ایک دنیا یہ ہے جس میں ہم اور آپ رہتے بستے ہیں اور جس میں ہماری زندگیوں کا ایک حصہ گزر چکا ہے اور کچھ باقی ہے۔ اس دنیا کی چیزوں کو ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کی آوازوں کو کانوں سے سنتے ہیں۔ یہاں کی خوشبو بدبو کو ہم سونگھ کر جان لیتے ہیں۔ اسی طرح یہاں کی سردی گرمی محسوس کرتے ہیں۔ سختی نرمی کو چھوکر اور اچھے بُرے مزے کو چکھ کر دریافت کرلیتے ہیں۔ الغرض ہماری یہ دنیا ایسی دنیا ہے کہ اس کو ہم خود اپنے خداداد علم سے جانتے ہیں اور کوئی ہمیں بتائے یا نہ بتائے، ہم اس کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہم خود اپنے علم سے اور اپنے مشاہدے اور تجربے سے یہ بھی جانتے ہیں کہ اس دنیا میں آرام اور راحت بھی ہے اور تکلیف اور مصیبت بھی___ یہاں کی بھوک پیاس، بیماری، زیادہ سردی اور زیادہ گرمی یہاں پر تکلیف کی چیزیں ہیں۔ اسی طرح تندرستی، خوش حالی، کھانے پینے کی اچھی چیزیں، اچھا موسم، اچھی ہوا، اچھا مکان، اچھی فضا یہ یہاں کی آرام اور راحت کی چیزیں ہیں۔
پھر یہ بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جانتے ہیں کہ یہاں کی ہماری زندگی ایک محدود مدت کے لیے ہے اور یہاں کی ہرتکلیف و مصیبت اور ہر عیش و راحت بھی محدود الوقت اور چند روزہ ہے۔ کتنے افراد پیدا ہونے والے جوانی سے بھی پہلے بچپنے ہی میں چل دیتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں، کہ جوانی میں چلے جاتے ہیں۔ پھر جن کو جوانی کی بہار دیکھنے کا موقع ملتا ہے، آخرکار بڑھاپے میں وہ بھی چلے ہی جاتے ہیں۔ آج کل ۸۰، ۹۰ سال کی عمر بھی کسی کو کم ہی ملتی ہے۔ بہرحال، ہم اپنے تجربے اور مشاہدے سے جس طرح اس دنیا کو جانتے ہیں، اسی طرح یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی ہرتکلیف و راحت بس چند روزہ ہے۔
آخرت کی دنیا: ہم اور آپ بہ حیثیت مسلمان اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا کو بھی مانتے ہیں، کہ وہ مرنے کے بعد والی اور آخرت کی دنیا ہے۔ وہ دنیا کہ جس کو ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور نہ کسی اور طریقے سے ہم نے اُس کو اپنے علم سے جانا ہے، بلکہ اُس کی خبر اللہ کے پیغمبروں ؑ نے دی ہے جن کی سچائی پر ہمیں پورا یقین ہے۔ ہماری اس دنیا میں بھی، جس میں ہم رہ بس رہے ہیں، ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، بلکہ دوسرے لوگوں سے سن سن کر ہی ہم اُن پر یقین لے آئے ہیں۔
اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ آخرت میں اور وہاں کی تکلیفوں اور راحتوں کو اگرچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، لیکن اللہ کے پیغمبروں ؑ ، خاص کر آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلانے سے اور اللہ کی کتاب قرآنِ مجید کے بیان سے ہم نے اس کو جانا اور مانا ہے___ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کے سب پیغمبروںؑ نے یہی بتایا کہ: موت سے انسان کا بالکل خاتمہ نہیں ہو جاتا، بلکہ انسان دوسرے عالم کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اس کی روح جو انسان کی اصل حقیقت ہے وہ دوسری دنیا میں چلی جاتی ہے۔ اس لیے ’موت‘ کو ’انتقال‘ بھی کہتے ہیں۔
