ڈاکٹر محمد مزمل اسلامی


ملت اسلامیہ کو اس وقت بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے، جن سے نمٹنے کے لیے مطلوب احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایسے فکری اور عملی اقدامات ضروری ہیں، جو اس مرحلے کے لیے موزوں ہوں اور مطلوبہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کو فروغ دے سکیں۔ اس کے لیے فکری اور عملی اقدامات کا تعین کرنے کے لیےگذشتہ ایک عشرے میں امت کے مختلف فکری، علمی، سماجی اور سیاسی حالات کا ایک جامع جائزہ لینا ہوگا۔

گذشتہ عشرہ اسلامی تحریکات کی کامیابیوں سے بھرپور عشرہ تھا، جس میں وہ اپنے ممالک میں کئی عشروں کی انتھک محنت اور بے شمار قربانیوں کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں اور وہ تمام قوتیں اور کٹھ پتلی حکومتیں بری طرح ناکام ہوئیں، جو دوسروں کے مفادات کے لیے کام کررہی تھیں۔ ’عرب بہار‘ کی شکل میں اس تبدیلی کا آغاز شمالی افریقا کے عرب ممالک سے ہوتا ہوا خلیج کے ممالک تک پہنچا۔ یہ شان دار آغاز ہمارے لیے نشانات راہ متعین کرنے اور نشاتِ ثانیہ کے لیے مطلوبہ طریقۂ کار تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ نیز ’عرب بہار‘ کے مد مقابل کوششوںاور فوجی انقلابات کا مطالعہ بھی ضروری ہے، جس نے ’عرب بہار‘ اور اس کے پھل کو پکنے سے پہلے ہی کچل ڈالا۔

ہمارے خیال میں گذشتہ عشرے کے ’عرب بہار‘ کے واقعات اور حادثات کا درست نتیجہ نکالنے کے لیے ہمیں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے، جو دو اور دو چار کی طرح ہماری کمی کوتاہیوں اور طاقت و کمزوریوںکی نشاندہی کرے۔ یہ کمیٹی ایک ایسا جامع مطالعہ پیش کرے، جو ہمیں متعین طور پر بتائے کہ ہماری ضرورت کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ پھر اسلامی تحریکات کے رہنما سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان پر گہرا غور وخوض کریں ، اور ایک جامع اور مکمل پیش رفت کے لیے حکمت عملی تیار کریں ، جس میں تیاری اور بحالی کا مرحلہ بھی شامل ہو۔ اس طرح جامع منصوبہ بندی کی روشنی میں بیداری کے لیے ایک واضح اور متعین نقشۂ کار (روڈ میپ) ترتیب دیں۔

’عرب بہار‘ کے علاوہ، پچھلے عشرے میں اسلامی دنیا میں تین ایسے بڑے واقعات رونما ہوئے ، جن کا جائزہ لینا، مطالعہ کرنا، اور ان کے بارے میں حکمت عملی اختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ سب سے پہلے ترکی میں اسلام پسندوں کی حکومت اور اس کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش ، پھر افغانستان سے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کا انخلا اور طالبان کی حکومت اور وہاں اسلامی امارت کا قیام، اور آخر میں ۷؍اکتوبر ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن جس میں فتح یا شہادت کا اعلان کیا گیا، جو ان سطور کے لکھنے تک جاری ہے اور جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس نے نظریات، تصورات، اقدار اور توازن کے پیمانوں کو تبدیل کرکے رکھ دیا اور مسئلہ فلسطین کو ، جو تقریباً مر چکا تھا اور نام نہاد ’معمول پر لانے‘ (Normalization) کے ملبے میں دب گیا تھا، ایک مرتبہ پھر زندہ کردیا۔ لہٰذا، ان تینوں واقعات میں سے ہر ایک کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہے، کیونکہ دنیا، امت مسلمہ اور اسلامی تحریکوں کے حال اور مستقبل پر اس کا گہرا اثر پڑ رہا ہے۔

آیئے! ان چند اُمور کا جائزہ لیتے ہیں:

اُمید کی شمع جلائی جائے!

