ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی


مولانا سیّدابوالاعلی مودودیؒ(۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) زندگی بھر اس طریق کار پر گام زن رہے کہ تشدّد اور تکفیر، اسلامی انقلاب کا طریقِ کار نہیں، بلکہ اس کی راہ میں مزاحم ہے۔ خفیہ سرگرمیوں اور زیر زمین کارروائیوں سے اسلامی انقلاب برپا نہیں ہوتا،بلکہ اس کی راہ کھوٹی ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے زندگی کے سخت ترین مراحل میں بھی اس موقف سے سرِموتجاوز نہ کیا۔ ان کا یہ موقف کسی وقتی سیاسی حکمت عملی کا حصہ نہ تھا، بلکہ وہ اسے اسلام کا عین تقاضا تصور کرتے تھے۔ ان کی پختہ راے تھی کہ سیاسی انقلاب سے پہلے فکری وتمدنی انقلاب ناگزیر ہے۔ فکر ،عقیدہ اور اجتماع ومعاشرت میں کوئی تبدیلی نہ زبردستی لائی جاسکتی ہے اور نہ اوپر سے تھوپی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے تعلیم وتزکیے کے راستے سے راے عامہ کی ہمواری ناگزیر ہے۔

تشدد اور خفیہ سرگرمی کی مخالفت

مختلف معاشروں اور ملکوں میں رائج سیاسی و حکومتی عمل داری، بلکہ جبر نے ایسے سوال کھڑے کر دیے ہیں کہ جن کے جواب کے لیے بہت سوچ بچار کے بعد اقدام کی ضرورت ہے۔ ریاستی جبر اور عالمی سامراجی قوتیں تو جبروزیادتی کے تمام ’حقوق‘ اپنے نام ’محفوظ‘ رکھتی ہیں، لیکن  جن کو نشانہ بنایا یا شکار کیا جاتا ہے، ان کے لیے تڑپنے کا حق بھی نہیں باقی چھوڑتیں۔ اس منظرنامے میں اسلامی قیادتوں کی سوچی سمجھی حکمت کے برعکس، مسلم نوجوانوں میں ردعمل کی بعض ایسی صورتیں پیدا ہوئی ہیں کہ جنھوں نے اُمت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔
بدقسمتی سے پچھلے چند برسوں میں تشدّد کو بعض نام نہاد اسلامی جماعتوں اور تنظیموں نے سندِجواز فراہم کی ہے۔ مغرب اور امریکا کی چیرہ دستیوں اور استعماری عزائم کی منصوبہ بندیوں کے خلاف شدید ردِّ عمل رُونماہوا۔ مسلم ممالک کی مغرب نواز حکومتوں کے روح فرسامظالم نے جلتی آگ پر تیل کا کام کیا۔ جماعۃ التکفیر والھجرۃ  مصر سے لے کر داعش، القاعدہ اور بوکوحرام تک مسلّح جدوجہد میں مصروف ہوئے۔ سیّدمودودیؒ نے کبھی اس طرح کی مہمات کا ساتھ نہیں دیا۔
برطانوی ہندستان میں بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی سیّد مودودی تشدّد اور قوت کے استعمال پر تنقید کرتے رہے اوراسے اسلامی انقلاب کے لیے مضر اور رکاوٹ تصور کرتے رہے۔اکتوبر ۱۹۴۵ء میں انھوں نے لکھا:’’ہمیں جو کچھ بھی واسطہ ہے اپنے مقصد سے ہے ،نہ کہ کسی خاص طریق کار (Method)سے۔لیکن اگر پُرامن ذرائع سے جوہراقتدار (Substance of Power)ملنے کی توقع نہ ہوتو پھر ہم عام انقلابی دعوت جاری رکھیں گے اور تمام مشروع [جائز شرعی] ذرائع سے انقلاب برپاکرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔۱
ستمبر ۱۹۵۴ء میں مولاناؒ نے صراحت کردی کہ ’جائز شرعی ذرائع‘ سے ان کی مراد کیاہے؟  انھوں نے لکھا: ’’بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے،اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے… اگر آپ اجتماعی و اخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ اس انقلاب کے ذرائع اور وسائل کیا کیا ہوسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان ذرائع میں تعلیم و تربیت، معاشرتی اصلاح، ذہنی اصلاح اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔۲
اسی طرح مکہ معظمہ میں اسلامی تحریکوں کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے، لوگوں کے ذہن بدلیے، اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں، ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے‘‘۔۳
نومبر۱۹۶۸ء میں لندن میں سوال وجواب کی ایک مجلس منعقد ہوئی۔سیّد مودودیؒ نے صراحت سے فرمایا: ’’توڑ پھوڑ اور تشدّد کے ذریعے کوئی مستحکم اور پاے دار نظامِ حکومت قائم نہیں کیاجاسکتا۔اس لیے نہ ہم خود تشدّد کا راستہ اختیار کریں گے اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے‘‘۔۴
اکتوبر ۱۹۷۴ء میںاسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’جب تک ہمت اور جرأت اور عزم واستقلال کے ساتھ Openly (برسرزمین)کام نہیں کیا جائے گا، اسلامی ریاست قائم نہیں ہوسکتی۔ Under ground(زیرِ زمین) کام کے نتیجے میں اسلامی ریاست نہیںبن سکتی۔اسلامی ریاست پہلے بھی جب قائم ہوئی تھی تو وہ برسرِزمین کام سے ہی قائم ہوئی تھی۔زیرِ زمین کام صرف تھوڑی مدت کے لیے کیاگیا کہ کچھ سرفروش اور Devotees (جاں باز) آدمی فراہم ہوجائیں۔ اس کے بعد سارا کام برسرِزمین کیاگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں نے ماریں کھائیں، پتھر کھائے، تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹے گئے، دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹائے گئے۔ ان کے ساتھ سب کچھ ہوا۔ اس سے جو لوگ نکلے وہ ایسے نکلے کہ پھر ان کے مقابلے میں پورے عرب کی کوئی طاقت کھڑی نہ ہوسکی۔آپ کھلم کھلا اپنا کام کیجیے۔آپ کے سرپھٹیں گے، آپ کو قید کیاجائے گا،آپ کو ننگاکیاجائے گا، آپ کے ساتھ بدتمیزیاں کی جائیں گی، ہر قسم کی مصیبتیں بھگتنی پڑیں گی۔پھر جب ہر قسم کی مصیبتیں بھگتنے کے بعد آپ اپنے عزم پر قائم رہیں گے تو وہ جو مصیبتیں ڈالنے والے ہیں، ان کے اوپر الٹی مصیبت پڑجائے گی کہ وہ اپنی جان کہاں بچائیں؟ ایک وقت ایسا آنے والا ہے۔ ان شاء اللہ۔۵

جمہوری و شورائی  نظریہ

معاشرے میں تبدیلی کے لیے سیّد مودودیؒآئینی و دستوری اور جمہوری طریق کار اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وہ جمہوریت کو اسلام کے تصورِ شوریٰ سے قریب تر مانتے ہیں۔ وہ مغرب کے فلسفۂ جمہوریت کو مسترد کرتے ہیں کہ اس کی بنیاد انکارِ خدا اور انکارِ ِوحی پر ہے، مگر جمہوریت کو ایک نظامِ کار کے طورپر تسلیم کرتے ہیں کہ یہ زیادہ قابلِ عمل اور ترقی یافتہ نظام ہے۔ اسلام اور جمہوریت کے باہمی تعلق یا امتیاز پر مولانا مودودی نے بیان کیا:
    ۱-    ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کرلیاگیاہے۔ اس بناپر جمہوریت مطلق العنان ہوگئی ہے۔ اسلام اس حاکمیت ِ جمہور کا پہلے ہی قدم پر صحیح علاج کردیتا ہے، اور وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے، جو کائنات کے اصل حاکم نے مقرر کیا ہے۔ اس میں مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی۔
    ۲-    اسلام ہر فرد کے اندر تعلیم و تربیت اور تزکیہ پر زور دیتا ہے۔ اس سے جمہوریت کی کام یابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
    ۳-    جمہوریت کی کام یابی کا انحصار ایک بیدار اور مضبوط راے عام پر ہے۔ اسلام نے اس کے لیے تمام ضروری ہدایات فراہم کی ہیں۔۶
اگر درج بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری کام یابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔
اسلامی تصوّرِ جمہوریت مغرب کے تصوّرِ جمہوریت سے یک سر مختلف ہے۔ اسلامی جمہوریت سے مراد ہے اللہ کی حاکمیت اور عوام کی خلافت۔ بنیادی قوانین اللہ کے عطاکردہ ہیں اور مسلمان خلیفہ نائب ِخداہونے کی حیثیت سے ان قوانین کو نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ اس لیے سیّد مودودیؒ اسلام کے تصوّرِ حکومت کو ’خلافت ِجمہور‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے مغرب کی ’لادین جمہوریت‘ سے متصادم قرار دیتے ہیں۔۷
خلافت ِجمہور یا الٰہی جمہوری حکومت سیّد مودودیؒ کی وضع کردہ اصطلاح ہے، جس سے  ان کی تخلیقی بصیرت اور اجتہادی ملکہ کا اندازہ ہوتاہے۔تھیاکریسی (پاپائیت) میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتاہے اور عملاً اپنی خدائی تمام باشندوں پر مسلّط کرتاہے۔ ڈیموکریسی میں جمہور ہی حاکمِ مطلق، بے قید فرماں روا اور حلّت و حرمت اور جواز وعدمِ جواز میں قولِ فیصل ہوتے ہیں۔خلافت ِجمہور میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اسی کا اقتدار ِاعلیٰ حکمراں ہوتاہے اور مسلمانوں کو محدود عمومی حاکمیت عطا ہوتی ہے۔ جن مسائل میں قرآن و سنت میں نصوص موجود نہیں ہیں، ان میں مسلمان شریعت کی روح کے مطابق قانون سازی کے مجاز ہوتے ہیں۔
 سیّد مودودیؒ کہتے ہیں:’’یہ چیز اسلامی خلافت کو قیصریت اور پاپائیت اور مغربی تصور والی مذہبی ریاست (Theocracy)کے برعکس ایک جمہوریت بنادیتی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ  اہلِ مغرب جس چیز کو لفظ’ جمہوریت‘ سے تعبیر کرتے ہیں اس میں جمہور کو حاکمیت کا حامل قرار دیاجاتاہے اور ہم مسلمان جسے ’جمہوریت‘ کہتے ہیں اس میں جمہور صرف خلافت کے حامل ٹھیرائے جاتے ہیں۔ ریاست کے نظام کو چلانے کے لیے ان کی جمہوریت میں بھی عام راے دہندوں کی راے سے حکومت بنتی اور بدلتی ہے اور ہماری جمہوریت بھی اسی کی متقاضی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ ان کے تصور کے مطابق جمہوری ریاست مطلق العنان اور مختارِ مطلق ہے اور ہمارے تصور کے مطابق جمہوری خلافت اللہ کے قانون کی پابند‘‘۔۸  اس ضمن میں راقم نے ایک مقالے میں تفصیل سے بحث کی ہے۔۹

تنقیدِ مغرب

فکرِ مودودیؒ کا ایک امتیاز مغرب کے فکر وفلسفہ، سائنس اور نظامِ تعلیم پر بھرپور اور مدلل محاکمہ و تجزیہ ہے۔ اس فکر کو وہ’ جاہلیت ِخالصہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں، جس کی بنیاد الحاد وتشکیک اور  وحی ورسالت کے انکار پر ہے۔ اس جاہلیتِ خالصہ نے انسان کو ایک خود مختارانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرنے پر آمادہ کیا اور وہ شترِ بے مہار ہوگیا۔ اس طرزِ فکر کے نتیجے میں سیاست کی بنیاد انسانی حاکمیت پر استوارہوئی۔ مملکت کے تمام قوانین خواہشِ نفس اور تجربی مصلحت کی بنیاد پر  بنائے گئے۔ منفعت پرستی اور مصلحت پسندی تمام پالیسیوں پر حاوی رہی۔ تمدن و معاشرت اور تہذیب و ثقافت، لذّات ِ نفس کی طلب پر پروان چڑھی۔فنونِ لطیفہ، ادب وشاعری میں عریانی و شہوانیت کا تسلّط رہا۔ نظام تعلیم و تربیت اسی تصوّرِ حیات کے مناسب ِحال مرتّب ہوا۔ ’’اس طرزِ فکر سے افراد کی بے ایمانیوں، حکام کے مظالم، منصفوں کی بے انصافیوں، مال داروں کی خود غرضیوں اور عام لوگوں کی بداخلاقیوں کا جو تلخ تجربہ آج انسانیت کو ہورہاہے اور بڑے پیمانے پر اس نظریے سے قوم پرستی، استحصال واستعمار،جنگ وفساد، ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکل رہے ہیں، ان کے چرکوں سے یہ نتیجہ خود بخود نکلتاہے کہ یہ جاہلیت کا رویّہ ہے‘‘۔۱۰
سیّد مودودیؒ نے مغرب کی جاہلیتِ خالصہ کے تاریخی نشو ونما کا تجزیہ کیا۔ عیسائیت اور حرّیت ِفکر کے علَم برداروں کے درمیان جس خوں ریز کش مکش کا آغاز ہواتھا، وہ نفسِ مذہب کے خلاف معرکہ آرائی میں تبدیل ہوگئی۔ نئے دور کے ارباب ِحکمت وفلسفہ نے روحانیت اور مافوق الفطرت کے خلاف جنگ چھیڑدی۔ مغربی فلسفہ و سائنس نے آغاز ِسفر میں ’نیچریت‘ کو خداپرستی کے ساتھ نباہنے کی کوشش کی، مگر آگے چل کر ’نیچریت‘ خداپرستی پر غالب آگئی اور خدا کا تخیل اور عالم فطرت سے بالا ہر فکر اور نظریہ نظروں سے اوجھل ہوگیا اور سائنس ’نیچریت‘ کا ہم معنی قرار پاگئی۔۱۱
سترھویں صدی میں مغربی فلسفہ و سائنس نے کامل الحاد کارنگ اختیار نہیں کیاتھا، مگر اٹھارھویں صدی میں مادہ پرستی،الحاد اور لادینیت سکۂ رائج الوقت بن گئے۔ مشہور فلسفی ہیوم نے اپنی تجربیت اور فلسفۂ تشکیک سے عالمِ طبیعیت اور دنیاے مادہ و حرکت کے باہر کسی طاقت کے وجود کو نہ ماننے اورمشاہدہ وتجربہ ہی کو معیار قرار دینے پر زور دیا۔ برکلے نے کوشش کی کہ مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رَو پر بندش لگے، مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ہیگل نے مادیت کے مقابلے میں تصوریت کو فروغ دینا چاہا، مگر ٹھوس مادہ کے مقابلے میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوسکی ۔کانٹ نے بیچ کی راہ نکالی،مگر خداپرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی یہ آخری کوشش بھی ناکام ہوئی۔۱۲
ڈارون کی کتاب اصل الانواع (Origin of Species)کو سیّد مودودی ؒ مغرب کے فکروفلسفہ کی دنیا میں ایک انقلاب انگیز تصنیف قرار دیتے ہیں، جس نے اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے پیغمبر کے بغیر چل سکتاہے۔ آثار و مظاہر ِفطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علّت کی حاجت نہیں۔ زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقا ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے، جو عقل وحکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواعِ حیوانی کو پیداکرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے، بلکہ وہی ایک جان دار مشین، جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگاکرتی تھی، تنازع للبقاء، بقاے اصلح اور انتخابِ طبیعی کے نتیجے کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان کی شکل میں نمودار ہوگئی۔۱۳  
سیّدمودودیؒ تخلیق آدم کے قرآنی نظریے کا اثبات کرتے اور ڈارون کا ابطال کرتے ہیں: سورۂ اعراف آیت ۱۱: وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ      (ہم نے تمھاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمھاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو) کی تفسیر میں وہ صراحت کرتے ہیں: ’’قرآن مجید انسان کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتاہے جو موجودہ زمانے میں ڈارون کے متبعین سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں۔      ان نظریات کے برخلاف قرآن ہمیں بتاتاہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہواہے۔ اس کی تاریخ کسی غیرانسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی۔البتہ ہم اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتے کہ موادِ ارضی سے بشر کس طرح بنایاگیا؟ پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیت کیاتھی؟۱۴

