ڈاکٹراعجاز شفیع گیلانی


مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کی مناسبت سے چند اہم سوالات اُٹھا کر، ماہ نامہ ترجمان القرآن نے ایک نہایت مثبت قدم اُٹھایا ہے۔ تہذیبیں، زندگی سے الگ تھلگ اور کوئی معلق چیز نہیں ہوتیں بلکہ تہذیبی عمل عموماً اپنے زمانے کی متعدد رائج الوقت تہذیبوں، اُن کے مذہبی اور اعتقادی اصولوں اور انسانی زندگی پر حاوی، مادی بشمول حکومتی قوتوں کے درمیان پائی جانے والی کش مکش، تعاون اور افہام و تفہیم کا مرکب ہوتی ہیں۔ لہٰذا، اس حوالے کی مناسبت سے ہم نے تہذیبوں کی تفہیم اور ان کے باہمی مکالمے کا موضوع چُنا ہے اور گفتگو کے لیے درج ذیل بارہ نکات پیش کیے ہیں:

۱-         حالیہ تاریخ میں تہذیبوں کے درمیان مکالمے کا موضوع اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب ۱۹۹۰ء کے عشرے میں تہذیبوں کے تصادم کا چرچا ہوا۔ لفظ’تصادم‘ کے بیانیے کو عمومی طور پر ناپسند کیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد اقوام متحدہ کے تحت ’تہذیبوں کے مکالمے‘ کے نام سے ایک شعبہ بھی قائم ہوگیا، جس کی سربراہی اقوام متحدہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل کے سپرد تھی۔ پھر یہ شعبہ رفتہ رفتہ گمنامی میں چلا گیا۔

۲-         البتہ اس دوران اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے امریکا اور مغربی یورپ کی غالب دانست کے مطابق، قیادت میں مشترکہ عالم گیر اقدار کی نشان دہی کرکے اُنھیں قانونی اور نیم قانونی حیثیت دینے کی ایک کوشش شروع کر دی۔

۳-         اس کوشش کے نتیجے میں ’مشترکہ عالم گیر اقدار‘ اور ’عالم گیر انسانی حقوق‘ کی گفتگو نے گذشتہ تین عشروں میں ایک اہم اگرچہ متنازع مقام حاصل کرلیا ہے۔

۴-         ’عالم گیر انسانی حقوق‘ کے تصور کی بنیاد پہ کیے جانے والے متنازع اقدامات نے اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کے دائرئہ کار میں واضح تبدیلی پیدا کردی ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی ’سیکورٹی کونسل‘ اور ’سوشل اینڈ اکنامک کونسل‘ کے درمیان واضح تقسیم گڈمڈ ہوگئی ہے۔ ۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے وقت یہ تقسیم بہت واضح تھی۔ سیکورٹی کونسل کا دائرئہ اختیار ’حکومتوں کے دائرۂ کار‘ تک محدود تھا، جب کہ ’سوشل اینڈ اکنامک کونسل‘ اُن اُمور پر مشتمل تھی، جو معاشرتی نوعیت کے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قابلِ تنفیذ فیصلوں کا اختیار سیکورٹی کونسل کے پاس تھا اور اُسے ہی پانچ بڑی طاقتوں کے ’ویٹو‘ کا پابند کیا گیا تھا۔

۵-         انسانوں کی اجتماعی تنظیم میں حکومت کے اختیار، فرد کے اختیار، اور افراد کے غیرحکومتی سماجی اداروں کے اختیار کی ایک تقسیم پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے باہمی ’تقسیم کار‘ اور ’تقسیم اقتدار‘ کی وضاحت کی ایک اہمیت ہے۔

۶-         اسلامی تہذیب ’حکومت‘ کو قوانین کے ’نفاذ‘ میں ’اوّلیت‘ اور قانون کی ’تشکیل‘ میں ’ماتحت‘ حیثیت دیتی ہے۔ اگرچہ دونوں پہلوئوں کو ضابطۂ حیات کی ایک ناقابلِ تقسیم اکائی کے اجزاء کے طور پر بیان کرتی ہے۔

