ڈاکٹر اسعد زمان


اللہ تعالیٰ کے آخری پیغام نے اہل عرب کو انتہائی پستی سے نکال کر دنیا کی امامت کے منصب پر فائز کر دیا۔ اس علم کی بدولت انھوں نے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی، جس کی روشنی کم و بیش ہزار سال تک دنیا کو منور کرتی رہی۔ ایک طرف شاندار ماضی کی تابناک داستانیں ہیں تو دوسری طرف منظر اب بالکل بدل چکا ہے۔ دنیا کے در و بام لاکھوں مسلمانوں کے مقتل بن چکے ہیں اور ہم بے بس تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اس شدید زوال کی وجہ آخر کیا ہے؟پچھلی صدی سے مفکرین قرآن و حدیث کی بنیاد پر اس زوال سے ابھرنے کے مختلف حل پیش کر رہے ہیں۔ اشاعتِ اسلام اور نفاذ شریعت سے لے کر جہاد پر اصرار یا خلافت کی بحالی جیسے مختلف علاج تجویز کیے گئے ہیں۔  ان تمام کوششوں کے باوجود ، امت کی حالت ابھی تک دگرگوں ہے۔

ہمارے موجودہ انحطاط کا اصل سبب ایک غیر معمولی سانحہ ہے، جس کی نظیر مسلمانوں کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ انیسویں صدی عیسوی میں اہل مغرب نے تقریباً ۸۵ فی صد اقوام عالم پر تسلط قائم کر لیا اور اسی تناسب سے مسلم ممالک بھی ان کے زیرِ نگیں ہو گئے۔ اتنے بڑے پیمانے پر تسلط کے لیے صرف افواج کافی نہیں ہوتیں بلکہ عوام میں غلامانہ ذہنیت پیدا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے،تاکہ کروڑوں عوام کے ذہن میں مٹھی بھر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا خیال بھی پیدا نہ ہو۔ یہ غلامانہ ذہنیت کسی اور ذریعے سے نہیں، بلکہ صرف تعلیم کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔

لارڈ میکالے نے ہندستان کے روایتی تعلیمی نظاموں کو ختم کر دیا اور ان کی جگہ ایک متبادل مغربی تعلیمی نظام متعارف کروایا، جس کا واضح مقصد مغرب کے لیے احترام اور ستائش پیدا کرنااور مقامی روایات کے لیے حقارت اور نفرت کو فروغ دینا تھا۔ اس تعلیم کے ذریعے ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا، جس نے اپنی ہی قوم کو لوٹنے میں انگریزوں کی مدد کی۔ آج دنیا پر اہل مغرب کا تسلط ختم ہو چکا ہے،مگر یہ انگریز پرست طبقہ ابھی تک مسلم ممالک پر قابض ہے۔ یہ مغربی نظام تعلیم اس طبقےکی حکمرانی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ یہ نظام تعلیم آج بھی سارے مسلم ممالک میں   رائج ہے۔ جب تک یہ نظام تعلیم ہمارے نوجوانوں کی بھاری اکثریت کے دلوں میں مغرب کی عظمت اور وقعت قائم، اور اپنی تہذیب اور دینی روایات سے بے زاری یا نفرت پیدا کرتا رہے گا، احیائے اسلام ایک خواب ہی رہے گا۔

مسلم معاشروں کا مستقبل بدلنے کے لیےہمیں اپنا نظامِ تعلیم تبدیل کرنا ہو گا۔ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں، ہمارے نوجوان مغربی تعلیم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ تعلیم جو مغرب کے گن گاتی ہے اور اسلامی تہذیب کی تمام کامیابیوں کو تاریخ کے صفحات سے مٹا دیتی ہے۔ اسی تعلیم کے ذریعے ،ہمارے نوجوان یہ سیکھ رہے ہیں کہ مغربی علوم ، تمام دوسر ے علوم سے افضل ہیں اور مغربی تہذیب، تاریخ انسانی کی سب سے زیادہ شان دار اور ترقی یافتہ تہذیب ہے۔ یہ بات سراسر، ان اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ، جو ہمیں بتاتی ہیں کہ قرآن کا علم دیگر تمام علوم سے افضل ہے اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ و بہتر وہ معاشرہ تھا ، جو چودہ سو سال پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے وجود میں آیا۔

احیائے اسلام پر کام کرنے والوں میں صرف ایک گروہ نے تعلیم کی مرکزی حیثیت کو پہچانا۔ ان مفکرین نے مغربی علوم سے مغرب پرستی کا عنصر نکال کر اسے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی،مگر ان لوگوں کی یہ کوشش علم کی اسلام کاری (Islamization of Knowledge) پچاس سال کی محنت کے بعد بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس مضمون میں ہم اس ناکامی کے اسباب بیان کریں گے اور ایک متبادل لائحہ عمل تجویز کریں گے، جس کے ذریعے موجودہ تعلیمی ادارے نہ صرف ہمارے نوجوانوں کی اسلامی ذہن سازی کر سکیں گے اور انھیں مغرب پرستی سے بچا سکیں گے، بلکہ ساتھ ہی جدید تعلیم سے استفادہ بھی کر سکیں گے ۔

’سیکولر علم‘  کے منابع اور اثرات

یہ عقیدہ کہ ’علم، عالم گیر ہے اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہے‘،مغربی علم کی اصطلاح کو ایک غلط فہمی بنا دیتا ہے۔ تاہم، علم کے ارتقاء کا مطالعہ اس غلط فہمی کو دور کرنے میں معاون بنتا ہے۔ سولھویں صدی عیسوی میں، یورپی باشندے بائبل کو مطلق سچ مانتے تھے۔ اٹھارھویں صدی تک، مذہبی علم فقط ایک نجی معاملہ بن گیااور صرف تجرباتی طور پر ثابت ہونے والے نظریات کومشترکہ اور عمومی علم کے طور پر قبول کیا جانے لگا۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں وہ علم وجود میں آیا ،جسے آج ہم ’سیکولر علم‘ کہتے ہیں۔

’سیکولر علم‘ کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ایسے حقائق اور منطق پر مبنی ہوتا ہے، جو تمام مذاہب کے لیے یکساں طور پر قابل ِقبول ہیں۔ مغربی تہذیب اس بات کی مدعی ہے کہ وہ تمام تہذیبوں سے برتر ہے، کیونکہ اس نے علم کی اس منفرد شکل کو تخلیق کیا، جو نوعِ انسانی کے تخلیق کردہ ہرطرح کے علم سے برتر اور افضل ہے ۔ مسلم معاشروں نے عمومی طور پر یہ دعویٰ قبول کر لیا ہے کہ ’سیکولر علم‘ صرف حقائق اور منطق پر مبنی ہے، اور تمام ذی عقل اور حقیقت پسند لوگوں کے لیے، چاہےوہ کسی بھی مذہب پر یقین رکھتے ہوں، یکساں طور پر قابلِ قبول ہے۔ اسی وجہ سے مسلم دنیا میں مغربی تعلیم کے پھیلاؤ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اسی تعلیم کو راہِ نجات سمجھتی ہے، اور اس تعلیم کے نہ ہونے کو مسلمانوں کی موجودہ پستی کا سبب سمجھتی ہے۔ اس مضمون کا پہلا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ’سیکولر علوم‘ کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ دراصل، ’سیکولر علم‘ کی بنیاد مذہب سے انکار ہے۔ مغربی تعلیم میں چھپا ہوایہ زہر ہمارے بزرگوں نے پہچانا تھا اور اسی وجہ سے آج تک اہلِ مدارس اس علم سے گریز کرتے آئے ہیں   ؎

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کيا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

یہ مغربی علوم، قرآنی علوم پر فوقیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہمارے مسلمان نوجوانوں کو کئی سطحوں پر گمراہ کر رہے ہیں۔ قرآن بھی اپنی فوقیت کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسروں کو ایک آیت بھی اس کے مقابلے میں لانے کا چیلنج کرتا ہے۔ ہمیں علمی مقابلے کے میدان میں اُتر کر، مغربی تعلیم کے پُرفریب دعوؤں کو رَد کرنا ہوگا اور قرآنی علوم کی بدرجہا برتری کو ثابت کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

مغرب پرست تاریخ: تحریکِ تنویر

مغربی تعلیم کے بنیادی مفروضے انسانی تاریخ کے بارے درج ذیل تصورات پر مبنی ہیں:

سترھویں صدی عیسوی سے، یورپ میں ’تحریکِ تنویر‘ (Enlightenment )کی ابتدا ہوئی، جس کے ذریعے بنی نوع انسان کے مجموعہ علوم میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ اس پس منظر میں ’عقل کا سورج‘ مغرب سے طلوع ہوا، جس کی روشنی میں اہلِ مغرب نے دیکھا کہ ساری انسانیت، نسل در نسل توہمات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے ،جو آگے منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں۔روایتی انسان ذاتی طور پر سوچنے کی جرأت نہیں کرتا، نہ نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں اور نہ پرانی غلطیوں کے دُہرانے سے روکا جاتا ہے۔ اہلِ مغرب نے فیصلہ کیا کہ اب سے سب علوم، خواہ دینی ہوں یا دُنیوی، انھیں عقل کی کسوٹی پرپرکھا جائے گا۔ چنانچہ، جو علوم عقل اور مشاہدہ کی روشنی میں صحیح ثابت ہوں گے، انھیں قبول کیا جائے گا، اور باقی مسترد۔ اس طرح انھوں نےتمام انسانی علوم کو عقل اور مشاہدے کی بنیادوںپر اَز سر نووضع کیا۔ اس حیثیت سے دیکھا جائے تو موجودہ زمانے کے سارے علوم اہلِ مغرب ہی کے ایجاد کردہ ہیں۔ علم کا یہ مغربی تصور چونکہ اسلامی نظریات سے ٹکراتا ہے، اس لیے ہم اسے ’سیکولر علم‘ کے نام سے موسوم کریں گے۔

اہلِ مغرب کا دعویٰ ہے کہ یہ ’سیکولر علوم ‘پوری انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انھی علوم کی وجہ سے اہلِ مغرب نے دنیا کو مسخر کیا ، طرح طرح کے حیرت انگیز آلات ایجاد کیے، جو انسانی زندگی پر لمحہ بہ لمحہ اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ انھی علوم کی وجہ سے وہ دنیا کی ترقی یافتہ تہذیب کے درجے پر فائز ہوئے۔ آج کوئی بھی قوم ترقی کرنا چاہتی ہے، تو اسے بھی ان مغربی علوم کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔ ترقی کا مطلب ہی اہلِ مغرب کے علوم اور معاشرت کو اختیار کرنا ہے۔

مغربی بیانیے کا تسلط

’تحریکِ تنویر‘ کی یہ داستان مغربی تعلیمی نظام کی رگ رگ میں پیوست ہے ۔جدید تعلیم حاصل کرنے والا ہر طالب علم ،کئی برس تک صرف اہلِ مغرب کے وضع شدہ علوم ہی پڑھتا ہے،  جن میں اسلامی تعلیمات کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔ ایسی تعلیم مغرب کے اس بیانیے ہی کو تقویت پہنچاتی ہے کہ موجودہ دنیا کی ضروریات صرف مغربی علوم پوری کر سکتے ہیں، اور اسلامی علوم عصرِحاضر میں بالکل بے کار ہو کر رہ گئے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اہلِ مغرب کا یہ دعویٰ بنیادی اسلامی تعلیمات سے ٹکراتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا علم تھا ،جس نے انسانیت کو جہالت اور توہم پرستی کی تاریکیوں سے نکالا۔ انھی علوم کی روشنی نے ساری دنیا کو ہزار سال تک منور کیا۔ یہ علوم قیامت تک ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہیں۔ آج بھی رہنمائی کے لیے ہمیں غیر قوموں سے ہدایت کی بھیک مانگنے کی چنداں حاجت نہیں۔ ایمان کی بنیاد پر ہمارا یہ دعو یٰ تو ہے، مگر ہم اس کی کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ امت کی بھاری اکثریت اپنی زندگیاں انھی مغربی علوم کے حصول میں جوق در جوق کھپا رہی ہے۔ اسلامی علوم سیکھنے والے بہت کم ہیں اور جو ہیں، وہ بھی اپنے علم کو جدید مسائل کے حل کے لیے استعمال کرنا نہیں جانتے۔ اس طرح امت کا عمل بھی اہلِ مغرب کے علوم کی فوقیت کا ترجمان بن گیا ہے ۔

ایک افریقی کہاوت مشہور ہے:’’جب تک شیر اپنے مؤرخ خود پیدا نہیں کریں گے ، شکار کی داستانیں ،شکاریوں ہی کی ثناء خوانی کرتی رہیں گی‘‘۔ہمیں بھی شیر وں کی طرح آگے بڑھ کر مغربی علوم کی فوقیت کے بیانیے کی تردید کرنی ہوگی۔ اسلامی طرزِ تعلیم میں مغربی علوم کے نقصان دہ پہلوؤںاور خامیوں پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ اہلِ مغرب کا تمام اقوامِ عالم پر اپنی برتری کا دعویٰ ’قومِ عاد‘ کے دعوے سے مماثلت رکھتا ہے کہ : مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً  ط (حم السجدہ ۴۱:۱۵)’’کون ہے ہم سے زیادہ زورآور؟‘‘ اسلامی تناظر سے اہلِ مغرب کی تاریخ کا جائزہ لینے سے ،ان دعوؤں کی قلعی کھل سکتی ہے ۔

’سیکولر علوم ‘کی بنیادیں: خونریز اور تباہ کن مذہبی جنگیں

’سیکولر علوم‘ کو سمجھنے کے لیے اس تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے، جس میں یہ علوم پیدا ہوئے۔چوتھی صدی سے چودھویں صدی عیسوی یورپ کا دورِ ظلمت (Dark Ages)کہلاتا ہے، جس میں علم، یورپ میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ اسی زمانے میں اسلام کے پیغام نے مسلمانوں میں علم کی طلب پیدا کر دی۔ انھوں نے ساری دنیا سے علوم جمع کیے اور ہر شعبۂ علم میں خوب ترقی کی۔ ابن خلدون نے تاریخ کا ایک قدیم دستور بیان کیا ہے کہ ’’قومیں عروج پر پہنچ کر عیش و عشرت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ یہی عیش و عشرت ان کے زوال کا پیش خیمہ بنتا ہے ، چنانچہ گردو نواح میں رہنے والی وحشی قومیں ان پر حملہ آور ہوتی ہیں، اور ان کے خزانے لوٹ لیتی ہیں‘‘۔ بالکل اسی طرح جب مسلم اندلس [اسپین]کی سات سو سالہ تہذیب، عیش و عشرت کی دلدادہ ہونے کی وجہ سے زوال پذیر ہوئی تو پڑوسی عیسائی قبیلوں نے بالآخر اندلس پر پھر سے قبضہ کر لیا۔ اس قبضے سے اندلس کے کتب خانوں کی لاکھوں کتابیں ان کی تحویل میں چلی گئیں۔ ساری دنیا سے ان کے جمع کیے ہوئے علمی خزانوں نے ہی مغرب کے تاریک دور کا خاتمہ کیا اور یورپ میں علم کی شمع روشن کی۔

’کیتھولک‘ چرچ عوام کو جاہل اور علم کو کلیسا کی چار دیواری تک محدود رکھ کر یورپ پر ہزار سال تک قابض رہا۔ علم کے اس سیلاب سے کلیسا کو بڑا خطرہ محسوس ہوا کیونکہ یہ کلیسا کی تعلیمات کے خلاف تھا۔ کلیسا نے اس علم کو دبانے کی بھرپور کوشش کی۔ ترجمے پر سخت پابندیاں عائد کیں۔ ان کی اجازت اور مہر کے بغیر کوئی کتاب چھاپی نہیں جا سکتی تھی۔ کلیسا کے ماتحت ایک نہایت ہیبت ناک شعبہ inquisitionقائم ہوا ۔ یہ ادارہ کلیسا کے مروجہ عقائد کے خلاف نظریات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ جو بھی شخص ایسے نظریات کا اظہار کرتا یا لکھتا، اسے سخت سزاؤں، تشدد، اور قید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

علم کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود کلیسا میں پھوٹ پڑگئی۔ ’پروٹسٹنٹ‘ فرقے نے علم کی نئی شکلوں کو قبول کرنے کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے ’کیتھولک‘ چرچ کے اختیارات اور صدیوں سے چلی آ رہی روایات کو مسترد کر دیا ۔ اس کے بعد  ان دونوں فرقوں میں نہایت خوں ریز اور تباہ کن جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا ،جو صدیوں تک جاری رہا۔یورپ میں ’سیکولر علم‘ کی نشو ونما مذہبی جنگوں کے تباہ کن اثرات سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ۔ اس ظلم و عدوان نے مغرب کے بہت سے نامور مفکرین کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ، جب کہ دیگر پر بھی کلیسا کی تفتیشی تلوار ہمہ وقت لٹکی رہتی تھی۔