خواتین کی خود اختیاری

فکر مودودیؒ کی ایک امتیازی خصوصیت خواتین کی خود اختیاری اور ان کے سماجی و سیاسی حقوق کے باب میں وہ اجتہادی موقف ہے، جو روایت پرستی اور تجدّد کے دونوں انتہا پسندانہ نظریات کے مابین ایک نئی راہ اختیار کرنے پر منحصر ہے۔ ایک طرف قدیم الفکر اور روایت پسند علما ہیں ،جن میں سے اکثر حضرات عورت کے وجود کو شمع ِخانہ کی حیثیت دے کر اسے تمام سماجی و تمدنی حقوق سے محروم کردیتے ہیں، تو دوسری طرف حقوق ِنسواں کے علم بردار وہ جدید الفکر دانش ور ہیں جو مغرب کی نسائی تحریکات سے متاثرہوکر اسے مردوں کے دوش بہ دوش کھڑاکرنے کی وکالت کرتے ہیںاور فطری و خلقی فرق تک کو نظرانداز کردیتے ہیں۔سیّد مودودیؒ کا موقف ان دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال کو اختیار کرنے کا ہے۔ان کے تصورات ان کے مجموعی نظام احیاے دین کا حصہ ہیں۔ ان میں وہ جدید تحریک ِنسواں کے متشدد رجحانات کی نفی کرتے ہیں، مگر ان پر روایت پرستانہ فکر کی چھاپ بھی نظر آتی ہے، تاہم اس روایت پسندی پر ان کی اصلاح پسندی اور تجدیدی فکر غالب ہے۔۱۵
سیّد مودودیؒ خاندانی نظام کی تشکیل کو اسلامی تہذیب کی تعمیر کے لیے ناگزیر تصور کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے نکاح کے لیے ’حصن‘ کا لفظ استعمال کیاہے، جس کا مطلب ہے عفت و پاکیزگی کے قیام و دوام کے ذریعے خاندان کو مضبوط بنانا۔۱۶  نکاح کا ادارہ میاں بیوی کو قانونی رشتوں میں باندھ کرجنسی بے راہ روی سے دونوں کی حفاظت کرتاہے۔ نکاح کے بنیادی مقاصد دو ہیں: (۱)پاک دامنی اور عفّت کا تحفظ (۲)مودّت، سکینت اور رحمت کا خاندان میں فروغ واستحکام اور اس کے ذریعے انسانی تہذیب کا فروغ۔۱۷
سیّد مودودیؒ کے مطابق تہذیب وتمدن کی ترقی کے لیے ادارۂ خاندان کی تشکیل اور اس کا استحکام ناگزیر ہے۔ نکاح کی صورت میں مرد اور عورت کے درمیان مستقل اور والہانہ وابستگی ہی سے خاندانی نظام وجود میں آتاہے۔ ان کے نزدیک مساوات ِمرد و زن کا نعرہ غیر حقیقی،غیر فطری اور حقائق سے دور ہے۔ اسلام نے عورت کے سپرد وہی فرائض کیے ہیں، جو فطرت نے اس کے سپرد کیے ہیں ۔اس کے بعد مردوں کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت دی ہے۔ عزت اور تکریم میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ نص قرآنی(النساء۴:۳۴ )کے مطابق مرد خاندان کا قوام ہے اوراسے کچھ حوالوں سے عورت پر فضیلت حاصل ہے۔۱۸  مگر اس فضیلت سے عورت کی کم تری کا پہلو نکالنا غلط ہے۔ بلاشبہہ مرد خاندان کا سربراہ ہے اور عورت اس کے ماتحت ہے، مگر یہ ماتحتی کسی بھی حیثیت میں مرد کی فوقیت ثابت نہیں کرتی ،بلکہ اسے ذمہ دار قرار دیتی ہے۔۱۹
حاکمانہ اختیارات کے غلط استعمال پر سیّد مودودیؒ نے بندش لگائی ہے۔ روایت پسند علما کے علی الرغم وہ تنبیہ کرتے ہیں کہ’’مرد کو جو اختیارات قوّام کی حیثیت میں دیے گئے ہیں، ان کا غلط استعمال مرد نہ کرے اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھاکر وہ عورت پر ظلم نہ کرے‘‘۔۲۰
ایک دوسری جگہ وہ کہتے ہیں:’’شوہر اور والد اگرچہ قوّام ہیں ،مگر اس حیثیت کی بناپر یہ نامناسب ہوگا کہ وہ عورتوں پر ہر معاملے میں اپنی مرضی مسلّط کریں، مثلاًعورتیں اپنی جایداد اور ملکیت میں تصرف کا پوراپورا حق رکھتی ہیں‘‘۔۲۱
خواتین کی سماجی، معاشی اور سیاسی خود اختیاری کے باب میں سیّد مودودیؒ مغرب کے سخت ناقد ہیں۔ ان کے خیال میں جب عورت پر مرد کے برابر معاشی و تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالاجائے گا تو وہ اپنے اوپر سے فطری ذمہ داریوں کا بوجھ اتار پھینکے گی اور اس کا نتیجہ نہ صرف تمدن بلکہ خود انسانیت کی بربادی ہوگا‘‘۔۲۲  اسلام مردانگی (Manhood) اور نسوانیت (Womanhood) دونوں کو انسانیت کے ضروری اجزا تصوّر کرتاہے اور تہذیبی وتمدنی ارتقاکے لیے دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتاہے۔ مغربی خواتین اپنی نسوانیت سے محروم ہیں اور مردانہ پن کی ترجمانی کرنے لگی ہیں۔۲۳
خواتین کی سیاسی و سماجی اور تعلیمی خود اختیاری کی ترجمانی کرتے ہوئے سیّد مودودیؒ لکھتے ہیں:’’اسلامی حکومت میں ہر بالغ عورت کو ووٹ کا حق اسی طرح حاصل ہوگا جس طرح ہر بالغ مرد کو یہ حق دیاجائے گا۔ اسی طرح انھیں وراثت اور مال و جایداد کی ملکیت کے پورے پورے حقوق بھی حاصل ہوں گے اور ان کے شوہروں اور باپوں کو ان کی املاک پر کسی قسم کا اختیار نہیں ہوگا۔ عورتوں کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیاجائے گا، بلکہ ہم مسلمان عورتوں کو ضروری فوجی تعلیم دینے کا بھی انتظام کریں گے…یہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی تو وہ عورتوں کے لیے بھی ویسی ہی بابرکت ثابت ہوگی جیسی مردوں کے لیے ہے‘‘۔۲۴
ایک قاری کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سیّد مودودیؒ مرد اور عورت کے دائرہ کار کو ایک دوسرے سے مختلف بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام میں ’’عورت اور مرد، عزت واحترام کے لحاظ سے برابر ہیں۔اخلاقی معیار کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ آخرت میں اپنے اجر کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ لیکن دونوں کا دائرۂ عمل ایک نہیں ہے۔ سیاست اور ملکی انتظام، فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے کام مرد کے دائرئہ عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔اس دائرے میں عورت کو گھسیٹ لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو ہماری خانگی زندگی بالکل تباہ ہوجائے گی ،یا پھر عورتوں پر دہرا بار ڈالاجائے گا۔ مغربی ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ صورت رُونماہوچکی ہے۔آنکھیں بندکرکے دوسروں کی حماقتوں کی نقل اُتارنا عقل مندی نہیں ہے‘‘۔۲۵

تفسیر یا سلوکِ قرآنی

سیّد مودودیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ تفہیم القرآن  کی تکمیل ہے۔چھے جلدوں میں اس  عظیم الشان تفسیر کا امتیاز اس کی علمیت اور ادبیت ہے۔ مولانا نے حالاں کہ وضاحت کی ہے کہ  ان کے پیش نظر وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔اس لیے علما اور محققین کی ضروریات کی رعایت اس تفسیر میں نہیں کی گئی ہے، نہ ان حضرات کے معیار کو سامنے رکھا گیا ہے جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔۲۶
مگر سید حامد عبدالرحمٰن الکاف کے بقول بالیقین تفہیم القرآن ایک علمی اور تحقیقی تفسیرہے۔ اس میں علمی تحقیق کے وہ نمونے ملتے ہیں جو کسی اور تفسیر میں نہیں پائے جاتے۔ مثال کے طورپر    نقشہ جات، مصادر، تحقیق کا تنوع، علمی اسلوب کی سنجیدگی اور متانت، پیچیدہ اور اختلافی مسائل میں نہایت درجہ محققانہ اور متوازن راے کا اظہار۔ یہ محض سیّد مودودیؒ کی خاکساری ہے کہ انھوں نے اس کے متعلق کوئی بلند دعویٰ نہیں کیا۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں، عین حقیقت کا اظہار ہے کہ عصر حاضر کے انتہائی دقیق اور الجھے ہوئے مسائل کا حل جس اسلوب میں تفہیم القرآن نے پیش کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
تفہیم القرآن کی زبان کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی شستہ وشائستہ ، ادب وبلاغت کے اعتبار سے انتہائی معیاری، افہام و ترسیل کے لحاظ سے بے حد مؤثر اور بصیرت افرز ہے۔ تفہیم القرآن  کا قاری اس کی ادبیت اور اسلوبِ بیان کے سحر میں کھوجاتاہے۔ جی چاہتاہے کہ وہ پڑھتاجائے اور تکمیل سے پہلے بند نہ کرے۔ مولانا نے ترجمۂ قرآن میں لفظی ترجمہ کی جگہ ترجمانی کا ڈھنگ اختیارکیاہے، تاکہ اسلوب ِبیان میں ترجمہ پن نہ ہو۔’’عربی مبین کی ترجمانی اُردوے مبین میں ہو، تقریر کا ربط فطری طریقے سے تحریر کی زبان میں ظاہر ہو اور کلامِ الٰہی کا مطلب ومدعا صاف صاف واضح ہونے کے ساتھ اس کا شاہانہ وقار اور زورِ بیان بھی جہاں تک بس چلے، ترجمانی میں منعکس ہوجائے‘‘۔۲۷
تفہیم القرآن   ایک حرکی، انقلابی اور داعیانہ تفسیر ہے، جو قاری کو جاہلیت کے خلاف   صف آراہونے کی تحریک دیتی ہے۔ سیّد مودودیؒ نے یہ تفسیر اسی غرض کے لیے لکھی ہے کہ وہ پڑھنے والے کو داعیٔ حق بناکے چھوڑے۔ دیباچہ میں وہ خود صراحت کرتے ہیں:’’لیکن فہم قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہوپاتا ،جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیاہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔یہ دنیا کے عام تصوّرِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں۔ جیسا کہ اس مقدمے کے آغاز میں بتایاجاچکاہے، یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر   خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑاکیا۔اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے  نزاعِ کفر و دین، معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہواہو، اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔؟!‘‘۔۲۸
سیّد مودودیؒ اسے ’سلوک ِقرآنی‘ سے تعبیر کرتے ہیں، جس کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آدمی گزرتاجائے گا، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خودسامنے آکر اس کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ قرآن کے احکام اور اس کی تعلیمات آدمی کی سمجھ میں آہی نہیں سکتیں، جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔’’نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتاہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کررکھاہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں‘‘۔۲۹

