فاروق حسن


بہت مشکل صورت حال ہے۔ حالیہ اسرائیل غزہ جنگ نے منطقی اندازِ فکر کو معطل کر رکھا ہے۔ درست طور پر کہا جاتا ہے کہ جنگ میں پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔

موجودہ تنازع کھڑا ہونا ہی تھا کیونکہ برق رفتار ’ابراہیمی معاہدوں‘ کے دوران فریق دوم یعنی فلسطینیوں کو مکمل نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ کم سے کم الفاظ میں بھی اسے انتہائی احمقانہ حکمت عملی کہا جاسکتا ہے۔ اس دھونس کا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا، نظرانداز فریق (اور اس کے حامیوں) نے اپنا ردعمل ظاہر کردیا۔ نتیجہ ایک مہلک نسل کشی کی صورت میں نکلا، جس نے فریقین کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ اگر امریکا اپنا سارا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دے تو مشرق وسطیٰ اور یورپ میں طاقت کا توازن مکمل طور پر بدل جائے گا۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو امریکا کبھی یہودی مسئلے کا غیر مشروط حامی نہیں رہا ہے۔ ۱۸۷۶ء میں وفاق کے حامیوں کی شکست کے ساتھ امریکی خانہ جنگی ختم ہوئی، تو یورپی سرمایہ دار اس طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے پاس سرمائے کی فراوانی تھی اور وہ نئی منڈیوں کا رُخ کرنا چاہتے تھے، لیکن امریکی خانہ جنگی کے خاتمے کا انتظار کر رہے تھے۔

چنانچہ بہت جلد امریکا میں صنعت کاری کا عمل شروع ہو گیا۔ بڑے صنعت کار (جنھیں ڈاکو رئیس بھی کہا جاتا ہے) سرمائے کی تلاش میںتھے کیونکہ امریکا میں اس کی قلت تھی۔ صنعتوں، ریل گاڑیوں، نہروں، سڑکوں اور تیل کی صورت میں امریکی توسیع کسی حد تک یورپ سے حاصل ہونے والے یہودی سرمائے کے باعث ہی ممکن ہو پائی تھی۔

بیسویں صدی کے آغاز میں وال سٹریٹ کا سب سے بڑا بینکر پیئر پونٹ مورگن (Pierpont Morgan) بھی دراصل روتھ شیلڈ (Rothschild) اور دوسرے یہودی گروہوں کی نمایندگی کر رہا تھا۔ سرمائے کے ساتھ ساتھ یہودی بنکار، فنکار، عالم و دانش ور اور دوسرے ہنرمند بھی امریکا آکر بس گئے اور یہاں انھوں نے اپنے لیے ایک جگہ پیدا کر لی۔

دسمبر ۱۹۱۷ء میں برطانیہ نے فلسطین کے اندر یہودیوں کا قومی وطن قائم کرنے کے سلسلے میں اپنی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا۔ بہت کم یہودیوں کو اس وقت سمجھ آئی کہ دراصل یہ انھیں یورپ سے نکالنے کا بہانہ تھا۔

سابق برطانوی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے یہ قرارداد تیار کی جو صہیونی نمایندہ بیرن روتھ شیلڈ تک پہنچا دی گئی۔ اس قرارداد میں واضح طور پر لکھا گیا تھا: فلسطین میں آباد عرب شہریوں کو بالکل پریشان نہیں کیا جائے گا اورنہ وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی جائے گی۔

اس وقت برطانوی جنگی کابینہ کا واحد مقصد، جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کرنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس اعلامیہ کے بعد صہیونی قوتیں اتحادیوں سے آ ملیں گی۔سیاسی بے رحمی کی ایسی مکمل ترین (یا بدترین) مثال ملنا مشکل ہے۔

۱۹۳۹ء تک جرمنی میں اقتدار ہٹلر اور نازی پارٹی کے پاس آ چکا تھا۔ ہٹلر کو جرمن عوام کےدرمیان جادوئی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا بنیادی نظریہ آریائی نسل کی برتری، یہودی و جپسی نسلوں کی کمتری اور پہلی جنگ کے بعد جرمنی کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر استوار تھا۔

