ڈاکٹر امجد طفیل


حسن جعفر زیدی، علامہ اقبال کو ’خالق تصور پاکستان‘ کہے جانے پر بھی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ بقول ان کے، ’’ اقبال نے نہ تو اپنی کسی تحریر میں لفظ پاکستان استعمال کیا اور اگر کسی نے یہ تاثر دینا چاہا تو اقبال نے اس کی سختی سے تردید کی‘‘۔ جہاں تک پہلی بات ہے، وہ تو بالکل درست ہے کہ اقبال نے شمال مغربی ہندستان میں ایک مسلم ریاست کے قیام کی بات تو کی ،لیکن اس ریاست کے لیے کوئی نام تجویز نہیں کیا، لیکن جب اقبال کے تصور سے ملتی جلتی ایک ریاست وجود میں آ گئی اور اس کا نام پاکستان رکھا گیا، تو کیا اس سے صاف انکار کر دیا جائے گا کہ اس ریاست کے قیام میں اقبال کا کچھ حصہ نہ تھا؟

اس حوالے سے ہمیں اقبال کے قائد اعظم کے نام خطوط کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جن میں انھوں نے کھل کر اپنے تصورات کا اظہار کرتے ہوئے ہندستان کے مسلمانوں کی سیاسی سمت کا تعین کیا۔ اقبال نے ۲۰مارچ ۱۹۳۷ءکو قائداعظم کے نام خط میں لکھا:

I suppose you have read Pandit Jawaharlal Nehru's address to the All  India  National Convention and that you fully realize the policy under lying it in so far as Indian Muslims are concerned. I believe you are also aware that the new constitution has at least brought a unique opportunity to Indian Muslims for self organization in view of the future political development both in India and Muslim Asia. While we are ready to co-operate with other progressive parties in the country, we must not ignore the fact that the whole future of Islam as a moral and political force in Asia rests very largely on a complete organization of Indian Muslims. I therefore suggest that an effective  reply should be given to the All India National Convention (p29).

میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ ملاحظہ فرما لیا ہوگا، جو انھوں نے کُل ہند نیشنل کنونشن میں دیا اور اس میں اسلامیانِ ہند کے بارے میں جس حکمت عملی کا اعلان کیا گیا ہے اس کو بھی آپ نے بخوبی محسوس کیا ہوگا۔ مجھے یقین ہے، آپ اس بات سے بھی آگاہ ہوں گے کہ نئے آئین نے ہند کے مسلمانوں کو کم از کم اس امر کا ایک نادر موقع ضرور دیا ہے کہ وہ ہند اور مسلم ایشیا میں رُونما ہونے والے سیاسی حالات کے پیش نظر اپنی ملّی تنظیم کرسکیں۔ بلاشبہہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ اشتراک و تعاون کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک خود ہند کے مسلمانوں کی مکمل قومی تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری رائے ہے کہ کُل ہند نیشنل کنونشن کو ایک مؤثر جواب دینا بے حد ضروری ہے۔(پاکستان: تصور سے حقیقت تک، تالیف و ترجمہ: پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ، بزمِ اقبال، ص ۳۱-۳۲)

اسی طرح علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام اپنے ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں تحریر کیا:

After a long and careful study of Islamic law, I have come to the conclusion that, if this system of law is properly understood and applied, at least the right to subsistence in served to everybody. But the enforcement of the shariat of Islam is impossible in this country without a free Muslim state or states. This has been my true conviction for many years and I still believe this to be the only way to solve the problem of bread for Muslims and as well as secure a peaceful India (p32).

اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہرشخص کے لیے کم از کم حقِ معاش محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔(ایضاً، ص۳۴-۳۵)

قائداعظم کا اقبال کو خراجِ تحسین

قائد اعظم محمد علی جناح نے اقبال کے خطوط کے جواب میں جو کچھ تحریر کیا، وہ بدقسمتی سے دستیاب نہیں۔ یہ خطوط پہلی بار قائد اعظم کی زندگی میں اور ان کے Forward (پیش لفظ) کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔ قائد اعظم نے ان خطوط کی اہمیت اور علامہ اقبال کے ساتھ اپنے ذہنی و فکری روابط کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا :

Hence, I had no alternative but to publish the letters without my replies as I think these letters are of very great historical importance, particularly those which explain his (Iqbal) views in clear and unambiguous terms on the political future of Muslim India. His view were substantially in consonance with my own and had finally led me to the same conclusions as a result of careful examination and study of the constitutional problems facing India and found expression in due course in the united will of Muslim India as adumbrated in the Lahore resolution of the all India Muslim League. Popularly  known  as  the "Pakistan Resolution"  passed on 23  March, 1940.

چنانچہ اب میرے پاس اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں کہ میں ان مکاتیب کو اپنے جوابات کے بغیر ہی شائع کرائوں، کیونکہ میرے نزدیک یہ مکاتیب بے حد تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، بالخصوص وہ مکاتیب جن میں مسلم ہند کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات کا واضح اور غیرمبہم اظہار ہے۔ ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اور بالآخر میں ہند کے دستوری مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انھی نتائج پر پہنچا، اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہند کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی منظور کردہ قرارداد لاہور ہے جو عام طور پر ’قراردادِ پاکستان‘ کے نام سے موسوم ہے۔(ایضاً،ص ۳۱)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم ہندستان کے مسلمانوں کے مسائل کا حل ایک الگ ریاست میں دیکھ رہے تھے اور کم از کم اقبال واضح طور پر اس میں Islamic Law کا نفاذ چاہتے تھے اور قائد اعظم نے بھی اپنے ’پیش لفظ‘ میں اس سے کہیں اختلاف نہیںکیا۔

حسن زیدی، اقبال کے خالق تصور پاکستان ہونے کے رد میں یہ دلیل لاتے ہیں کہ اقبال کی وفات کے بعد، جب کُل ہند مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو اس کی صدارت کرتے ہوئے قائداعظم نے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا،لیکن ان کے اس پہلو کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ اس حوالے سے انھوں نے قائد اعظم کا جو اقتباس درج کیا ہے، وہ بالکل درست ہے، مگر کاش! وہ اس سے آگے نکل کر ۲۰مارچ ۱۹۴۳ء کے یوم اقبال پر جناح کے پیغام کا بھی مطالعہ کر لیتے، قائد اعظم لکھتے ہیں :

Iqbal was not only philosopher but also a practical politician. He was one of the first to conceive of entire feasibility of the division of India on national lines as the only solution of India's political problem. He was one of the most powerful though tacit precursors and heralds of the modem practical evolution of Muslim India.

Iqbal,  therefore,  rises  above  the  average philosopher, as the essence of his teachings  in a beautiful blend of thought and action. He combines in himself the idealism of a poet and the realism of a man who took practical view of things. In Iqbal this compromise is essentially Islamic. In fact it is nothing but Islam. His ideal therefore is life according to the teachings of Islam with a motto "Dare and Live" (Speeches, Statements & Message of the Quaid-e-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol. III, p1683-84).

اقبال محض فلسفی نہیں تھے بلکہ وہ ایک عملی سیاست دان بھی تھے۔ انھیں ان لوگوں میں اوّلیت کا مقام حاصل ہے جنھوں نے قومی بنیادوں پر ہند کے سیاسی مسئلے کا واحد قابلِ عمل حل تقسیم تجویز کیا۔ وہ مسلم ہند کے جدید سیاسی ارتقاء کے سلسلے میں ایک طاقت ور ترین مگر خاموش نقیب تھے۔ لہٰذا ،اقبال کا مقام عام فلسفیوں سے بہت بلند ہے، کیونکہ ان کے پیغام کی روح میں تخیل اور عمل دونوں کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی ذات میں ایک شاعر کا تخیل اور ایک باعمل انسان کی حقیقت پسندی کا ایسا ملاپ ہے جو مسائل حیات کے بارے میں عملی نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ اقبال میں یہ مفاہمت یقینی طورپر اسلامی ودیعت ہے۔ حقیقت میں یہ اسلام کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ اس لیے ان کا نظریۂ حیات اسلام کی تعلیمات کے مطابق یہ ہے: ’’جیو اور بے خطر جیو!‘‘(ایضاً، ص ۴۵-۴۶)

مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہو جاتا ہے کہ خود قائد اعظم ہندستان میں مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد میں اقبال کی فکر کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کے نظریات میں تبدیلی اور اسلام کی جانب جھکاؤ کے پس پردہ بھی اقبال کی فکر کارفرماتھی ۔ اب ایسی صورت حال میں ایک نئی مسلم ریاست یا ریاستوں کے قیام کے تصور کے حوالے سے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ،تو وہ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ ہاں، اگر اعتراض صرف یہ ہے کہ قائداعظم نے علامہ اقبال کے لیے خالق تصور پاکستان کے الفاظ کیوں استعمال نہیں کیے، تو اسے صرف کج فہمی اور بحث برائے بحث کہا جا سکتا ہے۔

قراردادِ مقاصد پر بعض اعتراضات

یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے ایک سیکولر کالم نگار وجاہت مسعود کے سلسلہ وار کالم بعنوان ’قرار داد مقاصد اور سیکولرازم‘ پر ایک نظر ڈالی جائے۔ (روزنامہ آج کل ، مارچ - اپریل ۲۰۱۰ء)