صدیوں کی مذہبی جنگوں اور ذاتی تلخ تجربات کی وجہ سے ’تحریکِ تنویر‘ کے بانی اس نتیجے پر پہنچے کہ معاشرے کی تشکیل مذہبی بنیادوں پر نہیں کی جا سکتی۔ان کا اصرار تھا کہ معاشر تی علوم صرف عقل اور مشاہدے کی اساس پر قائم کیے جائیں، تاکہ ان پر سب لوگوں کا اتفاق ہو سکے۔ ایسا نہیں تھا کہ سترھویں صدی عیسوی میں اچانک عقل کا سورج پہلی بار یورپ سے طلوع ہوا تھا، دراصل یہ ’تحریکِ تنویر‘ ایک پر امن معاشرے کی تشکیل کی فکری بنیادوں کی تلاش تھی، مگر یہ تلاش کامیاب نہیں رہی۔ ’تحریکِ تنویر‘ کے مفکرین کی چند بنیادی اغلاط کی وجہ سے تباہ کن جنگوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا، بلکہ اور زیادہ پھیل گیا۔ آج بھی دنیا اس پُرامن معاشرے کی تلاش میں ہے، جس کا طریقہ ہمیں چودہ سو سال پہلے سکھایا گیا تھا۔ مگر افسوس کہ مسلمان عالمی سربراہی کے عہدے سے معزول ہو چکے ہیں، اور ایک پر امن معاشرے کا نمونہ بھی پیش نہیں کرسکتے۔

’تحریکِ تنویر‘ کے علَم بردار قریب قریب دو صدیوں تک ان مذہبی اہلِ علم سے نبرد آزما رہے، جو معاشرتی علوم کو مذہب ہی کی بنیاد پر استوار رکھنا چاہتے تھے۔ اس فکری جنگ میں بالآخر  ’تحریکِ تنویر‘ فاتح رہی اور ’اہلِ کلیسا‘ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلی دو تین صدیوں میں تمام سیکولر مغربی علوم ’تحریکِ تنویر‘ کے اصولوں پر وضع کیے گئے ہیں۔ ’تحریکِ تنویر‘ چونکہ خود چند غلط مفروضات پر اُٹھائی گئی تھی، اس لیے یہ غلط مفروضات سارے ’سیکولر علوم ‘کی رگوں میں سرایت کرگئے ۔ مغربی تعلیم ہمارے طلبہ کو انھی غلط مفروضات پر ایمان لانا سکھاتی ہے ، جو حقیقت میں اسلامی تعلیمات سے ٹکراتے ہیں۔ اسی وجہ سے اب امت کے مستقبل کے لیے مغربی تعلیم کا متبادل ایک اسلامی تعلیمی نظام وضع کرنا اشد ضروری ہے۔

’تحریکِ تنویر‘ کے غلط مفروضات

’تحریکِ تنویر‘ کے غلط مفروضات کی ایک لمبی فہرست بنائی جا سکتی ہے۔اہلِ مغرب کا خیال تھا: ’’مذہبی اختلافات مسلسل خانہ جنگیوں کا سبب ہیں۔ علم کو اگر عقل اور مشاہدے تک محدود کر دیا جائے، تو یہ اختلافات ختم ہو جائیں گے، اور ایک پرامن معاشرہ وجود میں آ جائے گا۔ مزید یہ کہ عقل اور مشاہدے پر مبنی ہونے کی وجہ سے یہ علوم ہر قسم کی غلطی سے محفوظ اور قطعی ہو ں گے اور تمام اہل دانش کا ان علوم پر اجماع ہو جائے گا‘‘۔ ان مفروضات کی چند بنیادی خامیاں درج ذیل ہیں :

مغرب میں مذہبی جنگیں دراصل مذہب کی وجہ سے نہیں، بلکہ اقتدار، دولت، اور غلبے کے حصول کے لیے لڑی جاتی تھیں۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ’تحریکِ تنویر‘ کو عام مقبولیت حاصل ہونے کے بعد جب معاشرے سیکولر بنیادوں پر قائم ہوگئے تو اس کے باوجود جنگوں میں کمی آنے کے بجائے ان میں اضافہ ہی ہوا۔

یہ خیال غلط ہے کہ تمام انسانی علوم کو اَز سر نو، صرف عقل اور مشاہدے کی بنیاد پر وضع کیا جاسکتا ہے۔ علوم کے بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں عقل اور مشاہدے کی رسائی نہیں ہے۔ ان شعبوں میں، اہلِ مغرب کے ’سیکولر علوم ‘میں ترقی کے بجائے تنزّل ہوا۔

یہ بھی ایک خام خیالی ہے کہ صرف عقل اور مشاہدے کی بنیاد پر ’قطعی‘ علم تک رسائی ہو جاتی ہے۔ ہزار سال پہلے امام غزالی اپنے مشہور رسالے المنقذ من الضلال  میں اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ عقل اور مشاہدے کے ذریعے کسی بھی علم تک پہنچنے کے لیے کچھ بنیادی مفروضات کو ماننا پڑتا ہے، جو خود عقل و مشاہدے سے ماورا ہوتے ہیں ۔سیکولر مفکرین اب بھی اپنے علم کے لیے آفاقی قبولیت اور قطعی سچائی کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں، حالانکہ اس دعوے کی غلطی آسانی سے ثابت کی جا سکتی ہے۔پھر پروپیگنڈے کا ایک جال بچھایا گیا ہے، جس کی وجہ سے یہ مفروضات نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اور مذہبی تعلیمات کے خلاف ہونے کے باوجود دین دار انسان بھی بلا تردد ان علوم کو قبول کر لیتے ہیں۔

چونکہ ’تحریکِ تنویر‘ کے مفکرین کا مقصد ایسے علوم کا پیدا کرنا تھا، جن پر سب کا اجماع ہوسکے، اس لیے انھوں نے مشاہدے کو بیرونی دنیا کے مشاہدے تک محدود کر دیا۔انسان اگر اپنی اندرونی کیفیت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس کے ذریعے سے حاصل شدہ علم کو ’سیکولر علم‘ میں کوئی جگہ نہیں دی جا سکتی ، کیونکہ ان کیفیات کا یقینی علم کسی اور کو نہیں ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے علم کے دو حصے ہوگئے۔ سیکولر مفکرین نے ہر انسان کو آزاد چھوڑ دیا کہ اپنی اندرونی دنیا کے بارے میں جو چاہے سوچے، اور جس نظریے یا مذہب پر چاہے اعتقاد رکھے، مگر بیرونی دنیا کے بارےمیں صرف سیکولر طریقوں سے سوچنے کی اجازت ہے۔ اس طرح عیسائی مذہب ایک ذاتی عقیدے تک محدود ہو کر رہ گیا، اور معاشرے کی تشکیل سیکولر بنیادوں پر کی جانے لگی۔ باطنی علوم کو سیکولر مفکرین نے علم کے دائرے سے خارج کر دیا۔

موجودہ مغربی تعلیم انھی ’سیکولر علوم ‘اور ان کے خام مفروضات پر مبنی ہے۔ان چار غلطیوں کی اصلاح کےبغیر ہم مغربی تعلیم کا اسلامی متبادل نہیں بنا سکتے۔یہ کام کیسے ہو سکتا ہے؟ آگے چارحصوں میں انھی چار مغالطوں کی تفصیل ترتیب وار بیان کی گئی ہے۔ ان غلطیوں کو درست کر کے ہم ایک ایسا اسلامی نظامِ تعلیم تشکیل دے سکتے ہیں، جو اس وقت دنیا میں دستیاب کسی بھی نظامِ تعلیم سے کہیں بہتر ہوگا۔ ایسا نظامِ تعلیم اسلامی علوم کی برتری کی ایک واضح دلیل بھی ہوگا۔

تاریخ کے اسلامی تجزیے کی ضرورت

کہا جاتا ہے کہ تاریخ محض ایک قصیدہ ہے، جو بادشاہ کو فتح کے موقع پر سنایا جاتا ہے۔ اہلِ مغرب کی اکثر تاریخی کتب پڑھیں تو ایسا نظر آتا ہے کہ اہلِ مغرب کے عروج سے پہلے دنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔سوائے قدیم یونانیوں کے ، اہلِ مغرب سے پہلے کسی اور قوم نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام ہی نہیں دیا – اور پھر یونانی بھی اہلِ مغرب شمار ہوتے ہیں۔ اپنے عروج یعنی سترھویں صدی عیسوی کے بعد، مغربی اقوام نے علم و عمل کے ہر شعبے میں ایسی حیرت انگیز ترقی کی ہے کہ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ اہلِ مغرب چاند تک پہنچ گئے اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں، جب کہ باقی اقوام خاک چاٹتی رہ گئیں ۔ یہ باتیں مغربی تعلیم میں کھل کر نہیں تو تحت اللفظ ضرور پائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی طالب علم یہ سبق سیکھے گا تو اس کے لیے اسلام کے بنیادی عقائد پر یقین رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ خاص طور پر اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علوم کی فضیلت تمام انسانی علوم پر ویسی ہی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کی برتری اپنی تمام مخلوق پر ہے۔ اور اس بات پر بھی کہ ہمارے نبی کریمؐ کا دور خیر القرون تھا، اور ان کے زیرِ قیادت تشکیل دیا گیا معاشرہ بہترین تھا۔

