سیّدابوالحسن علی ندویؒ


میں قرآن مجید کا ایک حقیر طالب علم ہوں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ قرآنِ مجید روزانہ پڑھا جاتا ہے اور حسب توفیق بار بار اور زیادہ سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب آدمی کسی چیز کو حیرت سے دیکھتا ہے تو اس کا یہ تعجب ہمیشہ قائم نہیں رہتا، وہ زائل بھی ہوجاتا ہے ۔میں اپنا حال آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں، اور اسی سے میں نے اپنی بات کہنے کا مضمون اخذ کیا ہے، کہ جب میں قرآنِ مجید میں سورئہ انفال کی یہ آیت کریمہ پڑھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں: 

اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَكُنْ فِتْنَۃٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ۝۷۳ (الانفال ۸:۷۳) (تو مومنو!) اگر تم یہ کام نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ برپا ہوجائے گا اور بڑا فساد مچے گا۔ 

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان مہاجرین اور انصار کو مخاطب فرمایا ہے، جو مشرف بہ اسلام تھے۔ جہاں تک ان مہاجرین کا تعلق ہے جو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آئے تھے، وہ چندسو کی تعداد میں تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہجرت کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ ہجرت میں آدمی کو گھربار چھوڑنا پڑتا ہے، اعزّہ واقربا سے دُور ہونا پڑتاہے، اور ان سہولتوںکو خیرباد کہنا پڑتا ہے جو موروثی اور مقامی طور پر اس کو حاصل ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان مہاجرین کی تعداد محدود تھی، اور جن لوگوں نے مدینہ طیبہ میں اسلام قبول کیا تھا، ان کی تعداد بھی اس وقت تک کچھ زیادہ نہ تھی۔ حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تین مرتبہ مسلمانوں کو شمار کیا گیا، یعنی مردم شماری کی گئی۔ پہلی مرتبہ شمار کرنے میں مسلمانوں کی تعداد پانچ سو، دوسری مرتبہ چھ سو، سات سو کے درمیان تھی، اور تیسری مرتبہ شمار میں مسلمان ڈیڑھ ہزار تھے۔ اس تعداد پر مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اطمینان کا سانس لیا کہ اب ہم ڈیڑھ ہزار ہوگئے ہیں، اب ہمیں کیا ڈر ہے؟ ہم نے تو وہ زمانہ دیکھا ہے جب ہم میں سے کوئی اکیلا نماز پڑھتا تھا، پھر بھی دشمنوں کا ڈر لگا رہتا تھا(صحیح بخاری، ج۲،کتاب الجہاد، باب کتابۃ الامام للناس)۔ 

 گویا یہ مٹھی بھر انسانوں کی آبادی تھی، جس نے اسلام قبول کیا تھا، اور جس نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی کہ اس کے چاروں طرف انسانی آبادی کا جو سمندر پھیلا ہوا ہے، اس میں وہ ہدایت و تبلیغ کا کام کرے گی۔ اس کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ساری دُنیا میں زیادہ تر وہ لوگ تھے، جنھوں نے اسلام کا نام بھی نہیں سنا تھا، قبول کرنے کا کیا ذکر، پھر اُس وقت دُنیا کی دوعظیم الشان سلطنتیں تھیں جن کو Empire کہنا چاہیے۔ وہ صرف ایمپائر ہی نہیں تھیں، اور ان کی حیثیت محض انتظامیہ اور حکومت ہی کی نہیں تھی، ان کے ساتھ مستقل تہذیب تھی، مستقل تمدن، طرزِ زندگی اورمعیارواقدار تھے۔ متمدن دُنیا کا سب سے بڑا حصہ جس پر دونوں شہنشاہیاں بلاواسطہ یا بالواسطہ قابض تھیں، وہیں سےوہ تہذیب لیتے تھے، وہیں سے فیشن اخذ کرتے تھے، اور وہیں سے قانون لیتے تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ Roman Law (رومی قانون) دُنیا میں کتنی وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اور ایرانی تہذیب ہندستان اور دُور دراز ملکوں تک پہنچ گئی تھی۔ 

