شیخ عبد المومن


کشمیر کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے، مگر بعض چہرے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتے ہیں۔ برہان مظفر وانی شہید انھی چہروں میں سے ایک ہے، جس نے کم عمری میں برہمنی تسلط کے خلاف بندوق اٹھا کر قابض انڈین فوجیوں کو چیلنج کیا، اور اپنی شہادت سے تحریکِ آزادی کو ایک نئے مرحلے میں داخل کر دیا۔ اس جدوجہد کا فکری محور وہی تھا، جو قائدِ حریت سیّد علی گیلانی پوری زندگی دہراتے رہے:’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے!‘ 

برہان وانی ۱۹۹۴ء میں ڈاڈہ سرہ ترال کے ایک علمی اور باوقار گھرانے میں پیدا ہوا۔ ان کے والد مظفراحمد وانی اسکول پرنسپل، والدہ پوسٹ گریجویٹ، اور دادا ریاستی محکمۂ منصوبہ بندی میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائض رہے۔ پورے علاقے میں اس خاندان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، مگر غلامی کے سائے میں باعزّت خاندان بھی محفوظ نہ رہے۔۹۰ کے عشرے میں انڈین فوجیوں کے ہاتھوں بُرہان وانی کی نظروں کے سامنے نعیم اور عادل جیسے قریبی رشتہ دار بھی شہید کر دیے گئے۔ گھر پر بار بار چھاپے، بے جا تلاشی، اور توہین آمیز رویہ ان کے لیے روز کا معمول بن چکا تھا۔ 

انھی سخت اور پرآشوب حالات میں برہان وانی نے پرورش پائی۔ وہ اسکول جاتا، مگر چاروں طرف انڈین فوجیوں اور ریاستی پولیس فورس کے مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ ۲۰۱۰ء میں جب اس نے اپنے بھائی کو بھارتی اہلکاروں کے ہاتھوں لہولہان اور بے ہوش ہوتے دیکھا، تو اس کے اندر حُریت کی اُمنگ بھڑک اٹھی۔ غلامی کے خلاف جذبات نے فیصلہ کن شکل اختیار کرلی، اور وہ مجاہدینِ آزادی کی صفوں میں شامل ہو گیا۔’شیر کی ایک دن کی زندگی‘ کا فلسفہ اس کے لیے فقط قول نہیں، زندگی کا نصب العین بن گیا۔ 

محض ۱۵ برس کی عمر میں اس نے ’حزب المجاہدین‘ میں شمولیت اختیار کی، جس کی قیادت سیّدصلاح الدین کر رہے تھے۔ برہان وانی کی وابستگی صرف عسکری نہ تھی، بلکہ فکری طور پر وہ سیّد علی گیلانیؒ کو اپنا امام مان چکا تھا۔ وہ امام گیلانی کی ’ایمانی استقامت‘ اور صلاح الدین کی ’عسکری قیادت‘ کا عملی امتزاج بن گیا۔ 

برہان وانی نے بندوق کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو مزاحمت کا محاذ بنایا۔ اس کی ویڈیوز، تصاویر، اور بیانات نے انڈین پراپیگنڈے کو شکست دی، اور حُریت پسندی کی ایک نئی علامت تراشی___ —ایمان، جوانی، سادگی، اور نظریاتی پیکر۔ اس نے فرضی نام یا خفیہ شناخت کے بجائے اپنا اصل نام اپنایا۔ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پولیس اہلکاروں سے ہتھیار چھین کر، انھی ہتھیاروں کو قابض فورسز کے خلاف استعمال کرنے کا ہنر سیکھا۔ 

سوشل میڈیا ٹیم کی تنظیم سازی، حکمتِ عملی اور ابلاغ میں اس کی قائدانہ صلاحیتیں نمایاں ہوئیں، اور جلد ہی حزب المجاہدین کی قیادت اس کے سپرد کردی گئی۔ اس نے نوجوانوں میں نئی روح پھونکی اور حزب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ درجنوں نہیں، سیکڑوں نوجوان اس کی دعوت پر حزب میں شامل ہوئے، اور جو لوگ عسکریت کے خاتمے کی باتیں کر رہے تھے، وہ خاموش ہوگئے۔ نائب امیر حزب، سیف اللہ خالد کے مطابق، شہادت سے بیس دن قبل برہان وانی نے یہ پیغام دیا تھا: ’’کشمیری قوم نہ جھکے گی، نہ بکے گی۔ ان شاء اللہ ضرور آزادی حاصل کرکے رہے گی‘‘۔اس نے کہا تھا کہ ’’جو بھی صلاحیتیں اللہ نے دی ہیں، ان سے حق ادا کرنے کی کوشش کریں‘‘،اور اس نے اپنی شہادت کی دعا بھی انھی الفاظ میں کی تھی۔ 

