'’ہندوتوا‘ یعنی ’ہندو نسل پرستی‘ کے نظریے پر قائم راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ (RSS) نے ۲۷ستمبر ۲۰۲۵ء کو اپنے قیام کے سو سال مکمل کیے ہیں۔ اگرچہ آر ایس ایس اپنا تعارف محض ایک ثقافتی اور سماجی تنظیم کے طور پر کرواتی ہے، تاہم ان برسوں کے دوران میں اس نے انڈیا کی قومی شناخت، سیاست، معاشرے، ریاستی ڈھانچے، اور پالیسی سازی کے عمل پر دور رس نظریاتی و عملی اثرات مرتب کیے ہیں۔ موجودہ حکمران جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (BJP)سمیت تین درجن سے زائد چھوٹے بڑے گروہ آرایس ایس کی چھتری تلے متفرق میدانوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان تمام گروہوں کا مجموعہ ' ’سَنگھ پریوار ‘ کہلاتا ہے۔ایک صدی پر محیط آر ایس ایس کا یہ سفر اپنی بنیاد سے جڑی ایک نسل پرستانہ تنظیم کی جدوجہد کی داستان ہے، جس نے وقت کے ہمہ قسم کے مد و جزر سے گزر کر مستقل مزاجی سے نہ صرف ہندوستان میں قبولِ عام حاصل کیا، بلکہ عالمی سیاست میں بھی اپنے نظریات کے زیرِ اثر مرتب کردہ پالیسیوں کے لیے جگہ بنائی۔ ہندونسل پرستی کے قبیح اثرات سے قطع نظر، آر ایس ایس کی اس صدسالہ جدوجہد میں کسی بھی نظریے کی بنیاد پر قائم تحریکات کے لیے سیکھنے اور سمجھنے کو بہت سے اسباق موجود ہیں۔ مزید برآں، آر ایس ایس کے سفر کی روشنی میں ہندوستان کے ماضی و حال کا تجزیہ اس کے مستقبل کی سمت جانچنے میں بھی مددگار ہو سکتا ہے۔
گذشتہ صدی کے ابتدائی عشرے انڈیا کے لیے انتہائی ہنگامہ خیزی کے حامل رہے۔ ایک طرف برطانوی تسلط سے آزادی کی آوازیں توانا تر ہو رہی تھیں، تو دوسری طرف مختلف حلقے قوم، قومیت، اور نسل پرستی(Nation, Nationhood and Nationalism)سے متعلق مباحث کو اپنے نظریات کا پیراہن پہنا رہے تھے۔۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کے قیام سے خائف ہندو طبقے نے کانگریس کی 'سیکولر ' قوم پرستی کو ہندو آبادی کی شناخت اور مفادات کے لیے ضرر رساں خیال کرتے ہوئے 'ہندو مہاسبھا کی شکل اختیار کی۔ ہندو مہاسبھا کا دائرہ کار بالعموم سیاسی تھا۔ چند ہندو زعماء بالخصوص ڈاکٹر کیشو بالی رام ہیڈگوار(م:۱۹۴۰ء)نے ایک قدم آگے بڑھ کر ہندوؤں کی سماجی و تہذیبی شناخت کے تحفظ کے لیے ہندو قوم کو متحد، منظم اور عسکری طور پر مضبوط کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ڈسپلن اور جسمانی تربیت کا پروگرام مختلف علاقوں میں ہونے والے ہندومسلم فسادات کو دیکھتے ہوئے ترتیب دیا۔ اسی پروگرام کو زیادہ مربوط انداز میں آگے بڑھانے کے لیے ہیڈ گوار نے ۲۷ ستمبر ۱۹۲۵ء کو آر ایس ایس کی بنیاد رکھی۔
آر ایس ایس کے صد سالہ سفر کو چار مختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا دور ماقبل آزادئ ہندوستان کا ہے۔اپنے قیام کے ابتدائی بیس برسوں میں تنظیم نے اپنی جڑیں مضبوط کرنے اور تنظیم استوار کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس کے بانی سربراہ ہیڈگوار اور ان کے جانشین ایم ایس گولوالکر (م:۱۹۷۳ء) نےتنظیم کو تحریکِ آزادی سے دانستہ دور رکھا۔ گولوالکر کے خیال میں آر ایس ایس کا نظریۂ آزادی مذکورہ تحریک سے مختلف تھا۔ وہ برطانوی حکومت سے کش مکش کے بجائے ہندو مذہب و ثقافت کے دفاع کو آزادی کا درست راستہ خیال کرتے تھے۔ تحریکِ آزادی میں عدم شمولیت کی بنا پر آزادی پسند طبقات کی جانب سے آر ایس ایس کو برطانوی حکومت کے پروردہ اور سہولت کار کے طور پر دیکھا گیا۔ البتہ آر ایس ایس کے کارکنان نے تقسیم کے دوران مشرقی پنجاب اور دیگر علاقوں سے پاکستان کی جانب ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے قتلِ عام میں فعال کردار ادا کیا۔
آر ایس ایس کا دوسرا دور جنوری ۱۹۴۸ء میں نتھورام گوڈسے کے ہاتھوں موہن داس کرم چند گاندھی کے قتل سے شروع ہوتا ہے۔ گوڈسے کی تنظیمی رفاقت کی بنا پر آر ایس ایس پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوئیں تو ۴ فروری ۱۹۴۸ءء کو تنظیم پر پابندی لگا دی گئی۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور کانگریس حکومت میں موجود اپنے دیگر ہمدردوں کی مدد سے آر ایس ایس جولائی ۱۹۴۹ءء میں یہ پابندی ختم کروانے میں کامیاب رہی۔ جواباً سردار پٹیل کی شرط کے مطابق سنگھ نے پہلی بار انڈیا کے نئے آئین اور جھنڈے کو تسلیم کر لیا۔ پابندی کے تجربات کی روشنی میں تنظیم نے سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جَن سَنگھ نامی سیاسی وِنگ تشکیل دیا۔ اگلی تین دہائیوں میں آر ایس ایس اور جَن سنگھ نے ملکی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۵ء میں اندرا گاندھی (م: ۱۹۸۴ء) کی جانب سے لگائی گئی ملک گیر ایمرجنسی کے دوران آر ایس ایس کو ایک بار پھر پابندی کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ تاہم اندرا حکومت کے ساتھ اندرونِ خانہ گفت و شنید کے ذریعے آر ایس ایس قیادت اپنے اسیر رہنماؤں کے لیے کچھ سہولیات حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں اپوزیشن اتحاد نےپہلی مرتبہ کانگریس کو شکست دے کر حکومت بنائی تو آر ایس ایس کےحصے میں خارجہ اور اطلاعات جیسی اہم وزارتیں آئیں۔
ہندو نسل پرستی کی اس تحریک کا تیسرا دور اسی اتحادی حکومت سے شروع ہوتا ہے۔ وزارتوں سے حاصل ہونے والے سیاسی و حکومتی تجربے نے آر ایس ایس کو وہ اعتماد بخشا جس کی مدد سے اس نے ۸۰ء اور ۹۰ء کے عشروں میں اپنے فرقہ ورانہ پروگرام کی تکمیل کی جانب تیزی سے پیش رفت کی۔ انڈین معاشرے میں آر ایس ایس اور اس کے نظریے کی حمایت میں بتدریج اضافہ ہوا۔ نفرت انگیز سیاست کے ذریعے سماجی خلیج گہری ہوئی، مذہبی اقلیتوں کے خلاف فسادات میں تیزی آئی، اور نتیجتاً آر ایس ایس کا سیاسی قد کاٹھ بڑھتا گیا۔
’ہندوتوا‘ کی مقبولیت میں اضافے کی ایک نمایاں وجہ ملک کی بانی جماعت کانگریس کی دوغلی پالیسیاں اور اندراگاندھی دور کا آمرانہ طرزِحکومت بھی تھا جس نے عام آدمی کو متبادل امکانات کی جانب دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس خلا کو تیزی سے پُر کرتے ہوئے آر ایس ایس اور سَنگھ پریوار کی جماعتوں نے سماجی اور سیاسی سطح پر عام ہندو کی آواز بننا شروع کیا۔ اسی عرصے میں لال کرشن ایڈوانی کی قیادت میں ’رتھ یاترا‘ سے بابری مسجد کے انہدام کی مہم شروع ہوئی جو دسمبر ۱۹۹۲ء میں مسجد کی شہادت پر منتج ہوئی۔ یہ ملک گیر رتھ یاترا دراصل آرایس ایس کا نظریہ ملک کے طول و عرض تک پہنچانے کی مہم تھی جس کا پہلا منطقی انجام مسجد کی شہادت اور دوسرا سیاسی ڈھانچے میں آر ایس ایس کا نفوذ تھا جو آیندہ آنے والے ہر انتخابات میں نمایاں تر ہو کر سامنے آتا رہا۔ اس مہم کی صورت ہندو قوم پرست قیادت اور کارکنان رہے سہے سماجی، سیاسی، او ر ریاستی خوف سے بھی آزاد ہوگئے اور ان کی نظریاتی وابستگی اور اقلیت بیزاری میں مزید اضافہ ہوا۔
چوتھا دور ۲۰۰۹ء سے شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں کانگریس اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہی، تاہم آر ایس ایس اور اس سے وابستہ جماعتیں اسی عرصے میں اگلے انتخابات جیتنے کی تیاری میں لگ گئیں۔ آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات میں نامزد اپنے دوست نریندر مودی کو اسی دور میں وزارتِ عظمیٰ کے ممکنہ اُمیدوار کے طور پر متعارف کروانا شروع کر دیا تھا۔ کانگریسی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت پر بدعنوانی اور دفاعی معاملات میں نااہلی کے الزامات نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا اور یوں آر ایس ایس کے سیاسی چہرے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔۲۰۱۴ء کا لوک سبھا چناؤ اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم کو پہلی مرتبہ دو تہائی سے زائد اکثریت ملی۔ یہ دور گذشتہ تین اَدوار میں کی گئی کوششوں کے ثمرات سمیٹنے کا دور تھا جس سے آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں نے بخوبی فائدہ اٹھایا۔
مودی حکومت کے زیرِ سرپرستی پہلے پانچ سال آر ایس ایس نے سماجی میدان میں اقلیتوں کو مرکزی دھارے سے خارج کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ ہندو اکثریت کو مسلسل اس خوف میں مبتلا رکھا گیا کہ ان کی جان، مال، املاک، رسوم و رواج، عقائد، اور مجموعی شناخت مسلم اقلیت کے ہاتھوں خطرے میں ہے۔ اس ضمن میں 'گئو رکھشا '، 'لَو جہاد، اور سماجی و معاشی مقاطعے جیسی عوامی مہمات کا سہارا لیا گیا۔ گلی محلے میں 'فوری انصاف ' کے نام پر اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے میں تیزی آئی۔ مسلمانوں، مسیحیوں اور دلتوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہندو رہنماؤں اور کارکنوں کو مکمل ریاستی اور تنظیمی تحفظ فراہم کیا گیا۔
تاریخ کی تدوینِ نو (Re-writing History) کے نام پر نصابی کتب میں سے انڈیا کی مسلم شناخت کھرچنے اور خطے کی تہذیبی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے کرداروں کو بطور دشمن ، لٹیرا، اور قابض پیش کرنے کا عمل آگے بڑھایا گیا۔ مسلم سطوت کے نشان کھرچنے کی اس مہم کے تسلسل میں تاریخی شہروں، علاقوں، شاہراؤں اور عوامی مقامات کے نام تبدیل کرنے کا کام بھی جاری ہے۔ اِلہٰ آباد کا تاریخی شہر اب 'پریاگ راج ' اور بنارس کا نیا نام 'واراناسی ' قرار پایا ہے۔ بعید نہیں کہ کچھ عرصے میں بہت سے دیگر شہروں بشمول علی گڑھ کو بھی کسی ہندو نام سے منسوب کر دیا جائے۔
