خبیب کاظمی


’سالگرہ‘ کا لفظ دو الفاظ ’سال‘ اور ’گرہ‘ کا مرکب ہے۔ ’سال‘ کا مطلب ’سال‘ یا ’سالانہ‘ اور ’گرہ‘ کا مطلب ہے ’گرہ باندھنا‘ یا ’منسلک ہونا‘۔ اس طرح، سالگرہ کا مطلب ہے کسی کی زندگی کا ایک سال مکمل ہونے کی خوشی منانا۔سالگرہ منانا دراصل اس دن کی یاد منانا ہے، جب کوئی شخص پیدا ہوا تھا۔ ہر سال اس دن کو خوشی اور تقریب کے ساتھ منایا جاتا ہے۔البتہ اس کی شرعی حیثیت کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

  • جائز (مباح) ہونے کی رائـے:کچھ علما کے نزدیک، سالگرہ منانا ایک معاشرتی رسم کے طور پر جائز ہے، جب تک کہ اس میں کوئی غیر اسلامی یا حرام عمل شامل نہ ہو۔ اگر سالگرہ کی تقریب میں صرف شکر گزاری، خاندانی اجتماع، اور نیک دعاؤں کا اہتمام ہو، تو یہ ایک مباح (جائز) عمل ہو سکتا ہے۔ان کے نزدیک یہ عمل نیکی اور عبادت کی نیت سے نہیں کیا جاتا بلکہ صرف سماجی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
  • ناجائز (بدعت) ہونے کی رائـے:بہت سے علما کے نزدیک سالگرہ منانا ایک ’بدعت‘ ہے، کیونکہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرامؓ، یا تابعین کے دور میں نہیں ملتا۔ گویا یہ عمل غیر اسلامی ثقافتوں سے متاثر ہے اور اسلامی تعلیمات میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اس لیے اس عمل کو اسراف، فخر، اور غیر اسلامی روایات کی پیروی کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔
  • درمیانی رائـے:کچھ علما کے نزدیک اس عمل کو مکمل طور پر ترک کرنا بہتر ہے تاکہ غیراسلامی روایات اور رسموں سے بچا جا سکے اور اسلامی اقدار کی حفاظت کی جا سکے۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ سالگرہ منانا ایک ایسی ثقافتی رسم ہے جس کی شریعت میں واضح حیثیت نہیں ہے ، اور علما کی اس بارے میں مختلف آراء ہیں، کچھ اسے جائز اور کچھ بدعت قرار دیتے ہیں، لیکن بہتر ہے کہ سدِ باب کے طور پر اس سے گریز کیا جائے۔
  • سدِباب:سد باب کا مطلب ہے کہ کسی ممکنہ برائی یا فساد کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی اس کا راستہ بند کردیا جائے۔ اسلام میں اس کی اہمیت انتہائی بنیادی اور اصولی ہے۔ سدِباب کا مقصد برائی کے ممکنہ ذرائع کو ختم کرنا اور معاشرتی فتنوں سے بچاؤ کو یقینی بنانا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا۝۳۲ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۲)’’زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ‘‘۔ زنا کے قریب بھی نہ جائو، اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعلِ زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ زنا کے مقدمات اور اس کے ان ابتدائی محرکات سے بھی دُور رہیں، جو اس راستے کی طرف لے جاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن، دوم، سورئہ بنی اسرائیل)
  • بیعتِ رضوان:بیعتِ رضوان، جسے ’بیعت الشجرہ‘ بھی کہا جاتا ہے، جو ۶ ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر ہوئی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ درخت مسلمانوں کے لیے ایک مقدس علامت بن گیا تھا اور لوگ اس درخت کی زیارت کے لیے آنے لگے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے دیکھا کہ لوگ اس درخت کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ مخصوص قسم کی عقیدت وابستہ کر رہے ہیں۔ انھیں خدشہ ہوا کہ کہیں لوگ اس درخت کو تعظیم کی حد تک نہ پہنچا دیں، جو توحید کے اصولوں کے خلاف ہے۔ چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اس درخت کو کاٹ دیا جائے تاکہ لوگ اس کی غیر ضروری تعظیم نہ کریں اور شرک یا بدعت کا کوئی راستہ نہ کھل سکے۔ آپ نے حکم دیا کہ اس درخت کو کاٹ دیا جائے، اور یہ درخت ختم کر دیا گیا۔

