ڈاکٹر سیّدہ فرزانہ


اللہ تعالیٰ غیب کی باتوں کو جاننے والا اور اس کا علم تمام علو م پر محیط ہے:

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ  ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا  وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ    ۝۵۹  (الانعام۶:۵۹ )آسمانوں اور زمین کی چابیاں اسی کے پاس ہیں ، اس کے سوا کوئی ان کے بارے میں نہیں جانتا۔ وہی جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ سمندر میں ہے۔ اور کوئی پتّا بھی گرتا ہے تو اسے بھی وہ جانتا ہے۔ زمین کی تہوں میں موجود دانے کو بھی وہی جانتا ہے، اور ہر خشک و تر کو اس نے واضح کتاب میں درج کر رکھا ہے۔

اللہ کا علم قدیم زمان و مکان سے ماورا ہے، جب کہ انسان کا علم کسبی ہے جسے وہ پیدائش کے بعد سے بتدریج کسب و تجربے سے حاصل کرتا ہے ۔

اوّلین وحی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ’صفت العلیم‘ کا تعارف دیا گیا ۔وہ ذات جو تمام علوم کا سرچشمہ و منبع ہے۔ اس کے علم اور انسان کے علم میں کوئی نسبت نہیں ہے۔ اللہ کا علم لامحدودہے، جب کہ انسان کا علم محدود اور ناقص ہے ۔ العلیم ہستی ہی جانتی ہے کہ انسانوں کی اصلاح اور خیر و بھلائی کن امور میں پوشیدہ ہے، اس کا علم ہر علم والے کے علم پر حاوی اور محیط ہے: وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ۝۷۶(یوسف۱۲:۷۶) ’’اور ایک علم والا ایسا ہے جو ہر صاحب ِعلم سے بالاتر ہے‘‘ ۔

اللہ کے مطلق ،قدیم، لامحدود، کامل و اکمل علم کی مثال سورۂ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے دوران سامنے آتی ہے:

اور لوگ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے سوائے اس کے جووہ خود چاہے۔(البقرہ ۲:۲۵۵)

دُنیا کے بے شمار علوم کی اگر درجہ بندی کی جائے تو امام غزالیؒ کے مطابق چار طرح کے علوم سیکھنا لازم ہیں :

  • العلم باللہ ، اللہ کے بارے میں علم
  • العلم بامرہ، اس کے احکامات کے بارے میں علم
  • العلم بارادتہ     ، اس کی مرضی کا علم
  • العلم  بخلقہ، اس کی مخلوقات کا علم

 

  • العلم باللّٰہ: اللہ وحدہٗ لا شریک اور اس کے اسماء و صفات اور افعال کے علم کا نام ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :من مات وھو یعلم انہ لا الہ الا اﷲ دخل الجنة (صحیح مسلم)،’’جو اس حال میں مرگیا کہ وہ اس بات کا علم رکھتا تھا کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو یہ آدمی جنت میں داخل ہوگا‘‘۔

 ابن عباسؓ کا قول ہے: عرفت ربي بربي،’’ میں نے اپنے رب کو اپنے رب کے ذریعے سے پہچانا ‘‘۔

فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ  (محمد۴۷:۱۹)، پس اے نبیؐ! خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ۔

  • العلم بامرہ : یہ جاننا کہ رب انسان سے کیا اور کیوں چاہتا ہے؟ یعنی اوامرونواہی، فرائض و واجبات کو جاننا، سمجھنا ، قرآن کریم، سنت رسولؐ اور شریعت الٰہی کے علم کا حصول۔

فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶ (الذاریات۵۱:۵۶)، یعنی بندگی (عبادات) کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ اس کا طریقہ جاننے کے لیے، صراط مستقیم پر چلنے ، اندھیروں سے روشنی میں آنے کے لیے، راستے کے خطرات سے آگاہ ہونے اور مفید اور غیر مفید کے فرق کو جاننے کے لیے اور حق و باطل میں فرق کرنے کے لیے اوامر و نواہی کا علم ضروری ہے:

قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۝۱۵ۙ  يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَيَهْدِيْهِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ۝۱۶ (المائدہ۵:۱۵-۱۶) تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے اُن کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ  وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطٰنُی  (الزخرف ۴۳:۶۱-۶۲)سیدھا راستہ ہے، ایسا نہ ہو شیطان تم کو اُس سے روک دے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہی سے بچنے کا ماخذ بتایا:عَنْ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: تَرَکْتُ فِيْکُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا: کِتَابَ اﷲِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ.(رواه مالک، والحاکم عن أبي هريرة.) ’’حضرت مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان تک یہ خبر پہنچی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمھارے پاس دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، اگر انھیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ کی کتاب اور اُس کے نبی کی سنت‘‘۔

