عَنْ أَبِيْ ھُرَيرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا مِنْ قَوْمٍ یَقُومُونَ مِنْ مَجْلِسٍ لا یَذْکُرُونَ اللّهَ فِیهِ إِلَّا قَامُوا عَنْ مِثْلِ جِیفَةِ حِمَارٍ وَکَانَ لَهُمْ حَسْرَةً (ابوداؤد، کتاب الادب، باب کراھیۃ ان یقوم الرجل من مجلسہ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی قوم کسی مجلس سے اُٹھے، اس میں اللہ کا ذکر نہ کیا ہو،وہ گویا مُردار گدھے کی لاش سے اُٹھی ہے۔ ان پر ذکر ِ الٰہی نہ کرنے کا افسوس رہے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ فہم قرآن و حدیث کے لیے مجلسیں بناکر کسی ایک جگہ جمع ہوتے تھے، جہاں وہ مختلف ملّی، سماجی اور دینی مسائل پر گفتگو کرتے۔ ہرایک کی حالت سے واقفیت بھی حاصل کرتے تھے۔ اس سلسلے میں حدیث جریل کو واضح مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت صحابہ کرامؓ آپؐ کے پاس بیٹھ کر دین کی باتیں سیکھ رہے تھے۔
حدیث کے بین السطور سے واضح ہورہا ہے کہ ان کی مجلسیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذکر سے خالی نہیں ہوتی تھیں۔ اس لیے آپؐ نے یہ انتباہ دیا کہ اگر کوئی مجلس ایسی ہو، جس میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا تذکرہ نہ آئے، تو وہ مجلس مُردار گدھے کی لاش کی مانند ہے۔ آں حضورؐ کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ مجلسیں خیروبرکت کے لیے ہوں۔ ان میں اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی باتیں ہوں۔ یہ نہ ہو کہ وہاں معاشرے کے افراد کی بُرائیاں بیان کی جائیں، ایک دوسرے کی غیبت ہو اور لغوباتوں میں وقت ضائع جاتا ہو۔ ذکراللہ سے مراد روایتی ذکر نہیں ہے بلکہ اس میں ہروہ کام شامل ہے، جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کیا جائے۔ دینی مسائل کی تفہیم، ملّت کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبہ بندی اور تعلیم و تربیت کا پروگرام جیسے اہم اُمور اس میں شامل ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا جو معمول تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو باقی رکھنا چاہتے تھے۔ آپؐ نہیں چاہتے تھے کہ صحابہؓ کہیں غفلت کا شکار ہوکر مجلسوں کو صرف دُنیاوی یا خلافِ شریعت باتوں کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ اس سے روکنے کے لیے آپؐ نے تمثیلی انداز میں اس طرح بیان فرمایا تھا۔ مراد یہ ہے کہ مجلس میں خیر کی باتیں نہ ہونے پر افسوس ہونا چاہیے۔ آج ہم کو غور کرنا ہے اور اپنے رویے پر نظرثانی کرنی ہے کہ ہماری مجلسیں کیسی ہوتی جارہی ہیں۔ خلافِ شرع مجلس کو شریعت کے مطابق بنانے کی فکر کرنی چاہیے۔
عَنْ عَبْدِاللہِ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ عَلٰی حَصِیْرٍ فَقَامَ وَقَدْ اَثَّرَ فِیْ جَنْبِہٖ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللہِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَکَ وِطَاءً فَقَالَ مَالِیْ وَلِلدُّنْیَاء مَا اَنَا فِی الدُّنْیَا اِلَّا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا [ترمذی، ابواب الزہد، حدیث:۲۳۵۶] حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر سوگئے، جب بیدار ہوئے تو پہلو پر نشانات تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر آپؐ اجازت دیں تو ہم آپؐ کے لیے بستر تیار کردیں۔ آپؐ نے فرمایا: میرا دُنیا سے کیا تعلق، مَیں تو دُنیا میں صرف اس راہی کی طرح ہوں، جو آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے رُکا پھر آرام کیا اور چلتا بنا۔
قرآن و حدیث کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کی بہ نسبت آخرت کی زندگی طویل اور دیرپا ہے۔ اس لیے اُخروی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی باربارترغیب دی گئی ہے۔ دُنیوی زندگی کو دارالعمل کہا گیا۔ یہاں بندہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، اچھے اور بہتر اعمال کرے، اس کا اچھا بدلہ اس کو آخرت میں ملے گا۔ قیامت کے بعد آنے والی اُخروی زندگی کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز زیادہ اہم ہوتی ہے، اسی اعتبار سے اس کی تیاری کی جاتی ہے۔
