ایمان الحاج علی


۲۹جولائی کو فلسطین کی وزارتِ تعلیم اور ہائر ایجوکیشن نے جب میٹرک کے امتحان کے نتائج کا اعلان کیا تو سارہ رو پڑی۔ ۱۸ سالہ سارہ نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ مغربی کنارے کے دیگر طلبہ و طالبات کو دیکھا، جو اپنی کامیابیوں پر خوشیاں منارہے تھے،تو وہ اپنے آنسو ضبط نہ کرسکی۔ جب میں غزہ میں اس کے خیمے میں اس سے ملنے گئی تو اس نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ مجھے بتایا، ’’میرے لیے یہ خوشی کا وقت ہونا تھا، کیونکہ میں اپنے ہائی اسکول کے سرفہرست طلبہ میں شامل تھی۔ میں نے اپنی کامیابی پر انٹرویو دینے کا خواب دیکھا تھا مگر میرے ہم وطنوں کے ساتھ آج میری تعلیم کا گلابھی گھونٹ دیا گیا ہے‘‘۔

سارہ، غزہ کے ظہرت المدائین سیکنڈری اسکول میں زیر تعلیم اور ڈاکٹر بننے کی خواہش مند ہے۔ میٹرک کا امتحان، جس کے لیے اس نے مہینوں محنت کی تھی، اس کو میڈیکل فیکلٹی میں پڑھنے کے لیے درخواست دینے کا اہل بنادیتا کہ یہ امتحانی نتائج فلسطینی یونی ورسٹیوں میں داخلے کا بنیادی معیار ہیں، لیکن اب سارہ اپنا وقت مایوسی میں گزارتی ہے۔ – اس کا گھر اور ایک بہتر مستقبل کا خواب، اسرائیل کی بمباری سے خاک میں مل چکے ہیں۔وہ غزہ کے۴۰ ہزار فلسطینی طالب علموں میں سے ایک ہے، جنھیں اس سال میٹرک کا امتحان دینا تھا لیکن وہ نہیں دے سکے۔

تاہم، سارہ ان ’خوش قسمت‘ لوگوں میں سے ایک ہے کہ جو زندہ سلامت ہیں۔ فلسطینی وزارت تعلیم کے مطابق، جن طالب علموں کو ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنا تھی، ان میں سے کم از کم ۴۵۰ ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی نسل کشی کی جارحیت میں ۲۶۰ سے زائد اساتذہ سمیت مختلف درجات کے ۵ہزار سے زائد دیگر افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہائی اسکول سے وابستہ افراد اُن اسکولوں میں مارے گئے، جو غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد بے گھر فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ ایک بڑا ہولناک المیہ ہے کہ غزہ میں علم کی روشنی کی جگہیں موت کی وادیوں میں بدل چکی ہیں۔

