ڈاکٹر طاہر حمید تنولی


پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی کتاب کتابیات اقبال  اقبالیاتی دنیا میں غیرمعمولی علمی اضافہ ہے۔ ڈاکٹر ہاشمی نے اپنی زندگی اقبالیات کی تفہیم کے ابلاغ اور فروغ کے لیے وقف کیے رکھی ہے۔ انھوںنے اقبالیات کے متنوع موضوعات پر کئی کتابیں لکھیں، لیکن کتابیات اقبال کو ان کی زندگی بھر کی علمی تحقیق اور جستجو کا ثمر قرار دیا جا سکتا ہے۔ علم کے حصول کے باب میں دو پہلو بہت اہم ہیں: ایک علم کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ علم کہاں ہے؟ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کتاب کتابیات اقبال دوسرے سوال کا شافی جواب ہے، جو دنیا کی اکتالیس زبانوں میں چھ ہزار سے زائد کتب، رسائل اور تحقیقی مقالات پر مشتمل ۱۷۳۲ صفحات پر محیط ہے۔

 کتابیات اقبال بلاشبہہ اقبالیاتی ادب کا ایسا ذخیرہ ہے، جو اہل علم اور اقبالیات کے محققین کے لیے اقبالیات کی متنوع جہتوں پر موجود تحقیقی مواد تک رسائی کا مستند ذریعہ ہے۔ کتابیات نگاری کی روایت کا آغاز مسلم دنیا سے ہی ہوا۔ اگر اس تناظر میں ہم کتابیات اقبال کو دیکھیں تو اس کا شجرۂ نسب حاجی خلیفہ کی کشف الظنون اور ابن ندیم کی الفہرست سے ملتا ہے۔ اقبالیات کا کوئی محقق مستقبل میں کتابیات اقبال سے مستغنی نہیں ہو سکے گا۔

کتابیات اقبالکے لیے مواد کہاں کہاں سے لیا گیا؟ خود ڈاکٹر ہاشمی صاحب کے بقول انھوں نے فٹ پاتھ سے لے کر اعلیٰ علمی مراکز تک، جہاں بھی ان کو رسائی میسر ہوئی، کتابیات اقبال کے مواد کے حصول کے لیے تگ و دو کی (ص۱۷)۔ اس دوران انھوں نے کتابیات نگاری کے اس بنیادی اور آفاقی اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھا کہ کتابیات نگار کو اس سے کوئی سرو کار نہیں کہ کون سی کتاب موافقانہ ہے یا مخالفانہ، اپنی نوعیت میں اہم ہے یا غیر اہم۔ انھوںنے کتابیات کے زمرے میں آنے والے ہر مواد کو اپنی کتاب کا حصہ بنایا (ص۲۵)۔

کتابیات اقبالپر اتنا پھیلاہوا کام بلاشبہہ یہ ایک ادارے کے کرنے کا تھا، لیکن ڈاکٹرہاشمی نے فردِواحد ہوتے ہوئے ادارے کی سطح کا یہ کام تنِ تنہا انجام دیا، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اتنا بڑا منصوبہ بغیر اغلاط کے مکمل کرنا خود ایک بہت بڑا علمی کارنامہ ہے، جسے ڈاکٹر ہاشمی علامہ اقبال ہی کا فیضان قرار دیتے ہیں (ص ۴۰)۔

کتابیات اقبالمیں علامہ اقبال کی سوانح، فکر و فن، فلسفہ، شخصیت اور شاعری کی مختلف جہات سے متعلقہ مواد کو گیارہ زمروں کے تحت شامل کیا گیا ہے:

۱- تصانیفِ اقبال۲-تراجم اقبال۳-کتب ِحوالہ۴-سوانحی کتابیں۵-فکر و فن پر تحقیق و تنقید۶-جامعاتی تحقیق۷-تشریحاتِ اقبال۸-منظوم کتابیں۹-متفرق کتابیں ۱۰-رسائل و جرائد کے اقبال نمبر۱۱-منسوباتِ اقبال/متعلقاتِ اقبال

