یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے دوران، سائنس کا مذہب سے تصادم ہوا ۔ دوسری جانب یہ بات ہر شک و شبہہ سے بالاتر ہے کہ علوم کے بارے میں قرآن کا بیان ناقابلِ انکار اور آخری حقیقت ہے: اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ۶۰ (اٰل عمرٰن۳: ۶۰) ’’یہ اصل حقیقت ہے جو تمھارے ربّ کی طرف سے بتائی جارہی ہے، اور تم ان لوگوں میں شامل نہ ہو، جو اس میں شک کرتے ہیں‘‘۔آج دنیا میں کو ئی ایسا تجربہ اور مشاہدہ ،کوئی سائنسی تحقیق اور انکشاف ایسا سامنے نہیںآیا جو قرآن کے کسی پیش کردہ حقائق کی نفی کرسکے ۔جدید تحقیقات اور انکشافات نے قرآن کی حقانیت اور صداقت کو روزِ روشن کی طرح عیاں ہی کیا ہے۔قرآن میں جو باتیں چودہ سو سال پہلے کہی گئی تھیں،جدید تحقیقات اس کی حقانیت پر استدلال کر رہی ہیں۔ جیسے جیسے انسانی علوم میں اضافہ ہوتا رہے گا، یہ انکشافات قرآن کی صداقت پر شہادت دیتے رہیںگے۔قرآن نے آفاق و انفس کی نشانیاںبار بار پیش کی ہیںاور پھر تدبرو تفکر کی دعوت بھی دی ہے۔جب انسان اس کی کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی قوانین فطرت کو دریافت کرتا ہے اور کبھی حیرت انگیز معلومات اس کے سامنے آتی ہیں۔
تفہیم القرآن کے تفسیری حواشی میں دیگر علوم کی طرح سائنس کی جدید تحقیقات سے بھی اس کا دامن بھرا پڑا ہے۔ مولانا مودودی نے بالواسطہ طور پر بہت سے اہم نفسیاتی حقائق اور رُموز کی نشان دہی کی ہے۔نفسیاتی اعتبار سے تفہیم القر آن کا سب سے اہم وصف یہ ہے کہ مولانا مودودی نے آثار النفس سے توحید و رسالت اور معاد (آخرت) جیسے اہم حقائق کی حقیقت کو منوایا ہے ۔ آثار النفس سے انھوں نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ انسانی جسم کی ہیئت ترکیبی ،اور اس کی ساخت اس امر کی متقاضی ہے کہ انسانی ہدایت کا سامان بھی مہیا کیا جاتارہے۔ اس مقصد کے لیے انسانی جسم کو انھوں نے محکم دلیل کے طور پر بار بار پیش کیا ہے ۔
موجودہ ماہرین نفسیات میں سے اکثر کی نگاہ صرف انسانی جسم کے حیاتیاتی تقاضوںتک محدود رہی ،اور اسی وجہ سے وہ بہت سی کوتاہ اندیشیوںکا شکار ہوئے۔ پھر ڈارونیت سے متاثر مکاتب ِفکر کی سب سے بڑی کوتاہی یہ رہی ہے کہ انھوں نے انسان کے محض حیاتیاتی تقاضوں پر زور دیا ہے ،لیکن ان تقاضوں کے علاوہ انسان کی روحانی زندگی کے جو تقاضے ہیں،انھیں نظر انداز کیا ہے ۔مولانا مودودی نے ان روحانی تقاضوںکی طرف بڑے فکرانگیز انداز میں توجہ مبذول کروائی ہے، مثلاًسورۃ الرحمٰن (۵۵) میں انسانی جسم کی ساخت پر بحث کرتے ہوئے مولانا مودودی نے لکھا ہے:
انسان کے اپنے جسم کا ایک ایک رونگٹا اور ایک ایک خلیہ (cell)وہ کام سیکھ کر پیدا ہوا ہے جو اسے انسانی جسم میں انجام دیناہے۔پھر آخر انسان بجاے خود اپنے خالق کی تعلیم و رہنمائی سے بے نیاز یا محروم کیسے ہو سکتا ہے؟ (تفہیم القرآن ،۵، حاشیہ۲، ص ۲۴۹)
اس ذکر کے لیے مولانا مودودی نے قرآن کی چند آیات اس کی وضاحت کے لیے پیش کی ہیں کہ جن میں ان باتوں کو بخوبی بیان کیا گیا ہے :
علمِ نفسیات میں گویائی اور اکتسابی علم (Learning)پر خاصی طویل بحثیں موجود ہیں،لیکن مادہ پرست ذہنوں نے ان دو جوہری ماخذ کے مختلف پہلوئوں کا کما حقہ تجزیہ نہیں کیا۔قوت گویائی کے پیچھے عقل و شعور کی لامتناہی کڑیوں کی طرف بھی بہت کم ماہرین نفسیات نے توجہ دی ہے ۔ سورۂ رحمٰن میں عَلَّمَہُ الْبَیَانَ (اور اسے بولنا سکھایا)کے الفاظ پر بحث کرتے ہوئے مولانا مودودی نے اس انسانی جوہر کے بہت سے مضمرات کو بھی اجاگر کیا ہے ۔مثال کے طور پر:
یہ محض قوت گویائی ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے عقل و شعور ،فہم و ادراک ،تمیزو ارادہ، اور دوسری ذہنی قوتیں کارفرماہوتی ہیں، جن کے بغیرانسان کی قوتِ ناطقہ کام نہیں کرسکتی۔ اس لیے بولنا دراصل انسان کے ذی شعوراور ذی اختیار مخلوق ہونے کی صریح علامت ہے۔ اور یہ امتیازی وصف جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے تعلیم کی نوعیت بھی وہ نہیں ہو سکتی، جو بے شعور اور بے اختیار مخلوق کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے ۔(تفہیم ،۵، حاشیہ۳، ص ۲۴۹)