جولائی سے لے کر اب وسط اگست تک اسرائیل اسکولوں پر ۲۳ بار بمباری کرچکا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ تازہ ترین حملے میں غزہ کا المدائین اسکول ۱۰۲ سے زائد افراد کا قبرستان بن گیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس سانحے کی خوفناک رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ والدین کی اپنے مقتول بچوں کی تلاش بیکارہے، کیونکہ بموں سے بچوں کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء سے غزہ کے ۵۶۰؍ اسکولوں میں سے ۹۳ فی صد یا تو تباہ ہوچکے ہیں یا انھیں بُری طرح نقصان پہنچا ہے۔ تقریباً ۳۴۰ پر اسرائیلی فوج نے براہِ راست بمباری کی ہے۔ ان میں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے اسکول بھی شامل ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسرائیل خاص طور پر منظم طریقے سے غزہ کے اسکولوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور اس کی ایک وجہ بھی ہے۔ فلسطینیوں کے لیے یہ تعلیمی مراکز تاریخی طور پر سیکھنے، انقلابی سرگرمیوں، ثقافتی تحفظ اور اسرائیلی نوآبادیات کی وجہ سے ایک دوسرے سے منقطع فلسطینی زمینوں کے درمیان تعلقات کے تحفظ کے اہم مرکز کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کو بااختیار بنانے اور ان کی آزادی کی تحریک میں اسکولوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں، دینی اور جدید تعلیم پر مشتمل تعلیمی ادارے،’۱۹۴۸ء کے نکبہ‘ کے بعد سے فلسطینی عوام کو مٹانے کی اسرائیلی کوششوں کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی ایک شکل ہیں۔ جب یہودی ملیشیا فورسز نے فلسطینیوں کی نسل کشی کرتے ہوئے تقریباً ۷لاکھ ۵۰ ہزار فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کیا، تو پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہونے کے بعد ان فلسطینیوں نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے بچوں کے لیے خیموں میں اسکول کھولے۔ تعلیم کو قومی قدر کے طور پر فروغ دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی تعلیم کا شعبہ ترقی کے اس مقام تک پہنچا کہ جہاں اس نے دنیا میں خواندگی کی سب سے بلند شرح پیش کی۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ غربت و کسمپرسی، محصور اور مسلسل بمباری کا شکار غزہ روایتی طور پر امتحانات میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں کا مرکز رہا ہے۔ غزہ کے طالب علموں کی ایسی کہانیاں بکثرت مشہور ہیں، جو بلیک آؤٹ کے دوران تیل کے لیمپوں یا موبائل فونوں کی روشنی میں باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اسرائیل کی گھروں پر بمباری کے باوجود رُکنے سے انکار کردیتے ہیں، اور پھر سب سے زیادہ نمبر بھی حاصل کرتے ہیں۔ اہل فلسطین کی جدوجہد میں ساری مشکلات کے باوجود تعلیم کے حصول میں سبقت حاصل کرنا مزاحمت کی ایک شکل رہی ہے۔

اسرائیل اب جو کچھ کر رہا ہے، وہ فلسطینی مزاحمت کی اس شکل کو ’تعلیمی قتل عام‘ (Scholasticide) کے ذریعے تباہ و برباد کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہ تعلیمی اور ثقافتی اداروں کو ختم کر رہا ہے تاکہ ان ذرائع کو ختم کیا جا سکے، جن کے ذریعے فلسطینی اپنی ثقافت، علم، تاریخ، شناخت اور اقدار کو آئندہ نسلوں تک محفوظ اور منتقل کر سکتے ہیں۔

یہ ’تعلیمی قتل عام‘ (Scholasticide) نسل کشی کے سلسلے کا ایک تشویش ناک پہلو ہے۔ اس اسکول کشی کی مہم نے طلبہ کے مستقبل اور تعلیمی شعبے پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ تعلیم بہت سے لوگوں کو یہ اُمید دلاتی ہے کہ ان کے لیے زندگی بہتر ہو سکتی ہے، اور وہ محنت کے ذریعے اپنے خاندانوں کو غربت سے نکال سکتے ہیں مگر اسرائیل اُمید کا یہ چراغ بھی بجھا رہا ہے، اور مغرب تماشائی ہے۔

غزہ کے بچوں اور نوجوانوں میں پھیلنے والی نااُمیدی کے بارے میں مَیں نے اس وقت سوچا جب ۱۸ سالہ احسان کو دیر البلاح کی دھول بھری سڑک پر چلچلاتی دھوپ میں ہاتھ سے بنی مٹھائیاں فروخت کرتے ہوئے دیکھا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں کیا کر رہا ہے؟ اس نے مجھے بتایا کہ ’’میں اپنے خاندان کو زندہ رہنے میں مدد دینے کے لیے تھوڑی سی رقم کمانے کے لیے ہاتھ سے بنی ہوئی مٹھائیاں بیچ کر اپنا دن گزارتا ہوں‘‘۔ پھر اس نے مایوسی سے کہا:’’میں نے اپنے خواب کھو دیے ہیں۔ میں نے انجینئر بننے، اپنا کاروبار شروع کرنے، کسی کمپنی میں کام کرنے کا خواب دیکھا تھا، لیکن اب تو میرے سارے خواب خاک میں مل چکے ہیں‘‘۔

