجارت کے ذریعے انسانی ضروریات کی تسکین کے نظام پر کوئی بنیادی اعتراض نہیں اُٹھایا گیا۔ لیکن اس حقیقت کوتسلیم کیا گیا تھا کہ بازار میں ہونے والے اقتصادی فیصلے بعض صورتوں میں نا قابلِ قبول نتائج پیدا کرتے ہیں۔ بازار کی ناکامی کی ان شکلوں کو بازار کے قانون سے استثنا کی صورت قرار دیا جا سکتا ہے۔ استثنا کی ان صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مخلوط یاتکثیر ی نظام کی فکری بنیادیں فراہم کی گئیں۔ قحط، سود، اور غُلامی ، بازار میں قیمتوں کے منصفانہ یا معقول طریقے سے تعین استثنا کی شکلیں تھیں۔
ان تینوں صورتوں سے نبٹنے کے لیے تین مختلف اصول تجویز کیے گئے۔ قحط میں بیت المال سے امداد، اورفی سبیل اللہ انفرادی امدا د کا نظام تجویز کیا گیا۔یہ بیت المال اور مواخات کی شکل میں بازار کے متوازی تسکینِ ضرورت کے نظام کی شکل تھی اور ایک تکثیری/مخلوط اقتصادی نظام کی بنیاد۔ قدرتی وجوہ سے پیدا ہونے والی قلت کے بازار کی معقولیت پر مبنی قلت کے دائرہ کار سے استثنا کی کئی شکلوں کا ذکر قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ میں ملتا ہے۔سود کی صورت میں بازار کے طے کردہ اصول کو رَد کر دیا گیا، اور مالی وسائل پر سُود کی شکل میں منفعت حاصل کرنے کی نفی کر دی گئی۔ غلامی، جس میں انسانوںکو اشیا کی طرح دوسرے انسانوں کی ملکیت کو تسلیم کیا گیا، انسانوں کی بازار میں خرید و فروخت رائج ہوئی ، اُسے نہ صرف نا پسند کیاگیا، اسے مٹانے کے لیے متفرق اقدامات بھی کیے گئے، البتہ حالاتِ زمانہ کی مناسبت سے منسوخ نہیں کیا گیا۔ غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کرنے کو کارِ ثواب قرار دیا گیا، اور اُس کے نتیجے میں بتدریج غلامی ختم ہو گئی۔ جسے چند صدی پہلے ’انسان کی آزادی‘ پر مبنی سرمایہ داری نظام نے زور شور سے بحال کیا اور ترویج دی۔
مسلم روایت میں بازار میں قائم ہونے والی قیمتوں کی معقولیت سے استثنا کو قبول کرنا اور متبادل اقتصادی منطق کو اختیار کرنے کی اجازت دینا سرمایہ دارانہ وحدانی سوچ کے مقابلے میں ایک تکثیری، متوازن، اور مبنی بر حقیقت سوچ ہے۔ اس کے فکری اور عملی مضمرات پر آگے گفتگو ہوگی۔ انیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ فکر کے خاتمے کے لیے اُبھرنے والی مارکسی سوچ کی بنیاد بھی بازار میں قیمتوں کے معقول تعین کے ایک بنیادی استثنا کی طرف توجہ دلانے اور اس ظالمانہ استثنا کو ختم کرنے کی جدوجہد تھی۔یہ استثنا کارل مارکس کے مطابق بازار میں اُجرتوں کے تعین کی شکل میں تھا۔ اور بازار میں متعین ہونے والی اُجرت مزدور کی طرف سےپیداوار میں کیے گئے قدر کے اضافے سے ہمیشہ کم متعین ہوتی تھی ۔فکری طور پر اس منطق اور استثنا سے نبٹنے کے لیے مسلم روایت میں متبادل اور متوازی نظام قائم کرنے کی منطق میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ بازار پر مبنی تقسیمِ دولت کی معقولیت سے ایک اوراستثنا اجتماعی اشیاکی تخلیق اور تقسیم کے نظام کا ہے۔