آج کے مغربی مفکرین پچھلی تین صدیوں کو انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقی کا زمانہ بتاتے ہیں، اور اپنی ترقی کا راز مذہبی روایات کی تقلید سے انکار، اور عقل کے استعمال پر اصرار بتاتے ہیں۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جو لوگ خدا سے انکار کریں گے ، حقیقی علم کی روشنی سے انھیں محروم کر دیا جائے گا اور تاریکیوں میں دھکیل دیا جائے گا۔ اس قرآنی موقف کی تصدیق کے لیے ہمیں ان مغرب زدہ تاریخوں کو رَد کرنا، اور ایک متبادل بیانیہ پیدا کرنا ہوگا۔ ایسے بیانیہ کی بنیاد تو سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی شہرت یافتہ کتاب ماذا خسر العالم من انحطاط المسلمين  میں ستّر سال پہلے رکھ دی تھی۔ مگر اس بنیاد پر خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ، جس کی اشد ضرورت ہے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں اہلِ مغرب کا پوری دنیا کے تقریباً ۸۵ فی صد حصے پر قبضہ تھا۔ مگر پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں بے انتہا خونریزی کی وجہ سے اہلِ مغرب کا زور کچھ کم ہوا تو زیادہ تر ممالک ان کے قبضے میں تھے، آزاد ہو گئے۔ اہلِ مغرب کے زور میں کمی آئی تو اب بہت سی ایسی کتب لکھی جا رہی ہیں، جو مغرب پرست تاریخوں کی پُر زور تردید کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں چند اہم کتابیں جو اس وقت نصاب میں شامل کی جا سکتی ہیں یہاں ان کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ ان کتب کا ترجمہ کرنا، اور انھیں مسلم دنیا کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں داخل کرنا علم کی اسلام کاری کے سفر میں ایک اہم پیش رفت ہوگی۔

  • ایڈورڈ سعید [۱۹۳۵ء- ۲۰۰۳ء] اپنی مشہور کتاب Orientalism  [۱۹۷۸ء] میں، اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح مغرب نے مسلم دنیا کی بھیانک تصویر کشی کی؟ تمام اچھائیوں کو مغرب سے منسوب کیا گیا اور تمام برائیوں کو مشرق سے۔یہ احساس برتری مغرب کی ہرعلمی اور ادبی تخلیق، جیسے ڈرامے، ناول، تاریخ، اور سماجی علوم میں رچا بسا نظر آتا ہے۔ سعید کا کہنا ہے کہ اس تصور کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ دراصل مغرب کے مشرق پر عالمی تسلط کا نتیجہ ہے، جس نے مغرب میں احساسِ برتری پیدا کردیا۔ اس تجزیے کے ذریعے، ایڈورڈ سعید ثابت کرتے ہیں کہ یہ تصورات کیسے طاقت و استبداد کے ایسے نظام کو برقرار رکھتے ہیں، جو مغرب کو فائدہ پہنچاتا ہے اور مشرق کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر کے کمزور اور مغرب کا دست نگر رکھتا ہے۔
  • ایل ایس استاورینوس نے اپنی کتاب Global Rift: The Third World Comes of Age  [۱۹۸۱ء] میں لکھا ہے کہ مغرب پرست تاریخ کی بے شمار کتابیں مغرب کے حیرت انگیز عروج کی داستانیں بیان کرتی ہیں اور اس ترقی کے اسباب کو مغرب کی تخلیقی صلاحیتوں، ذہانت، سائنسی کامیابیوں، ایمانداری، دیانتداری، محنت، اور قانونی حقوق کا احترام کرنے پر محمول کرتی ہیں۔ اس کے برعکس ، مشرق کی غربت اور پسماندگی کا سبب ان اعلیٰ صفات کی غیر موجودگی بتلائی جاتی ہے۔یہ مو قف حقیقت کے خلاف ہے۔ استاورینوس بتاتے ہیں کہ مغرب نے مشرق میں نوآبادیاتی استحصال کیا اور ان کے وسائل اور دولت کو لوٹا۔ ایک حالیہ تحقیقاتی مقالے کے مطابق، برطانوی سامراج کے دوران، برطانیہ نے بھارت سے تقریباً ۴۵ٹریلین امریکی ڈالر کا مال و متاع لوٹا۔ اس بڑے پیمانے پر لُوٹ مار مغرب کی امارت اور مشرق کی غربت کا سبب بنی۔
  • مغرب کی عالمی فتح کے اسباب:استاورینوس کے اس تجزیے سے ایک قدرتی سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر مغرب باقی تمام اقوام پر فوقیت نہیں رکھتا ، تو وہ ان سب کو شکست کیسے دے سکا؟ اس کا ایک جواب تو ابنِ خلدون نے ہزار سال پہلے دیا تھا کہ وحشی اقوام ترقی یافتہ مگر تنزّل پذیر پرانی تہذیبوں پر اکثر غالب آجاتی ہیں۔ چنگیز خان [۱۱۶۲ء-۱۲۲۷ء] نے کسی عمدہ کردار کی وجہ سے نہیں، بلکہ وحشت و سفاکیت کی انتہا سے، مسلمانوں کو شکست دی تھی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ صدیوں تک آپس میں انتہائی خونریز جنگیں لڑ لڑ کر مغربی اقوام، فنون حرب میں مشاق ہو چکی تھیں۔ اس کے علاوہ ’سیکولر علوم ‘نے ان کو اپنے مذہب کی اخلاقی قدروں سے آزاد کر دیا تھا۔ سیکولر مفکرین کا خیال تھا کہ انسان جانور کی ایک قسم ہے اور قانونِ ارتقا کا تقاضا ہے کہ مضبوط کمزور کو چیرپھاڑ کر کھا جائے۔ سیکولر سیاسی مفکرین کے مطابق طاقت کے حصول کے لیے ہر تدبیر اور مکر جائز ہے۔ چاہے اس کے لیے بڑے سے بڑے غلط فعل کا ارتکاب کیوں نہ کرنا پڑے، جیسے جھوٹی قسمیں کھانا، لاکھوں بےگناہوں کو قتل کردینا، لاکھوں کو زبردستی پکڑ کر غلام بنا لینا، نشہ آور اور نقصان دہ چیزیں بیچ کر منافع کمانا، وغیرہ۔ یہ محاورہ انھی کا ایجاد کردہ ہے کہ ’عشق اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے‘۔  یعنی لذت اور دولت کے حصول کے راستے میں کوئی اخلاقی رکاوٹیں حائل نہیں ہونی چاہییں۔ اخلاقی قیود سے آزادی انھیں دنیا کو فتح کرنے میں بہت کام آئی۔ 
  • تاریخ کا سرقہ: جیک گوڈی کی کتاب The Theft of History   [۲۰۰۶ء] بتلاتی ہے کہ اہلِ مغرب نے دوسری تہذیبوں کے کارناموں کا سرقہ کیا اور انھیں اپنے نام سے منسوب کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب پرست تاریخی کتب فقط انھی کی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتی نظر آتی ہیں۔ اس معاملے میں چندرکانت راجو کی کتاب Is Science Western in Origin??   [۲۰۰۹ء] (کیا سائنس  اہلِ مغرب کی ایجاد  ہے؟) آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ صلیبی جنگوں کی وجہ سے یورپ کے عیسائیوں کے دل میں مسلمانوں سے دشمنی اور نفرت جاگزین ہوگئی تھی ۔ بڑے پیمانے پر انھوں نے علوم مسلمانوں کی کتب سے حاصل کیے، مگر مسلمانوں کے افکار کو یا تو یونانیوں کی طرف منسوب کر دیا، یا مغرب کے سرقہ بازوں کی طرف۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی مفکرین کی ترقی حیرت انگیز نظر آتی ہے، کیونکہ انھوں نے چھ صدیوں کی مسلمانوں کی ترقی پر اپنے نام کا ٹھپہ لگالیا۔ راجو نے سرقہ بازوں کی کئی مثالیں دی ہیں جیسے۔ کوپرنیکس [۱۴۷۳ء- ۱۵۴۳ء] آج بھی ایک انقلابی مفکر کے طور پر جانا جاتا ہے حالانکہ اس نے صرف حسن بن علی ابنِ شاطر [۱۳۰۴ء- ۱۳۷۵ء] کی فلکیات کی کتاب کا ترجمہ کیا۔ وہ اس بات کا اظہار نہیں کر سکا کیونکہ چرچ کی طرف سے مسلمانوں کے افکار کو پیش کرنے پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔
  • مغرب پرست مؤرخین کی نقاب کشائی: جیمز ایم بلیوٹ کی کتاب Eight Eurocentric Historians   [۲۰۰۰ء] اہل مغرب کے تاریخی بیانیوں کی جانبداری اور تعصب کو بے نقاب کرتی ہے۔ یہ کتاب آٹھ مؤرخین کے خیالات کا تجزیہ کرتی ہے، جو مغربی تاریخ کو دنیا کی واحد معیاری تاریخ کے طور پر پیش کرتے، اور دیگر تہذیبوں کی اہمیت کو کم کرتے ہیں۔ بلیوٹ دکھاتا ہے کہ کس طرح ان مؤرخین نے جان بوجھ کر تاریخ کے حقائق کو توڑا مروڑا، اور مغرب پرست نظریات کو فروغ دیا۔ یہ مؤرخین غیر مغربی دنیا کو غیر ترقی یافتہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، جب کہ مغرب کی ترقی کو عالمگیرحقیقت کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ بلیوٹ کی کتاب یہ ثابت کرتی ہے کہ مغربی مؤرخین نے غیر مغربی اقوام کی تاریخ اور کارناموں کو نظرانداز کیا یا ان کی اہمیت کو گھٹا کر پیش کیا۔ اس کتاب کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ مغرب کے ترقی کے دعوے دراصل ایک متعصب اور جانب دارانہ بیانیے پر مبنی ہیں، جو غیر مغربی دنیا کی تاریخ کو مسخ کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔

انسانی علوم میں تنزّل

بہت سے بیش قیمت علوم ایسے ہیں ، جہاں تک عقل اور مشاہدے کی رسائی ہی نہیں ہے۔ ’سیکولر علم‘ کو اس محدود دائرے میں بند کرنے سے ، علم کے ان شعبوں کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا ۔ گویا قرآن کے مطابق یہ روشنی سے تاریکی کا سفر ہے۔ ان علوم میں سرِ فہرست وہ انسانی علوم ہیں، جن کا تعلق ہمارے باطنی احوال سے ہے۔

یہاں پر ایک عام غلط فہمی جو کہ اکثر مسلمان مفکرین کو ہوئی ہے، اس کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ دو الفاظ ’عقل‘ اور ’مشاہدہ‘ سیکولر مفکرین کے استعمال میں عام فہم زبان سے مختلف اور ایک مخصوص معنی رکھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا، سیکولر مشاہدہ صرف بیرونی دنیا کے مشاہدے تک محدود ہے۔ اسی طرح سیکولر عقل پر بھی پابندی ہے کہ وہ اس بیرونی دنیا کے مشاہدے سے باہر نہ جائے۔ مغرب کے مشہور مفکر کانٹ کا کہنا ہے کہ ’’عقل کو مشاہدے کے دائرے سے باہر استعمال کرنا بہت بڑی غلطی ہے‘‘ اور اس بات پر تمام سیکولر مفکرین کا اتفاق ہے۔ہمارے اسلامی مفکرین کے نزدیک عقل کا بہترین استعمال کائنات میں اور اپنے نفس میں موجود نشانیوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پہچان لینا ہے۔ ’سیکولر علوم ‘کے حامل اس کو عقل کا غلط استعمال قرار دیتے ہیں۔

سب سے گراں قدر علوم جو ’سیکولر علم‘ نے مسترد کر دیے، وہ انسان کی باطنی دنیا کے علوم تھے۔ امام غزالی ساری زندگی علم کی تلاش میں سرگرداں رہے ۔ اس وقت کے تمام علوم پر مہارت حاصل کی، اور آخر میں قلوب کے تزکیے کا علم حاصل کیا۔ اسی علم کو انھوں نے سب سے قیمتی علم بتایا اور یہ بھی بتایا کہ یہ علم کتابوں میں نہیں ملتا۔ مغرب کے موجودہ دانش ور ایسے علم کے امکان ہی سے انکار کرتے ہیں، اس لیے مغربی تعلیم میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ اسلامی علوم مغرب زدہ لوگوں کو بیکار نظر آتے ہیں - یہ علوم انسان کی اندرونی دنیا سے متعلق ہیں، جب کہ اہل مغرب روح سے انکار کرتے ہیں اور دل کو عقل کا دشمن گردانتے ہیں۔

انسان کی باطنی دنیا کا سیکولر علم کے دائرے سے اخراج تدریجاً ہوا، اور اسی طرح، اہلِ مغرب بتدریج انسانی زندگی کے بارے میں روشنی سے اندھیرے کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ پہلے قدم میں، ڈیکارٹ، جو مغربی فلسفے کا بانی مانا جاتا ہے، اس نے انسان کی اندرونی دنیا کو بیرونی دنیا سے الگ کر دیا، جسے،دوئیت‘ (dualism)کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بیرونی دنیا کو صرف مادی قوانین کا پابند بنانا تھا۔ یہاں ایک مسئلہ پیدا ہوا جس کا مغربی مفکرین آج تک حل نہیں نکال سکے: ہماری اندرونی دنیا بیرونی دنیا پر کیسے اثر ڈالتی ہے؟ اگر کائنات کا ذرہ ذرہ قدرتی قوانین کا پابند ہے، تو کیا انسان کا بدن، جو کہ مادی ہے، وہ بھی انہی قوانین کا پابند ہے؟ ہماری زندگی کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ کوئی بھی ہمیں بتائے کہ ریاضی کے قوانین یہ بتاتے ہیں کہ آج صبح تم انڈا پراٹھا کھاؤ گے، تو ہم اس کے خلاف لسّی پی کر ان قوانین کو غلط ثابت کر سکتے ہیں۔ اور اگر ریاضی قوانین کے مطابق لسّی پینا لازم آتا ہے، تو ہم انڈا پراٹھا کو اختیار کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہماری آزادی پر کوئی ریاضی قوانین نہیں لاگو کیے جا سکتے۔

 مغربی مفکرین نے اس مسئلے کو نظر انداز کر دیا۔ اس کے بعد، آہستہ آہستہ، مادیت کی لہر بڑھتی گئی، کانٹ کے زمانے تک دو دنیاؤں کا تصور باقی رہی۔ ایک انسان کی اندرونی دنیا جس میں دین، اخلاق، محبتیں، اور جذبات رہتے ہیں، اور ایک بیرونی دنیا جو کہ صرف ریاضی کے قوانین کی پابند ہے۔ مگر مادیت کے اثر سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ہماری اندرونی دنیا کا کوئی الگ وجود نہیں ہے، بلکہ وہ اسی بیرونی دنیا کا حصہ ہے۔ جس طرح مادی دنیا کا ذرہ ذرہ نیوٹن کے قوانین کا پابند ہے، اسی طرح ہمارے خیالات اور جذبات بھی دماغ سے نکلنے والے ایک سیال سے بنتے ہیں، اور یہ سیال بھی قدرتی قوانین کا پابند ہے۔ اس طرح انسان کی اندرونی دنیا اور بیرونی دنیا دونوں کا ذرہ ذرہ ریاضی کے قوانین کے مطابق حرکت کرتا ہے۔جس طرح کائنات کو سمجھنے کے لیے نیوٹن کے قوانین کافی ہیں اور خدا کی ضرورت نہیں، اسی طرح انسان کی اندرونی دنیا سمجھنے کے لیے قوانین قدرت کافی ہیں، انسان کے خالق سے ہمیں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔اس طرح، انسان کی اندرونی دنیا کوعلم کے میدان سے بالکل ہی خارج کر دیا گیا۔ اس اندھیرے کا ویسے تو سارے ہی انسانی علوم پر منفی اثر ہوا مگر ہم صرف دو کا مختصر تذکرہ کریں گے : نفسیات اور معیشت۔

’تحریکِ تنویر‘ کی وجہ سے مغربی تہذیب میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ پہلے ایک معاشرے کا تصور ایک جسم کاسا تھا، جس میں تمام ارکان ایک ہی مقصد کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ سیکولر معاشرے کی بنیاد اس مفروضے پر(قائم ) ہوئی کہ ’’ہر انسان اپنا دین آزادی سے  چُن سکتا ہے‘‘۔ چنانچہ معاشرے کے کوئی متحدہ مقاصد ہی نہیں۔ انفرادیت پر زور کی وجہ سے انسان کا انسان سے تعلق کٹ گیا اور محبت اور ذمہ داری کے وہ احساسات جو معاشرے کو جوڑتے ہیں، آہستہ آہستہ ختم ہو گئے۔ حتیٰ کہ آج کی دنیا میں شوہر بیوی، ماں باپ اور اولاد کا رشتہ بھی وقتی اور محدود بن کر رہ گیا ہے۔ اس انفرادیت کے اثر سے انسانوں میں طرح طرح کے نفسیاتی امراض پیدا ہونے لگے، جن کے حل کے لیے نفسیات کا علم وجود میں آیا۔ مگر یہ علم صرف گمان پر مبنی تھا کیونکہ انسان کی اندرونی گہرائیوں تک مشاہدے اور عقل کی شعاعیں نہیں پہنچتی ہیں۔ نفسیات کے مشہور بانیوں میں سے سگمنڈ فرائڈ نے انسان کی ان اندرونی تاریکیوں کے بارے میں عقل کو حیران کر دینے والے، اخلاق سے عاری، نظریات پیش کیے، جن کا ذکر بھی شرفاء کی مجلس میں نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس کے بعد یہ تاریکی بڑھتی ہی چلی گئی ، جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔

انسان کی اندرونی ساخت تو صرف انسان کا خالق ہی جانتا ہے، اور ہمیں اس کے بارے میں وہی علم مل سکتا ہے جو اس نے ہمیں عطا کیا۔ پچھلی چند دہائیوں میں مسلمانوں نے اسلامی نفسیاتی علوم کو ہماری اسلامی علمی میراث کی بنیاد پر نئے سرے سے وضع کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے، اور کئی کتب اور رسائل لکھے جا چکے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں دروس، ڈپلومہ، اور ڈگری بھی دیے جا رہے ہیں۔ ان علوم میں انسان کی چار جہات بتائی گئی ہیں: نفس، جو برائی کی طرف مائل ہوتا ہے ، اور روح ،جو اللہ کی طرف متوجہ ہے۔ قلب، جو پاکیزگی کے حال میں اللہ تعالیٰ سے جوڑتا ہے، اور عقل، جو قلب کے تجویز شدہ اہداف ، چاہے بُرے ہو ں یا بھلے ، کی طرف پہنچنے کی تدبیر سجھاتی ہے۔ اس اسلامی علم کی بنیاد کچھ تو وحی اور الہام پر ہے، اور کچھ ایسے انسانوں کے ذاتی تجربات پر، جنھوں نے روحانی ترقی کے حصول کے لیےتزکیہ و احسان کے زینے طے کیے۔ ’سیکولر علم‘ چونکہ وحی سے، اور انسان کے شخصی تجربے سے، انکار کرتا ہے، اس لیے اس کی اسلامی نفسیاتی علوم تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس علم میں کمال پیدا کرنے کا ہمارے پاس سنہری موقع ہے۔

 معاشرہ انسانوں کے مجموعے کا نام ہے، اس لیے انسان کی اندرونی ساخت کے صحیح علم کے بغیر حقیقی معاشرتی علوم کی تشکیل ناممکن ہے۔ بانیانِ ’تحریکِ تنویر‘ نے انسان کی باطنی دنیا کے علوم کو خارجی دنیا کے علوم سے بالکل الگ کر دیا اور ان کے پیروکاروں نے انسان کی روحانی ساخت کو علم کے میدان ہی سے نکال دیا۔ اس وجہ سے مغربی معاشرتی علوم تمام کے تمام غلط بنیادوں پر قائم ہیں، اور ان سب کو از سر نو وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسرا علم جو انسانی زندگی کے لیے بہت اہم ہے، وہ ہے علم معاشیات ۔معیشت کی موجودہ کتب میں انسان کا جو تصور پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ ہر ذی عقل انسان کی زندگی کا مقصد اشیاء اور خدمات کو خرید کر زیادہ سے زیادہ لذتوں کا حصول ہے۔ یہ ہو بہو ’نفسِ امّارہ‘ کی تصویر ہے، اور قرآن میں کئی بار کئی طرح سے اس کی مذمت آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان باطل بنیادوں پر کسی صحیح علم کی عمارت نہیں کھڑی کی جا سکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ساری مسلم دنیا میں مسلمان اساتذہ مسلمان طلبہ کو یہی نفس پرستی کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ در اصل مسلمان مغربی علوم کی چمک دمک سے مرعوب ہو گئے، اور ان کے اندر پوشیدہ الحاد کے زہر کو پہچان نہ سکے۔ ہمیں ضرورت اقبال کی نگاہ کی ہے   ؎

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

مغربی ’سیکولر علوم ‘کے پوشیدہ مفروضات

مغربی ’سیکولر علوم ‘کی پیدائش اور افزائش کا قصہ نہایت پیچیدہ ہے۔ اسلامی تناظر میں  اس کی تفصیل سیّد نقیب العطاس کی معرکہ آراء کتاب اسلام اور سیکولرزم میں ہے۔ ہم یہاں نہایت اختصار کے ساتھ ہمارے مقصد کے مطابق فقط کچھ ضروری نکات بیان کریں گے۔

 صدیوں پر محیط مذہبی جنگوں نے یورپ کو تباہ و برباد کر دیا، شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے اور بے شمار زندگیاں برباد ہو گئیں، جس نے ’تحریکِ تنویر‘ کے مفکرین میں مذہبی عقیدے سے شدید نفرت اور عقل و تجربے کے ذریعے حقیقت کی تلاش کی شدید خواہش پیدا کر دی۔ انھوں نے جو ذاتی نقصانات اور وسیع پیمانے پر افراتفری دیکھی، اس نے انھیں انسانیت کے لیے ایک نئے راستے کا متلاشی بنا دیا ، وہ راستہ ،جومذہبی جھگڑوں کے خوف سے آزاد ہو ۔ اس تلاش میں نیوٹن کی دریافتیں، جنھوں نے پورے یورپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ، مشعلِ راہ ثابت ہوئیں ۔

آیزق نیوٹن [۱۶۴۳ء- ۱۷۲۷ء] نے قوانینِ کشش ثقل سے سیاروں کی گردش اور سمندری لہروں تک بے شمار ظواہر کی وضاحت کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ یہ قوانین چھوٹے سے چھوٹے ذرّات سے لے کر بڑے سے بڑے سیارے تک لاگو ہوتے ہیں۔اس بات نے یورپی مفکرین میں ایک مخصوص سوچ کو جنم دیا کہ کائنات کا ہر ذرہ قوانین کے تابع ہے ،جو اس کی پوری حرکت کو، کائنات کے آغاز سے لے کر وقت کے اختتام تک، متعین کرتے ہیں۔ اس سے خدا کو ایک ’گھڑی ساز‘ کے طور پر دیکھنے کا خیال پیدا ہوا، جس نے ایک نہایت پیچیدہ میکانزم بنایا اور اسے حرکت میں لے آیا، جو اب اپنے آپ کام کرتا ہے۔ اس سے یہ تصور ابھرا کہ علم دراصل دنیا کو چلانے والے قوانین کو سمجھنے پر مبنی ہے، اور خدا غیر ضروری ہے۔ مشہور ماہر ریاضی لاپلاس، جس نے ستاروں کی حرکت پر ایک کتاب لکھی، سے پوچھا گیا کہ اس نے اپنی کتاب میں ستاروں کے خالق خدا کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے اس مفروضے کی ضرورت نہیں تھی۔ جس طرح قدرت کے قوانین نے کائنات سے خدا کو نکال دیا، اسی طرح انھی قوانین نے انسان کو بھی بے دخل کر دیا۔ جب ہر ذرّہ ایسے قوانین کی گرفت میں جکڑا ہوا ہے، جس میں خدا بھی دخل نہیں دے سکتا تو انسان کی روح، اور اس کی خواہشات اور خیالات کیسے کوئی اثر کر سکتے ہیں؟ انسان کے تصور سے روح نکال دی گئی اور وہ بھی محض ایک مادی مشین بن گیا جو کہ ریاضی کے قوانین کے مطابق چلتا ہے۔

ان تمام خیالات میں بہت سی خامیاں ہیں اور بہت سے پوشیدہ مفروضات ہیں، جو غلط ہیں۔ یہاں پر مختصر اً چند موٹی موٹی باتیں پیش کرتے ہیں:

 اس کی کیا ضمانت ہے کہ قدرت کے قوانین جن کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے، وہ آئندہ بھی اسی طرح چلتے رہیں گے؟ جس طرح ایک گھڑی بہت دیر تک ایک ہی طرح سے چلتی رہتی ہے، مگر بالآخر بند ہو جاتی ہے، اسی طرح یہ ممکن ہے کہ جن قوانین کا ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں، کل وہ بدل جائیں۔ دراصل، امام غزالی نے ہمیں ہزار سال پہلے ہی سمجھا دیا تھا کہ اس کائنات میں تو اتنی قدرت بھی نہیں کہ اپنے آپ کو ایک لمحہ بھی برقرار رکھ سکے۔ اللہ تعالیٰ لمحہ بہ لمحہ کائنات کو اَز سرِ نو تخلیق کرتا ہے، اس لیے وہ برقرار رہتی ہے۔ قدرت کے کچھ قوانین اگر ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ اس کائنات میں جو بھی نظم و ضبط ہمیں نظر آتا ہے، وہ دراصل اللہ کے وجود کی گواہی ہے۔