سارہ کی طرح احسان بھی میٹرک کا امتحان دینا چاہتا ہوگا اور یونی ورسٹی میں پڑھنے کا شوق رکھتا ہوگا۔ میں نے غزہ میں سارہ اور احسان جیسے بہت سے روشن چہروں کے حامل نوخیز لڑکے لڑکیاں دیکھی ہیں، جن کی خواہش تھی کہ اپنی ہائی اسکول کی کامیابیوں پر خوشیاں مناتے، لیکن اب وہ اپنے اُجڑے خوابوں کا ماتم کررہے ہیں، جو ان پر ظلم و ستم، تشدد اور بمباری کے نتیجے میں چھین لیے گئے ہیں۔ جو لوگ غزہ کے مستقبل کے ڈاکٹر اور انجینئر بن سکتے تھے، اب وہ موت اور مایوسی میں گھرے ہوئے بمشکل زندہ رہنے کے لیے خوراک اور پانی کی تلاش میں جدوجہد کرتے زندگی گزار رہے ہیں۔

اس تمام تر ظلم و جور اور سفاکیت کے باوجود مزاحمت ختم نہیں ہوئی ہے۔ تباہ شدہ غزہ کے فلسطینیوں میں تعلیم کی تڑپ ختم نہیں ہوئی۔ مجھے یاد آیا جب میں چھ سالہ ماسا اور اس کے اہل خانہ سے دیر البلاح میں ان کے خیمے میں ملنے گئی تھی، اور اس کی ماں سے بات کر رہی تھی، جو مجھے آنسوئوں سے بھیگی آنکھیں پونچھتے ہوئے بتا رہی تھی: ’’ہر بار جب میری بیٹی روتی ہے تو میرے دل میں درد اُٹھتا ہے کیونکہ وہ اسکول نہیں جا سکتی‘‘۔ ماسا نے التجا کی: ’’ماں، میں اسکول جانا چاہتی ہوں۔ چلو بازار چلتے ہیں اور میرے لیے ایک بیگ اور اسکول یونیفارم خرید دیں‘‘۔ ماسا نے ستمبر میں پہلی جماعت شروع کی ہوگی۔ اس مہینے میں اسکول کی اسٹیشنری، یونیفارم اور اسکول بیگ کی خریداری کا وقت ہوتا، جس سے اس کو بے پناہ خوشی ہوتی۔

آج فلسطینی بچوں کی اسکول جانے کی خواہش بہت سے والدین کے دلوں کو افسردہ کر رہی ہے، تعلیم کی یہ پیاس کل غزہ کے تعلیمی شعبے کی تعمیرِ نو کا آغاز کرے گی، جب یہ نسل کشی کا سیلاب ختم ہوجائے گا۔

حالیہ دنوں میں جاری ہونے والے ایک کھلے خط میں، غزہ کے سیکڑوں اسکالرز اور یونی ورسٹی اساتذہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’غزہ کے تعلیمی اداروں کی تعمیرِ نو صرف تعلیم کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اُبھرنے کی صلاحیت اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے غیرمتزلزل عزم کا ثبوت ہے‘‘۔ درحقیقت، بہت سے فلسطینی اپنی معاشرتی زندگی اور آزادی کے لیے تعلیمی اداروں کی ضروری تعمیرِ نو کی خواہش رکھتے ہیں، جو ان کی ثابت قدمی اور پختہ عزم کا مجسم اظہار ہے۔ اس خط کے اختتامی جملے میں کہا گیا ہے: ’’غزہ کے بہت سے اسکول، خاص طور پر اس کے پناہ گزین کیمپوں میں، خیموں میں بنائے گئے تھے، اور فلسطینی اپنے دوستوں کے تعاون سے بہت جلد انھیں دوبارہ خیموں میں قائم کرلیں گے‘‘۔(الجزیرہ، ۱۱؍اگست ۲۰۲۴ء)