عمران شفیق


پنجاب و سندھ کے بعد اسلام آباد میں ’کم سنی کی شادی کے امتناع کے قانون ۲۰۲۵ء‘ نے مسلمانانِ پاکستان کے لیے ایک بار پھر یہ سوال لا کھڑا کیا ہے کہ وہ اپنے نکاح و طلاق کے معاملات اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق طے کریں یا ان عائلی قوانین کے مطابق جو حکمران اپنی خواہشات، مفادات، بیرونی دباؤ اور شریعت کی من مانی تشریح کے ذریعے ان کے لیے وضع کریں؟ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نفاذ سے لے کر فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کی شرائط و نگرانی میں پے در پے ہونے والی قانون سازی کے بعد یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان میں ہونے والی اکثرو بیش تر قانون سازی عالمی اداروں کے دباؤ، مطالبات اور پالیسی پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ حکومت نے مذکورہ بالا قانون کی منظوری کے لیے بھی اقوام متحدہ کے ۲۰۳۰ءمنصوبہ کا ہدف نمبر ۵ یعنی کم عمر شادیوں کے تدارک کے ہدف اور بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری کو وجۂ جواز بتایا ہے۔  

اگرچہ بین الاقوامی معاہدات اور ’آئین پاکستان‘ کے باہمی تعامل کے اصولوں کا تفصیلی جائزہ اس مضمون کے دائرۂ کار سے باہر ہے لیکن اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ دونوں متعلقہ بین الاقوامی معاہدات یعنی اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق اطفال (UNCRC) اور عورتوں کے خلاف امتیاز کے خاتمہ کے معاہدہ (CEDAW) میں کہیں بھی نکاح و شادی کے لیے اٹھارہ برس کی مخصوص عمر مقرر کرنے کی لازمی ہدایت نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے حقوقِ اطفال کی شق 1 کے مطابق: ’’بچہ وہ ہے جو اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہو، اِلا یہ کہ اس پر لاگو قومی قانون کے تحت سنِ بلوغ اس سے پہلے حاصل ہوجائے‘‘۔ اس شق سے واضح ہوتا ہے کہ قومی قوانین، بلوغت یا نکاح کی عمر کو ۱۸ سال سے کم بھی مقرر کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ۱۸سال سے کم عمر کا نکاح بذاتِ خود اس بین الاقوامی کنونشن کی خلاف ورزی نہیں، بشرطیکہ وہ متعلقہ ملکی قانون یا شرعی روایت کے مطابق ہو۔ اسی طرح عورتوں کے خلاف امتیاز کے خاتمے کے معاہدہ (CEDAW) کی شق ۱۶ میں عمر کے تعین کے حوالے سے براہِ راست کسی مخصوص عمر کا ذکر نہیں ہے۔ شق ۱۶(۲) شادی کی کم سے کم عمر صرف مقرر کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی شادی (Child Marriage) کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور شادی کے لیے کم سے کم عمر مقرر کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کی جانی چاہیے۔اس لیے  بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں بنیادی معاہدات میں شادی کی کم سے کم عمر متعین نہیں کی گئی بلکہ اسے ملکی قانون پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ شادی کی عمر اور پیدائش کے اندراج پر قانون سازی کرے۔ 

چونکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے قانون سازی ملک کی پارلیمان کے دائرۂ اختیار میں آتی ہے، اس لیے حالیہ قانون اطلاق کے اعتبار سے تو محض ایک علاقائی ضابطہ ہے لیکن فی الواقع پاکستان کی مرکزی حکومت اور مقننہ کے قانونی و فکری عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔ اس قانون کے ابتدائی مطالعے سے ہی ایک سلیم الفطرت انسان پر یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ یہ محض انتظامی ضابطہ نہیں بلکہ گہرے سماجی و معاشرتی اثرات کا حامل قانون ہے، جو براہِ راست ہمارے خاندانی نظام، فقہی روایت اور معاشرتی اقدار پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  

  • حالیہ قانون کی چند نمایاں دفعات :کم سنی کی شادی کے امتناع کے قانون کی چند نمایاں دفعات درج ذیل ہیں: 

۱- دفعہ ۲ (اے) کی رو سے ہر وہ مرد یا عورت جو اٹھارہ سال سے کم عمر ہو، ’بچہ‘ یا ’بچی‘ قرار دیا گیا ہے۔ 

۲- دفعہ ۲ (بی) کے مطابق، دو ایسے افراد کا نکاح جن میں دونوں یا کوئی ایک اٹھارہ برس سے کم عمر ہو، ’بچوں کے ساتھ زیادتی‘ (Child Abuse)کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔ 

۳- دفعہ ۲ (سی) اور (ڈی) کی رو سے ایسے نکاح کے فریقین کو ’کم سن دُلہا‘ اور ’کم سن دُلہن‘ کہا جائے گا۔ 

۴- دفعہ ۳ کے تحت ایسے کسی نکاح کی رجسٹریشن پر قانونی پابندی عائد کی گئی ہے جس میں کوئی بھی فریق اٹھارہ سال سے کم عمر ہو۔ مزید یہ کہ نادرا کا شناختی کارڈ بطور ثبوتِ عمر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس دفعہ کی خلاف ورزی کی صورت میں نکاح خواں/ نکاح رجسٹرار کو ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے۔ 

۵- دفعہ ۴ کے مطابق، اگر کوئی اٹھارہ برس سے زائد عمر کا مرد اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی سے نکاح کرے، تو اسے کم از کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ تین سال قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ 

۶- دفعہ ۵کی رُو سے، اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل بچوں کی شادی کے نتیجے میں اگر کسی بھی نوع کی ہم زیستی (Cohabitation) واقع ہو، خواہ وہ رضامندی سے ہو یا بلارضامندی تو ایسی ہم زیستی بچوں پر ظلم قرار پائے گی۔اس جرم میں اعانت، اکسانے یا خاموش رضامندی دینے والے تمام افراد کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال قید اور کم از کم ۱۰ لاکھ روپے جرمانے کی سزا کے مستحق ہوں گے۔ 

۷- دفعہ ۶ کے مطابق: اگر کوئی شخص ایسے نکاح کے لیے بچے کو اسلام آباد کی حدود سے باہر لے جائے تو یہ چائلڈ ٹریفکنگ (بچوں کی غیر قانونی نقل و حرکت) شمار ہو گا، جس کی سزا پانچ سے سات سال قید اور جرمانہ ہے۔ 

۸- دفعہ ۷ کی رُو سے اگر کسی نابالغ کے والدین یا سرپرست نے نکاح کی اجازت دی، اسے فروغ دیا یا اس کے انعقاد کو روکنے میں غفلت یا مداہنت برتی، تو وہ قانوناً مجرم تصور کیے جائیں گے۔ انھیں تین سال قید اور جرمانے کی سزا ہو گی، جب تک وہ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت نہ کردیں۔  

۹-تمام جرائم کو ناقابلِ ضمانت، ناقابلِ راضی نامہ، اور قابلِ دست اندازی پولیس قرار دیا گیا ہے۔ عدالت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ محض اطلاع کی بنیاد پر، اطلاع کنندہ کا نام صیغۂ راز میں رکھتے ہوئے، ایسے کسی نکاح پر حکمِ امتناعی (injunction) جاری کر سکتی ہے۔  