نیوٹن کی حیرت انگیز کامیابیوں نے ’تحریک تنویر‘ کے مفکرین کا حوصلہ بلند کر دیا کہ ہم صرف عقل اور مشاہدے کی بنا پر آفاقی حقیقتوں تک پہنچ سکتے ہیں، اور حق تک پہنچنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ تاہم، بعد کی سائنسی اور فلسفیانہ ترقیات نے اس امید کو چکناچور کر دیا۔ یہ واضح ہو گیا کہ مخصوص مشاہدات کے مجموعے پر مبنی قوانین اس مجموعے سے باہر لاگو نہیں ہو سکتے۔ قوانین کی موجودہ صحت ہمیں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دیتی کہ یہ قوانین کل بھی برقرار رہیں گے۔ سائنسی نقطۂ نظر سے، نیوٹن کے بہت سے نظریات غلط ثابت ہوئے۔ خاص طور پر، اس کے قوانین بہت چھوٹے ذرّات پر لاگو نہیں ہوتے، اور نہ بہت زیادہ رفتار ہی پر۔ بہت سی اور استثنات بھی پائی جاتی ہیں ۔ خاص طور پر، انسانی قوتِ ارادہ خود ایک مضبوط استثناء فراہم کرتا ہے۔ انسان اپنی حرکات میں خود مختار ہے اور کسی ریاضی کے قانون کا پابند نہیں ۔دنیا اور آخرت میں سزا اور جزا کا تصور نیکی اور برائی کے ساتھ ساتھ انسانی اختیار پر منحصر ہے۔ ’سیکولر علوم ‘میں نیکی، برائی، اور انسانی اختیار کا تصور نہایت اُلجھا ہوا ہے، کیونکہ ایک مشینی دنیا میں، جو قوانین کی پابند ہے، ان تصورات کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔

مغربی معاشرتی علوم کی زہریلی اساسیات

’سیکولر علوم ‘نے عقل اور مشاہدہ کو بیرونی دنیا تک محدود کر دیا، مگر مسلمان ان پابندیوں کو، جو عقل اور مشاہدے پر لگائی گئی ہیں، سمجھ نہ پائے۔مسلمان مفکرین کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ چونکہ قرآن بھی عقل اور مشاہدے کو علم حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے، اس لیے علم حاصل کرنے کے طریقے میں اسلامی تعلیمات اور مغربی علوم میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ قرآن کی ابتدائی آیات میں تقویٰ والوں کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ سیکولر سوچ کا بنیادی عقیدہ، غیب سے انکار ہے۔ اس انکار کی وجہ سے انھوں نے خدا، قیامت، اور یومِ جزا سے بھی انکار کیا، اور اس انکار کو عقل کا تقاضا بتایا۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر مشہود کا انکار خود عقل کے خلاف ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کائنات خود بخود پیدا ہو گئی، کیونکہ اس کا بنانے والا تو لازمی طور پر کائنات کے دائرے سے باہر ہے، جب کہ ہمارا مشاہدہ کائنات سے باہر جا ہی نہیں سکتا۔ اس بات کے خلافِ عقل ہونے کے باوجود، آج بھی سیکولر فکر کے علمبرداروں کا یہی کہنا ہے کہ کائنات خود بخود وجود میں آئی۔ آہستہ آہستہ بے جان چیزیں آپس میں مل کر جان دار بن گئیں، اور ایک ارتقاء کے عمل سے انسان پیدا ہوا۔ اس ارتقاء کے عمل کا مرکزی وصف ایک وحشیانہ مقابلہ ہے: یا تو ہم دوسروں کو چیر پھاڑ کر کھا جائیں یا وہ ہمیں کھا جائیں گے۔ جنگل کی زندگی کا ایک ہی قانون ہے۔ زندگی کا حق صرف طاقت ور کو ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے تصور کی بنیاد پر جنگلوں میں تو رہا جا سکتا ہے، مگر اس طرح ایک انسانی معاشرہ نہیں بنایا جا سکتا۔

آج، ان زہریلے خیالات کے تباہ کن اثرات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ جنگوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، جن میں طاقت اور منافع کے حصول کے لیے جان بوجھ کر لاکھوں بے گناہ جانیں موت کے بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔ ’مہذب‘ دنیا کا سردار امریکا، جو انسانیت کی سب سے ترقی یافتہ تہذیب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، باقی دنیا سے وہ دس گنا زیادہ ہتھیار بناتا اور برآمد کرتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں محض ہتھیاروں کی فروخت بڑھانے کا ایک طریقہ اور ذریعہ ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس بات میں بہت کچھ سچائی ہے۔ پوری دنیا اس تصور سے تباہ ہو چکی ہے کہ طاقت، دولت، عیش و عشرت کے حصول کے لیے سب جائز ہے۔ لاکھوں بری اور بحری جانوروں کا قتل کیا جائے۔ ان جنگوں سے ،ماحول کو اس قدر نقصان پہنچا کہ کرۂ ارض پر انسانی زندگی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ مغربی معاشرتی علوم نہ صرف دنیا بھر میں موت اور تباہی لائے ہیں، بلکہ انھوں نے مغرب میں خاندان، جو انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ مغرب میں پیدا ہونے والے ۵۰ فی صد سے زیادہ بچے غیر شادی شدہ ماؤں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔ دونوں والدین کے سائے میں، محبت اور شفقت بھرے محفوظ گھرسے محروم بچے ، زندگی بھر دوسروں سے بے لوث محبت کرنا نہیں سیکھ پاتے۔

مسلمانوں نے اپنی نادانی اور مرعوبیت کی وجہ سے مغربی معاشرتی علوم کو مغرب کے سائنسی علوم کے ہم پلہ سمجھا، اور اس بات کے تجزیے میں آج تک مشغول ہیں کہ ان علوم میں کاٹ چھانٹ کر صحیح باتیں تسلیم کر لی جائیں اور غلط باتوں سے انکار کر دیا جائے۔ مگر سیکولر مغربی علوم دجال کی طرح ہیں۔ بیرونی دنیا پر تیز نگاہ رکھتے ہیں اور انسان کی اندرونی دنیا کے بارے میں اندھے ہیں۔ انسان کے ایک جانور ہونے کے تصور پر اسلامی معاشرت نہیں بنائی جا سکتی ہے۔

مسلم معاشروں میں بگاڑ کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ ہم اپنے معاشروں کو مغربی اصولوں کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا نظام حکومت خلافت اور شوری ٰکے بجائے مغربی پارلیمانی نظام اور جمہوریت پر چل رہا ہے۔ ہماری عدالتیں مغربی قوانین کو مغربی اصولوں کے مطابق مسلم معاشروں پر نافذ کرتی ہیں۔ ہماری معیشت یہودیوں کے اصول پر چل رہی ہے۔ ہماری معاشرت میں بے شمار غیر اسلامی اثرات شامل ہو چکے ہیں۔ آج کا مسلم معاشرہ اس حدیث کی تعبیر ہے، جس میں بتایا گیا کہ یہ امت یہودیوں اور عیسائیوں کی اتباع کرے گی ،چاہے وہ سانپ کے بل میں گھس جائیں۔ ان سب خرابیوں کی جڑ وہ تعلیمی نظام ہے، جو مغرب اور مغربی علوم کی پرستش ہماری نسلوں کو سکھلا رہا ہے۔ جب تک یہ نظام لاکھوں مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر گھول رہا ہے، احیائے امت کی کوئی تجویز کارگر نہیں ہوگی۔

مغربی اور اسلامی علوم کو یکجا کرنے کی ناکام کوششیں

اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام جو اسلامی علمی میراث کو بالکل نظر انداز کرتا ہے، مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ چنانچہ عالمِ اسلام میں بے شمار اسلامی تعلیمی ادارے قائم کیے جا رہے ہیں۔ ان اداروں کا عام طریقہ کار یہ ہے کہ مغربی علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم بھی پڑھا دیے جائیں۔ کیا یہ ادارے ہمارے مسئلے کو حل کر سکتے ہیں؟ ہمارے خیال میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے :

در اصل اس وقت ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام چل رہا ہے۔ اس نظام کے سارے حصے: سیاست، عدالت، معاشرت، معیشت، اور تعلیم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تعلیمی نظام کا کام طلبہ میں دولت اور پرتعیش زندگی کا شوق پیدا کرنا، اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے اُونچی تنخواہوں پر نوکری حاصل کرنا ہے۔ یہ نوکریاں طلبہ کو سرمایہ دارانہ نظام کا ایک جزو بنا دیتی ہیں۔ اگر ہم طلبہ کو اسلامی تعلیم میں یہ بتاتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں ایک بہترین نظام دیا ہے ،جو زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے، مگر پھر اسی طالب علم کو سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بننا اور اس غیر اسلامی نظام کو مزید قوت دینا سکھاتے ہیں، تو ہماری یہ اسلامی تعلیم محض لفاظی بن کر رہ جاتی ہے۔ کہاں ایک طرف اسلامی علوم کی فوقیت کا دعویٰ، تو کہاں دوسری طرف دو وقت کی روٹی کے لیے کافرانہ نظام کی محتاجی۔

