پروفیسر ربیکا گورڈن


ہم میں سے بہت سے لوگ سال میں چند بار پرندوں کا گوشت کھاتے ہیں، لیکن دنیا بھر میں لوگوں کی ایک غیر معمولی تعداد ان کی بھی ہے جو فطری ماحول میں ان کا مشاہدہ کرکے خوش ہوتی ہے۔ غزہ شہر کی چالیس سالہ دو جڑواں بہنیں میندی اور لارا سردہ بھی پرندوں کا ان کے فطری ماحول میں مشاہدہ کرنے کی شوقین ہیں۔ تقریباً ایک عشرہ قبل انھوں نے اپنے گھر کے پچھواڑے میں پرندوں کی تصویریں بنانا شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنی تصویریں پوسٹ کرنا شروع کیں، آخرکار غزہ کی پٹی میں دلدل اور پرندوں کی متحرک سرگرمیوں کے دیگر مقامات کا دورہ کیا۔ ۲۰۲۳ء میں غزہ کے پرندوں کی دستاویزبندی اور ان کی پہلی فہرست کی اشاعت میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اگر یہاں اسرائیلی قبضہ نہ ہوتا — اور موجودہ بڑے پیمانے پر جنگ جس میں ۳۴ ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں، جن میں سے ۷۲ فی صد خواتین اور بچے ہیں، اور ۶۲ فی صد مکانات کو نقصان پہنچا یا یا تباہ کر دیا گیا ہے، — تو غزہ پرندوں کے لیے مثالی آماج گاہ ہوتا۔ مشرق وسطیٰ کے بیش تر حصوں کی طرح، یہ علاقہ لاکھوں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے لیے دنیا کی عظیم فضائی گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ بحیرۂ روم سے جڑا اس کا ساحل پرندوں کو راغب کرتا ہے۔ وادیٔ غزہ، ایک ندی سے چلنے والا گھاٹی اور سیلابی میدان جو غزہ کے وسط میں پرندوں کی ۱۰۰سے زیادہ اقسام کے ساتھ ساتھ نایاب پرندوں کا گھر ہے۔ دوسرے لفظوں میں، زمین کی وہ پٹی پرندوں کی جنت ہے۔

پرندوں کی اس جنّت کو کن مسائل کا سامنا ہے؟ اس کی طرف ڈیلی بیسٹ نے ایک سال پہلے رپورٹ میں اشارہ کیا تھا: غزہ میں پرندوں کی نگرانی کرنے کا مطلب لامتناہی پابندیوں کا سامنا کرنا ہے۔ اسرائیل مصر کی سرحد کے علاوہ غزہ کے علاقائی پانیوں، فضائی حدود اور لوگوں اور سامان کی نقل و حمل کو کنٹرول کرتا ہے۔ زیادہ تر فلسطینی جو ۲۰۰۷ء میں مسلط کردہ پابندیوں کے بعد سے غزہ میں پلے بڑھے ہیں، جب سے حماس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول حاصل ہوا ہے، انھوں نے ۳۷کلومیٹر لمبی اور ۱۰کلومیٹر چوڑی پٹی کو کبھی نہیں عبور کیا۔

غزہ میں پرندوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے مختلف آلات کا حصول غزہ سے باہر نکلنے سے بھی زیادہ دشوار ہے بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ٹیلی فوٹو لینز کے ساتھ دوربین یا کیمرے خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں، تو اسرائیلی حکومت اس طرح کے آلات کو ممکنہ طور پر فوجی اور شہری مقاصد کے لیے کام کرنے کے طور پر دیکھتی ہے اور اس لیے ان اشیاء کو حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر غزہ میں پرندوں کے بارے مطالعے کی غرض سے سازوسامان کو لانے کے لیے لارا سردہ کو اجازت کے لیے مختلف دستاویزات درکار تھیں۔

