محمود الرحمٰن


۱۹۷۱ءکی جنگ میں ہندستان نے اس اُمید پر مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی عسکری اور سفارتی مدد کی تھی کہ مشرقی سرحد پر بننے والی یہ نئی ریاست آزادی کے بعد مستقل اس کے تسلط میں رہے گی۔ بھارتی رہنماؤں کو اُمید تھی کہ پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگالی رفتہ رفتہ اپنا اسلامی تشخص بھول جائیں گے اور ہندو بنگالی ثقافت کو قبول کر کے ’عظیم بھارت‘ کا حصہ بن جائیں گے۔  جنوبی ایشیا میں مجموعی طور پر ہندستان کی حکمت عملی یہی ہے کہ کمزور ہمسایوں کو ڈرا دھمکا کر یا ان کے اندرونی اختلافات کو ہوا دے کر انھیں اپنا دست نگر رکھا جائے۔

عوامی لیگ کے دعوئوں اور حقائق کے مطابق شیخ مجیب نے پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد اس ہندستانی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا لیکن تب ذرا جھجک باقی تھی۔ اس ضمن میں ’اگرتلہ‘ بھارت مجیب گٹھ جوڑ اور سازشوں کا مرکزبنا۔ جس سے پہلے تو عوامی لیگی انکار کرتے رہے، مگر ۲۰۱۱ء کو اس سازش کے ایک براہِ راست کردار ڈپٹی اسپیکر شوکت علی نے بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں کھل کر اعتراف کیا کہ ’’ہم اگرتلہ میں ۱۹۶۲ء سے بھارت کے رابطے میں تھے‘‘۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ مجیب کے خلاف خون ریز فوجی بغاوت کی ایک بڑی وجہ ان کی ہندستان نوازی بھی تھی، اگرچہ وسیع بدعنوانیوں، ۱۹۷۴ میں پڑنے والے قحط کے اثرات اور یک جماعتی آمر حکومت سےلوگوں کی بیزاری نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہندستانیوں نے خاموشی سے اس صدمے کو برداشت کیا اور دوبارہ ایسے عالمی و مقامی سیاسی حالات کا انتظار کرنے لگے، جن کے اندر اپنی کٹھ پتلی حکومت کو بنگلہ دیش پر دوبارہ مسلط کر سکیں، تاکہ شیخ مجیب الرحمٰن کے جانے سے ہونے والے نقصان کی تلافی ہو سکے۔ ہندستان کو یہ مراد پوری ہونے کے لیے تین عشروں تک انتظار کرنا پڑا۔

تاہم، اس دوران ہندستان فارغ نہیں بیٹھا رہا۔ اس کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لوگ پیہم بنگلہ دیشی عدلیہ، انتظامیہ، فوج، صحافت، تعلیم اور سول سوسائٹی میں نقب لگاتے رہے، تا کہ حتمی وار سے پہلے زمین ہموار کی جا سکے۔ نائین الیون کے بعد پیدا ہونے والی اسلام مخالف سیاسی صورتِ حال کا ہندستان نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور امریکی انتظامیہ کے تعاون سے بنگلہ دیش کے خلاف شکنجہ تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں جب امریکی صدر بش نے ’’آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن‘‘ کا نعرہ لگایا، تو مسلم ممالک میں پائی جانے والی سیکولر جماعتوں کی اہمیت مغربی دنیا میں بڑھنے لگی۔ عراق اور افغانستان پر خوفناک اور خوں ریز حملے کے بعد بش حکومت مسلم ممالک میں ایسی جماعتوں کو مضبوط کرنا چاہتی تھی، جو اسلامی نظریات کو دباسکیں۔ ہندستان نے اس صورتِ حال کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۲۰۰۹ء میں امریکی حکومت کے تعاون سے بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کی حکومت قائم کروا دی۔