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ دُنیا کو کس طرح برتتے تھے اور صحابہ کرامؓ کو بھی اسی کی تعلیم دیتے تھے۔ اس حدیث میں آپؐ نے دُنیا و آخرت کی زندگی کو تمثیلی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کی زندگی اس قدر مختصر ہے، جس طرح ایک راہ گیر چلتے چلتے تھک کر کسی درخت کے زیرسایہ آرام کرنے کے لیے رُکے، تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد پھر راستہ لے لے۔ سفر میں آدمی کا زیادہ وقت سفر میں گزرتا ہے۔ چوبیس گھنٹے میں چند گھنٹے ہی وہ آرام کرتا ہے۔ یہی حال دُنیوی زندگی کا ہونا چاہیے کہ آدمی حرکت میں رہے، نیک اعمال کا ذخیرہ کرے تاکہ اُخروی زندگی میں اس سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکے۔
اس تمثیل کے مطابق دُنیوی زندگی بہت تیزی سے گزر رہی ہے۔ زندگی ختم ہونے سے پہلے نیک اعمال کرلینے چاہییں ۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے اس طرزِعمل کو دیکھ کر حضرت ابن عمرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر آپؐ اجازت دیں تو آپؐ کے لیے نرم و ملائم اور آرام دہ بستر تیار کردیا جائے تو اس موقعے پر آپؐ نے ان سے فرمایا: ہمارا دُنیا سے کیا لینا دینا ہے، ہمارا دُنیا سے بس اس قدر تعلق ہے جتنا ایک راہی راستے میں آرام کرنے کے لیے کسی درخت کے زیرسایہ قیام کرے اور پھر اپنی راہ لے۔ ہم کو دُنیا سے لو نہیں لگانا ہے۔ ہم تو آخرت کے طالب ہیں۔ آخرت دُنیا کی سوکن ہے، دونوں ایک ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہیں۔
عَنْ أَبِيْ ھُرَيرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ: لَيسَ الشَّدِیدُ بِالصُّرْعَۃِ ، اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِيْ یَمْلِکُ نَفْسَہ عِنْدَ الْغَضَبِ (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حدیث: ۵۷۶۹) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلوان وہ نہیں جو مقابلہ جیت لے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصّے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔
اس حدیث میں حقیقی بہادری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کہیں قوی مومن کو ضعیف مومن سے بہتر قرار دیا گیا ہے اور ایسے طریقے بتائے گئے، جن سے جسمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن حقیقی قوت غصّے کے وقت نفس کو قابو میں رکھنا ہے ورنہ پہلوان اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنی طاقت و قوت کے بل پر اپنے مدمقابل کو پچھاڑدے۔ غصّے کے وقت چہرہ سرخ ہوجانے کے باوجود جو ضبط نفس سے کام لے، دراصل وہی پہلوان ہے۔
انسان غصّے کی حالت میں ایسے کام کربیٹھتا ہے جس پر بعد میں وہ بہت نادم ہوتا ہے۔ بسااوقات جب وہ غصّے پر قابو نہیں رکھ پاتا تو ایسے نقصانات سے دوچار ہو جاتاہے کہ جن کی تلافی بڑی مشکل سے ہوپاتی ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ غصّے کی حالت میں آدمی دوسرے کو بُرا بھلاکہہ دیتا ہے، باہم گالم گلوچ کرلیتا ہے اور شدید غصّے میں دوسرے کو مار بھی دیتا ہے، سامان کو توڑ پھوڑ دینا اور نقصانات کر دینا اس حالت میں معمولی کام سمجھا جاتا ہے۔
احادیث میں غصّے پر قابو پانے کی مختلف ترکیبیں بتائی گئی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو غصّہ آئے تو اسے چاہیے کہ بیٹھ جائے اور پانی پی لے۔ جہاں تک ہوسکے غصّے کو پی جانے کی کوشش کرے تاکہ فوری طور پر طاری ہونے والی غصّے کی کیفیت سے دیرپا نقصانات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔
شیطان کھلم کھلا انسان کا دشمن ہے۔ اس لیے وہ ایسے حربے استعمال کرنے سے نہیں چُوکتا جس میں انسان کا سراسر خسارہ ہو۔ نفس کو بے قابو کردینا اس کی عین خواہش ہوتی ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی و نرم گفتاری کو پسند فرمایا ہے۔ معافی و درگزر کی ترغیب دی ہے۔ یہ ساری خوبیاں غصّہ کو پیدا ہی ہونے نہیں دیتی ہیں۔
معاشرے کا مفاد جہاں بہت سی خوبیوں کے اختیار کرنے میں ہے، وہیں بہت سی بُرائیوں سے دُور رہنے میں بھی ہے۔ غصّہ بہرحال ایک بُرائی ہے۔ معاشرے کو اس سے پاک رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اس سے کوسوں دُور رہے۔ غصّے کے وقت نفس کو قابو میں رکھنا بڑی خوبی کی بات ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر معاشرے کے سبھی افراد اسلام کی تعلیم اور مزاج سے بخوبی واقف ہوجائیں اور اس کے مطابق زندگی گزارنے لگیں تو معاشرے کو مثالی بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ اللہ تعالیٰ ہرایک کو غصّے پر قابو پانے کی صلاحیت عطا فرمائے، آمین!