اس صورتِ حال میں ہٹلر اور اس کے ساتھی جس حل تک پہنچے، وہ یہ تھا کہ جرمنی سے یہودیوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ اس پر جب امریکا و یورپی طاقتوں نے اعتراض کیا تو ہٹلر نے دوبدو جواب دیا، ’’ اس میں نیا کیا ہے؟ یورپی نوآبادیاتی قوتیں کئی صدیوں سے قتل عام جیسے افعال سرانجام دیتی آئی ہیں۔ اسپین اور پرتگال نے یہ کام جنوبی امریکا میں کیا، برطانیہ نے ساری دنیا میں، ولندیزیوں نے انڈونیشیا میں، جب کہ بیلجیم یہی کام کانگو میں کر رہا ہے‘‘۔ ‘ امریکا کو ہٹلر کا جواب   یہ تھا: ’’نسل کشی اور کشور کشائی کے معاملے میں ہم تو امریکی نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ جس طرح امریکیوں نے مقامی باشندوں کو ختم کر کے ان کی زمین اور وسائل پر قبضہ کیا اور جس طرح وہاں سیاہ فاموں کو غلام بنا کر ہر قسم کے ظلم و جور سے گزارا گیا‘‘۔

ہٹلر کا کہنا تھا کہ: ’’نازی پارٹی یہودیوں یا دیگر نسلوں کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہے وہ معمول کی کارروائی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار اس کا نشانہ یورپی بن رہے تھے اور نسل کشی کا یہ کام جدید ٹکنالوجی کی مدد سے صنعتی پیمانے پر کیا جا رہا تھا‘‘۔ یہ دلیل ناقدین کو خاموش رکھنے کے لیے کافی تھی۔ اتحادیوں کو آخرکار جنگ میں فتح مل گئی، لیکن اس کا باعث ان کی قوت نہیں بلکہ جرمنی اور جاپان کی ایک بنیادی غلطی تھی۔

جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا اور اتحادیوں کو یہ سوال درپیش تھا کہ یہودی مسئلے کا کیا کیا جائے؟ انھیں یہ فکر اس لیے تھی کہ وہ اپنے ملک میں یہودی پناہ گزینوں سے بچنا چاہتے تھے۔ پیشہ ور اور تکنیکی ماہرین کو پہلے ہی امریکا اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔

چنانچہ اسرائیل کا قیام اس مسئلے کا کامل ترین حل تھا، جس سے تمام قوتوں ، امریکا، یورپ اور اشتراکی روس کا منشاء بھی حاصل ہو جاتا اور انھیں یہودیوں کو اپنے علاقوں سے نکال باہر کرنے کا بہترین موقع بھی مل جاتا۔ ۱۹۵۶ء میں جب برطانوی، فرانسیسی اور اسرائیلی فوجیں مل کر نہر سویز پر حملہ آور ہوئیں، تو امریکا اور اقوام متحدہ نے اس پر اعتراض کیا۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصے بعد انھیں وہاں سے نکلنا پڑا۔

تاہم، ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد امریکی منصوبہ ساز، اسرائیل کی دفاعی و جارحانہ صلاحیتوں سے متاثر نظر آئے، چنانچہ امریکا اسرائیل کا مربی بن گیا۔ اسے ایک دشمن اور ناقابل بھروسا خطے میں اپنی کاسہ لیس ریاست مل گئی تھی۔ اس خطے میں حکومتیں بدلنے یا ان کی تبدیلی کو روکنے کے لیے یہ ریاست ایک مضبوط عسکری قوت اور امریکا کے لیے ایک قابلِ اعتبار اتحادی ثابت ہوئی اور یوں دو طرفہ تعلقات مضبوط سے مضبوط ہوتے چلے گئے۔ لیکن پھر ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء آ گیا۔

آگے کیا ہوگا؟ کون جانتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں فرشتوں کے بھی پَر جلتے ہوں وہاں بے وقوف بے دھڑک قدم رکھ دیتے ہیں۔