حضرت عمرؓ کے اس اقدام سے یہ سبق ملتا ہے کہ برائی یا شرک کے آثار کو جنم دینے والی کسی بھی چیز کو ختم کرنا ضروری ہے، چاہے وہ چیز بظاہر کتنی ہی محترم کیوں نہ ہو۔

  • شکر اور احتساب: سالگرہ کا دن یاد دلاتا ہے کہ ہم نے ایک اور سال گزارا، جس میں ہمیں اللہ کی بے شمار نعمتیں اور رحمتیں نصیب ہوئیں۔ سالگرہ کا دن یہ سوچنے کا بہترین موقع ہے کہ ہم نے پچھلے سال میں کیا حاصل کیا، کون سی غلطیاں کیں، اور کہاں بہتری کی ضرورت ہے؟ اس دن کو اپنے اعمال، نیتوں، اور کردار کے محاسبہ کے دن کے طور پر منانا چاہیے۔ اس دن ، آنے والے سال کے لیے اہداف مقرر کریں۔ دینی اور دنیاوی معاملات میں بہتری لانے ، اچھے اعمال کو زیادہ سے زیادہ کرنے، اور برائیوں سے بچنے کا عزم کریں۔

جو والدین اپنے لاڈلوں کی سالگرہ مناتے ہیں، وہ یہ بات اپنے ذہن میں تازہ رکھیں کہ بچے اللہ کی طرف سے نعمت ہیں۔ والدین کو ہر لمحہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے انھیں ان معصوم تحفوں سے نوازا۔ وہیں اس بات کا اِدراک بھی ہونا چاہیے کہ اولاد کو نعمت کے ساتھ ساتھ فتنہ اور آزمائش بھی کہا گیا ہے۔ان کی پرورش، تعلیم و تربیت، اور ان کی شخصیت سازی ایک ذمہ داری ہے۔ ہم ایسا کوئی کام نہ کریں، جس کا غلط اثر بچوں کی تربیت پر پڑے۔

کسی تنظیم، جماعت، یا ادارے کی سالگرہ منانا

کسی تنظیم، جماعت، یا ادارے، خاص کر کسی دینی و اسلامی جماعت کی سالگرہ منانے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہوتا جو کسی فرد کی سالگرہ کا منانا ہوتا ہے۔ کسی جماعت کے لیے یہ دن اس کے مقاصد، کارکردگی اور وابستگی کی تجدید کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کی سالگرہ یا یومِ تاسیس منانے کا مطلب جماعت کی تشکیل کے دن کو یادگار کے طور پر منانا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد جماعت کے قیام کی یاد تازہ کرنا، اس کی خدمات، جدوجہد اور مقاصد کو اُجاگر کرنا ہے۔

  • تجدیدِ عہد:جماعت اسلامی کے ارکان، کارکنان اور ہمدردان کے درمیان اس دن کو تجدید ِ عہد کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد اور نصب العین کو یاد رکھیں اور اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کریں۔جماعت کی جانب سے کی جانے والی خدمات، کامیابیوں اور کارناموں کو یاد کیا جاتا ہے۔ یہ موقع ہوتا ہے کہ جماعت کے ماضی کے کارناموں کا جائزہ لیا جائے اور کوتاہیوں سے سبق سیکھا جائے۔
  • آگاہی و شعور:اس دن کو مناتے ہوئے عوام الناس کو جماعت کے نظریات، اصولوں، اور تحریک کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں شعور بیدار ہو۔ جماعت اپنی آئندہ کی حکمت عملی اور منصوبوں پر غور کرے اور اپنی جدوجہد کو مزید منظم اور مؤثر بنانے کی کوشش کرے۔