۴ مارچ ۲۰۲۴ ء مصر کی ’اسٹیٹ سیکورٹی کریمنل کورٹ‘ نے اخوان المسلمون کے چوٹی کے آٹھ رہنماؤ ں کو سزائے موت سنادی ۔ سزاپانے والوں میں اخوان المسلمون کے ۸۰ سالہ مرشد عام ڈاکٹر محمدبدیع [پ:۷؍اگست ۱۹۴۳ء]، قائم مقام مرشد عام محمود عزت کے علاوہ ڈاکٹر محمود بلتاجی ، اُمور نوجوانان کے سابق وزیر اسامہ یاسین ،صفوت حجازی ،عاصم عبد الماجداور محمدعبدالمقصود کے نام شامل ہیں ۔
ان قائدین پر لگائے جانے والے الزامات:
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان لغو اور بیہودہ الزامات اور مقدمات کی بنیاد صرف اور صرف پولیس کی من گھڑت رپورٹس ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ مصر کا عدالتی نظام ا س قدر بودا ، بے بس، غیر شفاف اور لچر کیوں ہے کہ صرف پولیس کی یک طرفہ تفتیشی رپورٹ کی بنیاد پر ہی عمر قید اور پھانسی کی سزائیں سنائی جارہی ہیں ۔
یاد رہے، مرشد عام کو سنائی جانے والی پھانسی کی یہ تیسری سزا ہے۔ ملک کے مختلف اضلاع کے درجنوں تھانوں میں درج ان کے خلاف دیگر کئی مقدمات میں انھیں پہلے ہی عمر قید کی کئی سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ سنائی گئی سزائوں کو اگر جمع کرلیاجائے تو قید بامشقت کی یہ مدت ۲۱۰برس بنتی ہے۔ اور ابھی ۲۳ کے قریب ایسے مقدمات ہیں، جو اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکے ہیں اور ان مقدمات کی متوقع سزائوں کو بھی جمع کرلیا جائے تو ۸۵ برس قید کامزید اضافہ ہوجائے گا۔
کیا اخوان المسلمون کے لوگ واقعی دہشت گردی اور دہشت زدگی کے ذریعہ اپنے اہداف و مقاصد کے حصول پر یقین رکھتے ہیں ؟
اس کا بہترین جواب تو مرشد عام اخوان المسلمون نے جماعت کی طرف سے مصر کے اولین منتخب صدر مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے دنوں میں قاہرہ کے رابعہ عدویہ کے میدان میں مسلح مصری فوجی دستوں اور پولیس کی مسلح بھاری نفری کے سامنے ڈٹ کر دیا تھا:
سلمیتنا اقوی من الرصاص،’’ ہماری پر امن جد و جہد تمہاری گولیوں سے طاقت ور ہے ‘‘۔
اسی طرح جمعة الغضب میں میدان رمیسیس میں جب مرشد عام کے نوجوان بیٹے انجینئر عمار کو شہید [۱۶؍اگست ۲۰۱۳ء]کیے گئے تو بھی انھوں نے کمال صبر، تحمل اور پہاڑوں جیسی برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنے رفقاء کو پُرامن جدوجہد ہی کا راستہ دکھایا اور اختیار کیا۔ پھر جب ان کے نہایت عزیز ساتھی اور رفیق ڈاکٹر محمود بلتاجی اپنی عزیز از جان بیٹی شہیدہ اسما ء بلتاجی کا جنازہ اُٹھا رہے تھے، تب بھی انھیں پُرامن رہنے کی تلقین کی ۔ میدان رابعہ کو جب جنرل سیسی کی قیادت میں باغی فوج نے عملاً صدر مرسی کے حامیوں کے لیے قتل گاہ بنا دیا اور فی الحقیقت فوجی ٹینکوں اور مسلح دستوں کی طاقت استعمال کرتے ہوئے نہتے مظاہرین کو بیددردی سے شہید کیا جاتا رہا، تب بھی مرشد عام کے ہمراہ ساری قیادت پُرامن سیاسی جدوجہد کے موقف پر مضبوطی سے کھڑی رہی۔
اخوان کی ۳جولائی ۲۰۱۳ء کی فوجی بغاوت کے بعد اپنی گرفتاری اور دس برس کی مسلسل قید تنہائی اور قید بامشقت کے بعد آج بھی جناب ڈاکٹر محمد بدیع کے پائے استقامت میں ذرہ سی بھی لغزش نہیں آئی اور قید و بند کی تمام صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں اور اپنے طرزِعمل سے دنیا پر واضح کرچکے ہیں کہ ہماری سیاسی جدوجہد پُر امن تھی ،پُر امن ہے اور پُر امن رہے گی ۔
