’’[۱۲دسمبر ۱۹۸۳ء میں کویت میں خوں ریز دھماکے ہوئے نتیجتاً لبنانی حزب اللہ سے منسوب ۱۷ گوریلوں کو حکومت ِ کویت نے گرفتار کرلیا۔ ۵؍اپریل ۱۹۸۸ء کو ان کی رہائی کے لیے کویت ایرویز کی پرواز ۴۲۲ کو ]اغوا کرلیا گیا تھا۔ اس میں سوار بے گناہ بوڑھے، بچے اور عورتوں کو مسلسل ۱۶ دنوں تک خوف و ہراس کی حالت میں رکھا، بلکہ اغوا کنندگان نے بعض معصوموں کی جان بھی لے لی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اغوا کنندگان اپنے بارے میں متقی اور پرہیزگار ہونے کی بھی نمایش کرتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے طیارے کا اغوا اچھے اور نیک مقصد کے لیے کیا ہے۔ وہ نماز کے وقت نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے اور ان کی زبانیں ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتی تھیں۔
براہ کرم رہنمائی کیجیے کہ اس صورتِ حال میں اسلام کا کیا موقف ہے؟ کیا واقعی کسی اچھے اور نیک مقصد کے لیے اغوا جیسا گھنائونا جرم کیا جاسکتا ہے؟ کن گناہوں کی پاداش میں انھوں نے مسافروں کو اغوا کیا اور ان میں سے بعض کی جان لے لی؟ کیا اسلام اس طرح بے گناہوں کو ڈرانے، دھمکانے اور ان کی جان لینے کی اجازت دیتا ہے؟‘‘
بلاشبہہ میں نے اور میرے جیسے اُن کروڑوں مسلمانوں نے، جن کا دل ابھی پتھر نہیں ہوا ہے، مذکورہ واقعے سے سخت اذیت محسوس کی تھی۔ میں نے اپنے خطبوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں اس حرکت کی سخت مذمت بھی کی تھی۔
بے گناہ افراد پر ظلم ڈھانا، گناہ اور جرم ہے خواہ وہ کسی بھی دین یا کسی بھی قوم اور ملت سے تعلق رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس معاملے میں یہودیوں کی طرح اسلام کے دو پیمانے نہیں ہیں۔ یہودی قوم یہودیوں پر ظلم و زیادتی کو برداشت نہیں کرتی، لیکن خود دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنے میں کوئی گناہ محسوس نہیں کرتی۔
میں اسلام کے چند بنیادی اصول پیش کرتا ہوں، تاکہ اسلامی قوانین کی روشنی میں آپ کو اپنے سوال کا جواب مل سکے:
ذرا غور کیجیے کہ ایک بلی کو بلاوجہ قید کرنا اور اس کو اذیت دینا اتنا بڑا جرم ہے، تو ان لوگوں کا جرم کس قدر بھیانک ہوگا، جنھوں نے بے گناہ مسافروں کو طیارے کے اندر قید کر دیا۔ انھیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا اور ان میں سے بعض کی جان تک لے لی۔
بلاشبہہ اسلام کے اصولوں میں سے ایک واضح اصول یہ ہے کہ ہرشخص اپنے عمل کا خود ذمے دار ہے۔ اگر کسی نے غلطی کی ہے تو اس کی غلطی کی سزا اس کے باپ یا بھائی کو نہیں دی جائے گی۔ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ طیارے کے اغوا کنندگان خود کو ’متقی اور پرہیزگار‘ ظاہر کرنے کے باوجود اسلام کے اس واضح حکم سے کھلا انحراف کر رہے تھے۔ انھوں نے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے اور اس پر دبائو ڈالنے کے لیے، بے گناہ مسافروں پر ظلم کیا اور ان کی جان لی، حالاں کہ یہ مسافر بالکل بے قصور تھے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسا بھیانک جرم وہ ’اسلام کے نام‘ پر کر رہے تھے۔ بلاشبہہ ایسے لوگ مسلمانوں کے لیے باعث ِ شرمندگی بھی ہیں اور اسلام کی پیشانی پر ایک بدنما داغ بھی۔کیا انھیں پتا نہیں ہے کہ کسی بے گناہ کا قتل کس قدر بھیانک گناہ ہے؟
اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط(المائدہ ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔
لَزَوَالُ الدُّنْیَا اَھْوَنُ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ (ترمذی)، پوری دنیا کو مٹا دینا اللہ کے نزدیک زیادہ آسان ہے کسی مسلم کو قتل کردینے کے مقابلے میں۔
مَنْ اَشَارَ اِلٰی اَخِیْہٖ بِحَدِیْدَۃٍ فَاِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَلْعَنُہٗ حَتّٰی یَنْتَھِی (مسلم)، جس نے اپنے بھائی کی طرف ہتھیار اُٹھایا فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ہتھیار ہٹا لے۔
اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا الطَّیِّبَ (مسلم) اللہ پاک ہے اور صرف پاک چیز ہی کو قبول کرتا ہے۔