بنگلہ دیشی فوج پہلے ہی ’را‘ کے ذریعے رام کی جا چکی تھی۔ چنانچہ اس نے ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی فتح یقینی بنانے کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا، تا کہ ایک ایسی آمرانہ حکومت (Orwellian State) قائم کی جا سکے جو اپنے شہریوں پر ہر جبر کو روا رکھتے ہوئے ہندستانی غلبے کو قبول کرے اورقبول کرائے۔ تب بنگلہ دیشی فوج کے سپہ سالار جنرل معین نے پہلے ہی اپنے عہدے اور معاشی مفادات کے لیے بنگلہ دیشی خودمختاری کا سودا کر لیا تھا۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی (م: ۲۰۲۰ء)اپنی یادداشتوں The Presidential Years میں لکھتے ہیں: ’’فروری ۲۰۰۸ء میں بنگالی سپہ سالار معین احمد چھ دن کے دورے پر ہندستان آئے۔ اس دوران وہ مجھ سے بھی ملے۔غیر رسمی گفتگو کے دوران میں نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے زور دیا۔ وہ حسینہ واجد کی رہائی کے بعد اپنی نوکری کے لیے فکر مند تھے۔ تاہم، میں نے ذاتی ذمہ داری لیتے ہوئے انھیں یقین دہانی کروائی کہ حسینہ واجد کے آنے پر ان کی نوکری متاثر نہیں ہو گی‘‘۔ (ص ۱۱۴)

پرناب مکھرجی اور حسینہ واجد دونوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ جنرل (ر) معین نے حسینہ واجد کی سربراہی میں اپنی مدت اطمینان سے پوری کی۔ اس دوران انھوں نے ۲۰۰۹ء کی بی ڈی آر بغاوت میں ۵۷ افسران کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے اور بڑی مہارت سے بنگلہ دیشی فوج کا مورال کچل کر اسے نااہل، بزدل، بدعنوان اور ملک دشمن فوج بنا دیا۔ آج کل وہ اپنے خاندان کے ساتھ بہت ساری دولت سمیٹ کر نیویارک منتقل ہوکر زندگی بسر کررہے ہیں۔

۲۰۰۹ء سے حسینہ واجد، ہندستان کی کھلی حمایت کے ساتھ تین جعلی انتخابات کروا چکی ہیں اور ریاستی طاقت پر ان کی گرفت سخت سے سخت ہوتی جا رہی ہے۔ جنوری ۲۰۱۴ میں قاضی راکب الدین کے الیکشن کمیشن نے یک جماعتی الیکشن کروایا، جس میں ۳۰۰ کے ایوان میں عوامی لیگ کے ۱۵۳ ؍ارکان بلامقابلہ الیکشن سے پہلے ہی منتخب کرا دیئے گئے۔ چنانچہ پہلے سے جاری حکومت کو بغیر ایک بھی ووٹ ڈالے، آئندہ پانچ سال کا مینڈیٹ سونپ دیا گیا۔

ہندستان نے سفارتی سطح پر کوششیں کرکے واشنگٹن اور دیگر دارالحکومتوں میں الیکشن کے نام پر ہونے والے اس فراڈ کے لیے قبولیت پیدا کی۔ اس وقت کے ہندستانی سیکرٹری اور وزیر خارجہ نے واشنگٹن، لندن اور برسلز کا دورہ کر کے حسینہ واجد کے لیے سازگار فضا پیدا کی۔ دریں اثناء حسینہ واجد نے امریکی حمایت برقرار رکھنے کے لیے ’اسلامی دہشت گردی ‘ کا بھی بھرپور شور مچایا۔ ان کے خفیہ اداروں نے ڈھاکہ اور گردونواح میں کئی جعلی دہشت گرد حملے کر کے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا اور کئی افراد کو بغیر کسی ثبوت کے ’دہشت گرد‘ قرار دے کر تختۂ دارپر چڑھا دیا گیا۔ اسلام مخالف مغربی مقتدرہ کی جانب سے حسینہ واجد کی اس حکمت عملی کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور مغربی ممالک ایک بے رحم آمر کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ یوں بنگلہ دیش میں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی رات طویل تر ہوتی چلی گئی۔

دسمبر ۲۰۱۸ء میں نورالہدیٰ کی سربراہی میں ہونے والے الیکشن میں عوامی لیگ کے غنڈے اور پولیس کے سپاہی الیکشن سے ایک رات قبل انتخابی باکس بھرتے رہے، تا کہ عوامی لیگ کی جیت یقینی بنائی جا سکے۔ ۳۱ دسمبر ۲۰۱۸ کو ٹائم میگزین نے رائے دہندگان کی حق تلفی پر ایک مضمون شائع کیا، جس کا عنوان ’’ حسینہ واجد کی جیت ووٹروں کی واضح حق تلفی سے عبارت ہے‘‘ تھا۔ بنگلہ دیش میں جمہوریت کے قتل پر جہاں ہر طرف سے مذمت ہوئی، وہیں ہندستان اس دفعہ بھی اپنی کٹھ پتلیوں کے ساتھ کھڑا رہا۔

