نجاح شوشۃ


مغرب میں سوشل میڈیا خصوصاًفیس بک میاں بیوی میں علیحدگی اور طلاق کا بڑاسبب بن چکا ہے۔ یہ خلاصہ ہے حال ہی میں سامنے آنے والی ان تحقیقاتی رپورٹس کا، جنھیں طلاق کے معاملات پر خدمات انجام دینے والے وکلا کی امریکی اکیڈمی نے جاری کیا ہے۔ دوسری ایسی ہی رپورٹ اخبار دی انڈی پنڈنٹ   ، لندن نے اطالوی بار ایسوسی ایشن کے حوالے سے نشر کی ہے۔

  • فیس بک : عائلی یا گھریلو زندگی کی اس تباہی میں فیس بک کا کردار نمایاں ہے۔عالمی سطح پر اسے طلاق کی بڑھتی شرح کا اولین ذمہ دار ٹھیرایا جارہاہے۔اعداد و شمار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکا میں ہونے والی ۲۰ فی صد طلاقوں کا براہ راست سبب فیس بک ہے ۔
  • واٹس ایپ: دوسرا نمبر واٹس ایپ کا ہے ۔اطالوی بار ایسوسی ایشن کے مطابق اٹلی میں ہونے والی ۴۰ فی صد طلاقوں کی وجہ واٹس ایپ بنا ۔ یہ صنفین کے درمیان رابطہ بڑھانے اور رکھنے کا آسان ترین ذریعہ ہے اور اسی ربط و تعلق نے میاں بیوی کے درمیان خیانت کاری کے تناسب کو بڑھا دیا ہے۔

اطالوی بار ایسوسی ایشن کے صدر جیان ایٹوری کے بقول: بے وفائی کا آغاز عموماً فیس بک کے معمولی برقی پیغامات سے ہوتا ہے۔ پھر تعلق بڑھتا ہے تو بات واٹس ایپ تک چلی جاتی ہے جہاں طرفین میں تصاویر کا تبادلہ ہوتا ہے اور انجام کارخیانت کاری۔

جامعہ ملک سعود کے پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالعزیز شریم لکھتے ہیں: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپس ہر ایسے فرد کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں جو اپنی زندگی کی باگیں ان کے سپرد کردیتا ہے۔ یہ اسے اس کی شریکِ حیات ( اور امور خانہ داری میں شرکت اور ان کے اہتمام) سے غافل کر دیتی ہیں۔ بالخصوص جب کوئی ان کا عادی ہو جائے اوران میں مگن ہوکربہت سا وہ وقت بھی ان پر صرف کرنے لگے جو اسے اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ گزارنا تھا ۔

 ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھریلو ناچاقی کے دوران یا آپس میں تبادلۂ خیال اور بات چیت میں مشکلات کے سبب زوجین میں سےایک اسے دوسرے فریق سے دُور رہنے اور وقت گزاری کے لیے زیادہ استعمال کرنے لگتا ہے ۔یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے خانگی مسائل حل ہونے ،سلجھنے اور زوجین میں قربتیں بڑھنے کے بجائے باہمی فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

 امریکا اور اٹلی کے علاوہ برطانیہ کی ویب سائٹ ’ڈائیورس آن لائن‘ کے مطابق ۲۰۱۱ء کے دوران ’فیس بک‘ ان ممالک میں واقع ہونے والی ایک تہائی طلاقوں کا سبب بنا۔

مصر کی حلوان یونی ورسٹی میں فیکلٹی آف سوشل ورک اور انفرادی خدمات کے سربراہ عبدالناصر نصیحت کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال کم سے کم وقت کے لیے کیا جائے۔ اس لیے کہ اس کا حد سے زیادہ استعمال میاں بیوی کے درمیان عدم اطمینان کو جنم دیتا ہے جس کے نتیجہ میں خانگی مشکلات بڑھتی ہیں اور پھر طلاق کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔

  • ڈیجیٹل خیانت: سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے میں ایسے رویوں کو فروغ دیا ہے، جن کا اس سے قبل تصوربھی ناممکن تھا۔ ا ب مرد و عورت کا آپس میں بغیر کسی حجاب و ممانعت اور بلاکسی روک ٹوک کے ایک دوسرے سے بات چیت کرنا اور ربط و تعلق رکھنا عام ہوگیا ہے۔

