اُموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی تجہیز و تکفین کا سامان کرنے کے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور خود انھیں قبر میں اتارا ۔ جب وہ قبرستان سے واپس گھر جانے لگے تو بطورِ خلیفہ اُنھیں شاہی سواریاں پیش کی گئیں، لیکن عمر بن عبد العزیز نے یہ سواریاں واپس کر دیں اور فرمایا: ’’ میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے‘‘۔ اس کے بعد پولیس افسر مع اپنے سپاہیوں کے حفاظت کے لیے آگے بڑھا، تو آپ نے ان کوواپس کر دیا ۔ اور فرمایا:’’ مجھے کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے، میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں‘‘۔
تدفین سے فارغ ہوکر عمر بن عبدالعزیز _ اپنے خچر پر سوار ہو کر واپس اپنے گھر تشریف لائے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ آپ قصر شاہی میں قیام کریں گے، لیکن آپ نے فرمایا: ’’وہاں سابق خلیفہ سلیمان کے اہل وعیال ہیں، میرا جانا وہاں مناسب نہیں ‘‘۔
خلفاے بنواُمیہ کے یہاں دستور تھا کہ جب خلیفہ کا انتقال ہوتا تو اس کے زیراستعمال اشیا اس کی اولاد کو ملتی تھیں اور غیر استعمال شدہ اشیا نئے خلیفہ کی ملکیت میں آجاتی تھیں۔ اہل خاندان نے اسی طریقے کے مطابق سلیمان بن عبدالملک کی اشیا کو تقسیم کرنا چاہا، لیکن عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن الحکم(م: ۱۰۱ھ) نے ایسا کرنے سے منع کر دیا ۔ اور فرمایا:’’یہ اشیا نہ میری ہیں، نہ سلیمان کی اور نہ تمھاری‘‘۔ اور پھر اپنے غلام مزاحم کو حکم دیا: ’’ ان سب اشیا کو بیت المال میں جمع کر دو‘‘۔(سیرت ابن عبدالحکم، ص ۳۵)
اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا، جس کا خلاصہ یہ ہے :
لوگو ! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی خواہش کے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داریوں میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمھاری گردن میں ہے، میں خود اتارے دیتا ہوں ۔ تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کر لو۔
اس خطبے کو سن کر لوگوں نے بلند آواز میں کہا: ’’ہم نے آپ کو خلیفہ بنایا ہے، اور ہم سب آپ سے راضی ہیں، آپ خدا کا نام لے کر کام شروع کیجیے‘‘۔
جب آپ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب کسی شخص کو ان کی خلافت سے اختلاف نہیں ہے تو اس وقت آپ نے اس بارِ عظیم کو قبول کیا اور مسلمانوں کے سامنے تقریر کی ۔ جس میں تقویٰ، فکرآخرت کی تلقین اور خلیفۂ اسلام کی اصل حقیقت واضح کی ۔عمر بن عبدالعزیز _ نے فرمایا :
لوگو ! تمھارے نبی کے بعد دوسرا نبی آنے والا نہیں ہے اور اللہ نے اس پر جو کتاب اُتاری ہے، اس کے بعد دوسری کتاب آنے والی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیز حلال کردی ہے وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اور جو چیز حرام کر دی ہے، وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ میں ( اپنی جانب سے ) کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ صرف ( احکام الٰہی کو ) نافذ کرنے والا ہوں۔خود اپنی طرف سے کوئی نئی بات کرنے والا نہیں ہوں بلکہ محض پیرو ہوں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے۔ میں تم میں سے کوئی ممتاز آدمی نہیں ہوں بلکہ معمولی فرد ہوں، البتہ تمھارے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے۔
لوگو ! جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے، اس کی اطاعت واجب ہے، اور جو شخص اس کی نافرمانی کرے اس کی فرماں برداری جائز نہیں۔ جب تک میں اللہ کی اطاعت کروں، میری اطاعت کرو ۔ اگر میں اس کی نافرمانی کروں، تو میری فرماں برداری تم پر فرض نہیں ہے۔
لوگو! اللہ تعالیٰ کے خوف وتقویٰ کو لازم پکڑو ۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہر چیز کا بدل ہے مگر اس کا کوئی بدل نہیں ۔
لوگو! مجھ سے پہلے بعض حکام کو خوش رکھنا تم اس لیے ضروری سمجھتے تھے تا کہ اس طرح تم ان کے ظلم سے محفوظ رہ سکو۔