سنت و حدیث کا دفاع

فکرِ مودودیؒکا ایک اور امتیازی پہلو سنت و حدیث کا دفاع اور منکرین ِسنت و حدیث کا مدلل اور مسکت جواب ہے۔مولانا کی معروف کتاب سنت کی آئینی حیثیت،ان مسکت دلائل کا مجموعہ ہے جو انھوں نے منکرِ سنت و حدیث دانش وروں کی تحریروں اور مکتوبات کے جواب میں سپردقلم فرمائے تھے۔ یہ سب سے پہلے یک جاشکل میں’ منصبِ رسالت نمبر‘ کے عنوان سے ماہ نامہ  ترجمان القرآن لاہور میں شائع ہوئے، پھر فاضل مصنف نے نظرثانی کے بعد کتابی شکل میں سنت کی آئینی حیثیت کے نام سے مرتب فرمایا۔یہ کتاب ۱۹۶۳ء میں اسلامک پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوئی۔
سیّد مودودیؒ نے شرح وبسط سے اور علمی استدلال کے ساتھ ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت محض ایک نامہ بریا شارحِ قانون کی نہیں تھی۔ آپؐ اقوام عالم کے رہبر و رہنماتھے۔ قرآن مجید کے شارح و مفسر تھے اور شارع و قانون ساز اور قاضی و حاکم بھی۔ آپؐ کی تمام حیثیتوں کی پیروی اور غیر مشروط والہانہ اطاعت مسلمانوں پر فرض ہے۔ جو شخص اطاعت ِرسول سے آزاد ہوکر قرآن کی پیروی کادعویٰ کرتاہے وہ قرآن کا نہیں، خواہشِ نفس کا پیروہے۔جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیری وتشریحی حیثیت اور تشریعی حیثیت میں خطِّ امتیاز قائم کرتاہے اور تشریحی حیثیت کو تو مانتاہے،مگر آپ کی تشریعی حیثیت کا انکار کرتایا اس میں شکوک و شبہات پیداکرتاہے، وہ سنت و حدیث کا انکار کرتاہے۔ دور جدید میں فتنۂ انکار ِحدیث کی سربراہی پاکستانی دانش ور غلام احمد پرویز (۱۹۰۳ء- ۱۹۸۵ء) نے کی اور دھیرے دھیرے ایک مؤثر طبقے کو اس نے اپنا اسیر بنالیا۔
سیّد مودودیؒ کی ان تحریروں کو امت ِمسلمہ کے ہر طبقے میں قبولِ عام حاصل ہوا۔ رسولؐ اللہ کی قانون سازی اور تشریعی حیثیت پر مولانا نے سورۂ اعراف:۱۵۷ اور سورۂ الحشر:۷ سے استدلال کیا۔ ان آیات کے الفاظ صریح اور دوٹوک ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات(Legislative Powers) عطاکیے ہیں۔ اللہ کی طرف سے امر ونہی اور تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے، بلکہ جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام یا حلال قراردیاہے اور جس چیز کا حضورؐ نے حکم دیاہے یاجس سے منع کیاہے، وہ بھی اللہ کے دیے ہوئے اختیارات میں سے ہے۔اس لیے وہ بھی قانونِ خداوندی کا ایک حصہ ہے۔
آگے فرماتے ہیں:’’ان دونوں آیتوں(الاعراف:۱۵۷ ، الحشر:۷) میں سے کسی کی یہ تاویل نہیں کی جاسکتی کہ ان میں قرآن کے امر ونہی اور قرآن کی تحلیل وتحریم کا ذکر ہے۔ یہ تاویل نہیں ،بلکہ اللہ کے کلام میں ترمیم ہوگی۔ اللہ نے تو یہاں ا مر ونہی اور تحریم و تحلیل کو رسول کا فعل قراردیا ہے، نہ کہ قرآن کا۔ پھر کیا کوئی شخص اللہ سے یہ کہناچاہتاہے کہ آپ سے بیان میں غلطی ہوگئی۔آپ بھولے سے قرآن کے بجاے رسول کانام لے گئے؟‘‘۔۳۰
سیّد مودودیؒ صراحت کرتے ہیں کہ انکارِ سنت وحدیث کے فتنہ پرور دانش وروں کے ہاں علم کم اور بے علمی کی جسارت زیادہ ہے۔ انھوں نے اس فتنے کو فروغ دینے کے لیے جو تکنیک استعمال کی ہے اس کے اجزا یہ ہیں:
۱-حدیث کو مشتبہ بنانے کے لیے مغربی مستشرقین نے جتنے حربے استعمال کیے ان پر ایمان لانا اور اپنی طرف سے ان میں حواشی کا اضافہ کرنا۔
۲-احادیث کے مجموعوں کو عیب چینی کی غرض سے کھنگالنا، جیسے آریہ سماجیوں اور عیسائی مشنریوں نے کبھی قرآن کو کھنگالاتھا۔
۳-رسولؐ کے منصب ِ رسالت کو محض ایک ڈاکیے کا منصب قرار دینا۔
۴-صرف قرآن کو اسلامی قانون کا ماخذ قراردینا اور سنت ِرسول کو اسلام کے قانونی نظام سے خارج کردینا۔
۵-امت کے تمام فقہا، محدثین، مفسرین اور ائمۂ لغت کو ساقط الاعتبار قراردینا۔
۶-خود ایک نئی لغت تصنیف کرکے قرآن کی تمام اصطلاحات کے معنیٰ بدل ڈالنا اور آیاتِ قرآنی کو وہ معانی پہنانا جن کی کوئی گنجایش دنیا کے کسی عربی داں آدمی کو قرآن کے الفاظ میں نظر نہ آئے۔
اس تخریبی کام کے ساتھ ایک نئے اسلام کی تعمیر بھی منکرین ِسنت کے پیش نظر ہے، جس کے بنیادی اصول تین ہیں:
(الف)نظامِ ربوبیت کے نام سے ایک مرکز کا قیام ،جو شخصی املاک کو ختم کرکے انھیں ایک مرکزی حکومت کے تصرف میں دے دے اور وہی حکومت افراد کے درمیان تقسیمِ رزق کی مختارکل ہو۔
(ب)مسلمانوں کی تمام جماعتیں توڑ دی جائیں۔ وہ مرکزی حکومت میں ضم ہوجائیں۔
(ج)قرآن میں اللہ ورسول کی اطاعت کا جوحکم دیاگیاہے اس سے مراد ہے’مرکزِ ملت‘۔ اسی کی تفسیر وتشریح اور تحلیل و تحریم مستند ہوگی۔۳۱
چوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت پر منکرینِ حدیث نے سب سے زیادہ اشکالات قائم کیے تھے، اس لیے سیّد مودودیؒ کی تحریروں میں سب سے زیادہ بحث اسی نکتے پر ملتی ہے۔ خود قرآن کریم کی آیات سے انھوں نے ثابت کیا ہے:
    ۱-    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی کام کی نوعیت قرآن کی تفسیر وتشریح کی بھی تھی اور قرآن کے علاوہ قانون سازی کی بھی۔
    ۲-    تشریح وتفسیر کے باب میں مجمل حکم کی تفصیل فراہم کرنا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے احکام وہدایات اور اشارات ومضمرات کی شرح وتفسیر فرمائی ہے۔ یہ قرآن میں دیے ہوئے فرمانِ تفویض پر ہی مبنی ہے۔۳۲  قرآن کے کسی مجمل حکم کی حدیث کے ذریعے تفصیل قرآن کے خلاف نہیں ہے، بلکہ قرآن سے زائد ہے۔۳۳
    ۳-    وحی غیر متلوپرایمان، ایمان بالرسول کا جزوہے۔(النور۲۴:۵۴، الانعام۶: ۹۰، النساء۴: ۸۰)۔۳۴
    ۴-    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض میں کتاب کے ساتھ حکمت کی تعلیم کا تذکرہ ہے اور حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے۔۳۵
    ۵-    سورۂ حدید:۲۵ میں ’کتاب‘ کے ساتھ’ میزان‘ نازل کرنے کا تذکرہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ اور آپؐ کے اقوال وافعال میں خدا کی عطاکردہ حکمت اور میزانِ عدل کے آثار صاف ظاہر ہیں۔۳۶
    ۶-    وحی متلو، یعنی قرآن میں لفظ اور معنیٰ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں،مگر وحی غیر متلو اپنی نوعیت وکیفیت اور مقصد میں بالکل مختلف ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہ نمائی کے لیے آتی تھی اور لوگوں تک وہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں نہیں ، بلکہ حضورؐ کے ارشادات، فیصلوں اور کاموں کی صورت میں پہنچتی تھی۔۳۷
تفہیم حدیث کا متکلمانہ اسلوب
سنت و حدیث کی تشریح وتوضیح معتدل ومتوازن اسلوب میں اُس دائرۃ المعارف میں پوری طرح جھلکتی ہے، جسے مولاناعبدالوکیل علوی نے تفہیم الاحادیث کے عنوان سے مرتب کیاہے۔ بڑی تقطیع کی آٹھ ضخیم جلدوں میں یہ عظیم الشان تصنیف ان ہزاروں احادیث نبویہ کے جمع وترتیب ، تخریج وابواب بندی اور ترجمہ پر مشتمل ہے، جو سیّد مودودیؒ کی شاہ کار تصانیف بالخصوص تفہیم القرآن میں استعمال ہوئی ہیں۔۳۸
فاضل مرتب نے بجاطورپر لکھاہے کہ تالیف وتدوین کا یہ کام اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے جتنا اہم اور عظیم ہے، اپنے حجم کے لحاظ سے اسی قدر ضخیم ہے۔ اس کام کی تکمیل کس قدر عرق ریزی اور جاں فشانی کا تقاضاکرتی تھی، اس کا اندازہ عام لوگ نہیں کرسکتے۔ سیّد مودودیؒ کی تصانیف میں سے انتخاب کا یہ موادہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا، عبارتوں پر نشان لگاکر یہ واضح کرنا کہ یہ حدیث کامتن ہے اور یہ اس کا ترجمہ وتشریح ہے، تمام احادیث کی اسناد کا التزام کرنا، نامکمل حدیث کا مکمل حوالہ دینا اور محدثین کی محدثانہ آرا کا اہتمام ، پھر حدیث کی تائید میں دوسری احادیث کو درج کرنے کی کاوش۔۳۹   
آٹھ جلدوں پر مشتمل اس عظیم الشان ترتیب وتخریج ِحدیث کو دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ سیّدمودودیؒ نے احادیثِ نبویہ کی تفہیم وتشریح میں کس حکمت وبالغ نظری اور بصیرت وفراست کا مظاہرہ کیاہے۔ یہ پہلو حدیث وسنت کے دفاع سے آگے بڑھ کر تشریح و تبیین اور اثبات واقدام سے متعلق ہے۔ اس اثبات واقدام میں حدیث پر کامل درجہ ایمان وایقان کا عنصر غالب ہے۔ اسلوب ِنگارش پر عقلی استدلال اور متکلمانہ اسلوب کی زبردست چھاپ ہے اور تفہیم وتشریح کا انداز اتنا منطقی، مدلل اور مستحکم ہے کہ قاری کے ذہن میں حدیث کی حکمت ومعنویت اندر تک سرایت کرجاتی ہے۔
مثال کے طورپر سیّد مودودی سورۂ شوریٰ آیت ۳۶: وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (اور وہ اپنے ربّ پر بھروسا کرتے ہیں) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ پر توکل کو قرآن نے ایمان کا لازمی تقاضا اور آخرت کی کام یابی کے لیے ضروری وصف قرار دیاہے۔ پھر توکل کی یہ تشریح کرتے ہیں:۴۰
    ۱-    آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہ نمائی پر کامل اعتمادہو اور اسے اللہ کے عطاکردہ علم حقیقت پر، اخلاق کے اصولوں پر، حلال وحرام کے حدودپر اور زندگی بسرکرنے کے قواعد وضوابط پر مکمل ایقان ہو۔
    ۲-    آدمی کا بھروسااپنی طاقت وقابلیت ،اپنے ذرائع ووسائل، اپنی اور دوسروں کی تدابیر پر نہ ہو، بلکہ اللہ کی توفیق وتائید پر ہو اور یہ توفیق وتائید اسی وقت ملتی ہے جب اللہ کی رضا پیش نظرہو۔
    ۳-    آدمی کو ان وعدوں پر پورا بھروساہوجو اللہ نے ایمان اورعمل صالح کا رویہ اختیار کرنے والوں سے کیے ہیں۔ ان وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ باطل کے فوائد ومنافع اور لذّات کو لات ماردے اور حق پر استقامت کی صورت میں آنے والے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کرے۔۴۱
شورائی اجتہاد
فکر مودودیؒ کا ایک اور امتیاز اسلامی قانون سازی کے میدان میں اس اجتماعی عمل کا تصور ہے جسے پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے ’شورائی اجتہاد‘ کا نام دیاہے۔ ان کے مطابق سیّد مودودیؒ اجتہاد کے ایک لازمی شورائی تصور کے قائل نظرآتے ہیں، جس میں کوئی تنہا امام مجتہد نہیں،بلکہ اسکالرز،محققین اور علما مل کر جملہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل پر تبادلۂ خیال کے بعد اجماع کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں۔انفرادی سطح پر اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں رہا،لیکن انفرادی راے کے مقابلے میں جب تک امت کے اسٹرے ٹیجک معاملات میں اتحادفکری نہ ہو، اس وقت تک ترقی کا عمل صحیح رخ اختیار نہیں کرسکتا۔سیّد مودودیؒ چاہتے تھے کہ علما و مفکرین کا ایک ایساادارہ وجود میں آئے، جو برسرِاقتدارطبقے کے اثرات سے محفوظ رہتے ہوئے، آزادانہ طورپر امت کو عالمی سطح پر درپیش مسائل پر غور کرے اور شریعت کے اصولوں کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرنے کے مواقع فراہم کرے۔۴۲
کسی اجتہاد کو قانون کا مرتبہ حاصل ہونے کی چار صورتیں سیّد مودودیؒ نے تجویز کی ہیں:
    ۱-    امت کے تمام اہلِ علم کا اس اجتہاد پر اجماع ہوجائے۔
    ۲-    کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبولِ عام حاصل ہوجائے، جیسے مختلف فقہی مکاتب کو مسلمانوں نے قانون کے طوپر تسلیم کرلیا۔
    ۳-    کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قراردے دے، جیسے فقہ حنفی کو عثمانی سلطنت نے قانون ِملکی مان لیاتھا۔۴۳
    ۴-    سیاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنائے۔
جو اہل علم اجتہاد کریں ان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ حسب ذیل اوصاف کے حامل ہوں:
(الف)شریعت ِالٰہی پر ایمان اور اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ۔
(ب)عربی زبان اور اس کے قواعد وادب سے اچھی واقفیت۔
(ج)قرآن وسنت کا گہراعلم کہ وہ شریعت کے کلیات و مقاصد کو اچھی طرح سمجھتے ہوں۔
(د)پچھلے مجتہدینِ امت کے کاموں سے واقفیت۔
(ہ)عملی زندگی کے حالات و مسائل سے آگاہی، اور
(و)اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت وکردار۔۴۴
سیّد مودودیؒ نے صراحت کی ہے کہ اسلام قانون سازی کی نفی نہیں کرتا، بلکہ اسے خدائی قانون کی بالاتری سے محدود کرتاہے۔ اس دائرئہ عمل کو انھوں نے تین مراحل سے مربوط کیا ہے: (۱)تعبیر احکام(۲)قیاس(۳)استنباط۔۴۵
مولانا موصوف کہتے ہیں کہ آزادانہ قانون سازی کا دائرہ کافی وسیع ہے، کیوں کہ معاملات کی ایک بڑی قسم ایسی ہے جس کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے۔ یہ خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی انسان کو خود اپنی راے سے فیصلہ کرنے کا حق دے رہاہے، مگر یہ آزادانہ قانون سازی ایسی ہو جو روحِ اسلام اور اس کے اصول ِعامہ سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس خالص علمی تحقیق اور عقلی کاوش کو اجتہاد کہتے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مرادہے یہ معلوم کرنے کی کوشش کہ ایک زیر ِبحث مسئلہ میں اسلام کاحکم یا اس کا منشاکیاہے؟اسے آزاداجتہاد سمجھنا غلط ہے۔قرآن وسنت کے نصوص اور ان کے طے کردہ حدود سے بے نیاز ہوکر جو اجتہاد کیاجائے وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔۴۶
سیّد مودودیؒ یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ اجتہاد کا صحیح طریقہ کیاہے؟مجتہد خواہ تعبیر و تشریحِ احکام کررہا ہویا قیاس واستنباط کے عمل میں مصروف ہو، ضروری ہے کہ اس کے استدلال کی بنیاد قرآن وسنت پر ہو۔ مباحات کے دائرہ میں آزادانہ اجتہاد کے لیے بھی اسے یہ دلیل فراہم کرنی چاہیے کہ قرآن وسنت نے زیر بحث مسئلہ میں کوئی حکم یا قاعدہ مقر ر نہیں کیاہے اور نہ قیاس ہی کے لیے کوئی بنیاد فراہم کی ہے۔ من مانی تاویل سے جو اجتہاد کیاجائے گا اسے مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر کبھی قبول نہیں کرے گا ،نہ وہ حقیقتاً اسلامی نظامِ قانون کا جز بن سکتاہے۔۴۷
حواشی و مراجع
۱-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۴۵ء،ص ۹۱
۲-    ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، ستمبر ۱۹۵۴ء، ص ۴۶
۳-    سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، تفہیمات،سوم، ۱۹۶۷ء، ص ۳۶۲-۳۶۳
۴-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تصریحات (مرتب: سلیم منصور خالد)، البدرپبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۲، ص۱۹۲
 ۵-    حوالہ سابق ، ص۲۸۷۔۲۸۸         ۶- ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، جون ۱۹۶۳ء، ص۶۱-۶۲
۷-   حوالہ سابق ، ص۱۲۸۔۱۲۹         ۸- حوالہ سابق ، ص۵۰۰-۵۰۱
۹-    حوالہ سابق ، ص ۳۲۰۔سیّد مودودیؒ کی سیاسی فکر کے مفصل مطالعے کے لیے ملاحظہ کیجیے: پروفیسر غلام اعظم کا مضمون’ اسلام کا سیاسی نظامِ فکر اور سیّد مودودی ‘ اور راقم کامضمون’سیّد مودودی کی سیاسی فکر۔ ایک تجزیاتی مطالعہ‘ در مجموعہ، ابوالاعلیٰ مودودی، علمی وفکری مطالعہ، مرتبہ : رفیع الدین ہاشمی اور سلیم منصور خالد، ادارۂ معارف اسلامی۔،منصورہ، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۳۰۱۔۳۴۳،۳۴۶-۳۸۷
۱۰-     سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، اسلام اور جاہلیت، مکتبہ جماعت اسلامی ہند رام پور، ۱۹۵۲ء، ص۱۸
۱۱-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تنقیحات، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۹۱ء، ص ۱۱
۱۲-    حوالہ سابق ، ص۱۳                  ۱۳-حوالہ سابق ، ص۱۴،۱۵
۱۴-    سیّدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، مارچ ۱۹۸۵ء، جلد دوم، ص ۱۱۔  سورۂ الحجر:۲۸۔۲۹ کی تفسیر میں بھی مولانا’نئے دور کے ڈاروینیت سے متاثر ان مفسرینِ قرآن‘ پر تنقید کرتے ہیں، جو حیوانی منازل سے ترقی کرتے ہوئے بشریت کی حدود میں داخل ہونے والے انسان کی وکالت کرتے ہیں۔ قرآن صراحت کرتاہے کہ انسان کی تخلیق آغاز میں براہِ راست ارضی مادوں سے ہوئی، جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صلصال   من   حمإ  مسنون کے الفاظ میں بیان فرمایاہے۔ حوالہ سابق، ص ۵۰۴۔
۱۵-    ڈاکٹر زینت کوثر، خواتین کی خود اختیاریت اور سیّد مودودیؒ،در مجموعہ ابوالاعلٰی مودودی، علمی وفکری مطالعہ، حوالہ سابق، ص ۲۶۰-۲۹۹
۱۶-     سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،حقوق الزوجین، ادارۂ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۷۹ء،ص۱۷،۱۸
۱۷-    حوالہ سابق ، ص۲۱
۱۸-    حقوق الزوجین،حوالہ بالا، ص ۲۹           ۱۹-پردہ ، حوالہ بالا،ص۲۳۲
۲۰-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،اسلام اور مسلم خواتین، ادارۂ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۹۹ء،ص ۶۹
۲۱-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ،مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۸۶ء، ص۲۲
۲۲-    پردہ ، حوالہ سابق،ص۱۹۴
۲۳-    پردہ، ص ۲۵۶۔سیّد مودودیؒ لکھتے ہیں:’’عزت اگر ہے تو اس مردِ مونث(He-woman) یازنِ مذکر (She-man)کے لیے ہے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت، مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو اور تمدن ومعاشرت میں مرد ہی کے سے کام کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ انوثت(Woman hood)کی عزت نہیں، رجولیت(Manhood)کی عزت ہے۔
۲۴-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات، حوالہ سابق، ص ۲۱-۲۴
۲۵-    ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، جنوری ۱۹۶۲ء، ص ۵۲،۵۳
۲۶-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن ، جلد اول، ۲۰۱۷ء، ص ۵-۶
۲۷-    حوالہ سابق ، ص۱۰۔۱۱               ۲۸- حوالہ سابق ، ص۳۳-۳۴
۲۹-   حوالہ سابق ، ص۳۴۔۳۵
۳۰-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،سنت کی آئینی حیثیت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،نئی دہلی، طبع ششم، فروری ۲۰۱۶ء، ص ۶۳،۶۴۔سیّد مودودی نے دیباچے میں صراحت کی ہے کہ انکارِ سنت کا فتنہ کس طرح سفر کرتا دورِحاضر تک پہنچا ہے۔
۳۱-    حوالہ سابق ، ص۱۸-۲۰        ۳۲- حوالہ سابق ، ص۶۹-۷۳
۳۳-    حوالہ سابق ، ص۴۴        ۳۴- حوالہ سابق ، ص۱۶۴،۱۶۵
۳۵-    حوالہ سابق ، ص۱۶۷،۱۶۸        ۳۶- حوالہ سابق ، ص۱۶۹،۱۷۰
۳۷-  حوالہ سابق ، ص۱۹۱
۳۸-    سیّد مودودی،تفہیم الاحادیث (مرتبہ: عبدالوکیل علوی) lجلد اول ، اگست ۱۹۹۳ء، صفحات ۴۶۲، lجلد دوم،ستمبر ۱۹۹۴ء، صفحات ۴۷۴، lجلد سوم،اکتوبر۱۹۹۷ء،صفحات۴۴۱،lجلد چہارم، جنوری۱۹۹۸ء، صفحات۵۱۷، lجلد پنجم، جون۱۹۹۹ء، صفحات۶۴۹، lجلدششم،ستمبر۲۰۰۰ء، صفحات۵۵۳، lجلد ہفتم، جنوری ۲۰۰۲ء، صفحات۵۳۹، lجلد ہشتم،اگست ۲۰۰۳ء،صفحات۴۸۴، ناشر:ادارہ معارف اسلامی، لاہور
۳۹-    دیکھیے: عرض مرتب، تفہیم الاحادیث، سیّد ابوالاعلی مودودیؒ،ترتیب وتخریج:مولانا عبدالوکیل علوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، جلد اول،اکتوبر ۲۰۰۳ء، ص ۹۔۱۰
۴۰- تفہیم القرآن، جلد چہارم، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، مارچ ۲۰۱۷ء، ص ۳۷۴۔ ۳۷۵، حاشیہ ۵۷، ص ۵۰۷، حاشیہ ۵۷
۴۱-    تفہیم الاحادیث، جلد اول، حوالا سابق، ص ۶۶۔۶۷
۴۲-    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، علمی وفکری مطالعہ، حوالہ سابق،ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون:’مولانا مودودی اور شریعت کا حرکی تصور‘،ص۴۷
۴۳-    اسلامی ریاست، حوالہ سابق، ص ۴۴۶     ۴۴-حوالہ سابق ، ص۴۴۴۔۴۴۵
۴۵-    حوالہ سابق ، ص۴۴۱۔۴۴۲                ۴۶-حوالہ سابق ، ص۴۴۳
۴۷-    حوالہ سابق ، ص۴۴۵۔۴۴۶