میں جب اس آیت پر پہنچتا ہوں تو ہمیشہ تصویرِ حیرت بن کر رہ جاتا ہوں۔ سوچنے لگتا ہوں کہ یااللہ! یہ کس سے کہا جارہا ہے، کب کہا جارہا ہے، اور کہاں کہا جارہا ہے؟ یہ آخری مسلم شماری جس میں مسلمان ڈیڑھ ہزار نکلے، بعض شُرّاحِ حدیث اور محققین کی تحقیق میں جنگ اُحد کے موقعے پر ہوئی، جو تین ہجری میں پیش آئی اور بعض کے نزدیک جنگ ِ خندق (جس کو غزوۃ الاحزاب بھی کہا جاتا ہے) کے موقعے پر ہوئی جو پانچ ہجری میں پیش آئی۔ اس طرح یہ مدت زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی ہوتی ہے، جس میں مسلمانوں کے شمار کرنے کا یہ کام ہوا ۔ اس طرح یہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دوہزار مسلمان تھے، جن سے کہا جارہا ہے کہ تم اپنی شیرازہ بندی کرو اور ایک نئی ’وحدت‘ (Unit) قائم کرو، جس کی اساس ایمان پر ہو، قرآن پر ہو، صحیح عقیدہ پر ہو اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سرپرستی میںہو۔ 

یہ ’وحدت‘ اس لیے قائم کرنے کے لیے کہا جارہا ہےکہ تم اس ’وحدت‘ کے ذریعے دُنیا میں اسلام کا پیغام پہنچائو اور دُنیا کو ’جاہلیت‘ (من مانی آزادی اور نفس پرستی) کی زندگی سے نکال کر اسلام (خدا پرستی اور کامل خود سپردگی) کی دعوت دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو دُنیا میں فتنۂ کبریٰ اور فسادِعظیم برپا ہوگا۔ 

میں اس موقعے پر سوچتا ہوں کہ جن سے کہا جارہا ہے اور جو اس آیت کے مخاطب ہیں، ان میں اور ان پر جس کام کی اور دُنیا کی جس آبادی کی ذمہ داری ڈالی جارہی ہے، دونوں میں کیا تناسب تھا؟ لیکن فارسی میں ایک محاورہ ہے، اور ہم اس کو عربی میں بھی ادا کردیا کرتے ہیں کہ ’’بقامت کہتر و بقیمت بہتر‘ یعنی قدوقامت کے لحاظ سے چھوٹا، لیکن قیمت کے لحاظ سے کہیں بڑا اور بہتر، یعنی العبرۃ بالقیمۃ لابالقامۃ ۔ یہ اس جماعت سے کہا جارہا ہے جو ’بقامت کہتر‘ تھی، لیکن ’بقیمت بہتر‘۔ اصل چیز جو فیصلہ کُن ہے وہ ’قیمت‘ ہے، ’قامت‘ نہیں۔ 

چنانچہ، اس کہتر قامت اور بہتر قیمت نے اپنی انقلاب انگیزی اور عہد آفرینی ثابت کردی۔ ایرانی سلطنت کا چراغ گُل ہوگیا۔ صرف سلطنت کا نہیں، ایرانی تہذیب کا، اُن کے معیاروں اور اُن کی قدروں (Ideals & Values) کا جو حقیقی طور پر حکومت کرتے اور زندگی کی تشکیل کرتے ہیں، جن کو عربی میں الْمُثُل وَالقیَم کہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی خلافت کے آخری دور یا زیادہ سے زیادہ خلافت ِ راشدہ کے اختتام تک دُنیا کا متمدن ترین حصہ جو مہذب اور ترقی پسند انسانوں کے لیے نمونہ اور معیار (Ideal) کا درجہ رکھتا تھا، وہ بدل گیا تھا یا برابر بدل رہا تھا۔ معیار بدل گئے، سوچنے کے طریقے بدل گئے تھے۔ لوگ ایران اور روم کی ذہنی و فکری غلامی سے آزاد ہورہے تھے۔ مہذب اور ترقی یافتہ کہلانا، احترام اور وقعت کی نگاہ سے دیکھا جانا معیار نہیں رہا تھا۔ حکمِ خداوندی کی تعمیل اور سنت ِ نبویؐ کی پیروی اور عہد ِ رسالت اور اس کے معتبر نمائندوں سے مشابہت، تہذیب میں، معاشرت میں، رسوم و عادات میں اور لباس و مظاہر میں تعریف اور قدر کی چیز سمجھی جانے لگی تھی۔ اس کی مثالیں آپ کو بڑے بڑے دولت مندوں اور بااقتدار لوگوں کی زندگی میں تاریخ کی کتابوں میں ملیں گی۔ 