اس کی ایک مثال ہم سب پر گزر بھی چکی ہے، جس کی وجہ سے اس کا سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں آنے سے پہلے چند مہینے اپنی ماں کے پیٹ میں رہا ہے۔ ذرا سوچیے اگر کوئی ایسا آلہ ایجاد ہوجائے جس کے ذریعے پیٹ کے بچے تک بات پہنچائی جاسکے اور اس سے کہا جائے کہ اے بچے! اس وقت تو جس دنیا میں ہے، یہ اصل دنیا نہیں ہے، اصل دنیا میں تُو چند دنوں کے بعد پہنچے گا اور وہ لاکھوں کروڑوں کلومیٹر کی لمبی چوڑی دنیا ہے۔ اس میں دریا ہیں، پہاڑ ہیں، جنگل ہیں، اور اربوں انسان بس رہے ہیں، ریلیں چل رہی ہیں، موٹریں دوڑ رہی ہیں، ہوائی جہاز اُڑ رہے ہیں ، حکومتیں قائم ہیں، جنگیں ہوتی ہیں، توپیں چلتی ہیں، الغرض اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اگر ماں کے پیٹ کے بچے سے اس کا ذکر کیا جائے اور اس کو بتایا جائے کہ چنددن کے بعد تو بھی اس دنیا میں پہنچ جائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ بچہ جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ کی ایک بالشت کی دنیا میں ہے اور اس سے باہر کی کسی بات کو جانتا ہی نہیں، وہ اگر ان باتوں کو کسی طرح سمجھ بھی لے تو بھی آسانی سے یقین نہ کر سکے گا، لیکن پیدا ہونے کے بعد جب وہ اس دنیا میں آئے گا اور کچھ دیکھنے سمجھنے کے لائق ہو جائے گا تو ان سب چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ بالکل یہی مثال ہماری اس زندگی کی اور عالم آخرت کی ہے۔
ہم اس دنیا میں ہیں تو اس دنیا سے آگے کی کسی بات کو خود نہیں جان سکتے۔ اور اپنی ان آنکھوں سے آگے کی کوئی منزل نہیں دیکھ سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انبیاے علیہم السلام کو عالمِ آخرت کا علم دیا ہے۔ انھوں نے ہمیں بتایا اور سب سے زیادہ وضاحت اورتفصیل سے خدا کے آخری نبی ورسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ مرنے کے بعد تم ایک دوسرے عالم اور دوسرے جہان میں پہنچ جائو گے جس کی پہلی منزل عالم برزخ ہے ( یعنی موت سے لے کر قیامت تک جہاں اور جس حال میں رہنا ہو گا)۔ دوسری منزل حشر اور حساب کی منزل ہے، جہاں ہر شخص کے اعمال کی جانچ اور ان کا فیصلہ ہوگا، اور اس سے آگے آخری منزل دوزخ یا جنت کا دائمی ٹھکانا ہے۔پھر دوزخ میں جو طرح طرح کے درد ناک عذاب ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی شان قہاری کے جو نہایت ہیبت ناک منظر سامنے آئیں گے ان کو بھی آپؐ نے تفصیل سے بتلایا، اور جنت میں عیش وراحت اور لذت و مسرت کے جو بے انتہا سامان ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت وکرم کے جو نئے نئے تجربے اور مشاہدے ہوں گے ان کی بھی آپؐ نے پوری تفصیل بیان فرمائی۔
میں مانتا ہوں کہ اس زندگی میں ان باتوں میں سے کسی ایک کو بھی ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے اور نہیں دیکھ سکتے، لیکن ہمارا یہ نہ دیکھنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ کی منزل میں کسی بچے کا اس دنیا کو نہ دیکھ سکنا ، اور جس طرح ہر بچہ یہاں آ جانے کے بعد وہ سب کچھ دیکھ لیتا ہے جو آنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتا تھا، اسی طرح ہمیں یقین ہے اور ہم اس پر قسم کھا سکتے ہیں کہ اس دنیا سے جانے کے بعد ہم میں سے ہر ایک وہ سب کچھ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لے گا جس کی اطلاع اللہ کے سارے سچے نبیوں اور رسولوں نے دی ہے اور سب سے آخر میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تفصیل اور وضاحت سے دی ہے۔
بہر حال، ہمیں کہنا یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے ، ہم اور آپ جو اپنے کو مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں ، آخرت والی دنیا کو مان چکے ہیں اور اس پرایمان لا چکے ہیں___ بلکہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی آخری کتاب قرآن مجید نے آخرت اور دوزخ وجنت کی جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں ہم اور آپ ان تفصیلات پر بھی ایمان لائے ہیں۔
