طارق احمد


کشمیر کی سیاسی تاریخ خیانت، جوڑ توڑ، منظم ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ، عسکری ریاستی تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھری پڑی ہے۔ طاقت ور حکمران، سیاست دان، فوجی بیوروکریسی اور بھارتی میڈیا میں موجود نسل پرست مقبوضہ علاقے میں ظلم و ستم کے ذمہ دار ہیں۔

بھارت کے نوآبادیاتی منصوبے کا ایک اہم حصہ کشمیریوں پر جبر اور بے اختیاری میں پوشیدہ ہے، جسے انضمام کی حکمت نے اور بھی زیادہ بدنُما بنادیا ہے۔ اس ظلم و زیادتی کے دوران کشمیری عوام کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنانے کی کوششوں کے ذریعے یہاں تاریخ کو بے دریغ کچلا گیا ہے۔ بین الاقوامی قانونی ماہرین نے ان خلاف ورزیوں کو 'انسانیت کے خلاف جرائم کے طور پر بیان کیا ہے۔

زندگی کے ہر شعبے میں چھایا ہوا خوف

ایک بے چین، دُکھی اور غم و غصہ پر مبنی ماحول کشمیر کے سماجی اور سیاسی منظر نامے پر چھایا ہوا ہے۔ پوری وادی پختہ فوجی مورچوں، برقی لہر میں ڈوبی تاروں، غیر نشان زدہ اجتماعی قبروں، ڈیجیٹل نگرانی کے ایک آکاس بیل اور عسکری چھائونیوں سے اَٹی ہوئی ہے۔ بڑی تعداد میں عورتوں کی عصمت دری اور مردوں کو قتل، اندھے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لاپتہ اور قید کیا گیا ہے۔

فوجی حکام نے پچھلے کچھ برسوں میں اپنی جابرانہ حکومتوں کو تیز تر کیا ہے، جس میں انسانی حقوق کے علَم برداروں، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے ارکان کی آوازوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی نیت سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

انڈین حکومت کو انصاف میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ انصاف جوانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرتا ہے، اور مخالفین کو قتل کرنے، معذور کرنے یا خاموش کرنے سے روکتا ہے۔

’کشمیر لا اینڈ جسٹس پروجیکٹ‘ (KLJP) کی ایک جامع سروے رپورٹ، جس کا عنوان ہے: They Should be Beaten and Skinned Alive: The Final Phase of India's War on Kashmir [انھیں مارا پیٹا جائے اور زندہ کھالیں، ادھیڑ دیں: کشمیر سول سوسائٹی کے خلاف ہندوستان کی جنگ کا آخری مرحلہ]، اس میں ان صحافیوں کے مقدمات کی دستاویز مرتب کی گئی ہے، جنھیں حراست میں لیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، یا وہ اپنے پاسپورٹ سے محروم ہیں۔

یونی ورسٹیوں نے متعدد ماہرین تعلیم کو برخاست کر دیا ہے اور انھیں بغیر کسی کارروائی کے جیل میں ڈال دیا ہے۔ اسکالرز اور ماہرین تعلیم قریبی نگرانی، ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کیے جانے کا شکار ہیں۔اپنی خانہ زاد عدالتوں کے ذریعے جبر کو قانونی شکل دے کر اور کشمیر مخالف اور پاکستان مخالف بیان بازی کو اُبھارا گیا ہے۔ میڈیا میں اپنے ’سپاہیوں‘ کے ذریعے ہندو قوم پرست حکومت نے نوآبادیاتی علاقوں سے اٹھنے والی آوازوں کو دبا کر رکھ دیا ہے۔

ہیلی ڈشنسکی اور ایس این گوش نے 'پیشہ ورانہ آئین پرستی کے طور پر بیان کیا ہے، وزیراعظم مودی کی حکمراں ہندو قوم پرست پارٹی نے بے شرمی سے کشمیر میں جبر کو قانونی شکل دی ہے۔ نوآبادیاتی حکام کی طرف سے کشمیریوں کو دبانے کے لیے استعمال کیے جانے والے قانونی حکم ناموں کی ایک سیریز میں جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ ۱۹۷۸ (PSA ایکٹ)، اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ، ۱۹۹۰ (AFSPA) شامل ہیں۔

’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کے مطابق PSA ایک ایسا 'غیرقانونی ہتھیار ہے، جو اختلافی آوازوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ انھیں من مانے اور غیر معینہ مدت کے لیے قید کیا جاسکے۔ دوسری طرف AFSPA تلوار اور ڈھال دونوں کے طور پر کام کرتا ہے۔ خود کو احتساب اور قانونی نتائج سے بچاتے ہوئے، ہندوستانی فوج نے AFSPA کو مخالفین کے خلاف تیزدھار تلوار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، یہ قوانین بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دینے کے علاوہ، انصاف کے بنیادی اصولوں جیسے مساوی سلوک کو برقرار رکھنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ بدترین مذاق یہ ہے کہ وہ لوگ جواب دہ نہیں ہیں جو قتل کے تمغے جیتنے کے لیے ان قوانین کو بے دریغ قتل عام کے آلے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

