گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ہماری دنیا میں پائی جانے والی ظالمانہ معاشی ناہمواری کی چند مزید چشم کشا جھلکیاں سامنے آئی ہیں۔ مہنگی کاریں بنانے والی مشہور زمانہ کمپنی ’لیمبورگنی‘ نے پہلی دفعہ ایک سال میں دس ہزار کاریں فروخت کرنے کا ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔ اس کمپنی کے موجودہ ماڈل Revuelto 2024 کی قیمت ۶ لاکھ ۸ ہزار ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔
’گوگل‘ کے شریک بانی لیری پیج کے ذاتی جزیروں کی تعداد بڑھ کر پانچ ہو گئی ہے۔ ان کی تازہ ترین خرید پورٹو ریکو اور برٹش ورجن آئی لینڈز کے درمیان واقع ایک جزیرہ ہے جو انھیں ۳۲ملین ڈالر (یعنی بارہ ارب ۲۳کروڑ روپے ) میں پڑا ہے۔
آسٹریا کی کمپنی ’موشن کوڈ: بلیو‘ نے ایک نئے بحری جہاز کا ڈیزائن جاری کیا ہے، جو چار ہفتے تک مسلسل زیر آب رہنے کی صلاحیت سے لیس ہے۔اس ۵۴۱ فٹ لمبے جہاز ’Migaloo M5 ‘کے اندر ایک سوئمنگ پول اور ہیلی پیڈ بھی موجود ہے اور اس کی قیمت ۲ بلین ڈالر رکھی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آسٹریائی تخلیق کار اپنی توانائیاں ارب پتیوں کے لیے ایسے ۲بلین ڈالر کے مہنگے کھلونے بنانے میں کیوں لگا رہے ہیں؟ اس کی وجہ ظاہر ہے: عصر حاضر کے امرا دولت کے ان پہاڑوں پر براجمان ہیں، جہاں ایسے چند ارب ڈالر کا خرچ ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
دولت کے یہ پہاڑ کیونکر پھیل رہے ہیں؟ ’آکسفام‘ (Oxfam)کے محققین نے اپنی حالیہ تحقیق میں اس سوال کا متاثر کن جواب پیش کیا ہے:’’گذشتہ چار عشروں میں جی-۲۰ ممالک کی کل قومی آمدن کا ’ٹاپ ایک فی صدی سرمایہ داروں‘ کو جانے والا حصہ بڑھتے بڑھتے ۴۵ فی صد تک پہنچ چکا ہے‘‘۔ یعنی دنیا کے بیس بڑے ممالک اپنی کل آمدن کا ۴۵ فی صد صرف ’ایک فی صد طبقے‘ کو پیش کرتے ہیں، اور یہ کہ: ’’ان کی آمدن پر لگنے والے ٹیکس کی شرح تقریباً ایک تہائی کم ہو چکی ہے‘‘۔
’آکسفام‘ کے مطابق ۲۰۲۲ میں جی-۲۰ ممالک کے ’ٹاپ ایک فی صد طبقے‘ کی آمدن ۱۸ٹریلین ڈالر تھی۔ یہ اعداد و شمار اس ہفتے شروع ہونے والے جی-۲۰ کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے سربراہان کے اجلاس سے قبل جاری کیے گئے ہیں۔ دراصل جی-۲۰ میں ۲۱؍اراکین شامل ہیں، جن میں سے دنیا کے ۱۹طاقت ور ترین ممالک ہیں، جب کہ بیسواں ’یورپی یونین‘ اور اکیسواں امسال پہلی دفعہ شامل ہونے والا رکن ’افریقی یونین‘ ہے۔
۲۰۲۴ء کے لیے جی-۲۰ کے سربراہ برازیل نے ساؤ پاؤلو میں اس اجلاس کا اہتمام کیا ہے۔ برازیل میں لُول ڈاسلوا کی بائیں بازو کی حکومت نے اس اجلاس کی میزبانی کے لیے خاصے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے پیچھے ان کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی دولت پر ٹیکس عائد کرنے کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر پیش کیا جائے۔
پچھلے ہفتے برازیلین وزیر خزانہ فرنانڈوحداد نے برازیلی اخبار ’او-گلوبو‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:’’ دنیا کا کوئی ملک اس وقت امیروں پر ٹیکس لگانے کے معاملے میں برازیل پر برتری نہیں رکھتا‘‘۔ گذشتہ سال برازیلی صدر لُول ڈا سلوا نے برازیلی امرا کی بیرون ملک سرمایہ کاری پر ۱۵ فی صد محصول عائد کیا تھا، اور امرا کے مددگار چور دروازے بند کرنے کے لیے برازیلی حکومت نے ذاتی پنشن فنڈز میں ڈالی جانے والی رقم پر بھی ایک حد مقرر کر دی ہے۔
ساؤ پاؤلو اجلاس میں افتتاحی تقریر کرتے ہوئے برازیلی وزیر خزانہ فرنانڈو حداد کا کہنا تھا: ’’ماحولیاتی تباہی اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کے خلاف ایک نئی عالمی مہم کا وقت آ گیا ہے۔ہم ایک بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ ایک فی صد امیر ترین طبقہ دنیا کے ۴۳ فی صد اثاثوں پر قابض ہے اور دنیا کی دو تہائی غریب آبادی کے برابر کاربن فٹ پرنٹ پیدا کرتا ہے۔قومی معیشتوں کے مقابلے میں اقتصادی اداروں کے بڑھتے ہوئے حجم نے امیروں کو ٹیکس سے فرار کے نئے طریقے فراہم کر دیئے ہیں۔تاہم، حالیہ برسوں میں ایسی ٹیکس چوری سے بچنے میں ریاستوں کو کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے‘‘۔ (کاؤنٹرپنچ، ۶مارچ ۲۰۲۴ء)