مثلاً ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح ہماری اس زندگی میں بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے، اسی طرح دوزخ میں بھی دوزخیوں کو بھوک اور پیاس کی تکلیف ہو گی جو یہاں کی اس تکلیف سے ہزاروں گنا زیادہ ہو گی___ پھر اگر یہاں کسی کو بھوک لگے اور اسے کہیں سے کھانے کی کوئی چیز نہ ملے تو بس یہی تو ہو گا کہ دوچار ہفتے تڑپ تڑپ کے ایڑیا ں رگڑ رگڑ کے جان دے دے گا اور اس طرح موت کے ساتھ اس کی بھوک کی تکلیف کا بھی خاتمہ ہو جائے گا، لیکن دوزخ میں دوزخی ہزاروں لاکھوں سال بھوک پیاس کی شدید تکلیف میں تڑپے گا اور اس سے چھٹکارا پانے کے لیے اسے موت بھی نہ آئے گی، قرآن مجید کا بیان ہے: لَا یُقْضٰی عَلَیْھِمْ فَیَمُوْتُوْا(الفاطر ۳۵:۳۶)‘‘۔
خیال کیجیے ! اس دنیا میں اگر کسی زندہ آدمی کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے تو بس چند منٹ میں جل بھن کر اور تڑپ تڑپ کر جان دے دے گا۔ اور چند منٹ کی یہ تکلیف بھی ایسی ہو گی کہ جس بے چارے پر گزرے گی اس کا تو کیا ذکر، دیکھنے والوں کے بھی ہوش خراب ہو جائیں گے اور کتنوں پر اختلاج قلب کے دورے پڑ جائیں گے ۔ لیکن قرآن مجید میں دوزخیوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں جھونکے جائیں گے اور ان کے جسم کی کھالیں پک پک جائیں گی اور پھر ان کی جگہ نئی کھال آ جائے گی اور پھر اسی طرح وہ جھونکے جائیں گے ، الغرض ان کو یہ عذاب مسلسل دیا جاتا رہے گا ___ قرآن مجید کے الفاظ ہیں : کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًاغَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ط(النساء ۴:۵۶) ’’اور جب اُن کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کریں گے، تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں‘‘۔
اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی سن لیجیے:
آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ دوزخ میں جس شخص کو سب سے ہلکے درجے کا عذاب ہوگا، اس کا حال یہ ہو گا کہ اس کے پائوں کے تلوے کے نیچے دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری رکھ دی جائے گی جس سے اس کا بھیجا سر میں اس طرح پکے گا جس طرح چولھے پر ہانڈی پکتی ہے اور اس کا اپنا اندازہ اور احساس یہ ہو گا کہ سب سے زیادہ عذاب میں آج میں ہی ہوں‘‘۔
ہم آپ سب اس پر ایمان لائے ہیں کہ آخرت اور دوزخ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات اور قرآن مجید کے یہ بیانات بالکل صحیح ہیں، یقینی ہیں، ان میں کسی شک وشبہے کی گنجایش نہیں ہے۔
یوں تو جنت اور اہل جنت کے متعلق قرآن مجید میں بہت کچھ بیان فرمایا گیا ہے۔ لیکن ایک بات کئی جگہ قرآن مجید میں ایسی کہی گئی ہے کہ جنت کے متعلق کچھ اندازہ کرنے کے لیے بس وہی کافی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ انسان کے دل اور اس کی طبیعت میں جو بھی خواہشیں اور جو بھی اُمنگیں اور آرزوئیں ہیں اور ہو سکتی ہیں جنت میں ان سب کے پورا ہونے کا پورا سامان ہے اور وہ سب پوری کی جائیں گی۔ ارشاد ہے: وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ o (حم السجدہ ۴۱:۳۱) ’’وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی‘‘۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: لَھُمْ فِیْھَا مَا یَشَآئُ وْنَ ط (النحل ۱۶:۳۱)، اور ایک تیسری جگہ فرمایا گیا ہے: فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ ج (الزخرف ۴۳:۷۱) (یعنی جنت میں تمھارے لیے وہ سب کچھ ہے جس کو تمھارے جی چاہتے ہیں اور تمھاری آنکھوں کو جس کے دیکھنے سے لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے)۔