خانگی امور کی ماہر تہانی الشرونی کہتی ہیں:خاندانی ناچاقیوں کی جن مشکلات سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے وہ عجیب و غریب اور تضادسے بھرپور ہیں۔ جب زوجین میں سے کوئی ایک انٹرنیٹ کی دنیا کے نامعلوم ماحول میںغیر لوگوں کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتا ہے تو اس کی یہ حرکت پاکیزہ،پُرسکون اور خوب صورت عائلی زندگی کے شفاف چشمہ کو آلودہ کر دیتی ہے۔

الشرونی مزید بتاتی ہیں کہ جس بات کا حقیقی زندگی میں زبان پر لانا مشکل تھا، اب موبائلز کے بٹن اور سکرین کے ٹچ سے وہ سب بہت آسان ہوگیا ہے۔کمپیوٹر اور موبائل کی سکرین کے پیچھے لوگ بے باک اور بے شرم ہوجاتے ہیں۔اس فرضی دنیا میں پہنچ کر وہ اپنی متوازن اور حدود و قیود کی پابند شخصیت کا چولا اتار پھینکتے ہیں۔میں نے ایسی بہت سی خانگی مشکلات کو سلجھایا ہے جہاں بیوی نے کسی نامعلوم شخص کے سٹیٹس پر لائیک کیا تھا اور شوہر نے برداشت نہیں کیا، یا شوہر نے کسی لڑکی کی تصویر پر مزاحیہ کمنٹس دیے تھے جس پر بیوی غصہ سے آگ بگولہ ہوگئیں ۔ان میڈیا پلیٹ فارمز کے چیٹنگ فیچرز کو بھی ہلکا نہیں لینا چاہیے، اس لیے کہ چیٹنگ اکثر و بیش تر خرابی کی ابتدا بن جاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ زوجین ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھیں اور معمولی سے شک و شبہہ اور ایک دوسرے کی ذات پر کسی قسم کی بد اعتمادی کو ہر گزسر اٹھانے کا موقع نہ دیں۔ ایسے اقدامات مسلسل کرتے رہیں جن سے باہمی اعتماد کو بڑھاوا ملے۔یاد رکھیں یہ اس وقت تک عملاً ممکن ہی نہیں ہے جب تک ہم اپنی زندگی میں سوشل میڈیا کی اہمیت کواور اس پر صرف ہونے والے اپنے قیمتی وقت کو کم سے کم نہ کردیں۔ علاوہ ازیں فیس بک، واٹس ایپ ،ٹک ٹاک وغیرہ استعمال کرتے ہوئے شریعت کے ضابطوں اور حیاء کی حدود و قیود کی سختی سے پابندی اپنے اُوپر لازم نہ کرلیں۔

مغربی معاشروں نے باوجود اس کے کہ وہاں خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے سوشل میڈیا کے خطرے کی سنگینی کو اچھی طرح محسوس کرلیا ہے ۔ مشہور امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر فیل (Phill) اپنے پروگرام میں کہتے ہیں کہ فیس بک دو دھاری تلوار ہے۔ اس نے خانگی تعلقات کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ وہ اپنے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’فرضی دوستوں سے نہیں، جیتے جاگتے زندہ افراد سے تعلق بنائے رکھنے کو از سر نو بحال کریں ‘‘۔

  • شرعی حدود سے غفلت: ’اسرۃ‘ رسالے کے چیف ایڈیٹر شیخ عبدالعزیز مطیری کے مطابق بہت سے واقعات دلالت کرتے ہیں کہ بغیر کسی چھان پھٹک اور ذاتی جان پہچان کے فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ قبول کرنے کا رجحان ،میاں بیوی کے درمیان عدم اعتماد کے امکان کو بے حد بڑھا دیتا ہے اورکوئی بھی غیرت مند آدمی اپنی بیوی کے ایسے طرزِ عمل کو برداشت نہیں کرسکتا۔

شیخ مطیری نصیحت کرتے ہیں کہ خانگی زندگی میں کسی حادثے سے بچنے کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت خوف خدا کو ہمیشہ پیش نظر رکھناچاہیے ۔ یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہرلحظہ اور ہر آن نگرانی کررہی ہے ۔ پھر جب بھی انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کر نا ہو تو آپ کا کوئی واضح مقصد اور ہدف ہونا چاہیے اور آپ کا طرزِ عمل بھی حدودِ شریعت کا پابند ہو ۔