جنوری ۲۰۲۴ء میں ہونے والے انتخابات کو حسینہ واجد خود ’ڈمی الیکشن‘ قرار دے چکی ہیں۔ ان انتخابات میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں خصوصاً بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش [یاد رہے کہ جماعت اسلامی کے براہِ راست انتخاب میں حصہ لینے پر اس حکومت نے پابندی عائد کر رکھی ہے]کے بائیکاٹ کے بعد عوامی لیگ نے حسینہ واجد کے ’ڈمی‘[جعلی] اُمیدواروں کو میدان میں اتارا اور الیکشن ’جیت‘ لیا۔ بنگالی عوام نے بھی انتخابات کے نام پر ہونے والے اس شرمناک ڈرامے کو مسترد کر دیا اور تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود صرف ۱۰ فی صد لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلے۔ تقریباً ۹۵ فی صد حلقوں میں عوامی لیگ کے اصل اور ’ڈمی‘ اُمیدواروں کو ’فاتح‘ قرار دے دیا گیا۔ کچھ نشستیں دوسری ہندستان نواز جماعتوں کو بھی دے دی گئیں، جن کا انتخاب خود حسینہ واجد نے ’را‘ کے مشورے سے کیا تھا۔ ’حبیب الاول کمیشن‘ نے ۴۱ فی صد ٹرن آؤٹ کا دعویٰ کرتے ہوئے فسطائی حکمرانوں کی خواہش کے مطابق انتخابی نتائج کا اعلان کر دیا۔ نسل پرست اور متنازعہ ہندو وزیر اعظم نریندر مودی نے ۴۸ گھنٹوں کے اندر فون کرکے حسینہ واجد کو اس فراڈ الیکشن میں ’کامیابی‘ اور چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دی۔

 حسینہ واجد نے بھی ہندستان کے ان احسانات کا پورا پورا بدلہ ادا کیا ہے اور اکثریتی عوام کی اُمنگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تمام ہندستانی مطالبات پورے کیے ہیں۔ تاریخی تناظر میں بنگلہ دیش سے متعلق ہمیں بھارت کے مندرجہ ذیل سفارتی اہداف نظر آتے ہیں:

            ۱-         ہندستان، بنگلہ دیش میں ایک وفادار حکومت چاہتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں اس کے عزائم کو پورا کرنے کے لیے معاون ہو سکے۔

            ۲-         ہندستان کو بنگلہ دیش کے بری، بحری اور فضائی وسائل کی ضرورت، تا کہ علیحدگی کے خواہش مند اور متنازعہ شمال مشرقی علاقوں پر گرفت برقرار رکھ سکے۔

            ۳-         ہندستان نہ صرف یہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش کی جانب سے اسے کوئی دفاعی خطرہ نہ ہو بلکہ یہ مشرق میں بنگلہ دیش کو اپنی چھاؤنی کے طور پر بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔

            ۴-         بنگلہ دیش، ہندستان کے سول اور عسکری منصوبوں کے لیے ایک راہداری ہو سکتا ہے۔

            ۵-         بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری اور ہندستان مخالف سوچ کو دبانے کے لیے بھارت کو یہاں ایک وفادار حکومت کی ضرورت ہے۔

            ۶-         ہندستان اپنی معاشی ترقی کے لیے بنگلہ دیشی وسائل پر قبضے کا خواہش مند ہے تا کہ ایک چھوٹے ہمسائے کی ملکیت کو غصب کر کے اپنے مفادات کو آگے بڑھایا جائے۔

گذشتہ ۱۵ سال میں ہندستان نے یہ تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ ایک اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے حسینہ واجد نے نہ صرف ملک کا جمہوری انتخابی نظام تباہ کر دیا ہے بلکہ شہریوں کی آزادی اور خودمختاری بھی نئی دہلی کے ہاتھ بیچ دی ہے۔ ایک سابقہ سینئر جرنیل لیفٹیننٹ جنرل (ر) حسن سہروردی جو آج کل سرکاری حراست میں ہیں، کے بقول: ’’بنگلہ دیش ہندستانی مقتدرہ کی پیشگی منظوری کے بغیر اپنا آرمی چیف بھی تعینات نہیں کر سکتا‘‘۔