سوچیے اس کے بعد باقی کیا رہا ؟ ہمارا جی عیش وراحت والی اور لذت ومسرت والی ایسی زندگی کو چاہتا ہے جو کبھی ختم نہ ہو، جنت میں وہ موجود ہے۔ ہمارا جی اچھے مکانات کو چاہتا ہے جن سے نکلنے کا کبھی اندیشہ نہ ہو، جنت میں وہ بھی موجود ہیں۔ ہمارا جی اچھے کھانوں اور اچھے لذیذ میووں اور پینے والی اچھی خوش ذائقہ خوش رنگ چیزوں کو چاہتا ہے، جنت میں وہ بھی موجود ہیں بلکہ ان کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ ہمارا جی اچھی حسین اور سلیقہ شعار اور خدا کو یاد کرنے والی بیویوں کو چاہتا ہے، جنت میں وہ بھی موجود ہیں۔
یہ تو عام انسانوں کی خواہش کی چند چیزوں کا ذکر ہے اور جنت میں بلاشبہہ یہ سب چیزیں بھر پور موجود ہیں ۔ لیکن اس سے آگے اللہ تعالیٰ کی رضا، اللہ تعالیٰ کی وہ معرفت جس کا اس دنیا میں امکان نہیں، اور پھر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور اس کا دیدار___ یہ جنت کی وہ نعمتیں اور لذّتیں ہیں جن کی چاہت سے اللہ کے خاص بندوں کے سینے بھرے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا اپنے ان چاہنے والوں کی اس چاہت کو بھی وہاں پورا کرے گا۔
اس کے بعد اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی سن لیجیے۔ ارشاد فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک اور فرماںبردار بندوں کے لیے جنت میں جو نعمتیں اور لذت وراحت کے جو سامان تیار کیے ہیں وہ ایسے اچھوتے اور البیلے ہیں کہ کسی آنکھ والے کی آنکھ نے ان کی جھلک تک نہیں دیکھی، اور کسی کے کان میں ان کی بھنک تک نہیں پڑی، اور کسی کے دل میں ان کا خیال اور خطرہ بھی نہیں گزرا ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں : مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ (بخاری، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ، حدیث: ۳۰۸۸)
ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلے میں اور سن لیجیے ، جس میں آپ ؐ نے جنت کے عیش اور دوزخ کے عذاب کی شدت کو ایک خاص عنوان سے سمجھانا چاہا۔
آپ ؐ نے فرمایا: آخرت میں اللہ تعالیٰ ایک ایسے شخص کو طلب فرمائے گا، جس نے دنیا میں خدا سے بے تعلق اور بے خوف ہو کر اور اس کے احکام سے بے پروا ہو کر کفر اور شرارت کی زندگی گزاری ہو گی اور دنیا میں ایسے عیش وآرام سے رہا ہوگا کہ کبھی کسی تکلیف کا اس نے منہ بھی نہ دیکھا ہو گا۔ پھر فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اس کو دوزخ کی ہوا کھلا لائو ۔ فرشتے حکم کی تعمیل کریں گے اور اس کو دوزخ کی ذرا آنچ دکھا کر نکال لائیں گے۔ اسی سے اس کا یہ حال ہو جائے گا کہ سر سے پائوں تک بس تکلیف اور بے چینی ہو گی، چیخے گا اور تڑپے گا۔ پوچھا جائے گا کیا حال ہے ؟ بے چارہ اپنی تکلیف اور اپنے دکھ کا حال بیان کرے گا۔ پھر پوچھا جائے گا کچھ یاد ہے کہ اس سے پہلی زندگی میں، یعنی دنیا میں تُو کیسے عیش وآرام سے رہا تھا۔ وہ بندہ غالباً قسم کھا کر کہے گا کہ خدا وند ا میں نے عیش وآرام کی کبھی صورت بھی نہیں دیکھی ، میں تو بس اس تکلیف ہی کو جانتا ہوں جس میں اس وقت مبتلا ہوں۔ گویا دوزخ کی آگ کی صرف ہوا لگ جانے سے آدمی اس دنیا کی پوری زندگی کے عیش وراحت کو بالکل بھول جائے گا ___ !