آپ کو معلوم ہے کہ زندگی کے آلات و وسائل تو بدلتے رہتے ہیں، تمدن کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں، لیکن ذلّت و عزّت کے پیمانے، علم و جہالت کے معیار اور علامتیں، بہت دیر اور بہت مشکل سے بدلتی ہیں۔ اس میں بعض اوقات صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اگر آپ انسانی تہذیب کی تاریخ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بعض پیمانے صدیوں تک حکومت کرتے رہے، لیکن یہاں سوچنے کے طریقے بدل گئے۔ کرنا تو الگ چیز ہے، کرنے میں تو بہت جلد تغیر آجاتا ہے، لیکن سوچنے کا طریقہ بہت بڑی طاقت ہے، اور وہی زندگی پر حکمرانی کرتا ہے۔ ہم بھی بہت سے اسلامی ممالک میں دیکھتے ہیں کہ مغربی اقتدار اور تہذیب کے اثر کے پیمانے نہیں بدلے، پیمانوں میں ناپنے والی چیزیں بدل گئیں۔ عزّت و شرافت، خوش نصیبی و بدنصیبی، علم و جہالت، ترقی و پس ماندگی کے وہی معیار ہیں جو باہر کی حکومت کرنے والی قوموں اور تہذیبوں نے عطا کیے ہیں۔ 

اب آپ ان حقائق کی روشنی میں دیکھیے کہ کس پر اور کس وقت ساری دُنیا میں انقلاب لانے کی اور اس کو خداپرستی ، خدا ترسی، انسان دوستی، ایثار و قربانی اور ہدایتِ ربانی کے راستے پر چلنے اور چلانے کی عالم گیر ذمہ داری ڈالی جارہی ہے؟ اور اس ذمہ داری کے ادا کرنے اور اس کے سلسلے میں کامیابی حاصل کرنے میں اس ’بقامت کہتر و بقیمت بہتر‘ جماعت کو کتنی بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے لیے آپ چھٹی صدی عیسوی کے بعد کی مختلف زبانوں (اور خاص طور پر انگریزی) میں لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ فرمایئے۔ 

حضرات! میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ نے اس مرکز (Islamic Foundation) کے قیام کے لیے صحیح جگہ کا انتخاب کیا۔ اگر یہاں سے یا کسی بڑے مغربی ملک یا مغربی تہذیب کے بڑے مرکز سے انقلاب شروع ہوا تو وہ طاقت میں اور گہرائی میں، وسعت میں بھی، اور حجم میں بھی، قابلِ لحاظ ہوگا۔ خدا کرے وہ دن آئے کہ ان ملکوں میں بھی لوگوں میں حق کی طلب اور اپنی زندگی کے خلا کا احساس پیدا ہو، اور وہ یہ کہیں کہ آپ ہم کو اس تاریکی کی زندگی، نفس پرستی کی زندگی اور کوتاہ نظری کی زندگی سے نکالیے۔ یہاں پر یہ نکتہ یاد رہے کہ قرآنِ مجید میں تاریکی کے لیے اکثر جمع کا صیغہ ظلمات آتا ہے اور روشنی کے لیے واحد کا صیغہ النُّور آتا ہے۔ یُخْرِجُھُمْ  مِّنَ الظُّلُمَاتِ  اِلَی  النُّوْرِ وغیرہ وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ظلمتیں بے شمار ہیں اور نُور ایک ہے۔ اہلِ مغرب کہیں کہ ہمیں یہ دولت آپ ہی کے یہاں سے مل سکتی ہے۔ 

