غدا اجیل


محترم صدر بائیڈن! میں آپ کو دوسری بار خط لکھ رہی ہوں۔ پہلی بار آپ کو ۴نومبر کو خط لکھا تھا، جب میری قوم کے ۴۷؍ افراد بشمول میرے اپنے خاندان کے ۳۶؍ افراد کو اسرائیلی قابض افواج کے ایک ہی حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ قتل عام غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے میں واقع خان یونس پناہ گزین کیمپ میں ہوا، جہاں آپ کے اتحادی اسرائیل کے دعوے کے مطابق لوگ ’محفوظ‘ تھے۔

مجھے یقین نہیں کہ میرا پہلا خط آپ تک پہنچا، یا آپ کی میڈیا ٹیم نے آپ کو اس کے مندرجات سے آگاہ کیا۔ اس کے باوجود آپ نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا ہے۔ اسرائیل کے لیے آپ کی واضح حمایت، بشمول بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فراہمی کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد سے آپ کی مدد سے اس طرح کے بہت سے قتل عام کیے جا چکے ہیں۔اس خط کو لکھنے کے بعد، میں نے اپنے ہی خاندان کے مزید ۲۲۰؍ افراد کو کھو دیا ہے۔

صرف ایک ماہ قبل، ۳۱ جنوری [۲۰۲۴ء]کو، میرے والد کے کزن، ۴۰ سالہ خالد عمار، جو خان یونس میں بے گھر ہو گئے تھے، اپنے پورے خاندان کے ساتھ جس جگہ پر مقیم تھے، اسرائیلی ٹینک کی گولہ باری سے ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں خالد کی اہلیہ ۳۸ سالہ مجدولین، ان کی چار بیٹیاں، ۱۷ سالہ ملک، ۱۶ سالہ سارہ، ۹سالہ آیا اور ۷ سالہ رفیف اور ان کے دو بیٹے، ۱۴سالہ اسامہ اور دو سالہ انس سب کے سب اس حملے میں ہلاک ہو گئے۔

ہلاک ہونے والوں میں خالد کا معذور بھائی ۴۲ سالہ محمد اور ان کی والدہ ۶۰سالہ فتیہ بھی شامل ہیں۔ ان کی لاشیں ایک ہفتے سے زائد عرصے تک بے گوروکفن پڑی رہیں۔ خالد کے زندہ بچ جانے والے بھائی، ۳۵ سالہ بلال نے فلسطینی ریڈ کراس سوسائٹی کو مدد کے لیے بار بار فون کیے، لیکن وہ بچ جانے والوں کی تلاش کے لیے ریسکیو ٹیم روانہ نہیں کر سکے کیونکہ قابض اسرائیلی فوج نے انھیں جانے کی اجازت نہیں دی۔

مجدولین اور اس کی دو جوان بیٹیاں، رفیف اور آیا، گذشتہ موسم گرما میں مجھ سے ملنے آئیں، جب میں غزہ گئی تھی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ رفیف میری سب سے چھوٹی بھانجی راشا کی موٹر سائیکل پر سوار ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ وہ سڑک پر دوڑتے ہوئے، وہ کینڈی کھاتے تھے جو انھوں نے میرے کزن، اسد کی دکان سے خریدی تھی۔ ان کی ہنسی آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔

لیکن جناب صدر!آج کوئی آیا، کوئی رفیف، کوئی اسد نہیں، جسے اسرائیلی فوج نے اس کے بیوی بچوں، ماں، دو بہنوں، بھابھی اور ان کے بچوں سمیت مارا تھا۔ یہاں اب سڑکیں نہیں، گھر نہیں، دکانیں نہیں، قہقہے نہیں۔ صرف تباہی کی بازگشت اور تباہی و بربادی کی بہری خاموشی ہے۔

 خان یونس پناہ گزین کیمپ کا رہایشی علاقہ جس میں مَیں پلی بڑھی، آج ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ دسیوں ہزار پناہ گزین، بشمول میرے خاندان کے باقی زندہ بچ جانے والے افراد، اب المواسی اور رفح میں بے گھر ہو گئے ہیں۔ وہ خیموں میں رہتے ہوئے بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

صدرصاحب! ان سے میری کوئی بات چیت نہیں ہوئی، اس لیے کہ اسرائیل نے رابطہ منقطع کر دیا ہے۔ ۱۰فروری کو میرا بھتیجا ۲۳سالہ عزیز، خطرے کے باوجود تین کلومیٹر پیدل چل کر انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے رفح کے کنارے پہنچا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کئی بار موت ان کے پاس سے گزر چکی ہے، لیکن ابھی تک وہ زندہ ہیں۔ وہ بھوکے، پیاسے اور سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔

بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس فیصلے کے باوجود کہ اسرائیل کو غزہ تک امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، وہاں نہ کوئی طاقت ہے، نہ صفائی، نہ ادویات، نہ مواصلات، اور نہ کوئی انسانی خدمات انھیں میسر ہیں۔

اگر لوگ اسرائیلی بموں سے بچ جاتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اسرائیلی بمباری سے زخموں کی تاب نہ لاکر اور متعدی اور غیر متعدی بیماریوں کا شکار ہوکر موت سے نہ بچ سکیں گے۔ اسرائیلی حملے کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔

فروری میں اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی خان یونس میں واقع دوسرے بڑے ہسپتال نصیر کا محاصرہ کرلیا۔ ہسپتال میں ۳۰۰ کی تعداد میں طبّی عملہ ۴۵۰ مریضوں کے ساتھ پھنسا ہوا تھا اور تقریباً ۱۰ہزار اندرونی طور پر بے گھر افراد ہسپتال کے اندر یا اس کے آس پاس پناہ کی تلاش میں تھے۔

کئی دنوں تک اسرائیلی فوج نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی ریسکیو ٹیم کو مریضوں اور عملے کو نکالنے، خوراک اور انتہائی ضروری، طبّی سامان اور ایندھن کی فراہمی نہیں کرنے دی۔ اس پورے عرصے میں، طبّی عملے نے مریضوں کے لیے غیر معمولی ہمت اور لگن کا مظاہرہ کیا۔ اسرائیلی حملوں کے باوجود انھیں زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ ڈاکٹر امیرہ السولی، جو ہسپتال کے صحن میں زخمیوں میں سے ایک کی مدد کے لیے اسرائیلی فائرنگ کی زد میں آئیں، اس کی ایک روشن مثال ہے۔ہسپتال کے احاطے میں پناہ لینے والے لاتعداد لوگ مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ ان میں سے کچھ افراد کے قتل کے واقعہ کی ریکارڈنگ کیمرے میں محفوظ ہے۔

۱۳ فروری کو، اسرائیلی فوج نے جمال ابو الا اولا نامی ایک نوجوان کو، جسے اسرائیلی فوجیوں نے حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا، ہسپتال بھیجا تاکہ وہاں پناہ لینے والے فلسطینیوں کو وہاں سے نکل جانے کے لیے کہے۔ سفید پی پی ای کا لباس پہنے اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، اس نے پیغام دیا اور پھر – جیسا کہ ہدایت کی گئی – ہسپتال کے گیٹ کی طرف بڑھا، لیکن گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کی موت کی دستاویزی فلم ہسپتال کے ایک صحافی نے بنائی اور اسے عوام کے لیے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا۔

کیا آپ تحقیقات کا حکم دیں گے جناب صدر؟ کیا آپ نصیر ہسپتال میں جمال اور دیگر بہت سے لوگوں کے قتل کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کریں گے یا پھر اسرائیلی فوج کے سفاکانہ مظالم کو فخر سے قبول کریں گے؟

۱۵ فروری کو، اسرائیلی فوج نے ہسپتال پر چھاپہ مارا، شدید بمباری کے دوران ہزاروں لوگوں کو نکال دیا اور سیکڑوں کو جبری طور پر غائب کر دیا، – جن میں سے کم از کم ۷۰ افرادطبّی شعبے سے تعلق رکھنے والے کارکن تھے۔ یہ غزہ میں شروع ہونے والے مظالم اور جنگی جرائم کا ایک نمونہ ہے۔ جب اسرائیلی فوج نے الشفاء ہسپتال پر چھاپہ مارا تو اس نے اس کے کچھ عملے کو حراست میں لے لیا۔ ان میں ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ بھی شامل ہیں، جو اسرائیلی جیل میں ہیں۔ اس وقت بہانہ یہ پیش کیا گیا اور جیساکہ اب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ حماس کے کمانڈ سینٹر کو تلاش کررہے تھے جو کہ ایک جھوٹی داستان ہے۔ جنابِ صدر! آپ نے اس جھوٹی داستان کو بآسانی قبول کرلیا۔

نصیر ہسپتال پر چھاپے کے دوران بجلی اور آکسیجن منقطع ہونے سے کم از کم آٹھ مریض جاں بحق ہو گئے۔ جب آخر کار ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کو ہسپتال میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تو اس کے عملے نے اسے ایک ’قتل گاہ‘ قرار دیا۔ سیکڑوں مریضوں کے انخلا کے بعد، طبّی عملہ کے تقریباً ۲۵؍ارکان ہسپتال میں بقیہ ۱۲۰ مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہ گئے جس میں خوراک، پانی یا ادویات کی محفوظ فراہمی نہیں تھی۔

