ایتھر شلیبی


یہ خبر دوپہر ۲ بجے کے قریب آئی کہ غزہ میں طبی عملے کے رُکن محمود المصری اور اُن کی ٹیم کے ارکان شمالی غزہ کے العودہ ہسپتال میں ایمرجنسی کال کا انتظار کر رہے تھے۔

اس دوران اعلان ہو گیا کہ ’ایمبولینس ۵-۱۵ کو نشانہ بنایا گیا ہے‘۔ یہ وہی ایمبولینس تھی کہ جس میں محمود المصری کے والد اور اُن کی ٹیم کے ارکان سوار تھے۔ یاد رہے محمود کے والد بھی  طبّی عملے کے رُکن تھے۔محمود اور اُن کے ساتھی یہ دیکھنے کے لیے اُس جانب بھاگے کہ آخر ہوا کیا ہے؟جب وہ وہاں پہنچے، تو انھوں نے دیکھا کہ ایمبولینس سڑک کے کنارے متعدد ٹکڑوں میں بکھری پڑی تھی۔ محمود چیختے ہوئے گاڑی کے ملبے کی طرف بھاگے، لیکن اس ایمبولینس کے اندر موجود تمام افراد ’بُری طرح جل چکے تھے اور اُن کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے‘ ہو چکے تھے۔  محمود نے روتے اور ہچکیاں لیتے ہوئے کہا کہ ’میرے والد کا چہرہ قابلِ شناخت نہیں رہا تھا‘۔

یہ اسرائیل، غزہ جنگ شروع ہونے کے پانچ دن بعد یعنی ۱۱؍ اکتوبر کی بات ہے۔ محمود کے والد یوسری المصری کا بے جان جسم سفید کفن میں لپٹا ہوا تھا اور اسی کے ساتھ اُن کا خون آلود ہیلمٹ بھی پڑا تھا۔جنازے کے موقعے پر جب محمود اپنے والد کی میت کے پاس گھٹنے ٹیکے اپنے آنسو پونچھ رہے تھے تو ایسے میں اُن کے دوست اُن کے قریب جمع ہو گئے۔ ایسے ہولناک واقعات کو غزہ کے ایک مقامی صحافی فراس الاجرامی نے دستاویزی فلم ’غزہ ۱۰۱: ایمرجنسی ریسکیو‘ کے لیے فلم بند کیا ہے۔

اپنے والد کی موت کے بعد، ۲۹ سالہ محمود، جن کے اپنے تین بچے ہیں، نے چند ہفتوں کی چھٹی لے لی۔لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’گہرے دُکھ کے باوجود مَیں کام پر واپس جانا چاہتا ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری سب سے بڑی خواہش فلسطینی عوام کی خدمت کرنا ہے‘۔

انھوں نے اپنے فون کے وال پیپر پر اپنے والد کی تصویر لگا رکھی ہے ،صرف اس لیے تاکہ ’وہ اپنے والد کے چہرے کو دن رات دیکھ سکیں‘۔محمود کی اپنے والد سے آخری ملاقات اُن کی ہلاکت سے چند گھنٹے قبل ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے محمود سے ایک کپ کافی کی فرمایش کی تھی جو انھوں نے دوپہر کی نماز سے قبل پی لی تھی۔ اس کے بعد ایمبولینس سنٹر میں محمود کے والد یوسری کی ایمبولینس کا نمبر پُکارا گیا اور انھیں زخمیوں کو طبی امداد دینے کے لیے روانہ ہونا پڑا۔

اس واقعے سے صرف دو دن پہلے محمود خود بھی زخمی ہوئے تھے اور اُنھیں سٹریچر پر ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ ایک حملے کے دوران محمود کی گردن اور پیٹھ میں چھرے لگے تھے۔ اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے محمود نے کہا کہ ’ان کے والد شدید پریشانی کے عالم میں اُن کے پہلو میں کھڑے رو رہے تھے اور وہ بہت پریشان تھے‘۔

مگر اب چند ہفتے گزر جانے کے بعد خود محمود کو اپنے والد کی تباہ شدہ ایمبولینس کو دیکھنے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ محمود نے کہا کہ ’جب بھی میں اکیلا بیٹھتا ہوں، میں انھیں یاد کرتا ہوں کہ میں ایمبولینس کی طرف بھاگ رہا تھا، میں اپنے والد کی طرف بھاگ رہا تھا، میں ان کے جسم کے ٹکڑے دیکھ کر نیم بے ہوشی کے عالم میں ڈوب چکا تھا۔ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ میرے والد کے ساتھ کیا ہوا؟ میں حواس باختہ ہوگیا تھا‘۔

محمود سات سال سے میڈیکل عملے کے رکن ہیں اور اِس وقت ’فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی‘ (پی آر سی ایس) کی ٹیم میں شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں مقیم تھے۔

اس دستاویزی فلم میں ۷؍اکتوبر کے ایک ماہ بعد تک کے واقعات کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یادرہے حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ۳۰ ہزار سے بڑھ چکی ہے۔

اس دستاویزی فلم میں طبّی عملے کے اراکین کو قریب سے اس دورانیے میں فلمایا گیا ہے، جب وہ اندھیری گلیوں سے گزر رہے تھے اور زخمی بچوں کی لاشوں اور ان کے جسموں کے ٹکڑے جمع کر رہے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کس طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھی۔ اس صورتِ حال نے اس صدمے کو ظاہر کیا جس کا انھیں سامنا تھا، خاص طور پر جب انھیں بچوں کی لاشوں سے نمٹنا پڑا۔