کارکنان اور خاص طور پر نوجوانوں میں امید کی شمع جلانی ہوگی۔ اُمید اورفتح کے یقین کے ساتھ جدوجہد ہو تو کام لگن اور محنت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ہم امید کی صرف ہوائی بات نہیں کرتے بلکہ ایسے امکانات پائے جاتے ہیں، جو ہمیں فتح اور نشاتِ ثانیہ کی عظیم امید کا پیغام دیتے ہیں۔ اس وقت امت مسلمہ ہر لحاظ سے ظلم و ستم، کرب، ناانصافی، محرومی اور ذلت کا شکار ہے۔ غیورعلما، جوان، مرد، عورتیں ، بڑے چھوٹے سب اس صورت حال سے پریشان ہیں۔ جس ظلم اور درندگی کا مظاہرہ ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ غاصب صہیونی اور عالمی طاقتوں نے کیا ہے اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہمیں ایک ایسے شعلے کی ضرورت ہے جو امت پر طاری جمود اور چھائی ہوئی خاموشی کو توڑ کر نویدِ سحر دے اور اس تاریک رات کا خاتمہ کرکے بہارِ تازہ کی راہ ہموار کرے۔

’عرب بہار‘ کے وقت ان ملکوں کے عوام ناکام کٹھ پتلی حکومتوں سے تنگ آگئے تھے اور ان سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے۔ وہ آزادی اور عزّت کے ساتھ جینا چاہتے تھے۔ یہ اُمید ’عرب بہار‘ میں ایک اثر انگیز شعلہ بن کر سامنے آئی تھی۔ اس امید کو دوبارہ زندہ کریں اور دوبارہ کام شروع کریں ۔ امام البنا شہیدرحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا: ’آج کی امیدیں، کل کی حقیقتیں ہیں‘۔

فیصلہ سازی کے عمل میں نوجوانوں کی شرکت

ہم تبدیلی، تجدید اور تیز رفتار ترقی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اس برق رفتارتبدیلی اور ترقی کا رجحان تقریباً ہر چیز میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ معلومات، ٹکنالوجی، اور یہاں تک کہ خیالات و خواہشات تک میں تبدیلی اور ترقی دیکھی جاسکتی ہے۔ بڑی بڑی تبدیلیاں لمحوں میں رُونما ہوجاتی ہیں۔ نوجوان سب سے زیادہ اس تبدیلی سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور اس کو اپناتے بھی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوان، وقت کے تقاضوں اور فی زمانہ رُونما ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے چیلنجوں سے دوسروں سے زیادہ واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان ارتقا پذیر اور بدلتے ہوئے حالات کا کیسے مقابلہ کرنا اور ان کا تقاضا کیا ہے؟ پھر ان میں کام کرنے اور کارکردگی دکھانے کی طاقت بھی ہے اور میدان میں استقامت اور ثابت قدمی بھی دکھا سکتے ہیں۔ اس لیے انھیں تحریک اور ملک وقوم کے بہتر مستقبل کے لیے مختلف کمیٹیوں کا حصہ ہونا چاہیے اور فیصلہ سازی کے تمام فورموں میں ان کی بھر پور نمائندگی ہونی چاہیے۔

جامع اور ہمہ جہت جدوجہد

جامع اور ہمہ جہت جدوجہد سے میرا مطلب ہے کہ ہم دعوتی، فلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچ جائیں، یہاں تک کہ معاشرے میں کوئی ایسا فرد باقی نہ رہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ ہم کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ ہمیں معاشرے کے لوگوں کے ساتھ مثبت، نصیحت آمیز، مفید اور بااثر انداز میں اس طرح سے گھل مل جانا چاہیے کہ ہرایک کو یقین ہوجائے کہ ہم ان میں سے ہی ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں انھی کے لیے کر رہے ہیں۔

قومی اور ملکی معاملات میں ہماری مؤثر، مثبت اور بہترین شرکت ہونی چاہیے، ایسی شرکت جس میں اعلیٰ اسلامی اقدار اور بلند اخلاق جھلک رہے ہوں اور جس سے اُجاگر ہو کہ ہم ملک وملت کے عظیم تر مفاد کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔

ہم معاشرے میں کسی کو اپنے سے دُور نہ بھگائیں، نہ خود معاشرے سے کٹ جائیں اور  نہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز سمجھیں ۔ہم ہر کسی کی بلا تفریق خدمت کریں۔ اس طرح ہم معاشرے کی ضرورت بن جائیں گے اور کوئی ہمیں وطن اور معاشرے میں اجنبی نہ سمجھے گا۔