  • حالیہ قانون کی دفعات کے بنیادی نکات اور اثرات : ان دفعات سے درج ذیل بنیادی نکات مترشح ہوتے ہیں: 

۱- اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے مابین یا ان میں سے کسی ایک فریق کے ساتھ نکاح کو سنگین مجرمانہ فعل قرار دے دیا گیا ہے۔ 

۲-ایسے نکاح کی رجسٹریشن کو بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے، خواہ نکاح شرعی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہو۔ 

۳- اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے نکاح کے عمل میں شرکت یا اعانت کرنے والے، حتیٰ کہ والدین اور سرپرست بھی، جب تک وہ اپنی بے گناہی عدالت میں ثابت نہ کرلیں، قانوناً مجرم سمجھے جائیں گے۔ ان کی گرفتاری وارنٹ کے بغیر ممکن ہو گی، اور وہ ضمانت یا صلح کے حق دار نہیں ہوں گے۔ اس قانون میں بارِ ثبوت استغاثہ پر نہیں بلکہ ملزم پر ڈال دیا گیا ہے، جو فوجداری قانون کے مسلّمہ اصولوں سے صریحاً انحراف ہے۔  

۴- اگر اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کا نکاح بالفعل ہو جائے تو زوجین کے مابین کسی قسم کی ہم زیستی (Cohabitation) [ محض اکٹھے رہنے یا ازدواجی تعلق قائم کرنے] کو بچوں پر ظلم (Child Abuse)اور قانوناً جرم قرار دے دیا گیا ہے، اور اس جرم میں اعانت یا خاموشی اختیار کرنے والے تمام افراد کے لیے سخت سزائیں لازمی قرار دے دی گئیں ہیں۔ 

درج بالا نکات سے بالکل واضح ہے کہ یہ قانون نکاح کے لیے صرف ایک عمر کی حد مقرر کرنے کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے ذریعے اسلامی شریعت کے مسلّمہ اصولوں، نکاح کے تصور، ولی و سرپرست کے حقوق، اور عدالتی اصولِ انصاف (مثلاً بارِ ثبوت) کو بنیادی طور پر متاثر کیا گیا ہے۔ اس کا اطلاق نہ صرف شرعی، بلکہ آئینی، عدالتی اور سماجی حوالوں سے بھی نہایت دُور رس مضر اثرات مرتب کرے گا۔  

  • اسلامی نظریاتی کونسل کا موقف اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے: خوش آئند بات یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ان قوانین کو خلافِ شریعت قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ مگر گنجلک یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت حالیہ وفاقی قانون سے قبل ’علی اظہر بنام سندھ حکومت‘ اور ’فاروق بھوجا بنام وفاق وغیرہ‘ کے مقدمات میں سندھ و پنجاب کے کم سنی کی شادی کے قوانین کو قرآن و سنت کے احکام سے ہم آہنگ قرار دے چکی ہے۔ دونوں ادارے آئینی حیثیت کے حامل ہیں اور شریعت کی روشنی میں ملکی قوانین کا جائزہ لینا ان کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ موجودہ وفاقی قانون کی شرعی حیثیت کا تعین بھی بالآخر وفاقی شرعی عدالت کو کرنا ہوگا۔ 
  • وفاقی شرعی عدالت کے دلائل کا تجزیہ :ہماری رائے میں وفاقی شرعی عدالت کے ان فیصلوں میں نہ صرف شرعی نصوص کے قطعی اور صریح دلالات (دلائل)کو نظر انداز کیا گیا ہے، بلکہ امت کے چودہ صدیوں پر محیط اجماعی موقف کو بھی اس کے علمی سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ حالیہ  وفاقی قانون، جو ’کم سنی‘ کے نکاح پر مزید سخت سزاؤں اور وسیع تر قانونی پابندیوں کا حامل ہے، دراصل صوبائی قوانین کی توسیع اور تعمیم ہے۔ یوں یہ قانون ایک ایسے تشریعی رجحان کی عکاسی کرتا ہے، جو اسلامی خاندانی نظام کے بنیادی تصورات کو از سرِ نو متعین کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ ان فیصلوں کے بارے وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار (jurisdiction) پر بھی قانونی و آئینی سطح پر سنجیدہ سوالات موجود ہیں، تاہم فی الوقت ہمارا مطمح نظر صرف ان دلائل کا علمی تجزیہ ہے، جن کی بنیاد پر عدالت نے ان قوانین کو ’غیر مخالفِ قرآن و سنت‘ قرار دیا۔ اس لیے کہ یہی استدلال آج ملک میں فعال لبرل فکر کے حامل حلقوں، قانون ساز اداروں اور حکومتی طبقات کی جانب سے اسلامی قوانین میں ’جدید تعبیرات‘ کے جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔  
  • وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور عائلی کمیشن رپورٹ   :یہ کہنا خلافِ واقعہ نہ ہو گا کہ وفاقی شرعی عدالت نے دراصل ان نکات کو اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے، جو اس سے پہلے ۱۹۵۶ء کی عائلی کمیشن رپورٹ میں بھی سامنے لائے گئے تھے، جنھیں اس وقت ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علما نے متفقہ طور پر غیراسلامی اور ناقابلِ قبول قرار دیا تھا۔ آج انھی تجاویز کو ریاستی قانون کا حصہ بنا کر اسلامی خاندانی نظام پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی گئی ہے جس کی تیاری کئی دہائیوں سے جاری تھی۔اس پس منظر میں، یہ معاملہ محض ایک قانونی یا فقہی اختلاف تک محدود نہیں، بلکہ یہ درحقیقت ایک فکری اور تہذیبی یلغار ہے، جس کا اصل ہدف اسلامی معاشرت کی اقدار، خاندانی ڈھانچے، اور شریعت کے مسلّمہ اصولوں کو آہستہ آہستہ تحلیل کرنا ہے۔ 
  • کم سنی کے نکاح کے مختلف پہلوؤں پر قرآن و سنت سے رہنمائی : اس لیے ضروری ہے کہ کم سنی کے نکاح سے متعلقہ شرعی پہلوؤں کے درست فہم کے لیے قرآن و سنت سے  درج ذیل بنیادی سوالات پر رہنمائی طلب کی جائے: 

۱- کیا شریعت میں نابالغ لڑکا یا لڑکی کا نکاح جائز ہے، اور اس کا اختیار کسے حاصل ہے؟ 

۲- بلوغ کی شرعی تعریف، علامات اور کم از کم عمر کیا ہے؟ 

۳- نکاح میں ولی کا تصور اور اس کے اختیارات کیا ہیں؟ 

۴- کیا نکاح محض ایک مباح امر ہے کہ ریاست نکاح پر پابندیاں عائد کرنے کی مجاز ہے؟ 

۵- اگر ریاست کسی نکاح کو تسلیم نہ کرے تو شرعی و قانونی سطح پر اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ 