لوگو! میں مال و دولت کو تم سے بچابچا کر نہیں رکھوں گا، بلکہ جہاں مجھے حکم دیا گیا وہاں صرف کروں گا۔ سن رکھو! خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں ہے۔
اس کے بعد آپ منبر سے نیچے اُتر آئے اور لوگوں کو چلے جانے کا حکم دیا ۔(تاریخ ابن اثیر :ج۵،ص۱۶، سیرت ابن عبدالحکم، ص۳۸-۳۹)
l دوسـرا خطبہ : عمر بن عبدالعزیز _ جب مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو دوسرے علاقوں سے کئی لوگ اپنی اپنی ضرورتوں کے لیے دار الخلافہ میں آئے ہوئے تھے ۔ آپ نے ان تمام لوگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے درج ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:
لوگو! اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے جاؤ، کیوںکہ جب تم میرے پاس ہوتے ہو تو میں بھول جاتا ہوں، اور جب تم اپنی اپنی جگہ پر ہوتو مجھے خوب یاد رہتے ہو ۔
دیکھو! میں نے کچھ لوگوں کو تم پر حاکم مقررکیا ہے ۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ تم میں سے بہتر آدمی ہیں۔ ہاں، یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بہت سوں سے اچھے ہیں۔ اگر کسی شخص پر اس کا حاکم ظلم ڈھاتا ہے تو میں آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ اسے میری طرف سے اس بات کی اجازت نہیں ہے ( اطلاع ملنے پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی )۔ اور جس پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہوا (جو یونہی یہاں آیا ہوا ہے ) اسے اپنی جگہ واپس جانا چاہیے، آیندہ میں اسے یہاں نہ دیکھوں ۔
دیکھو ! میں نے اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے اس مال کو ممنوع قرار دےرکھا ہے۔ اب اگر تم کو دینے میں بھی بخل کروں تو پھر میں پرلے درجے کا کنجوس ہوں گا۔ اگر میں کسی سنت کو بلند نہ کرسکوں یا حق وانصاف کی راہ نہ چل سکوں تو میں ایک گھڑی بھی زندہ رہنا نہیں چاہوں گا۔
عمر بن عبدالعزیز _ جب مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو ان کے پیش نظر،یہ تھا کہ اُموی حکومت کو خلافت راشدہ میں بدل دینا چاہیے۔ وہ چاہتے تھے کہ نظام خلافت میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا جائے۔ ان کے پیش نظریہ بھی تھا کہ جب وہ اس سلسلے میں عملی قدم اٹھائیں گے تو ان کی مخالفت میں ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ لیکن آپ نے پختہ ارادہ کر لیا کہ نظام خلافت میں ضرور تبدیلی لاکر اسے اصل پر واپس لوٹائیں گے ۔ چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دو ضروری کام کرنے کا عزم کیا : ۱-غصب شدہ مال و جایداد کی واپسی، اور ۲-باغ فدک کا معاملہ۔
شاہی خاندان اور امرا کو دیے ہوئے سابقہ حکام کے ناجائز تحائف، بیت المال سے عہدے داران کے ذاتی مصارف، عوام پر ظالمانہ ٹیکس، غیرمسلموں پر ٹیکس کی ظالمانہ شرح، ان سب کو سیّدنا عمر نےاصل حیثیت پر لوٹایا۔
عمر بن عبدالعزیز _ سے پہلے خلفاے بنو امیہ نے رعایا کے مال و جایداد پر ظالمانہ قبضہ کر لیا تھا۔ اس مال کے ان کے اصل مالکوں کو واپس کرنا انھوں نے اپنے اُوپر فرض قرار دیا۔ چنانچہ اس سلسلے میں آپ نے سب سے پہلے عملی قدم اپنی ذات اور اپنے خاندان سے شروع کیا ۔ آپ کے پاس بہت بڑی موروثی جاگیر تھی ۔ آپ کے بعض خیر خواہوں نے آپ کو مشورہ دیا: ’’ اگر آپ جاگیر واپس کریں گے تو اولاد کے لیے کیا انتظام کریں گے؟‘‘ فرمایا : ’’ میں ان کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں‘‘۔ اس کے بعد آپ نے بنی مروان کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: ’’ بنی مروان ! تم کو شرف اور دولت کا وافر حصہ ملا ہے۔ میرا خیال ہے کہ امت کا نصف یا دو تہائی مال تمھارے قبضے میں ہے‘‘۔