سماجی خدمات کو اپنے مقاصد سے ہم آہنگ کرنا

سماجی خدمات فراہم کرنا اور ہر ایک کے لیے اچھاسوچنا ہمارا کام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر امت کہا ہے۔ ارشاد ہے:كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً  لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۲۸(السبا۳۴ :۲۸)’’ہم نے آپ کو صرف لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘۔ تاہم، ہمیں چاہیے کہ لوگوں کی خدمت کے ساتھ ان پر واضح کریں کہ ان کی خدمت کے ذریعے ہم آپس میں اتحاد، یکجہتی چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم سب ایک جسم کے مانند ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى (بخاری)’’تم مومنوں کو ان کی ہمدردی، محبت اور شفقت میں ایک جسم کی مانند پاؤ گے ، اگر جسم کا ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘

اس وژن کو تمام مسلم معاشروں کے نظام حکومت، معیشت اور سیاست میں نمایاں ہونا چاہیے، بلکہ نظام حکومت میں اس سوچ کی نمائندگی تو اللہ اور قوم کی سب سے بڑی امانت ہے ، جسے مخلص، پاکیزہ، خدمت گزار ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ اسلامی تحریکوں کو پوری توجہ اور احتیاط کے ساتھ اس عظیم امانت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے ۔یہ جدوجہد اخلاص وللہیت کے ساتھ ہونی چاہیے۔

میڈیا کا محاذ اور تقاضے

اس بات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری جدوجہد کتنی ضروری اور ملک و قوم کے لیے اس کی کیا افادیت ہے؟ اس کام کے لیے ہمارے پاس پروفیشنل میڈیا اور تکنیکی ماہرین ہونے چاہئیں، جو ہماری کوششوں کو لوگوں کے سامنے لائیں اور انھیں یہ باور کرائیں کہ یہ وہ کوششیں ہیں، جو باوقار زندگی اور مہذب معاشرے کے لیے ناگزیر ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے مخلص اور خیر خواہ لوگ ہیں، لہٰذا ان کاوشوں کی قدر کی جانی چاہیے۔

ہمارے پاس ایسا میڈیا ہونا چاہیے جو اسلامی تحریکوں، ان کی کاوشوں اور ان کے کیے ہوئے کاموں، منصوبوں اور سرگرمیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا دے، اوردشمنوں کی جانب سے ان کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈے کا جواب دے اور اُن کی چال بازیوں اور سازشوں کا مؤثر جواب دے۔ایسامیڈیا جو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر میڈیا کی آواز کے ساتھ آواز ملاسکے۔ ایسا میڈیا جوحقائق بیان کرے ، واقعات کی چھان بین کرے، سچائی کو پھیلائے، اور جھوٹ کا پول کھول کر رکھ دے۔ آج میڈیا ایک مضبوط محاذ بن چکاہے، جسے کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس میدان کے اپنے تقاضے ہیں۔  اسلامی تحریکوں کو اس محاذ کی اشد ضرورت ہے۔

اخوت اور اسلامی معاشرت کو فروغ

ہمارا دین رشتوں کو جوڑنے، نیکی کے کاموں میں تعاون کرنے، ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا حکم دیتا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں آپس میں جھگڑے اور فساد عظیم سے خبردار     کرتا ہے۔قرآن کریم کا ارشاد ہے:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۰ (الحجرات ۴۹:۱۰) ’’بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔

اسی طرح قرآن کہتا ہے: وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲ ( المائدہ۵:۲) ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو ، اس کی سزا بہت سخت ہے ‘‘۔ نیز فرمایا:يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ۝۰ۣ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۲۰۰(اٰل عمرٰن۳:۲۰۰) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو جسد ِ واحد قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  یہ بھی ارشادفرمایا کہ: لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ  اِخْوَانًا وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ (بخاری و مسلم) ’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کا تجسس نہ کرو، اور خدا کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے ناراض ہوکر تین دن سے زیادہ اسے چھوڑ دے‘‘۔ اور فرمایا: اِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا وَشَبَّكَ أَصَابِعَهُ (بخاری و مسلم) ’’بے شک مومن مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے جو ایک دوسرے کو سہارا دے ، آپؐ نے (سمجھانے کے لیے ) اپنی انگلیوں کو باہم جوڑ لیا‘‘۔