  • بلوغ کی شرعی تعریف، علامات اور عمر:شریعت میں نکاح کی عمر کے تناظر میں ایک لڑکا نابالغ (صغیر) ہوتا ہے یا پھر بالغ،جب کہ ایک عورت چار حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں لازماً ہوتی ہے: ۱- نابالغہ (صغیرہ) غیر شادی شدہ ، ۲- نابالغہ (صغیرہ) مطلقہ یا بیوہ، ۳- بالغہ غیر شادی شدہ، ۴-بالغہ مطلقہ یا بیوہ۔ لڑکی چاہے صغیرہ ہو یا بالغہ، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے تو اس کے لیے باکرہ، جب کہ اگر وہ شوہر دیدہ، مطلقہ یا بیوہ ہے تو اس کے لیے ثیبہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔  

شریعت کی رُو سے لڑکی اگر نو سال سے کم عمر ہے اور لڑکا اگر بارہ سال سے کم عمر ہے تو وہ ہر صورت نابالغ تصور کیے جائیں گے کیونکہ اس سے قبل وہ بالغ ہو نہیں سکتے۔ لڑکی نو سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد اور لڑکا بارہ برس کا ہونے کے بعد بھی اگر بالغ نہ ہوئے ہوں تو وہ صغیرہ اور صغیر ہی تصور کیے جائیں گے۔  

لڑکااور لڑکی کے بالغ ہونے کامعیاراصلی علاماتِ بلوغ (احتلام، حیض، احبال یا دیگر جسمانی علامات) کااظہار ہے۔ لیکن اگر بلوغ کی علامات ظاہر نہ ہوں تو صرف اسی صورت میں عمر کے ذریعے بلوغت کا تعین کیا جائے گا۔  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ۱۵ سال سے کم عمرعبداللہ بن عمرؓ کو غزوئہ اُحد میں شمولیت کے لیے قبول نہ کرنا اور ۱۵سال کی عمر پر غزوئہ اَحزاب میں شرکت کے لیے قبول کرنے (صحیح بخاری)سے استدلال کی بنا پر جمہورفقہاء کے مطابق بلوغ کی بالائی عمر لڑکا و لڑکی دونوں کے لیے ۱۵ سال ہے۔ اگرچہ امام ابوحنیفہ سے ایک روایت بلوغ کی بالائی عمر لڑکی کے لیے ۱۷ اور لڑکے کے لیے ۱۸سال کی بھی ہے، لیکن امام ابوحنیفہؒ سے دوسری روایت اور صاحبین یعنی امام ابویوسفؒ اور امام محمد بن حسن الشیبانی ؒکے مطابق علامات بلوغ ظاہر نہ ہونے کی صورت میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے بلوغ کی بالائی عمر ۱۵سال ہی ہے، لہٰذا ابن عمرؓ کی روایت کی بناپر بلوغ کی بالائی عمر ۱۵سال ہونے پر فقہاء کا اجماع ہے (تکملۃ البحر الرائق شرح کنزالدقائق، فصل فی حد البلوغ)۔لہٰذا شرعاً ۱۵ سال کی عمر کے بعد اگر علاماتِ بلوغ ظاہر نہ ہوں تب بھی لڑکا لڑکی بالغ شمار کیے جائیں گے۔  

  • نکاح کی شرعی عمر اور ولی کا اختیار و کردار :ان میں سے کون اپنا نکاح خود کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، کس کا نکاح کرنے کا اختیار صرف ولی رکھتا ہے اور کس کے نکاح میں دونوں کی رضا مندی اور اجازت ضروری ہے؟ درج ذیل تفصیل سے ان سوالوں کے ساتھ ساتھ اوپر ذکر کردہ تین سوالوں [نکاح کی کم سے کم عمر، بلوغ کی عمر اور ولی کے اختیار سے متعلقہ سوالات] کے جوابات بھی حاصل ہو جائیں گے:  

۱- فقہاء کے نزدیک نابالغ لڑکا یا لڑکی خود نکاح کا اختیار نہیں رکھتے، البتہ اولیاء کو ان کا نکاح کرنے کا یہ اختیار حاصل ہے۔ ابنِ منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے (الاجماع لابن منذر، کتاب النکاح)۔ قرآنِ مجید نے عدت کے احکام بیان کرتے ہوئے ان خواتین کا ذکر صراحتاً فرمایا ہے جنھیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو: وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ (الطلاق۶۵: ۴)’’اور (وہ عورتیں) جنھیں حیض نہ آیا ہو ‘‘۔ اگرچہ اس آیت کے ضمن میں وہ بالغ عورتیں بھی آجاتی ہیں جنھیں رحم کی کسی پیچیدہ بیماری کی وجہ سے حیض آتا ہی نہیں مگر جمہور فقہا نے اس آیت کو نابالغہ لڑکی کے نکاح اور اس کے بعد طلاق کے تصور کوشریعت میں ممکن اور معقول ہونے پر واضح دلیل قرار دیا ہے، کیونکہ عدت کا حکم اسی صورت میں دیا جاتا ہے جب نکاح ہو چکا ہو۔ اگر نکاح ہی ممنوع ہوتا تو عدت کا حکم دینا غیر متعلق اور لغو ٹھیرتا۔ امام سرخسیؒ (المتوفی ۴۸۳ھ) نے صراحت سے لکھا: بین اللہ تعالٰی عدۃ الصغیرۃ وسبب العدّۃ النكاح  وذٰلك دليل تصوّر نكاح الصغيرة (المبسوط، نکاح الصغیر و الصغیرہ،ج۴) یعنی ’’نکاح ہی عدت کا سبب ہے، اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ نابالغہ لڑکی کا نکاح شریعت میں متصور ہے۔ امام جصاصؒ (المتوفی ۳۷۰ھ) نے أحكام القرآن میں لکھا کہ نابالغ لڑکی سے نکاح نہ صرف جائز ہے بلکہ اس پر امت کا اتفاق ہے۔ علامہ ابن کثیرؒ (المتوفی ۷۷۴ھ) نے بھی اس سے مراد وہ صغیرہ لیا ہے جو ابھی حیض کی عمر کو نہ پہنچی ہوں (الصغار اللآئی لم یبلغن سن الحیض)۔ سیدابوالاعلی مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں لکھاہے: ’’یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ شرعاً کم عمر لڑکیوں سے نکاح اور نکاح میں آنے پر خلوت دونوں جائز ہیں‘‘۔ 

 ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ جمہور فقہاء نابالغہ لڑکی سے نکاح اور نکاح میں آنے پر خلوت دونوں کا جواز براہِ راست قرآنِ مجید سے ثابت کرتے ہیں، اور جس فعل کو قرآن کریم جائز قرار دے رہا ہو، اسے ’غیر قانونی‘ یا ’حرام‘ کہنا کسی صورت درست نہیں۔  

وفاقی شرعی عدالت نے اس قرآنی دلیل سے، جو اس مسئلے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اپنے فیصلے میں تعرض ہی نہیں کیا اور یہی اس فیصلے کا سب سے بنیادی علمی و اصولی سقم ہے، کیونکہ عدالت نے اس معاملہ میں قرآن حکیم کی ایسی صریح آیت کو نظر انداز کر دیا ہے، جس سے فقہائے سلف نے اس معاملے میں ہمیشہ استدلال کیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں قرآن کے اس اہم مقام کا عدم ذکر، علمی غیرت و فقہی دیانت کے معیار میں ایک قابلِ توجہ خلا ہے۔  