انسان کے ذی شعور اور ذی اختیار ہونے کی توضیح و توجیہہ مولانا مودودی نے تخلیق آدم کی طرف توجہ دلانے والی آیات سے بھی کی ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ السجدہ کی آیات کی تشریح کرتے ہوئے وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ (اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ السجدہ ۳۲:۹) کے الفاظ کی مولانا نے بڑی معنی خیز وضاحت کی ہے :
’روح‘ سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے، جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے ،بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر وشعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے ۔جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقات ارضی سے ممتاز ایک صاحب ِشخصیت ہستی ،صاحب ِاَنا ہستی ،اور حاملِ خلافت ہستی بنتا ہے ۔اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اسی کی مِلک ہے اور اس کی ذات پاک کی طرف اس کا انتساب اسی طرح کا ہے، جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہوکر اس کی چیز کہلاتی ہے ،یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم،فکر، شعور ،ارادہ ،فیصلہ ،اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تَو ہیں۔ان کا سر چشمہ مادّے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے ،اللہ کی حکمت سے اس کو دانائی ملی ہے ،اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔یہ اوصاف کسی بے علم، بے دانش، اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔(تفہیم ،۴، حاشیہ۱۶، ص ۴۱)
انسانی جسم کی ساخت اور تخلیقِ آدم کا یہ تصور علم النفس میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔جدید علم نفسیات کی کوتاہیوں اور گمراہیوں کا سر چشمہ وہ مادی اور میکانکی تصورِ حیات ہے،جس کی فکری بنیادیں ڈارون [م: ۱۸۸۲ء]اور ہربرٹ سپنسر [م: ۱۹۰۳ء]کے نظریات پر استوار ہیں۔ان نظریات سے انسانی زندگی کا یہ تصور ابھرتا ہے کہ انسانی شعور کے نام کی کوئی چیز انسان کو حاصل نہیں اور اگر حاصل ہے بھی تو اس کا وجود اور عدم وجود دونوں بے معنی اور بے سود ہیں،کیوںکہ اس کا انسانی زندگی میں کوئی دخل نہیں۔انسان کے بارے میں سگمنڈ فرائڈ [م:۱۹۳۹ء] نے اپنے تصور وافکار کی عمارت اٹھائی اور انسان کو میکانکی قوانین اور شعوری محرکات کے جبر کی محسوس اور غیر محسوس زنجیروں میںجکڑا ہوا دکھایا۔ مولانا مودودی نے اس میکانکی تصورِ حیات اور تصورِ شعور کی قرآن حکیم کی روشنی میں تردید کی ہے اور اس کے مہلک اثرات کا جائزہ لیا ہے ۔اس تصور حیات سے انسانی زندگی جس سانچے میں ڈھلتی ہے، اس کی اجمالی تصویر سورۃ الاعراف کی اس آیت کی تشریح میں پیش کی ہے ،جہاں پر وحی کی روشنی سے بے نیاز ہوکر جینے والوں کی زندگی کو کتّے کی زندگی سے تشبیہہ دی گئی ہے۔
دوسری جگہ مولانا مودودی نے انسانی زندگی میں وحی اور ہدایت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے انسانی فطرت کے اس جوہر کو اُجاگر کیا ہے جسے قرآن حکیم نے ’نفسِ لوامہ‘ کہاہے ۔ ’نفسِ لوامہ‘ پر سبھی مفسرین نے بحث کی ہے اور تصوف میں نفس کی تین اقسام کا ذکر بڑی تفصیل سے موجود ہے۔ مولانا مودودی کا علمی کمال یہ ہے کہ انھوں نے ’نفسِ لوامہ‘ سے معاد پر بھی استنباط کیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس لطیف نکتے کی وضاحت یوں فرمائی ہے:
اب اگر انسان کے وجود میں اس طرح کے ایک ’نفسِ لوامہ‘ کی موجودگی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ یہی ’نفسِ لوامہ‘ زندگی بعد موت کی ایک ایسی شہادت ہے، جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے۔کیوںکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنے جن اچھے اور برے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے، ان کی سزا یا جزا اسے ضرور ملنی چاہیے،زندگی بعد موت کے سوا کسی دوسری صورت میں پورا نہیں ہوسکتا۔ (تفہیم ،۶، حاشیہ۲، ص ۱۶۳)