اگر آپ نے اس ملک میں رہتے ہوئے زندگی کا ایک نیا ماڈل، ایک نیا سانچا اور ایک نیا نمونہ پیش کیا، جس میں یہاں کی زندگی، طرزِ معاشرت، نفس پرستی اور دولت پرستی اور ہرقسم کی آزادی سے امتیاز ظاہر ہوا، تو لوگوں کے اندر اسلام کے مطالعے کا شوق پیدا ہوگا۔ وہ آپ کے یہاں آئیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں کوئی کتاب دیجیے جس سے ہم سمجھیں کہ اس انقلاب کا سرچشمہ کہاں ہے؟ کہاں سے یہ تبدیلی آئی اور آپ میں امتیاز پیدا ہوا؟ 

میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں خاص طور پر خورشیداحمد صاحب اور مناظر احسن صاحب اور سب حضرات اور اس ادارہ کے ذمہ داروں کا کہ آپ نے ہمارے ساتھ برادرانہ ہی نہیں کریمانہ اور فیاضانہ سلوک کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ توفیق دے کہ یہ مرکز زیادہ سے زیادہ ہدایت اور نفع کا سرچشمہ بنے۔ اللہ وہ دن ہمیں دکھائے کہ جیسے پہلے اس ملک سے دُنیا پرستی اور نفس پرستی اور مادّیت کی ہوا چلی تھی، الحاد اور لادینیت کا رجحان پیدا ہوا تھا، ویسے ہی یہاں سے اب ایمان کی، اخلاق کی، انسانیت اور شرافت کی اور ہدایت کی ہوا چلے۔ 

آخر میں اقبال کے ان چند اشعار پر اس خطاب کو ختم کرتا ہوں، جو اس مقام و ماحول، عہدوزمانہ اور مسلمانوں کے مقام و پیغام سے بھی خاص مناسبت رکھتے ہیں:  

ناموسِ اَزل را تو امینی تو امینی 
دارائے جہاں را تو یساری تو یمینی 

اے بندئہ خاکی تو زمانی تو زمینی 
صہبائے یقیں درکش و ازدیر گماں خیز 

از خوابِ گراں ، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز 
از خوابِ گراں خیز 

فریاد ز افرنگ و دلآویزیٔ افرنگ 
فریاد زشیرینی و پرویزیٔ افرنگ 

عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیٔ افرنگ 
معمارِ حرم! باز بہ تعمیرِ جہاں خیز 

از خوابِ گراں ، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز 
از خوابِ گراں خیز 

[زبورِ عجم، ص ۸۳] 

احنف بن قیس ایک بڑے عرب سردار تھے۔ مشہور تھا کہ: اگر احنف کو غصّہ آتا ہے تو ایک لاکھ تلواروں کو غصّہ آجاتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت تو انھوں نے نہیں کی، مگر آپؐ کی زیارت کرنے والوں کی زیارت کی اور ان کے ساتھ رہے۔ خاص طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بڑے معتقد اور مخلص تھے۔ ایک دن کسی قاری نے یہ آیت تلاوت کی:

لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ  ذِكْرُكُمْ ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۰ۧ (الانبیا ۲۱:۱۰)     ہم نے تمھاری طرف ایک کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا ہی تذکرہ موجود ہے۔ تم غوروفکر سے کام نہیں لیتے؟ عربی اُن کی زبان تھی، یہ سن کر چونک پڑے۔ گویا نئی بات سنی، کہنے لگے: ’’ہمارا تذکرہ! ذرا قرآن تو لائو، دیکھوں میرا کیا تذکرہ ہے اور میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں؟‘‘قرآن مجید دیکھا تو لوگوں کی صورتیں ان کے سامنے سے گزرنے لگیں۔