حضوؐر فرماتے ہیں کہ پھر ایک ایسے نیک بندے کو بلایا جائے گا جو دنیا کی زندگی میں ہمیشہ تکلیف اور پریشانی ہی میں رہا تھا اور فرشتوں کو حکم ہو گا کہ جائو ہمارے اس بندے کو ذرا جنت کی ہوا کھلا لائو۔ فرشتے اس حکم کی بھی تعمیل کریں گے اور اس کو جنت کی فضا میں سے گزار کر لے آئیں گے۔ بس جنت کی ہوا لگنے اور اس کی فضا میں سے صرف گزر جانے سے اس بندے کو ایسا چین وسکون اور ایسا عیش و سُرور حاصل ہو گا کہ پہلی زندگی کی ساری عمر کی تکلیف بھول جائے گا، اور جب اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ بندے کچھ یاد ہے کہ پہلی زندگی کیسی تکلیف سے گزری تھی، تو وہ عرض کرے گا کہ میرے پیارے پروردگار! مجھے تو کسی تکلیف کی صورت دیکھنا بھی یاد نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پورے بیان کا حاصل یہی ہے کہ آخرت کی تکلیفیں اور وہاں کا عذاب اتنا سخت ہے کہ اس کا ایک لمحہ اس دنیا کے عمر بھر کے عیش کو بھلا دے گا ۔ اور اسی طرح وہاں کا عیش وآرام اور وہاں کی لذتیں ایسی ہیں کہ انھیں صرف دیکھ کر بندہ ساری عمر کی تکلیفیں بھول جائے گا۔
دوزخ اور جنت کے متعلق قرآن وحدیث کے ان بیانات پر الحمدللہ ہمارا ایمان ہے اور ہم آپ سب اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ سب حق ہے اور اس دنیا سے جانے کے بعد ہم یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ ہمیں اس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہہ نہیں ہے۔
اسی طرح ہم میں سے جو غریب یہ جانتے ہیں کہ وہ اگر آج مزدوری نہیں کریں گے تو کل ان کے بچوں کو فاقہ ہو جائے گا۔ وہ گھر میں نہیں بیٹھے رہتے بلکہ دسمبر جنوری کی سخت کڑاکے کی سردی میں بھی اور جون کی جُھلسا دینے والی لُو میں بھی وہ بے چارے باہر نکل کر مزدوری کرتے ہیں۔ اسی طرح ملازم پیشہ حضرات چونکہ جانتے ہیں کہ اگرہم بر وقت ڈیوٹی پر نہ پہنچیں گے تو ہم سے باز پُرس ہو گی اور ہماری ملازمت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس لیے خواہ جی چاہے یا نہ چاہے بے چارے ڈیوٹی پر جانے اور وہاں کی مقررہ خدمت انجام دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ صرف اس لیے کہ اس دنیا کے نفع نقصان اور یہاں کے اپنے معاملات کے نتائج کا جو علم ویقین ہمیں اپنے ذریعوں سے حاصل ہوا ہے وہ ہم سے یہ سب کچھ کرا لیتا ہے۔
اب دیکھیے کہ آخرت کے نتائج کے بارے میں جو باتیں ہمیں اللہ کی مقدس کتاب اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے معلوم ہوئی ہیں اور جن پر ہم ایمان لائے ہیں ان کے علم ویقین کا ہماری زندگی پر کتنا اثر ہے ؟___ میرے نزدیک یہ کوئی باریک علمی مسئلہ نہیں جس کا سمجھنا کسی کے لیے مشکل ہو۔ ہر شخص خود ہی سوچے کہ وہ دنیا کی آگ اور دنیا کے سانپوں بچھوئوں سے بچنے کی جتنی فکر کر تا ہے، کیا آخرت کی دوزخ والی آگ اور دوزخ کے سانپوں بچھوئوں سے بچنے کی وہ اتنی فکر کر رہا ہے، اور کیا یہاں کی بھوک پیاس سے اور یہاں کی تکلیفوں مصیبتوں سے بچنے کے لیے وہ جو محنت اور جیسی دوڑ دھوپ کرتا ہے کیا ویسی ہی وہ آخرت کی بھوک پیاس اور دوزخ کے عذاب سے بچنے کے لیے کر رہا ہے؟
اسی طرح ہر شخص سوچے کہ اس دنیا میں آرام اور عزت حاصل کرنے کے لیے اور ترقی کے بلند درجوں پر پہنچنے کے لیے وہ جیسی فکر اور جیسی جدوجہد کر رہا ہے، کیا جنت کا عیش اورآخرت میں سرفرازی اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے بھی وہ ویسی ہی فکر اور جدوجہد کر رہا ہے؟ ۔
یقینا آپ سب کا بھی یہی خیال ہو گا کہ ہم میں اکثر کا بلکہ قریب قریب سب کا حال اس کے خلاف ہے___آخر ایسا کیوں ہے ؟
