تحریک طالبان افغانستان کے رہنما مُلّا محمد عمر کے انتقال کی خبر ایک بڑا واقعہ ہے۔ ان کے بہی خواہوںکے لیے یہ خبر یقینا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ ان کی رحلت کب، کہاں اور کیسے واقع ہوئی؟ اس حوالے سے اطلاعات میں نہ صرف کافی ابہام پایا جاتا ہے بلکہ کچھ تضاد بھی نظر آتاہے۔
مُلّامحمد عمر نے ان حالات میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھی تھی، جب افغان مجاہدین، سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد افغانستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کے قیام میں ناکام ہوکر خانہ جنگی پر اتر آئے تھے ۔طالبان اس شدید بدامنی اور افراتفری کو جواز بناتے ہوئے مختصر مدت میں نہ صرف افغانستان کی مقبول ترین عسکری قوت کا روپ دھار گئے بلکہ کابل سمیت پورے افغانستان کے تین چوتھائی حصے پر اپنا قبضہ جمانے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ اس کے نتیجے میں قیامِ امن اورلوگوں کو ان کی دہلیز پر فوری انصاف کی فراہمی ایسے کارنامے تھے جس نے طالبان حکومت کے استحکام میں بنیادی کردار اداکیا۔ مُلّا محمد عمر اور ان کی حکومت کو منظر سے ہٹانے کے لیے امریکا کو ۴۸ ممالک کی ڈیڑھ لاکھ مسلح افواج اور دنیا کی جدید ترین جنگی ٹکنالوجی کاسہارا لینا پڑا۔ پھر امریکا نے مُلّاعمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کردی۔ یہ مُلّاعمر کی شخصیت کا کمال تھا کہ جب امریکا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کا اپنی اندھی طاقت کے زور سے خاتمہ کیا، تو وہ مختصر عرصے میں طالبان کی منتشر صفوں کو امریکا کے خلاف ایک بھرپور اور منظم تحریک کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے۔
آج افغانستان کے طول وعرض میں امریکی اور ناٹو فورسز سمیت افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف جومنظم عسکری کارروائیاں ہورہی ہیں اور مختلف اضلاع سے طالبان کی فتوحات اورقبضوں کی جو خبریں آرہی ہیں، ان کے پیچھے جہاد کے بعد سب سے بڑا محرک اور عامل مُلّا محمد عمر کی قیادت رہی ہے۔ افغان قوم میں ان کی مقبولیت اور اثرپذیری کانتیجہ تھاکہ طالبان قیادت کو دوسال سے بھی زائد عرصے تک مُلّاعمر کے انتقال کی اہم ترین خبر کو صیغۂ راز میں رکھنا پڑا ۔ دوسال تک طالبان قیادت ان کی موت کو چھپانے پر اس لیے مجبور رہی کہ اس بات کا کامل یقین تھاکہ مُلّاعمر کے انتقال کی خبرسامنے آنے سے نہ صرف طالبان جنگجوئوں کے حوصلے پر منفی اثرپڑے گا، بلکہ ا س خبرسے امریکا اور دیگر طالبان دشمن قوتیں بھی ہرممکن فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ طالبان قیادت کے یہ خدشات مُلّاعمر کے انتقال کی تصدیق ہونے پر بعض طالبان گروپوں کی مخالفت اور تحفظات کی صورت میں سامنے آئے بھی ہیں۔
مُلّا محمد عمر مرحوم کے نائب مُلّا اختر منصور کے توسط سے یہ بات توسامنے آچکی ہے کہ انھوں نے مُلّاعمر کے انتقال کی خبر مبینہ طورپر ملا عمر کی وصیت کے مطابق جہاد کو جاری رکھنے کی حکمت کے تحت صیغہ راز میں رکھی تھی۔اس حد تک تو اخترمنصور کی بات پر یقین کا جواز اور گنجایش موجود ہے۔ لیکن جہاں تک مُلّامنصور کے امیر بننے اور ملا عمر کے انتقال کی تصدیق اور اعلان کے اوقات کاتعلق ہے تو اس حوالے سے مختلف سوالات کا اٹھنا ایک فطری امر ہے۔ یہ سوال کہ اچانک ایسے کون سے عوامل پیدا ہو گئے تھے جن کے باعث ملا عمر کے انتقال کی خبر کو صیغۂ راز میںمزید رکھنا ممکن نہیں رہا تھا ؟
اسی طرح یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ مُلّا عمر کے انتقال کی خبر طالبان افغان حکومت مذاکرات سے محض ایک دن قبل افشا کرنے کااصل پس منظر کیا ہے؟ان دونوں سوالات کے متعلق جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق طرح طرح کے جوابات اور چہ میگوئیاں سامنے آرہی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے افغان معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اور تحریک طالبان سمیت افغان حکومت اور پاکستان کے مقتدر اداروں تک رسائی رکھنے والے ماہرین اورتجزیہ کاروں کااستدلال ہے کہ مُلّاعمر کی وفات کی خبر کو مزید چھپا کر رکھنا ا س لیے ناممکن ہوگیاتھا کہ طالبان سمیت افغان حکومت کے بعض بارسوخ حلقوں کو یہ شک پڑگیاتھا کہ مُلّا محمد عمر زندہ نہیں رہے اور وفات پاچکے ہیں۔ ان کو یہ شک دو وجوہ کی بنا پرپڑا۔