نصیر ہسپتال کے مریضوں میں میری رشتہ دار انشیرہ بھی تھی جس کے گردے فیل ہوگئے تھے اور اسے ہر ہفتے ڈائیلاسز کی ضرورت تھی۔ وہ خان یونس کے مشرق میں القرارہ کے علاقے میں رہتی تھی۔جب اسرائیلی فوج نے اس کے علاقے پر بمباری کی تو وہ بے گھر لوگوں کے لیے ایک کیمپ میں چلی گئی۔ جب اسرائیلی فوج نے وہاں بھی کیمپ پر حملہ کیا تو وہ ایک اور کیمپ میں چلی گئی۔ جب وہاں بھی بمباری کی گئی تو اس کے بچوں نے اسے نصیر ہسپتال کے قریب منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے جیسے ہسپتال میں حالات خراب ہوتے گئے، اس کے ڈائیلاسز ہر دوہفتوں میں ایک بار اور پھر ہرتین ہفتوں میں ایک بار کر دیئے گئے، جس کی وجہ سے اسے کافی تکلیف ہوئی۔ جب اسرائیلی فوج نے ہسپتال کا محاصرہ کیا تو انشیرہ کو وہاں سے جانے پر مجبور کیا گیا۔ پھر ہمارا اس سے اور اس کے بچوں سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں!

اسرائیل کی طرف سے غزہ میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو منظم طریقے سے تباہ کرنے کے بعد انشیرہ جیسے دائمی طور پر بیمار لوگوں کی اکثریت مناسب صحت کی دیکھ بھال تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ ان کے لیے ’سزائے موت‘ کے مترادف ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو تباہ کرنا ایک جنگی جرم ہے، کیا واقعی آپ یہ بات جانتے ہیں جناب صدر؟

جنابِ صدر! غزہ میں ۲۳ لاکھ لوگ ایک حراستی کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ وہ بھوک اور بے دردی سے مارے جاتے ہیں۔ ان کے گھروں میں، سڑکوں پر، پانی لاتے ہوئے، خیموں میں سوتے ہوئے، امداد وصول کرتے ہوئے، اور کھانا پکانے کے دوران بھی بمباری کی جاتی ہے۔ غزہ میں لوگ مجھے کہتے ہیں کہ پینے کے لیے پانی کی قیمت خون سے چکائی جاتی ہے، روٹی کا ایک لقمہ خون میں ڈوبا ہوتا ہے، اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا مطلب خون کا دریا پار کرنا ہے۔

یہاں تک کہ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے کھانا تلاش کرنے کا عمل بھی آپ کی جان لے سکتا ہے، جیسا کہ ۲۸ فروری کو بہت سے والدین کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا۔ تقریباً ۱۱۲فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے اس وقت قتل کر دیا، جب وہ اپنے اور اپنے خاندانوں کو کھانا کھلانے کے لیے آٹا لینے کی کوشش کر رہے تھے۔

ان کی دردناک موت ایک تلخ حقیقت ہے۔ جیسا کہ انس جیسے چھوٹے بچوں، آیا جیسے بچے، مجدولین جیسی مائیں، اور فتیہ جیسے بوڑھے کی موت واقع ہوئی۔ یہ ان ۳۰ہزار سے زیادہ افراد میں شامل ہیں جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق موت کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہزاروں مزید ہلاک ہو چکے ہیں، لیکن ’لاپتا‘ کے طور پر درج ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں تقریباً ۱۳ہزار بچّے ہیں۔ بہت سے لوگ اب بھوک سے مر رہے ہیں۔ اسرائیل ایک گھنٹے میں چھ بچوں کو مار رہا ہے۔ ان بچوں میں سے ہر ایک کا ایک نام، ایک کہانی اور ایک خواب تھا، جو کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔ کیا غزہ کے بچے زندگی کے مستحق نہیں؟جناب صدر!

فلسطینیوں کا شمار مشرق وسطیٰ کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قوموں میں ہوتا ہے۔ آج سب سے ان کا سلگتا ہوا سوال ہے:’کیوں‘؟ فلسطینی عوام کو آپ کے اتحادیوں کے ہاتھوں نسل کشی کیوں برداشت کرنی پڑ رہی ہے، جو آپ کے ہتھیاروں اور پیسوں سے کی گئی ہے، جب کہ آپ جنگ بندی کے مطالبے سے انکار کر رہے ہیں؟ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کیوں جناب صدر!

صدربائیڈن! آپ غزہ میں نسل کشی کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟

(الجزیرہ انگلش،۳مارچ ۲۰۲۴ء)