دسمبر ۲۰۲۰ء میں ایک جعلی پولیس مقابلے کے دوران، ایک سولہ سالہ نوجوان اطہر کو دودیگر شہریوں کے ساتھ، قتل کر دیا گیا تھا۔ اور پھر والدین اور خاندان کے دیگر افراد پر انسداددہشت گردی کے جرائم کا الزام عائد کیا گیا، جب انھوں نے میت کی تدفین کا مطالبہ کیا۔

روزمرہ زندگی میں ہرطرف پھیلا ہوا خوف

فوجی حکام ٹکنالوجی کی مدد سے نگرانی اور پیش گوئی کرنے والے آلات استعمال کرتے ہیں، بشمول چہرے کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کے۔ کاروباری اداروں کو سی سی ٹی وی سسٹم لگانے اور روزانہ کی فوٹیج حکام کو جمع کرانے پر مجبور کیا گیا ہے، جس سے شہری آزادیوں اور رازداری کو خطرہ لاحق ہے۔ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی ان ٹکنالوجیز کے ذریعے، افراد کو ان کے سیاسی عقائد یا سرگرمیوں کی وجہ سے شناخت کیا اور نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ لوگ محسوس کرسکتے ہیں کہ انھیں انتقام کے خوف سے خاموش رہنا چاہیے، اس عمل سے سیلف سنسرشپ کا کلچر جنم لے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قابض افواج اس ڈیٹا کا غلط استعمال کریں۔

قابض حکام نے حال ہی میں بھارت اور کشمیر میں انسانی حقوق کے مسائل کو اجاگر کرنے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارت کے دفتر کو بند کر دیا ہے۔ این جی اوز کو پولیس کے ذریعے ڈرایا اور ہراساں کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے پر بھارت سے دیگر چیزوں کے علاوہ، ’مصنوعی ذہانت‘ (AI)استعمال کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تاکہ حکومتی کارروائی کی قانونی بنیاد فراہم کی جاسکے۔شاعروں اور موسیقاروں سمیت کشمیری فنکاروں کو ڈرایا دھمکایا گیا، ہراساں کیا گیا اور حراست میں لیا گیا، مگر اس کے باوجود وہ بے خوف رہتے ہیں اور زیر زمین احتجاجی موسیقی اور نغمے بناتے رہتے ہیں۔

بھارتی عدالتوں میں قانونی نمائندگی کی عدم موجودگی میں، کشمیری طالب علموں کو چوکس گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مارا پیٹا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے یا بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں، طالب علموں پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے T20 ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارت کے خلاف جیت کا کیوں جشن منایا تھا؟

’نرم جبر‘ (Soft Repression)کا سب سے تیز دھار آلہ جھوٹ پر مبنی ہتھیاروں سے لیس میڈیا ہے۔ قوم پرست مزاحمتی بیانیہ کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے تماشے کی پکار لگاتے ہوئے اور پاکستان مخالف اور کشمیر دشمنی کو بھڑکاتے ہوئے میڈیا، کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوجی تشدد کے لیے جوازگھڑتا ہے۔نوآبادیاتی حکام نے حال ہی میں کئی مزاحمتی گروپوں کو غیرقانونی انجمنیں قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی لگا دی۔ مزاحمتی تنظیموں کو بدنام کیا اور غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے۔

اس جبر کی نشاندہی، نیم فوجی اہلکاروں کی طرف سے ان تنظیموں کے ارکان کی بے حرمتی، ہراساں کرنے، نگرانی، ممانعتوں، حراستوں، تشدد، اور ٹارگٹ اور حراستی قتل سے ہوتی ہے۔ پولیس اور فوج کے ذریعے نوآبادیاتی حکام کشمیریوں کی سیاسی مزاحمت کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ وہ عسکریت پسندانہ جوابی کارروائی کا جواز پیش کرتے ہیں۔

اس کے برعکس بھارت کو دُنیا کے سامنے تسلیم کرنا پڑے گا کہ کشمیری مزاحمتی تحریک کا خونیں بھارتی قوانین کو مسترد کرنا اور برہمنی نوآبادیاتی آباد کاروں کو مسترد کرنا لازم و ملزوم ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہیں جس کے ذریعے بھارتی حکمران آبادکار نوآبادیاتی ہندو ریاست کو وجود میں لاتے ہیں۔

کشمیر بطور ایک آبادکار نوآبادیاتی تجربہ گاہ

کشمیر، حکمران ہندو قوم پرست پالیسی کے لیے ’ہندوتوا‘ نوآبادیاتی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ وہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے مستعد ہیں۔ وہ ریاست کی طرف سے سنگدل تشدد مسلط کرتے ہیں، کشمیریوں کو پاکستان کے حامی (لہٰذا انڈیا مخالف) ایجنٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جنھیں ’دہشت گرد دشمن‘ کے طور پر مارا جانا چاہیے یا بصورت دیگر طویل عرصے تک سماجی اور سیاسی زندگی سے مستقل طور پر ہٹا دیا جانا چاہیے۔ مسلسل جیل کی سزائیں او ر نوآبادیاتی تسلط کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کاجنون دیکھتے ہوئے کشمیری بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ کیونکہ وہ اس جبر کی طویل سیاہ رات میں مادی، نفسیاتی اور جسمانی اثرات کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایک طویل سفر ان کے آگے ہے۔ فی الحال، وہ بندوقوں کے سائے میں کھدائی کر رہے ہیں۔