ایک گروہ آیا جس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَہْجَعُوْنَ۝۱۷ وَبِالْاَسْحَارِہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۝۱۸ وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۱۹ (الذاریات   ۵۱:۱۷-۱۹) وہ لوگ رات کو بہت کم سوتے تھے اور آخر شب میں استغفار کیا کرتے تھے اور ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق تھا۔

پھر کچھ ایسے لوگ آئے جن کا حال یہ تھا کہ:

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۡوَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۱۶ (السجدہ   ۳۲:۱۶) ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے رب کو اُمید سے اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں۔

پھر کچھ ایسے کہ:

يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا۝۶۴ (الفرقان   ۲۵:۶۴) راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدے اور قیام میں لگے رہتے ہیں۔

پھر ایک قافلہ گزرا جس کی شان یہ تھی کہ:

يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ۝۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۳۴ۚ(اٰل عمرٰن   ۳:۱۳۴) خرچ کرتے ہیں فراغت میں اور تنگی میں اور غصے کو ضبط کرنے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور اللہ ایسے نیکوکاروں کو محبوب رکھتا ہے۔

ابھی نظر بھر کر ان کو دیکھ نہیں سکے تھے کہ کچھ ایسے جوان مرد سامنے آگئے جن کا عالم یہ تھا:

وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۝۰ۭۣ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۹ (الحشر   ۵۹:۹) دوسروں کو اپنے اُوپر ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کو تنگی و فاقہ ہو اور (واقعی) جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے وہ بڑا کامیاب ہے۔

ابھی ہٹے ہی تھے کہ ایک دوسرا نمونہ سامنے آیا:

كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْـفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ہُمْ يَغْفِرُوْنَ۝۳۷ۚ وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۝۰۠ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ  ۝۰۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳۸ۚ (الشوریٰ   ۴۲:۳۷-۳۸) جو بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں اور جب ان کو غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں اور جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور و ہ نماز کے پابند ہیں اور ان کا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور ہم نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

حضرت احنف اپنے کو پہچانتے تھے۔ کہنے لگے: ’’خدایا! میں تو ان میں کہیں نظر نہیں آتا‘‘۔ اب انھوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اس میں ان کو اور طرح طرح کے آدمی نظر آنے لگے۔

ایک بھیڑ ملی، جس کا حال یہ تھا:

اِذَا قِيْلَ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ۝۰ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ۝۳۵ۙ وَيَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِـہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْــنُوْنٍ۝۳۶ۭ (الصّٰفّٰت   ۳۷:۳۵-۳۶) جب ان سے کہا جاتا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کیا کرتے اور کہتے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک شاعرِ دیوانہ کی وجہ سے چھوڑ دیں گے؟

اور آگے بڑھے تو کچھ ایسے لوگ ملے کہ:

وَاِذَا ذُكِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِذَا ہُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵ (الزمر   ۳۹:۴۵) جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں، اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھِل اُٹھتے ہیں۔

کچھ ایسے بدقسمت بھی کہ جب ان سے کہا گیا: مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ ۝ (المدثر ۷۴:۴۲)’’تم کو دوزخ میں کس بات نے داخل کیا؟‘‘ تو وہ جواب دیں گے:

قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۝۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۝۴۴ۙ وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ۝۴۵ۙ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۝۴۶ۙ حَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ۝۴۷ۭ (المدثر   ۷۴: ۴۳-۴۴) ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے اور نہ غریب کو کھانا کھلایا کرتے تھے اور ہم باتیں بنانے والوں کے ساتھ خود بھی مشغول ہوجاتے تھے اور ہم آخرت کا انکار کرتے تھے، یہاں تک کہ ہم کو موت آگئی۔

حضرت احنف یہ صورتیں دیکھ کر گھبرا گئے۔ کہنے لگے کہ خدایا! ایسے لوگوں سے تیری پناہ! مَیں ان سے بے زار ہوں، اورمجھے ان سے کوئی تعلق نہیں۔