انفرادی اشیا وہ ہیں، جن سے افراد براہ راست اپنی انفرادی ضروریات کی تسکین کرتے ہیں، جیسے خوراک، لباس ، رہایش وغیرہ۔ لیکن اجتماعی اشیا وہ ہیں جن کا افراد کو براہِ راست فائدہ تو پہنچتا ہے لیکن معاشرے کو اُس کا اجتماعی فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ معاشرے کی ترقی اور صحت کا انحصار بہت حد تک ان اجتماعی اشیا کی پیداوار پر ہے، جیسے تعلیم، تحقیق،صحت ، سڑکیں، جنگلات اور قدرتی وسائل کا تحفظ، موسمیاتی تبدیلی کا تدارک۔ یہ اجتماعی اشیا سماجی ضروریات کو کما حقہٗ پورا کرنے کے لیے بازاری نظام خود بخودپیدا نہیں کرتا۔ اس کام میں ریاستی منصوبہ بندی اور عملی اقدام نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جس سے نا پسندیدگی ظاہر کرنےکے لیے بورژوا نظریہ دان ’سوشلزم‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ بیسویں صدی کے آخری عشروںمیں سوویت یونین کے بعد سب سے بڑی منصوبہ بندی پر قائم معیشت امریکی محکمۂ دفاع تھا۔ امریکی کاروباری کارپوریشنوںکو سرکاری وسائل سے تحقیق کرنے کے لیے جتنے خطیر وسائل ملتے تھے، اور اُنھیں دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے جس طرح دل کھول کر سرکاری خزانہ خالی کیا گیا، اُسے سامنے رکھتے ہوئے امریکی دانشور گور وڈال نے کہا تھا کہ ’’امریکی نظام، سرمایہ داروںکے لیے سوشلزم اور غریبوں کے لیے سرمایہ داری کا نظام ہے‘‘۔
اب آئیے بازار کے دائرہ کار سے باہر متوازی اقتصادی صورتوں کو قائم کرنے کے بارے میں اسلام، سرمایہ داری اور اشتراکی خصوصیات کی تفصیل کو جانچنے کی طرف۔ اسلام نے قحط، سود اور غلامی کو بازار کے نظام سے استثنا کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ مارکس نےکہا تھا کہ بازار میں اُجرتوں کا جو تعین ہوتا ہے، اُسے بھی بازار میں معقول طریقے سے طے کر دہ نظام سے استثنا حاصل ہے۔ کیوںکہ مزدور کو ملنے والی اُجرت قدر میں ہونے والے اُس اضافے سے کم ہے، جو اُس کی محنت کے نتیجے میں پیداوار میں برپا ہوتا ہے۔ اگرمزدور کی اُجرت اور پیداوار کی قدر میں اُس کی طرف سے کیا جانے والا اضافہ برابر ہوں تو مُنافع حاصل ہی نہیں ہو گا۔مزدور منڈی میں سودے بازی کے ذریعے سے منصفانہ اُجرت اس لیے حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ پیداوار کے ذرائع سرمایہ دار کی ملکیت ہیں، جس کی حیثیت اجارہ دار کی سی ہے، یوں سرمایہ دار اور مزدوروں میں مقابلے کی تلخ فضا موجود ہے۔ اس لیے اُجرت کے لیے سودا بازی کرنے والے دو فریقوں میں ایک مستقل بگاڑ کی بنیاد موجود ہے۔ یہ بازار کی معیشت کی ناکامی ہے۔ اس کا حل کارل مارکس نے ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت قائم کرنے کی شکل میں تجویز کیا تھا۔
اب مسلم روایت، سرمایہ دارانہ روایت اور مارکسی روایت میں بازار کے نظام کے مسخ ہونے کی صورت یا اُس کی معقولیت کے دائرۂ کار سے استثنا کی صورت کے بارے موجودہ زمانے میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں، اُن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اسی تجزیے سے مسلم اقتصادی فکر کے خدوخال واضح ہوں گے۔یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ وسائل کی قلت، نفسیاتی رویے (سرمایہ دارانہ نظریہ معقولیت) ، قدرتی اور سماجی حالات، یا انفرادی قوت مسابقت میں کمی، یعنی کسی بھی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔ بورژوا فکر نے قلت کی ان شکلوں میںتاریخی اور معاشرتی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے فرق کرنے اور متنوع اور تکثیری حل کو مرکزی موضوع بنانے سے گُریز کیا ہے۔بازار میں بگاڑ کی بعض شکلوں کو تسلیم تو کیا ہے، لیکن تجزیاتی طور پر ہمیشہ ایک خیالی مکمل مسابقت والے بازار کو سامنے رکھ کرمسائل کے حل پیش کیے۔ اسلام اور مارکسیت نے بازار کے بگاڑ یا ناموزونیت کی شکلوں کو تسلیم کیا ہے اور اُس کے غیرسرمایہ دارانہ حل تجویز کیے ہیں اور اُن کی معقولیت پر اصرار کیا ہے۔