مطیری صاحب سوشل میڈیا پر کام کرنے والوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ شبہہ میں ڈالنے والی چیزوں سے دُور رہیں اور کوئی ایسا در نہ کھولیں جو آپ کو اللہ تعالی کی معصیت کے فتنہ میں مبتلا کردے۔کسی کے ذاتی اور شخصی مسائل میں دل چسپی لینے سے اجتناب کیجیے بالخصوص خواتین کو سوشل میڈیا پر کوئی رد عمل یا لائیک ’پسندیدگی‘ وغیرہ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح انھیں سوشل میڈیا کی کسی بحث میں تبصرے دینے سے بھی احتراز کرنا چاہیے ، خصوصاً گفتگو اور صوتی پیغام کے ذریعے جواب دینے سے بچیں۔ اگر کبھی ضرورت پڑے بھی تو گفتگو میں نرمی ہر گز نہ ہو، الفاظ واضح ہوں اور لہجہ پُراعتماد ۔ تاہم، دل میں صنفِ مخالف کی طرف میلان آئے تو گفتگو کا سلسلہ فوراً ختم کردیں۔

  • خانگی تعلقات اور اولاد کی تربیت پر اثرات: مطیری صاحب کہتے ہیں کہ اہل خانہ گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہ تو رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقی رشتوں کی روح ، باہمی تعلق اور احساسِ عاطفت گھر میں باقی نہیں رہتا، یا بہت کم ہوتا جارہا ہے۔ سب ایک جگہ بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ہر ایک اپنے موبائل میں مگن۔ یہ ہوش نہیں رہتا کہ جو ساتھ بیٹھا ہے اس سے بھی کچھ بات چیت کر لیں۔

ہمارے نظام تربیت پر اثر انداز ہونے والا اہم ترین عامل والدین کا سوشل میڈیا ایپس میں کھوکر اپنے فرائضِ تربیت سے غافل ہوجانا ہے۔ بچوں کی تربیت والدین کا فرض تھا ۔انھیں نصیحت کرنا، ان کی ٹھیک رہنمائی کرنا۔ دوسری طرف اولاد بھی سوشل میڈیا میں کھوکر والدین کی فرماں برداری اور اطاعت سے منہ موڑ تی جارہی ہے ۔

  • صلہ رحمی کی روایت پر اثرات: بقول مطیری سمارٹ فون میں کھویا رہناایک غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل ہے اور صلہ رحمی کے تقاضوں سے غفلت کا سبب بھی بن رہا ہے ۔ یہ مقولہ زبان زد عام ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے اب حقیقی رابطوں کی ضرورت نہیں رہی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے آنے سے باہم ربط و تعلق اور صلہ رحمی خصوصاً رشتہ داروں کے ہاں آنا جانا اور مزاج پُرسی کرنے کی روایت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ حالانکہ ماضی قریب میں ان کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا، یاشاید ہرآن ایسے رابطوں نے ان کے ضروری ہونے کا احساس ختم کردیا ہے۔ تاہم، اس روایت کے خاتمے کا منفی اثر عزیز و اقارب سے ہمارے تعلقات اور اب ہمارے رشتوں ناطوں اور خاندانوں کے میل ملاپ میں کمی کی صورت میں واضح نظر آنے لگا ہے۔

ڈاکٹر شریم کہتے ہیں کہ باہم جسمانی طور پر ایک جگہ موجود ہونے کے باوجود ان چیزوں نے  ایک دوسرے سے بہت دُور کردیا ہے خصوصاً بزرگ افراد کو جیسے دادا دادی، نانا نانی وغیرہ ۔ بڑے بوڑھوں کی تنہائی اور عزیزوں سے دُوری کا احساس اس وقت اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے، جب ملنے کے لیے آنے والے ،ان سے گفتگو کرنے اور ان کی مزاج پُرسی کی بجائے اپنے اپنے موبائلوں میں لگے رہتے ہیں ۔