اس وقت پیش نظر مقصد یہی ہے کہ آپ کو اس سوال کی طرف اور اس صورتِ حال کی طرف توجہ دلائوں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جو قرآن مجید نے ایمان نہ لانے والوں کی اور اللہ ورسول ؐ کی باتوں کا یقین نہ کرنے والوں کی بتلائی ہے --- ایک جگہ ارشاد ہے: کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o(القیامۃ ۷۵:۲۰-۲۱)’’اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے : اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَیَذَرُوْنَ وَرَآئَ ھُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا o (الدھر ۷۶:۲۷) ،یعنی ان کا حال یہ ہے کہ ان کو دنیا کی تو چاہت ہے اور آخرت کے مسئلے کو انھوں نے پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔
میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ہم سب ایمان سے خالی اور خدا اور رسول ؐ کے منکر ہو چکے ہیں، بلکہ میں اپنے بشری علم کے مطابق الحمدللہ شہادت دے سکتا ہوں کہ ہم آپ جو یہاں ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اس طرح کے ہمارے وہ سب بھائی جو دنیا کے کسی علاقے میں بھی بس رہے ہیں، الحمدللہ! ہم سب کے دلوں میں ایمان موجود ہے اور ہم اللہ اور اللہ کے رسول ؐ کی تمام باتوں اور ساری خبروں کو بالکل حق جانتے ہیں اور حق مانتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ ہماری زندگی ایمان والی نہیں ہے ، یا دوسرے لفظوں میں اس کو آپ یوں کہہ لیجیے کہ ہماری زندگی ہمارے ایمان سے مطابقت نہیں رکھتی ___میں آپ کو بس اس سوال کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟
زندگی میں تضاد کا سبب:اس کی اصل وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہمارا آخرت والا یقین جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعے ہمیں ملا تھا، وہ ہمارے دنیا والے اُن یقینوں کے مقابلے میں کمزور ہو گیا ہے جو ہمیں اپنے مشاہدے اور تجربے وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں اور ان کے نیچے گویا دب کر بے اثر اور بے جان ہو گیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا والا یقین ہم سے اپنے سارے تقاضے پورے کرا لیتا ہے لیکن آخرت والا یقین ہم سے اپنے تقاضے اور اپنے مطالبے پورے کرانے سے عاجز رہتا ہے۔ آپ اس کو واقعاتی مثالیں سامنے رکھ کر سوچیے۔
مثلاً ایک شخص ہے اس کو اللہ اوررسول ؐ کے احکام کے مطابق زکوٰۃ دینی چاہیے۔ اب اپنے ذاتی علم وتجربے سے اس کو ایک یقین تو یہ ہے کہ جتنی رقم میں زکوٰۃ کی دوں گا میری دولت میں اتنی کمی ہو جائے گی اور اس طرح میرا مالی نقصان ہوگا ، اور ایک دوسرا یقین یا عقیدہ اس کا یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ فرض ہے۔ اس کا ادا نہ کرنا بہت بڑا جرم اور سخت ترین گناہ ہے جس کے نتیجے میں آدمی کو دوزخ کا نہایت درد ناک عذاب بھگتنا پڑے گا۔ اب ظاہر ہے کہ اگر دوسرا یقین پہلے یقین کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہو اور اس سے دبا ہوا نہ ہو تو آدمی یقینا زکوٰۃ ادا کرے گا، لیکن اگر یہ دوسرا یقین کمزور ہو اور پہلا والا یقین زیادہ طاقت ور ہو تو پھر زکوٰۃ اس کی جیب سے نہیں نکلے گی۔
اسی طرح فرض کیجیے کہ ایک شخص حکومت کے کسی عہدے پر ہے۔ کسی معاملے میں اس کو ایک ہزار روپیہ کی رشوت پیش کی جاتی ہے۔ اب اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے سے اس کو ایک یقین تو یہ ہے کہ یہ رقم اگر میں لے لوں گا تو اس سے میری دولت میں اضافہ ہو گا، میرے بہت سے کام نکلیں گے، اور دوسری طرف وہ بہ حیثیت مسلمان اس بات پر بھی یقین اور عقیدہ رکھتا ہے کہ رشوت حرام ہے اور اس کے لینے والے پر خدا کی لعنت ہے، اور دوزخ میں اس کو اس کا سخت ترین عذاب بھگتنا ہو گا۔ اب اگر وہ دوسرے یقین کو نظر انداز کر کے رشوت لے لیتا ہے تو اس کا سبب صرف یہی ہوتا ہے کہ اس کا دوسرا یقین کمزور ہے اور پہلے یقین سے دبا ہوا ہے۔