فلاح کا طریقہ جاننا اور اسےانسانوں تک پہنچانا، اللہ تعالیٰ کی طرف سےایک امانت ہے جس کا بار انسان نے اٹھایا ہے :

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ (احزاب۳۳:۷۲) ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیاتو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے ، مگر انسان نے اُسے اٹھا لیا ۔

یہ علمِ نافع صدقۂ جاریہ ہے جس کا اجر انسان کے مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا۔

عن ابي هريرة رضي الله عنه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا مات الإنسان انقطع عمله إلا من ثلاث , صدقة جارية , وعلم ينتفع به , وولد صالح يدعو له (جامع ترمذی) حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقۂ جاریہ ہے، دوسرا ایسا علم ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرے‘‘۔

 قبر کے سوالوں کے جواب کی تیاری بھی وہی کر سکتا ہے جس نے علم حاصل کیا اور اس کے مطابق زندگی گزاری:

وَیَأْتِيْهِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِهِ فَیَقُوْلاَنِ لَهُ : مَنْ رَبُّکَ؟ فَیَقُوْلُ : رَبِّيَ اللهُ۔ فَیَقُوْلاَنِ لَهُ : مَا دِيْنُکَ؟ فَیَقُوْلُ : دِيْنِيَ الْإِسْلَامُ۔ فَیَقُوْلاَنِ لَهُ : مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيْکُمْ؟ قَالَ : فَیَقُوْلُ: هُوَ رَسُوْلُ اللهِ فَیَقُوْلاَنُ : وَمَا یُدْرِيْکَ؟ فَیَقُوْلُ : قَرَأْتُ کِتَابَ اللهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ۔ رَوَاهُ  أَبُوْدَاوُدَ  وَأَحْمَدُ (سنن ابو داؤد ، مسنداحمد ) ایک روایت میں ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، پس اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔ دونوں فرشتے اس سے پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے۔ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : یہ ہستی کون ہے جو تمھاری طرف مبعوث کی گئی تھی؟ وہ کہتا ہے : یہ تو محمد رسولؐ اللہ ہیں۔ دونوں پوچھتے ہیں : تمھیں کیسے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھی، لہٰذا ان پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی‘‘۔

  • العلم بارادتہ : کائنات کی تسخیر اور اس کے اندر اشیا کی تخلیق سے اللہ تعالیٰ کا مقصد، ارادہ اور غرض و غایت کیا ہے؟ اس کو جاننے کا علم العلم بارادتہ ہے۔اپنی مخلوق کے معاملے میں اس کی رضا کیا ہے؟ اس وسیع و عریض کائنات کو انسان کے لیے بنانے کا مقصد کیا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب کے لیے تحقیق و تدبر اور ان کے معاملے میں کارفرما حکمت و مصلحت کو جاننے کی کوشش کرنا لازم ہے۔
  • العلم بالخلقہ: اللہ تعالیٰ کی کائنات کے سربستہ راز اور انواع و اقسام کی مخلوقات کے جاننے کے علم کو العلم بالخلقہ کہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا ۭ  اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ (الفاطر۳۵: ۲۸)حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے ۔

اس آیت کا پچھلی آیات سے ربط دیکھیں :

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۚ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہَا۝۰ۭ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ۝۲۷ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ كَذٰلِكَ۝۰ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ۝۲۸(الفاطر: ۲۷-۲۸)کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس کے ذریعے طرح طرح کے پھل نکالے، جن کے رنگ مختلف ہیں۔ اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ قطعے ہیں جن کے رنگ مختلف ہیں اور کچھ گہرے سیاہ ہیں۔ اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں بھی مختلف رنگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں، بے شک اللہ سب پر غالب اور بہت بخشنے والا ہے۔

 یہاں علم سے مراد اللہ تعالی ،اس کی قدرت، اس کی طاقت، اس کی تخلیقی عظمت اور خلاّقی و فن کی معرفت ہے جو عقلوں کو حیرت زدہ کر دے ۔

صرف ان آیات میں ہی غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بارش کے نظام (Water Cycle)،  زراعت کے نظام (Agriculture)،علم نباتات (Botany) سے متعلق، پہاڑوں کی دنیا سے متعلق، علم الارض (Earth Science) اور علم زمین شناسی (Geology) کے موضوعات، انسانوں اور حیوانات کی دنیا (Zoology)، رنگ و نسل و زبان کا اختلاف (Dialects)، بولیاں (Linguistics)، سب سے متعلق اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے آفاقی علم کی نشانیاں ہمیں نظر آتی ہیں:

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً ۭ (لقمان۳۱: ۲۰)کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمھارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں؟ 