دوسری آیت جس سے کم سنی کے نکاح کا جواز ثابت ہوتا ہے وہ سورۃالنساء کی آیت (۳) ہے، جس میں نکاح کے عمومی حکم میں الیتامى  سے مراد امام جصاصؒ کے بقول نابالغ لڑکیاں ہیں، اور فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ  کا اطلاق بالغ و نابالغ دونوں پر ہوتا ہے (أحکام القرآن للجصاص)۔ سنت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، اُم المومنین عائشہؓ کا نکاح ۶ سال کی عمر میں اور رخصتی ۹ سال کی عمر میں ہوئی (صحیح بخاری)، جس پر فقہاء کا اجماع ہے۔ امام نوویؒ نے واضح کیا کہ باپ یا دادا صغیرہ کا نکاح کر سکتے ہیں، اور خلوت کا وقت اس کی جسمانی اہلیت سے مشروط ہے، کسی خاص عمر سے نہیں۔ (شرح مسلم، نووی) 

۲- بالغ عاقل مرد کو بلا اختلاف نکاح کا مکمل اختیار حاصل ہے، اس پر شرعاً ولی کی پابندی نہیں۔ 

۳- بالغہ لڑکی کے نکاح کے اختیار میں فقہاء کا اختلاف ہے: امام ابو حنیفہؒ کے مطابق اگر کفو (دین، نسب، خاندان، وجاہت میں برابری) کا لحاظ رکھا جائے تو باکرہ بالغہ خود نکاح کر سکتی ہے، جب کہ جمہور کے نزدیک حدیث(لا نکاح الا بولی)   اور اس باب میں مذکور دیگر احادیث کی رُو سے باکرہ بالغہ کا نکاح ولی کی اجازت سے مشروط ہے (المبسوط للسرخسی، الموسوعہ الفقیہ، الکویت)۔ سیّد مودودیؒ نے دونوں آراء کے تقابل سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نکاح میں اصل فریق مرد اور عورت ہیں، لیکن شارع نے عورت کے لیے ولی کی مشاورت کو ضروری رکھا ہے تاکہ معاشرتی نظم برقرار رہے، لہٰذا نہ ولی، عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کر سکتا ہے، نہ عورت ولی کی مخالفت میں غیر مناسب نکاح کر سکتی ہے، اور اختلاف کی صورت میں کرے گی(’رسائل و مسائل‘، ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۵۲ء)۔ بہرحال، فقہاء کے مابین اس اختلاف کے باوجود کہ ولی کی اجازت کے بغیر بالغہ باکرہ کا نکاح منعقد ہوتا ہے یا نہیں، اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ اسلامی خاندانی نظام میں ’ادارۂ ولایت‘ کو ایک بنیادی اور ناگزیر حیثیت حاصل ہے۔ ولی کے وجود اور اس کے شرعی مقام کو تمام فقہی مکاتب ِ فکر نے تسلیم کیا ہے، جس سے اس ادارے کی اہمیت اور اسلامی معاشرت میں اس کے توازن ساز کردار کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ 

۴- ثیبہ عورت (مطلقہ یا بیوہ) کوجمہور فقہاء کے مطابق اپنا نکاح خود کرنے کا اختیارہے، اس میں ولی کی اجازت شرط نہیں۔(بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد، کتاب النکاح) 

۵- رہی نابالغہ مطلقہ یا بیوہ تو جن فقہاء کے نزدیک وہ عقد کی اہل نہیں ہے، ان کے نزدیک ولی کو ہی اس کا دوبارہ نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ 

چنانچہ مندرجہ بالا فقہی دلائل سے تصویر یہ اُبھرتی ہے کہ اسلام نے نکاح کے لیے کوئی کم از کم عمر متعین نہیں کی؛ صغیر/صغیرہ کا نکاح ولی ہی کرا سکتا ہے، اور بالغ/بالغہ (ولی کی رضامندی سے یا بعض آراء میں اس کے بغیر) نکاح کا اختیار رکھتے ہیں۔  

  • نئی قانون سازی اور مسلّمہ شرعی اصول:نئی قانون سازی نے بحیثیت مجموعی متعدد مسلّمہ شرعی اصولوں کو مجروح کیا ہے، مگر بالخصوص دو اصول عملاً کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں: 

۱- صغیر و صغیرہ کے نکاح میں ولی کا شرعی اختیار ختم کر کے اسے قابلِ تعزیر جرم بنا دیا گیا ہے۔ 

۲- بلوغت کے باوجود نکاح کا شرعی حق ۱۸ سال کی عمر سے مشروط کر دیا گیا ہے، اور اس سے قبل نکاح کی ہر کوشش اور اس کوشش میں ہرقسم کی معاونت کو بھیکو قابلِ سزا جرم قرار دے دیا گیا ہے ، خواہ اس کی زد میں والدین یا دیگر اولیاء ہی کیوں نہ آتے ہوں۔  

  • کیا نکاح کے لیے رشد شرط ہے؟ :نئی قانون سازی کے حق میں ایک بڑی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ نکاح جیسا اہم اور سنجیدہ معاملہ صرف جسمانی بلوغ پر ہی نہیں، بلکہ ذہنی و فکری بلوغ (رشد) پر بھی موقوف ہونا چاہیے، کیونکہ کم عمر بچے اپنے مستقبل کے فیصلے درست طور پر نہیں کر سکتے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلوں میں آیتِ رشد (وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰٓي اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ۝۰ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ۝۰ۚ ) ’’اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان میں رُشد (عقل مندی اور معاملہ فہمی) پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو‘‘ (النساء۴: ۶) سے استدلال کیا ہے کہ جیسے یتیموں کو مال سپرد کرنے سے قبل ’رشد‘ شرط ہے، ویسے ہی نکاح کے لیے بھی رشد ضروری ہے۔  

لیکن یہ استدلال کئی وجوہ سے محلِ نظر ہے: اولاً، آیت کا سیاق و سباق مالی معاملات سے متعلق ہے، نہ کہ نکاح سے۔ قرآن کا خطاب یتیموں کے بارے میں ہے جن کے حقیقی اولیاء موجود نہیں ہوتے، اس لیے مال ان کے حوالے کرنے سے قبل ان کی مالی معاملات میں اہلیت (رشد) کا امتحان ضروری ہے۔ برخلاف اس کے، نکاح کے وقت اکثر نوجوانوں کے شرعی اولیاء موجود ہوتے ہیں، اور فقہی اصول کے مطابق، جب ولی موجود ہو تو نکاح میں اس کی نگرانی ’رُشد‘ کا متبادل ہوتی ہے۔ ثانیاً، فقہاء نے اس آیت سے صرف مالی معاملات میں رشد کی شرط اخذ کی ہے، نہ کہ نکاح، طلاق، یا دیگر ذاتی معاملات میں۔ جیسا کہ دکتور وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں: ’’اگر کوئی شخص عقل و فہم کی سطح کو پہنچ جائے تو ہی اس کی مالی ولایت ختم ہوتی ہے، لیکن تعلیم، تربیت اور نکاح جیسے معاملات میں ولایت صرف نابالغی تک محدود ہے، رُشد شرط نہیں‘‘ (الفقہ الاسلامی و أدلتہٗ، بحث نظریۃ العقد ج ۴)۔ ثالثاً، اگر نکاح کو رُشد سے مشروط کیا بھی جائے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ رشد کی عمر کیا ہوگی؟ اٹھارہ سال؟ بیس یا پچیس سال؟ یہ سوال یقینا قابلِ غور ہے کہ اگر نکاح و شادی کے لیے ’رُشد‘ شرط ہو، تو یہ کیسے فرض کر لیا گیا ہے کہ ہرفرد ۱۸ سال کی عمر میں لازماً باشعور ہو جاتا ہے؟ کیونکہ نہ تو ہر شخص ۱۸سال میں لازماً سمجھ دار ہو جاتا ہے، اور نہ ہر نابالغ غیرذمہ دار ہی ہوتا ہے۔ قرآنی آیت (النساء۴: ۶) سے کم عمری کی شادی پر پابندی کے حق میں استدلال نہایت کمزور ہے کیوں کہ جب قرآن نے اس آیت میں واضح طور پر خود بلوغ کو ’نکاح کی عمر‘ سے تعبیر کیا ہے، تو پھر شادی کی عمر کو بلوغ سے آگے بڑھانے کے لیے کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔  