جنگ کے ان ابتدائی دنوں میں طبی عملے کے ایک اور رُکن رامی خمیس اپنی ایمبولینس کے سٹیرنگ ویل کے سامنے بیٹھے روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں ایک ایسے گھر کی جانب بلایا گیا کہ جو اس کے اپنے ہی مکینوں پر آن گرا تھا، اور اس گھر میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہی موجود تھے۔ جب وہ اس تباہ حال گھر کے ایک کمرے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو انھوں نے وہاں تین فلسطینی بچیوں کو مُردہ حالت میں پایا اور انھیں یہ منظر دیکھ کر اپنی بیٹیوں کا خیال آیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا، میں یہ دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا‘۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب رامی کی روتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔گذشتہ برس اکتوبر کے آخر میں ٹیم کے ایک اور رکن علاء الحلبی کو ایک رشتہ دار کی طرف سے ایک ایمرجنسی کال موصول ہوئی۔

علاء نے کہا کہ ’ان کے چچا کے گھر کو دو روز قبل اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن ہلاک ہونے والے کچھ افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے کزن کی لاش نکال لی گئی تھی اور وہ اسے ہسپتال لے جانے کی کوشش میں تھے‘۔جیسے ہی وہ ایک تنگ گلی میں داخل ہوئے، جہاں لوگوں کا ایک گروپ کنکریٹ کے ڈھیر کو ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا، ایک رشتہ دار نے انھیں بتایا کہ ’ایک لڑکی ہے، یا تو اس کا آدھا یا پورا جسم ہے‘۔

وہ رُک گئے، ایک گہری سانس لی، اُن کا چہرہ جزوی طور پر ان کے میڈیکل ماسک کے پیچھے چھپا ہوا تھا، انھوں نے کہا کہ ’لڑکی کے اعضا اس کے ساتھ ہی رکھ دیں‘۔

اسی دن علاء ایک ایسے گھر میں پہنچے جہاں بُری طرح جھلسے ہوئے پانچ مردہ بچوں کو رکھا گیا تھا۔ انھوں نے ایک ٹیم کو ہدایت کی کہ بچوں کو پلاسٹک کے کفن میں اُن کی ایمبولینس میں رکھ دیں۔انھوں نے کہا کہ جب آپ کسی بچے کے جسم کے اعضا کو پکڑتے ہیں تو سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ آپ کے اپنے بچے ہوتے ہیں۔

طبّی عملے کے یہ اراکین فون پر یا ریڈیو نیٹ ورک پر ہونے والی گفتگو کے ذریعے اپنے بیوی بچوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ رامی دو عشروں سے طبی عملے کے رُکن کے طور پر کام کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی غزہ میں تشدد کا کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے تو میری بیٹیاں مجھ سے چپک جاتی ہیں اور مجھ سے کام پر نہ جانے کی التجا کرتی ہیں۔ علاء نے یہ بھی کہا کہ جب وہ بچوں کی بات نہ مانتے ہوئے کام پر چلے جاتے ہیں تو اُن کے بچے روتے ہیں۔

ایک اور واقعے میں، جب طبی عملے کے چند اراکین العودہ ہسپتال کے باہر اپنی گاڑی میں انتظار کر رہے تھے تو ایک بڑے دھماکے نے انھیں ہلا کر رکھ دیا۔ اس حملے میں کم از کم دو ایمبولینسوں کو نقصان پہنچا۔ طبی عملے کے ایک رُکن نے بتایا کہ اسرائیلی فضائی حملے میں ہسپتال کے قریب واقع ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

پی آر سی ایس کا کہنا ہے کہ ۷؍ اکتوبر سے اب تک غزہ میں اس کی ٹیموں کے گیارہ ارکان ہلاک ہو ئے ہیں۔تنظیم کی ترجمان نیبل فرسخ کا کہنا ہے کہ ’ہر مشن میں ہماری ٹیموں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے‘۔وہ کہتی ہیں کہ ’ڈیوٹی کے دوران ہمارے عملے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جن حالات میں ہم کام کر رہے ہیں وہ خطرناک اور خوفناک ہیں‘۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اسرائیلی کارروائیوں کے دوران استعمال ہونے والی ٹکنالوجی کے ہوتے ہوئے یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ اسے دیکھا ہی نہیں گیا‘۔

پی آر سی ایس کا کہنا ہے کہ ۷؍ اکتوبر سے جاری لڑائی کی وجہ سے اس کی اپنی ۱۶ گاڑیاں ناکارہ ہوئی ہیں اور غزہ بھر میں مجموعی طور پر ۵۹؍ ایمبولینسیں مکمل طور پر تباہ ہو ئی ہیں۔

فرسخ کہتی ہیں کہ ’پی آر سی ایس کو کبھی فلسطینی جنگجوؤں کی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘۔ وہ کہتی ہیں کہ ’زمین پر ہمارا کام صحت اور انسانی ہمدردی کی خدمات فراہم کرنا ہے‘۔

جنوری کے اواخر میں، جب خان یونس کے ارد گرد لڑائی میں شدت آئی، محمود نے اپنی بیوی اور بچوں، ۶سالہ محمد، ۵ سالہ لیلیٰ اور ۳ سالہ لیان کو ساحلی صحرائی علاقے المواسی میں ایک خیمے میں رہنے کے لیے منتقل کر دیا، جسے پہلے اسرائیل نے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا۔اپنے والد کی موت کے چار ماہ بعد بھی وہ کہتے ہیں کہ بیماروں اور زخمیوں کی مدد کرنے کا ان کا عزم جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ میرے والد کا پیغام اور مشن تھا اور مجھے اسے جاری رکھنا ہے‘۔