وہ اپنے متعلق نہ تو دھوکے میں تھے اور نہ ایسے بدگمان کہ اپنے کو مشرکوں اور باغیوں میں سمجھ لیں۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی دولت دی ہے اور ان کا مقام بہت بلند نہ سہی مگر ان کی جگہ مسلمانوں ہی میں ہے۔ ان کو ایسی صورت کی تلاش تھی جس کو وہ اپنی کہہ سکیں۔ ان کو اپنے ایمان کا یقین بھی تھا اور اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا علم بھی۔ اور اللہ کی رحمت اور مغفرت پر بھروسا بھی۔ نہ ان کو اعمال پر غرہ تھا نہ خدا کی رحمت سے مایوسی۔ ان کو اس ملی جلی صورت کی تلاش تھی اور اس کا یقین تھا کہ وہ صورت اس جامع و مکمل، اس زندہ و تازہ کتاب میں ضرور ملے گی۔ انھوں نے سوچا: کیا ایسے خدا کے بندے نہیں ہیں جو ایمان کی دولت بھی رکھتے ہیں ، اپنے گناہوں اور تقصیروں پر شرمندہ بھی ہیں؟ کیا خدا کی رحمت ان کو محروم رکھے گی؟ کیا اس کتاب میں جو سارے انسانوں کے لیے ہے، ان کی صورت اور ان کا تذکرہ نہیں ملے گا؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔

حنف کو بالآخر اپنی تلاش میں کامیابی ہوئی اور اللہ کی اس پاک کتاب میں اپنے کو ڈھونڈ نکالا:

وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّــئًا ۝۰ۭ عَسَى اللہُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ  اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۰۲ (التوبۃ   ۹:۱۰۲) اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنی خطائوں کا اقرار ہے۔ انھوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے کچھ بُرے۔ اللہ سے اُمید ہے کہ ان کے حال پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمائے۔بلاشبہہ اللہ بڑی مغفرت والابڑی رحمت والا ہے۔

انھوں نے کہا: بس بس میں مل گیا۔ میں نے اپنے کو پالیا۔ مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ مجھے خدا کی توفیق سے جو کچھ نیک اعمال ہوئے ان کا انکار نہیں۔ ان کی ناقدری نہیں، ناشکری نہیں۔ مجھے خدا کی رحمت سے نااُمیدی نہیں: وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۝۵۶ (الحجر ۱۵:۵۶) ’’اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوسکتے ہیں جو گمراہ ہیں‘‘۔ ان سب سے مل جل کر جو صورت تیار ہوئی وہ میری صورت ہے۔ اس آیت میں میرا اور میرے جیسوں کا حال بیان کیا گیا ہے اور ان کا نقشہ کھینچا گیا ہے___ قربان اپنے رب کے جس نے اپنے گناہ گار بندوں کو فراموش نہیں فرمایا۔

حضرت احنف کی تلاش کا یہ قصہ ختم ہوگیا۔ وہ اپنے پیدا کرنے والے کے پاس پہنچ گئے، مگر یہ کتاب موجود ہے اور قیامت تک رہے گی۔ قومیں اگر اپنے کو اس میں تلاش کریں گی تو پالیں گی۔ جماعتیں اور مختلف طبقے اگر اپنے کو اس آئینے میں دیکھنا چاہیں تو دیکھ لیںگے۔ افراد ، ہم اور آپ___ اگر اپنے کو تلاش کرنے نکلیں گے تو ان شاء اللہ ناکام واپس نہیں ہوں گے۔ حضرت احنف نے ہم کو سچی تلاش کا ایک نمونہ دکھلایا اور قرآن پڑھنے اور اس پر غور کرنے کا صحیح طریقہ سکھا گئے۔ ہمیں اس نمونے اور تعلیم سے فائدہ اُٹھا کر قرآنِ مجید کا مطالعہ شروع کرنا چاہیے۔