یہ لوگ اشارہ سمجھ گے اور عمر بن عبدالعزیز _سے مخاطب ہو کر کہا :’’ خدا کی قسم ! جب تک ہمارے سرتن سے جدا نہ ہوں گے اس وقت تک ہم یہ جایداد واپس نہیں کر سکتے۔ خدا کی قسم ! نہ اپنے آباو اجداد کو کافر بنا سکتے ہیں اور نہ اپنی اولاد ہی کو مفلس بنائیں گے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیز _ نے بنی مروان کی زبانوں سے یہ الفاظ سنے تو آپ نے فرمایا: ’’خداکی قسم! اگراس حق کی ادایگی میں تم میری مدد نہیں کرو گے تو میں تم سب کو ذلیل ورسوا کر کے چھوڑوں گا‘‘۔(سیرت عمر بن عبدالعزیز از ابن جوزی، بیروت ۱۹۸۴ء، ص ۱۰۸)
اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز _ نے عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ جب تمام لوگ مسجد میں جمع ہو گئے تو آپ نے ان کے سامنے تقریر کی:
ان لوگوں ( اُموی خلفا ) نے ہم ارکانِ خاندان کو ایسی جاگیریں اور عطیات دیے، خداکی قسم! جن کے دینے کا نہ ان کو کوئی حق تھا اور نہ ہمیں ان کے لینے کا ۔ اب میں ان سب کو ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرتا ہوں ۔ اور اپنی ذات اور اپنے خاندان سے شروع کرتا ہوں۔
اس تقریر کے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے غلام مزاحم کو حکم دیا کہ وہ شاہی دستاویز لائے جس میں جاگیروں کی الاٹمنٹ کے احکامات تھے۔ چنانچہ مزاحم دستاویز لائے اور پڑھ کے سناتے جاتے تھے اور عمر بن عبدالعزیز اسے قینچی سے کاٹ کاٹ کر پھینکتے جاتے تھے۔ ظہر کی نماز تک آپ نے تمام جاگیریں اصل حق داروں کو واپس کردیں، حتیٰ کہ ایک نگینہ بھی اپنے پاس نہ رہنے دیا۔(طبقات ابن سعد، ص۲۵۲)
جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہیں: ’’عتبہ بن سعید بن ابی العاص، عمر بن عبدالعزیز _ کے پاس آئے اور عرض کیا :’’ امیر المومنین آپ سے پہلے خلفاے بنو اُمیہ ہم کو مال ومتاع اور عطیات مرحمت فرماتے تھے ۔ لیکن آپ نے یہ سب سلسلہ بند کر دیا ہے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا:’’ تم محنت و مشقت سے کام کرو اور اپنی روزی کماؤ‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اے عتبہ ! تم موت کو زیادہ یاد کرو تاکہ تم اگر تنگ دست ہو تو اس میں وسعت پیدا ہو۔اگر تم کو وسعت اور فراخی میسر ہے تو تم کو تنگی محسوس ہو‘‘۔( تاریخ الخلفاء، ص۳۲۳)
آپ کی بیوی فاطمہ، عبدالملک کی بیٹی تھی ۔ عبدالملک نے شادی کے وقت بہت سا زیور اور ایک بیش بہا قیمتی پتھر اُنھیں دیا تھا اور یہ پتھر اور زیور فاطمہ بنت عبدالملک کے پاس محفوظ تھا ۔ آپ نے اپنی بیوی سے فرمایا:’’ تمھارے پاس جو زیور اور قیمتی پتھر ہے، یہ سب بیت المال میں جمع کر ادو ۔ اگر تم یہ زیور وغیرہ اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو توپھر مجھے چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ‘‘۔
اطاعت شعار بیوی نے جواب دیا:’’ آپ میرا تمام زیور اور قیمتی پتھر شوق سے بیت المال میں جمع کر ادیجیے۔ میں زیور کے مقابلے میں آپ کو ترجیح دیتی ہوں‘‘۔
جب عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہو گیا اور حسبِ وصیت یزید بن عبدالملک خلیفہ ہوا،تو اس نے آپ کی زوجہ محترمہ ( اپنی بہن فاطمہ ) سے کہا: ’’اگر تم چاہو تو میں تمھارا تمام زیور بیت المال سے واپس لے کر تم کو دے دوں؟‘‘
فاطمہ نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا :’’ جو چیز میں اپنی مرضی سے اپنے خاوند کی زندگی میں دے چکی ہوں ، اب ان کے انتقال کے بعد واپس نہیں لوں گی‘‘۔
فدک خیبر کا ایک گاؤں تھا ۔ فتح خیبر کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے’ خالصہ ‘ قرار دے دیا تھا اور اس کی آمدنی آپؐ اہل بیت اور بنی ہاشم کی ضروریات میں صرف فرماتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ ہوئے تو حضرت فاطمہ ؓ نے اس کا مطالبہ کیا، لیکن حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ’’ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے کہ انبیاکے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی ‘‘۔ (سنن ابوداؤد: ۲۹۶۹)