الغرض ہماری زندگی میں جو یہ تضاد ہے کہ ہم عقیدہ کے لحاظ سے مسلمان ہیں اور ہماری غالب اکثریت کی عملی زندگی ایمان واسلام کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے، اس کی اصل وجہ اور علۃ العلل یہی ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت کے بارے میں وہ یقین جو انبیاے علیہم السلام کے ذریعے ہمیں ملا تھا نہایت کمزور ہو گیا ہے، اور ہمارے دنیا والے وہ یقین جو ہمیں اور عام انسانوں کو اپنے مشاہدے اور تجربے وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں اس پر پوری طرح غالب آ گئے ہیں۔
صحابہ کرامؓ کے حالات آپ نے سنے ہوں گے اور آپ میں سے بہت سے حضرات نے کتابوں میں بھی پڑھے ہوں گے۔ ان کی زندگی کا نقشہ ہمیں بالکل دوسرا نظر آتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کا آخرت والا یقین اتنا جان دار اور طاقت ور تھا کہ ان کے مشاہدے اور تجربے والے اس دنیا کے یقینوں پر غالب تھا۔ ایک تابعی بزرگ غالباً سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کو دیکھا ہے، ان کا امتیاز یہ نہیں تھا کہ وہ نماز روزہ جیسی عبادات میں تم سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ آگے ان کے الفاظ: وَلٰکِنَّہ شَیءٌ وقرنی قُلُوْبھم، یعنی ان کا اصل امتیاز بس یہ تھا کہ ان کے دلوں میں اللہ اور آخرت کا یقین ایسا جما تھا کہ ان کی پوری زندگی اور ان کا تمام ظاہر وباطن اس کے نیچے دبا ہوا تھا۔ ہمارے لیے جس طرح یہ مشکل ہے کہ ہم اپنے مشاہدے اور تجربے والے یقینوں اور ان کے تقاضوں سے بے فکر اور بے پروا ہو کر زندگی گزاریں، اسی طرح ان کے لیے یہ مشکل بلکہ نا ممکن ہو گیا تھا کہ اللہ اور یومِ آخرت والے یقین اور اس کے مطالبات سے آزاد ہوکر کوئی قدم اٹھا سکیں۔
اب ہمارے اور آپ کے سامنے دو راہیں ہیں:
ایک یہ کہ دین اور ایمان کے لحاظ سے اس وقت جو ہماری حالت ہے ہم خدا نخواستہ اس پر مطمئن ہوں اور اس میں تبدیلی کے لیے ہم میں کوئی بے چینی نہ ہو، اور دن اسی طرح گزرتے رہیں اور ہم اسی حال میں جیتے اور مرتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب تک ہمارے دلوں میں ایمان کا کوئی ذرہ ہے ہم اس راستے کو شعوری طور پر ہرگز نہیں اپنا سکتے، اور میں کہہ سکتا ہوں کہ شاید آپ میںسے کوئی ایک بندہ بھی جان بوجھ کر اس کو پسند نہیں کرے گا۔
دوسری راہ یہ ہے کہ جس طرح ہم دنیوی زندگی کے بگاڑ سے اور یہاں کی بیماریوں، بربادیوں سے فکر مند ہوتے ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ،اسی طرح ہم اپنے اس دینی بگاڑ اور اُخروی تباہی وبربادی سے فکر مند ہوں اور اپنی حالت کو درست کرنے کی اور اپنی زندگیوں کو ایمان والی زندگی بنانے کی جدوجہد کریں۔ ظاہر ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا فیصلہ یہی ہو گا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ کام کس طرح ہو ؟
یہ تو عرض کیا جا چکا ہے کہ ہمارے اس سارے بگاڑ کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ ہمارا ایمان والا یقین کمزور ہو گیا ہے اور دنیا والے ہمارے یقین اس پر غالب آ گئے ہیں۔ اس لیے اب ہمیں صرف اس کی جدوجہد کرنی ہے کہ ہمارے یقین کا کانٹا درست ہو جائے، یعنی اس دنیا میں جو کچھ ہم اپنے مشاہدے اور تجربے سے جانتے ہیں ہمیں اس پر بھی یقین ہو، لیکن اس سے بھی زیادہ گہرا اور پکا یقین ان باتوں پر ہو جو اللہ اوررسول ؐ کے بتلانے سے ہمیں معلوم ہو ئی ہیں۔ بس یہ ہی ہمارا اصل مسئلہ ہے!