۷-         اسلامی شریعت میں فرد، معاشرے اور حکومت کے درمیان تعلقات کے لیے، اور اُن میں سے بعض وقت کی پابندی سے آزاد پائے دار اصول ہیں اور اُس کے مطابق ہی ان تعلقات پر مبنی معاشروں کا تاریخی ارتقاء ہوتا آیا ہے۔ یہی اسلامی تاریخ مسلمانوں کی پائے دار تہذیبی شناخت ہے۔

۸-         مسلمانوں کی طرح دیگر بڑی تہذیبیں بھی اپنی اپنی تاریخ اور تہذیبی شناخت رکھتی ہیں، جن میں اُن کے پائے دار مرکزی اصولوں میں یہ ارتقائی عمل جاری ہے۔ تہذیبیں زمان و مکان کے پابند ارتقائی مراحل سے گزرتی رہی ہیں۔

۹-         تہذیبیں اُن معنوں میں ’فیصلہ کن‘ ادارے نہیں ہیں، جن معنوں میں حکومتیں ہیں۔ ان دونوں کے فیصلہ کن ’عامل‘ (agency) ہونے کا وصف ایک دوسرے سے جوہری طور پر مختلف ہے۔

۱۰-      بیسویں صدی کا ایک مخصوص امتیاز تھا۔ اُس میں ’حکومت‘ کے ادارے کو ایک ’تہذیبی عامل‘ (civilzational agent) کی حیثیت دے دی گئی اور تہذیبی شناختوں کو جوہری طور پر حکومتی شناختوں کے ماتحت کردیا گیا۔ یہ تصور یورپ سے اُبھرنے والے فلسفۂ روشن خیالی (Enlightenment) کا ایک اہم ستون تھا۔ اس تصور نے عالم گیر عیسائی تہذیب کے بطن سے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا، جو رفتہ رفتہ اپنے طور پر اسلام اور عیسائیت کے علاوہ ایک تیسری بڑی عالم گیر تہذیب بن گئی۔ اس نئی عالم گیر تہذیب کو بعض افراد ’انسان دوست عالم گیر تہذیب‘ (Humanist Civilization) کہتے ہیں۔ اور دیگر افراد اسے اس بنیاد پر لادین کہتے ہیں کہ اُس میں دُنیا کی تخلیق، اس کے خالق اور مخلوق کے بارے میں تصورات، کثیرالتعداد ادیان یعنی اسلام اور عیسائیت، ہندومت اور بودھ مت کے تصورات کی نفی کرتے ہیں، یا ان سے واضح طور پر ممیز ہیں۔

۱۱-      ہماری تحقیق کے مطابق یہ چار کثیرالتعداد تہذیبیں، دُنیا کی موجودہ آبادی کا ۹۰ فی صد ہیں۔

۱۲-      اگر بیسویں صدی میں اُس صدی کے ’تصورِ قوم‘ پر ایک مکالمے کی ضرورت تھی، تو اکیسویں صدی کو ’تصورِ تہذیب‘ پر ایک مکالمے کی ضرورت ہے۔ اکیسویں صدی کی عالم گیریت (globalization) کی اُبھرتی ہوئی حقیقت نے گذشتہ صدی کی قومی حکومتوں اور اُس پر مبنی اقوام متحدہ کی تنظیم کو اپنی عمارت کے ایک ایسے وصف سے محروم کردیا ہے، جس کی حفاظت کے لیے یہ تنظیم بنائی گئی تھی۔ ہماری مراد ’قومی ریاست‘ کے حاکم اعلیٰ (sovereign) ہونے کا تصور ہے۔ اس تصور پر مبنی ’اقوام متحدہ‘ کو اپنی بنیاد سے محروم کردیا گیا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے اصل فرائض میں ناکام اور اپنے غیرمتعلقہ فرائض میں بے جا مداخلت کے راستے پر چل نکلی ہے۔ ان حالات میں دُنیا کی پانچ کثیرالتعداد تہذیبوں یعنی اسلام، عیسائیت، ہندومت، بودھ مت اور لادینیت کے باہمی مکالمے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس موضوع پر غوروفکر ، عالم گیر اسلامی تہذیبی احیاء میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