اسی لیے علماے کرام ’عملِ صالح‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: عملِ صالح وہ ہے جس میں دو باتیں پائی جاتی ہوں۔ پہلی یہ کہ عمل خالصتاً اللہ کے لیے ہو اور دوسری یہ کہ اسلامی احکام اور شریعت کے مطابق ہو۔ اسلامی شریعت سے ہٹ کر انجام دیا ہوا یا اللہ کے علاوہ کسی اور کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا عمل صالح عمل نہیں ہوسکتا۔
طیارہ اغوا کرکے ، مسافروں کو یرغمال بنانے والوں کا یہ دعویٰ کہ: ’’ہمارا مقصد نیک و صالح ہے اور جیلوں میں قید اپنے بے گناہ بعض ساتھیوں کی رہائی کی غرض سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں‘‘۔ ان کے اس ہدف کو اگر چند لمحوں کے لیے کوئی جائز سمجھ بھی لے، تو فی الواقع اس کے باوجود اس امرواقعہ میں دو راے نہیں کہ انھوں نے جو راستہ یا طریقہ اختیار کیا ہے وہ انتہائی شرم ناک ہے، قابلِ مذمت ہے اور یہ ایک بدترین جرم ہے۔ اس صورت میں اس جرم کا گھنائونا پن اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ انھوں نے یہ جرم ’اسلام کے نام‘ پر اور خود کو ’متقی پرہیزگار‘ سمجھتے ہوئے کیا ہے۔ اپنے اس رویے سے وہ اسلام کی زبردست بدنامی کا سبب بنے ہیں۔
بلاشبہہ اسلام کی نظر میں مسافر طیارے کو اغوا کرنا [یا کسی کو یرغمال بنانا] کسی بھی صورت جائز نہیں ہے اور اب علماے کرام پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دنیا والوں کے سامنے اسلام کے صحیح موقف کی وضاحت کریں اور انھیں پورے وثوق کے ساتھ بتائیں کہ اسلام اس نوعیت کے اقدامات اور کارروائیوں کی سختی کے ساتھ تردید کرتا ہے اور ایسا ظلم کرنے والے صحیح مسلمان نہیں ہوسکتے۔ (فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، دوم، ص۲۰۶۔ ۲۱۰، مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی، دسمبر ۱۹۹۸ئ)
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دین اسلام کے ذریعے عزت و تکریم بخشی ہے۔ یہ دین اُن کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا بیان ہے: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ ۵:۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔ اس نعمت کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی کہ اپنے بہترین رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اس دین کے ساتھ مبعوث فرمایا، اپنی بہترین کتاب قرآن مجید کو اس دین کی کتاب کے طور پر نازل فرمایا اور ہمیں یہ چیزیں عطا کر کے اُمت ِ وسط بنایا تاکہ ہم انسانیت کے سامنے شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیں۔
جنابِ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح انسانیت کے لیے کتابِ الٰہی قرآن مجید اور عالم گیر رسالت ِ رحمت چھوڑی ہے، ان کے ساتھ انسانیت کو اُمت بھی وراثت میں دی ہے۔ وہ اُمت جو اس رسالت پر ایمان، اس کے احکام کے نفاذ اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔
یہ اُمت اپنے بہترین گروہ سے شروع ہوئی، بلکہ انسانی تاریخ کے بہترین گروہ سے اس کی ابتدا ہوئی، یعنی اصحابِ رسولؐ کا گروہ! یہ قرآنی اور ربانی گروہ جس نے حضرت محمدؐ کے مدرسۂ نبوت میں تربیت حاصل کی۔ انھیں آپؐ کے ہاتھ سے سندِ فضیلت عطا ہوئی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنo (اعراف ۷:۱۵۷)، لہٰذا جو لوگ اس (نبی) پر ایمان لائے، اور اس کی حمایت و نصرت کی اور اس روشنی کی پیروی اختیار کی جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌo (انفال ۸:۷۴)، جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کی راہ میں گھربار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطائوں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُo (التوبۃ ۹:۱۰۰) وہ مہاجر اور انصار جنھوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی گروہ کے بارے میں فرمایا ہے: بہترین لوگ میرے عہد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے۔ (بخاری، مسلم)
صحابہ کرامؓ اُمت ِمسلمہ کا پہلا گروہ ہیں۔ جس طرح ان کی خوبیاں، فضائل اور رفعتِ مقام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں کیا ہے اسی طرح مجموعی طور پر اُمت ِمسلمہ کے چار اوصاف قرآن مجید نے بیان کیے ہیں:
یہ ایک جامع توازن کی حامل اُمت ہے جس نے روحانیت و مادیت اور دین و دنیا کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ اس نے زمین کو آسمان سے ملایا ہے، روح اور مادے کا امتزاج پیدا کیا ہے، مخلوق کو خالق سے جوڑ دیا ہے، حقوق اور فرائض کے درمیان توازن پیدا کیا ہے۔ اس نے دو روشنیوں، وحی اور عقل کو یک جا کیا ہے۔ گویا یہ نورٌ علٰی نور ہے۔ اس اُمت نے اعتدال و توازن کی تعلیم انسانیت کو دی ہے۔ عبادت اور معاملاتِ زندگی میں اعتدال قائم کرنے کی غرض سے فرمایا گیا کہ عبادت میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: تم پر تمھارے بدن کا بھی حق ہے، تمھارے دل کا بھی حق ہے، تمھارے اہل کا بھی حق ہے، تم پر میل ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی حق ہے اور تمھارے رب کا بھی حق ہے۔ ہر ایک کو اس کا حق ادا کرو۔ (بخاری، مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی مسلمان کے لیے فرمایا: ایک وقت تمھارے دل کے لیے ہونا چاہیے اور ایک تمھارے رب کے لیے (ساعۃ وساعۃ)۔ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا: کیا اُونٹنی کا گھٹنا باندھنا چاہیے، یا اللہ پر توکل کر کے رہنے دیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو (ترمذی)۔ صحابہ کرامؓ فرمایا کرتے تھے: اپنی دنیا کے لیے اس طرح کام کرو گویا تمھیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور اپنی آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو گویا تمھیں کل مرجانا ہے، یعنی دنیا کی نسبت آخرت کے کاموں کو زیادہ تیزی سے انجام دیا جائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت برپا ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا ایک پودا ہو تو اگر وہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اس پودے کو لگا سکتا ہے تو ضرور لگا دے (احمد)۔ غور کیا جائے کہ قیامت برپا ہونے کے بعد تو کوئی بھی نہیں رہے گا جو اس پودے کا پھل کھائے، لہٰذا اسے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟یہ اس لیے کہ مسلمان زندگی کی آخری سانس تک کام کرتا، پیداوار بڑھاتا اور دوسروں کو کچھ عطا کرتا ہے کیونکہ وہ نیک کام کے ذریعے ہی اپنے رب کی عبادت کرتا ہے۔
اس بنا پر اُمت مسلمہ ممتاز ٹھیرتی ہے کہ یہ دعوت کی حامل اُمت ہے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والی اُمت ہے، دنیا کی اصلاح کی علَم بردار اُمت ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔
اُمت محمدیہؐ اپنے عقیدے و عبادت، قبلے و شریعت ، اقدار و روایات، اسلوب و منہج اور مقصد میں مشترک ہونے کی بناپر اُمت ِواحدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)، ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘۔ پھر فرمایا: وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُط وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo (اٰل عمرٰن۳:۱۰۵)، ’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنھوں نے یہ روش اختیار کی، وہ سخت سزا پائیں گے‘‘۔تیسرے مقام پر فرمایا: وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ (انفال۸:۴۶)، ’’اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی‘‘۔
اسلام نے اس وحدت کو تین اساسی احکام میں مجسم کردیا ہے: ۱- وحدتِ مرجع ۲- وحدتِ دار ۳-وحدتِ قیادت۔
ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِــعْ اَہْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۱۸)، اے نبیؐ! ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے، لہٰذا تم اس پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔
یہ شریعت مسلمانوں کو متحد کرتی ہے انھیں منتشر نہیں کرتی۔ ان کے درمیان قرب پیدا کرتی ہے دُوری نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ (الانعام۶:۱۵۳)، ’’اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندہ کردیں گے‘‘۔