اس حقیقت کے اظہار میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بیسوی صدی عیسوی کے علم کلام کا تذکرہ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کے بغیر ناقص اور ادھورا ہوگا۔ بلاشبہہ انیسویں صدی میں اس نئے علم کلام کی تشکیل کا آغاز ہو چکا تھا۔ مغربی فکر و فلسفے کے بطن سے جنم لینے والی تہذیب، جو علم اور تلوار دونوں سے مسلح تھی اور اس کا استیلا و غلبہ اس نئے علم کلام کا محوری اور حرکی موضوع تھا۔ اس فکروفلسفے نے عالم اسلام میں وسیع تر کلامی ادبیات کو متاثر کیا اور ایک بھرپور چیلنج بھی پیش کیا۔ بر صغیر کے علما، دانش ور اور مصلحین و مفکرین خاص طور سے طلسمِ مغرب کو بے نقاب کرنے کے لیے کمر بستہ ہوئے اور اس جدوجہد میں عظیم الشان فکری و تحریری سرمایہ چھوڑا۔ برصغیر سے انیسویں صدی کے معذرت خواہ مصلحین میں سرسیّداحمد خان (۱۸۱۷-۱۸۹۸ء)، سیّد امیر علی (۱۸۴۹ء- ۱۹۲۸ء) اور بعض دوسرے اہلِ علم نے مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیا، اور ساتھ ہی تنقید مغرب کی تاسیس وتشکیل کی۔ان حضرات کی علمی کوششوں کا حُسن و قُبح اس وقت زیر بحث نہیں ہے ۔

 بیسویں صدی میں تنقید ِمغرب کے علمی موضوع نے مسائل و مشکلات کے نئے ابواب رقم کیے اور زیر تشکیل علم کلام ترقی، استحکام اور پھیلائو کی جانب گام زن ہوا۔ علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء- ۱۹۱۴ء)، علّامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء- ۱۹۳۸ء)، اکبر الٰہ آبادی (۱۸۴۶ء- ۱۹۲۱ء) مولانا سیّد سلیمان ندوی (۱۸۸۴ء- ۱۹۵۳ء)، مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی اور دوسرے اکابر نے مغربی فکر و فلسفہ کی تاریخ و تہذیب پر علمی و استدلالی انداز میں تنقید کی اور اس کی فسوں کاری کو طشت از بام کیا۔ ۱

سیّد مودودی نے تیسرے اور چوتھے عشرے میں جو مقالات و مضامین تحریر کیے ان میں تنقید ِ مغرب، اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان تصادم اور اس کے بطن سے جنم لینے والے مسائل ان کے علم کلام کے خاص موضوعات ہیں۔ انھوں نے تخریب و تطہیر کے پہلے مرحلے سے آگے بڑھ کر اسلامی فکر کی مؤثر اور جان دار تشکیلِ جدید اور تعمیرِ نو کا فریضہ انتہائی مؤثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا۔ یہ ان کی تشکیلِ فکر کا دوسرا مرحلہ ہے۔ تب، ان کے اسلوب میں علامہ شبلی اور مولانا ابو الکلام آزاد (۱۸۸۸ء- ۱۹۵۸ء) کا حسن بیان، رعنائی خیال، فکر کی پختگی و استحکام، اظہار ِخیال کی دل کشی نظر آتی ہے، اور اسی طرح سرسیّد احمد خان کی سادگی و صراحت اور علمی و سائنسی اندازِ تحقیق بھی۔ وہ دل اور دماغ دونوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور دونوں پر یکساں اثر ڈالتے ہیں۔ ان کے یہاں تدبر و تفکر بھی ہے اور جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی۔ دونوں کے حسین امتزاج سے ابھرنے والا توازن اور اعتدال ان کی فکر کا خاصّا ہے۔ ۱۹۲۷ء میں مرتب کردہ کتاب الجہاد فی الاسلام، مولانا مودودی کی علمیت، پُرمغز استدلال، مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے اور جدید قوانین و دساتیر پر گہری نظر کی واضح مثال ہے۔ ہندستان کا صنعتی زوال اور اس کے اسباب ، ۱۶۰۰ء سے ۱۹۲۴ء تک کے ہندستان کے اقتصادی و تمدنی حالات پر ایک سیاسی مدبر اور ماہر اقتصاد یات کی طرح پختہ فکر اور مستحکم استدلال کی واضح مثال ہے۔ پروفیسر خورشید احمد کا یہ تبصرہ برمحل ہے کہ ’’حکومت کے کردار کے بارے میں یہ وژن سیّد مودودی سے پہلے ابن خلدون کے مقدمۂ  تاریخ میں پوری صراحت سے نظر آتا ہے‘‘۔۲