اس کے بعد مروان بن الحکم نے باغِ فدک کو اپنی ذاتی جاگیر بنالیا اور بطورِ وراثت یہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضے میں آیا ۔سنن ابوداؤد میں ہے :’’عبداللہ بن جریر مغیرہ سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز _ بن مروان بن الحکم جس وقت خلیفہ بنائے گئے تو انھوں نے مروان کے بیٹوں کو جمع کیا اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو باغ فدک تھا، آپؐ اس کی آمدنی اپنے اہل وعیال ، فقرا اور مساکین پر خرچ کرتے تھے ۔ اور اس سے بنی ہاشم کے چھوٹے لڑکوں پر احسان کرتے تھے ، اور بیوہ عورتوں کے نکاح پر بھی خرچ کرتے تھے۔ رسولؐ اللہ سے حضرت فاطمہؓ _ نے فدک کا سوال کیا تھا، یعنی فدک مجھے دے دیا جائے تو آپؐ نے حضرت فاطمہؓ _ کو فدک نہ دیا ۔ اور اس کی جو صورت تھی وہ اسی طرح رہی جو رسولؐ اللہ کی زندگی میں تھی۔ جب آنحضرتؐ کی وفات ہوئی اور حضرت ابو بکر صدیقؓ _ خلیفہ ہوئے تو اس کی صورت تب بھی وہی رہی جو رسولؐ اللہ کی حیاتِ طیبہ میں تھی۔ جب حضرت ابو بکر صدیقؓ _ کی وفات ہوئی اور حضرت عمرؓ _ خلیفہ ہوئے تو انھوں نے ایسا ہی عمل کیا۔ جس طرح آنحضرتؐ اپنی زندگی میں اپنے اہل وعیال اور برادران بنی ہاشم پر اور نکاحِ بیوگان وغیرہ پر صرف کرتے تھے، ویسے ہی حضرت عمر فاروق ؓ نے کیا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروقؓ کی وفات ہوئی۔ پھر مروان بن الحکم نے اس کو اپنی ذاتی جاگیر بنالیا اور اس نے یہ اقدام حضرت عثمانؓ _ کی خلافت میں کیا۔ اس کے بعد فد ک اب میرے تصرف میں آیا ہے۔{ FR 647 } میں نے یہ امر دیکھا ہے کہ رسولؐ اللہ نے اس کو حضرت فاطمہؓ _ کو نہیں دیا تھا، تو یہ میرے لیے بھی رکھنا درست نہیں اور میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ فدک کی جو حالت عہدِ رسالتؐ میں تھی، اس کو اسی طرف لوٹاتا ہوں‘‘۔
مولانا عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں کہ:’’ عمر بن عبدالعزیز _ نے گورنر مدینہ ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو ایک خط لکھا کہ مجھے تحقیقات کے بعد معلوم ہوا ہے کہ فدک سے فائدہ اُٹھانا میرے لیے جائز نہیں ہے۔ اس لیے میں اس کو اسی حالت میں لانا چاہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے زمانے میں تھی۔ جب آپ کو میرا یہ خط ملے تو اس کو ایک ایسے شخص کے قبضے میں دیجیے جو تمام حقوق کی محافظت کے ساتھ اس کی نگرانی کرے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیز _ نے نہ صرف علاقے اور جاگیریں چھین کر بنی اُمیہ کو تہی دست کردیا، بلکہ ان کے سارے امتیازت مٹا کر اُن کے نخوت و غرور کو خاک میں ملا دیا ۔آپ کے اس اقدام سے خاندان میں ان کے خلاف سخت برہمی پھیل گئی اور اُنھوں نے ہر طریقے سے پوری کوشش کی کہ عمر بن عبدالعزیز _ نے جو اصلاحی تحریک چلائی ہے اس کو ختم کیا جائے۔ اہل خاندان نے ایک دفعہ آپ سے کہا تھا کہ آپ نے جو یہ سلسلہ شروع کیا ہے ہم اس پر راضی نہیں ہیں اور ہم کسی بھی صورت میں اپنی جاگیریں واپس نہیں کریں گے ، اورنہ مال آپ کو واپس دیں گے۔ ان کے جواب میں عمر بن عبدالعزیز _ نے فرمایا تھا:’’ یہ آپ کی خام خیالی ہے ۔ میں آپ سے تمام غصب شدہ مال واپس لے کر ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرکے رہوں گا‘‘۔
خاندان بنی امیہ نے کوشش جاری رکھی کہ عمر بن عبدالعزیز _ نے جو تحریک چلائی ہے اس سے دست بردار ہوجائیں ۔چنانچہ عمر بن عبدالولید بن عبدالملک نے آپ کو ایک خط لکھا:
تم نے گذشتہ خلفا پر عیب لگایا ہے اور ان کی اولاد کی دشمنی سے ان کے مخالف روش اختیار کی ہے۔ تم نے قریش کی دولت اور ان کی میراث کو ظلم و عدوان سے بیت المال میں داخل کرکے قطع رحم کیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز _! خدا سے ڈرو اور اس کاخیال کرو کہ تم نے ظلم کیا۔ تم نے منبر پر بیٹھنے کے ساتھ ہی اپنے خاندان کو ظلم و جور کے لیے مخصوص کرلیا۔ اس خدا کی قسم! جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی خصوصیات کے ساتھ مختص کیا! تم اپنی اس حکومت میں جس کو تم مصیبت کہتے ہو، خدا سے بہت دُور ہو گئے ۔ اپنی خواہشات کو روکو اور یقین کرو کہ تم اس حالت میں چھوڑے نہیں جا سکتے۔