موصوف کا نقطۂ نظر یہ ہے:             ’قرار داد نہ صرف جمہوری اصولوں کے منافی ہے، بلکہ یہ پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے اہم لوگوں بالخصوص قائد اعظم کے افکار سے بھی متصادم ہے‘۔ پھر یہ کہ: ’جناح کا نصب العین ایک جدید جمہوری ریاست تھی اور قرارداد مقاصد لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی کاوشوں کا نتیجہ تھی‘۔ وہ مولانا شبیر احمد عثمانی پر کئی ایک اعتراضات کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’مولانا ریاست حیدر آباد دکن کے وظیفہ خوار تھے‘۔ یہاں پر کالم نگار سے یہ سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ متحدہ ہندستان میں رہنے والے فرد کے لیے اگر یہ بات باعث الزام ہے کہ کسی ریاست کا وظیفہ لے تو آج پاکستان میں این جی اوز کے زیر سایہ پرورش پانے والے ان دانش وروں کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے، جن کی زندگی کی ساری چکا چوند غیر ممالک سے ملنے والے عطیات (donations )کی مرہون منت ہے؟ یاد رہے کہ امیرملکوں کے وہ ادارے، جو پاکستان جیسے ملکوں میں این جی اوز کو رقوم فراہم کرتے ہیں Donors کہلاتے ہیں، یعنی ’عطیہ اور بخششیں دینے والے‘۔

جہاں تک قائد اعظم کے اس بیان کا تعلق ہے کہ وہ تھیوکریسی یا تھیوکریٹک اسٹیٹ نہیں چاہتے تھے، تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیںہے۔ بذاتِ خود اسلام میں تھیوکریسی کی کوئی گنجایش نہیں ہے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیکولر قسم کے دانش ور، چوں کہ مغربی طرزِ فکرکے قائل ہیں اور اسی کو طرزِ حیات کا افضل ماڈل تصورکرتے ہیں، اس لیےوہ اسلامی تصورات اور اداروں کو بھی مغربی اداروں اور مغربی تصورات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں ۔پاکستان کو جب اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بنانے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب اسلامی قوانین اور اصولوں کی بالادستی ہوتا ہے، بحیثیت فرد یا بحیثیت ادارہ مولوی کی بالا دستی نہیں۔ اسلام اپنے پیروکار سے مذہب کی تفہیم کا مطالبہ کرتا ہےاور چودہ سو سال سے زیادہ کی تاریخ میں ہمیں ایک بھی تھیوکریٹک ریاست کی مثال نہیں ملتی ،مگر مذہب اسلام لوگوں کی زندگیوں میں اور اجتماعی زندگیوں میں رائج رہا ہے۔ جہاں جہاں حکمرانوں نے اسلامی تصورات سے رُو گردانی کرنے کی کوشش کی ہے، انھیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

آگے چل کر خود یہی کالم نگار تسلیم کرتے ہیں :’’مسلم لیگ ایک خاص مذہبی شناخت رکھنے والی جماعت تھی، چنانچہ قائداعظم کی جانب سے مسلم لیگ کے اجتماعات میں اسلامی عقائد، مسلم ثقافت اور مسلم تاریخ کے روشن پہلوؤں کا ذکر اچنبھے کی بات نہیں‘‘___ ہمارے نزدیک حیرت کی بات ہے کہ خاص مذہبی شناخت رکھنے والی جماعت کے سربراہ کے طور پر، مذہب کی بنیاد پہ ایک الگ وطن کے لیے جدوجہد کرنے والے قائداعظم حاصل ہونے والے ملک کو سیکولر بنانا چاہتے تھے! قائد اعظم نے پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا، وہ اسلام کے مذہبی رواداری کے اصول کے عین مطابق تھا۔

۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر پر ایک نظر

یہاں ایک نظر قائد اعظم کی ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر پر ڈال لی جائے۔ اس تقریر کو اکثر قائداعظم کے سیکولر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس تقریر کا پورا متن موجود ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان کے حوالے سے ایک بار بھی ’سیکولر ریاست‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ پاکستان میں بسنے والے افراد کے مساوی حقوق کی بات ضرور کی ہے اور درست کی ہے۔ یہاں انھی کالم نگار نے ایک اور نکتہ اٹھایا ہے، جس پر بات کرنا ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

ایک اہم زاویہ یہ ہے کہ اپنی تقریر میں قائد اعظم نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے ’کمیونٹی‘ کا لفظ استعمال کیا۔ انھوں نے پاکستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ’نیشن‘ قرار نہیں دیا، کیوںکہ پاکستان بننے کے بعد قوم کا رتبہ پاکستان کو حاصل تھا۔ (آج کل، ۷مارچ۲۰۱۰ء،لاہور)

آگے چل کر کالم نویس پاکستان میں بھارت کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش کی گواہی لاتے ہیں کہ ’قائد اعظم نے ۳۱؍ اگست ۱۹۴۷ءکی تقریر میں اسلام کا نہیں، مسلم کا لفظ پانچ، چھ بار استعمال کیا‘۔بقول وجاہت مسعود ’پاکستان مسلم ریاست ہے، اسلامی نہیں‘۔

چلیے اس طرزِ بیان کو درست مان لیتے ہیں، مگرمجرد جمہوری اصولوں کے مطابق، کہ جن کی پاس داری کا احساس ہردم ہمارے سیکولر اور لبرل حضرات کے دامن گیر رہتا ہے۔ انھی اصولوں کے مطابق جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو گی تو وہاں قوانین بناتے ہوئے ان کے عقیدے کا خیال کیوں نہیں رکھا جائے گا؟

اسی خلط مبحث کو بڑھاوا دیتے ہوئے وہ یہاں پر ڈیلی ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کا کمزور حوالہ پیش کرتے ہیں۔ خواجہ شہاب الدین اور دوسری صف کے بعض مسلم لیگی رہنماؤں نے قائد اعظم کی ۱۱؍ اگست کی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی تھی۔ الطاف حسین کی گواہی اس لیے کمزور ہے کہ اس بات کی شہادت کسی دوسرے فرد نے نہیں دی اور پھر الطاف حسین کا جو کردار بعد میں رہا، وہ بھی ان کے بیان کو مشکوک بناتا ہے۔ آگے چلنے سے پہلے ۱۹ دسمبر ۱۹۴۶ءکو قائد اعظم کی اس تقریر کا حوالہ دینا ضروری ہے، جو انھوں نے مصر کے سرکاری ریڈیو سے کی تھی:

We want those two regions to be separate where possible, and to establish a Muslim Government dominating their territories. We want to live as a free and independent people our own life and to preserve all that Islam stands for. This means one fourth of the country, and the three fourths will go to the Hindus where they will live  also  as  a  free  and  independent  people  their  own life according to their philosophy, culture and social order based on Hindustani rites.

Muslims and Hindus are the two major nations in India. They are totally different   and  distinct  in  the  essentials   which   affect everything that matters in life. Not only are we different and distinct but we are sometimes antagonistic.We, the Muslims, have our history, culture, language, legislations, and jurisprudence, music, architecture, calendar, social  and  educational life, which totally differ from that of the Hindus (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol.  IV, p2494).

ہم چاہتے ہیں کہ ان دو منطقوں کو جہاں جہاں ممکن ہو علیحدہ کردیا جائے، جہاں ایک مسلم حکومت اپنے علاقوں پر فرماں روائی کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں اور ان تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا اسلام علَم بردار ہے۔ اس کے معنی ہیں ملک کا ایک چوتھائی حصہ مسلمانوں کو اور تین چوتھائی ہندوئوں کو  مل جائے گا جہاں وہ بھی ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے ہندستانی رسم و رواج پر مبنی اپنے فلسفے، اپنے تمدن اور معاشرتی نظم کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔

ہند میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ وہ ان ناگزیر عناصر کے تعلق سے، ہراس شے پر اثرانداز ہوتے ہیں جو زندگی میں ذرا بھی اہمیت رکھتی ہے، کلی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور نمایاں ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ہم ایک دوسرے سے مختلف اور نمایاں ہیں بلکہ بعض اوقات ہم ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں۔ ہم مسلمانوں کو اپنی تاریخ، ثقافت، زبان، قوانین، اصول قوانین، موسیقی، فن تعمیر، تقویم، معاشرتی اور تعلیمی زندگی ہے جو ہندوئوں سے بالکل مختلف ہے(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلدچہارم، ص ۲۸۸)۔

اب بھی اگر قائد اعظم کےاس فرمان سے بھی ان کے تصور قومیت کے بارے میں ہمیں رہنمائی نہ مل سکے، تو اسے قومی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے۔ قائد اعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں پاکستان میں موجود اقلیتوں کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا تھا، وہ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا۔ اس سے پیش تر جب قیام پاکستان کی منزل سامنے نظر آ رہی تھی، تو انھوں نے ۲۷ مارچ ۱۹۴۷ءکو بمبئی میں میمن چیمبر آف کامرس میں تقریر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا تھا:

We assure the Hindus that in Pakistan the minorities will be treated justly, fairly and generously. The whole history of Islam has shown  that.  The  whole  teaching  of  Islam is in that direction. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam,  Vol IV, p2538).