امام جصاصؒ، امام ابوحنیفہؒ کے موقف کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’آیت: حتی اذا بلغوا النکاح سے واضح ہوتا ہے کہ بلوغ کا مرحلہ ابتلا (آزمائش) کے بعد آتا ہے، کیونکہ ’حتی‘ غایت کے لیے آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ لڑکے کی آزمائش بلوغ سے قبل ہوگی‘‘۔ (احکام القرآن للجصاص)۔آزمائش کا مطلب یہی ہے کہ اسے کاروبار یا تجارت کی اجازت دی جائے تاکہ اس کی استعداد کا اندازہ ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس آیت سے ’رشد‘ کو نکاح کے لیے شرط قرار دیا جائے، تو پھر کیا نابالغ، مگر سمجھدار لڑکے یا لڑکی کو خود ’نکاح‘ کرنے کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے؟ کیونکہ امام ابو حنیفہؒ کے مطابق تو رشد کی آزمائش بلوغ سے پہلے ہوتی ہے۔ یہ استدلال ان تمام اجتہادات کو الٹ دیتا ہے جو نکاح کو ’رشد‘ سے مشروط کرکے صرف ’بالغ اور سمجھ دار‘ افراد تک محدود کرنا چاہتے ہیں، جب کہ امام جصاصؒ کے فہم کے مطابق اگر نابالغ بھی سمجھدار ہو تو وہ مالی تصرفات بلکہ تجارت کا اہل بن سکتا ہے، تو پھر نکاح کے باب میں اس کا مکمل اختیار خارج از امکان کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح بالغ یتیم کے نکاح پر فقہاء کا اتفاق ہے۔ امام قرطبیؒ نے مالکیہ کا موقف بیان کیا ہے کہ نابالغ لڑکی کے رشد کی آزمائش اس وقت ممکن ہے جب وہ بالغ ہوجائے اور اس کا شوہر اس سے دخول کرلے، کیونکہ لڑکی عام طور پر معاشی و سماجی معاملات سے الگ رہتی ہے، اس لیے اس کی صلاحیتیں نکاح کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ برخلاف لڑکے کے، جو شروع سے سماجی و مالی معاملات سے وابستہ ہوتا ہے، اس لیے اس کی آزمائش بلوغ سے پہلے ممکن ہے (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ رشد کا تعلق صرف مالی معاملات سے ہے، نہ کہ نکاح سے۔  

  • نکاح کے لیے عقل کی شرط :وفاقی شرعی عدالت اس اہم فقہی مبحث کو سمجھنے میں قطعی طور پر ناکام رہی ہے کہ نکاح کے لیے رشد تو درکنار عقل کی شرط بھی ضروری نہیں۔ دکتور وھبہ الزحیلی نے الفقہ الاسلامی و الادلتہ میں نکاح کے لیے عقل کی شرط کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ: ’’بالاتفاق نکاح کے لیے ’عقل‘ شرط نہیں ہے۔ چنانچہ ولی کے لیے جائز ہے کہ وہ مجنون (پاگل) لڑکے یا لڑکی، یا معتوہ لڑکے یا لڑکی، خواہ نابالغ ہی کیوں نہ ہوں، کا نکاح کر دے، اور ایسا نکاح حنفیہ کے نزدیک منعقد ہو جاتا ہے۔ مالکیہ کے نزدیک بھی باپ کو مجنون لڑکے یا لڑکی کا نکاح کرانے کا اختیار حاصل ہے۔ حنابلہ کے نزدیک اگر کوئی بالغ مجنون (پاگل لڑکی) مردوں کی طرف طبعی میلان رکھتی ہو اور شہوت محسوس کرتی ہو تو اولیاء کو اس کا نکاح کرانے کا اختیار حاصل ہے، کیونکہ ایسی صورت میں شہوت کی تسکین اور عفت کی حفاظت ضروری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ولی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کا نکاح کر دے تاکہ اس کی شہوت حلال طریقے سے پوری ہو، وہ کسی فتنہ یا گناہ میں مبتلا نہ ہو، اور ایک مناسب شوہر کے ذریعے اس کی نگرانی اور اصلاح ہو سکے۔ یہ تمام آراء اس بنیادی اصول پر متفق ہیں کہ نکاح، اگرچہ ایک اہم اور مقدس بندھن ہے، لیکن اس کے انعقاد کے لیے عقل و فہم یا رُشد شرط نہیں۔ بلکہ کئی صورتوں میں مجنون یا معتوہ فرد کا نکاح بھی نہ صرف جائز بلکہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ جب ’عقل‘ کو ہی نکاح کے لیے شرط قرار نہیں دیا گیا، تو ’رشد‘ کو شرط قرار دینا چہ معنی دارد؟ 
  • نکاح میں ولی کی نگرانی کی حیثیت :وفاقی شرعی عدالت کا نکاح کے لیے ’رشد‘ اور ’سمجھ داری‘ کی شرط پر اصرار اسلامی قانون کے اس بنیادی اصول سے غفلت ہے جس کی رُو سے  نکاح صرف دو افراد کا معاہدہ نہیں بلکہ ایک خاندانی ادارہ ہے، جس میں ’ولی‘ کی نگرانی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر کہیں رشد شرط ہو سکتی ہے تو وہ لڑکی یا لڑکے کی نہیں بلکہ ولی کا رشد ہے۔  

شریعت میں باپ کو فطری ولی قرار دیا گیا ہے کیونکہ اولاد کے لیے سب سے زیادہ محبت، شفقت اور خیرخواہی اسی سے متوقع ہے۔ جب قانون سازی کے ذریعے اس ولایت کو سلب کیا جاتا ہے اور باپ کو محض چند استثنائی واقعات کی بنیاد پر ظالم یا مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تو اس کا نتیجہ صرف ایک فرد کی محرومی نہیں بلکہ خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا ہے۔اسلامی تصورِ نکاح میں ’ولی‘ صرف ایک قانونی کردار نہیں بلکہ خاندانی شوریٰ کی علامت ہے (پروفیسر خورشید احمد، اشارات، ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۵ء)۔ نکاح کا فیصلہ صرف لڑکے لڑکی کا انفرادی انتخاب نہیں بلکہ خاندان کی مشاورت، تجربہ، اور اخلاقی اقدار پر مبنی ہوتا ہے۔ جب اس عمل کو قانون کے ذریعے کمزور کیا جاتا ہے تو نوجوان نسل کو ایک ایسے معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو نہ ان کا محافظ ہے اور نہ خیرخواہ۔ اس قانون میں ولی کو مشتبہ بنا دیا گیا ہے، اور جو رشتہ اعتماد اور محبت پر قائم تھا، اسے شک اور جبر کے آئینے میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ صرف فقہی اصول کی نفی نہیں بلکہ اسلامی تمدن پر حملہ ہے، جس کا انجام خاندانی ادارے کی تباہی اور افراد کی بے سمتی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ 