اس کی پہلی اور فوری وجہ حالیہ عیدالفطر کے موقعے پر مُلّا محمد عمر کا امن مذاکرات کی حمایت پر مبنی پیغام کا سامنے آناتھا۔ واضح رہے کہ مُلّا محمد عمر شروع دن سے مذاکرات کی مخالفت کرتے رہے تھے اور انھوں نے عیدین پر جتنے بھی پیغامات جاری کیے تھے ان سب میں وہ طالبان کو جہاد جاری رکھنے اور مزاحمت کے راستے پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہے تھے۔ امن مذاکرات کی حمایت میں ان کابیان سامنے آنے سے طالبان کی صفوں میںان کے زندہ رہنے کے متعلق شکوک وشبہات نے شدت اختیار کی۔ اسی طرح ان شکوک وشبہات کو تقویت ملنے کی دوسری بڑی وجہ ڈھائی سال سے بھی زیادہ عرصے سے مُلّا محمد عمر کی آواز میں کسی آڈیو پیغام کاسامنے نہ آناتھا۔ جہاں تک مُلّاعمر کی وفات کی خبر امن مذاکرات کے دوسرے دور سے محض ایک دن قبل افشا کیے جانے کاتعلق ہے تو اس حوالے سے اس بات پر اتفاق راے پایاجاتاہے کہ ایساکرنا سب سے زیادہ خود طالبان اور بالخصوص نومنتخب امیر ملااختر منصورکے حق میں تھا۔اگرمذاکرات میں کسی ممکنہ پیش رفت کے بعد آگے جا کر یہ بات سامنے آجاتی کہ مُلّاعمر دوسال پہلے وفات پاچکے ہیں تو ایسی حالت میں مُلّااختر منصور سمیت کسی بھی طالبان رہنما کے لیے امن مذاکرات کے فیصلوں کو طالبان کمانڈروں اور جنگجوئوں سے منوانا تقریباً ناممکن ہوتا، لہٰذا اسی احساس نے انھیں یہ خبر جاری کرنے پر مجبور کیا۔
دوسری جانب ملامنصور کی امارت کے اعلان اوران کا اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے پر بعض طالبان راہنمائوں کی طرف سے جو اعتراضات سامنے آئے ہیں، وہ اس لیے قابل فہم ہیں کہ ان کی امارت پر ان لوگوں نے اعتراض اٹھایاہے، جو ملامنصور کی امارت کے لیے منعقدہ رہبری شوریٰ کے فیصلے میں شریک نہیں تھے۔ ان میں سب سے نمایاں نام مُلّا محمد عمر کے برادرخورد مُلّاعبدالمنان کا سامنے آیاہے، جنھوں نے ملامنصور کی امارت کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے نئے امیر کے انتخاب کے لیے صرف رہبری شوریٰ پر انحصار کے بجاے تمام فیلڈ کمانڈروں، علماے کرام اور طالبان کی بااثر شخصیات کا مشترکہ اجلاس بلانے کامطالبہ کیاہے۔ جس کے جواب میں ملامنصورگروپ کاکہناہے کہ اس وقت کے حالات اور موجودہ حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت پورے افغانستان کے حالات طالبان کے حق میں سازگار تھے اور انھیں کسی قسم کے سیکیورٹی خطرات لاحق نہیں تھے، جب کہ آج پوری طالبان قیادت کا اتنی بڑی تعداد میں ایک جگہ پرافغانستان کے اندر جمع ہوناتقریباً ناممکن ہے ۔
مُلّااختر منصور کی مخالفت میں طالبان کاجو گروپ سرگرم عمل ہے، وہ اپنی حمایت میں مُلّا محمد عمر کے ۲۶سالہ بڑے بیٹے مُلّا محمد یعقوب کو بھی استعمال کرنے کی حتی الوسع کوشش کررہاہے جس کی مخالفت ان کی کم عمری اورکم تجربے کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ تبدیل ہوتی ہوئی اس تمام صورت حال کانیانقشہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان پہلے سے طے شدہ مذاکرات کی منسوخی کے علاوہ طالبان کے نئے امیر مُلّا اختر منصور کاان مذاکرات سے انکار کرکے جہاد جاری رکھنے کے اعلان کی صور ت میں سامنے آیاہے۔اسی طرح قطر میں قائم طالبان کے سیاسی کمیشن اور قطر دفتر کے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ طیب آغا اوران کی ٹیم کا مُلّا اختر منصور سے اختلافات کی بنیادپر مستعفی ہونے سے بھی جہاں امن مذاکرات کامستقبل مخدوش نظر آرہاہے، وہاں اس صورت حال کو تحریک طالبان کی صفوں کو منظم رکھنے کے لیے بھی نیک شگون قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ اگر طالبان، امریکا اور افغان حکومت پراپنا دبائو برقراررکھ کر مُلّامحمدعمر کے مشن کی تکمیل چاہتے ہیں تو اس کے لیے تحریک طالبان کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے اورمزید نقصان سے بچنے کے لیے نہ صرف اپنی صفوں میں اتحاداور اتفاق برقرار رکھنا ہوگا، بلکہ باہمی مشاورت اور اتفاق راے سے نئے امیر کے قضیے، نیز امن مذاکرات کے مستقبل کابھی کوئی متفقہ اور سب کے لیے قابل قبول حل تلاش کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر طالبان مخالف قوتیں ان کو منتشر پا کر ان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے ایسے تیار بیٹھی ہیں، جیسے دسترخوان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بھوکے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔یہ موقع بلاشبہہ طالبان کی معاملہ فہمی،حسن تدبر اور ان کی بصیرت کا کڑا امتحان ہے جس کے لیے اُمت ِ مسلمہ کے تمام سنجیدہ و فہمیدہ لوگ فکرمند بھی ہیں اور دعاگو بھی۔