عوام کے ذہن میں اسلام اور مسلم تشخص مسخ کرنے کے لیے ریاستی سرپرستی میں فلم انڈسٹری کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’کشمیر فائلز‘، '’۷۲ حُوریں‘ اور ’دی کیرالہ سٹوری‘ جیسی کئی زہرآلود پراپیگنڈا فلمیں حقائق اور تاریخی واقعات میں غلط بیانی کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو دہشت گردی کے ماخذ کے طور پر پیش کرتی ہیں اور مسلمانوں کو امن و ترقی کے لیے بڑا خطرہ بنا کر دکھاتی ہیں۔
۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۴ء تک کے پانچ سال آئینی اکھاڑ پچھاڑ سے عبارت ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ قلم زد کرکے خطے کو ریاستی حیثیت سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اس سے مقبوضہ وادی پر انڈیا کا قبضہ مزید سخت کرنے، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف مقامی آبادی کا توازن بگاڑنے اور معاشی و ابلاغی ناکہ بندی کے ذریعے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو دبانے میں مدد ملی۔ ۲۰۱۹ء ہی میں انڈین سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے دیرینہ مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کے انہدام کو عملاً قانونی چھتری فراہم کر دی جس سے رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہوئی۔
اسی عرصے میں شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر فار سٹیزن شپ جیسی آئینی ترامیم کے ذریعے مقامی مسلم آبادی کو وجودی عدم تحفظ کا شکار کرنے کی کوشش کی گئی ۔ شہریت ترمیمی قانون کی مدد سے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے مسلم اکثریتی پڑوسی ممالک کی اقلیتوں کو ان ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی چال بھی چلی گئی۔ان آئینی ترامیم کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلم اور غیرمسلم حلقوں کے ساتھ سختی سے نمٹا گیا۔ شرجیل امام، عمر خالد ، گلفشاں فاطمہ جیسے کئی نوجوان طالب علم رہنما اسی اختلافی آواز کی بنا پر پانچ سال سے پابندِ سلاسل ہیں اور ان کے مقدمات کی شنوائی تو ایک طرف، ریاست ان کی ضمانت کی درخواستوں پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہونے دے رہی۔ ملکی سطح پر ان آئینی ترامیم کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے زیر انتظام بہت سی ریاستوں نے بھی اقلیت دشمن اور ہندو قوم پرستی پر مبنی قوانین منظور اور نافذ کیے۔ ان میں تبدیلیٔ مذہب اور گائے کے ذبیحے کی روک تھام کے قوانین خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ درج بالا تمام اقدامات فی الاصل راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کے دیرینہ ایجنڈے کا حصہ تھے جنھیں ریاستی مشینری کی مدد سے تیزی سے پورا کیا گیا۔
