رافیل ایس کوہن


۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے ۱۲۰۰؍ اسرائیلیوں کے قتل عام کے بعد امریکی سینٹیرز سے لے کر چلّی کے صدر تک، ناروے کے وزیراعظم سے لے کر اقوام متحدہ کے حکام تک نے ایک جیسا موقف اپنانے کی کوشش کی کہ اگرچہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، تاہم غزہ میں اس کی موجودہ جنگی کارروائی غیرمتناسب اور غیرمتوازن ہے۔ غالباً یہی گروپ مزید ٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت کر ے گا۔اگرچہ میں ایک فوجی ماہر ہوں۔ ایک عشرے سے میں غزہ میں فوجی کارروائیوں کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ سوچتا ہوں مزید ٹارگٹڈ آپریشن کیسا ہوگا؟ مجھے کچھ اندازہ نہیں ہے۔

اسرائیل اس سے قبل غزہ میں مزید محدود فوجی کارروائیاں کرچکا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں اس نے محدود فضائی مہمیں چلائیں، جیسے آپریشن پلر آف ڈیفنس یا حال ہی میں ۲۰۲۱ء میں آپریشن گارڈین آف دی والز کیا۔ اس نے ۲۰۰۸ء سے ۲۰۰۹ء تک محدود زمینی آپریشن کیے اور ۲۰۱۴ء میں آپریشن پروٹیکٹو ایج بھی کیا۔ ان تمام فوجی مہمات کے دوران اسرائیل کے اقدامات پر تنقید کی گئی جیساکہ اب کی جارہی ہے اور ان زیادہ ٹارگٹڈ فوجی مہموں کو غیرمتناسب قرار دیا گیا۔ اسرائیل کے لیے ان سابقہ تنازعات اور فوجی مہمات سے یہ سبق ملتا ہے کہ ان مہمات کو محدود کرنے سے ناقدین کے غصے کو ٹھنڈا نہیں کیا جاسکتا۔

تاہم،اسرائیل کے نقطۂ نظر سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ محدود مہمات اور آپریشنز کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسرائیل، حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ محمدضیف کو سات بار مارنے کی کوشش کرچکا ہے، لیکن ناکام رہا ہے۔ حماس کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف اسرائیل کی کامیابی کی شرح بھی محدود ہی رہی ہے۔ حماس کے راہنما یحییٰ سنوار کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۲۱ء میں آپریشن گارڈین آف دی والز میں غزہ میں حماس کے زیرزمین سرنگوں کے جال کو صرف ۵ فی صد نقصان پہنچانے میں کامیابی حاصل ہوسکی تھی۔ اس بات کے ثبوت کے لیے صرف ۷؍اکتوبر کے حملوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حماس کی عسکری صلاحیت ماضی کے ٹارگٹڈ آپریشنز کے بعد بھی پوری طرح محفوظ اور برقرار ہے۔

مزید برآں جب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا عملی طور پر کیا مطلب ہے تو اسرائیل کے نام نہاد ٹارگٹڈ آپریشنز اور مہمات جو اَب تک کی گئی ہیں، ان کے درمیان فرق دھندلا ہونے لگتا ہے۔

غزہ کے ۲۰ لاکھ سے زیادہ شہریوں کے درمیان ۲۰۰ سے زیادہ اسرائیلی یرغمالیوں کو بچانا اسرائیل کے لیے ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ اسرائیل کے پاس یرغمالیوں کے ٹھکانوں کی حساس معلومات بھی موجود ہوں گی۔ اگرچہ اسرائیل کو غزہ کے گھر گھر، گلی گلی اور خفیہ سرنگوں کی پوری طرح چھان مارنے کی ضرورت ہے۔ حماس یقینا اس طرح کی دراندازی کے خلاف مزاحمت کرے گی، جس کے نتیجے میں زمین پر سب سے زیادہ گنجان آباد خطے میں شدید لڑائی چھڑجائے گی۔