کتابیات اقبالجیسے بڑے منصوبے میں متعلقہ مواد کے کلی احاطے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اقبالیاتی ادب ایک روز افزوں شعبہ ہے، جس میں ہر روز کسی نہ کسی تحریر اور تصنیف کا اضافہ ہورہا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے نہ صرف یہ کہ اس میں وہ تمام مواد شامل کیا ہے، جس تک ان کی رسائی ہو سکی بلکہ اس کے ساتھ اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا کہ اس کتاب میں کیا شامل نہیں ہے اور کتاب کے دیباچے میں انھوں نے اس نکتے کی وضاحت کر دی:

  • اقبال نمبروں کے ماسوا، متفرق رسائل و اخبارات یا کتابوں میں شائع ہونے والے متفرق مضامین کے حوالے، زیر نظر کتابیات کی حدود میں نہیں آتے۔(ص ۲۶)
  • بعض کتابوں کے عنوان (Title)میں اقبال کا نام آتا ہے،مگر ان کا موضوع اقبالیات نہیں، کچھ اور ہے۔ ان میں اقبال کا ذکر ضمناً آیا ہے۔ ایسی کتابوں کے حوالے کتابیات کے  دس ابواب میں شامل نہیں کیے گئے۔ تاہم، محض اس خیال سے کہ اقبالیاتی عنوان کی کتابوں کا حوالہ کتابیات میں نہ پاکر، بعض قارئین اسے کتابیات نگار کی بے خبری قرار دیں گے یا پریشان ہوں گے، ایسی معدودے چند کتابوں کی فہرست ضمیمہ نمبر ایک(اول) ’منسوباتِ اقبال‘ کے تحت دی گئی ہے۔کچھ کتابیں ایسی ہیں،جو علامہ اقبال کے خاص موضوعات (خودی، عشق، فقر، اجتہاد وغیرہ) یا اقبالیاتی شخصیات سے بحث کرتی ہیں،ان کا اندراج ’متعلقاتِ اقبال‘ کے تحت کیا گیا ہے۔(ص ۲۸)
  • کتابوں پر سالِ اشاعت کے ساتھ تاریخ و ماہ اشاعت کا اندراج نہیں کیا گیا، مگر رسائل کے اندراج میں ماہ و سالِ اشاعت (اور بعض صورتوں میں تاریخ بھی) بالالتزام درج کیے گئے ہیں۔
  • حوالوں اور اندراجات کو مقدور بھر مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تاہم بعض اندراجات سوفی صد مکمل نہیں ہوسکے۔ نامکمل حوالوں کو کتابیات سے خارج کردینے کے مقابلے میں، یہ زیادہ مناسب سمجھا گیا کہ کوئی حوالہ جس قدر بھی دستیاب ہو، اسے درج کردیا جائے تاکہ آئندہ اس کی تکمیل کے لیے بنیاد فراہم ہوجائے۔
  • بیش تر کتابوں اور رسالوں کے کتابیاتی کوائف، براہِ راست اور ذاتی ملاحظے کے ذریعے جمع و مرتب کیے گئے ہیں۔ جو کتابیں یا رسالے راقم کو دستیاب نہ ہوسکے اور ان کا حوالہ بالواسطہ دستیاب ہوا، ان کے اندراجات کے ساتھ، حصول معلومات کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
  • متعدد اقبالیاتی کتابوں اور رسالوں خصوصاً جامعات کے [بعض]تحقیقی مقالات تک رسائی نہیں ہوسکی، اس لیے اگر کسی اقبالیاتی کتاب کا حوالہ، اس کتابیات میں نظر نہ آئے تو سمجھ لیجیے کہ اس میںکتا بیات نگار کی کوتاہی سے زیادہ حالات کے جبر کو دخل ہے۔

