عبدالرحمٰن بن احمد


عَنْ اَبِی مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبِؓ سِبْطِ رَسُوْلِ اللہِ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَیْـحَانَتِہٖ قَالَ حَفِظْت مِنْ رَسُوْلِ اللہِ  دَعْ مَا یُرِبْیُکَ اِلٰی مَا لَا یُرِبْیُکَ فَاِنَّ الصِّدْقَ طُمَانِیْنَۃٌ وَ اِنَّ الْکَذِبَ رِیْبَۃٌ (ترمذی: ۲۵۲۰)

نواسۂ رسولؐ حضرت حسن ابن علیؓ ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول یاد رکھا ہے کہ ’’جو چیز تمھیں کھٹکے اور شک و شبہہ میں مبتلا کرے، اسے چھوڑ کر جو چیز تمھارے دل میں کھٹک اور شک و شبہہ نہ پیدا کرے اسے اختیار کرلو، کیونکہ سچائی (دل میں) اطمینان پیدا کرتی ہے اور جھوٹ (دل میں) کھٹک پیدا کرنے والا ہے۔

اس حدیث کو نسائی، امام احمد، ابن حبان اور حاکم نے بھی اسی سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ امام احمدکی روایت میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور منہ میں ڈال لی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجور میرے منہ سے نکال کر پھر کھجوروں میں ڈال دی۔ ایک شخص نے کہا: یہ کھجور کھالینے میں آپؓ پر کیا حرج تھا۔ آپؓ نے فرمایا: ہم (اہل بیت) صدقہ نہیں کھاتے۔

حضرت حسنؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: جو چیز دل میں کھٹک پیدا کرے اسے چھوڑ دو اور اسے اختیار کرو جو کھٹک نہ پیدا کرے، کیونکہ سچائی دل کے لیے اطمینان بخش ہوتی ہے اور جھوٹ دل میں کھٹک پیدا کرتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: دل میں کھٹک پیدا کرنے والی چیز چھوڑ دو اور جو کھٹک نہ پیدا کرے اسے اختیار کرلو۔

اس شخص نے عرض کیا: مجھے اس کا علم کیسے ہوگا؟

آپؐ نے فرمایا: جب تم کسی چیز کا ارادہ کرو تو اپنے سینے پر ہاتھ رکھو، دل حرام چیز سے مضطرب ہوجاتا ہے اور حلال چیز سے پُرسکون ہوتا ہے اور پرہیزگار مسلمان بڑے گناہ کے ڈر سے چھوٹا گناہ بھی چھوڑ دیتا ہے۔ طبرانی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپؐ سے عرض کیا گیا: ’پرہیزگار کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’جو شبہہ کے وقت رُک جائے‘۔

متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے اس مفہوم کے اقوال منقول ہیں۔

حضرت عمرؓ کا قول ہے: ربا اور ریبہ یعنی سود اور دل میں کھٹک اور شبہہ پیدا کرنے والی چیز چھو ڑ دو، چاہے بالکل ثابت نہ ہوچکا ہو کہ وہ سود ہے۔ یعنی مشکوک چیزوں سے رُک جانا چاہیے کیونکہ حلال چیز سے دل میں اطمینان و سکون پیدا ہوتا ہے، جب کہ مشکوک چیزیں دل میں کھٹکتی رہتی ہیں اور دل مضطرب رہتا ہے۔

حضرت فضیلؓ بن عیاض کہتے ہیں: ’’لوگ سمجھتے ہیں پرہیزگاری بہت مشکل چیز ہے ۔ میرے سامنے جب بھی دو صورتیں ہوں تو میں زیادہ سخت صورت کو اختیار کرلیتا ہوں‘‘۔

حضرت عبداللہ ؓ ابن مبارک سے روایت ہے: حضرت حسانؓ ابن سنان کے ایک غلام نے اہواز سے انھیں لکھا : ’گنے کی فصل پر آفت آگئی ہے ۔ آپ اپنے یہاں (زیادہ سے زیادہ) شکر خرید لیجیے‘۔

آپ نے ایک آدمی سے کچھ شکر خرید لی۔ چند ہی دنوں میں دام چڑھ گئے اورانھیں ۳۰ہزار درہم کا فائدہ ہونے لگا۔ آپ نے جس سے شکر خریدی تھی اس کے پاس گئے اور فرمایا: ’میرے غلام نے مجھے پہلے سے اس کی اطلاع دے دی تھی، لیکن میں نے تمھیں نہیں بتایا، لہٰذا اپنی شکر واپس لے لو‘۔