غزہ سے باہر نکلنا اور کسی دوسرے ملک جانا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کے ۲۳ لاکھ باشندوں میں سے زیادہ تر کی طرح دونوں بہنیں پرندوں کی کانفرنسوں میں شرکت کرنے، اپنی فوٹو گرافی کی نمائشوں کا اہتمام کرنے، یا اپنے کام پر ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے بھی علاقہ چھوڑ نہیں سکتی تھیں۔ گویا وہ زمین کی ایک پٹی میں قید ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ اس چھوٹی سی جگہ پر ۲۳ لاکھ لوگوں کو دھکیلنا، اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بموں اور میزائلوں سے ان کا پیچھا کرنا اور اس سب کے باوجود ایک بار پھر سب کچھ شروع کرنا کیسا ہوگا؟ جیسا کہ اسرائیل لاکھوں پناہ گزینوں کے ساتھ جنوبی غزہ کے شہر رفح میں کرنے جا رہا ہے۔

lتعلیمی اداروں کی تباہی کا ہدف: لاراسردہ نے اپنے پرندوں کی جانچ پڑتال کے منصوبے میں پروفیسر عبدالفتاح کے ساتھ تعاون کیا، جو غزہ کی اسلامی یونی ورسٹی میں ماحولیاتی علوم کے ایک بہت ہی معزز پروفیسر ہیں۔ وہ غزہ میں پرندوں اور دیگر جنگلی حیات کے مطالعے اور تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ غزہ کی اسلامی یونی ورسٹی موجودہ جنگ کے پہلے ادارہ جاتی اہداف میں سے ایک تھی۔ اس پر ۱۱؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیلی افواج نے بمباری کی تھی۔ اسرائیلی اخبار ہارٹیز کے مطابق، غزہ میں علم کے وسیع ذخیرے اور تعلیمی اداروں کو مٹانے کا منصوبہ بنیادی طور پر مکمل ہو چکا ہے۔

غزہ میں یونی ورسٹیوں کی مکمل تباہی، جنگ کے پہلے ہفتے میں اسلامی یونی ورسٹی پر بمباری سے شروع ہوئی اور ۴ نومبر سے اسراء یونی ورسٹی پر فضائی حملوں کے ساتھ جاری رہی۔ اس کے بعد سے، غزہ کے تمام تعلیمی ادارے تباہ ہو چکے ہیں، اور ساتھ ہی بہت سی لائبریریاں، آرکائیوز اور دیگر تعلیمی ادارے بھی اپنی کتب، دستاویزات، لیبارٹریوں اور تمام امتحانی ریکارڈ سمیت تباہ ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کے مطابق: ’’غزہ میں ۸۰ فی صد سے زیادہ اسکولوں کو نقصان پہنچا یا یا تباہ کر دیا گیا ہے۔ فلسطینی تعلیمی نظام کو جامع طور پر تباہ کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کی جا رہی ہے۔ یقینا یہ ایک کارروائی بطور ’علمی قتل‘ ہی ہے!

اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ کے مطابق:چھ ماہ کے فوجی حملے کے بعد، غزہ میں ۱۷ہزار سے زیادہ بچے، ۵ہزار ۴سو ۶۹ سے زیادہ طلبہ، ۲۶۱؍ اساتذہ اور یونی ورسٹیوں کے ۹۵پروفیسر مارے جا چکے ہیں، اور ۷ہزار ۸سو۱۹ سے زیادہ طلبہ اور ۷۵۶؍ اساتذہ زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔ کم از کم ۶۰ فی صد تعلیمی سہولیات بشمول ۱۳ پبلک لائبریریوں کو نقصان پہنچایا یا تباہ کیا جاچکا ہے اور کم از کم۶ لاکھ ۲۵ ہزار طلبہ کی تعلیم تک رسائی نہیں رہی۔ مزید ۱۹۵ تاریخی مقامات، ۲۲۷ مساجد اور تین گرجا گھروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا یا تباہ کردیا گیا ہے، جن میں غزہ کے مرکزی آرکائیوز بھی شامل ہیں، جن میں ۱۵۰ سال کی تاریخ اور سیکڑوں برس پرانے مخطوطے تھے۔ اسراء یونی ورسٹی، غزہ کی آخری باقی ماندہ یونی ورسٹی کو اسرائیلی فوج نے ۱۷جنوری ۲۰۲۴ء کو مسمار کر دیا۔