تاہم، جب ہم ایک ناگزیر شرط کے طور پر اسرائیل کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ یرغمالیوں کو ان کے صحیح مقامات جانے بغیرطاقت کے ذریعے چھڑانے کی کوشش کرے، تو اس کے نتیجے میں دیگر ناگزیر نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ اسرائیل کو حماس کو یرغمالیوں کو نامعلوم مقامات پرمنتقل کرنے سے روکنے کے لیے اس بات پر قابو پانے کی ضرورت ہے کہ کون غزہ کو چھوڑ سکتا ہے اور کون نہیں چھوڑ سکتا۔ رسائی پر کنٹرول پانے کے لیے غزہ جانے والے ایندھن پر بھی کنٹرول پانا ہوگا۔ یرغمالیوں کی بازیابی ایک حساس مسئلہ ہے جہاں ایک لمحہ بھی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے کہ حماس نے یرغمالیوں کو پھانسی دینے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔

دوسرا ہدف جو سامنے رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ حماس کو ۷؍اکتوبر کی طرح ایک دوسرے حملے سے روکا جائے۔ حماس کے پاس روایتی فوجی اڈے نہیں ہیں۔ اس کے بجائے حماس کی زیادہ تر فوجی صلاحیت زیرزمین ہے، جو ایک اندازے کے مطابق ۵۰۰کلومیٹر زیرزمین سرنگوں کے جال پر مشتمل ہے جو پورے غزہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیلی فوج اور دیگر میڈیا جو ان سرنگوں کی دستاویزی فلمیں بناچکا ہے، کا کہنا ہے کہ بہت سی سرنگیں شہری انفراسٹرکچر بشمول مساجد، ہسپتال اور اسکولوں کے نیچے سے گزرتی ہیں۔ ان سرنگوں کا کھوج لگانا اور انھیں تباہ کرنا بھی اسرائیل کو زمینی حملے پر مجبور کرتا ہے۔

اگرچہ اس نے سرنگوں کا کھوج لگانے کے لیے تکنیکی حل کی ایک رینج کا بھی آغاز کیا ہے۔ تاہم یہ طریقے ناکافی رہتے ہیں اور اکثر فوجیوں کو اپنے اہداف کے نسبتاً قریب ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے آبادی پر مشتمل علاقے میں لڑائی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر یہ سرنگیں  مل بھی جائیں تو ان کو صاف کرنا بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ فضائی حملہ ان سرنگوں کے اُوپر جو کچھ ہوتا ہے ، اسے تباہ کردیتا ہے۔ اگر فوجی ان سرنگوں کو بارود سے بھر کر تباہ کرنا چاہیں تو وہ چندعمارتیں ہی تباہ کرسکیں گے۔

اب تیسرے اور آخری پہلو کا جائزہ لیتے ہیں، یعنی ۷؍اکتوبر کے حملوں کے ذمہ داروں کو مارنا یا پکڑنا۔ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ حملے کے دوران حماس کے تقریباً ۳ہزار عسکریت پسند اور دیگر افراد اسرائیل میں داخل ہوئے۔ ان میں سے کچھ عسکریت پسند اس حملے میں مارے گئے، لیکن بہت سے کارروائی کرنے کے بعد واپس لوٹ گئے۔ مزیدبرآں اگر ہم اسرائیل کے دفاع کے حق میں ان لوگوں کے خاتمے کو بھی شامل کرلیں جنھوں نے حملے کی منصوبہ بندی کی اور اسے منظم کرنے میں مدد دی تو یہ تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ امریکا کے نیشنل کائونٹر ٹیررازم سنٹر کے اندازے کے مطابق ستمبر۲۰۲۲ء تک حماس کے ارکان کی تعداد ۲۰ہزار سے ۲۵ ہزار تک ہے، جب کہ چھوٹے عسکریت پسند گروپوں کو چھوڑ دیں۔ عملی طور پر ۷؍اکتوبر کے حملے کے ذمہ داروں کو پکڑنے کا مطلب ہزاروں یا ممکنہ طور پر دسیوں ہزار فضائی حملے یا زمینی حملے ہیں، جو پورے غزہ کی پٹی میں پھیل جائیں گے۔گویا یہ ایک بھرپور جنگ ہے۔