  • کیا نکاح صرف مباح ہـے؟ :وفاقی شرعی عدالت اور شادی کی عمر کی تحدید کے حامیان کا یہ کہنا کہ نکاح چونکہ ’مباح‘ ہے، اس لیے حکومت اس کی عمر کی تحدید کر سکتی ہے، ایک فکری و فقہی مغالطہ ہے۔ نکاح صرف ایک مباح معاہدہ نہیں، بلکہ نسلِ انسانی کے بقاء و افزائش کے لیے ربّ رحمٰن کی طرف سے ہرفرد کو ودیعت کردہ تولیدی صلاحیت کے جائز استعمال کا واحد راستہ ہونے کی بناپر ایک سماجی فریضہ،  مقدس شرعی بندھن اور عبادت ہے۔ اور تولیدی صلاحیت /شہوت کے ہرطرح کے غیرفطری استعمال اسلامی تعلیمات کے مطابق  موجب لعنت، حرام اور قابل تعزیر گھنائونے جرائم ہیں۔ اور نکاح سے باہر اس کا فطری استعمال (زنا) ایسا گھنائونا جرم ہے کہ جو اللہ کے غضب کا موجب ہے اور جس کی سزا غیرشادی شدہ افراد کے لیے سوکوڑے اور شادی شدہ افراد کے لیے رجم مقرر ہے۔ اس لیے فرد کی عفت کی حفاظت، معاشرہ کی پاکیزگی اور حفاطت نسب جیسے عالی مقاصد شریعت کو یقینی بنانے کے لیے اسلامی تعلیمات میں نکاح کی حیثیت ہرفرد کے لیے ایک جیسی نہیں۔ بلکہ نکاح شخصی حالات کے مطابق واجب، حرام، مستحب یا مکروہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو زنا کا اندیشہ ہو تو نکاح فرض/ واجب ہے۔ اگر کوئی بیوی کے حقوق ادا نہ کر سکے تو نکاح اس پر حرام ہے۔ اگر نکاح طلب عفت اور نسلِ صالحہ، یا شہوت کے جائز استعمال کی نیت سے ہو تو مستحب ہے۔اور اگر نکاح سے کوئی واجب متاثر ہو، یا مرد بانجھ ہو اور عورت مرد کے اس بانجھ پن سے لاعلم ہو، تو وہ مکروہ ہو سکتا ہے۔ امام قرطبیؒ نے امام مازریؒ کے حوالہ سے یہ تصریح نقل کی ہے کہ ھو الاباحۃُ فیمن انتفت الدواعی والموانع، یعنی نکاح کا محض مباح ہونا صرف اُس شخص کے لیے ہے جس میں نکاح کی طرف کوئی داعیہ اور محرک (مثلاً اعفافِ نفس یا تولید نسل کی خواہش) موجود نہ ہو، اور نہ ہی اس کے راستے میں کوئی مانع (جیسے فقر، ظلم، یا ضرر) درپیش ہو (تفصیل کے لیے دیکھیے: فتح الباری، ابن حجر عسقلانی ج ۹، احکام نکاح، محمد منیر احمد)۔ پس، نکاح کی حیثیت صرف ’مباح‘ سمجھ کر اس پر قانون سازی کا جواز نکالنا ایک ناقص استدلال ہے۔ شریعت نے نکاح کو نہ صرف مشروع بلکہ بعض اوقات فرض، واجب یا سنت مؤکدہ قرار دیا ہے، اس لیے اس کی عمر کی تحدید کوئی سادہ انتظامی اقدام نہیں، بلکہ ایک شرعی دائرے میں مداخلت ہے۔  

 بعض اہلِ علم نے ریاست کو ’مباح‘ پر عارضی پابندی لگانے کا جو اختیار دیا ہے، وہ بھی متعدد شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے فقہ الاسرۃ و قضایا المرأۃ میں وضاحت کی ہے کہ مباح پر ریاستی پابندی کا جواز صرف اس وقت ہے جب مصلحت غالب ہو؛ یہ پابندی صرف عارضی، موقع و محل کے لحاظ سے اور مخصوص افراد پر ہی ہو سکتی ہے۔ ایسی کوئی بھی پابندی عام، مطلق اور دائمی نہیں ہو سکتی، کیونکہ ایسی پابندی تحریم کے مشابہ ہے، جو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ اگر کسی حلال چیز — جیسے نکاح، طلاق یا تعدد ازواج — کو عام، مستقل اور مکمل طور پر ممنوع قرار دے دیا جائے، یا شرعی شرائط سے ماوراء شرائط سے مشروط کردیا جائے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اہلِ کتاب نے اپنے علماء و راہبوں کو حلال و حرام کا اختیار دے دیا تھا، جس پر قرآن کریم نے سخت نکیر فرمائی: اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ (التوبہ۹:۳۱)  

  • نکاح اور دیگر قانونی معاہدات کا فرق :نکاح کو محض ایک معاہدہ سمجھ کر دیگر قانونی معاہدات سے تشبیہ دینا بھی فکری غلطی ہے۔ کیونکہ نکاح عام معاہدات سے مختلف ہے، مثلاً نکاح صرف مرد و عورت کے درمیان ہو سکتا ہے، اس میں ولی، گواہ اور دیگر شرعی ضوابط شرط ہیں، نکاح کے نتیجے میں نان و نفقہ، صحبت، وراثت وغیرہ کے حقوق شریعت نے متعین کیے ہیں، مسجد میں نکاح کو باعثِ برکت اور تجارت کو مکروہ کہا گیا ہے۔ (اسلام کا خاندانی نظام، ڈاکٹر عبدالحئ ابڑو)۔ قرآن کریم نکاح کو’میثاقِ غلیظ‘ قرار دیتا ہے، اور سنت میں اسے ’نصف دین کی تکمیل‘ کہا گیا ہے۔ یہ محض سماجی معاہدہ نہیں بلکہ ایک روحانی، اخلاقی اور دینی تعلق اور عبادت ہے۔ نوآبادیاتی اثرات کے تحت ہندوستانی عدلیہ نے نکاح کو صرف ایک سول معاہدہ قرار دیا تھا، اور پاکستان کی عدلیہ بھی اسی مغالطے کا شکار ہے۔ تا ہم لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ نکاح ایک باوقار دینی ادارہ ہے۔ لہٰذا نکاح کو دیگر قانونی معاہدات پر قیاس کرکے قانون سازی کا نشانہ بنانا، شریعت کے  مسلّمہ اصولوں سے انحراف ہے۔  

ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ پاکستان میں فرد کی قانونی اہلیت کی عمر اکثر معاملات میں اٹھارہ سال مقرر ہے، —جیسے ووٹ ڈالنا، ڈرائیونگ لائسنس، شناختی کارڈ، بیرون ملک سفر، حضانت اور فوجداری قوانین میں بچوں کی تعریف۔ جب دیگر تمام قوانین اٹھارہ سال کی حد تسلیم کرتے ہیں تو نکاح جیسے حساس اور خاندانی نظام سے متعلق معاملے میں یہ شرط کیوں نہ ہو؟ تاہم مذکورہ قوانین کسی صریح شرعی نص پر مبنی نہیں، اس لیے ان کا تقابل نکاح جیسے معاملے سے کہ جس کے لیے نصوص شریعت میں  واضح احکام موجود ہیں، قیاس مع الفارق ہے جو قطعاً درست نہیں۔  

  • کیا حالات کی تبدیلی سے ہرقانون بدل سکتا ہـے؟ :ہمارے تعلیم یافتہ طبقے میں ایک عام مغالطہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ زمانے اور حالات کی تبدیلی سے ہر قانون بدل سکتا ہے۔اس مغالطہ کی وجہ لاعلمی ہے کہ یہ اصول شریعت کے ان قوانین پر لاگو نہیں ہوتا جو قرآن و سنت کی قطعی نصوص پر مبنی ہوں۔ ان کے نفاذ میں سے کسی شرط نفاذ کی عدم موجودگی کے باعث وقتی تعطل تو ممکن ہے، مگر ان کی اصل حیثیت ختم نہیں کی جاسکتی، جیسے قحط میں چور کی سزا موقوف کرنا، جب کہ نکاحِ صغیر و صغیرہ کا ولی کے ذریعے انعقاد، اور بالغ کا حقِ نکاح، شریعت کے ایسے  قطعی احکام ہیں جنھیں محض زمانہ یا حالات کی تبدیلی کی بنیاد پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ 
  • حالیہ قانون سے پیدا ہونے والے قانونی تضادات: تعجب ہے کہ حکومت اور عدالت کم عمری کی شادی کے امتناع کے قانون سے قانونی نظام میں پیدا ہونے والے تضادات پر خاموش ہیں۔ ۱- حالیہ قانون کے تحت ۱۸سال سے کم عمر لڑکی کے نکاح پر عائد پابندی ’قانونِ تنسیخ نکاح مسلمانان‘ ۱۹۳۹ء کی دفعہ ۲ کی ذیلی دفعہ ۷ سے صریحاً اور اصولی طور پر متصادم ہے۔ اس دفعہ کے تحت اگر کوئی ولی کسی لڑکی کا نکاح اُس کی ۱۶برس کی عمر سے پہلے کردے، تو بشرط عدمِ دخول لڑکی کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ ۱۶برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد اور اٹھارہ برس کی عمر سے پہلے عدالت سے رجوع کرکے نکاح کو فسخ کروا سکتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جب قانون خود ۱۶ سالہ لڑکی کو نکاح جیسے اہم اور بامعنی عقد کو ختم کرنے کا بااختیار فریق تسلیم کرتا ہے، تو پھر وہ اُسی عمر میں نکاح پر رضامندی دینے کی اہل کیوں نہیں؟ نکاح کی تشکیل کے وقت اس کی رضامندی کو غیرمعتبر قرار دینا ، نہ صرف شرعی اصولوں بالخصوص ’قاعدہ خیارالبلوغ‘ سے صریحاً متصادم ہے، بلکہ یہ تصادم قانونی نظام کے اندر ایک سنگین تضاد اور خلفشار کو بھی جنم دیتا ہے۔ 

۲- اس قانون کے نتیجے میں ’نکاح کے لیے درکار رضامندی‘ (marital consent) اور ’جنسی عمل کے لیے رضامندی‘ (sexual consent) کی عمر کے درمیان بھی واضح تضاد سامنے آتا ہے، جہاں جنسی عمل کے لیے رضامندی کی عمر ۱۶ سال مقرر ہے، جب کہ اس قانون میں نکاح کے لیے کم از کم عمر ۱۸ سال رکھی گئی ہے، جس کی عمارت اس مفروضے پر کھڑی ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر فرد ناسمجھ، کم فہم اور فیصلہ سازی کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے، اور اس بنا پر اس کی شادی کو ایک جبر، زیادتی اور ظلم تصور کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف، پاکستان کے فوجداری قانون (تعزیراتِ پاکستان) میں جنسی عمل کے لیے رضامندی کی عمر ۱۶ سال مقرر کی گئی ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۳۷۵ کے مطابق ۱۶سال سے کم عمر بچے یا بچی کے ساتھ کسی قسم کا جنسی تعلق، خواہ وہ رضامندی سے ہو یا زبردستی، ’ریپ‘ (زنابالجبر) شمار ہوتا ہے، جس کی سزا موت، عمر قید یا کم از کم ۲۵سال قیدِ بامشقت ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون یہ تسلیم کرتا ہے کہ۱۶ سال عمر کا فرد جنسی عمل کے لیے ’رضامند‘ ہوسکتا ہے اور اس کی رضامندی قانونی طور پر معتبر ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ اسی عمر کے فرد کو نکاح جیسے پاکیزہ، محفوظ اور قانونی بندھن کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ ’رُشد‘ یا ’سمجھ داری‘ کے مزعومہ معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ یہ تضاد صرف منطقی یا قانونی نوعیت کا نہیں، بلکہ ایک عمیق تہذیبی اور اخلاقی بحران کو جنم دیتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ’رُشد‘ کو اہلیت نکاح کی شرط قرار دیتےہوئے اس تضاد کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ۱۶ سالہ نوجوان لڑکا یا لڑکی جنسی عمل کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کر سکتا ہے، تو نکاح کے لیے وہ رضامندی ظاہر کرنے کا اہل کیوں نہیں؟ 

اگر قانون اس عمر میں لڑکی کی رضامندی کو ’جنسی تعلق‘ کے لیے تو تسلیم کرتا ہے لیکن نکاح جیسے مہذب ادارے کے لیے تسلیم نہیں کرتا، تو یہ قانون سازی تہذیبی انحراف، اور مغربی ماڈل کی تقلید کا واضح ثبوت ہے۔ یہی عمر ہے جب بچے بلوغت کے بعد جنسی کشش، جذباتی وابستگی اور نفسیاتی ہیجان کے مرحلے میں ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ عمر ہے جہاں دنیا بھر کے اعداد و شمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ جنسی جرائم، بدکاری، ناجائز تعلقات، مانع حمل ادویات کا استعمال، اسقاط حمل، اور عارضی تعلقات کی شرح سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستانی ’قانون ساز طبقہ‘ ایک طرف جنسی آزادی کو ’رضامندی‘ کے پردے میں جائز قرار دے رہا ہے، اور دوسری طرف نکاح جیسے محفوظ اور ذمہ دار رشتے پر ۱۸سال کی عمر اور ’رشد‘ کی شرط لگا کر اسے محدود کر رہا ہے۔یہی مغربی تہذیب کا ماڈل ہے، اور کیا یہی خطرناک ایجنڈا پاکستان میں نافذ کیا جا رہا ہے؟ 