اس کے بعد صاف عرض ہے کہ اگر ہماری تقریروں سے ہی یہ بات حاصل ہو سکتی تو مسئلہ بڑا ا ٓسان تھا۔ آپ کو کچھ بھی کرنا نہ پڑتا ۔ ساری محنت ہم کرتے یا تقریر کرنے والے دوسرے حضرات کے پائوں پکڑتے اور ان سے کہتے کہ اُمت میں ایمان والا یقین پھر سے پیدا کرنے کے لیے خوب تقریریں کیجیے اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیے ! اسی طرح میں صاف کہتا ہوں کہ اگر کوئی تعویذ، کوئی وظیفہ، کوئی جادو ایسا ہوتا کہ بس اس سے کام چل جاتا جب بھی مسئلہ بڑا آسان ہوتا ۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ کسی تعویذ اور وظیفے سے بھی یہ کام بننے والا نہیں ہے۔
ایمان والے یقین کو بڑھانے کی اور دوسرے دُنیوی یقینوں پر اس کو غالب کرنے کی ہمیشہ سے ایک ہی راہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کو ایسے دینی اور ایمانی کاموں میں لگا دے جو ایمان ویقین کو بڑھانے والے ہوں، اور اگر اس کا ماحول ایمان ویقین کے لیے ساز گار نہیں ہے تو کم ازکم کچھ عرصے کے لیے کسی ایسے ماحول میں رہے جس میں ایمان ویقین کی ترقی کا سامان ہو۔ صحابہ کرامؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت والا ایمان آفرین ماحول نصیب تھا اور انھوں نے اپنے کو دین کے ان کاموں میں پوری طرح جھونک دیا تھا جو ایمان ویقین کو بڑھانے والے تھے۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ ان کا ایمانی یقین ان کی دوسری تمام بشری معلومات پر غالب تھا۔ پھر قرونِ اولیٰ کے بعد بزرگانِ دین، یعنی صوفیاے کرام نے ایمان ویقین کی ترقی کے لیے جو راہ اختیار کی اس میں بھی بنیادی چیز یہی تھی۔
ہمارا یہ دور عوامی تحریکات کا دور ہے اور ساتھ ہی دین کی طرف سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف سے بے فکری کا دور ہے۔ اس دور میں اس مقصد کے لیے کسی ایسے طریقۂ کار اور ایسی جدوجہد کی ضرورت تھی جو عوامی بھی ہو اور بے طلبوں اور بے فکروں کو کھینچنے کا اس میں کچھ انتظام ہو، ___ یہ تبلیغ ودعوت کی جدوجہد دراصل اسی مقصد کی ایک عوامی کوشش ہے۔
آج صورت یہ ہے کہ ہمارے امیروں اور غریبوں کا، ہمارے بڑوں اور چھوٹوں کا، ہمارے پڑھوں اور بے پڑھوں کا، سب کا ماحول غیر دینی ہے۔ سوچیے ہمارا ماحول کیاہے؟
ہمارا گھر، ہمارا محلہ ، ہمارے اسکول، ہمارے کالج، ہمارے دفتر، ہماری کچہریاں، ہمارے کارخانے ، ہمارے کھیت کھلیان ، ہمارے بازار اور ہماری منڈیاں ، سب کی زندگیاں بس انھی ماحولوں میں تو گزر رہی ہیں، اور ہم آپ سب جانتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں آج اللہ اور آخرت کو یاد دلانے والی نہیں، بلکہ بھلانے والی ہیں۔ اسی طرح آج ہمارے جو مشاغل ہیں اور ہمارے کھانے کمانے کے جو ذریعے ہیں وہ بھی ہمارے ایمان والے یقین کو غذا پہنچانے والے نہیں بلکہ دیمک کی طرح کھاکے اس کو کمزور کرنے والے ہیں۔ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگیوں کا پروگرام ایسا ہو کہ کچھ دنوں٭ کے لیے ہم اپنے مشغلوں اور ماحولوں سے نکل کر جنھوں نے ہمارے ایمان ویقین کو کمزوری کی اس حد تک پہنچا دیا ہے، کسی ایسے ماحول اور ایسے مشغلے اور ایسی فضا میں کچھ وقت گزارا کریں جو ایمان ویقین کے لیے ساز گار اور اس کو غذا پہنچانے والی ہو۔
آپ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں۔آخر کب تک زندگی کی گاڑی غلط راستے پر چلائی جائے گی اور کب تک ایمان کے دعووں کے ساتھ غیر ایمانی زندگی گزاری جائے گی___ میں بغیر کسی تکلف اور حجاب کے کہتا ہوں کہ آپ میں سے جو حضرات ایسے مسائل پر غور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں وہ اس مسئلے پر پوری سنجیدگی سے غور کریں، اور میرے جو بھائی ہم لوگوں پر اعتماد کر کے ہماری بات مان سکتے ہوں وہ اعتماد کر کے مانیںاور آگے بڑھیں۔ ہماری بات مان کر آپ کچھ کھوئیں گے نہیں بلکہ اپنے دین وایمان کو درست کر لیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کی دنیا بھی درست کر دے گا۔ صحابہ کرامؓ نے دین کو اصل مقصدِ زندگی بنا کر اس کی فکر کی تھی، اللہ تعالیٰ نے دنیا خود ان کے قدموں میں ڈال دی۔ وہی اللہ اب بھی ہے اور اس کا قانون اب بھی وہی ہے۔