فکری و علمی اعتبار سے تطہیر و تعمیر افکار کے میدان میں مولانا مودودی کا یہ علم کلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۷۰۳ء-۱۷۶۲ء) کی روایت کا تسلسل ہے۔ سیّد مودودی نے اس علمی روایت میں کئی پہلوؤں سے خاصا اضافہ کیا ہے۔۳ اگر اُس فکری و تہذیبی ماحول کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے، جس میں انھوں نے تجدید و احیا کا کام کیا ہے، تو ان کے علم کلام کی معنویت مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ مسلمانوں کا دوسو سال کا فکری جمود، مغرب میں نشاتِ ثانیہ، عقلیت پرستی، لبرل ازم، نسل پرستی اور اشتراکی تحریکوں کا فروغ___ پھر صنعتی انقلاب، مغربی استعمار اور سرمایہ دارانہ قوتوں کا   عالمی کردار، مسلم دنیا پر ان کا عسکری و سیاسی اور فکری و ثقافتی تسلط، یہ ہے وہ وسیع ترین پس منظر،  جس میں مسلم دنیا میں دورجحانات رُونما ہوئے:

                ۱-            تحفظ ودفاع اسلام کی خاطر روایت پسندی پر انحصار اور جدت سے گریز یا اجتنا ب کا رویہ۔

                ۲-            اپنے تشخص سے بے نیاز ہو کر غالب فکر و تہذیب سے ہم آہنگی کا رویہ، یعنی:

زمانہ باتونہ سازد  تو با زمانہ بساز

علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح سیّد مودودی نے ان دونوں نقطۂ ہاے نظر کے درمیان اعتدال کا راستہ اختیار کیا۔ مغربی فکر و فلسفہ کو بالکلیہ مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا:

زمانہ باتونہ سازد  تو با زمانہ ستیز

اور مغرب کی ترقیات اور ایجادات کو اپنی تہذیبی روایات و اقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا کَدَرْ (جو صاف ستھرا ہے اسے لے لو اور جو گندا ہے اسے چھوڑ دو) کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔ سیّد مودودی کے اس معتدل و متوازن علم کلام کا خاص میدان مغرب پر ان کی تنقید ہے۔

’جاہلیتِ خالصہ‘

اس علمی و فکری تنقید کے مرحلے میں سیّد مودودی نے مغرب کے فلسفہ و سائنس اور علمی و فکری نظام کو ’جاہلیت ِخالصہ‘ سے تعبیر کیا ہے، جس کی بنیاد الحاد و تشکیک اور وحی ورسالت کے انکار اور بغاوت پر ہے۔ مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا، ان میں سے بعض کسی مستقل تہذیب سے محروم تھیں اور بعض اقوام اپنی تہذیب تو رکھتی تھیں، مگر اپنی تہذیبی خصوصیات کھو چکی تھیں، اس لیے ان کے ہاں کسی تصادم کی نوبت ہی نہ آسکی۔ ان کے برعکس مسلمانوں کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ وہ ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک تھے اوران کی تہذیب فکری وعملی دونوں حیثیتوں سے مغربی تہذیب سے متصادم تھی ۔ اس کش مکش کے دوران مسلمانوں کی اعتقادی و عملی زندگی کے ہرشعبے پر نہایت تباہ کن اثرات پڑے۔۴  ’جاہلیت خالصہ‘ وہ نظریۂ حیات ہے، جس میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا جواب حسّی مشاہدے پر دیاگیاہے۔

انسانی زندگی میں ’جاہلیت خالصہ‘ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اوّل سے آخر تک خود مختارانہ اورغیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرے اوراس کے اپنے نفس میں کوئی ایسا اخلاقی احساس، ذمہ داری کا احساس اور کسی باز پُرس کا خوف نہ ہو،جو اسے شتربے مہار بننے سے روکتا ہو۔ اس طرزِ فکر سے  جو معاشرہ استوارہوگا، اس کی بنیاد انسانی حاکمیت پر ہوگی، اس مملکت کے تمام قوانین خواہش اور تجربی مصلحت کی بنا پر بنائے اور بدلے جائیں گے، اور منفعت پرستی اور مصلحت پسندی ہی کے لحاظ سے تمام پالیسیاں بنائی اور بدلی جائیں گی۔ اس معاشرے کا تمدن اور معاشرت نفس پرستی پر استوار ہوگی اور لذات نفس کی طلب ہر اخلاقی قید سے آزاد ہوگی۔ اسی ذہنیت سے آرٹ اور لٹریچر متاثر ہوں گے۔ ان کے اندر عریانی و شہوانیت کے عناصر کی کارفرمائی ہوگی۔ اس معاشرے کا نظام تعلیم وتربیت بھی اسی تصور حیات اور اسی رویے کے مناسب حال ہوگا۔یہ خالص جاہلیت شب وروز کی زندگی میں اظہر من الشمس ہے۔ اس طرزِ فکر سے افراد کی بے ایمانیوں ، حکام کے مظالم، منصفوں کی بے انصافیوں اور مال داروں کی خود غرضیوں اور عام لوگوں کی بداخلاقیوں کا جو تلخ تجربہ آج انسانیت کو ہورہاہے، اوربڑے پیمانے پر اس نظریے سے قوم پرستی، استحصال و استعمار، جنگ وفساد، ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکل رہے ہیں، ان کے چرکوں سے یہ نتیجہ خود بخود نکلتاہے کہ یہ جاہلیت کا رویہ ہے۔۵

سیّد مودودی نے جاہلیت کی دوسری قسم ’شرک‘ کو قرار دیاہے، یعنی یہ عقیدہ اور فکر کہ کائنات کے نظام کو چلانے والا ایک خدا نہیں، بلکہ بہت سے خداوند ہیں۔ کائنات کی مختلف قوتوں کا سررشتہ مختلف خدائوں کے ہاتھ میں ہے اور انسان کی سعادت و شقاوت ، کام یابی وناکامی، نفع و نقصان، بہت سی ہستیوں کی مہربانی و نامہربانی پر منحصر ہے۔۶سیّد مودودی رہبانیت کو مشاہدہ اورقیاس و وہم کے باہم اختلاط والتباس کا فطری نتیجہ مانتے اور شرک کی طرح اسے بھی جاہلیت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ سیّد مودودی ’راہبانہ جاہلیت‘ کی درج ذیل خصوصیات شمارکراتے ہیں:

                ۱-            انسان کے تمام رجحانات اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف اور تمدن سے وحشت کی طرف پھر جاتے ہیں۔

                ۲-            نیک دل لوگ دنیا کے کاروبار سے ہٹ کر اپنی نجات کی فکر میں گوشہ ہاے عزلت کی طرف چلے جاتے ہیںاور دنیاکے معاملات بدکار اور شریر لوگوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔

                ۳-            تمدن میں سلبی اخلاقیات،مخالفِ تمدن اور انفرادیت پسندانہ رجحانات اور مایوسانہ خیالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ نظریہ عوام کو ظالموں کے لیے تابع فرمان بنانے میں جادوکی تاثیر رکھتاہے۔

                ۴-            انسانی فطرت سے رہبانیت کی مستقل جنگ رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں کفارے کا عقیدہ ایجاد ہوتاہے، عشق مجازی کا ڈھونگ رچایا جاتاہے اور کہیں ترکِ دنیا کے پردے میں بدترین مادہ پرستی جنم لیتی ہے۔۷

سیّد مودودی ’ہمہ اوست‘ اور ’وحدت الوجود ‘کے نظریے کوبھی مشاہدے اور قیاس کی آمیزش بتاتے ہوئے جاہلیت سے موسوم قرار دیتے ہیں۔ اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اور کائنات کی تمام چیزیں بجاے خود غیر حقیقی ہیں، ان کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے، دراصل ایک وجود نے ان ساری چیزوں کو خود اپنے ظہور کا واسطہ بنایا ہے اور وہی ان سب کے اندر کام کررہاہے۔ تفصیلات میں اس نظریے کی بے شمار صورتیں ہیں، مگر ان ساری تفصیلات کے اندر قدر مشترک یہی ایک خیال ہے کہ تمام موجودات ایک ہی وجود کا خارجی ظہور ہیں اور دراصل موجود وہی ہے ، باقی کچھ نہیں۔۸ اس طرز خیال کے نتائج قریب قریب وہی ہیں جو ’راہبانہ جاہلیت‘ کے ہیں، بلکہ بعض حالات میں اس راے کو اختیار کرنے والے کا طرز عمل ان لوگوں کے رویے سے ملتاجلتاہے، جو خالص جاہلیت کا نظریہ اختیار کرتے ہیں ،کیوں کہ یہ اپنی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتاہے اور پھر جدھر خواہشات لے جاتی ہیں اس طرف یہ سمجھتے ہوئے بے تکلف چلاجاتاہے کہ: ’جانے والا وجود کلّی ہے نہ کہ میں‘۔۹

عالمِ عرب کی طاقت ور اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے رہ نما ، مؤثر اور دل میں اترجانے والے ادیب سیّد قطب شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء)بھی تہذیب ِمغرب کو عہد حاضر کی جاہلیت قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس کا نظریۂ حیات و کائنات اور فلسفہ و سائنس خدا کے اقتدار اعلیٰ پردست درازی اور اس کی حاکمیت سے بغاوت پر استوار ہواہے۔ اس جاہلیت نے حیرت انگیز مادی سہولیات، آسایشوں اور بلند پایہ ایجادات کے قصر پر خیمہ زنی کررکھی ہے ۔ دور قدیم کی جاہلیت سیدھی سادی اور ابتدائی صورت میں تھی، مگر جدید جاہلیت اس طنطنے اور دعوے کے ساتھ میدان میں آئی ہے کہ: ’انسانوں کویہ حق پہنچتاہے کہ وہ خود افکار و اقدار کی تخلیق کریں، شرائع و قوانین وضع کریں اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے لیے جوچاہیں نظام تجویز کریں‘۔ سیّد قطب کہتے ہیں:

اس باغیانہ انسانی اقتدار اور بے لگام تصورِ حاکمیت کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ خلق اللہ   ظلم و جارحیت کی چکی میں پس رہی ہے۔ چنانچہ اشتراکی نظاموں کے زیر سایہ انسانیت کی جو تذلیل ہورہی ہے، یا سرمایہ دارانہ نظاموں کے دائرے میں سرمایہ پرستی اور جوع الارضی کے عفریت نے افراد و اقوام پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑ رکھے ہیں، وہ دراصل اسی بغاوت کا ایک شاخسانہ ہے، جو زمین پر خداوند تعالیٰ کے اقتدار کے مقابلے میں دکھائی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو تکریم اور شرف عطاکیاہے، انسان اسے خود اپنے ہاتھوں پامال کرکے نتائج بدسے دوچار ہے۔۱۰

سیّد قطب شہید بہت واشگاف انداز میں کہتے ہیں کہ: جاہلی قیادت سے انحراف لازم ہے اور مسلمان محض نظریاتی مسلمان نہیں ہوتا، بلکہ وہ عملی مسلمان ہوتاہے۔ جس لمحے کوئی شخص کلمۂ شہادت اداکرتاہے وہ بالفعل جاہلی اجتماع سے اپنی وفادریوں کا رشتہ کاٹ لیتاہے۔ اس کا فرض بن جاتاہے کہ وہ جاہلی قیادت سے بغاوت کرے، خواہ وہ قیادت کسی بھیس میں ہو ، کاہنوں، پروہتوں، جادوگروں اور قیافہ شناسوں کی مذہبی قیادت ہو، یا سیاسی، معاشی اور معاشرتی قیادت ہو، جیسا کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قریش کو حاصل تھی، اسے اپنی تمام تر وفاداریاں    نئی اسلامی جماعت، خدا شناس نظام اور اس کی خدا پرست قیادت کے ساتھ مخصوص رکھنا ہوں گی۔ مسلم معاشرہ اس انقلابی اقدام کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔۱۱

عیسائیت سے تصادم

سیّد مودودی کا نقطۂ نظر مغرب کے متعلق بالکل واضح ہے۔ وہ مغرب کی مادہ پرستی اور الحاد کی تاریخ کو مذہب کے خلاف جنگ سے تعبیر کرتے ہیں۔وہ صراحت کرتے ہیں کہ مذہب کے خلاف عقل و حکمت کی لڑائی نے ہی اس تہذیب کو پیداکیا۔ اگرچہ کائنات کے آثار کا مشاہدہ ، ان کے اسرار کی تحقیق، ان کے کلّی قوانین کی دریافت، ان کے مظاہر پر غور وفکر اور ان کو ترتیب دے کر قیاس و بُرہان کے ذریعے سے نتائج کا استنباط، کوئی چیز بھی مذہب کی ضد نہیں ہے، مگر سوے اتفاق سے نشاتِ جدیدہ کے عہد میں جب یورپ کی نئی علمی تحریک رُونماہوئی تو اس تحریک کا مقابلہ     ان عیسائی پادریوں سے ہوا، جنھوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ وحکمت کی بنیادوں پر قائم کررکھاتھا۔ جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر جدید علمی تحقیقات اور فکری اجتہاد سے ان بنیادوں میں ذرا سا بھی تزلزل واقع ہوا تو اصل مذہب کی عمارت پیوندِ خاک ہوجائے گی۔ اس غلط تخیل کے زیر اثر   انھوں نے نئی علمی تحریک کی مخالفت کی اور اس کو روکنے کے لیے قوت سے کام لیا۔ مذہبی عدالتیں قائم کی گئیں، جن میں اس تحریک کے علم برداروں کو سخت وحشیانہ اور ہولناک سزائیں دی گئیں۔۱۲

سیّد مودودی لکھتے ہیں کہ: آغاز میں لڑائی حریتِ فکر کے علم برداروں اور مذہبی پیشوائوں کے درمیان تھی، مگر بہت جلد یہ لڑائی مسیحیت اور آزاد خیالی کے درمیان ٹھن گئی۔اس کے بعد نفسِ مذہب (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) اس تحریک کا مدِّمقابل قرار دیاگیا اور نئے دور کے اہل ِحکمت و فلسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اور فوق الطبیعیت کے خلاف ایک تعصب پیداہوگیا،جو عقل واستدلال کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ سراسر جذبات کی برانگیختگی کانتیجہ تھا۔