ہم ہندوئوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ، عادلانہ اور فیاضی کا سلوک کیا جائے گا۔ اسلام کی پوری تاریخ اس کی شاہد ہے۔ اسلام کی ساری تعلیمات اسی جہت کی جانب اشارہ کرتی ہیں (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلدچہارم، ص ۳۱۷)۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیان بھی من و عن روزنامہ ڈان   کی اشاعت ۲۸ مارچ ۱۹۴۷ء سے لیا گیا ہے اور اس وقت بھی ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین ہی تھے۔ پتا نہیں اسے مسلم لیگ کی دوسرے درجے کی قیادت نے سنسر کیا بھی تھا یا نہیں، کم از کم الطاف حسین اس معاملے میں خاموش ہیں۔

پاکستان میں معاملات کو کیسے چلایا جائے گا؟ اس کی وضاحت ایک بار پھر قائد اعظم کے الفاظ ہی میں ہے۔ یہ خطاب بار ایسوسی ایشن کراچی میں ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء میں کیا گیا اور  دی سول اینڈ ملٹری گزٹ کی اشاعت۲۷ جنوری ۱۹۴۷ء میں موجود ہے:

Quaid-i-Azam  Mohammad Ali Jinnah, Governor  General  of Pakistan, speaking  at  a  reception  given  to  him  on the Holy Prophet's birthday by the Bar Association, Karachi, said that he could not understand a section of the peoplewho deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat.The Quaid -i- Azam said"Islamic Principles today are as applicable to life as they were 1300  years ago. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam,  Vol IV, p2669)

قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے عیدمیلاد النبیؐ کی تقریب پر، اپنے اعزاز میں بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیے گئے ایک استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کر نا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی‘‘۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح ۱۳سوسال پیش تر ہوتا تھا۔(قائداعظم: تقاریر وبیانات،چہارم، ص ۴۰۱-۴۰۲)

اب وجاہت مسعود اور ان کی فکرکے حامل افراد یہ بتائیں کہ کیا قائد اعظم پاکستان میں سیکولر آئین چاہتے تھے اور قرارداد مقاصد صرف لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی ذہنی اختراع تھی؟ اپنے تیسرے کالم (۹مارچ ۲۰۱۰ء) میں مذکورہ کالم نگار نے اپنے موقف کی تائید میں قائداعظم کے عالمی اخباری ایجنسی رائٹرز کے نمایندے کے حوالے سے ایک بیان نقل کیا ہے:

نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہو گی ،جس میں اختیارات کا سر چشمہ (حاکمیت اعلیٰ) عوام ہوں گے۔ نئی قوم کا ہر شہری مذہب، ذات یا عقیدے کے بنا کسی امتیاز کے بغیر یکساں حقوق رکھے گا۔

وجاہت مسعود نے اس جانب اشارہ کرنے سے اجتناب کیا ہےکہ یہ بیان جسٹس محمدمنیر [م:۱۹۷۹ء] کی کتاب Pakistan from Jinnah to Zia سے لیا گیا ہے۔ اگرچہ اپنے کالموں میں آگے چل کر انھوں نے جھجکتے ہوئے ایک جگہ جسٹس محمدمنیر صاحب کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس بیان پر سیکولر حلقے بہت اصرار کرتے ہیں۔ مگر حیرت ہوتی ہے کہ خود کو روشن خیال، عقلیت پسند اور حقائق کو معروضی انداز میں سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے دانش ور حضرات اپنے عصر میں شائع ہونے والی کتابوں سے بھی بے خبر رہتے ہیں۔

جسٹس منیر کے بیان کی حقیقت

جسٹس محمد منیر کے اس بیان کی حقیقت کو برطانوی نژاد محققہ سلینہ کریم نے بڑے مدلل انداز سے اپنی کتاب Secular Jinnah as Pakistan میںواضح کر دیا تھا۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۵ء میں اور اس کا چوتھا ایڈیشن  ۲۰۲۱ء میں یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی، لاہور سے شائع ہوا ہے۔ جس میں سلینہ کریم نے جسٹس منیر کے درج کردہ اقتباس اور قائداعظم کے اصل انٹر ویو کا موازنہ کرکے بتایا تھا کہ ’’قائد اعظم کے حوالے سے یہ بیان نقل کرتے ہوئے جملے تبدیل کر دیے گئے ہیں‘‘۔ سلینہ کریم کی کتاب سے جسٹس منیر کا درج کردہ اقتباس اور اصل اقتباس درج ذیل ہیں۔بقول سلینہ کریم، جسٹس منیر نے سنہ بھی غلط درج کیا تھا۔ ۱۹۴۶ء کے بجائے ۲۱مئی ۱۹۴۷ء تھا۔ گویا انھوں نے اصل متن نہیں دیکھا اور ثانوی ماخذ کو استعمال کیا۔

جسٹس محمد منیر کا درج کردہ بیان یوں ہے:

The new state would be a modern democratic state with sovereignty resting in the people and the members of the new nation having equal rights of citizenship regarding of religion, caste or creed.

یہ نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں حاکمیت اعلیٰ کا اختیار عوام کے پاس ہوگا، اور نئی قوم کے تمام ممبران کو بلاتمیز مذہب اور ذات پات یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔

جب کہ، قائد اعظم کے بیان کی اصل عبارت یہ ہے:

But the Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of Government. Its Parliament and Cabinet responsible to the Parliament will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect, which will be the final deciding factor with regard to the policy and programme of the Government that may be adapted from time to time (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol.  IV, p2563).

لیکن حکومت ِ پاکستان مقبول، نمایندہ اور جمہوری طرز کی ہی ہوسکتی ہے۔ یہ اور اس کی کابینہ پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوگی اور یہ دونوں رائے دہندگان اور عوام الناس کے سامنے بلاتمیز رنگ و نسل، عقیدہ، ذات پات یا مسلک جواب دہ ہوں گی جو قطعی اور حتمی حاکم ہوں گے، اور حکومت کی حکمت عملی اور اس کے پروگرام کی تشکیل کے ذمہ دار ہوں گے، جنھیں حکومت وقتاً فوقتاً ترتیب دے گی۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص ۳۳۴)

آپ نے دیکھا کہ جسٹس منیر کا بیان اصل سے کتنا دُور ہے۔ یہ جسٹس منیر بھی عجیب آدمی تھے۔ یہ جب پنجاب باؤنڈری کمیشن کے ممبر بنے تو مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت نہ کر سکے اور مسلم اکثریت کی دو تحصیلیں ہندستان کو دے کر مسئلہ کشمیر پیدا کرنے کا ذریعہ بنے۔ جب بطور چیف جسٹس پاکستان آئین کی حفاظت کا معاملہ سامنے آیا تو ’نظریۂ ضرورت‘ کی نذر ہو گئے، اور جب پاکستان کے حوالے سے کتاب لکھی تو بڑی دیدہ دلیری سے اصل تحریر میں تحریف کا ارتکاب کرگزرے۔

وجاہت مسعود کے کالموں کا یہ سلسلہ اپنے اندر چند در چند داخلی تضادات بھی رکھتا ہے۔ چودھری خلیق الزمان کا حوالہ کبھی وہ اپنے موقف کی تائید میں درج کرتے ہیں اور کبھی انھی کے خلاف لکھتے ہیں۔ کبھی وہ حسین شہید سہروردی کو کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات کرانے کا ملزم قرار دیتے ہیں اور کبھی وہ ان کو مسلم لیگ کے واحد لیڈر نظر آتے ہیں ،جو بنگال میں ہندو مسلم فسادات کے دوران انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کبھی وہ قائد اعظم کو سیکولر لبرل لیڈر ثابت کرتے ہیں اور پھر آگے چل کر انھیں بہادر یار جنگ کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بڑے جوش سے میز پر مکہ مارتے دکھاتے ہیں ۔

ان کالموں میں ایک عبرت ناک موڑ اس وقت آتا ہے، جب وجاہت مسعود تقسیم ہند کے حوالے سے ہونے والے فسادات کی تفصیلا ت بیان کرتے ہوئے اپنا زور اس بات پر صرف کرتے ہیں کہ فسادات بنیادی طور پر مسلمانوں نے کیے تھے۔ حالانکہ اپنے مقدمے میں وہ دراصل ’قرار داد مقاصد‘ کو اپنا ہدف بنا رہے تھے۔ اب یہ سوال تو ان سے کیا ہی جا سکتا ہے کہ کیا فسادات کی یہ بات، قرارداد مقاصد کے اسباب میں درج کر رہے ہیں یا نتائج میں؟ اسی طرح وہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کی طرف سے ’راست اقدام‘ (Direct Action) کو بنگال میں فسادات کا موجب بتاتے ہیں۔ وجاہت صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ راست اقدام کا اعلان قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا، لیاقت علی خان یا مولانا شبیر احمد عثمانی نے نہیں ۔ بہتر معلوم ہوتا ہے جسٹس منیر صاحب نے جو بیان نقل کیا ہے، اس کی مزید وضاحت خود سلینہ کریم کے افکار کے حوالے سے کر دی جائے:

First the above statement was given in answer to the a specific question. Don Campbell had asked of Jinnah: on what basis will the central administration of Pakistan be set up??

In other words he wanted to know the thoughts of Jinnah regarding the nature of Pakistan. He wanted to know whether it would be a secular state or a religious state, and how this would affect its relationship with neighboring? It was an opportunity for Jinnah to call Pakistan a secular state if he chose and this would have surely suited the western audience for whose benefit the interview was being conducted. Secondly the questions were given to Jinnah in writing a day before the interview giving him time to prepare his answer (p31).

پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا بیان ایک مخصوص سوال کے جواب میں دیا گیا تھا۔ ڈون کیمپ بل نے جناح سے پوچھا تھا: ’’پاکستان کا مرکزی نظام کن بنیادوں پر استوار ہوگا؟‘‘

دوسرے لفظوں میں وہ پاکستان کی نوعیت کے بارے میں جناح کی فکر جاننا چاہ رہا تھا۔ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا یہ ایک سیکولر ریاست ہوگی یا ایک مذہبی ریاست ہوگی، اور یہ کس طرح سے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو متاثر کرے گی؟ یہ جناح کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دیتے، اگر وہ ایسا کرتے اور یہ یقینا مغربی سامعین کو مناسب لگتا جن کے مفاد کے لیے یہ انٹرویو منعقد کیا گیا تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوالات جناح کو انٹرویو سے ایک روز قبل تحریری شکل میں دیئے گئے تھے تاکہ انھیں سوالات کے جواب کی تیاری کے لیے وقت مل سکے۔

اپنے بیان کی مزید وضاحت کے دوران میں سلینہ کریم نے حاشیے میں بتایا ہے کہ ’’قائداعظم نے ۱۳دسمبر ۱۹۴۶ءکو امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے لیے بیورلی نکولس کو انٹر ویو دیتے ہوئے بطور گورنر جنرل پاکستان، آسٹریلیا کے لوگوں سے ریڈیائی گفتگو کرتے ہوئے اور ۲۵؍اکتوبر ۱۹۳۹ءکو Manchester Guardian کو انٹر ویو دیتے ہوئے بار بار اس بات کا اظہار کیا کہ مسلمان ایک Islamic Polity (اسلامی سیاسی نظام)قائم کرنا چاہتے ہیں۔

۱۹۴۶ء کے انتخابات اور صوبہ سرحد کا ریفرنڈم

پاکستان قائم کرنے والوں کے ذہن میں پاکستان کا نقشہ کیا تھا؟ اس کے بارے میں جاننے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم ۱۹۴۶ءکے انتخابات کا جائزہ لیں۔ ۱۹۴۶ءکے انتخابات اس حوالے سے اہمیت حیثیت رکھتے تھے کہ ہندستان کے مستقبل کا فیصلہ کن خطوط پر ہو گا؟ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں مسلمانوں کی مذہبی وابستگی کو اپیل کرتے ہوئے انھیں مائل کیا کہ وہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں، تاکہ ان کے لیے الگ وطن کا حصول ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے آئین ٹالیوٹ نے پنجاب کی سیاست پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ کی طرف سے مذہبی نعروں کا استعمال اس قدر شدید تھا کہ یونینٹسٹ پارٹی نے بھی اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں سے ووٹ مانگنے شروع کر دیے۔

اس حوالے سے دوسری مثال جو اس سے بھی اہم ہے، وہ صوبہ سرحد [خیبرپختون خوا]کی ہے۔ سرحد میں سرخ پوش، کانگریس کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور مسلم لیگ کے لیے مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ انھی کے باعث سرحد میں جہاں ۹۲فی صد مسلمان تھے، ریفرنڈم کروانے کی ضرورت پیش آئی۔ جب سرخ پوش صوبہ سرحد کے لوگوں کو اپنی بات پر قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے، تو انھوں نے پختونوں کی آزاد ریاست کا ذکر شروع کر دیا۔

 جس ریاست کا دستور جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں کے مطابق وضع کرنے کاوعدہ کیا گیا تھا، اس حوالے سے ہمیں قائداعظم پیپرز میں موجود درج ذیل دستاویز سے حقیقی شہادت مل سکتی ہے، ۸-۲۱، قائد اعظم کے اخباری بیان کا نظر ثانی شدہ مسودہ:

۲۸جون ۱۹۴۷ء

مجھے افسوس ہے کہ عبد الغفار خان نے وعدے کے مطابق مجھے صوبہ سرحد کانگریس کے فیصلے سے ابھی تک آگاہ نہیں کیا ، مگر ان کی قرارداد کا متن اخباروں کو دے دیا گیا ہے، جو ۲۳ جون ۱۹۴۷ءکو شائع ہو چکا ہے، لہٰذا اخباری رپورٹ کے مطابق میں اس معاملے پر تبصرہ کرنے کا پابند ہوں۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے:

۱- تمام پختونوں کی ایک آزاد پٹھان ریاست قائم ہونی چاہیے۔

۲- اس ریاست کا دستور جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں پر مبنی ہو گا۔

۳-تمام پٹھانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور غیر پختون تسلط کو قبول نہ کریں۔

پٹھانوں کی الگ ریاست کی بیل اس لیے بھی منڈھے نہ چڑھی کہ انگریزوں نے ریفرنڈم میں پٹھانوں کی آزاد ریاست کی شق کا اضافہ کرنے سے انکار کر دیا اور ریفرنڈم میں لوگوں سے صرف یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ ’’پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں؟‘‘۔ یہ ریفرنڈم مسلم لیگ نے معمولی اکثریت سے جیت لیا۔

جناح کے بارے میں ہندو اسکالرز کا نقطۂ نظر

اپنی ان معروضات کے آخر میں ہندستان سے شائع ہونے والی دو کتابوں کا تذکرہ لازمی سمجھتا ہوں۔ ان میں سے پہلی کتاب اجیت جاوید کیSecular and Nationalist Jinnah (وطن پرست اور سیکولر جناح) ہے۔ اس کتاب میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ: ’’قائداعظم ایک سیکولر، لبرل سیاست دان تھے، لیکن کانگریس کے رویے نے انھیں مسلم قومیت کی طرف دھکیل دیا۔ دراصل قائد اعظم کی سیاست میں فیصلہ کن موڑ ۱۹۳۷ء میں ہندستان کے مختلف صوبوں میں بننے والی وزارتیں تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبال کے ساتھ ربط و تعلق نے بھی محمد علی جناح کے خیالات میں تبدیلی پیدا کی۔ جب ایک بار وہ مذہب کی بنیاد پر قومیت کے قائل ہو گئے تو اس کے بعد انھیں سیکولر، لبرل کہنا ان کے ساتھ نا انصافی ہے‘‘۔

 اجیت جاوید نے جو کچھ قائد اعظم کے بارے میں کہا، اس کا بیش تر حصہ تو ہم نے اپنی تعلیم کے دوران’مطالعہ پاکستان‘ میں پڑھا تھا۔ پاکستان کی درسی کتابیں اس بات سے انکار نہیں کرتیں کہ قائد اعظم کا سیاسی سفربطور سیکولر، لبر ل سیاست دان کے ہوا تھا (ہمارے سیکولر، لبرل دانش ور اس سے پریشان نہ ہوں، یہ سب ہماری درسی کتابوں میں آج بھی موجود ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں اٹھا کر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کتابیں آپ کے گھروں میں مشکل سے ملیں گی، کیوںکہ اب آپ کے بچے تو پاکستان میں شائع ہونے والی درسی کتابیں پڑھتے ہی نہیں )۔

اجیت جاوید سے بھی زیادہ جس مصنف کی کتاب نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا، وہ جسونت سنگھ [م: ۲۰۲۰ء]کیJinnah: India, Partition, Independence  [۲۰۱۰ء] ہے۔ جسونت سنگھ کا نقطۂ نظر بھی کم و بیش اجیت جاوید سے ملتاجلتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے پہلے پانچ عشروں میں ہندستان کی سیاست کے نشیب و فراز کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جسونت سنگھ کے مطابق جناح نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہندستان کے ہندو اور مسلمان مل کر سیاسی جدوجہد کریں اور انگریزوں سے آزادی حاصل کریں ،لیکن گاندھی، نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرمی نے بات وہاں تک پہنچا دی کہ محمد علی جناح کو کہنا پڑا: ’’عددی برتری کے زور پر ہندستان کے مسلمانوں کو اپنے زیر نگیں لانے کی کانگریس کی سوچ غلط ہے۔ مسلمان ہر حوالے سے ایک الگ قوم کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔ اس لیے انھیں ایک چوتھائی ہندستان پر اپنی آزادخود مختار ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔

جسونت سنگھ کے مجموعی موقف کو زیربحث لانا اس مضمون کا موضوع نہیں ہے، تاہم یہ بات تو کم از کم وہ بھی مانتے ہیں کہ رفتہ رفتہ محمد علی جناح متحدہ ہندستانی قومیت کے تصور سے دستبردار ہوگئے تھے اور اسلام کو بنیا د بنا کر مسلم قومیت کے تصور سے جڑ گئے تھے۔ جناح، اتحاد سے تقسیم تک کتاب کا اردو عنوان ہے، جو اس جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔ایک بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ جسونت سنگھ نے ہندستان کی سیاسی کش مکش میں علامہ اقبال کے کردار کو بہت کم کرکے دکھانے کی کوشش کی ہےاور علامہ اقبال کا اتنا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل نہیں جتنا سرشفیع کا ہے۔

مضمون کے آخر میں ہم اتنا کہنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ ہمارے جو دوست پاکستان کو بطور سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اپنی بات کا پرچار شروع دن سے کرتے آئے ہیں۔ اُن کے اس حق کو کوئی بھی سلب نہیں کررہا، تاہم ان سے ایک مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنے خیالات کا پرچار کرتے وقت اپنی تائید میں حقائق اور بیانات کو مسخ کرنے سے لازماً گریز کریں، کیوںکہ اس سے ان کے موقف میں مضبوطی نہیں آتی،بلکہ اس کی کمزوری میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ آج پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے۔ اس کا آئین اسے اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے۔

اس بات کا فیصلہ کرنا پاکستان کے لوگوں کی واضح اکثریت کا حق ہے کہ اس ملک کا سیاسی و معاشی نظام کیسا ہو گا؟ جس دن پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی عظیم اکثریت یہاں سیکولر طرزِحکومت کی قائل ہوجائے گی، تب کسی کو قائد اعظم یا کسی اور رہنما کے بیانات کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ تب تک ہمارے سیکولر، لبرل، روشن خیال دوستوں کو انتظار کرنا چاہیے۔ بہرحال، یقین ہے کہ اس انتظار کا دامن، قیامت کے دامن سے بندھا ہواہے ! [مکمل]

پاکستان کا تشخص کیا ہو گا ؟ یہ سوال قیام پاکستان سے پہلے بھی اپنا وجود رکھتا تھا اور آج بھی پاکستانی قوم کے سامنے یہ سوال موجود ہے ۔ پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگوں کے ذہن میں جواب بالکل واضح تھا کہ متحدہ ہندستان میں مسلمانوں کے تشخص، ان کی تہذیب کا محفوظ رہنا نا ممکن ہے۔ اس لیے ہندستان کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لیے الگ وطن کی ضرورت کے اسباب ایک سے زیادہ تھے ۔ مختلف اوقات میں  ان کی جانب کُل ہند مسلم لیگ کے رہنما اور قائد اعظم محمد علی جناح اشارے بھی کرتے رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس بحث میں مزید ابہام اور چند در چند اشکالات نے حقیقت پر ڈالی جانے والی دھند صاف کرنے کی ضرورت دوچند کر دی ہے۔ ضروری ہے کہ مستند تاریخی دستاویزات سے شہادت لی جائے۔