غزہ اور فلسطینی آبادی کے لیے اسرائیل کی حکمت عملی پر بالکل جائز تنقید کی جارہی ہے۔ ۷؍اکتوبر کے حملوں سے پہلے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر اسرائیلی آبادکاروں کے حملے بڑھتے جارہے تھے اور تصادم کو ہوا دے رہے تھے۔ پچھلے ڈیڑھ عشرے سے اسرائیل غزہ میں حماس کے خاتمے کی حکمت عملی پر بڑی حد تک متحرک رہا، جب کہ غربت اور بے روزگاری کے خاتمے اور فرسودہ انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ یہ حالات بھی ۷؍اکتوبر کے حماس کے خونیں حملے کے لیے زرخیز زمین ثابت ہوئے، حتیٰ کہ آج تک اسرائیل کے پاس کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہے کہ اگر وہ حماس پر حاوی ہونے میں کامیاب ہوگیا تو غزہ پر کس طرح حکومت کی جائے گی اور اس کی تعمیرنو کیسے ہوگی؟

اس کے باوجود ، یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ غزہ میں جنگ چھڑ جانے کا مطلب، خواہ یہ کتنی ہی ٹارگٹڈ کیوں نہ ہو، وہی ہوگا جو آج ہم بڑے پیمانے پر دیکھ رہے ہیں، یعنی بڑے پیمانے پر خون ریزی، ہولناک تباہی کا حامل زمینی آپریشن جس کے نتیجے میں بے شمار شہری دوطرفہ گولہ باری کا شکار ہوجائیں گے۔ اس جنگ میں درمیانی راہ کی حامل کوئی بہتر شکل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام، عالمی امدادی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کارروائی کی صرف مذمت ہی کرسکی ہیں۔

اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے سربراہ مارٹن گریفتھس اور عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈرس ادھانوم گبریسس کا کہنا ہے: ’’ہسپتال میدانِ جنگ نہیں ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’نوزائیدہ بچوں، مریضوں، طبّی عملے اور تمام شہریوں کے تحفظ کو دیگر تمام خدشات پر مقدم ہونا چاہیے‘‘۔ جیسے جیسے عالمی تنقید بڑھ رہی تھی، وائٹ ہائوس نے ایک طرف اس کی تردید کی اور دوسری طرف اسرائیل کو فوجی چھاپے یا درست لفظوں میں حملے کرنے کے لیے گرین سگنل دیا۔

الشفا پر حملہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے چھٹے ہفتے میں ہوا جس میں ۴۶۰۰ بچوں سمیت ۱۱ہزار۵۰۰ سے زیادہ فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ۱۵ لاکھ سے زائد لوگ جبری نقل مکانی سے دوچار ہوئے ہیں۔ جنگ بندی کے لیے عالمی دبائو کے باوجود، جنگ بندی کی حمایت سے امریکی انکار اسرائیل کے زمینی حملے کو روکنے کی راہ میں حائل ہے۔

اقوام متحدہ میں، سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کرنے کی چار ناکام کوششوں کے بعد،   مالٹا کی طرف سے پانچواں مسودہ پیش کیا گیا جس میں غزہ میں ’کافی دنوں‘ کے لیے ’فوری اور توسیع شدہ انسانی بنیادوں پروقفے‘ کا مطالبہ کیا گیا، تاکہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور امدادی تنظیموں کو بلاروک ٹوک رسائی کی اجازت دی جاسکے۔اسے پندرہ رکنی سلامتی کونسل کے ۱۲ ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ قرارداد میں حماس کی مذمت نہ ہونے کی وجہ سے امریکا اور برطانیہ نے احتجاجاً اپنا ووٹ استعمال نہ کیا، جب کہ روس نے جنگ بندی نہ کرنے کی وجہ سے اجتناب کیا۔

