ڈاکٹر محمد علی احسان


ماضی میں اسرائیل نے ہمیشہ مختصر اور فیصلہ کن جنگیں اسرائیل میں نہیں بلکہ اپنے اردگرد محصور عرب سرزمین پر لڑی ہیں۔ آخری بار ۱۹۷۳ء کی جنگ میں عرب اتحادی فوج کو شکست دینے کے بعد سے، اسرائیل نے کبھی اپنے خلاف مؤثر عرب اتحاد کی تشکیل کی اجازت نہیں دی۔ نتیجہ یہ کہ اسے کبھی مشترکہ عرب اتحاد کی طاقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس سے اسے متعدد محاذوں پر جنگ کا خطرہ ہو۔

۱۹۷۳ءمیں عرب اتحادی فوج کو شکست دینے کے کئی عشروں بعد، اسرائیل آج نہ صرف غیر ریاستی عناصر اور گروہوں سے بلکہ ’مزاحمت کا محور‘ (حماس) سے نبرد آزما ہے۔ اس بار اسرائیل ایک طویل جنگ لڑ رہا ہے جس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ غزہ میں یہ زمینی اور فضائی کارروائیاں کررہا ہے، اور لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے شمالی سرحد پر لاحق خطرہ بھی جنگ میں ڈھل چکا ہے۔ مغربی کنارے کی کارروائیاں بھی اسرائیلی فوجیوں کو وہاں اُلجھاتی رہتی ہیں۔بیرونی طور پر شام سے آنے والے پراکسی گروپوں کا خطرہ اور ایران کے ہوائی حملوں یا یمن سے حوثیوں کی طرف سے بحیرۂ احمر میں فوجی کارروائیوں نے اسرائیل اور اس کی حلیف خلیجی ریاستوں کے مفادات سمیت اس جنگ کو بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔

یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے اپنی سرزمین کے اندر جنگ شروع کی ہے۔ پھر وہ مختصر اور فیصلہ کن نہیں بلکہ ایک طویل جنگ لڑ رہا ہے، اور اسے متعدد خطرات کا سامنا ہے۔ اسے ایسے سیکورٹی مخمصے کا سامنا ۱۹۷۳ء میں عرب اتحاد کے خلاف جنگ کے بعد سے نہیں ہوا تھا۔

اس جنگ کی مہلک خامیاں سیاسی اور قانونی دائرے میں ہیں۔ اسرائیل جتنا زیادہ طویل فوجی جدوجہد میں اُلجھتا جائے گا، اس کے سیاسی اور قانونی مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ واضح سیاسی ہدف کے بغیر، کوئی بھی عسکری حکمت عملی اپنی اہمیت کھودیتی ہے۔ بلاشبہہ جنگ ایک سیاسی عمل ہے۔ چونکہ طاقت کا استعمال سیاسی ہے، اس لیے اسرائیلی سیاست دانوں کو جس چیز پر غورکرنے کی ضرورت ہے، وہ صرف ذرائع نہیں بلکہ انجام بھی ہے۔ غزہ کی جنگ میں سیاست کس طرح اپنا کردار ادا کر رہی ہے؟ کیا اسرائیل کی سیاسی حکمت عملی صرف غزہ میں حماس کو شکست دینے تک محدود ہے؟ کیا فوجی جبر کی یہ حکمت عملی عالمی اثرات پیدا نہیں کر رہی؟ کیا غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی پوری دنیا کو نقصان نہیں پہنچا رہی، جیسا کہ عالم گیریت کی دنیا میں تمام ریاستوں کی معیشتیں ایک دوسرے پر منحصر ہیں؟