مزید کہتے ہیں کہ بچے اگر موبائلز اور نیٹ کے عادی ہوجائیں تو خاندانی تقریبات اور عزیزوں اور رشتہ داروں سے میل ملاقات میں انھیں بوریت ہونے لگتی ہے۔وہ عزیزوں سے گھلنے ملنے، بات چیت کرنے اور حال احوال دریافت کرنے، ان کی ذات، شخصیت اور دل چسپیوں کو جاننے کی بہ نسبت موبائلز میں اپنا زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ یوں عزیزوں کی مجلس میں جسمانی طور پر موجودگی کے باوجود ان سے فاصلے پر رہتے ہیں ۔

  • سماجی تعلقات پر اثرات: سوشل میڈیا نے عام لوگوں کے درمیان میل جول پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ ڈاکٹر محمد شریم کہتے ہیں کہ موبائل فون پر مسلسل پیغام رسانی بڑھ جانے سے بالفعل ملاقاتوں میں بہت کمی آئی ہے بلکہ سمارٹ فونز کے آنے سے تو میل جول اور بھی کم ہوگیا ہے ۔اب لوگ خاص موقعوں پر بھی مبارک باد کے پیغامات بھیجنے پر اکتفا کرتے ہیں، حتیٰ کہ سلام کہنے اور حال و احوال دریافت کرنے کے لیے بھی انھی مختصر برقی پیغامات پر انحصار کیا جاتا ہے ۔اس میں تو شک نہیں کہ ان سمارٹ فونز سے شخصی اور ذاتی ربط و تعارف کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔

تاہم، مشکل وہاں پیش آتی ہے جہاں ہم ترجیحات کی ترتیب صحیح نہیں رکھ پاتے اورایسے افراد کا تعین ہم سے نہیں ہوپاتا کہ کن سے ہمیں بس فون پر ہیلو ہائے رکھنی ہے اور کن کے ہاں جانا اور ملاقات ضروری ہے۔ آپ اس فرد کی کیفیت کا تصور کریں جو عید کی رات اپنے موبائل کی لمبی رابطہ لسٹ دیکھتا ہے۔ کتنی بڑی مصیبت ہوتی ہے اس کے لیے یہ تعین کرنا کہ کس کس کو فون کرنا ہے، اورکس کس سے ملاقات ؟اور پھر اب لوگوں میں وہ حساسیت نہیں رہی کہ معاشرتی تعلقات کتنے ضروری ہیں خصوصاً ذاتی انفرادی تعلق جو صرف رُوبرو ملاقات سے ہی ممکن ہوپاتا ہے ۔

مسلمانوں میں عید اور دیگر اجتماعی اور معاشرتی تقریبات میں شامل ہونے کے حوالے سے جو سرد مہری آئی ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے مبارک باد دینے کے زیادہ گرم جوش اور محبت بھرے انداز آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں ۔ماضی قریب میں کسی عزیز یا دوست کو مبارک باد دینا ہوتی تو اس کے گھر جاکر ملاقات ضروری ہوا کرتی تھی تاکہ خوشی کا بھر پور اظہار ہو اور اس فرد سے ہمیں کتنی محبت اور تعلق ہے وہ ظاہر ہوسکے ۔اب صرف ’مسیج‘ (پیغام) رہ گئے ہیں، جنھوں نے خوشی سے دمکتے ہمارےچہروں کو چھپالیا ہے ۔ خوشی اور محبت کے اظہار کے لیے موبائل فون ، ای میلز پر کارٹونک تصویروں اور ایموجیز نے لے لی ہے۔ ان الیکٹرک پیغامات نے فرد سے انفرادی تعلق، اس کے لیے اہتمام اور شخصی توجہ بھی چھین لی ہے، جو سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ایک کلک پر کانٹیکٹ اور فرینڈ لسٹ میں موجود تمام لوگوں کو بیک وقت بھیج دیئے جاتے ہیں۔ مبارکباد دینے کے ان مصنوعی طریقوں کو تدریجاً چھوڑ کر ایک قدم واپس پلٹنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک دوسرے سے محبت ،تعلقِ خاطر، احترام اور لطف و عنایت باقی رکھ سکیں ۔