اس نے کہا: ’آپ نے اب بتادیا،میں بخوشی راضی ہوں‘۔ آپ لوٹ آئے لیکن دل کی کھٹک دُور نہیں ہوئی، آپ دوبارہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا: ’بھائی یہ معاملہ صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوا، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی شکر واپس لے لو‘۔ آپ اسی بات پر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ وہ شکر واپس لینے پر آمادہ ہوگیا‘۔

انھی حسانؓ کا قول ہے: ’’پرہیزگاری کتنی آسان ہے کہ جو چیز تمھارے دل میں کھٹکے اسے چھوڑ دو‘‘۔ہشام ابن حسان کہتے ہیں: ’’آج جس طرح کے مال میں لوگ کوئی حرج نہیں سمجھتے حضرت محمد بن سیرینؒ نے اس طرح کے چالیس ہزار درہم چھوڑ دیے تھے‘‘۔

حضرت حجاجؒ بن دینار نے اپنے ایک آدمی کو کچھ غذائی سامان لے کر بصرہ بھیجا اور اسے تاکید کی کہ جس دن وہاں پہنچو اسی دن کے نرخ پر بیچ دینا۔ کچھ دنوں بعد اس کا خط آیا:’’میں بصرہ پہنچا تو نرخ کم دیکھا تو کچھ دن سامان روکے رکھا۔ پھر جب نرخ بڑھ گیا تو بیچ دیا اور اس سے اتنا فائدہ ہوا ہے‘‘۔ حضرت حجاجؒ نے اسے جواب دیا:’’ تم نے میرے حکم کے خلاف کرکے خیانت کا ثبوت دیا۔ میرا یہ خط ملتے ہی پوری قیمت بصرہ کے محتاجوں میں تقسیم کر دینا، شاید ایسا کرنے سے مَیں (آخرت کی پکڑ سے) بچ جائوں‘‘۔

حضرت یزیدؒ بن زریع کے والد کسی سرکاری عہدے پر تھے۔ آپ نے ان سے وراثت میں ملے پانچ لاکھ درہم چھوڑ دیئے اور مزدوری کرکے کام چلاتے رہے۔

جناب مسور بن مخرمہ نے کافی غذائی سامان جمع کر رکھا تھا۔ موسم خریف میں بادل آتے دیکھے تو انھیں ناگوار ہوا(کہ بارش ہوئی تو غلہ خوب پیدا ہوگا اور ان کے جمع کیے ہوئے سامان کا خاطرخواہ نفع نہیں ملے گا)۔ تب انھوں نے کہا: ایسا لگتا ہے کہ جس چیز سے عام مسلمانوں کو نفع پہنچنے والا ہے وہ مجھے ناگوار ہوئی؟ لہٰذا انھوں نے اس سامان پر کوئی نفع نہ لینے کی قسم کھالی۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے انھیں دُعا دی۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کی ذخیرہ اندوزی ممنوع ہے، ان کا نفع ترک کردینا چاہیے اور اس طرح کی چیزوں کو صدقہ کر دینا ہی بہتر ہے۔

حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ حالت ِ احرام میں شکار کا گوشت، اگر خود شکار نہ کیا ہو، کھانا چاہیے یا نہیں؟

آپؓ نے فرمایا: چند دنوں کی تو بات ہے جو چیز تمھارے دل میں کھٹکے اسے چھوڑ ہی دو۔

یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ جو لوگ واضح طور پر حرام چیزوں میں ملوث ہیں، وہ معمولی شبہہ والی چیزوں میں پرہیزگاری کا ارادہ کریں تو یہ بالکل بیکار سی، بلکہ قابلِ مذمت بات ہوگی۔

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے کسی عراقی نے سوال کیا کہ کپڑے پر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہوگی یا نہیں؟ تو آپؓ نے غصّے میں آکر فرمایا: ’’مجھ سے مچھر کے خون کا مسئلہ پوچھ رہے ہو اور حسینؓ کو قتل کر ڈالا (تو کوئی مسئلہ پوچھنے کی ضرورت نہیں محسوس کی)،جب کہ میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ (حسنؓ و حسینؓ) دُنیا میں میرے پھول ہیں‘‘۔

امام احمدؒ سے کسی نے پوچھا: ایک شخص سبزی خریدتا ہے تو وہ جس رسّی میں بندھی ہوئی ملتی ہے اس کا استعمال کرنا کیسا ہے؟

