ہمارے ہاں بھی عجیب لوگ پائے جاتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں: ’خلافت‘ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے… پھر یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں ’قومی ریاست‘ کا تصور نہیں پایا جاتا، اور طبیعت میں جوش آجائے تو کہہ گزرتے ہیں کہ ’جمہوریت نظامِ کفر ہے‘۔
پہلے لفظ ’خلافت‘ پر غور کر لیا جائے___ یہ لفظ قرآنِ مجید میں نیابت کے معنی میں استعمال ہوا ہے: ’’میں زمین پر اپنا نائب (خلیفہ) بنانے والا ہوں‘‘(البقرہ ۲:۳۰)۔ چنانچہ پہلے انسان کی تخلیق عمل میں آگئی۔ قرآنِ مجید کے انگریز مترجمین نے ’خلیفہ‘ (Vicegerent)کا ترجمہ زیادہ تر ’وائسراے‘ کیا ہے، یعنی وہ حاکم جسے سلطنت کے اصل بادشاہ کی جانب سے اختیارات تفویض (delegate) کیے جائیں۔ وہ اختیارات کے استعمال کے لیے بادشاہ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے اور یہ اختیارات غیرمحدود بھی نہیں ہوتے۔ ’خلافت‘ سے مراد ایسی ریاست لی گئی، جسے اللہ کے ان بندوں نے قائم کیا ہو، جو اس کی بادشاہت یا حاکمیت ِ اعلیٰ (Sovereignty) پر پورا یقین رکھتے ہوں اور اس کے دیے ہوئے اختیارات سے تجاوز نہ کرتے ہوں۔ لہٰذا، تاریخ کے اوراق ایک ایسی ریاست کے وجود میں آنے کی گواہی ضرور دیتے ہیں جسے مؤرخین بالاتفاق ’خلافت‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ ریاست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی تھی۔ اس کے ذریعے اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان لانے والوں اور ریاست کے ماتحت بندوں پر اللہ تعالیٰ کے احکام، یعنی شریعت ِ خداوندی کا نفاذ کیا گیا تھا۔
تاریخی طور پر اسے ’خلافت‘ کا نام اس وقت سے دیا جاتا ہے، جب پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا اور ان کے جانشین نے دارالحکومت کے مسلمانوں کی بیعتِ خاص اور بیعتِ عام کی طاقت کے بل بوتے پر انتظامِ حکومت سنبھالا، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفۃ النبیؐ کہلائے۔ یہاں عربی زبان میں لفظ خلیفہ کے دوسرے معنی سامنے آجاتے ہیں: ’’ایک کی جگہ دوسرا لینے والا‘‘۔ ایک پتّا جب اپنی عمر پوری کرکے درخت سے ٹوٹ کر گر جاتا ہے، تو نئی کونپل پھوٹتی ہے اور پہلے کی جگہ نیا پتّا نکل آتا ہے۔ عربی زبان کی رُو سے اسے بھی خلیفہ کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب مسنداقتدار سنبھالی تو ظاہر ہے کہ وہ نبیؐ کی جگہ نبی نہیں بنے تھے، بلکہ نبیؐ کی قائم کردہ ریاست کے سربراہ کی خالی مسند پر تشریف فرما ہوئے تھے۔ ان کی وفات پرمسلمانوں کی زمامِ اقتدار حضرت عمرؓ کے سپرد ہوئی، تو شروع میں انھیں ’خلیفۃ النبیؐ، کہا جانے لگا۔ یہ ادق اصطلاح تھی اور زبانوں پر رواں نہیں ہوتی تھی، لہٰذا اس کے بجاے ’امیرالمومنین‘ کے خطاب کو رواج دیا گیا، یعنی ان لوگوں کا سربراہِ حکومت و سلطنت جو ایمان والے ہیں اور مسلمان ہیں۔ جن شہریوں نے اسلام قبول نہ کیا، ریاست کے فرمان بردار ہونے کی صورت میں ان کے جان و مال یہاں تک کہ عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری لی گئی، مگر ان کا علیحدہ تشخص قائم ہوا۔