لہٰذا، اسلامی تحریکیں، جو ملت اسلامیہ اور اس کی روایات کی امین ہیں، ان اصول و مبادی کو روزمرہ زندگی میں فعال اور مؤثر بنانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے، اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ معاشرے میں ان پر ہر صورت میں عمل کیا جائے۔ لہٰذا، اسلامی تحریکوں کے قائدین ایک مستقل کمیٹی بنائیں جو قومی زندگی میں ان اصولوں کی پاسداری پر نظر رکھے اور اسے فعال اور مضبوط کرنے کے لیے منصوبے اور طریقۂ کار وضع کرے۔ ہمارے ہاں کئی شعبے ہیں جن کے ذریعے ہم ان اصولوں کو مستحکم کر سکتے ہیں، جیسے: انسانی فلاح وبہبود کے میدان میں ، تعلیمی اداروں ، پیشہ ورانہ اور تخصص (اسپیشلائزڈ) اداروں میں، اسی طرح نوجوانوں اور خواتین کے میدانِ کار میں۔

طویل المیعاد منصوبہ سازی

بدقسمتی سے ہم ہمیشہ دوسروں سے متاثر ہوکر کام کرتے ہیں۔ دشمن حملہ آور ہوتا ہے،تو ہم دفاع کرتے ہیں، وہ ہمارے خلاف منصوبہ بندی کرتا ہے تو ہم جواب دیتے ہیں اور جدوجہد کے لیے اُٹھتے ہیں۔ یعنی ہم صرف دوسروں کی مرضی اور ان کے منصوبوں کے پیش نظر مصروف رہتے ہیں، ہم اپنی مرضی اور منصوبہ بندی سے کوئی کام شروع نہیں کرتے۔ ہمیں اس حالت اور کیفیت سے نکلنا ہوگا، لیکن کب اور کیسے نکلیں گے؟ یہ اسلامی تحریکات کے قائدین کے لیے بڑا اہم چیلنج ہے۔

ہمارے پاس تخلیقی اور پُراثر تزویراتی سوچ ہونی چاہیے جو آئیڈیاز تخلیق کرکے وژن تیار کرے۔ جو حالات کو بدلنے اور معاملات کو رُخ دینے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔ ہمیں کچھ کر دکھانے والا اور اثر انداز ہونے والا بننا ہوگا، تاکہ دوسرے ہم سے متاثر ہوں۔ اسلامی تحریکیں بنیادی طور پر اثرانداز ہونے والی اور تبدیلی لانے والی تحریکیں ہیں۔ اس لیے اسلامی تحریکوں کے قائدین اس پہلو پر خصوصی توجہ دیں اور یہ کام علاقائی اور عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے کر اسے تفویض کریں۔

ہمیں موجودہ مرحلے سے گزر کر تہذیبی ترقی اور دنیا کی قیادت کے مرحلے میں داخل ہونا چاہیے۔ گذشتہ عشروں میں اپنی فکر کو پھیلانے کے لیے ، کتابوں ، مضامین لکھنے، کانفرنسوں کے انعقاد، سیمیناروں، ٹی وی چینلوں پر لیکچرز دینے ، ویب سائٹس، اورمدارس، یونی ورسٹیوں، مساجد، اور دیگر مختلف پلیٹ فارمز کے استعمال کا روایتی دور گزر چکا۔اب ہمیں اس سے آگے کا سوچنا ہوگا۔ الحمد للہ، تمام مسلمان اور غیر مسلم یہ جان چکے ہیں کہ اسلام ایک جامع اور ہر زمان ومکان کے لیے موزوں ہے۔ سب اسلامی حکومت کے تصور، اس کے طریق کار، خصوصیات اور فوائد سے واقف ہیں، اور یہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی مسائل کا حل ہے ،اور اس کی ضرورت و افادیت کے قائل ہیں۔

اسلامی فکر کے فروغ کے بعد اب ہمیں فکر و دعوت پھیلانے کے مرحلے سے اس کے نفاذ کے مرحلے میں داخل ہونا ہے،اور تہذیبی میدان میں امت کی قیادت کرنی ہے۔ اس کے لیے ہمیں ہر شعبۂ زندگی میں معاشرے کو قیادت فراہم کرنی ہوگی۔ اس کے لیے افراد، ادارے، مراکز، نظام، قوانین اور مثالی انتظامیہ فراہم کرنا ہوگی۔ یہ کام کمٹ منٹ، محنت اور تحقیق، مطالعے اور گہرے مشاہدے کا متقاضی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہی اسلامی حکومت کے قیام کا مرحلہ بھی سر ہوسکے گا۔