محققین کے لیے کتابیات اقبال  نہ صرف اقبالیاتی مواد تک رسائی کا مستند ذریعہ ہے، بلکہ ان کی تربیت کا سامان بھی رکھتی ہے۔ تاحال اُردو کی دنیا میں کتابیات نگاری میں یکسانیت کا حامل کوئی معیاری اسلوب متعارف نہیں کروایا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ کتابیات اقبال میں شامل کتب، رسائل اور تحقیقی مقالات کے جائزے سے یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ اردو میں شائع ہونے والی تحقیقی کتب میں حوالے کے طریق، ناشر، مصنف، مضمون نگار، سالِ اشاعت اور کسی بھی کتاب کو اقبالیات کے زمرے میں شامل کرنے یا نہ شامل کرنے کے حوالے سے کئی سہو اور تسامحات نظر آتے ہیں۔ ان تسامحات کا ازالہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب اُردو تحقیق میں کتابیات نگاری کا یکسانیت کا حامل ایسا اسلوب اختیار کر لیا جائے، جو نہ صرف اردو میں تحقیق و تصنیف کرنے والے تمام شعبہ جات کے محققین کی ضروریات اور علمی تقاضوں کو پورا کرتا ہو بلکہ وہ کتابیات نگاری کے بین الاقوامی طے شدہ معیارات سے بھی ہم آہنگ ہو۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے اقبالیات پر شائع ہونے والی کتب میں کتابیات نگار ی اور حوالہ جات سے متعلق اس طرح کے تسامحات کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ ان کا حل اور بہتر متبادل بھی پیش کیے ہیں ۔

کتابیات اقبالکے جملہ تحقیقی اور فنی محاسن اور امتیازات کے باعث اقبالیات کا کوئی محقق اب اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ یہ کتاب نہ صرف اقبالیات پر موجود دنیا کی اکتالیس زبانوں میں لکھی گئی، کتب اور تحریروں تک رسائی کا ذریعہ ہے بلکہ اردو دان طبقے کے لیے دنیا کی ان زبانوں میں ہونے والے اقبالیاتی تحقیقی کام کا تعارف بھی ممکن ہو گیا ہے۔ جیسا کہ خود ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ زیر نظر کتابیات کی تیاری میں راقم کا خاصا وقت صرف ہوا ہے۔ اس کا محرک علامہ اقبال سے وابستگی و دل بستگی ہے، اور ایک طرح کی علمی لگن کا جذبہ بھی....  میں اسے علامہ کا فیضان سمجھتا ہوں کہ اقبال پر ایک ایسی جامع کتابیات تیار ہوگئی کہ اردو کے کسی اور ادیب یا شاعر کے بارے میں ایسی جامع اور تفصیلی و توضیحی کتابیات اردو توکیا، غالباًانگریزی میں بھی نہیں ملتی۔ اُمید ہے کہ تحقیقِ اقبالیات کے مختلف منصوبوں اور کاموں میں یہ کتابیات معاون و رہنما ثابت ہوگی۔(ص۴۰)

کتابیات اقبال سے اقبالیات کے میدان میں تکرار کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا کیونکہ اکثر ایک ہی موضوع پر کئی مصنّفین، تحقیقی ادارے اور جامعات تحقیق کروا رہے ہوتے ہیں۔ کتابیات اقبال  اس مکرر مشقت کو ختم کر دے گی اور پہلے سے مختلف موضوعات پر ہونے والی تحقیق کی روشنی میں محققین کے لیے ممکن ہو گا کہ وہ اقبالیات پر تحقیق کے نئے گوشوں سے تعارف حاصل کریں۔ ۱۹۷۷ء سے اب تک ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب پر مسلسل محنت بتاتی ہے کہ کتابیات اقبالان کی نصف صدی سے زیادہ اقبالیات کے ساتھ وابستگی، شغف اور تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہے۔ ۱۹۸۸ء میں اقبال اکادمی کی طرف سے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو سونپا جانے والا یہ تحقیقی منصوبہ اقبال اکادمی ہی سے شائع کیا جانا تھا لیکن کچھ اسباب کے باعث کتاب اقبال اکادمی پاکستان سے شائع نہ ہو سکی، اور ’ـنور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را‘ کے مصداق کتابیات اقبالکی ’اشاعت اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ‘ (IRD)، اسلام آباد سے عمل میں آئی۔