فرد ہو یا قوم، تشخص کا سوال اس کے وجود کی بقاء کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ شخصی یا قومی تشخص کو مختلف زاویہ ہائے نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم قومی تشخص کی بات کریں تو کسی قوم کے تشخص کو بیان کرنے کے لیے اس کے جغرافیہ، زبان، تاریخ، ثقافت، مذہب وغیرہ عناصر کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے ، اگرچہ تشخص کے درخت کی شاخیں بہت سی ہوسکتی ہیں، لیکن اس کا تنا ایک ہی ہوتا ہے، پھر تنے سے نیچے پھیلی ہوئی جڑیں زمین کے ان حصوں تک جاتی ہیں، جہاں سے درخت اپنی نشوو نما کے لیے غذا حاصل کرتا ہے۔

برطانوی سامراجی تسلط

برعظیم پاک و ہند میں برطانوی سامراج کے تسلط کے بعد ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی تھی، جس کا سامنا ایک خطے کے لوگوں کو اس سے پیش تر کبھی نہیں ہوا تھا۔ بالخصوص ۱۸۵۷ءکی جنگ آزادی میں شکست کے بعدبحکم سرکار اسے ’غدر‘ کا متبادل نام دیا گیا تھا۔ اس جنگ میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے حصہ لیا تھا، لیکن ناکامی کا زیادہ تر بوجھ مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑا تھا ۔ یہ صورت حال بدلے ہوئے تناظر میں ایسی حکمت عملی کا تقاضا کرتی تھی، جس میں جدید مغربی تصورات کے تحت ملک کی تعمیر و تشکیل میں اس خطے میں آباد مختلف مذہبی، لسانی اور ثقافتی گروہوں کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ تاہم، جدید مغربی اثرات کےتحت ہندستان میں اُٹھنے والی تحریکوں میں مشترکہ ہندستانی قوم سے زیادہ مذہبی بنیاد پر اپنے اپنے ہم مذہب لوگوں کو متحد اور منظم کرنے کی طرف رجحان نمایاں تھا۔ مگر یہاں اس مضمون میں مذہبی حلقوں کی تحریکیوں کو حوالہ نہیں بنایا جا رہا، بلکہ ان لوگوں کی تحریکوں کو سامنے رکھ کر بات کی جارہی ہے، جو نہ صرف جدید مغربی تہذیب و تمدن سے متاثر تھے، بلکہ انھی خطوط پرہندستانی معاشرے کے لوگوں کو ڈھالنا چاہتے تھے۔

ہندستان میں انگریز حکومت (ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ) کے زیر اثر جو پہلی طاقت ور تحریک پیدا ہوئی ،وہ راجہ رام موہن [م: ۱۸۳۳ء]کی تحریک (’برہموسماج‘: تاسیس ۱۸۳۰ء) تھی۔ یہ تحریک واضح طور پر ہندو دھرم کی تحریک تھی۔ یہ ہندستان میں بسنے والے ہندوؤں کے مفادات کو سامنے رکھ کر ترتیب دی گئی تھی۔ اس کے مقاصد میں ہندوؤں کو انگریزوں کے قریب لانا، انھیں انگریزی تعلیم کی طرف مائل کرنا اور معاشی دوڑ میں آگے بڑھاناشامل تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جدید مغربی فکر اپنے سیکولر مزاج کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر لوگوں کی تقسیم کی قائل نہیں تھی۔ یہ مذہب اور سیاست کی علیحدگی پر اصرار کرتی تھی۔ لیکن اس فکرکے زیر اثر پروان چڑھنے والی پہلی تحریک ہی ہندستان کے لوگوں کو تقسیم کر رہی تھی۔

راجہ رام موہن کے بعد سر سید احمد خاں [م: ۱۸۹۸ء] نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی علی گڑھ تحریک ۱۸۶۸ءمیں شروع کی۔ تب تک حالات بہت تبدیل ہو چکے تھے۔ کمپنی کی حکومت کی جگہ براہِ راست تاج برطانیہ لے چکا تھا۔ ہندستان میں انگریز ی راج مستحکم ہو چکاتھا۔ ہندو بہ طور طبقہ انگریزوں کے زیرسایہ ترقی کی منازل طے کر رہے تھے۔ ایسے میں سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کو مغربی تعلیم اور تہذیب کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، تو ان کے مخاطب ہندستان کے سارے لوگ نہیں تھے۔وہ صرف ایک مذہب کے لوگ تھے۔ پھر جب ہندستان میں اردو ہندی تنازعے نے سر اٹھایا تو اس کی بھی یگانگت کے بجائے مذہبی تقسیم بنیاد تھی۔ ان حالات میں جب ۲۵دسمبر ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی بنیاد رکھنے والے ڈیوڈہوم تھے۔ ان کا مقصد حکومت اور لوگوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنا تھا۔ اس میں تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ جب کانگریس کے سیاسی مقاصد نمایا ں ہونے لگے اوریہ دکھائی دینے لگا کہ انگریز ہندستان میں مغربی طرز ِجمہوریت کو جزوی طور پر نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو جن لوگوں نے مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے کا کہا، ان میں سر فہرست سرسید احمد خاں تھے۔

سیاست میں انقلابی تبدیلیاں

بیسویں صدی کا آغاز بر عظیم کی سیاست میں انقلابی تبدیلیوں کا دور ثابت ہوا۔ ۳۰دسمبر ۱۹۰۶ء کو کُل ہند مسلم لیگ کی بنیاد خواجہ سلیم اللہ خاں [م: ۱۹۱۵ء] نے رکھی تھی اور اسی سال مسلمانوں کا جدا گانہ انتخاب کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔ یہ مطالبہ کرنے والے بھی مغربی تعلیم سے آراستہ لوگ تھے اور ان کی قیادت سر آغا خان سوم [م:۱۹۵۷ء] کے ہاتھ میں تھی۔ مسلمانوں کو اس سمت لانے میں بنیادی کردار، تقسیم بنگال کے حوالے سے سامنے آنے والا ہندوؤں کا رد عمل تھا جس کی قیادت کانگریس کر رہی تھی۔ اگر کانگریس واقعی ہندستان کے تمام طبقوں کی نمایندہ تھی، تو اسے صوبے کی تقسیم پر معترض نہیں ہونا چاہیے تھا ۔اس حقیقت سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں کہ اس وقت بھی کانگریس پر ہندوؤں کا غلبہ تھا اور کانگریس کی مالی معاونت کرنےوالے زیادہ تر ہندو ہی تھے۔

عددی برتری کے مقابلے میں اپنے تشخص کو کھو دینے کا جو احساس جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو تھا،اس میں ہندستان میں ہونے والے واقعات اور بالخصوص کانگریس کے رد عمل نے اضافہ کردیا تھا۔ تقسیم بنگال اس حوالے سے نہایت اہم ہے۔ کانگریس کے رد عمل اور ہندوؤں کی طرف واضح جھکاؤ کا دوسرا اظہار، ۱۹۰۱ء میں پنجاب کی تقسیم اور صوبہ سرحد [خیبرپختونخوا] کی تخلیق کے وقت دیکھنے میں آیا۔ پنجاب کی تقسیم سے ہندوؤں کے مفادات متاثر نہیں ہورہے تھے،بلکہ صوبہ سرحد کے قیام سے پنجاب میں ان کی قوت میں اضافہ ہو رہا تھا، اس لیے کانگریس نے تقسیم بنگال کے برعکس اس تقسیم پر خاموشی اختیار کی۔ دو صوبوں کی تقسیم کے ایک جیسے عمل پر انڈین کانگریس کے متضاد رد عمل نے اس دعوے کی قلعی کھول دی کہ وہ کس حد تک ہندستان میں بسنےوالے تمام طبقوں کی نمایندگی کرتی ہے۔

قیامِ پاکستان تک بر عظیم کی سیاست میں اصل سوال یہ تھا کہ ’’ہندستان میں بسنے والے مختلف طبقوں کے مفادات کا تحفظ کیسے کیا جائے گا؟‘‘ بر عظیم کے تناظر میں یہ کوئی آسان سوال نہیں تھا اور نہ اس کا کوئی واحد جواب ممکن تھا۔ اس خطے میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد تھے۔ اس میں بےشمار زبانیں بولی جاتیں تھیں ۔ مختلف نسلی گروہ موجود تھے۔ ذات پات کا نظام مذہب اور ثقافت کی سرحدیںبھی عبور کر جاتا تھا۔ ان سب کی موجودگی میں ہندستان میں مغربی طرز کی جمہوریت صرف اسی وقت کارگر ہو سکتی تھی، جب وہ اس خطے میں بسنے والے تمام طبقوں کے مفادات کی نگہداشت کر سکے۔ ایسا بہ ظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس لیے ہندو اور مسلمان دونوں کی جانب سے یہ آواز سنائی دیتی رہتی تھی کہ ہندستان میں دو بڑے گروہوں کے درمیان کوئی لکیر کھینچ دی جائے۔ ہندوؤں کی طرف سے لالہ لاجپت رائے [م: ۱۹۲۸ء] اور پنڈت مدن موہن اور مسلمانوں کی طرف سے حسرت موہانی [م: ۱۹۵۱ء] اور علامہ محمد اقبال کو بطور حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی جدوجہد میں ہندو مسلم کبھی کبھی بہت قریب آ جاتے تھے، جیسے ’لکھنو ٔپیکٹ‘ اور’ تحریک خلافت‘ کے دوران ہوا۔ مگر پھر یہ دونوں کبھی کبھی بہت دور چلے جاتے تھے ،جیسے ۱۹۳۷ء کی بر صغیر کے آٹھ صوبوں میں بننے والی وزارتوں کے دوران کانگریسی حکومتوں اور قیادت کے ہاتھوں مسلمانوں کے خلاف اقدامات اور رجحانات میں دکھائی دیتاہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کا کام وہ رہنما کرتے تھے ،جو اس بات کے قائل تھے کہ اگر ہندستان کو واقعی انگریز کے تسلط سے نجات حاصل کرنا ہے ،تو پھر ہندو اور مسلمان دونوں کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے سب سے اہم نام قائد اعظم محمد علی جناح [م:۱۹۴۸ء] کا ہے اور ان کے بارے میں گوپال کرشن گوکھلے جیسے قوم پرست رہنما نے کہا تھا :’’جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ہیں ۔‘‘