مودی حکومت کی تیسری مدت عددی اکثریت کے لحاظ سے بی جے پی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس کے لیے قدرے مشکل ثابت ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو ان کی سیاسی ، سماجی اور معاشی بنیادوں سے محروم کرنے کا عمل جاری ہے۔ تیسری مدت کے آغاز ہی میں وقف ترمیمی قانون کے ذریعے مسلمانوں کی اربوں روپے مالیت کی پراپرٹی پر ریاستی عمل داری بڑھانے کا آغاز کر دیا گیا۔ مسلم اوقاف یعنی تاریخی مساجد ، فلاحی مراکز، عیدگاہیں، دربار، قبرستان، ہسپتال، اور تعلیمی ادارے بتدریج ریاستی نگرانی میں دیئے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں بنیادی فیصلہ سازی میں مسلمان تنظیموں، اداروں اور افراد کا کردار محدود ہو رہا ہے۔
انڈین سیاست اور معاشرے میں جاری موجودہ رسہ کشی کا تجزیہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ اپنے ایجنڈے کے بہت سے مقاصد حاصل کرلینے کے بعد ’ہندوتوا‘ کی تحریک نئے اہداف کا تعین کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس تحریک کی اصل منزل ملک کو 'ہندوراشٹرا ' یعنی ہندو ریاست میں ڈھالنا اور کلاسیکی ہندو متون(مذہبی تحریروں) میں درج شدہ یوٹوپیائی خطوط پر ’اکھنڈ بھارت‘ ' کا قیام ہے۔ مذکورہ ’اکھنڈ بھارت‘ کی سرحدیں جنوبی ایشیا سے کہیں زیادہ وسعت کی حامل ہوں گی۔ تاہم، اس طویل مدتی منصوبے سے قطع نظر، اگلے کچھ عرصے میں آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیمیں بہت سے قلیل مدتی مقاصد کے حصول کی جانب سفر کرتی نظر آتی ہیں۔
گذشتہ برس کے انتخابی نتائج نے اس سفر میں وقتی رخنہ ضرور ڈالا ہے۔ ’ہندوتوا‘ تحریک میں موجود اندرونی دراڑیں بھی اُبھر کر سامنے آئی ہیں۔ تاہم، اس سے مجموعی سفر کی سمت تبدیل ہونے کا امکان کم ہے۔ مودی حکومت کے پاس اب بھی تین برس سے زائد کا عرصہ باقی ہے۔ اس عرصے میں مسلم پرسنل لا کا خاتمہ اور یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہندو قوم پرستوں کا ایک ممکنہ ہدف ہوگا۔ تاریخ کی تدوینِ نو اور مسلم تشخص کھرچنے کی مہم میں کمی آنے کا امکان بھی کم ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے رہنما ایک عرصے سے ملکی آئین کے دیباچے میں موجود 'سیکولر اور 'سوشلسٹ 'کی اصطلاحات پر انگشت نمائی کرتے آئے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں یہ مہم تیز ہوئی ہے۔آئین کی سیکولر شناخت کا خاتمہ ہندو راشٹرا کے قیام کی راہ میں ایک اہم سنگِ میل ہوگا۔ اگرچہ موجودہ دورِحکومت میں ایسی کوئی آئینی تبدیلی بعید از قیاس ہے، تاہم عین ممکن ہے کہ موجودہ عرصہ عوامی رائے سازی کے لیے استعمال کیا جائے اور آیندہ انتخابات میں زیادہ بڑی اکثریت حاصل کرکے آئین کی سیکولر شناخت منہدم کر دی جائے۔
آر ایس ایس نے انڈین معاشرے پر جو ہمہ جہت اور وسیع اثرات مرتب کیے ہیں، ان کا احاطہ کرنے کے لیے یہ چند صفحات قطعاً ناکافی ہیں۔ تاہم، یہ چیدہ چیدہ نکات اس چیلنج کی جانب اشارہ کرنے کے لیے کافی ہیں جن کا سامنا اس وقت انڈین معاشرہ بالخصوص اس کی مسلم شناخت کررہی ہے۔ اسلام کو ہندوستان میں اجنبی مذہب اور مسلمانوں کو 'گھس بیٹھیے ' قرار دے کر آر ایس ایس نے جو نظریہ سازی کی ہے، یہ اسی کے مظاہر ہیں کہ نہ صرف ہندونسل پرست بی جے پی مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی سے محروم کرنے میں کامیاب رہی ہے، بلکہ کانگریس جیسی بظاہر سیکولر جماعتوں کے لیے بھی ہندو ووٹر کو لبھانے کا آسان راستہ بھی ہندو قوم پرستی ہی باقی بچا ہے۔