اُمت ِاسلامیہ ۱۳ صدیاں اُمت ِواحدہ رہی ہے جس کی ایک حکومت تھی۔ قیادت بھی ایک تھی جو خلافت ِ راشدہ، امویہ، عباسیہ، یا عثمانیہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ سیاسی قیادت اس نظام کو قائم رکھنا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ اس میں کوتاہی جائز نہیں تھی۔ بالآخر اس تاریخی قلعے کو گرا دیا گیا اور وحدتِ اُمت کو پارہ پارہ کر دیا گیا لیکن سیاسی قیادت کی اس وحدت کے ضائع ہوجانے کے باوجود اُمت قائم اور موجود ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، کوئی وہم نہیں۔ یہ ایک دینی، تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی حقیقت ہے۔ اگر کوئی اس حقیقت کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو وہ حج کے موسم میں اس حقیقت کا مشاہدہ کرلے، یا کسی ایسے موقع پر مسلمانوں کے جذبات کو دیکھے جب ان کے مقدسات پر کوئی کیچڑ اُچھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈنمارک میں بنائے گئے خاکوں کا مسئلہ ابھی کل کی بات ہے۔ اسی طرح ہالینڈ میں قرآن پر بنائی گئی فلم، سوئٹزرلینڈ میں میناروں کی تعمیر کو روکنے کے لیے قرارداد کی منظوری، یا فلسطین میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے وحشیانہ مظالم جیسے واقعات پر اُمت کے جذبات کو دیکھا جاسکتا ہے۔
۴۰ برس قبل یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کے منبر پر جارحیت کی تو اُمت ِ اسلامیہ زمین کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک متحرک ہوگئی اور انہدامِ خلافت کے بعد پہلی مرتبہ اس نے اپنی قیادت کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مسجد اقصیٰ کی واگزاری کے لیے، چوٹی کی قیادت کی صورت میں جمع ہوں۔ اس کے نتیجے میں ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ قائم ہوئی جو مقدور بھر کوشش کرتی ہے کہ اُمت ِاسلامیہ کی نمایندگی کرسکے۔ یہ تنظیم کمزور اور اس کا دائرۂ اثر محدود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تنظیم مؤثر ہو اور عالمِ اسلام کو درپیش مسائل کے سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ اس وقت حالات بہت گمبھیر ہیں۔ اُمت عراق، افغانستان، پاکستان، صومالیہ، یمن اور سوڈان میں باہمی قتل و غارت سے دوچار ہے۔
ہم نے علما کے تعاون سے ’عالمی اتحاد براے علماے مسلمین‘ قائم کی ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ایسے بڑے بڑے مسائل پر علماے اُمت کو ایک نکتے پر جمع کریں جن مسائل کے بارے میں کلمۂ حق کہنے، اُمت کو اس کے فوائد و نقصانات سے آگاہ کرنے اور تفرقہ و آویزش سے بچانے کی ضرورت ہو۔ اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ تصادم، جنگ اور خون ریزی سے بچا جائے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اُمت کی قیادت اور اس کے حکمران اللہ، رسول اور مومنوں کی خاطر ٹھوس موقف اپنائیں، اپنے اختلافات کو ترک کردیں، اپنے کردار کی اصلاح کریں اور حجۃ الوداع میں کی گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر کان دھریں کہ: ’’میرے بعد کافرانہ کام نہ کرنے لگ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو‘‘ (بخاری،مسلم)۔ حکمرانوں میں سے صاحب ِ وسائل اور اہلِ بصیرت آگے بڑھیں، اُمت کے دفاع کی غرض سے باہمی تعاون کاماحول بیدار کریں۔ اُمت کی مشکلات دُور کرنے کی کوشش کریں، اس کے شیرازے کو مجتمع کریں اور اس کے تشخص کو بحال کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔
مسلمان حکمرانوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اُمت ِمسلمہ کے پاس ایسے مادی و معنوی وسائل موجود ہیں جو اُمت کو دنیا میں صف ِ اوّل کی قوموں میں کھڑا کرسکتے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ ان نعمتوں، طاقتوں کو اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا کہ یہ اُمت کے لیے فائدے اور رفعت کا باعث بنیں۔
ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے یوں مناجات کرتے ہیں: اَللّٰھُمَّ أَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ ھُوَ عِصْمَۃُ أَمْرِیْ o وَأَصَلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِی فِیْھَا مَعَاشِی o وَأَصَلِحْ لِیْ آخِرَتِی الَّتِی اِلَیْھَا مَعَادِیْ o وَاجْعَلِ الْحَیَاۃَ زِیَارَۃً لِیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍo وَالْمَوْتَ رَاحَۃً لِیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ o (مسلم)، ’’اے اللہ! میرے لیے میرا دین نفع بخش بنادے کہ یہ میرے معاملے کی آبرو ہے، اور میرے لیے میری دنیا کو بھی درست فرما دے کہ اس میں میری معاش ہے اور میرے لیے میری آخرت بھی بہتر بنا دے کہ میرا آخری ٹھکانا وہی ہے۔ اے اللہ! زندگی کو میرے لیے ہر خیر میں اضافے کا باعث بنا دے، اور موت کو ہرقسم کے شر سے نجات کا ذریعہ بنا دے‘‘۔
اُمت ِ اسلامیہ کے پاس یہ مادی و روحانی وسائل اُمت کو ایک شان دار مستقبل کی خوش خبری دیتے ہیں اور اس خوش خبری کی طرف ہی قرآن مجید نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنo (الصف۶۱:۸) ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ مگر افسوس ہے کہ اُمت نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور تہذیبی و روحانی اور اقتصادی و انسانی قوتوں سے جس طرح کام لینے کی ضرورت تھی نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ روشن چراغ اس کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ مصائب کا حل موجود ہے مگر وہ مسائل سے دوچار چلی آرہی ہے۔
بے پناہ وسائل کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے پاس غلبۂ اسلام کی بشارتیں بھی ہیں جو ہمارے اس یقین کو مزید پختہ کردیتی ہیں کہ مستقبل ہماری اُمت اور ہمارے دین کا ہے۔
الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًاo (الاحزاب ۳۳:۳۹) ’’اور جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے‘‘۔
غلبۂ اسلام کی بشارتوں میں اس بشارت کا اضافہ بھی حقائق و واقعات نے کردیا ہے کہ مغرب جس کی تہذیب نے کئی صدیاں دنیا کی قیادت کی ہے لیکن اس قیادت کا حق ادا نہیں کیا۔ یہ روحانی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس نے بڑے بڑے بین الاقوامی مسائل پر دوہرے معیارات اپنا رکھے ہیں۔ قرآن کی زبان میں ایک چیز کو ایک سال حلال ٹھیراتے ہیں اور دوسرے سال حرام قرار دے لیتے ہیں (التوبہ۹:۳۷)۔ اس نے دنیا میں الحاد کا رجحان عام کیا ہے جس کے نزدیک کائنات کا کوئی معبود نہیں اور انسان کے اندر کوئی روح نہیں، دنیا کے بعد کوئی آخرت نہیں۔ اسی طرح اس نے اباحیت کو رواج دیا ہے جس نے مرد کی مرد کے ساتھ اور عورت کی عورت کے ساتھ شادی کو جائز قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ تمام ادیان اور انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ اگر انسانیت نے اس کو برقرار رکھا تو ایک دو نسلوں کے بعد وہ تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح امریکا جو مغرب کا سردار ہے پوری دنیا سے اس طرح معاملات کرتا ہے گویا وہ ایسا معبود ہے جو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ اسرائیل جو اس کا بغل بچہ ہے امریکا اس کے ہرجائز و ناجائز اور ظلم و زیادتی بلکہ چنگھاڑتے ہوئے ظلم کی حمایت کر رہا ہے۔ زمین پر ایسی ناحق،متکبر اور سرکش تہذیب کو زوال آہی جانا چاہیے اور اس کی جگہ کسی اور کو لینی چاہیے، کیونکہ یہ قانونِ الٰہی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ o (الانبیاء ۲۱:۱۰۵)، ’’ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہوں گے‘‘۔
دم توڑتی تہذیب کی جگہ لینے کے لیے جو قوم تیار ہے، وہ اُمت ِاسلامیہ ہی ہے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب یہ اُمت اپنے آپ کو پہچان لے، اپنے پیغام کی حامل بن جائے، اپنے رب کی طرف رجوع کرلے، اپنے ذاتی معاملات کو درست کرلے اور اپنے آپ کو تبدیل کرلے تاکہ اللہ بھی اس کو بدل دے کیونکہ یہ بھی قانونِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد۱۳:۱۱) ،’’اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
اگر اُمت اپنی بُری حالت کے باوجود اس تہذیب کی وارث بننے اور انسانیت کی قیادت کرنے کی تمنا رکھتی ہے تو یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا! اللہ کا طریق کار کبھی تبدیل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاِِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸)، ’’اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