’’مغربی فلسفہ اور سائنس دونوں نے ابتداے سفر میں ’نیچریت‘ کو خدا پرستی کے ساتھ نباہنے کی کوشش کی، مگر آگے چل کر ’نیچریت‘ خداپرستی پر غالب آگئی اور خدا کا تخیل اور عالم طبیعیت سے بالا ہر فکر اور نظریہ ان سے غائب ہوگیا اور سائنس، نیچریت کا ہم معنی قرار پاگئی‘‘۔۱۳ سترھویں صدی میں فلسفہ اور سائنس نے کامل الحاد کا رنگ اختیار نہیں کیاتھا۔ کوپرنیکس (Copernicus)، کپلر(Kepler)،گیلیلیو(Galileo)سب خدا کے منکر نہ تھے ، مگر الٰہی نقطۂ نظر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اٹھارہویں صدی میں مادہ پرستی، الحاد اور بے دینی سکہ رائج الوقت بن گئی۔   جان ٹولینڈ(Toland)،ڈیوڈہارٹلے(Hartley)،جوزف پریسٹلے(Priestley)، والٹیر (Voltaire)،لامیٹری (La Matrie) ،ہول باخ (Holback) ،کیبانیس(Cabanis) ، ڈینس ڈائیڈیرو(Denis Diderot)،مانیٹسکو (Montesquieu)، روسو (Rousseau) وغیرہ فلاسفہ و حکما نے علانیہ خدا کے وجود سے انکار کیا ، یا اگر تسلیم کیابھی تو اس کی حیثیت محض ایک دستوری فرماں رواے حکومت سے زیادہ نہ سمجھی ، جو نظام کائنات کو ایک مرتبہ حرکت میں لے آنے کے بعد گوشہ نشین ہوگیا۔۱۴

سیّد مودودی اٹھارہویں صدی کے معروف فلاسفہ کے نقطۂ نظر کا تجزیہ کرتے ہیں۔   ہیوم (Hume)نے اپنی تجربیت(Empiricism)اور فلسفۂ تشکیک (Scepticism)سے  عالمِ طبیعیت اور دنیاے مادہ و حرکت کے باہر کسی طاقت کے وجود کو نہ ماننے اور مشاہدے و تجربے ہی کو معیار ماننے پر زور دیا۔ برکلے نے مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رَو کا جان توڑ مقابلہ کیا، مگر وہ اس کو نہ روک سکا۔ ہیگل(Hegel)نے مادیت کے مقابلے میں تصوریت (Idealism)کو فروغ دینا چاہا ، مگر ٹھوس مادہ کے مقابلے میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوئی۔ کانٹ (Kant)نے بیچ کی راہ نکالی کہ خدا کی ہستی، روح کی بقا اور ارادے کی آزادی ان چیزوں میںسے نہیں ہیں، جو ہمارے علم میں آسکیں۔سیّد مودودی کہتے ہیں کہ ’’یہ خدا پرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی آخری کوشش تھی، لیکن ناکام ہوئی۔ کیوں کہ عقل و فکر کی گمراہی نے خدا کو محض وہم کی پیداوار یا حدسے حد ایک معطل اور بے اختیار ہستی قرار دے لیا، تو محض اخلاق کی حفاظت کے لیے اس کو ماننا، اس سے ڈرنااور اس کی خوش نودی چاہنا، سراسر ایک غیر عاقلانہ فعل تھا‘‘۔۱۵  اس طرح اٹھارہویں صدی میں یہ حقیقت نمایاں ہوگئی کہ جو طریقِ فکر خدا کی ہستی کو نظر انداز کرکے نظامِ کائنات کی جستجو کرے گا، وہ لامذہبیت تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا۔

ڈارون کا نظریۂ ارتقا

سیّد مودودی، ڈارون کے ’نظریۂ ارتقا‘کو نیچریت و مادیت کو فروغ دینے والا سب سے مدلل و منظم علمی نظریہ قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ: انیسویں صدی میں مغربی تہذیب و فلسفہ میں مادہ پرستی اپنے اوج کمال کو پہنچ چکی تھی۔ فوگت(Vegt)، بوخنر(Buchner)، سولیے (Czelle)، کومت(Comte)، موبشات (Mobechoute)وغیرہ حکما و فلاسفہ نے مادہ اور اس کے خواص کو مرکزی حیثیت دی تھی اور اس کے سواہر شے کے وجود کو باطل قرار دے دیاتھا۔ جان اسٹورٹ مل فلسفے میں تجربیت اور اخلاق میں افادیت (Utilitarianism)کا وکیل اور ترجمان ہے۔ اسپنسر (Spencer)فلسفیانہ ارتقا اور نظام کائنات کے خود بخود پیداہونے اور زندگی کے آپ سے آپ رُونما ہوجانے کے نظریے کا مؤید ہے ۔ حیاتیات(Biology)، عضویات (Physiology)، ارضیات (Geology) اور حیوانیات (Zoology) کے اکتشاف ، عملی سائنس کی ترقی اور مادی وسائل کی کثرت نے یہ خیال پوری پختگی کے ساتھ دلوں میں راسخ کردیاتھا کہ کائنات آپ سے آپ وجود میں آئی ہے اور آپ سے آپ لگے بندھے قوانین کے تحت چل رہی ہے اور آپ سے آپ ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے ،مگر ڈارون کی کتاب ’اصل الانواع‘(Origin of Species)  ۱۸۸۹ء میں پہلی بار شائع ہوئی تو اس نے مغربی فکر و سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپاکردیا ۔۱۶ سیّد مودودی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

اس نے ایک ایسے طریق استدلال سے، جو انیسویں صدی کے سائنٹی فک دماغوں کے نزدیک استدلال کا محکم ترین طریقہ تھا، اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے بغیر چل سکتاہے۔ آثار و مظاہر فطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علّت کی حاجت نہیں۔ زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقا ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے جو عقل و حکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواع حیوانی کو پیداکرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے، بلکہ وہی ایک جان دار مشین، جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگا کرتی تھی، تنازع للبقا، بقاے اصلح اور انتخاب طبیعی کے نتیجے کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان کی شکل میں نمودار ہوگئی۔۱۷

قرآن کریم کی تفسیر کرتے وقت سیّد مودودی بار بار تخلیق انسانی کے قرآنی نظریے کی تشریح کرتے اور ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا رد کرتے ہیں۔ سورۂ اعراف آیت ۱۱ کی تفسیر میں وہ تخلیق انسانی کے خدائی منصوبے کے مراحل بیان کرتے ہیں: ابتداے تخلیق، صورت گری اور پھر فرشتوں کو حکم کہ آدم کو سجدہ کریں۔۱۸  اس کے بعد وہ صراحت کرتے ہیں کہ تخلیقِ انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ ہم اس حقیقت کاپوری طرح ادراک نہیں کرسکتے کہ موادِ ارضی سے بشر کس طرح بنایاگیا؟ پھر اس کی صورت گری کیسے ہوئی؟ اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیت کیاتھی؟:

لیکن بہرحال، یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے، جو موجودہ زمانے میں ڈارون کے متبعین، سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ ان نظریات کی رُوسے انسان، غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتاہوا مرتبۂ انسانیت تک پہنچاہے، اور اس تدریجی ارتقاکے طویل خط میں کوئی نقطۂ خاص ایسا نہیں ہوسکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ’نوع انسانی‘ کا آغاز تسلیم کیاجائے۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتاہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے، اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی۔ وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا، اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔۱۹

سورۂ حجر میں تخلیق انسانی کے مراحل کا بیان اس طرح ہے:

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۸ فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَ۝۲۹ (الحجر ۱۵: ۲۸-۲۹)  پھر یاد کرو اس موقعے کو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ ’’میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیداکررہاہوں۔ جب میں اسے پورا بناچکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘۔

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتاہے کہ ’’انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتاہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیاہے، جیسا کہ ڈاروینیت سے متاثر مفسرینِ قرآن ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، بلکہ اس کی تخلیق کی ابتدا   براہِ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے، جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُونٍ کے الفاظ میں بیان فرمایاہے‘‘۔ حمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہوچکی ہو، یا بہ الفاظ دیگر خمیر اٹھ آیاہو۔ مسنون  کے دو معانی ہیں: ایک معانی ہیں متغیر، منتن اور املس، یعنی ایسی سڑی ہوئی مٹی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیداہوگئی ہو۔ دوسرے معانی ہیں مصور اور مصبوب، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی، جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں، جو خشک ہوجانے کے بعد بجنے لگے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایاگیا تھا، جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی‘‘۔۲۰ قرآن کی یہ صراحت اس نظریۂ ارتقا سے براہ راست متصادم ہے، جو ڈارون نے تخلیق کی ہے۔

زور آور ہی کے جواز کا   نظریہ

سیّد مودودی نے ترجمان القرآن محرم،صفر ۱۳۶۳ھ / جنوری ، فروری ۱۹۴۴ء میں ڈارون کے ’نظریۂ ارتقا‘ کی علمی اور عقلی حیثیت سے کم زوریاں واضح کیں اور ثابت کیا کہ فلسفے، اخلاق اور علوم تمدن واجتماع میں جب یہ تخیّل برگ و بار لایا تو اس نے انسان کو برباد کرنے کے لیے شدید فتنے پیداکیے۔ تمام انسان دشمن نظریات میں ڈاروینیت کی حیثیت سرتاج کی ہے۔ اس نظریے نے: ’’انسان کے سامنے پورے نظام کائنات کو ایک رزم گاہ کی حیثیت سے پیش کیاہے، اور اس کو بتایاہے کہ نزاع، جنگ اور کش مکش ہی اصل تقاضاے فطرت ہے۔ اس کش مکش میں جو  زورآور ہے وہی زندہ ، صالح اور کامیاب ہے اور جو کم زور ہے وہی غیر صالح ہے اور اس کا مٹنا اور  فنا ہوجانا قوانینِ فطرت کا ایک ایسا نتیجہ ہے جس کو برحق ہونا ہی چاہیے۔ آج یہ اسی طرزِ فکر کی ’برکات‘ ہیں کہ انسانی افراد سے لے کر طبقات، اقوام اور ممالک تک، سب کے سب دنیا کو حقیقت میں ایک رزم گاہ بنائے ہوئے ہیں اور فطرت کا تقاضا انھوں نے یہی سمجھا ہے کہ جو طاقت ور ہے  وہ کم زور کو فنا کردے۔۲۱

سیّد مودودی ’نظریۂ ارتقا‘ کو واقعہ اور حقیقت سے دور قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کے علمی واستدلالی مرتبے کو چیلنج کرتے ہیں۔ان کا نقطۂ نظریہ ہے کہ علم الحیات کا مشکل ترین مسئلہ ،جس میں سائنس کے علما اُلجھ رہے ہیں ، وہ دراصل یہ سوال ہے کہ زندگی کا مبدأکیاہے؟ قرآن زندگی کا مبدأ،    حکم خداوندی کو قراردیتاہے ، لیکن مغرب کی نشاتِ ثانیہ کے بعد کے تمام فلاسفہ اور سائنس داں کسی   فوق الفطرت ہستی کی کارفرمائی اور کاری گری کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ اس کارگاہِ فطرت کے اندر ہی انھیں اس کی کارفرما طاقت کا بھی کہیں سراغ مل جائے۔ اس کے نتیجے میں انھیں قیاس آرائیوں سے کام لینا پڑا۔ قیاس آرائی ہی سے انھوں نے اس سوال کو بھی سلجھانا چاہا کہ حیات میں اس تنوّع کی وجہ کیاہے؟ اور مختلف انواع کے درمیان تفاضل کا سبب کیاہے؟ سیّدمودودی کہتے ہیں کہ ڈارون نے اگر قرآن کے دیے ہوئے نقطۂ آغاز سے تحقیق و تجسّس کے سفر کی ابتداکی ہوتی تو وہ اس نتیجے پر پہنچتا کہ زندگی کی شکلوں میں تنوّع ، جو ایک بے نظیر ترتیب کے ساتھ واحد الخلیہ بھنگے(Unicellular Molecule) سے لے کر انسان تک میں نظر آرہاہے ، یہ ایک حکیم کے منصوبے کا نتیجہ ہے ، جو مختلف انواع کی زندگی کے لیے مناسب ماحول اور سازگار حالات فراہم کرنے کے بعد انھیں ان کی مخصوص نوعی خصوصیات کے ساتھ بتدریج وجود میں لاتا چلاگیاہے اور جن انواع کی ضرورت اس کے خاکے میں باقی نہیں رہی ہے انھیں مٹاتابھی رہاہے۔

قرآن کے نظریۂ ابتدئے تخلیق سے اعراض و انکار کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ: ’’یورپ نے، جو اس وقت تک اپنے الحاد کو پائوں کے بغیر چلارہاتھا، لپک کر [ڈارون کے] یہ لکڑی کے پائوں ہاتھوں ہاتھ لیے اور نہ صر ف اپنے سائنس کے تمام شعبوں میں، بلکہ اپنے فلسفہ و اخلاق اور اپنے علوم عمران تک میں ان کو نیچے سے نصب کرلیا۔ حالاں کہ علمی و عقلی حیثیت سے اس توجیہہ میں  اتنے جھول تھے اور ہیں کہ مشکل ہی سے کوئی صاف دماغ کا آدمی اس کو منظر(Phenomena) کی ممکن توجیہات میں ایک قابل لحاظ توجیہہ قرار دے سکتا ہے‘‘۔۲۲ سیّد مودودی کا یہ مضمون ترجمان القرآن کے ایک سنجیدہ قاری کے سوال کے جواب میں لکھاگیا تھا ،جو ’ڈارون کا نظریۂ ارتقا‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔۲۳

فلسفۂ جدلی مادیت

جدلی مادیت کا بانی ہیگل  (۱۷۷۰ء-۱۸۳۱ء) ہے، جس کا فلسفۂ تاریخ، تہذیب جدید کی گم راہیوں اور فکری و نظری فتنوں کا سر چشمہ ہے، سیّد مودودی کی دل چسپی اور مطالعے کا موضوع ان کے عہد نوجوانی میں بنا۔’ہیگل اور مارکس کا فلسفۂ تاریخ‘ ان کا وہ مضمون ہے جو ترجمان کے شمارے جمادی الاخریٰ ۱۳۵۸ھ؍ اگست ۱۹۳۹ء میں شائع ہوا۔