۱۹۹۹ء کی درجہ بندی کے مطابق سال کے سو بہترین عرب سائنس دانوں میں شمار کیے جانے والے ڈاکٹر محمد بد یع اس سے پہلے بھی کئی برس تک فوجی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتوں کا سامناکر چکے ہیں۔ ۱۹۶۵ء میں سید قطب شہید اور ان کے رفقاء کے ساتھ ساتھ انھیں بھی ۱۵برس قید کی سزا سنائی گئی تھی جس میں دس برس کی قید بامشقت کاٹ کر ۱۹۷۴ء میں رہا ہوئے اور اسیوط یونی ورسٹی میں درس و تدریس شروع کی پھر زقازیق یونی ورسٹی میں پروفیسر رہے اور و ہیں سے تدریس کے لیے یمن چلے گئے۔جہاں انھوں نے عالم عرب کے بہترین ویٹرینری انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔
۱۹۹۵ء میں ایک بار پھر گرفتار کر لیے گئے اور فوجی عدالت نے پانچ سال قید کی سزاسنائی اور ۲۰۰۳ء تک گرفتار رہے ۔
صدر محمد مرسی حکومت کا تختہ اُلٹ کر جنرل سیسی کی قیادت میں مصری فوج نے اقتدار پر قبضہ کیاتو ۲۰؍اگست ۲۰۱۳ء کو پھر گرفتار کر لیے گئے۔ اس بار ان پر ۴۸ مقدمات قائم کیے گئے اور اُس وقت سے مسلسل قید میں ہیں ۔
اخوان المسلمون نے تازہ سزاوں کو انصاف کے ادنیٰ ترین درجہ سے بھی خالی قرار دیا ہے کہ نہ یہ عدل وانصاف کے تقاضوں پرپورا اترتی ہیں اور نہ شفافیت کا ادنیٰ درجہ ہی انھیں حاصل ہے۔
مصر کی انسانی حقوق کی ۱۳ تنظیموں جن میں ’ہیومین رایٹس واچ‘ اور قاہرہ مرکز برائے حقوق انسانی پالیسی اسٹڈیز، بھی شامل ہیں کہا ہے کہ ’عرب بہار‘ میں مصری عوام کے بنیادی مطالبات الْخُبْزُ الْحُرَّیَۃُ العَدَالَۃ الاَجْتِمـَاعِیَۃ میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا ۔ دوسری طرف سیاسی آزادیوں اور حقوق کی بیخ کنی کے لیے استبدادی روش جاری ہے اور معاشی بحران بدسے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے ۔جنرل سیسی انتظامیہ نے شہری حقوق کی بیخ کنی کے لیے بدترین اور گھنائونی روش اپنا رکھی ہے۔ قانون اور ساری عدلیہ کے ہاتھ پائوں باندھ کر رکھ دیئے گئے ہیں۔ حزب اختلاف کی آواز کو مکمل طور پر دبادیا گیا ہے۔
جنرل سیسی حکومت نے عدلیہ اور سول انتظامیہ پر آمرانہ پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ سول سوسائٹی، اپوزیشن اور آزاد میڈیا پر نگرانی کے سخت پہرے بٹھارکھے ہیں۔ جیلوں میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات عام ہیں، حتیٰ کہ علاج معالجے کی سہولیات کے فقدان اور عدم فراہمی کی وجہ سے بدر نامی جیل خانے میں ماہِ جنوری میں ۵، اور ماہِ فروری میں ۲ ؍اموات اور خودکشی کے کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں ۔ وفات پانے والوں میں عادل رضوان سابق ممبر پارلیمنٹ اور محمدشربینی معروف وکیل رہنما بھی شامل ہیں۔پورے مصر پر دفعہ ۱۴۴ مسلسل نافذ ہے اور دو ماہ پیش تر ہونے والے نام نہاد صدارتی انتخابات ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ بھی نہ تھے۔
مصر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین، مرشد عام اخوان المسلمون اور شوریٰ کے اراکین کو سنائی جانے والی ان سزاؤں کی ٹائمنگ کو بھی غزہ اور فلسطین کی صورت حال کے تناظر سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں ۔مرحوم صدر محمد مرسی نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے جواب میں اپنی مشہور صدارتی تقریر میں کہا تھا: لَنْ نَتْرُکَ غَزَّۃَ وَحْدَھَا، ’ہم غزہ کو ہرگز تنہا نہیں چھوڑیں گے‘۔اور کہا تھا: ’’مصری عوام عرب بہار کی صورت میں اگر عشروں سے مسلط آمریتوں اور ان کے ظلم وستم کو اٹھا کر پھینک سکتے ہیں تو اسرائیلی تسلط اور ظلم کا جڑ سے خاتمہ بھی کرسکتے ہیں۔ تم ظلم و زیادتی اور جارحیت سے کبھی امن اور سلامتی نہیں حاصل کرسکو گے۔ جو خون تم بہا رہے ہو یہ تم پر لعنت بن کر برسے گا اور اس خون کے جواب میں علاقے کی ساری قومیں تمھارے خلاف متحرک ہوجائیں گی۔ ظالم اسرائیل سے کہتا ہوں تاریخ سے عبرت حاصل کرے‘‘۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اخوان کا یہی جرأت مندانہ موقف ہے، جسے اس موقع پر مزید دبانے کی کوشش کی گئی ہے !