عمر بن عبدالعزیز _ اگر چہ سراپا حلم تھے، لیکن آپ نے بھی اس کا سخت جواب لکھا :
مجھے تمھارا خط ملا اور جیسا تم نے لکھا ہے میں ویسا ہی جواب دوں گا۔تم ایک معاند اور ظالم ہو۔ تمھارا خیال ہے کہ میں ظالموں میں سے ہوں، میں نے تم کو اور تمھارے خاندان کو خدا کے مال سے جس میں اہل قربیٰ ، مساکین اور بیواؤں کا حق ہے محروم کر دیا؟ لیکن مجھ سے زیادہ ظالم اورمجھ سے زیادہ خدا کے عہد کو چھوڑ دینے والا وہ شخص ہے جس نے تم کو بچپن اور کمینے پن کی حالت میں مسلمانوں کی ایک چھاؤنی کا افسر مقرر کیا ۔ اور تم اپنی راے کے موافق ان کے معاملات کا فیصلہ کرتے رہے ۔ پس پھٹکار ہو تجھ پر اور پھٹکار ہو تیرے باپ پر، جو اپنے مدعیوں سے کیوں کر نجات پائے گا۔مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے، جس نے حجاج کو عرب کے خمس پر مقرر کیا ۔ جو حرام خون بہاتا تھا اور حرام مال لیتا تھا۔مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے کیا ہوا عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے، جس نے قرۃ بن شریک جیسے اُجڈبدو کو مصر کاعامل مقرر کیا۔ جس نے راگ باجا، لہوو لعب اور شراب خوری کی اجازت دی۔ مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے ،جس نے عر ب کے خمس میں عالیہ بربر یہ کا حصہ مقر رکیا ۔
اگر مجھ کو فرصت ہوتی تو میں تجھے اور تیرے خاندان کو روشن راستے پر لاتا ۔ ہم نے مدتوں سے حق کو چھوڑدیا۔ اگر تم فروخت کیے جاؤ اور تمھاری قیمت یتیموں ، مسکینوں ، اور بیواؤں پر تقسیم کی جائے تو کافی نہ ہوگی کیوںکہ تم پرسب کا حق ہے۔ ہم پر سلام ہو، اور خدا کا سلام ظالموں کو نہیں پہنچتا۔(سیرت عمر بن عبدالعزیز ، ابن جوزی ،ص ۱۱۲)
عمر بن عبدالعزیزؒ _ نے جو تحریک چلائی تھی اس پر وہ سختی سے عمل پیرا تھے۔ مروان نے ایک بار ہشام بن عبدالملک کو اپنا وکیل بنا کر عمر بن عبدالعزیز _ کے پاس بھیجا، اور انھیں کہا کہ آپ عمر بن عبدالعزیز _ سے کہیں کہ اُنھوں نے جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کو بند کریں۔ چنانچہ ہشام بن عبدالملک نے آپ سے آکر کہا:’’ اے امیر المومنین! میں آپ کی خدمت میں تمام خاندان کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں ۔ اور ان کا مطالبہ ہے کہ جو چاہے کیجیے لیکن گذشتہ خلفا جو کرگئے ہیں، اس کو اسی حالت میں رہنے دیجیے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس کے جواب میں ہشام بن عبدالملک سے پوچھا:’’ تمھارے پاس دو دستاویز ہوں۔ ایک سیدنا معاویہؓ _ کی اور دوسری عبدالملک کی، تو تم دونوں میں کس پر عمل کرو گے؟‘‘ہشام نے کہا :’’جو مقدم ہوگی‘‘ ۔ عمر بن عبدالعزیز _ نے کہا:’’ تو میں نے کتاب اللہ کو سب سے مقدم دستاویز پایا ہے۔ اس لیے ہر اس چیز میں جو میرے اختیار میں ہے، خواہ وہ میرے زمانے کی ہو یا گذشتہ زمانے سے متعلق ہو، اسی کے مطابق عمل کروں گا‘‘۔(ایضاً، ص ۱۱۹)
جب بنی مروان کی کوئی تدبیر کار گرنہ ہوئی تو انھوں نے آخری حربہ استعمال کیا ، اور آپ کی پھوپھی کو آپ کی خدمت میں بھیجا ۔ چنانچہ وہ آئیں اور عمر بن عبدالعزیز _ سے کہا کہ’’ عمر ! تمھارے اعزہ واقارب شکایت کرتے اور کہتے ہیں کہ تم نے ان سے غیر کی دی ہوئی روٹی چھین لی ‘‘۔
عمر بن عبدالعزیز _ نے کہا : ’’ میں نے ان کا کوئی حق نہیں چھینا‘‘۔
پھوپھی نے جواب دیا: ’’سب لوگ اس کے متعلق گفتگو کرتے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ تمھارے خلاف بغاوت نہ کر دیں‘‘۔
عمر بن عبدالعزیز _ نے فرمایا: ’’ اگر میں قیامت کے سوا کسی دن سے ڈروں تو اللہ مجھے اس کی برائیوں سے نہ بچائے‘‘۔
اس کےبعد ایک اشرفی ، گوشت کا ایک ٹکڑا اور ایک انگیٹھی منگوائی اور اشرفی کو آگ میں ڈال دیا۔ جب وہ خوب سرخ ہو گئی تو اس کو اُٹھا کر گوشت کے ٹکڑے پر رکھ دیا، جس سے وہ بھن گیا۔ اب پھوپھی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: ’’ اپنے بھتیجے کے لیے کیا اس قسم کے عذاب سے پناہ نہیں مانگتیں؟‘‘ پھوپھی نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔ اور خاموشی سے اُٹھ کر چلی گئیں ۔