میں جاننا چاہتی تھی کہ کیا پروفیسر عبدالفتاح ان ۹۵  یونی ورسٹی فیکلٹی پروفیسروں میں شامل تھے، جو غزہ کی جنگ میں اب تک مارے گئے تھے؟ میں نے انھیں ’گوگل‘ کیا اور ان کا ’فیس بک پیج‘ تلاش کیا۔ پتا چلا کہ وہ ابھی زندہ ہیں اور حال ہی میں مایوس کن حالات، بیماری، آلودگی، تباہ شدہ سیوریج کے بارے میں پوسٹ کر رہے ہیں۔ عارضی پناہ گاہوں میں پناہ گزینوں کو جس کا سامنا تھا، ان کی انھوں نے ایک تصویر پوسٹ کی۔ کچھ دن پہلے، انھوں نے ایک اور ذاتی تصویر اَپ لوڈ کی تھی: سفید چیزوں کا ایک پلاسٹک بیگ، جس پر نیلے عربی حروف میں لکھا ہوا تھا: ’بارش کا پہلا قطرہ‘۔ انھوں نے لکھا: ’’الحمدللہ، آٹے کا پہلا تھیلا مہینوں بعد میرے گھر میں مدد کے طور پر ملا۔سردا اور اس کی جڑواں بہن بھی زندہ ہیں، اور وہ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کرتی ہیں۔

’اسکولوں کے قتل عام‘ کے ساتھ ساتھ، اہل غزہ ایک انسانیت کش ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جیسا کہ گارڈین  کی رپورٹ کے مطابق، غزہ نے تقریباً نصف درخت اور کھیتی باڑی کی ساری بنیاد کھو دی ہے، جس کا بیش تر حصہ زمین میں تیل اور گولہ باری سے برباد اور پانی اور فضا زہریلے مادوں سے آلودہ ہوچکے ہیں۔ سمندر کا پانی سیوریج اور فضلہ کے ساتھ آلودہ ہوگیا ہے۔ غزہ بنیادی طور پر ناقابلِ رہائش بن چکا ہے، اور آنے والے برسوں تک اسی صورتِ حال سے دوچار رہے گا۔ اور پھر بھی لاکھوں لوگ وہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ انسان اس بات پر حیران ہوتا ہے کہ کیا زہریلے مادوں سے اَٹی فضا، اذیت ناک ماحولیات اور دیگر اُمور انسانی زندگی برقرار رہنے کا باعث ہوسکتے ہیں؟

lغزہ کے پرندے:غزہ کے جنگلی پرندوں کے ساتھ ساتھ پنجروں میں بند چہکنے والے پرندے اب بھی بازاروں میں خریدے جاسکتے ہیں اور رفح کے کچھ مایوس باشندے انھیں تلاش کرتے ہیں، اس امید پر کہ ان کی آوازوں میں بھری موسیقی جنگ کی آوازوں کو چھپادے گی۔ وائس آف امریکا نے نقل مکانی کرنے والی ایک خاتون کی رُوداد سنائی، جس نے سفر کے دوران محسوس کیا کہ اس نے اپنے پرندوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ پنجرے میں بند ایوئین کو بچانے کے لیے واپس آئی، اور یوں ان پرندوں کے ساتھ گہری محبت کا مظاہرہ کیا۔ تاہم، پروفیسر عبدالفتاح کہتے ہیں: ’’زیرتسلط افراد کے طور پر ہمیں پرندوں کو پنجروں میں قید نہیں رکھنا چاہیے‘‘۔