۸جولائی ۲۰۱۶ء کو جب برہان مظفر وانی کی شہادت کی خبر پھیلی، تو وادی میں زلزلہ آ گیا۔ بھارت نے اُس کی مقبولیت کو ختم کرنے اور تحریکِ آزادی کو دبانے کے لیے ظلم کی انتہا کر دی۔ 

۲۰۰ سے زائد شہادتیں، ۱۵ ہزار سے زیادہ زخمی، اور ۲۰ ہزار سے زائد گرفتاریاں کیں،  —جن میں طالب علم، ائمہ، اور سیاسی کارکن شامل تھے۔ مظاہرین کو کچلنے کے لیے پیلٹ گنز کو استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں ۱۵۰۰ سے زائد نوجوان مستقل طور پر بینائی سے محروم ہوگئے۔ اُسی روز امام سیّد علی گیلانیؒ نے فرمایا:’’برہان شہید ایک نظریہ ہے، اور نظریات کو گولی سے نہیں مارا جاسکتا‘‘۔واقعی، برہان وانی کی شہادت کے بعد ہزاروں نوجوانوں نے تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ سید صلاح الدین نے کہا تھا:’’بھارت نے ایک برہان کو شہید کیا ہے، لیکن ہزاروں برہان پیدا ہو گئے ہیں‘‘۔یہ بات محض دعویٰ نہ رہی؛ سبزار بٹؒ، ریاض نائیکو ؒ، ڈاکٹر منان وانیؒ، اور پروفیسر رفیعؒ بٹ سبھی کسی نہ کسی شکل میں برہان وانی شہید سے متاثر تھے۔ 

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی حکومت نے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کی منسوخی کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کا آئینی تشخص ختم کر دیا۔ لاکھوں فوجی پہلے ہی موجود تھے، مزید ۸۰ہزار سے زائد تعینات کر دیے گئے۔ ہزاروں رہنما، کارکن، صحافی گرفتار یا نظربند ہوئے۔ سیّد علی گیلانیؒ کو نظربند رکھا گیا، حتیٰ کہ وہ اسی حالت میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ 

UAPA جیسے قوانین کے ذریعے صحافت کو جکڑا گیا، دفاتر پر چھاپے، صحافیوں پر مقدمات، اخبارات کی بندش، اور ڈومیسائل قانون کے ذریعے آبادیاتی تبدیلی کی مذموم کوشش کی گئی۔ 

اب سوال یہ ہے:کیا برہان وانی شہید صرف ماضی کی ایک یاد ہے؟کیا کشمیری عوام نے ظلم کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں؟جواب واضح ہے: نہیں۔بھارت لاکھ جبر کرے، برہان وانی شہید آج بھی کشمیری قوم کے اجتماعی شعور میں زندہ ہے۔تحریکِ آزادی آج بھی جاری ہے۔گرچہ عسکری مزاحمت کا انداز بدل چکا ہے، مگر جذبہ، ایقان اور مزاحمتی روح پہلے سے زیادہ توانا ہے۔ برہان وانی شہید اُس تحریک کا مظہر تھا جس کی فکری بنیادیں شہید علی گیلانیؒ نے رکھی تھیں، اور جو آج بھی ہر ظلم کے خلاف آواز بن کر ابھرتی ہے۔برہان وانی شہید فقط ایک مزاحمت کار نہ تھا، بلکہ وہ ہرکشمیری کے خواب کا استعارہ بن چکا ہے۔ایک ایسا خواب جو نسل در نسل دلوں میں جاگتا ہے، بستی بستی گونجتا ہے۔ 

برہان وانی شہید چلا گیا، مگر اس کی شہادت تحریکِ مزاحمت کا ایسا باب بن گئی ہے جو ہرکشمیری نوجوان کے دل کی آواز ہے، ہر ماں کی دعا میں شامل ہے، اور ہر ظلم کے جواب میں نعرہ بن کر ابھرتا ہے: ’’برہان! تیرا خون رنگ لائے گا!‘‘