آپ بھلے کہتے رہیں: ’خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں‘… مگر قرآنِ مجید کی اس آیتِ کریمہ کا کس طرح انکار کرسکتے ہیں، جس میں ارشاد ہے: ’’جن لوگوں کو ہم زمین پر اقتدار بخشتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں‘‘(الحج ۲۲:۴۱)۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ غریبوں کی ضروریات پوری کرتے اور اعلیٰ انسانی قدروں کو فروغ دیتے ہیں۔ حکومت تو معلوم انسانی تاریخ کے دوران انسانوں کے ایسے لاتعداد گروہوں اور قوموں کو بھی دی گئی، جنھوں نے نہ نماز قائم کی اور نہ معروف معنوں میں زکوٰۃ ہی کا نظام جاری کیا، لیکن قرآنِ مجید کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ حکومت و سلطنت یا ریاست وہی ہوگی، جو اس کے قائم کردہ معیار پر پوری اُترے گی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب خلیفۂ اوّل کے طور پر آںحضوؐر کی تخلیق کردہ مسند اختیارسنبھالی تو نمازوں کی امامت اپنے ذمے لی اور پہلی جنگ منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف لڑی۔ یہ لوگ ریاست کے باقاعدہ شہری تھے اور اس کی سرحدوں کے اندر رہتے تھے۔ باہر کے لوگوں سے زکوٰۃ کی ادایگی سے انکار پر ان کے خلاف آمادۂ جنگ ہونے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
اور یہ ’سرحدوں کے تقدس‘ کے حوالے سے بھی عجیب بات اُچھالی جارہی ہے۔ ریاست انسانوں کے ایک خاص گروہ یا قوم کے گھر کا نام ہوتا ہے۔ آپ ذاتی زندگی میں اپنے افرادِ کنبہ کو بسانے کے لیے جائز طور پر ایک قطعۂ زمین حاصل کرتے ہیں، اس پر گھر بناتے ہیں اور گھر کی چاردیواری تعمیر کرتے ہیں۔ اس چار دیواری کا تقدس کیا آپ کے ذہن و قلب میں نہیں پایا جاتا؟ کیا آپ کسی کو اسے پامال کرنے کی اجازت دیں گے؟ ریاست خواہ اسلامی ہو یا غیراسلامی، خلافت ہو یا آمریت اور بادشاہت، وہ اپنے شہریوں کے لیے محفوظ گھر کا درجہ رکھتی ہے۔ لامحالہ اس کی سرحدیں ہوتی ہیں، ان کی حفاظت پورے ریاستی نظام کی ذمہ داری قرار پاتی ہے اور اسی کو تقدس کہتے ہیں۔ سرحدیں پھیلتی اور سکڑتی بھی رہتی ہیں۔ خلافت کے جس دور کا آغاز حضرت ابوبکرؓ سے ہوا اور حضرت علیؓ کی شہادت پر ختم ہوگیا، اسی عہد کو ’خلافت ِ راشدہ‘ کا نام دیا جاتا ہے اور مسلمان اسے اپنی تاریخ کا سنہری دور تصور کرتے ہیں۔ تمام کے تمام غیرمسلم مؤرخین بھی انھی برسوں کو ’خلافت‘ کے نام سے ممیز کرتے ہیں۔