            ملک کے تمام عسکری، عدالتی اور انتظامی عہدوں پر تعیناتی، ہندستان کے خفیہ اہلکاروں کی ایما اور کلیرنس پر کی جاتی ہے، جو سیکریٹیریٹ اور چھاؤنیوں میں قیام پذیر ہیں۔ ہندستان میں برسرِاقتدار شدت پسند جماعت کی پالیسیوں کے مطابق حسینہ واجد نے ’عظیم بھارت‘ کے لیے ملک کے ۹۰ فی صد مسلمان عوام پر ہندو غلبہ قائم کر دیا ہے۔ ہندو غلبے کے اس عمل کوتیز تر کرنے کے لیے حسینہ واجد حکومت نے تعلیمی نظام میں بھی ہندو ثقافت، روایات، عقائد، داستانوںاور مذہبی رسوم و رواج کو شامل کیا ہے۔ نصابی کتب میں تیرھویں سے سترھویں صدی تک سلاطین کے زمانے میں بنگال کی آزاد سیاسی تاریخ کو بھی مسخ کر کے دکھایا جاتا ہے۔ دوسری طرف بالکل یہی عمل ہندستان میں دُہرایا جا رہا ہے، جہاں نسل پرست حکومت اپنی کتابوں میں مغل سلطنت اور سلاطین دہلی کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرتی ہے۔ اس سب کا حتمی مقصد یہ ہے کہ آغاز میں ہی نوجوانوں کے ذہن میں غلط معلومات اور مسخ تاریخ کو داخل کر کے بنگالیوں کا اسلامی تشخص ختم کر دیا جائے۔

سارک ریاستوں میں سے بھوٹان باضابطہ طور پر ہندستانی تسلط میں ہے۔ ہمالیہ میں واقع اس سلطنت نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے پر بھی آزادی کا چہرہ نہیں دیکھا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یہ علاقہ برطانوی ہندستان کے انتداب میں تھا۔ ہندستان کو نہ صرف یہ تعلق ورثے میں ملا، بلکہ ۱۹۴۹ء میں بھارت۔بھوٹان معاہدے کے ذریعے اس کو قانونی حیثیت بھی دے دی گئی۔ تب سے یہ ریاست باقاعدہ طور پر براہ راست نئی دہلی کے زیرتسلط ہے۔ اکیسویں صدی میں حسینہ واجد کے ذریعے ہندستان نے بنگلہ دیش کو بھی یہی حیثیت دے دی ہے۔ بھارت میں انتہاپسند نسل پرستی کے عروج کے ساتھ عسکری طور پر کمزور ممالک مثلاً بنگلہ دیش اور بھوٹان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’ہندوتوا‘ کا فلسفہ جنوبی ایشیا میں ہندو غلبے کا علَم بردار ہے۔ سخت قسم کے شدت پسند ہندو سمجھتے ہیں کہ ’اکھنڈ بھارت‘ کا نقشہ بنگلہ دیش سے لے کر افغانستان تک پورے جنوبی ایشیا پر مشتمل ہو گا۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کا جنون انتہا پسند ہندوؤں کی کئی نسلوں کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ مشرق اور جنوب میں واقع ممالک کو فتح کرنا نسل پرست مودی حکومت کے لیے ضروری ہے تاکہ اپنے ووٹروں کو مطمئن رکھا جا سکے۔ حسینہ واجد اس مہم میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ بڑی ذمہ داری سے تمام علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر ہندستانی موقف کی تائید کرتی نظر آتی ہیں۔ چنانچہ ہندستان کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ بنگلہ دیش میں عوامی حمایت کے ساتھ یا اس کے بغیر، حسینہ واجد کی حکومت قائم رکھی جائے۔ پس حسینہ واجد کی فسطائی حکومت کے خلاف بنگلہ دیش کے جمہوریت پسند، مگر مظلوم اور مجبور عوام کی جدوجہد دراصل ملکی خودمختاری کے حصول کے ساتھ براہِ راست جڑی ہوئی ہے۔