جان مِک ایواے


اخبار ڈی کلاسیفائیڈ   کی جمع کردہ معلومات کے مطابق برطانیہ خفیہ طور پر اسرائیلی فوج کو نفسیاتی جنگ کے حربے سکھا رہا ہے۔ حال ہی میں افشاء ہونے والی متعدد دستاویزات کے مطابق برطانوی فوج کی ’۷۷ویں بریگیڈ‘ اس سلسلے میں اسرائیلی فوج کے ساتھ حکمت عملی اور تدابیر کے متعلق مشاورت کرتی آرہی ہے۔

یاد رہے ۷۷ویں بریگیڈ ’معلومات کے اس دورمیں‘ سوشل میڈیا اور نفسیاتی جنگ کے دیگر پہلوؤں میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ بریگیڈ اپنی کارروائیوں کے لیے ’نفسیاتی جنگ کے غیرمہلک طریقوں‘ مثلاً سائبر حملوں، منفی پروپیگنڈے اور آن لائن آپریشنوں پر انحصار کرتی ہے۔

غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے دفاع میں اپنی ابلاغی مہم کے دوران، اسرائیل خود بھی جعلی اور تحریف شدہ ویڈیوز اور جعلی اکاؤنٹس کا سہارالیتا آرہا ہے۔

اس سلسلے میں ۲۰۱۸ء سے ۲۰۱۹ء کے دوران ہرمیٹیج، برکشائر میں واقع’ ۷۷ویں بریگیڈ‘ کے دفاتر میں دو بار معلومات کا تبادلہ ہوا۔ یہ دستاویزات Anonymous for Justice نامی گروپ نے اسرائیلی فوج کے اکاؤنٹ ہیک کر کے حاصل کی ہیں۔ اس کے بعد یہ تمام دستاویزات من و عن Distributed Denial of Secretsمیں شائع ہوئیں۔

اگرچہ کچھ دستاویزات خفیہ معاملات سے بھی تعلق رکھتی ہیں، لیکن ان کے مندرجات بہرحال عوامی مفاد کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس لیے ذرائع ابلاغ میں ان کو شائع کرنا ضروری ہے۔ اسرائیل اس وقت بین الاقوامی عدالتوں میں ’نسل کشی‘ (Genocide)کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے، جب کہ برطانوی وزارتِ دفاع حقِ معلومات کے قانون یا پارلیمان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے جواب میں اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد کے متعلق کچھ بھی بتانے سے انکاری ہے۔

جوائنٹ سروسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے اعزازی رکن پروفیسر پال راجرز کے مطابق: ’’یہ انتہائی اہم پیش رفت ہے، جو برطانوی اور اسرائیلی عسکری کمان کے درمیان اعلیٰ سطحی تعلقات سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عمومی طور پر عسکری شعبے میں شفافیت پر بھی زور دیتی ہے‘‘۔

برطانوی وزارتِ دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا: ’ہم اسٹاف کی سطح پر باقاعدگی سے دنیا بھر کے دفاعی اداروں کے ساتھ نان آپریشنل اشتراکِ عمل کرتے رہتے ہیں۔ ایسے تمام منصوبے ضابطے کے تحت تکمیل پاتے ہیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی پابندی کی جاتی ہے‘‘۔

تاہم، نفسیاتی جنگ کے متعلق اسرائیل کے ساتھ حالیہ تعاون کے متعلق پوچھنے پر محکمہ دفاع نے کسی وضاحت سے انکار کر دیا۔

  • بریگیڈ ۷۷‘: ۲۰۱۸ء میں اسرائیلی فوج کے افسر بینزی زمرمان نے اسرائیلی فوج کے ’جے تھری‘ آپریشنل ڈائریکٹوریٹ اور برطانوی فوج کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطوں کا آغاز کیا۔

اس خفیہ تعاون کے رازکو افشا کرنے والی ایک ای میل کے مطابق اس کا مقصد ’’اسرائیلی فوج ’جے تھری‘ ڈائریکٹوریٹ کے شعبہ ابلاغی مہمات کے ارکان کو ایسی مہمات کی منصوبہ بندی، انتظام اور انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے درکار مہارت سے روشناس کروانا تھا‘‘۔

اس کے بعد برطانوی فوج کے ایک میجر نے اسرائیلی وفد کے لیے دو دن کا پروگرام ترتیب دیا، جو وزارتِ دفاع کے ہیڈکوارٹر اور ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کے دفاتر واقع برکشائر میں منعقد کیا جانا تھا۔

اس پروگرام کے تحت اسرائیل یا برطانیہ کے کسی خفیہ مقام پر ’اسٹرے ٹیجک ابلاغی مہمات کا انتظام‘ اور ’اسرائیلی ابلاغی حکمت عملی اور اس کا ڈھانچا‘ کے موضوع پر تفصیلات کا تبادلہ کیا جانا تھا۔

  • ابلاغی مہمات: فروری ۲۰۱۹ء میں اسرائیلی فوج کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے کمانڈر ایرز میسل نے ایک وفد کے ہمراہ ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے متعلق مزید معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ اگلے چند ماہ کے دوران تل ابیب میں برطانیہ کے دفاعی اتاشی رونی ویسٹرمین ۲۰۱۸ء میں ملتوی ہونے والے دورے کو اَزسرِنو مرتب کروانے کے لیے کوشاں رہے۔

لندن میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی اس معاملے میں ان کا ہم خیال تھا اور چاہتا تھا: ’’منصوبے کی تشکیلِ نو کے لیے منصوبہ بندی کی جائے‘‘۔جون تک برطانوی وزارت دفاع اور ۷۷ویں بریگیڈ کا یہ اسرائیلی دورہ گذشتہ خطوط پر دوبارہ ترتیب دیا جا چکا تھا کیونکہ، سال [۲۰۱۸ء] میں یہ دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا‘۔چنانچہ ۱۰ اور ۱۱ جولائی کو اسرائیلی وفدنے ایک دن برکشائر میں ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کے ساتھ، جب کہ اگلا دن وزارت دفاع کے ساتھ گزارا، اور اسرائیلی فوج کو ابلاغی مہمات کی منصوبہ بندی اور انتظام کرتے ہوئے انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی مہارت سے روشناس کروایا گیا۔

  • متعاقب دورہ: اسرائیلی وفد کے ’کامیاب‘ دورے کے بعد ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کے کمانڈر ڈینئل ریو نے درخواست کی کہ ان کے ایک افسر کو فالو اَپ کے لیے اسرائیل بھیجا جائے۔

تل ابیب میں برطانوی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ درخواست کے مطابق یہ دورہ ۲۸ مارچ سے ۴؍ اپریل ۲۰۲۰ء کے درمیان ہونا تھا، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے درپیش سفری پابندیوں کے باعث اسے منسوخ کر دیا گیا۔ برطانوی سفارت خانے کی درخواست کے مطابق گفت و شنید کا موضوع ’ابلاغی مہمات کی استعداد پیدا کرنا‘ تھا اور اسے خفیہ قرار دیا گیا تھا۔

’فلسطین ایکشن‘ تنظیم کی شریک بانی ہدیٰ اموری نے ڈی کلاسیفائیڈ کو بتایا: ’’اسرائیلی ریاست، فلسطینیوں کو قتل کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے اکثر نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈا کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے‘‘۔ان کے مطابق افشاء ہونے والی دستاویزات یہ ثابت کرتی ہیں کہ: ’’برطانیہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں شریک ہے‘‘۔