اس کے بعد مسلمانوں کی ملوکیتیں اور بادشاہتیں وجود میں آئیں۔ ان کی وجہ سے اسلامی ریاست یا خلافت کا یہ معیاری اصول نظروں سے اوجھل ہوگیا کہ مسلمانوں کا سربراہِ حکومت، آزادانہ ماحول کے اندر منعقد ہونے والی بیعت کی طاقت پر کرسیِ اقتدار پر فائز ہوتا ہے۔ بادشاہت نے غلبہ پایا تو باپ کی جگہ بیٹے نے بیعت لینا شروع کر دی بلکہ بہت سی مثالوں میں تو باپ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے بیٹے کے حق میں جوڑتوڑ میں لگ گئے۔ مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے ان کے لیے امیرالمومنین کا لقب پسند نہ کیا، اگرچہ اُموی اور عباسی ملوک اصرار کے ساتھ یہ سابقہ لگایا کرتے تھے، مگر مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ کے دوران ان کے اَدوار کو بادشاہت ہی سے تعبیر کیا۔
عباسیوں کی جگہ مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاستی طاقت کی حیثیت عثمانیوں نے لی۔ وہ خود کو خلیفہ کے بجاے سلاطین کہلاتے تھے۔ اطراف و اکناف عالم میں ان کی حکومت اپنے دورِعروج میں ۵۰۰سال تک سلطنت عثمانیہ کہلاتی رہی۔ جس میں ایک شیخ الاسلام کا تقرر ہوتا تھا اور فقہ حنفی پر مشتمل اسلامی قوانین کا بھی بھلا چنگا نظام رُوبۂ عمل تھا۔ یہ تو انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے کہ جب وہ سلطنت اندر سے کمزور ہوگئی، تو ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوگیا۔ روس کے ساتھ جنگوں نے اس کا بیرونی دفاع بھی کمزور کر دیا۔ تمام کی تمام یورپی طاقتیں اس سلطنت کے وجود کی دشمن ہوگئیں۔ تب ترکی کے سلطان نے مسلمانانِ عالم کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے خلیفہ کا لقب اختیار کرلیا حالاں کہ وہ تھی تو اصل میں ملوکیت ہی ،اگرچہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی قوت کی علامت تھی۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ چودہ سو سالہ تاریخ کے دوران مسلمانوں کے نزدیک خلافت کے حقیقی ماہ و سال وہی تھے، جو حضرت ابوبکرؓ کی حکومت سے شروع ہوئے اور حضرت علیؓ کے دور پر منتج ہوئے۔ بجاطور پر اسی کو مثالی دور سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ اسلامی اصولوں اور ریاست کے دنیوی تقاضوں کا ملاپ اسی عہد میں ہوا اور نہایت کامیابی کے ساتھ ہوا۔ مسلمان آج تک اگر اسے مثالی مانتے ہوئے اس کی قدروں کا احیا چاہتے ہیں تو یہ کوئی نامناسب خواہش نہیں ہے۔ تاہم، سیاست و ریاست کے نظام و انتظام کو چلانے کے لیے اداراتی سطح اور سماجی سطح پر جو بہت سی نئی صورتیں سامنے آئی ہیں، ان کے مقتضیات قطعی مختلف ہیں۔ تاہم، اس زمانی تبدیلی کے باوجود دین تو وہی ہے اور خلافت ِ راشدہ نے جن دینی اور دُنیوی اقدار کو فروغ دیا ہے، ان اسلامی اقدار کی مظہر ریاست کے قیام کی شدید خواہش اور تمنا ہرمسلمان کے دل میں پائی جاتی ہے، جو ایک فطری امر ہے۔
سیکولر دنیا کے فکری امام افلاطون نے کوئی سوا دو ہزار سال پہلے ’خیالی جنّت‘ (Utopia) کا تصور پیش کیا تھا، جو کبھی وجود میں نہیں آسکی۔ لیکن مغرب کی تمام قوموں کی جدوجہد اس ’خیالی جنّت‘ کے قریب تر تصور تک پہنچنے پر مرکوز رہی ہے۔ اس کی خاطر انھوں نے نظریاتی اور عملی لحاظ سے بے شمار کامیاب و ناکام تجربے کیے ہیں، مگر اپنے معیار یا ’خیالی جنّت‘ کے حصول کو ہمیشہ سامنے رکھا ہے۔ ہماری مثالی ’جنّت‘ تو وہ ہے جو ایک مرتبہ قائم ہوکر اپنا جلوہ دکھا چکی ہے۔ اگرچہ ہمارے اہلِ علم اجتہاد کا نام تو بہت لیتے ہیں، مگر عملی و فکری سطح پر معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔خلافت ِ راشدہ کے بارے میں اس بات پر عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ اس میں جمہوری اسپرٹ رچی بسی تھی۔ جب یہ باقی نہ رہی تو سب کچھ موروثی ہوگیا اور ملوکیت یا بادشاہت چھاگئی۔ مجرد سیکولر جمہوریت کے برعکس مسلمانوں کی جمہوریت کی اوّلین اور بنیادی خصوصیت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ ہے، تو خلافت ِ راشدہؓ میں بھی بالادست نظریہ یہی تھا۔
اہلِ مغرب کو اس سے تکلیف ہرگز نہیں کہ آپ خلافت کے نام پر کوئی ریاست قائم کرلیں۔ انھیں اصل خدشہ یہ ہے کہ اسلام اور جمہوریت کا دوبارہ ملاپ ہوکر، مسلم دنیا میں، مسلم عوام کی مرضی سے ایک خودکار نظام وضع نہ ہونے پائے۔ کیوں کہ اس طرح تو اسلام اور مسلمان دونوں ہم ساز اور دم ساز (compatible) بن جائیں گے اور صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ قائم ہوجائے گی۔ اسے اگر خلافت کا نام نہ بھی دیا جائے تو بھی اس کی شورائی اور خلافتی روح اس میں کارفرما ہوسکتی ہے۔ اسی لیے ۲۵سال پہلے جب الجزائر میں اسلامی فرنٹ (FIS)کی منتخب حکومت قائم ہوا چاہتی تھی تو مغربی جبروا ستبداد پورے قہر کے ساتھ اس ملک پر نازل ہوا۔ ہزاروں افراد کا بے دریغ قتل کرکے فرانس اور امریکا نواز آمریت قائم کر دی گئی۔ ۲۰۱۳ء میں مصر جیسے اہم ترین عرب ملک میں محمدمرسی وہاں کے پہلے منتخب صدر ہوئے، جو اسلامی نظریات کے علَم بردار تھے۔ ان کی حکومت ایک سال نہ چلنے پائی تھی کہ اسے فوجی شب خون کے ذریعے اُڑا کر رکھ دیا گیا۔ امریکا و یورپ اور اُن کے زیراثر چند مؤثر مسلم ممالک نے نئی آمریت کی کھل کر حمایت کی کہ کہیں اسلام اور جمہوریت کا ملاپ ظہور میں نہ آجائے۔
پاکستان میں بھی اس تجربے کو کامیاب ہونے سے بار بار روکا گیا۔ ہم نے طویل جدوجہد کے بعد اسلام اور جمہوریت کے امتزاج کا حامل آئین بنایا، جسے باربار اکھاڑ پھینکا گیا یا معطل کردیا گیا۔ امریکا نے ہمارے ہاں ہرفوجی آمریت کی پشت پناہی کی، مگر ابوبکر البغدادی نے ’خلافت‘ کے نام سے خلافت کے تصور کو جو بدنام کرنا شروع کیا، تو اس سے مغرب والوں کی روح بہت مسرور ہوئی۔ اس لیے کہ داعش اور اس کی ہم خیال تنظیموں کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے ماتھے پر ’دہشت گردی‘ کا لیبل چسپاں کرنا آسان ہوگیا ہے اور یہی ان کا مقصود ہے۔ مگر ہمارے بعض دانش ور حضرات خلط مبحث کرتے ہوئے بلاوجہ خلافت کی اصطلاح کے دینی یا غیردینی ہونے کی بحث میں پڑے ہوئے ہیں۔
بحیثیت قوم اور بحیثیت معلم و سیاست دان ، ہماری توجہ، کھلے عام افہام و تفہیم کے ذریعے جمہوری انداز میں نظام کو تبدیل کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے، نہ کہ جمہوریت کی مذمت کرتے کرتے اسلام کی شورائی روح ہی کو کچل دینے کا آلۂ کار بن جانا چاہیے۔