  • حالیہ قانون سے پیدا ہونے والے قانونی ابہامات:حالیہ قانون سے متعلق ایک نہایت بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ آیا اٹھارہ سال سے کم عمر بچے یا بچی کا نکاح بذاتِ خود ’باطل‘ یا ’کالعدم‘ تصور کیا گیا ہے، یا صرف اس فعل کی کسی قسم کی اعانت پر تعزیری سزا عائد کی گئی ہے، جب کہ نکاح اپنی جگہ درست اور نافذ شمار ہوگا؟ یہ معاملہ عدالتی تشریحات پر چھوڑ دیا گیا ہے (’شادی کی عمر کی تحدید کا نیا قانون: چند اہم سوالات‘، اَز ڈاکٹر مشتاق احمد)۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے حال ہی میں ’ممتاز بی بی کیس‘ میں اسی سوال پر فیصلہ دیتے ہوئے ایسا نکاح تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور نکاح کرنے والے کو مجرم قرار دیا۔ فاضل جج کا استدلال یہ تھا کہ جو معاہدہ ایک مجرمانہ عمل کے نتیجے میں وجود میں آئے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوسکتی۔  

قانون میں نکاح کو باقاعدہ ’منسوخ‘ یا ’باطل‘ قرار دینے کے بجائے اس کے اندراج اور عمل کو جرم قرار دیا گیا ہے، تا کہ نہ صرف نکاح کے امکان کو عملی طور پر مسدود کر دیا جائے، بلکہ ایسے نکاح کو ریکارڈ کا حصہ بنانا ہی مجرمانہ فعل قرار پائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قانونی ابہام محض غفلت کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک دانستہ اختیار کردہ پالیسی ہے۔ قانون سازی کے ذریعے ایک اُلجھاؤ کی فضا پیدا کی گئی ہے تا کہ نکاح جیسے شرعی اور فطری ادارے کو مشکل بنا کر لوگوں کو اس سے دور کرکے انھیں تجرد کی زندگی، جنسی بے راہ روی اور زنا کی طرف دھکیلا جائے۔ 

یہ ابہام کئی اور انتہائی بنیادی قانونی ابہامات کو جنم دیتا ہے۔ اگر ایسے نکاح میں بندھی ہوئی لڑکی اس نکاح کو ’غیرقانونی‘ یا ’ممنوع‘ تسلیم کر بھی لے، تو وہ اس سے طلاق یا فسخ کے بغیر کس بنیاد پر نجات حاصل کرسکے گی؟ اگر نکاح کا کوئی وجود ہی نہیں، تو کیا اس لڑکی پر عدت کے احکام لاگو ہوں گے یا نہیں؟ اگر اس نکاح کے نتیجے میں حمل ٹھہرے یا بچہ پیدا ہو جائے، تو اس بچے کا نسب، وراثت اور ولدیت کا شرعی اور قانونی مقام کیا ہو گا؟ ایسے نکاح کے نتیجے میں نان و نفقہ، حق مہر، رہائش، اور دیگر معاشی حقوق کی قانونی حیثیت کیا ہو گی؟ یہ تمام سوالات محض نظری یا تجریدی نہیں، بلکہ عملی اور بنیادی ہیں۔ 

یہاں یہ نکتہ بھی نہایت اہم ہے کہ قانون سازی میںمبہم/ کثیرالمعانی الفاظ کا استعمال، مثلاً دفعہ۵ میں ’ہم زیستی‘ (Cohabitation) کو بغیر کسی مخصوص قانونی تعریف و تحدید کے شامل کر کے بچوں پر ظلم اور قانوناً جرم قرار دینا اور اس جرم میں کسی بھی قسم کی معاونت یا خاموشی پر سخت سزائیں مقرر کرنا، نہ صرف قانونی سقم ہے بلکہ یہ آئینی طور پر بھی محلِ اعتراض ہے۔ کیونکہ اس سے عدالت اور پولیس کے لیے بے جا وسعتِ تعبیر کے دروازے کھل جاتے ہیں اور شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوسکتے ہیں۔ 

فوجداری قانون میں مبہم اور غیرواضح اصطلاحات کا استعمال بذاتِ خود خلافِ اصول ہے۔ فوجداری قانون کا مسلّمہ قاعدہ یہ ہے کہ جرم کی تعریف، اس کے عناصر اور اس کی حدود نہایت صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان کیے جائیں تاکہ شہری کو یہ یقینی علم ہو کہ کون سا فعل ممنوع اور قابلِ تعزیر ہے۔ 

  • ابہامات / تضادات کا ممکنہ اگلا مرحلہ :حالیہ قانون سے پیدا کیے گئے دانستہ یا نادانستہ انتشار اور ابہام کا اگلا ممکنہ مرحلہ بالکل واضح ہے۔ نکاح جیسے شرعی اور قانونی بندھن کو اتنا پیچیدہ، خطرناک اور تعزیری بنا دیا گیا ہے کہ لوگ اس سے اجتناب برتنے لگیں۔ نتیجتاً معاشرے میں نکاح سے باہر تعلقات کو ’سماجی حقیقت‘ کہہ کر قانونی تحفظ فراہم کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی۔ مغربی معاشروں کی طرح ہمارے ہاں بھی ’کامن لا پارٹنرشپ‘ جیسے تصورات کی راہ کھلے گی، یعنی نکاح کے بغیر مرد و عورت کے باہمی رضامندی سے ساتھ رہنے کے رویے کو پہلے معمول، پھر قابلِ برداشت، اور آخرکار قابلِ قبول قرار دیا جائے گا، حتیٰ کہ وہ قوانین کی شکل اختیار کر لیں گے۔   

اس سلسلہ میں بین الاقوامی سیکولر ایجنڈے کو پاکستانی لیگل فریم ورک میں داخل کرنے اور سماج میں قابلِ قبول بنانے کے لیے سرگرم این جی اوز نے اگلے قدم کے طور پر مؤثر لابنگ کے ذریعے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت سے ’تولیدی صحت کی جامع تعلیم‘ (Comprehensive Reproductive Health Education) کو ۱۴سال کی عمر کے بچوں کے لیے اسکول کے نصاب میں شامل کرنے کا بل منظور کروا لیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بیرونی دبائو پر ریاست نوجوانوں کو نکاح سے دُور اور آزاد جنسی تعلقات کی طرف دھکیل رہی ہے۔  

  •  ریاست کی عائلی قوانین میں مداخلت اور شرعی فریضہ : ہماری رائے میں ریاست نے بیرونی دبائو پر شخصی و عائلی قوانین میں آئے روز کی مداخلت سے مسلمانوں کے عائلی قوانین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ عائلی یا شخصی قوانین میں مداخلت آئین پاکستان کی بنیاد قراردادِ مقاصد، آئین پاکستان، خصوصاً آئین کی دفعات۲-اے،۳۵ اور ۲۲۷، اور اس پر مبنی پورے قانونی نظام کی صریح خلاف ورزی اور مسلمان شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہے۔ حالیہ قانون قوانین نفاذِ شریعت ، مثلاً مغربی پاکستان مسلم پرسنل لاء (شریعت) اطلاق ایکٹ ۱۹۶۲ء اور قانونِ نفاذِ شریعت ۱۹۹۱ء سے بھی متصادم ہے۔  

خاندان کے ادارے اور خاندانی نظام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے آج خاندان کے ادارے کو سب سے بڑا خطرہ ریاست اور ریاستی اداروں کی سوشل انجینئرنگ سے ہے۔ جس کے ذریعے سیکولر مغربی طرزِ زندگی کو پوری قوم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ یہ ریاستی طاقت کا مجرمانہ استعمال ہے جس کا تدارک ایک شرعی فریضہ ہے۔