انسانی بنیادوں پر یہ ’توقف‘ اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی نسل کُشی اور جبری نقل مکانی کے سنگین جرم کی تلافی نہیں کرسکے گا۔ بظاہر عام شہریوں خصوصاً بچوں کے تحفظ کے لیےیہ وقفے غزہ میںانسانی امداد پہنچانے کے لیے صرف تنگ دروازے فراہم کرسکتے ہیں، لیکن چونکہ اسرائیل طویل عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتاچلا آرہا ہے، اس لیے تل ابیب کا قانونی طور پر پابند ہونے کے باوجود اس کی پابندی کا امکان نہیں ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاداردن نے قرارداد کو ’بے معنی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس کی تعمیل نہیں کرے گا۔ فلسطینی ایلچی ریاض منصور نے اس قرارداد پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ ’’جس چیز کی ضرورت تھی وہ جنگ بندی اور جنگ کا خاتمہ تھا۔ سلامتی کونسل جنگ کے آغاز سے زمین پر تباہ کن صورتِ حال کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔ عالمی برادری غزہ کے عوام کو ناکام بناچکی ہے‘‘۔

اس کے باوجود ،اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مہلک بمباری میں اضافہ، مغربی کنارے میں چھاپوں میں شدت اور فلسطینیوں کی ہلاکت میں اضافے کے ساتھ ،وائٹ ہائوس امریکی انتظامیہ کے اندر اختلاف رائے، جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے عوامی مظاہروں اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی بے چینی کی وجہ سے دبائو میں آگیا۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسرائیل غزہ میں بمباری بند کرے اور بچوں اور خواتین کو قتل کرنا بند کرے۔ جی-۷ میں دراڑیں کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے اسرائیل کو محصور غزہ کی پٹی میں خواتین، بچوں اور نومولود بچوں کے قتل کو ختم کرنے کے مطالبے سے بھی واضح تھیں۔ امریکا میں رائے شماری کے نتائج کے مطابق دوتہائی سے زیادہ لوگوں نے جنگ بندی کی حمایت کی اور اسرائیل کے لیے حمایت کم ہوتی جارہی ہے۔

جنگ کا ایک اہم پہلو جھوٹی معلومات اور پراپیگنڈا رہا ہے اور اسرائیلی رہنمائوں اور اس کی فوج نے جان بوجھ کر جھوٹ پھیلایا ہے، جس کی بازگشت زیادہ تر مغربی میڈیا میں سنائی دی گئی۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ کچھ اشاعتی اداروں کے استثنا کے ساتھ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔

دی اکانومسٹ نے خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استدلال کیا کہ شہریوں کی ہلاکتوں کی پروا کیے بغیر اسرائیل کو لڑنا چاہیے اور جنگ بندی کو ’امن کا دشمن‘ قرار دیا۔ اشاعتی اداروں نے پناہ گزینوں کے کیمپوں اور ہسپتالوں پر اسرائیل کی بے دریغ، وحشیانہ بمباری کو اس کے اپنے ’دفاع کا حق‘قرار دیا۔

غزہ میں نہ رُکنے والی خونریزی سے جذبات میں اشتعال کے باوجود دُنیابھر کے مسلم عوام مغربی میڈیا کی جانب دارانہ کوریج سے حیران نہیں ہوئے کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان کی شدید مایوسی عرب حکومتوں سے تھی، جنھوں نے رسمی مذمت کرنے کے علاوہ، نسل کشی اور بڑے پیمانے پر ہولناکی اور انسانی تباہی پر تماشائیوں سے بڑھ کر کوئی کردارادا نہ کیا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض عرب ممالک نے دیگر ریاستوں کی طرف سے تجویز کردہ کم سے کم اقدامات کی مخالفت کی اور انھیں روکا، جس سے اسرائیل اور امریکا پر اہم سفارتی دبائو بڑھ سکتا تھا۔ اس سے صرف عوامی عدم اطمینان میں ہی اضافہ ہوا اور او آئی سی میں نمایندگی کرنے والے عرب اور مسلم حکومتوں کی جانب سے عدم فعالیت کو بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھا گیا۔ لیکن میںپھر کہوں گا کہ عالمی برادری نے غزہ کے لوگوں کوناکام بنایا ہے۔ انتونیو گوٹیرس نے جسے ’انسانیت کا بحران‘ قرار دیا ہے، اس پر بھرپور عالمی ردعمل دینے میں دُنیا ناکام رہی ہے۔