درحقیقت اللہ نے آسمان و زمین میں جو کچھ بھی ہے، انسان کے تابع کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان نے اللہ کے دیے ہوئے علم و عقل کی بنیاد پر آسمانوں کو پرکھا، سمندروں کو چیرا ، پہاڑوں کو سر کیا اور زمین کی تہوں میں جھانکا اور وقت کے ساتھ ساتھ ہر شے کے علم کی بنیاد رکھتا چلاگیا۔ یہ علوم و مشاہدات جدید سائنس سے ہزاروں سال پہلے بھی موجود تھے اور قیامت تک ان کی دریافت جاری رہے گی۔

 تدبر اور غور و فکر کی دعوت: انسان علم کے جس شعبے میں جتنی گہرائی سے مطالعہ کرتا جائے گا، جتنی زیادہ مہارت و کمال حاصل کرے گا، اسی قدر ہی اس میں رب تعالی کی معرفت و خشیت بڑھے گی جو اس کے دل و دماغ کا حصہ بن جائے گی اور وہ اس کی قدرت و حکمت و عظمت کا قائل ہوتا جائے گا۔

 ان علوم کے حصول کے بعد بھی اگر کوئی رب کو نہ پہچان سکا، تو یہ بات اس کے سطحی علم کی نشاندہی کرتی ہے ۔ اسی طرح قرآن میں متعدد آیات میں انسان کی توجہ سورج، چاند، ستاروں اور سیّاروں کی طرف مبذول کرائی گئی۔ ان کی حرکات اور مدار میں حرکت اور باہم توازن پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے، تاکہ اللہ کی حکمت و منصوبے کو سمجھے۔ تمام کائناتی اشیا زبانِ حال سے قدرتِ الٰہی کی حقانیت کا اقرار کرتی محسوس ہوتی ہیں لیکن اس کو جاننے کے لیے نورِ ایمان، کامل علم اور درست فکر درکار ہے: سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۝۰ۭ (حم السجدہ ۴۱:۵۳)’’عنقریب ہم انھیں اپنی قدرت کی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل کر واضح ہو جائے گی کہ یہ قرآن بالکل حق ہے‘‘۔

 کائنات میں قدرت کی نشانیوں پر غور کرنے کے بعد عالم فلکیات(Astronomist)ہی بہتر سمجھ سکتا ہے جو آج کہکشاؤں اور بلیک ہولز کو دیکھ کر سرگرداں ہے۔ اسی طرح اپنے وجود کے اندر نشانیاں جن کی جانب قرآن میں کئی مقامات پر اشارہ کیا گیا۔ یقینا علم الابدان (Anatomy)، الافعال (Physiology)،یا علم النفس (Psychology) کا ماہر، علم الامراض (Pathology ) کا ماہر ہی اس کو سمجھ سکتا ہے۔

 لیکن ایمان و توحید کی روشنی میں غور و فکر درکار ہے۔ جدید سائنسی علوم درحقیقت اس کائنات میں ہمیشہ سے موجود حقائق اور قدرت کی نشانیوں کی جستجو اور تحقیق میں مصروف ہیں، اس لیے علم کے تمام شعبوں کی اسلامائزیشن کی ضرورت ہے۔ہمیں ایسے محقق (Researchers)اور ماہرین تیار کرنے کی کی ضرورت ہے جو اسلامی فکر اور ایمان کی بنیاد پر ان علوم کی عمارت تعمیر کریں تاکہ دیگر اقوام و مذاہب کے محققین بھی الحاد سے ہٹ کر صحیح فکر پر آ سکیں۔

 ماہر علم جادوگروں کی مثال: جب درست بات سامنے آئی تو وہ اللہ ربّ العالمین کے آگے خود بخود سجدے میں گر گئے کیونکہ وہ جادو کی حقیقت اور معجزے میں فرق سمجھ گئے تھے۔

 درحقیقت قرآن دینی اور دنیاوی علوم کی کوئی تخصیص نہیں کرتا بلکہ ہر اس علم کی طرف توجہ دلاتا ہے جو معرفت ِرب کی طرف رجوع کا موقع فراہم کرے۔بقول سیّد مودودی:

جو تعلیم بندے کو اللہ سے نہیں ملاتی، توحید کا تصور واضح نہیں کرتی، اللہ کی حدود میں رہ کر زندگی بسر کرنے کا شعور نہیں دیتی ، اخلاق کو نہیں سنوارتی اور محب وطن اور محب اسلام نہیں بناتی، وہ تعلیم جہالت ہے اور جہالت چاہے قدیم ہو یا جدید بہر صورت جہالت ہے۔

 اس لیے عالم وہی ہے جو رب کی حقیقی معرفت کو پہنچ جائے خواہ وہ قرآن، حدیث، فقہ کا عالم ہو یا سائنسی علوم کا ماہر وہی رب کی خشیت سے بہرہ مند اور عبادت کی لذت سے آشنا ہو سکتا ہے۔