قرآن میں قدرتی قلت کا حل حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیزِ مصر کو بتایا تھا۔ اس تجویز میں قحط کی قلت سے نمٹنے کے لیے بازار کی طےکردہ تقسیم کے بجائے حکومت کی منصوبہ بندی کو لوگوں کی ضرورت کے مطابق اناج تقسیم کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ اسی سے بہت حد تک ملتے جلتے اصول کی بنیاد پر بیسویں صدی کے دوران سوشلسٹ معیشتوں کی بنیاد رکھی گئی تھی تھی۔ قحط سے پیدا ہونے والی قلت کا دوسرا حل ریاستِ مدینہ کے زمانے میں حضرت عثمان غنیؓ نے پیش کیا تھا، اور بازار سے کم قیمت پر یا بلا قیمت اناج ضرورت مندوں میں تقسیم کیا تھا۔ حالانکہ یہ حل بازار کے اصول پر قائم نہیں تھا، اور نہ منصوبہ بندی کے اصول پر کارفرما تھا، بلکہ خوفِ خدا،عفو اور مواخات کی فکر پر قائم تھا۔قحط سےنبٹنے کے ان دو متبادل طریقوں سے مسلم فکر میں ایک تکثیری اقتصادی راستے کا تصور ملتا ہے۔ معمول کے حالات میں انفرادی سطح پر قلت کے جواب میں قناعت ، شُکر اور فقر کی روایت مسلم تاریخ میں لگاتار دکھائی دیتی ہے۔
اس طرح سے قلت ایک تاریخی اور معاشرتی پس منظر میں با معنی طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تجزیاتی طریقہ مارکسی طریقے کےقریب تر ہے۔ لیکن اسلام کا حل رضاکارانہ اور اجتماعی دونوں طریقوں سے بھائی چارے کاہے۔ رضاکارانہ بھائی چارے کی مثال مواخات مدینہ کی صورت میں انسانیت کے سامنے تھی،اور اجتماعی ، ریاستی قوت کی بنیاد پر بھائی چارے کی مثال، بیت المال کا نظام تھا۔ گویا اسلامی ریاست میں مخلوط معیشت کا نظام سرمایہ دار اور سوشلسٹ ریاستوں میں اس تصور کی قبولیت حاصل کرنے سے پہلے موجود تھا۔ بورژوا اور سوشلسٹ فکر دونوں میں صرف بازار یا صرف منصوبہ بندی پر مبنی وحدانی معیشت کا تصور طویل عرصے تک قائم رہا۔ ان دونوں نظاموں کے اندرونی بحرانوں کی شدت کے نتیجے میں عالمی سرمایہ داری نظام نے ۱۹۲۹ء میں اور سوشلسٹ کیمپ نے ۱۹۹۲ء میں مخلوط معیشت کو فکری، اقتصادی اور سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کرکے ایک مختلف سفر کا آغاز کیا۔
لیکن مسلم فکر، مخلوط معیشت کے تصور پر سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ فکر سے مختلف راہ اختیار کرکے پہنچی۔ یہاں پر یہ غورکرنا ضروری ہے کہ عصرحاضر میں مسلم فکر میں اقتصادی مسئلے کو کس طرح دیکھا گیا؟ مسلم فکر میں قلیل وسائل سے کثیر منفعت حاصل کرنااقتصادی سرگرمی کا نقطۂ آغاز نہیں ہے۔ روزی کمانا اور خرچ کرنا دونوں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اسلام کے معاشی و سماجی نظامِ فکروعمل میں ضرورتوں کومحدود کرنا اور ضرورت سے زیادہ مستحقین پر خرچ کرنا ایک بڑا بنیادی اور رہنما اصُول ہے۔ کمانا اور خرچ کرنا دونوں اقتصادی کے علاوہ دینی اور مذہبی سرگرمیاں ہیں۔ خوش حالی کے لیے تگ و دو کرنا اور اس میں دوسروں کو شریک کرنا فرد، برادری اور ریاست تینوں کی ذمہ داری ہے۔
اس اصول کے پیش نظر میرے خیال کے مطابق اسلامی اقتصادی فکر کا نقطۂ آغاز تزکیہ بنتا ہے۔ زکوٰۃ، صدقات، خیرات،مواخات سب تزکیہ کی شکلیں ہیں۔ اس لیے اقتصادی مسئلہ نفس کی لالچ اور خود غرضی کی آلائشیں دُور کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی محدود فکری بنیاد کے تنقیدی جائزے میں میری معلومات کی حد تک کسی جدید اسلامی اقتصادی مفکر نے یہ سوال نہیں اُٹھایاکہ ’’وسائل کی قلت کے حوالے سے اقتصادی معاملات کے حل کی تشخیص میں کوئی نقص یا قباحت ہے یا نہیں؟‘‘