سیّد مودودی نے ہیگل کے فلسفۂ تاریخ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ: ’’انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا دراصل اضداد کے ظہور، تصادم اور امتزاج سے واقع ہوتاہے اور تاریخ کا ہردور ایک وحدت ، ایک کل اور ایک زندہ جسمانی نظام ہوتاہے۔ اس دور میں انسان کے سیاسی ، معاشی،تمدنی واخلاقی، علمی و عقلی اور مذہبی تصورات میں ایک ہم آہنگ کلّیت ہوتی ہے۔ جب   ایک دور ترقی کے آخری مدارج کو پہنچ جاتاہے اور اس دور کے اصول و نظریات اور افکار انسانی تہذیب و تمدن کو اپنی قوت و استعداد کی آخری حد تک پہنچادیتے ہیں، تب خود اسی دور کی آغوش سے پرورش پاکر نئے افکار و نظریات اسی رُوبۂ زوال کے طبیعی تقاضے سے پیداہوتے ہیں اور پرانے افکار سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ایک مدت تک قدیم و جدید میں کش مکش جاری رہتی ہے، بالآخر کسر وانکسار کے بعد ایک نئی عنصری تہذیب وجود میں آتی ہے اور تاریخ کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ باہمی کش مکش کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ارتقائی عمل کو ہیگل اپنی اصطلاح میں جدلی عمل (Dialectical Process) کہتاہے۔اس مسلسل منطقی مناظرہ و مجادلہ کے عمل میں دعویٰ (Thesis)، جواب دعویٰ (Antithesis) اور پھر ایک مرکب (Synthesis)کا ظہور اس فلسفے کی رُو سے  ایک کُلّی اجتماعی عمل ہے ،جس میں تاریخ کے بڑے سے بڑے آدمی ، نام ور ترین تاریخی اشخاص تک اس جدلی کھیل، اس کل کی کش مکش باخود میں شطرنج کے پیادوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس دریا کے طوفانی بہائو میں ’خیالِ مطلق‘ ایک شاہانہ شان کے ساتھ بے روک ٹوک تاریخ کی شاہراہ پر خود ہی ’دعویٰ‘ اورخود ہی ’جواب ِدعویٰ‘ اور بالآخر خود ہی ’امتزاج بین الاضداد‘ کرتاہوا بڑھتا چلاجارہاہے۔’عقلِ کُل‘ یا ’جانِ جہاں‘ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اشخاص اور گروہوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتی ہے کہ اس تاریخی ڈرامے میں وہ رہ نمایانہ اور کارفرمایانہ پارٹ اداکررہے ہیں، حالاں کہ دراصل ’جانِ جہاں‘ انھیں خود اپنی تکمیل ذات کے لیے استعمال کررہی ہے‘‘۔۲۴

سیّد مودودی یہاںایک حاشیے کا اضافہ کرتے ہیں کہ: ہیگل دراصل خدا کو ’عقل کُل‘ (World Reason) ’جانِ جہاں‘ (World Spirit)، ’روحِ مطلق‘ (Absolute Spirit)اور ’فکرمطلق یا خیالِ مطلق‘(Absolute Idea)وغیرہ ناموں سے یاد کرتاہے۔ اس کے نزدیک انسانی تمدن کے ارتقا میں دراصل رُوحِ کل، یعنی ذات خداوندی خود ترقی کررہی ہے۔ خدا اس پر دے میں آپ اپنی نمایش کررہاہے، اپنی ذات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے، تاریخ کی شاہراہ پر مارچ کررہاہے۔رہا انسان تو وہ بے چارہ محض خارجی مظہر یا آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ سیّد مودودی کہتے ہیں کہ کارل مارکس(۱۸۱۸ء-۱۸۸۳ء)نے ہیگل کے جدلی فلسفے کو تو تسلیم کرلیا ،مگر روح یا فکر کے تصور کی جگہ اس نے معاشی اسباب و محرکات کو دے دی۔۲۵

سَوَاءَ السَّبِیْل کی تفسیر

سیّد مودودی سورئہ مائدہ، آیت ۱۲ کی تفسیر کرتے ہیں تو سَوَاءَ السَّبِیْلِ‘ کی بڑی ایمان افروز تشریح کرتے ہیں ۔ زندگی کے بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو ، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ ، اس کے تمام جذبات و رجحانات کے ساتھ، اس کی روح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ اور    اس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پورا پورا انصاف کیاگیاہو۔ اسی کو قرآن صراط مستقیم اور  سَوَاءَ السَّبِیْلِ کہتاہے۔ یہ شاہراہ دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی دوسری زندگی تک  بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے۔ جو اس پر چلا وہ یہاں راست رو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے اور جس نے اس راہ کو گم کردیا، وہ یہاں غلط ہے، غلط رو اور غلط کار ہے اور آخرت میں لامحالہ اسے دوزخ میں جانا ہے۔ سیّد مودودی اس دل نشیں تفسیر کے بعد تبصرہ کرتے ہیں:

’’موجودہ زمانے کے بعض نادان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے درپے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکّے کھاتی چلی جارہی ہے، یہ غلط نتیجہ نکال لیا کہ ’جدلی عمل‘ (Dialectical Process)انسانی زندگی کے ارتقا کا فطری طریق ہے۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقا کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ (Thesis)اسے ایک رُخ پر بہالے جائے، پھر اس کے جواب میں دوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ (Antithesis) اسے دوسری انتہا کی طرف کھینچے، اور پھر دونوں کے ’امتزاج‘ (Synthesis) سے ارتقاے حیات کا راستہ بنے ۔ حالاں کہ دراصل یہ ارتقا کی راہ نہیں ہے، بلکہ بدنصیبی کے دھکے ہیں، جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقا میں بار بار مانع ہورہے ہیں۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتاہے اور اسے کھینچے لیے چلاجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ  سَوَاءَ السَّبِیْلِ سے بہت دُور جاپڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دوسری حقیقتیں، جن کے ساتھ بے انصافی ہورہی تھی، اس کے خلاف بغاوت شروع کردیتی ہیں، اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کرکے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کرتی ہے۔جوں جوں سَوَاءَ السَّبِیْلِ قریب آتی ہے، ان متصادم دعووں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیںوجود میں آتی ہیں، جو انسانی زندگی میں نافع ہیں۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاءَ السَّبِیْلِکے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا، بلکہ اپنے زور میں اُسے دوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہوجاتی ہے، اور نتیجے میں ایک دوسری بغاوت اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انھوں نے سَوَاءَ السَّبِیْلِکو دیکھ لیاہوتا تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ انسان کے لیے ارتقا کا صحیح راستہ یہی سَوَاءَ السَّبِیْلِ ہے ،نہ کہ خطِ منحنی پر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا‘‘۔۲۶

مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ

ہیگل کی جدلی مادیت کے فلسفے کو کارل مارکس نے معاشیات پر منطبق کیا اوروہ فلسفہ تراشا جسے تاریخی مادیت(Historical Materialism) کہا جاتاہے۔ سیّد مودودی نے اس معاشی جبریت کے فلسفے پر کاری ضرب لگائی۔ اس فلسفے کی تشریح کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ: ’’مارکس کے نزدیک تاریخ کے دوران میں جدلی عمل اس طرح رونما ہوتاہے کہ جب ایک معاشی نظام کے تحت ایک طبقہ اسباب زندگی کی تیاری و فراہمی اور ان کی تقسیم پر قابض ہوکر دوسرے طبقوں کو اپنا دست نگر بنالیتاہے، تو رفتہ رفتہ ان دبے ہوئے طبقوں میں بے چینی شروع ہوجاتی ہے۔وہ معاشی پیداوار اور اسباب زندگی کی تقسیم اور ملکیتی تعلقات کے ایک نئے نظام کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ان کے مفاد سے زیادہ مناسبت رکھتاہو۔اب دونوں میں کش مکش شروع ہوتی ہے اور اس کش مکش میں حاضر الوقت نظام کے قوانین، مذہب ، اخلاق اور تصورات کا پورا مجموعہ اسی نظام کی حمایت کرتاہے، جو اس دور میں پہلے سے قائم تھا۔ ایک مدت تک طبقاتی نزاع (class struggle) برپارہتی ہے۔ آخر کار اس نزاع کے نتیجے میں معاشی نظام بدل جاتاہے اور اس کے ساتھ ہی پرانے قانونی، مذہبی، اخلاقی اور فلسفیانہ تصورات کو بھی نئے تصورات کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے‘‘۔۲۷

سیّد مودودی صراحت کرتے ہیں کہ کارل مارکس کی اس مادی تعبیر تاریخ میں انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا اور تاریخ کے تمام تغیرات کا محور اسباب ِمعیشت کی فراہمی اور تقسیم کے سوال کو قرار دیاگیاہے۔اس میں مذہب ، اخلاق اور انسانی تہذیب و تمدن کے لیے مستقل اور ازلی وابدی صداقتوں اور اصولوں کا انکار کیاگیاہے۔ خود غرضانہ کش مکش کو تقاضاے فطرت قرار دے کر باہم آویزش، قتال و فساد، کی معاشی توجیہہ کی گئی ہے اور انسانی تاریخ کے ارتقا کا بس یہی ایک راستہ بتایاگیاہے۔

سیّد مودودی صاف کہتے ہیں کہ جو لوگ [اس فکر پر مبنی] سوشلزم اور اسلام میں کوئی تضاد محسوس نہیں کرتے ہیں: ’’ان سے عرض کروں گا کہ ایک مرتبہ وہ مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ اور اس کے منطقی نتائج پر اچھی طرح غور کریں، اور پھر سوچیں کہ اس نظریے کو تسلیم کرنے کے بعد کسی شخص کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی کون سی گنجایش باقی رہ جاتی ہے؟ ہرشخص کو عقیدے کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔ وہ اگر مارکسی نظریے کو صحیح سمجھتے ہیں تو اسے ضرور اختیار کریں، مگر انھیں کم از کم اپنے دماغ کو تو صاف رکھنا چاہیے‘‘۔۲۸

آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:

اگر ہیگل اور مارکس نے قرآن کو پڑھا ہوتا، تو انھیں انسان کی حقیقت کو سمجھنے اور ارتقاے تہذیب انسانی کے اساسی قانون کو دریافت کرنے میں وہ ٹھوکریں نہ لگتیں، جو انھوں نے خود گمان اور قیاس کے تیر تکے لڑانے کی وجہ سے کھائی ہیں۔ قرآن کا علم الانسان اور فلسفۂ تاریخ ان تمام مسائل کو نہایت صحیح اور تشفی بخش طریقے سے حل کرتاہے، جن میں یہ لوگ اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔۲۹

اس کے بعد سیّد مودودی بتاتے ہیں کہ قرآن کی رُو سے انسان محض اُس حیوانی وجود کا نام نہیں ہے جو بھوک ، شہوت، حرص، خوف،غضب وغیرہ داعیات کا محل ہے ، بلکہ دراصل انسان وہ روحانی وجودہے جو اس اوپر کے حیوانی خول کے اندر رہتا ہے اور اخلاقی احکام کا محل ہے۔ اسے دوسرے حیوانات کے برعکس عقل ، تمیز، اکتسابِ علم اور فیصلے کی قوتیں دے کر ایک حدتک خوداختیاری عطاکی گئی ہے۔ باہر کا حیوان اس اندرونی انسان کو خادم اور آلۂ کار کے طور پر دیاگیاہے۔ یہ خادم جاہل ہے اور اس کے پاس صرف جسمانی مطالبات اور خواہشات ہیں۔ یہ اندر کے انسان کو اپنا خادم اور آلۂ کار بناناچاہتاہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان کش مکش ہوتی ہے اور پوری انسانی تاریخ اسی کش مکش کا مرقع ہے۔ باہر کا حیوان اندر کے انسان کو اپنا تابع بناکر ظلم و عدوان، فحشا و منکر، شہوت ولذتِ نفس کی راہ پر لگانا چاہتاہے۔ اس کی خاطر کچھ ٹیڑھے راستے بھی پیداکرلیتاہے، جیسے رہبانیت، ترکِ دنیا، نفس کشی اور فطری ضروریات سے انحراف، تمدن اور اجتماعی زندگی سے فرار وغیرہ۔

تاریخ کے دوران میں انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا ایک ایسے خطِ منحنی کی شکل میں ہوتا رہاہے جو بار بار ایک خطِ مستقیم کے گرد چکر کاٹتاچلاجاتاہے۔ اس فطری راستے کو قرآن نے صراطِ مستقیم، رشد ، ہدایت،سَوَاءَ السَّبِیْلِ اور سبیلِ ربّ وغیرہ سے تعبیر کیاہے۔ انسانیت ابتدا میں فطری حالت پر تھی، پھر انسانوں میں اپنی جائز حد سے گزرنے کے میلانات پیداہوئے:

وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا  ط  (یونس ۱۰:۱۹)ابتداءً سارے انسان ایک ہی امت تھے، بعد میں انھوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنالیے۔

كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً  ۝۰ۣ فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ۝۰۠ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ ۝۰ۭ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْہِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْہُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ۝۰ۚ فَہَدَى اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِہٖ ۝۰ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۲۱۳ (البقرہ۲: ۲۱۳)ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے،(پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رُونماہوئے)۔تب اللہ نے نبی بھیجے ،جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے۔ اور ان کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی، تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونماہوگئے تھے،ان کا فیصلہ کرے۔ (اور ان اختلافات کے رُونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا)___ اختلاف ان لوگوں نے کیا جنھیں حق کا علم دیاجاچکاتھا۔انھوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑکر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے___ پس، جو لوگ انبیا ؑپر ایمان لے آئے، انھیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھادیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیاتھا۔ اللہ جسے چاہتاہے راہِ راست دکھادیتاہے۔

آگے سیّد مودودی صراحت کرتے ہیں کہ: ’’ہیگل جن کو ’دعویٰ‘ اور ’جواب دعویٰ‘ کہتاہے وہ وہی انتہا پسندانہ میلانات ہیں، جو کبھی خط مستقیم کے اِس طرف اور کبھی اُس طرف انسان کو کھینچ کرلے جاتے ہیں، اور وہ جسے ترکیب و امتزاج سے تعبیر کرتاہے، وہ بعینہٖ وہ نقطے ہیں، جہاں یہ خطِمنحنی صراطِ مستقیم کو کاٹتاہے۔ ہیگل اور مارکس دونوں کو تاریخ میں یہ خطِ منحنی تو نظر آگیا، مگر وہ اس خطِ مستقیم کو نہ دیکھ سکے، جو اَزل سے ابد تک سیدھا کھینچا ہواہے اور اس خطِ مستقیم کا علم صرف انبیا علیہم السلام کو حاصل تھا۔ انھوں نے اس سیدھے خط پر انسانی تہذیب کو عملاً قائم کرکے دکھادیا‘‘۔۳۰