’غزہ کے پرندے‘ بھی ایک بین الاقوامی آرٹ پروجیکٹ کا نام ہے، جو جنگ میں مارے گئے بچوں کی یاد منانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی بنیاد سادہ ہے: دنیا بھر کے بچے ایک مخصوص مقتول فلسطینی بچے کا انتخاب کریں، اور اس کے اعزاز میں پرندے کو پینٹ کریں۔ ۶ہزار۵ سو سے زیادہ بچوں کا ڈیٹا بیس میں سے انتخاب کرسکتے ہیں جو گذشتہ اکتوبر سے غزہ میں مرچکے ہیں، پھر اپنی تخلیقات کی تصاویر برڈز آف غزہ کی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ دُنیا بھر میں بچے ایسا کر رہے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ فلسطین کا ایک قومی پرندہ بھی ہے؟ ’فلسطینی سن برڈ‘ ایک خوب صورت پرندہ ہے، جس نے چمک دار سبز اور نیلے رنگ کے پروں کا تاج پہنا ہوا ہے۔  مغربی کنارے کے فلسطینی مصور خالد جرار نے ’سن برڈ‘ کا جشن مناتے ہوئے ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا۔وہ کہتے ہیں: ’’یہ پرندہ آزادی اور تحریک کی علامت ہے۔یہ کہیں بھی اڑ کر جاسکتا ہے‘‘۔

lایک بہتر دُنیا کے لیـے پرندوں کی نگہداشت:آیئے واپس امریکا چلتے ہیں جہاں برڈ کلب پرندوں کے مشاہدے کو کسی کے لیے قابلِ رسائی بنانے کے لیے پُرعزم ہے،  خاص طور پر وہ لوگ جنھیں ماضی میں مختلف علاقوں میں پرندوں کے مشاہدے کے لیے محفوظ رسائی حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم پرندوں کے لیے تقاریب منعقد نہیں کرسکتے اور ایک ہی وقت میں مساوات اور انصاف کے بارے میں اپنے محبوب نظریات کی حمایت نہیں کرسکتے‘‘۔ ہمارے لیے ، یہ ’ہے‘ یا پھر’ نہیں ہے‘۔ پچھلے سال ایک کتاب برڈنگ فار اے بیٹر ورلڈ شائع ہوئی۔ یہ کتاب اس بارے میں ہے کہ لوگ کیسے حقیقی طور پرندوں سے جڑ سکتے ہیں؟  ’برڈ کلب‘ ماہنامہ برڈز فار فلسطین کو سپانسر کرتا ہے، جس میں شرکا سیکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے پرندوں سمیت فلسطین کے لوگوں کی مدد کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

جب میں اپنے صحن میں برڈ فیڈر پر شان دار پیلے رنگ کے گولڈ فنچز کو اپنے پروں کو کھرچتے ہوئے دیکھ رہی ہوں، یہ جانتے ہوئے کہ، اس خوب صورت چھوٹے سے جزیرے پر، میں اتنی ہی محفوظ ہوں جتنا کہ ایک شخص ہو سکتا ہے۔ پھر میں فلسطین کی ہولناکیوں کے بارے میں  سوچتی ہوں کہ میرے ٹیکس کی بنیاد پر امریکی کانگریس نے صرف اسرائیل کے لیے براہِ راست    فوجی امداد کے لیے مزید اربوں ڈالر کی منظوری دی، اور دوسری طرف محکمۂ خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اپنی۲۰۲۳ء کی رپورٹیں بھی جاری کیں۔ اُن میں یروشلم پوسٹ  کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی انسانی حقوق کی بہت سی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں ماورائے عدالت قتل، تشدد، بلاجواز حراست، جنسی تشدد وغیرہ شامل ہیں۔ اس سب کے باوجود، تباہ حال غزہ میں ظلم و درندگی کے شکار فلسطینیوں کے ساتھ، پرندوں کی حالت ِ زار پر کچھ لوگ تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (Tom Dispatch، مئی ۲۰۲۴ء)