اس جنگ میں اسرائیلی حکمت عملی سے پوری دنیا کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ابھی تک ایسا لگتا ہے کہ سیاسی مقصد صرف حماس کی عسکری قوت کا خاتمہ اور پناہ گزینوں کی واپسی نہیں ہے، بلکہ ایک وسیع تر ایجنڈے پر عمل کرنا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دنیا اس جنگ کے لیے اسرائیل کے حقیقی مقاصد کے بارے میں اندازہ لگانے میں ناکام ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ اسرائیل کا یہ رویہ خطے میں وسیع تر تنازعے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ حماس کے ۳۰ ہزار جنگجو ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ان میں سے تقریباً ۱۸ ہزار کو مار دیا ہے۔ اس میں جو بات واضح نہیں کی گئی وہ یہ ہے کہ حماس نے اس اسرائیلی ظلم و سفاکیت کے خلاف لڑنے کے لیے مزید کتنے لوگوں کو بھرتی کیا ہے؟ سیاسی طور پر اسرائیل کو عالمی تنہائی کا سامنا ہے اور قانونی طور پر اس کے اقدامات کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں چیلنج کیا گیا ہے، جس نے وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا ہے۔ دنیا نے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے جواز کو چیلنج کیا ہے اور اسرائیلی مسلح افواج کے پاؤں کے نیچے سے قانونی جواز کا قالین کھینچ لیا ہے۔ جنگ کو ختم کرنے کے واضح سیاسی ہدف کے بغیر اسرائیل اپنی معیشت، معاشرے، فوج اور سب سے بڑھ کر ایک قومی ریاست کے طور پر اپنی ساکھ کی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے بارے میں سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے کچھ مفروضوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے:

  • پہلا مفروضہ، اسرائیل کو درپیش خطرے اور اس سے پیدا ہونے والے اضافی خطرات کو ختم کرنے کے لیے اسے ایک طویل جنگ کی ضرورت ہوگی۔ واضح سیاسی ہدف اور اخراج کی حکمت عملی کے بغیر اسرائیل ایک طویل جنگ لڑتا رہے گا۔
  •  دوسرا مفروضہ، اسرائیل کو یہ جنگ لڑنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ہتھیاروں، گولہ بارود اور اضافی پُرزوں کی ضرورت ہوگی۔ فی الحال یہ امریکا پر انحصار جاری رکھے گا، لیکن درمیانی اور طویل مدت میں اگر امریکا دیگر مسائل میں اُلجھ گیا تو اسرائیل کی متعدد محاذوں پر بیک وقت فوجی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت تیزی سے کم ہو جائے گی۔ اگر وہ اپنا دفاعی بجٹ بڑھاتا ہے اور اپنی دفاعی صنعتوں کو بڑھاتا ہے، تو یہ صرف اس کی معیشت کی قیمت پر ہوسکتا ہے۔
  •  تیسرا مفروضہ ،اس جنگ میں چین یا روس کا شامل ہوجانا ہے۔ یہ دونوں بڑی طاقتیں غزہ میں جو کچھ ہوتا دیکھتی ہیں، اس کی تائید نہیں کرتی ہیں۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر دونوں طاقتیں تنقید کرتی ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں، بڑی طاقتیں یا تو مقابلہ، ورنہ ان کے اثرات کو کم کرنے کی کوششوں کے تحت بات چیت کرتی ہیں۔ امریکا عالمی بالادستی کے طور پر دونوں عظیم طاقتوں کے خلاف ان کے اثرات کو کم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روس اور چین بھی مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں امریکا کو پھنسے ہوئے دیکھ کر خوش ہوں گے کیونکہ اس سے انھیں اپنے دائرۂ کار میں درپیش چیلنجوں کے حوالے سے خطّے میں اپنے جیو پولیٹیکل مقاصد حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ فائدہ اور اسٹرےٹیجک جگہ ملے گی۔

حماس کی جگہ فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان میں حزب اللہ کے خطرے سے نمٹنا، ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا، اور یمن میں حوثیوں کے خطرے سے نمٹنا___ وہ تمام چیلنجز ہیں، جن کا اسرائیل کو اس کثیر محاذ جنگ میں سامنا ہے۔