آپ نے فرمایا: ہاں، اس درجے کے آدمی کے لیے تویہ مسئلہ قابلِ غور ہوسکتا ہے۔

خود امام احمدؒ اس طرح کی پرہیزگاری کیا کرتے تھے۔ آپ نے ایک بار کسی سے کچھ گھی خرید وا کر منگوایا تو وہ ایک کاغذ پر لے آیا۔ آپ نے وہ کاغذ بیچنے والے کو واپس کرایا۔ آپ اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کی دوات تک کبھی استعمال نہیں کرتے تھے، بلکہ خود اپنی دوات کی روشنائی سے ہی لکھتے تھے۔

رسولؐ اللہ فرماتے ہیں: ’’سچائی اور بھلائی دل میں سکون و اطمینان پیدا کرتی ہے اور بُرائی و جھوٹ دل میں کھٹکتا ہے۔ اس لیے اگر کسی چیز کے بارے میں دل میں کھٹک پیدا ہوئی تو اپنے دل سے پوچھو، وہ صحیح صورتِ حال فوراً بتا دے گا، چاہے دوسرے لوگ کچھ بھی باتیں بتاتے رہیں‘‘۔

پاکیزگی: عفت، یعنی پاکیزگی دو قسم کی ہوتی ہے: گھٹیا قسم کی خواہشات و ترغیبات سے پاک صاف رہنا اور شک و شبہہ کی جگہوں سے دُور رہنا۔

ہرقسم کا لالچ ذلّت و ملامت کا ذریعہ اور انسانیت کے جوہر کے خلاف ہے۔ لالچ کا علاج (جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے) مایوسی اور (جو کچھ اپنے پاس ہے اس پر) قناعت ہے۔

عبداللہؓ ابن مسعود نے روایت کیا ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جبرئیلؑ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ کوئی بھی جان اس وقت تک موت سے ہم کنار نہیں ہوگی جب تک اپنا رزق پورا نہ کرلے۔ لہٰذا، اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور خوب صورت (یعنی حلال و باوقار) ڈھنگ سے رزق تلاش کرو۔  رزق میں تاخیر تمھیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے ذریعے اسے طلب کرو‘‘۔

حضرت محمدؒ بن علی سے مردانگی کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: ’’مردانگی یہ ہے کہ پوشیدگی میں بھی کوئی ایسا کام نہ کرو جسے علانیہ کرنے میں شرم محسوس ہو‘‘۔

انسان جو کام کرنا چاہے پہلے اس پر اچھی طرح غوروفکر کرلے، اور پھر بہتر سے بہتر ڈھنگ سے انجام دے اور جب وہ یہ طریقہ اپنائے گا تو حرام اور مشکوک چیزوں سے بچے گا۔

اب عقل مند وہی شخص ہوگا جو حرام چیزوں سے دُور دُور رہنے کی کوشش کرے گا،جو مشکوک و مشتبہ چیزوں کو چھوڑ ے گا اور کھلی ہوئی حرام چیزوں کو بدرجۂ اولیٰ چھوڑ دے گا ۔ اسی لیے حدیث میں آتا ہے:’’بہترین دین پرہیزگاری ہے‘‘۔

پرہیزگاری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی اپنی جگہ بے حرکت بیٹھا رہ جائے اور اپنی درماندگی ظاہر کرے بلکہ مسلمان کو اپنی دینی بصیرت کی روشنی میں حلال کی جستجو کرنی چاہیے۔ اگر اس کا دل کسی بات پر مطمئن ہوجائے تو اسے اختیار کرلے اور اگر دل مطمئن نہ ہو تو چھوڑ دے، چاہے بتانے والے کچھ بھی بتائیں۔

پرہیزگاری کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ابوسلیمانؓ دارانی کہتے ہیں: جو چیز بھی تمھیں اللہ تعالیٰ سے غافل کردے وہ تمھارے لیے بُری ہے۔

سہیل بن عبداللہؓ نے خالص حلال کے بارے میں کہا: حلال وہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے۔ اور خالص حلال وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کیا جائے۔

ابوبکر شبلیؒ کے بقول: پرہیزگاری یہ ہے کہ تمھارا دل ایک لمحے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو۔

حضرت عمر ؓ پرہیزگاری کے سبب اپنے رشتے داروں کو سرکاری عہدوں سے دُور رکھتے تھے۔

امام ابوحنیفہؒ کپڑوں کی تجارت کرتے تھے اور اتنا نفع مقرر کر رکھا تھا، جس سے ان کی ضروریات پوری ہوجائیں ۔ اگر خریدار خوش دلی سے بھی زیادہ قیمت دینا چاہتے تھے، تب بھی وہ نہیں لیتے تھے۔