مارکسی فکر میں بھی بازار کے معقول اور منصفانہ نظام سے استثنا کی دو شکلوں پر بنیادی اعتراض کیا گیا ہے: ایک یہ کہ بازارکا نظام ایک تاریخی نظام ہے اور تاریخی اورسماجی سیاق و سباق سے الگ کر کے اسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ دوسرے، دو جرمن مارکسی ماہرین نے قدرتی اور سماجی قلت میں فرق کا یہ نکتہ بیان کیا تھا کہ مارکیٹ میں موجود قلت قدرتی نہیں ہے بلکہ سراسر ملکیت کی نامنصفانہ اور جبری سماجی تقسیم کا نتیجہ ہے۔ اس لیے قلت کا بازار میں حاصل ہونے والا حل ایک قدرتی ، منصفانہ ، اور معقول حل نہیں ہے‘‘۔یہ سرمایہ داری نظام کی پیدا کی ہوئی قلت کو دوبارہ پیدا کرتا ہے۔ جدید اسلامی ماہرین کا اس چیلنج کا باریک بینی سے جواب سامنے آنا باقی ہے۔
سرمایہ داری نظام نے بازار کے راستے دولت کی تقسیم کا جو نظام قائم کیا، اُس میں مزدوروں کا حصہ اتنا کم تھا کہ وہ بازار میں اپنی محنت، لگن اور دانش سے پیدا کی ہوئی اشیا خود نہیں خرید سکتے تھے۔ اس کے نتیجے میں ۱۹۲۹ءمیں پوری سرمایہ دار دُنیا میں ’کساد بازاری‘ (Recession) کا ایسا شدیدبحران آیا کہ اقتصادی نظام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ اس سے مارکس کی یہ پیشین گوئی تو صحیح ثابت ہوگئی کہ پیداواری تعلقات پیداواری قوتوں کی راہ میں رُکاوٹ بن گئے اور سرمایہ داری نظام کا پہیہ جام ہو گیا۔ لیکن یہ تجزیہ صحیح ثابت نہیں ہوا کہ سرمایہ داری نظام میں اصلاح کے ذریعے ترقی کی گنجایش ممکن نہیں ہے۔ بورژوا نظریہ ساز جان مینارڈ کینز نے اس موقعے پر معیشت میں ریاستی مداخلت کے ذریعے نئے روزگار اور نئے منصوبوں کی وکالت کی، تاکہ اشیا طلب کرنے کے لیے مزدورطبقے کے پاس قوت خریدآئے اور فیکٹریوں کا پہیہ چلنا شروع ہو۔
ترقی کے سوال پر کارل مارکس کی سوچ سرمایہ دارانہ سوچ سے مختلف نہیں تھی اور اُس کے پیروکاروں کے نزدیک ذرائع پیداوارکی ترقی ہی قلت کا اجتماعی اور تاریخی حل تھی اور مادی دولت کی کثرت ہی ترقی کو ناپنے کا پیمانہ تھا۔ اس میں مزدوروں کا جائزمعاشی حصہ مانگنے کے راستے میں رُکاوٹ پیداواری تعلقات کا نظام تھا۔ اُنھیں بدلنے کے لیے ذرائع پیداوار پر مزدور طبقے کا قبضہ ضروری تھا۔اس لیے تبدیلی پُر تشدد کارروائی اور مزدور طبقے کی پارٹی کی قیادت کے بغیر مُمکن نہیں ہے۔ یہ نظریہ جتنا سادہ اورقابل فہم نظر آتا ہے، اس کی عملی شکل اُتنی ہی پیچیدہ تھی اور ہے۔ اس نظریہ سازی پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں ہوئی۔ روس ، چین اور دیگر ممالک میں ذرائع پیداوار کی ملکیت نے مزدوروں کی اقتصادی خوش حالی کی جو کوششیں کیں، وہ بازار کی معیشت کے لیے گنجایش پیدا کرنے اور آخرکار مخلوط معیشت قائم کیے بغیر کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس میں بورژوا تحقیق نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مزدورطبقے کا حق لینے کے لیے سکینڈے نیویا کے ملکوں کے تجربے اور تھامس پکٹی کی تحقیق نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ ٹیکس کے نظام میں عوامی فلاح کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی پسند انہ ٹیکس پر مبنی نظام، ریاستی ملکیت پر مبنی نظام سے بدرجہا بہتر اور موزوںہے ۔