ایک دلچسپ نکتہ ہندستان کی سیاسی جدوجہد میں مرکزی مسئلے کے طور پر موجود تھا اور وہ تھا’جداگانہ انتخابات‘۔ جدا گانہ انتخاب کا حق، مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ہونے والے تمام مذاکرات کا محور رہا ۔ یہی وہ نکتہ ہے، جس پر دونوں فریق مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہ کر سکے اور بالآخر ہندستان کی تقسیم عمل میں آ گئی۔

یہ احوال مختصراً انداز میں اس لیے رقم کیے گئے ہیں کہ قیام پاکستان کی بنیاد میں جنم لینے والے معاملات کو واضح کیا جاسکے۔ قیام پاکستان سے تاحال پاکستان کے تشخص کی بحث میں بھی یہ پس منظر جاننا ضروری ہے۔ پاکستان میں ایک طبقہ مسلسل اس بات کو اچھالتا رہاہے کہ ’’پاکستان کے قیام کا مقصد ایک سیکولر ریاست کا قیام تھا۔ پاکستان کو مذہبی تشخص دینے کی بات قیامِ پاکستان کے بعد اور محمد علی جناح کے انتقال کے بعد کی جانے لگی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس موقف میں کتنی صداقت ہے، اسی موضوع پر آیندہ صفحات میں بات کی جائے گی۔

قیامِ پاکستان کے بعد آئین سازی

قیامِ پاکستان کے بعد جب ملک میں آئین سازی کا مرحلہ آیا تو لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، چودھری محمد علی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر احباب نے آئین کی رہنمائی کے لیے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں ’قراردادِ مقاصد‘ پاس کروائی۔ اس وقت اسمبلی میں اس قرارداد کی مخالفت میں بھی آوازیں آئیں ۔ ظاہرہے جمہوری عمل میں اختلاف رائے ہونا کوئی اَنہونی بات نہیں ہے، لیکن یہ بڑی واضح حقیقت ہے کہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے اسے بڑی بھاری اکثریت سے منظور کیا۔ ہمارے وہ دوست، جو ’قرار داد مقاصد‘ کی مخالفت کرتے ہیں، یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ قرار داد کسی ایک فرد کے ذہن کی اختراع نہیں تھی، بلکہ اس قراردادکی منظوری تو پاکستان کی بانی اور پہلی دستور ساز اسمبلی نے دی۔ پھر ۳۱جیدعلما نے، جن کا تعلق پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر سے تھا، قرارداد کی منظوری کے بعد ریاست کے سیاسی و اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے متفقہ طور پر بائیس نکات پر مشتمل رہنما اصول وضع کیے تھے کہ پاکستان میں قوانین قرآن و سنت کی روشنی میں بنائے جائیں گے۔ چوں کہ اس پر جمہوری انداز میں لوگوں سے اتفاق رائے حاصل کیا گیا تھا،اس لیے پاکستان کے پہلے آئین ۱۹۵۶ء، پھر دوسرے آئین ۱۹۶۲ء سے لے کر ۱۹۷۳ء کے آئین تک میں ’قراردادِمقاصد‘ ابتدائیہ کے طور پر موجود ہے۔

پاکستان کے سیکولر تشخص کی بحث

نائن الیون کے بعد جہاں امریکا نے فوجی اعتبار سے پاکستان کو اپنے حصار میں لیا ،وہاں اس نے پاکستان کے سیکولر تشخص کے حوالے سے بھی بحث کو نئے سرے شروع کروایا۔ اس حوالے سے ایک قابلِ ذکر پتھر ۲۰۰۴ء میں امریکی حکومت کی پالیسی پلاننگ سٹاف کے ایک سابق رکن سٹیفن فلپ کو ہن [۱۹۳۸ء-۲۰۱۹ء]کی طرف سے ان کی کتاب The Idea of Pakistan [ناشر: بروکنگز انسٹی ٹیوشن پریس، واشنگٹن ڈی سی]کی شکل میں آیا۔ فتح محمد ملک نے اپنی کتاب فتنہ انکار پاکستان میں سٹیفن پی کوہن کے نقطۂ نظر کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے۔

 سٹیفن فلپ کوہن، امریکی حکومت کے لیے کام کرنے والے ادارے بروکنگز میں پالیسی اسٹڈیز پروگرام میں سینئرفیلو کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ یہاں انھوں نے ایک دوسری کتاب The Future of Pakistan بھی تحریر کی ہے، جو اسی سوچ کی غماز ہے۔ کوہن، تحریک پاکستان کی کامیابی کو ’المیاتی کامیابی‘ (Tragic Vcitory) خیال کرتے اور پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیتے ہیں ۔ پاکستانیوں کو ڈرانے کی پرانی امریکی روش پر چلتے ہوئے کہتے ہیں:

Failure of vision, Pakistan's founders expected the idea of Pakistan to shape the state of Pakistan, instead, a military bureaucracy governs the state and imposes its own vision of a Pakistani nation. (p:3)

وژن کی ناکامی، پاکستان کے بانی تصورِ پاکستان سے ریاست ِ پاکستان کی تشکیل کی توقع رکھتے تھے، بجائے اس کے کہ ملٹری بیوروکریسی پاکستانی قوم کا اپنا تصور مسلط کرتی اور ریاست پر حکومت کرتی۔(ص ۳)

اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قیام پاکستان کے بعد، پاکستان کی تشکیل ویسی نہ ہوسکی، جیسی تصور پاکستان میں سوچی گئی تھی، تو بلاشبہہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ اسی بنیاد پراگر ریاستوں کی کامیابی اور ناکامی کی جانچ کی جائے گی، تو خود ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانیوں نے جس تصور پر امریکا کی تشکیل کی تھی، گذشتہ ۱۵۰ سال میں امریکا نے سامراج کی شکل اختیار کرکے اس تصور کی خوب مٹی پلید کی ہے۔ پھر اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ گاندھی جی، بھارت کی عدم تشدد کی بنیاد پر تشکیل کرنا چاہتے تھے ۔ بھارت وجود میں آنے سے لے کر اب تک دوسری اقوام کے خلاف اور خود بھارت کے اندر بسنے والے باشندوں کے لیے بار بار تشدد کا ارتکاب کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ کیا بھارت کو ایک ناکام ریاست نہ سمجھ لیا جائے؟ پروفیسر فتح محمد ملک نے بجاطور پر لکھا ہے کہ: ’’پاکستان کو نئے نئے استدلال کے ساتھ جو بار بار ناکام ریاست کہا جاتا ہے تو صرف اس لیے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں ہے۔ ہم اپنے خواب کی تکمیل سے کتنے بھی دور ہوں، ہماری ناکامیاں کیسی بھی ہولناک ہوں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری کامیابیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں‘‘ ۔بہ قول فتح محمد صاحب: ’’پاکستان عملی طور پر ایک اسلامی ریاست نہیں بن پایا ہے، مگر امکانی طور پر ایک مسلم ریاست ضرور ہے اور یہی وہ امکانی صورت ہے، جو امریکی استعمار کو ہضم نہیں ہوتی۔

کوہن نے لکھا ہے: ’’پاکستان اپنی قومی شناخت کو اپنے اہم ہمسایہ ممالک کے مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی راہ اپنائے‘‘۔ اس پر ملک صاحب کہتے ہیں: ’’اب جہاں تک ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کا مشورہ ہے ،یہ بڑا صائب ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک صرف بھارت اور افغانستان تو نہیں، چین اور ایران بھی ہیں۔ دوسری جانب چیلنج یہ درپیش ہے کہ امریکی سامراج ہمارے لیے یہ طے کرنے کا بے جا ’حق‘ جتاتا ہے، کہ وہی ہمارے لیے یہ طے کرے گا کہ کون ہمارا ہمسایہ ہے اور کون نہیں، کس سے ہمیں تعلقات رکھنا ہیں اور کس سے نہیں؟ اسی طرح امریکا ہماری داخلی شناخت کو بھی اپنی مرضی کے مطابق متعین کرنا چاہتا ہے‘‘۔

اس حوالے سے سٹیفن کوہن لکھتے ہیں:

Pakistan was clearly  "Indian" in that the strongest supporters of the idea of Pakistan identified themselves as culturally Indian, although in opposition to Hindu Indians. This Indian dimension of Pakistan's identity has been systematically overlooked by contemporary Pakistani politicians and scholars. (p37).