’نفسِ لوامہ‘ سے آخرت پر استدلال کے علاوہ مولانا نے ’نفسِ لوامہ‘ کی وضاحت بھی بڑے فکر انگیز انداز میں کی ہے ۔ سورۂ قیامہ:۷۵،سورئہ دہر:۷۶ اور سورۂ شمس:۹۱ میں ’نفسِ لوامہ‘ سے انسانی فطرت کے پہلوئو ں کو واضح کیا گیا ہے ۔اسی طرح مولانا مودودی نے ’سواء السبیل‘کی اصطلاح پر جو اظہار خیال کیا ہے وہ بھی نفسیاتی مباحث میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ’نفسِ لوامہ‘ اور ’سواء السبیل‘دراصل دونوں لازم و ملزوم ہیں۔(دیکھیے: تفہیم القرآن،اوّل، سورئہ مائدہ ۵، حاشیہ ۳۵، ص ۴۵۲-۴۵۴)
انسانی فطرت میں ’نفس لوامہ‘ اور’سواء السبیل‘کی وجہ سے راہ راست کے داعیہ کی نشان دہی کے علاوہ مولانامودودی نےقَالُوا بَلٰیکے مفاہیم کی وسعتوں کو واضح کرکے انسانی فطرت کے بہت اہم گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔ ان گوشوں کی روشنی میں کارل ژنگ [م:۱۹۶۱ء] کے نقوشِ اولین (Archetypes) کے تصور کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے،تو قرآن میں انسانی نفسیات کے بہت سے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں،جن پر اب تک بہت کم توجہ دی گئی ہے ۔ابن عربی کے اعیان ثابتہ کے تصور کو ان مباحث کی مدد سے زیادہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودی نے میثاق کے نقش کی اہمیت کے بارے میں لکھا ہے :
اس نقش کو شعور وحافظہ میں تازہ تو نہیں رکھا گیا ،لیکن وہ تحت الشعور (subconscious mind) اوروجدان(Intuition)میں یقینا محفوظ ہے۔اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے۔تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاملات کے تمام شعبوںمیں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے، وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوۃ (potentially) موجودتھا ۔خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوۃ موجود تھا اسے بالفعل کردیا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم ،کوئی تربیت،کوئی ماحولی تاثیر اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی، جو اس کے اندر بالقوۃموجود نہ ہو، ہرگز پیدا نہیں کرسکتی۔اور اسی طرح یہ سب مؤثرات اگر اپناتمام زور بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیںہے کہ ان چیزوںمیں سے، جو انسان کے اندر بالقوۃ موجود ہیں،کسی چیز کو قطعی محو کردیں۔زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کرسکتے ہیں،وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف (pervert)کردیں۔ لیکن وہ چیز تمام تحریفات کے باوجود اندر موجود رہے گی، ظہور میں آنے کے لیے زور لگاتی رہے گی، اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لیے مستعد رہے گی ۔(تفہیم ،۲، حاشیہ ۱۳۵، ص ۹۸)
مولانا مودودی نے انسانی فطرت کی اصل افتاد اور اس کے داعیات کی وضاحت کے ساتھ ساتھ انسانی شخصیت کے تصادموں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ سورۂ اعراف میں حبوط آدم سے متعلقہ آیات کی توضیح کرتے ہوئے نفس انسانی کی ترغیبات کا ذکر مولانانے تفصیل سے پیش کیا ہے ۔اس تفصیل کی مددسے انسانی شخصیت کے تصادمات کو گرفت میں لیا جا سکتا ہے۔ اجتماعی نفسیات سے متعلق امور کا ذکر بھی مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں جابجا کیا ہے۔
مثال کے طور پر سودکے ہمہ گیر اثرات کو مولانا مودودی نے بڑے عمدہ انداز میںپیش کیا ہے ۔اس بحث میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی کوتاہی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سود کے علاوہ اباحیت مطلقہ اور زنا کے اثرات پر مولانا مودودی نے سورئہ نور پر بحث کی ہے ۔وہ ان تمام خرابیوں کو سامنے لاتے ہیں، جو اُس معاشرے میں فروغ پاتی ہیں،جہاں جنسی خرابیوں کے بارے میں مداہنت (compromise) کی روش موجود ہو۔ سود ،زنا کے علاوہ سورۂ بنی اسرائیل میں انسانی اجتماعی نفسیات کو سمو دیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے تین بنیادی خرابیوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ فحش ،منکر اور بغی ،جن سے ہلاکت پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ اجتماعی خوبیاںجن سے معاشرہ فردوس بہ داماں بنتا ہے،گویا اجتماعی انسانی نفسیات کا ایک عمدہ خاکہ تفہیم القرآن کی مدد سے تیار کیا جا سکتا ہے ۔