سرمایہ داری نظام کی فکر اور ہیئت کی بنیادوں کے متبادل تصور کی بنیادیں اُٹھائے بغیر سود کے خاتمے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کےاجزا کو سرمایہ داری نظام کے ساتھ ٹانک دینے سے اسلامی معیشت کا نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ سود کی ممانعت سرمائے کی ایک خاص شکل پر معاوضہ لینے کی ممانعت ہے۔ قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔
یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ سود کیا ہے؟ کیا روپے پر روپیہ کمانا سود ہے؟ ایک مقررہ شرح پر قرض پر معاوضہ مانگناسُود ہے یا ایک خاص حد سے زیادہ شرح پر قرض کا معاوضہ مانگنا سُود ہے ؟ یا کاروبار میں شراکت کے بغیر ، اور نفع اور نقصان دونوں میں شراکت کے بغیر مالی سرمائے پر صرف پہلے سے طے شدہ شرح پرمنافعے کا تقاضا کرنا سُود ہے؟ اس آخری نوعیت کی کمائی کو اگر سُود تصور کیا جائے تو پھر اقتصادی سرگرمی کی دستاویز بندی (documentation) کرنا اس کا لازمی جُزو بنتی ہے۔پاکستان میں اقتصادیات کی دستاویز بندی کی بعض مذہبی طبقوں کی طرف سے ہمیشہ مخالفت کی گئی ہے۔ وہ بنکوں میں رقم جمع نہ کرانے کی ایک بڑی بنیاد بتاتے ہیں کہ بنک سُود کا کاروبار کرتے ہیں۔
بعض حلقے آمدنی چھپانے اور ٹیکس نہ دینے کا یہ جواز بناتے ہیں کہ ’’زکوٰۃ دینا تو ہم پر فرض ہے لیکن ٹیکس نہ دینا اور ٹیکس کو چھپانا کوئی ناجائز کام نہیں ہے‘‘۔ یہاں پر یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ زکوٰۃ نابرابری کے توڑ کا ایک طریقہ ہے، لیکن زکوٰۃ، ریاستی ٹیکس کا بدل نہیں ہے کیونکہ زکوٰۃ سب کے لیے نہیں بلکہ صرف مستحقین اور متعین مدات کے لیےہے اور ٹیکس مجموعی ریاستی اُمور کی ادائیگی کے لیے ہے۔ مگر بازار میں بگاڑ یا بازار کے نظام کی محدود دائرۂ کار میں افادیت، قدرتی طورپر مفت حاصل ہونے والی اشیا پر غاصبانہ قبضہ کر کے اُنھیں انفرادی ملکیت کی اشیا میں تبدیل کرنے کی صورتوں، اور اجتماعی اشیا کی پیداوار کرنے کی ضرورت کو توجہ کا موضوع بنایا جائے، تو مخلوط اقتصادی نظام کا فکری جواز پیدا ہوتا ہے۔ جدید فلاحی ریاست اس مخلوط معیشت کی ایک عُمدہ مثال ہے۔ اس وقت مسئلہ مخلوط معیشت کی موزونیت کو نہ ماننے کا نہیں بلکہ اُن پالیسیوں کا ہے جن کےذریعے معیشت کو چلایا جائے ۔ اس حوالے سے عالمی اور قومی دونوں سطحوں پر اسلحے کی پیداوار اور دفاعی اخراجات، قانونی اورغیر قانونی طریقے سے ٹیکس چوری اور چوری کی ہوئی رقم کی خفیہ ٹھکانوں میں ترسیل، اقتصادی نا برابری، اور انسانیت کش موسمیاتی تبدیلی بنیادی اہمیت کے حامل موضوعات ہیں۔ایک فلاحی ریاست کا قیام، اس کے لیے بجٹ کے اہداف اور منصوبہ بندی کا مربوط نظام بنیادی لوازمات ہیں۔
پاکستان میں ایک فلاحی ریاست کا قیام اور اقتصادی نظام کی کایا پلٹ کسی ایک سیاسی جماعت یا دھڑے کے بس میں نہیں ہے، بالکل اس طرح جیسے کہ دستور بنانا بھی کسی ایک سیاسی پارٹی کی رائے پر منحصر نہیں ہے۔ یہ کام قومی مشاورت، گہری تحقیق اور کُل جماعتی سوچ، اتفاق اور ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس پر مزید مباحثے اور مکالمے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس بنیادی اور ضروری کام کے لیے فکری اور سیاسی قیادت کہاں ہے کہ جس کی پشت پر قوم کا ایک قابلِ لحاظ حصہ کھڑا ہو اور جس کے پاس دیانت، علم اور شعور کی دولت بھی موجود ہے؟