پاکستان واضح طور پر ان معنوں میں ’بھارتی‘ تھا کہ تصورِ پاکستان کے مضبوط ترین حامی ہندو بھارتیوں کی مخالفت میں ثقافتی طور پر اپنے آپ کو بھارتی تصور کرتے تھے۔ پاکستان کی بھارتی شناخت کا یہ پہلو ایک منظم انداز میں ہم عصر پاکستانی سیاست دانوں اور اسکالروں نے نظرانداز کردیا۔

آپ نے دیکھا کہ امریکی دانش ور کس خوب صورتی سے پاکستان کی شناخت کو دھندلانے کی کوشش کر رہے ہیں، تا کہ ایک نئی شناخت کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔ اس کام سے فارغ ہونے کےبعد وہ پاکستان کے تشخص پر مزید بات کرتے ہیں اور ’قرارداد مقاصد‘ کو نشانہ بنا کر پاکستان کے اسلامی تشخص کی نفی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سٹیفن پی کوہن کے خیال میں:

 ’’قائد اعظم کا تصور پاکستان ایک سیکولر تصور تھا‘‘ (ص۴۵)، ’’پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائد اعظم کی تقاریر کی روح سیکولر تھی‘‘(ص۴۲)۔اور قرارداد مقاصد میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں سیکولر مسلمانوں اور سیکولر اسلام کا ذکر تک نہیں :

The resolution defines both the state and the idea of Pakistan. The new country was to be a federal, democratic and  Islamic entity, but there was no mention whatsoever of a secular Muslim life, a secularized Islam, or even the term "Secular" (p57).

قرارداد ریاست اور تصورِ پاکستان دونوں کو واضح کرتی ہے۔ نئی مملکت کی ایک وفاقی، جمہوری اور اسلامی شناخت ہونا تھی، لیکن اس میں ایک سیکولر مسلمان کے طرزِ زندگی، سیکولر اسلام، حتیٰ کہ اصطلاح ’سیکولر‘ کی نشان دہی نہیں کی گئی۔

اطلاعاً عرض ہے کہ ’قرارداد مقاصد‘ جس [دستور ساز]قومی اسمبلی نے منظور کی تھی، اس کے ارکان تحریک پاکستان کے قائدین اور عمائدین پر مشتمل تھے۔ قرار داد منظور کرنے والوں کو  بخوبی علم تھا کہ پاکستان کانظریہ کیا ہے ؟ اسلامیانِ ہند نے کس خواب و خیال کو عملی زندگی میں جلوہ گر دیکھنے کی تمنا میں پاکستان قائم کیا ہے ؟ اپنے خیالات، تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ہی انھوں نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا تھا۔ قرار داد مقاصد میں ’سیکولر‘ کی اصطلاح کی عدم موجودگی ایک قدرتی امر ہے۔

پاکستان کا نظریاتی یا جدلیاتی پہلو

اس بحث کی مناسبت سے ہم معروف تاریخ نگار حسن جعفر زیدی کے مضمون ’پاکستان نظریاتی یا جدلیاتی‘کا تجزیہ کرتے ہیں۔ متعدد جلدوں پر مشتمل اس کتاب پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک سنجیدہ کاوش سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے مضمون میں بڑے پتے کی بات کہتے ہیں:

مطالعہ تاریخ دراصل ایک سائنس ہے، اس میں ذاتی پسند یا نا پسند کا کوئی دخل نہیں ہے۔ عقائد خواہ دائیں بازو کے ہوں یا بائیں بازو کے، عقیدہ پرستی کے شکنجے میں پھنس کر نہ تو ماضی کی اصل حقیقت سے آگاہی حاصل ہو سکتی ہے نہ حال کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں درست پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔

حسن جعفر زیدی کی بات سے ،اگر اتفاق بھی کر لیا جائے تو یہ سوال بہرحال باقی رہتا ہے کہ کیا تاریخ کو متعین کرنے والے اسباب کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ یہ درست ہے کہ تاریخ عقیدہ نہیں، لیکن کیا بعض تاریخی واقعات کے پس منظر میں ہمیں عقیدہ اپنی جھلک نہیں دکھاتا؟ زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں جب ہندستان کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے، شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو دہلی پر حملے کی دعوت دی تھی تو کیا وہاں مذہب ایک فیصلہ کن عامل کے طور پر موجود نہیں تھا؟ مرہٹوں نے مغلیہ دربار میں اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد مغل شہنشاہ سے احکامات صادر کروائے۔ کیا ان کی بنیاد ہندومت اور ہندوؤں کے مفادات نہیں تھے؟

جب ہم تاریخی واقعات کے پس منظر میں کارفرما عوامل کا کھوج لگانے کی کوشش کریں گے تو اور کئی عوامل کے ساتھ ساتھ مذہب اور عقیدہ بھی اہم سبب کے طور پر موجودہوگا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہر واقعے کے پیچھے صرف مذہب اور عقیدہ ہی اہم محرک ہوتے ہیں، لیکن بہت سے واقعات کے پس منظر میں ہمیں عقیدہ ایک اہم محرک کے طور پر ملتا ہے۔ یہاں اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بڑے تاریخی واقعات کے پس منظر میں صرف ایک محرک کار فرما نہیں ہوتا، بلکہ بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کون سا محرک سب سے قوی اور فیصلہ کن ہے؟

پھر حسن جعفر زیدی نے ہندستان میں جاری سیاسی کش مکش کے حوالے سے ایک دل چسپ پیراگراف تحریر کیا ہے، جس سے ان کے اپنے ہی موقف کی تردید ہو جاتی ہے:

بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو بر صغیر میں تینوں قوتوں کے درمیان کش مکش جاری تھی۔ اسٹرکچر میں دوسری پوزیشن کے حامل ہندو جلد از جلد انگریز کو حاصل پہلی پوزیشن پر پہنچنا چاہتے تھے اور غلبے کے حصول کی اس کوشش میں مسلمانوں کی حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ انڈین نیشنلزم اور سیکولر ازم کی تعریف یوں کرتے تھے کہ ’’کوئی ہندو، سکھ، عیسائی نہیں ہے۔ یہ سب ہندستانی ہیں‘‘۔ وہ ان کی قومی شناخت کا انکار کرکے ان کو اپنی عددی اکثریت کے نیچے کچل ڈالنا چاہتے تھے۔ یوں وہ مسلمانوں سے گذشتہ ایک ہزار سال کا بدلہ بھی لینا چاہتے تھے۔ ادھر مسلمان اس صورت حال میں اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے تھے (نقاط ۸،ص ۱۰۱-۱۰۲)۔

اس سلسلے میں آگے چل کر مزید لکھتے ہیں :

اس کے لیے وہ ہر دس سال بعد آئینی اصلاحات کا ایک پیکیج لاتے تھے، لیکن ہر پیکیج سے پہلے اور بعد ہندو مسلم تضاد شدیدہو جاتا تھا۔ وجہ یہ ہوتی تھی کہ کانگریس اس پیکیج میں بلا شرکت غیرے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرتی، خود کو پورے ہندستان کا واحد نمایندہ ثابت کرتی، جب کہ حقیقت میں مسلمانوں کے فائدے کا کوئی کام ہوتا تو اس کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی۔ مسلمانوں کا اعتماد کانگریس پر سے اٹھتا چلا گیا اور ہندو مسلم جدلیات کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس ان کی نمایندہ جماعتوں کے طور پر ابھر آئیں۔ (نقاط ۸،ص۱۰۲)

مندرجہ بالا اقتباسات کا بہ غور مطالعہ کریں، تو واضح ہوتا ہے کہ حسن جعفر زیدی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان آباد تھیں اور انگریزوں کے زیرِتسلط زندگی گزارتے ہوئے یہ دونوں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سر گرم رہتی تھیں ۔ اس کش مکش کو وہ ’ہندو مسلم جدلیات‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جدلیات کی بنیاد کیا معاشی مفادات تھے، لسانی محرکات تھے یا گروہی مفادات؟ اس بات کو تو حسن جعفر زیدی بھی قبول کرتے ہیں کہ ان کے درمیان جدلیات کی بنیاد مذہب تھا۔ جب ہندستان میں بسنے والے لوگوں کی تقسیم’ ہندو‘ اور ’مسلم‘ کے خانوں میں کرتے ہیں تو ہم اس تقسیم کے لیے مذہب ہی کو بنیاد بناتے ہیں۔ جب آپ خود ’ہندو مسلم جدلیات‘ کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، تو اس جدلیات کے پس منظر میں موجود مذہب کے اس عنصر کا انکار کس طرح کر سکتے ہیں جس کی بنیاد پر یہ جدلیات وجود پذیر ہو رہی ہیں ۔

بانیانِ پاکستان کا موقف

یہاں ہم قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات کے موقف کی طرف آتے ہیں۔ علامہ اقبال، راجہ صاحب محمود آباد، حسرت موہانی اور خود قائد اعظم محمد علی جناح نے با ربار اس موقف کا اعادہ کیا کہ ہندستان میں ایک قوم آباد نہیں، جیسا کہ کانگریس کا دعویٰ تھا، بلکہ اس میں بہت سی قومیں آباد ہیں اور انھی میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان ہیں۔ جب تک ان دو قوموں کے درمیان حقوق و مفادات کے حصول کا طریقۂ کار طے نہیں ہوتا، ہندستان کے مسائل کا سیاسی حل ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ ابتداء میں مسلم لیگ اور مسلمان رہنماؤں کا موقف مسلم مفادات کا تحفظ تھا اور اس کے لیے وہ کسی بھی آئینی صورت حال کو قبول کرنے کے لیے تیار تھے، جو انھیں اپنے تشخص کے تحفظ کی ضمانت دے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی چالیس سال اسی نوعیت کی جدوجہد سے عبارت ہیں۔