بنی مروان، عمر بن عبدالعزیز _ کے اس عملی اقدام سے سخت ناراض تھے اور انھوں نے آپ کی مخالفت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن ان سب مخالفتوں کا اثر عمر بن عبدالعزیز _ نے قبول نہ کیا اور اُنھوں نے جو تحریک اٹھائی، اس کو مکمل کر کے چھوڑا ۔ تاہم، آپ نےمختلف اخلاقی طریقوں سے اپنے خاندان کی ناراضی کو کم کیا ۔
عمر بن عبدالعزیز _ نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی ملک میں اصلاحات کی طرف توجہ کی ۔ آپ نے سب سے پہلے صوبوں کے گورنروں کے نام ایک فرمان جاری کیا۔ جس میں آپ نے اپنے عزائم سے آگاہ کیا ۔آپ کا فرمان یہ تھا:
سلیمان بن عبدالملک، اللہ کے بندوں میں ایک بندہ تھا ، جسے اس نے نعمتِ خلافت سے بہرہ اندوز کیا تھا ۔ اب اس کا انتقال ہو گیا اور میں اس کا قائم مقام بنایا گیا ہوں۔ اللہ نے جو ذمہ داری مجھ پر عائد کی ہے وہ بہت سخت ہے۔ اگر بیویاں جمع کرنا اور دولت سمیٹنا مجھے منظور ہوتا تو مجھ سے زیادہ کسی کے لیے اس کے وسائل مہیا نہ تھے ۔ لیکن میرا تو حال یہ ہےکہ میں خلافت کی ذمہ داری کے سلسلے میں سخت محاسبے سے لرزاں ہوں ۔ البتہ اگر اللہ نے رحم و درگزر سے کام لیا تو اُمید ہے کہ چھٹکارا ہو جائے۔
اس کے علاوہ مختلف صوبوں کے گورنروں کے نام مخصوص حالات کے پیش نظر مخصوص احکام بھیجے۔ سلیمان بن ابی السریٰ کو لکھا :
تم مسافر خانے بنواؤ۔ جو مسلمان ادھر سے گزرے، اس کو ایک دن اور ایک رات مہمان ٹھیراؤ ۔اس کو کھانا کھلاؤ، اس کی سواری کے چارے کا بندوبست کرو۔اگر مسافر مریض ہو تو اس کے علاج ومعالجے کی طرف توجہ دو اور سرکاری خرچ پر اس کو اس کے گھر پہنچانے کا بندوبست کرو۔
گورنر کوفہ عبدالحمید کو یہ حکم بھیجا:’’ رعایا سے اچھا بر تاؤ کرو۔ خراج کے معاملے میں نرمی اختیار کرو ۔ غیر آباد زمین سے خراج کا مطالبہ نہ کرو۔ اگر غیر مسلم شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے تو اس سے جزیہ وصول نہ کرو ‘‘۔
عمر بن عبدالعزیز ؒنے اعلیٰ حکامِ سلطنت اور اُمرا کا سختی سے احتساب کیا۔خراسان کے گورنر یزید بن مہلب کے ذمے بیت المال کی ایک گراں قدر رقم وجب الادا تھی، اس کو دربارِ خلافت میں طلب کر کے اس سے رقم کا مطالبہ کیا ۔ اس نے رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ _ نے یزید بن مہلب سے کہا:’’اگر تم نے رقم بیت المال میں جمع نہ کرائی تو تجھے قید کر دیا جائے گا ۔ جو رقم تم نے دبارکھی ہے وہ تمھیں ہر حال میں ادا کرنی ہو گی ۔ اور یہ مسلمانوں کا حق ہے اور میں اسے کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ چنانچہ ٹال مٹول کرنے پر یزید بن مہلب کو جیل خانے بھجوا دیا گیا ۔یزید بن مہلب کے بیٹے مخلد کو جب اس کی اطلاع ملی کہ میرے والد کوجیل بھجوا دیا گیا ہے تو وہ امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز _ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے والد کی رہائی کامطالبہ کیا۔
عمر بن عبدالعزیز _نے فرمایا : ’’ میں جب تک تمھارے والد سے ایک ایک کوڑی نہ وصول کر لوں گا تمھارے والد کو نہ چھوڑوں گا کیوںکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے حقوق کا ہے‘‘۔(تاریخ طبری، ج۶، ص۳۴، نفیس اکیڈمی، کراچی)
یزید بن مہلب کی جگہ عمر بن عبدالعزیز _ نے جراح بن عبداللہ کو خراسان کا گورنر مقرر کیا تو اس نے ان نومسلموں پر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے، جزیہ بحال رکھا۔ عمر بن عبدالعزیز _ کوجب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے جراح بن عبداللہ کو لکھا:’’ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کو دین مبین کا داعی بنا کر بھیجا گیا تھا، ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ جو شخص نماز ادا کرے تمھیں اس سے جزیہ وصول کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘۔
جراح بن عبداللہ نے اس حکم کی تعمیل شروع کردی تو لوگ گروہ درگردہ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر بعض حاشیہ نشینوں نے پھر جراح کو بہکایا کہ’’ ان لوگوں کا ختنہ کرا کے ان کے اخلاص کا امتحان لینا چاہیے‘‘۔ جراح نے اس سلسلے میں عمر بن عبدالعزیز _ کی راے طلب کی ۔ آپ نے جواب دیا:’’اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو داعی اسلام بنا کر بھیجا تھا، ختنہ کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا‘‘۔آخر کار عمر بن عبدالعزیزؒ _ نے جراح بن عبداللہ کو اس کے عہدے سے معزول کر دیا۔(البدایہ والنہایہ، ص ۱۸۸)
عمر بن عبدالعزیز ؒ سے پہلے خلفاے بنوامیہ کے دور میں بیت المال میں کچھ خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ۔ آپ نے بیت المال کی اصلاح کے لیے جو اصلاحات کیں اس کی مختصر تفصیل یہ ہے :
۱-آپ کے دور ِخلافت سے پہلے تمام آمدنیاں خمس ، صدقہ اور فے ایک جگہ جمع ہوتی تھیں۔ ان کا علیحدہ حساب نہیں رکھا جاتاتھا۔ آپ نے حکم دیا کہ ہر قسم کی آمدنی علیحدہ علیحدہ جمع کی جائے اور اس کاعلیحدہ حساب رکھا جائے ۔(طبقات ابن سعد،ص ۲۹۸)
۲- بیت المال مسلمانوں کا مشتر کہ خزانہ ہے۔ اس سے ہر مسلمان مساوی فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن آپ سے پہلے شاہی خاندان کا وظیفہ مخصوص تھا۔ آپ نے اس کو کلی طور پر بند کر دیا۔(تاریخ الخلفاء،ص ۲۴۳)
۳- آپ سے پہلے کے خلفا،ان شعرا واُدبا کو جو ان کی مدح میں قصیدے وغیرہ لکھتے تھے، انھیں بیت المال سے انعامات دیے جاتے تھے ۔عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ سب انعامات اور وظائف بند کر دیے ۔(ایضاً، ص ۲۴۳)
۴- عمر بن عبدالعزیزؒ سے پہلے خلفا، جب عشاء اور فجر کی نماز کے لیے مسجد میں جاتے تھے تو ایک آدمی شمع لے کر ساتھ چلتا تھا اور شمع کا خرچہ بیت المال پر پڑتا تھا ۔ جمعہ کے دن اور رمضان کے مہینے میں مساجد میں خوشبو سلگائی جاتی تھی اور اس کے مصارف بھی بیت المال سے ادا کیے جاتے تھے ۔ آپ نے فوراً یہ سلسلہ بالکل بند کردیا۔(طبقات ابن سعد ،ص ۲۹۹)
۵-بیت المال کی آمدنیوں میں خمس کے پانچ مصرف متعین ہیں، جن کے علاوہ ان کو کسی دوسری جگہ صرف نہیں کی جاسکتا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ _ سے پہلے کے خلفا ان مصارف کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ مصارف میں سب سے مقدم اہل بیت ہیں، لیکن ولید اور سلیمان نے اہل بیت کو ان کے حق سے محروم کردیا تھا ۔ عمر بن عبدالعزیز _ جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے خمس کو ان کے صحیح مصارف میں صرف کیا اور اہل بیت کو ان کا حق دیا ۔(ایضاً، ص ۲۸۹)
بیت المال کی اصلاح ، حفاظت اور نگرانی کا آپ سختی سے نوٹس لیتے تھے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے۔ حافظ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ: ایک بار یمن کے بیت المال سے ایک دینار گم ہو گیا تو آپ نے افسر بیت المال کو لکھا کہ’’ میں تمھاری امانت پر کوئی الزام نہیں لگاتا ، لیکن تمھاری لاپرواہی اور غفلت کو جرم قرار دیتا ہوں۔ میں مسلمانوں کے مال کی طرف سے مدعی ہوں، تم پر فرض ہے کہ قسم کھاؤ‘‘۔(سیرت عمر بن عبدالعزیز، ص ۸۸)
- خراج، جزیہ اور ٹیکس ملکی محاصل ہیں اور ان کی آمدنی پر ملک اور حکومت کی بقا اور خوش حالی کا دارومدار ہے ۔ لیکن عمر بن عبدالعزیزؒ کے دِور حکومت سے پہلے ان تمام چیزوں کا نظام ابتر ہوگیاتھا اور رعا یا کے لیے یہ ٹیکس وغیرہ ایک بوجھ بن گئے تھے ۔اسلام میں جزیہ صرف غیرمسلموں سے وصول کیا جاتا ہے ۔ لیکن جب کوئی یہودی، عیسائی اور پارسی وغیرہ اسلام قبول کرلیتا تھا تو اس نومسلم سے بھی جزیہ وصول کیا جاتا تھا ۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے نو مسلموں سے جو جزیہ وصول کیاجاتا تھا ، اس کو ساقط کر دیا۔ آپ نے حیان بن شریح کو لکھا کہ’’ ذمیوں میں جو لوگ مسلمان ہو گئے ہیں، ان کا جزیہ ساقط کر دیا جائے۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَہُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۵ ( التوبہ۹:۵) اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہ چھوڑ دو۔ یقینا اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ۲۹( التوبہ۹:۲۹) ان لوگوں سے لڑو جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیز کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق قبول کرتے ہیں۔ (لڑو ان لوگوں سے) جنھیں کتاب دی گئی ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔
۷- نوروز اور مہرجان پارسیوں کا تہوار تھا ۔ اس تہوار کےرسم ورواج کے پابند صرف پارسی ہوسکتے تھے۔ امیر معاویہؓ _ نے ان تہواروں پر رعایا سے ایک معمولی رقم وصول کرنا شروع کی تھی، جس کی مقدار ایک کروڑ درہم ہوتی تھی۔ عمر بن عبدالعزیز _ نے یہ سلسلہ ختم کردیا اور حکم جاری کر دیا کہ نوروز اور مہرجان کےبدلے ان کے پاس کسی قسم کی کوئی چیز نہ بھیجی جائے۔(طبقات ابن سعد ،ص۲۶۲)
۸-حجاج بن یوسف کا بھائی محمد بن یوسف جب یمن کا گورنر مقرر ہوا، تو اس نے حجاج کی طرح ظلم وستم کا سلسلہ شروع کیا اور رعایا پر بے جا قسم کے ٹیکس عائد کر دیے۔عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ تمام ٹیکس کلی طور پر ختم کر دیے اور صرف عشر مقرر کیا ۔(فتح البلدان، ص ۸۰)
۹-فرات میں کچھ خراجی زمین تھی ۔ لیکن جب وہاں کے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے اور کچھ اراضی دوسرے لوگوں کےہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے قبضے میں آگئی تو وہ حسب معمول عشری ہو گئی ۔ حجاج نے اپنے زمانے میں ان لوگوں سے بھی خراج وصول کیا ۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے دوبارہ اس کو عشری قرار دیا ۔(ایضاً ، ص ۸۰)
۱۰-عمر بن عبدالعزیزؒ سے پہلے کے خلفاے بنوامیہ نے رعایا پر مختلف قسم کےٹیکس عائد کیےتھے ۔مولانا عبدالسلام ندوی، کتاب الخراج از قاضی ابو یوسف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ’’ روپیہ ڈھالنے پر ٹیکس ، چاندی پگھلانے پر ٹیکس، عرائض نویسی پر ٹیکس ، دکانوں پر ٹیکس ، گھروں پر ٹیکس ، پن چکیوں پر ٹیکس ، نکاح کرنے پر ٹیکس، غرض یہ کہ کوئی چیز ٹیکس سے بری نہ تھی۔ اور یہ ٹیکس ماہانہ وصول کیے جاتے تھے‘‘۔(سیرت عمر بن عبدالعزیز،ص ۱۲۰)
عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ سب ناجائز ٹیکس موقوف کر دیے۔ اس کے ساتھ آپ نے یہ اقدام بھی کیا کہ آپ كکے زکوٰۃ وصول کرنےوالے شاہر اؤں پر بیٹھ جاتے تھے اور زکوٰۃ و صدقات وصول کرتے تھے، لیکن جب آپ کو اس کی اطلاع ملی کہ لوگ اس طریقے سےناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، تو اس مشق کوفوراً ختم کردیا اور حکم جاری کردیاکہ اب اس طرح زکوٰۃ اور صدقہ وصول نہ کیا جائے۔ آپ نے ہر شہر میں ایک عامل مقرر کیا، جو زکوٰۃ وصدقات وصول کرتا تھا۔(طبقات ابن سعد ،ص۲۷۹)
کتاب الخراج کے مطابق: خراج وصول کرنے کے بارے میں عمر بن عبدالعزیزؒ نے ایک فرمان عبدالحمید بن عبدالرحمٰن گورنر کوفہ کے نام بھیجا اور لکھا:’’ زمین کامعائنہ کرو، بنجر زمین کا بار آباد زمین پر اور آباد زمین کا بار بنجر زمین پر نہ ڈالو۔ بنجر زمینوں کا معائنہ کرو۔ اگر ان میں بارآوری کی کچھ صلاحیت ہوتو بقدر گنجایش ان سے خراج لو اور ان کی اصلاح کرو تا کہ آباد ہو جائیں۔ جن زمینوں سے کچھ پیداوار نہیں ہوتی ، ان سے خراج نہ لو ۔ اور جو زمینیں قحط زدہ ہوجائیں، ان کے مالکوں سے نہایت نرمی کے ساتھ خراج وصول کرو۔ خراج میں صرف وزن سبعہ لو جن میں سونا نہ ہو۔ ٹکسال اور چاندی پگھلانے والوں سے ٹیکس ، نوروز اور مہرجان کےہدیے ، عرائض نویسی اور فتوح کا ٹیکس ، گھروں کا ٹیکس ، اور نکاح کرنے کا ٹیکس نہ لو اور جو ذمی مسلمان ہو جائیں، ان پر خراج نہیں ہے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے مختصر مدت میں اس معاشی اور انتظامی ظلم کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن اقدام اُٹھائے، جنھوں نے یہ ثابت کیا کہ خلفاے راشدینؓ کے عہد ِ باسعادت کے بعد بھی ریاست و سیاست اور حکومت و معیشت کو سنوارا اور قرآن و سنت کی منشا کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے۔