  • قول و فعل میں تضاد : بعض افراد شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا شوہر یا ان کی بیوی گھنٹوں سوشل میڈیا پر خانگی اور گھریلو زندگی پر بہترین نصیحتیں کررہے ہوں گے، لیکن جب عمل کی باری آتی ہے، تو ان نصیحتوں کا ذرّہ برابر اثر کہیں اپنی زندگی میں نظر نہیں آتا۔

ڈاکٹر شریم اس رویے کے بارے میں کہتے ہیں کہ تجاویزدینا ان پر عمل کرنے کی بہ نسبت بہت زیادہ آسان ہے ۔اور یہ طرزِ عمل خواتین کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ گھر کے مرد بھی بغیر جانے بوجھے اس بے عملی کا شکار ہیں۔ بڑے بڑے تخصصات اور اسپیشلائزیشن کے حامل افراد بھی دوسروں کو جو نصیحت کررہے ہوتے ہیں اس پر خود عمل کی توفیق سے محروم رہتے ہیں ۔ بڑا ہونے کے ناطے شوہر کے لیے مناسب طرزِ عمل یہی ہے کہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرے اور نت نئے انداز سے ان تجاویز کو عمل کی دنیا میں لانے کی کوشش کرے ۔ ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افراد خانہ کا اجتماع ہو۔ اس میں خاتون خانہ کی ساری تجاویز سنی جائیں اور جو تجاویز مستحسن ہوں، ان پر خراجِ تحسین پیش کیا جائے اور جہاں غلطی ہورہی ہے اس کی اصلاح کے لیے متبادل قابلِ عمل پلان ترتیب دیا جائے اوراولاد کی تربیت اور امور خانہ داری چلانے کے لیے متبادل تجاویز دی جائیں ۔

  • متوازن نقطۂ نظر اپنانے کی ضرورت:سوشل میڈیا کے بے محابا استعمال سے پیدا ہونے والے ان مسائل سے قطع نظر ڈاکٹر شریم کہتے ہیں کہ ہمیں سوشل میڈیا اور اس کی افادیت پر بات کرتے ہوئے انصاف سے کام لینا چاہیے ۔ سوشل میڈیا ،فیس بک،واٹس ایپ، ٹک ٹاک کا نام لیتے ہی ذہن میں طرح طرح کے خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔ تاہم، متوازن نقطۂ نظر کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی مسئلہ کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو دیکھا جائے، تاکہ لگایا جانے والا حکم بھی معتدل اور متوازن سوچ کا آئینہ دار ہو ۔

اس میں شک نہیں کہ سمارٹ موبائل نے فیملی ممبران کے رابطے رکھنے کے انداز کو متاثر کیا ہے اور بہت سرسری بنادیا ہے۔ اب ایسے رابطے چوبیس گھنٹے اور سال بھر رہتے ہیں۔

تاہم، ٹین ایج ایک ایسی عمر ہے جس میں بچہ بڑی بڑی نفسیاتی تبدیلیوں سے گزر رہا ہوتا ہے ۔فیس بک اور سوشل میڈیا کا استعمال اسے اپنے والد اور فیملی کے دیگر ممبران سے دُور کرکے ایسے نامعلوم دوستوں کی طرف زیادہ مائل کرسکتاہے، جن سے وہ کبھی ملا ہی نہ ہو یا روزانہ ملنے والے دوستوں کی طرف بھی اس کا میلان زیادہ ہوسکتا ہے ۔ بہر حال، ہونا یہ چاہیے کہ سماجی رابطوں کے یہ ذرائع ہمارے ہاتھوں میں اس طرح رہیں کہ ہم انھیں استعمال کریں نہ کہ وہ ہمیں ۔ہم ان کے مالک ہوں نہ کہ وہ ہمارے ۔ہم ان سے حسب ضرورت فائدہ اٹھانے والے ہوں نہ کہ وہ ہمیں دنیا بھر کے ایام منانے پر مجبور کریں، مثلاً بلیک فرائیڈے اور ویلنٹائن ڈے وغیرہ۔

انتہائی غبی ہوگا وہ فرد، جو اپنے گھر والوں اور ان حقیقی دوستوں کو جو عملی زندگی کے ہر بحران میں، اس کے ہر دکھ درد اور تکلیف میں اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ان وہمی دوستوں پر قربان کردے،جو اسے کچھ دے نہیں سکتے سوائے چند فیس بک لائکس کے ۔(مجلّہ البیان، عدد۳۴۱)