اس ساری جدوجہد کے پیچھے دو قومی نظریہ کار فرما تھا کہ مسلمان، ہندوؤں سے الگ ایک قوم ہیں اور اپنے اس تشخص سے مسلمان ایک دن کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹے تھے ،سوائے نیشنلسٹ مسلمانوں کے۔ اسی اصول یا موقف کو بعد میں نظریہ پاکستان کا نام دیا گیا۔ موقف یہ تھا، چوںکہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں، اس لیے انھیں ایک الگ وطن کی ضروت ہے۔ اس حقیقت کا باضابطہ طور پر اعلان ۱۹۴۰ء کی قرار داد لاہور میںکیا گیا، جسے اس وقت کے پریس اور خصوصاً ہندو پریس نے ’قراردادِ پاکستان‘ کا نام دیا تھا، کیوںکہ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی ابتداء میں چودھری رحمت علی’پاکستان‘ نام کی مجوزہ ریاست کا خاکہ پیش کر چکے تھے۔

اقبال، مصورِ پاکستان: ایک اعتراض

پھر اسی مضمون میں حسن جعفر زیدی نے بحث کی ہے کہ علامہ اقبال کو مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے تصور کا خالق قرار دینا غلط ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے بعض نکات کی طرف اشارے کیے ہیں ۔ پھر پروفیسر ای جے ٹامسن کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’۱۹۳۴ ءمیں علامہ اقبال کی کتاب ’رموز خودی‘ کے انگریزی ترجمے پر پروفیسر ای جے ٹامسن نے تبصرہ کرتے ہوئے علامہ کے تعارف میں آپ کے خطبہ الٰہ آباد کو چودھری رحمت علی کی پاکستان تجویزسے منسلک کر دیا۔ آپ نے یہ تبصرہ پڑھا تو جواب میں جو خط لکھا وہ پروفیسر ٹامسن کے خطوط کے مجموعے میں شامل ہے، جسے علی گڑھ یونی ورسٹی نے شائع کیا ہے۔ آپ نے اس میں لکھا:’’آپ نے ایک غلطی کی ہے۔ جس کی میں فوری نشان دہی ضروری سمجھتا ہوں ۔ کیوںکہ یہ ایک فاش غلطی ہے، آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس اسکیم کا حامی ہوں، جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔جب کہ پاکستان میری اسکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی، وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی، جو شمال مغربی ہندستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری اسکیم میں یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ ہو گا۔ پاکستان اسکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔ اس اسکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے‘‘(نقاط۸، ص ۱۰۶)۔

مندرجہ بالا اقتباس میں دو تین بڑی فاش غلطیاں ہیں۔ حسن جعفر زیدی نے کہا ہے کہ پروفیسرٹامسن نے علامہ اقبال کی کتاب رموز خودی پر تبصرے کا ذکر کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس نام کی کوئی کتاب علامہ اقبال نے تخلیق نہیں کی۔ گمان گزرتا ہے کہ حسن احمد کی مرتب کردہ کتاب His Political Ideas at Cross Road جو دراصل پروفیسر ٹامسن کے نام کتاب کے خطوط پر تبصرہ کی شکل میں ہے۔ زیدی صاحب کی نظر سے ہی نہیں گزری اور انھوں نے کسی ثانوی ماخذ پر بھروسا کیا ہے، اور یہی کمزوری محسوس کرکے حوالہ دینے سے اجتناب کیا ہے۔ اگر وہ اصل کتاب دیکھ لیتے تو انھیں علم ہوجاتا کہ علامہ اقبال نے پروفیسر ٹامسن کو اپنے ۵فروری۱۹۳۴ءکے خط میں گزارش کی تھی کہ وہ علامہ اقبال کی کتابReconstruction of Religious Thought in Islam Six Lectures پر Observerکے لیے تبصرہ لکھ دیں ۔ اس سلسلے میں ۴ مارچ ۱۹۳۴ء کو پروفیسر ٹامسن کا تبصرہ وصول ہونے کے بعد، اپنے خط میں علّامہ محمد اقبال نے پروفیسر ٹامسن کی اس غلطی کی طرف اشارہ کیا ہے، جو پروفیسر موصوف سے سرزد ہو گئی تھی۔ اقبال کے پورے خط کا متن کچھ یوں ہے :

I have just received your review of my book. It is excellent and I am grateful to you for the very kind things you have said of me. But you have made one mistake, which I hasten to point out as I consider it rather serious. You call me (a) protagonist of the scheme called  "Pakistan". Now Pakistan is not my scheme. The one that I suggested in my address is the creation of a Muslim Province  i.e.,a province  having an overwhelming population of Muslims  in the North West of India. This new province will be, according to my scheme, a part of the proposed Indian Federation. Pakistan scheme proposes a separate federation of Muslim  Provinces  directly related  to  England  as  a  seprate domination. This scheme originated in Cambridge. The authors of this scheme   believe   that  we  Muslim Round Tablers   have sacrificed the Muslim  nation  on  the  altar  of  Hindu or  the so called Indian Nationalism.

ابھی ابھی آپ کے ذریعے میری کتاب پر کیا گیا تبصرہ موصول ہوا۔ یہ نہایت اعلیٰ پایہ کا ہے اور آپ نے میرے بارے میں جو اچھی باتیں کہی ہیں اس کے لیے میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ لیکن آپ سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے جس کی جانب میں توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ جسے میں سنجیدہ غلطی سمجھتا ہوں۔ آپ نے مجھے ایک منصوبہ کا رہنما کہا ہے جسے پاکستان کہتے ہیں لیکن پاکستان میرا منصوبہ نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبہ میں جو تجویز پیش کی تھی وہ صرف ایک مسلم صوبہ کی تشکیل ہے۔ ہندستان کے شمال مغرب میں ایک مسلم صوبہ بنائے جانے کا منصوبہ تھا جس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہو۔ میرے منصوبہ کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ ہندستانی وفاق کا ہی ایک حصہ ہوگا، جب کہ منصوبۂ پاکستان مسلم صوبوں کا ایک علیحدہ وفاق بنائے جانے کی تجویز ہے جو انگلینڈ سے براہِ راست ایک ڈومینین کی شکل میں مربوط ہوگا۔ اس منصوبہ کی پیدایش کیمبرج میں ہوئی تھی۔ اس منصوبہ کے خالق یہ سمجھتے ہیں کہ گول میز کانفرنس کے ہم مسلمان نمایندوں نے مسلم قوم کو ہندوئوں یا نام نہاد ہندستانی قومیت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا ہے (علامہ اقبال - چند جہتیں، ڈاکٹر مختار احمد مکّی، ص ۱۵۸)۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ذرا باریک بینی سے علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کی طرف رجوع کریں ۔ اس خطبے میں علامہ اقبال نے اسلام کے تصور قومیت پر روشنی ڈالی ہے اور بھارتی قوم پرستی کے اس تصور کو جس کی وکالت کانگریس کر رہی تھی، سختی سے رد کیا ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبال اس تاریخی بیان کی طرف آتے ہیں، جس میں اسلام کے تصور قومیت کی بنیاد پر ہندستان کے شمال مغرب میں ایک علیٰحدہ وطن کا مطالبہ کیاگیاہے:

I would like to see the Punjab, North West Frontier Province, Sindh and Baluchistan amalgamated into a single state. Self government within the British empire or without British empire, the formation of a consolidated north-west-Indian Muslim state appears to me to be the final destiny of the Muslim, at least of north- west-India.

میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کردیا جائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ خودمختارحکومت، خواہ سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنت برطانیہ کے باہر ہو، ایک مربوط مغربی ہندو مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کی کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھیرے گی۔

مندرجہ بالا اقتباس حسن جعفر زیدی نے نقل کرتے ہوئے دو اعتراضات وارد کیے ہیں: پہلا یہ کہ نہ تو اس خطبے کا مکمل متن پڑھا جاتا ہے اور نہ درسی کتابوں میں پڑھا یا جاتا ہے‘‘۔ اور دوسرا یہ کہ: ’’اردو کی کتابوں میں لفظ ریاست کے ساتھ’خود مختار‘ اور انگریز درسی کتابوں میں autonomous کے لفظ کا اضافہ کیا جاتا ہے، جو اصل خطبے میں نہیں ہے‘‘(نقاط۸،ص۱۰۴)۔

درسی کتابوں کا معاملہ مرتبین پر چھوڑتے ہیں۔ جو اقتباس ہم نے اُوپر انگریزی میں دیا ہے اس میں لفظautonomousنہیں ہے۔ یوں اگر کسی جگہ یہ درج کیا گیا ہے، تو یہ اعتراض بالکل بجا ہے۔ مندرجہ بالا انگریزی بیان اور اس کے اردو ترجمے سے اس بات کا اندازہ تو ہوتا ہے کہ اقبال نے شمال مغربی ہندستان میں ایک مسلم ریاست (صوبہ) کی بات واضح الفاظ میں کی ہے اور مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبے کے دوران کی ہے تو اس سے اس بیان کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔

پاکستان کے قیام کے حوالے سے علامہ اقبال نے نہ صرف خطبہ الہ آبادمیں ایک تصور کی تشکیل کی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے قائد اعظم کو ہندستان واپس آ کر کُل ہند مسلم لیگ کی قیادت کرنے پر بھی مائل کیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے اسلام کے تصور قومیت کے حوالے سے قائداعظم کی فکری راہنمائی بھی کی۔ دوسری گول میز کانفرنس کی ناکامی سے دل برداشتہ ہو کرمحمد علی جناح کو اقبال نے خطوط لکھےاور ۱۹۳۷ءمیں ہندستان کے مختلف صوبوں میں قائم ہونے والی کانگریس وزارتوں کے طریق کار نے محمد علی جناح کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہندستان میں مسلمان ایک اقلیت نہیں ہیں،بلکہ ایک الگ قوم ہیں۔ اس طرح بات مارچ ۱۹۴۰ءکی قرارداد لاہور تک آگئی۔ (جاری)