 ہم مضمون کی ابتدا میں تذکرہ کر چکے ہیں کہ تعلیم کی اسلام کاری کے مفکرین نے اسلام کے احیاء کے لیے اسلامی تعلیمی نظام کی مرکزی حیثیت کو پچاس سال پہلے پہچان لیا تھا۔ ان کی کوششوں سے تنظیمِ تعاونِ اسلامی (او آئی سی) نے دو اسلامی جامعات قائم کیں جہاں اسلامی علوم اور عصری علوم کو یکجا کرکے پڑھایا جاتا ہے۔ یہ جامعات بھی اسلامی دنیا کے لیے علمی میدان میں ایک نیا راستہ وضع کرنے میں کامیابی نہیں ہوئیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دونوں جامعات طلبہ کو سرمایہ دارانہ نظام میں نوکریوں کے لیے تیار کرتی ہیں۔ اس بات کو طلبہ بھی سمجھتے ہیں اور اس لیے اسلامی مضامین میں وہ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ – یہ مضامین ان کو نوکریاں دلوانے میں بھی بیکار ہیں، اور ان کو زیادہ گراں قدر دنیاوی علوم حاصل کرنے میں بھی مانع ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بعض لوگوں نے بہت بلند عزائم کے ساتھ ایسے ادارے قائم کرنا چاہے جن میں ایک مکمل اسلامی تعلیمی نظام ہو جہاں روحانی تربیت بھی ہو، کردار سازی بھی ہو، اور دنیاوی علوم بھی سکھلائے جائیں۔ اس میں بھی کوئی کامیاب نمونہ سامنے نہیں آیا ہے،نیز اگر ایسا نمونہ بن بھی جائے تو اس سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جب تک لاکھوں موجودہ ادارے ہمارے نوجوانوں کو مغربی معاشرت کے اصولوں اور ان کی فوقیت کا سبق سکھلاتے رہیں گے ، اسلامی معاشرے کی تشکیل ناممکن ہوگی۔

مجوزہ لائحہ عمل

پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ’سیکولر علم‘ خود ایک مذہب ہے۔ یعنی طلبہ کو جینے کا طریقہ اور زندگی کے مقاصد سکھاتا ہے۔ موجودہ معیشت کی کتب کھل کر بتاتی ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ عیش کرنا ہے۔ جس طرح عیسائیت یا بدھ مت کو اسلامائز نہیں کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ’سیکولر علوم‘ کو بھی اسلامی شکل میں نہیں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ان علوم میں جو پوشیدہ عقائد ہیں ان کو منظرِ عام پر لاکر، ان کی تردید کرنی ضروری ہے۔

یہ کام ہم الگ ادارے بنا کر نہیں کر سکتے اور اسلامی معیشت کا الگ اضافی مضمون پڑھا کر بھی نہیں کر سکتے۔ ہمیں جو موجودہ مغربی معیشت پڑھائی جا رہی ہے، اسی مضمون کو مختلف طریقے سے پڑھانا ہوگا۔ ہم پڑھائیں گے کہ یہ مغربی اقوام کا عقیدہ ہے کہ معیشت کی بنیاد خود غرضی،  لذت پرستی، مقابلہ اور انفرادیت ہے۔ اسلام ہمیں اس کے بر عکس نظریات، یعنی فیاضی، سادہ زندگی، تعاون اور اجتماعیت سکھاتا ہے۔ہمیں انھی موجودہ اداروں میں اس تعلیم کے مقاصد اور انداز کو تبدیل کرنا ہوگا۔ میں نے ساری زندگی انھی مغربی تعلیمی اداروں میں گزاری ہے، پہلے طالب علم کے طور پر اور پھر معلم کے طور پر۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہاں پر فطری طور پر یہ سوال اُبھرتا ہے کہ یہ سارا فلسفہ پڑھانے کے بعد آخرکار کیا ہمارے طلبہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کی نوکریاں ڈھونڈنے پر مجبور نہیں ہوں گے؟ اور اگر ایسا ہو گا، تو یہ سارا فلسفہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔

اس سوال کے جواب میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مغربی تعلیم کا ایک بڑا حصہ ذہن سازی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس حصے میں طلبہ کو دنیا کے بارے میں، اور اپنے آپ کے بارے میں یہ سوچنا سکھلایا جاتا ہے کہ ’’تعلیم کا مقصد نوکری حاصل کرنا ہے، اور ہم کو انسان کے بجائے ہیومن ریسورس، یعنی ’ایک خام مال جو بازار میں بکتا ہے‘ بنانا ہے‘‘۔ ہم ان نظریات کی کھل کر تردید کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے طلبہ کو سکھائیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی مخلوق ہے۔ ہماری زندگیوں کو پیسے میں تولا نہیں جا سکتا اور ہم خرید و فروخت کے لائق خام مال، یعنی ہیومن ریسورس نہیں ہیں۔ اپنے طلبہ سے عہد کروائیں کہ ہم اپنی تعلیم کو امت کی خدمت کے لیے استعمال کریں گے، نہ کہ ذاتی مفادات کی خاطر۔ اگر ہم یہ ذہن سازی اسلامی شکل میں کریں تو یہ نوکریاں ڈھونڈنے کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ البتہ نوکریوں کا مقصد بدل جائے گا۔ ذاتی تعیش کے بجائے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی خاطر یہ کام ہوگا۔ اس کے علاوہ ہم طلبہ کو زراعت اور تجارت سکھلا سکتے ہیں، جن سے طلبہ خود کفیل ہو جائیں اور نوکری کی تلاش میں نہ لگیں۔ تعلیم بھی بہترین شعبہ ہے، جس میں طلبہ کی اسلامی ذہن سازی کے وافر مواقع ملتے ہیں۔ غرض یہ کہ موجودہ دنیا میں جتنا کچھ کیا جاسکتا ہے اس کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ آگے بڑھنے کے راستے کھول دیں گے۔

در اصل ہمیں مغربی علم کو اسلامی نہیں بنانا ہے۔ ہمارے پاس پہلے سے ان کے علوم سے بہت بہتر علم موجود ہے۔ ہمیں اپنے ہاں مغرب کے نقال تعلیمی اداروں کو اسلامی بنانا ہے کیونکہ اپنی موجودہ شکل میں یہ بہت سے سیکولر افکار کی، جو اسلام سے ٹکراتے ہیں، ترویج کر رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمی اداروں کا سب سے اہم مقصد کردار سازی ہے۔ یہ مقصد شعبۂ مغربی تعلیم میں سرے سے غائب ہے۔ اس شعبے کو ہمیں اپنے موجودہ تعلیمی اداروں میں نہ صرف داخل کرنا ضروری ہے بلکہ اس کو تعلیم میں مرکزی حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہر شعبۂ تعلیم کو اسلامی شکل میں ڈھالنے کے لیے الگ الگ تدابیر ضروری ہیں۔ میڈیکل کے طلبہ کو بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک زندگی کو بچانا ساری انسانیت کو بچانے کے برابر کہا ہے۔ ہم اس ثواب کو حاصل کرنے کی نیت سے کام کریں۔ اسی طرح انجینئرنگ اور دیگر تکنیکی اور سائنسی شعبوں میں مضمون تو مغربی ہی رہ سکتا ہے، مگر نیت خدمت خلق اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بیرونی دنیا میں اللہ کی نشانیوں کی تلاش ہوگی۔ البتہ معاشرتی مضامین میں طریقہ الگ ہوگا۔

مغربی معاشرتی علوم وہ اسباق ہیں جو اہل مغرب نے اپنی مذہبی جنگوں سے سیکھے ہیں۔ یہ اسباق ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ ایک سیکولر معاشرہ، جس میں مذہب کا کوئی کردارنہیں، کیسے بنایا جاتا ہے؟ ہمیں اس سبق سے کلی طور پر انکار کرنا ضروری ہے اور اس بات پر اصرار ضروری ہے کہ ہم اپنا معاشرہ، اسلامی بنیادوں پر ہی بنائیں گے۔ جب یہ مقصد واضح ہو، تو اس کام کو کرنے کے لیے بے شمار مواد موجود ہے۔ ہماری پوری فقہ ہمیں سکھلاتی ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کیسے کی جاتی ہے؟ اس کے علاوہ ہمارے پاس ہزار سالہ اسلامی تہذیب کے عروج کا وقفہ ہے، جس میں ہزاروں موجودہ زمانے کے لیے قابل عمل نمونے موجود ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سارا کام ہوچکا ہے، جس کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اسلامی احکام کے مطابق معاشرے کی تشکیل کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم ہمت کریں گے، اور اس کام پر کمر باندھ لیں گے، تو اللہ تعالیٰ وہاں سے ہماری مدد فرمائیں گے ،جہاں سے ہم گمان بھی نہیں کر سکتے   ؎

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اس مضمون کے اختتام پر ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اسلامی احیا کے لیے وہ ہمارے دلوں کو ایمان کے نور سے منور کر دے، حق اور باطل میں تمیز کرنا آسان کر دے، اور اُمتِ مسلمہ کو موجودہ اندھیروں سے نکال کر اپنی معرفت کے نور کی طرف رہنمائی فرمائے، آمین!