مغربی تعلیم کا بنیادی نقص

سیّد مودودی کی تنقیدِ مغرب کا ایک اہم پہلو جدید نظام تعلیم اور اس کے اثرات کا تجزیہ ہے۔ ان کے یہ تنقیدی مضامین کتاب تعلیمات میں شامل ہیں۔ اگست۱۹۳۶ء میں ان کا معرکہ آرا مضمون ’ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص‘ ترجمان القرآن میں شائع ہوا ۔ یہ مضمون علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کورٹ کے سالانہ اجلاس اپریل ۱۹۳۶ء میں زیر بحث ایک اہم مسئلے کے سنجیدہ تجزیے پر مشتمل تھا۔ اے ایم یو کورٹ نے دینیات کے ناقص طرزِ تعلیم کی اصلاح اور طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیداکرنے کی ضرورت پر مفصّل گفتگو کی تھی۔ سیّد مودودی نے جدید تعلیم کے بنیادی نقص پر انگلی رکھی اور کہا کہ دینیات کی کچھ کتابیں نصاب میں داخل کردینے سے یونی ورسٹی، مسلم یونی ورسٹی نہیں بن سکتی۔ یونی ورسٹی کے قیام کے بعد اس کے ناخدائوں نے ایک مرتبہ بھی محسوس نہیں کیا کہ ان کی اصلی منزلِ مقصود کیاتھی ؟اور ان کا رہرو پشت بہ منزل جا کدھر رہاہے؟ انھوں نے سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا:

اس کے طلبہ اور ایک سرکاری یونی ورسٹی کے طلبہ میں کوئی فرق نہیں۔ اسلامی کیرکٹر ، اسلامی اسپرٹ ، اسلامی طرزِ عمل مفقود ہے۔ اسلامی تفکر اور اسلامی ذہنیت ناپید ہے۔ ایسے طلبہ کی تعدادشاید ایک فی صدی بھی نہیں جو اس یونی ورسٹی سے ایک مسلمان کی سی نظر اور مسلمان کا سا نصب العین لے کر نکلے ہوں، اور جن میں یونی ورسٹی کی تعلیم و تربیت نے یہ قابلیت پیداکی ہو کہ اپنے علم اور اپنے قواے عقلیہ سے کام لے کر ملت اسلامیہ میں زندگی کی کوئی نئی روح پھونک دیتے، یاکم از کم اپنی قوم کی کوئی قابلِ ذکر علمی و عملی خدمت ہی انجام دیتے۔۳۱

انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اربابِ حل وعقد کو ۱۹۳۶ء میں متنبہ کیا کہ جدید [غیرمنقسم] ہندستان میں ایک بالکل غیر متوقع اور ۱۸۵۷ء کے ہنگامے سے ہزار درجہ زیادہ خطرناک انقلاب آنے والا ہے۔ مسلمانوں کا پرانا جہاز، دورِ جدید کے کسی ہولناک طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ شاید ایک ہی تھپیڑے میں اس کے تختے بکھر جائیں‘‘۔۳۲پس، اب یہی وقت ہے کہ مسلمان پرانے جہاز سے بھی نکلیں اور کرایے کے جہاز سے بھی اتریں اور خود اپنا ایک جہاز بنائیں، جس کے آلات اور کُل پرزے جدید ترین ہوں، مشین موجودہ دور کے تیز سے تیز جہاز کے برابر ہو، مگر نقشہ ٹھیٹھ اسلامی جہاز کا ہو اور اس کے انجینیر اور کپتان اور دید بان سب وہ ہوں جو منزل کعبہ کی راہ و رسم سے باخبر ہوں‘‘۔۳۳

علی گڑھ تحریک کا وقتی مقصد ، سیّد مودودی کے الفاظ میں یہ تھا کہ مسلمان نئے دور کی ضروریات کے لحاظ سے اپنی دنیا درست کرنے کے قابل ہوجائیں اور تعلیم جدید سے بہرہ مندہوکر اپنی معاشی اور سیاسی حیثیت کو تباہی سے بچالیں اور ملک کے جدید نظم و نسق سے استفادہ کرنے میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہ جائیں: ’’ مگر اس تحریک نے ایک حدتک ہماری دنیا تو ضرور بنادی، مگر جتنی دنیا بنائی، اس سے زیادہ ہمارے دین کو بگاڑدیا۔ اس نے ہم میں کالے فرنگی پیداکیے۔  اس نے ہم میں’اینگلو محمڈن‘ اور’اینگلو انڈین‘ پیداکیے اور وہ بھی ایسے جن کی نفسیات میں ’محمڈن‘ اور’انڈین‘ کا تناسب بس براے نام ہی ہے‘‘۔۳۴

سیّد مودودی نے مشورہ دیا کہ: ’’اگر فی الواقع علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو مسلم یونی ورسٹی بناناہے تو :

                ۱-            مغربی علوم و فنون پر نظر ثانی کیجیے اور طلبہ کے سامنے انھیں تنقید کے ساتھ پیش کیجیے اور یہ تنقید خالص اسلامی نقطۂ نظر سے ہو ، تاکہ وہ ہر قدم پر ناقص اجزا کو چھوڑتے جائیں اور صرف کار آمد حصوں کو لیتے جائیں۔

                ۲-            علوم اسلامیہ سے متاخرین کی آمیزشوں کو الگ کیجیے اور اسلام کے دائمی اصول اور حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین کی تعلیم دیجیے۔ ان کی اصل اسلامی اسپرٹ دلوں میں اتاریے اور ان کا صحیح تدبر دماغوں میں پیداکیجیے۔

                ۳-            اساتذہ میں سے جو ملحد اور مغرب زدہ ہیں، انھیں یونی ورسٹی سے رخصت کیجیے۔۳۵

 ایم اے او کالج امرتسر کے جلسۂ ’تقسیم اسناد‘ (قدیم اصطلاح کے مطابق ’جلسۂ دستاربندی‘) میں سیّد مودودی کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی ،تو اپنے خطبے میں فاضل مدبر نے بڑی صراحت اور سنجیدگی و دل سوزی کے ساتھ جدید تعلیمی اداروں کو ’قتل گاہ‘ قراردے دیا۔ انھوں نے اپنے خیالات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

دراصل میں آپ کی اس مادرِ تعلیمی کو اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں، بلکہ ایسی تمام مادرانِ تعلیمی کو ’درس گاہ‘ کے بجاے ’قتل گاہ‘ سمجھتاہوں۔ میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں  قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں، یہ دراصل موت کے صداقت نامے (Death Certificates) ہیں، جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دیے جارہے ہیں، جب کہ وہ اپنی حد تک اس بات کا اطمینان کرچکاہے کہ اس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگارہنے نہیں دیاہے۔ اب یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ اس منضبط اور منظم قتل گاہ سے بھی جان سلامت لے کر نکل آئیں ۔ میں یہاں اس صداقت نامۂ موت کے حصول پر آپ کو مبارک باد دینے نہیں آیاہوں، بلکہ آپ کا ہم قوم ہونے کی وجہ سے جو ہمدردی قدرتی طور پر میں آپ کے ساتھ رکھتاہوں، وہ مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ میری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے بھائی بندوں کا قتل عام ہوچکنے کے بعد لاشوں کے ڈھیر میں یہ ڈھونڈتا پھرتا ہو کہ کہاں کوئی سخت جان بسمل ابھی سانس لے رہاہے‘‘۔۳۶

ضرورت ہے کہ سیّد مودودی کی تنقیدِ مغرب کا مطالعہ اس کے وسیع پس منظر میں کیا جائے اور سیاسیات، سماجیات اور معاشیاتِ مغرب پر ان کی وقیع تحریروں کو بھی موضوع گفتگو بنایاجائے۔

حواشی و مآخذ

۱-            برصغیر سے باہر عالم اسلام کے مختلف ملکوں میں مغربی فکر و فلسفہ اور نظام حیات کو جن مفکرین و مصلحین نے نشانۂ تنقید بنایا ان میں: مصر کے امیر شکیب ارسلان(۱۸۶۹ء-۱۹۴۶ء)،الجزائر کے امیر عبدالقادر (۱۸۰۷ء-۱۸۸۳ء)، ترکی کے بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۰ء-۱۹۶۰ء)، ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی (۱۹۳۳ء-۱۹۷۷ء) اور آیت اللہ روح اللہ خمینی( ۱۹۰۲ء-۱۹۸۹ء) بہت اہم ہیں۔ اخوان المسلمون عالم عرب کی طاقت ور اور مؤثر ترین تحریک اسلامی بن کر ابھری۔ اس کے مؤسس حسن البنا شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۴۹ء) اور مفکرسیّد قطب شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) اور جمعیۃ العلماء المسلمین الجزائر کے بانی شیخ عبدالحمید بن بادیس (۱۸۸۹ء- ۱۹۴۰ء) نے مغربی استعمار کے خلاف منظم تحریکیں چلائیں اور اپنے زیر اثر علاقوں میں مسلمانوں کو مغرب کی فکری و علمی غلامی سے نکالا۔ مالک بن نبی (۱۹۰۵ء- ۱۹۷۳ء) نے فرانسیسی استعمار پر کاری ضرب لگائی۔

۲-            دیکھیے: پروفیسر خورشید احمد کا مضمون’سیّد مودودی :مفکر ، مصلح اور مدبر‘،ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور،   ربیع الاول ۱۴۲۵ھ؍مئی ۲۰۰۴ء، ص ۱۸۷۔۲۳۲(اشاعت خاص ۲ ، بہ سلسلہ صد سالہ یوم ولادت   مولانا مودودی ۱۹۰۳ء-۲۰۰۳ء) مدیر اشاعت خاص : سلیم منصور خالد۔پروفیسر خورشید احمد نے اس مضمون میں سیّد مودودی کے علمی وتحریکی کاموں کے تین اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے: (الف)فکر اسلامی کی تشکیلِ نو(ب) اُمت کی کم زوری اور زوال کے اسباب کا تعیین اور اصلاحِ احوال کے لیے خطوطِ کار کی نشان دہی(ج)اصلاح کے نقشے کے مطابق تبدیلی اور تعمیرِنو کی جدوجہد کا عملی آغاز۔ اوّلین پہلو کی مزید وضاحت ڈاکٹر محمود احمد غازی (۱۹۵۰ء-۲۰۱۰ء)کے مضمون’مولانا مودودی کی تنقیدِ مغرب‘ سے ہوتی ہے، اور وہ ہے فکر اسلامی کی تشکیل سے پہلے غیر اسلامی افکار و رجحانات پر تنقید و تطہیر۔ سیّد مودودی نے مغربی افکار و نظریات کا وسیع مطالعہ کیاتھا، لیکن جن پہلوئوں کا انھوں نے زیادہ گہرائی سے مطالعہ کیاتھا وہ پانچ تھے:(الف) سیاستِ مغرب(ب) معاشیاتِ مغرب(ج) مغربی قانون (د)مغربی فلسفہ (ہ)مغربی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ۔دیکھیے: ابوالاعلٰی مودودی، علمی و فکری مطالعہ، مرتبین: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصور خالد، ادارہ معارف اسلامی لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۲۳۸-۲۵۷

۳-            دیکھیے: ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری (۱۹۳۱ء-۲۰۱۲ء)کا مضمون’کلامی مسائل میں مولانا مودودی کا موقف‘ تحقیقات اسلامی ، علی گڑھ، اپریل۔ جون ۱۹۹۷ء۔ فاضل مضمون نگار نے امام غزالی، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے تجدیدی کارناموں کا مولانا مودودیؒ سے تقابل کیاہے۔ بعض پہلوئوں سے اسلاف کا علم کلام مودودی کی خدمات پر حاوی اور بھاری ہے، مگر مولانا مودودی کے افکار و عطیات کے بعض پہلو نئے ہیں اور اسلاف سے زیادہ وقیع اور قابل قدر ہیں، جیسے اسلام کے اجتماعی فکر کی تشکیل کی تفصیلات اور مغربی افکار و نظریات واقدار پر تنقید کا میدان، تفسیر میں تفہیم القرآن کی منفرد کاوش، وحی و نبوت کے تصورات کی وضاحت اور انبیا و رسل کے مشن کی تشریح اور اسلامی نظام زندگی کی دعوت و شہادت اور اقامت کے لیے ایک تحریک کا برپاکرنا۔

۴-            ’ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب‘کے عنوان سے مولانا مودودی کا یہ معرکہ آرا مقالہ پہلے ترجمان القرآن جمادی الاخریٰ ۱۳۵۳ھ؍ستمبر ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔ بعد میں اسے مصنف کے مجموعۂ مضامین تنقیحات میں شامل کیاگیا۔ پیش نظر تنقیحات  کی اشاعت ۱۹۶۵ء ، ناشر:اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص۶-۲۲

۵-            سیّد مودودی، اسلام اور جاہلیت(یہ مقالہ ۲۳ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اسلامیات، اسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھاگیا۔) ماہ نامہ ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۴۱ء

۶-            ایضاً ، ص۲۳                          ۷- ایضاً ، ص۲۶

۸-            ایضاً ، ص۲۶، ۲۷                 ۹-  ایضاً ، ص۲۷

۱۰-         سید قطب شہید، معالم فی الطریق،[جادہ و منزل: اُردو ترجمہ خلیل احمد حامدی] ۱۹۸۰ء، ص۷۴

۱۱-         ایضاً ، ص۱۵۳                       ۱۲- تنقیحات، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۶۵ء، ص ۱۱-۱۲

۱۳-         تنقیحات، ص۱۳،مولانا مودودی مثالیں دیتے ہیں۔ ڈیکارٹ (Descartes، م:۱۶۵۰ء) مغربی فلسفے کا باوا آدم سمجھاجاتاہے۔ وہ ایک طرف خدا کا زبردست قائل ہے، مگر دوسری طرف عالم طبیعیت کے آثار کی میکانکی توجیہہ کی ابتدا اسی نے کی اور اس طریق فکر کی بنیاد رکھی جو بعد میں سراسر مادہ پرستی (Materialism) بن گیا۔ ہابس(Hobbes،م: ۱۶۷۹ء) فوق الطبیعیت کی کھلم کھلا مخالفت کرتاہے اور کسی ایسی نفسی، روحی  یا عقلی قوت کا قائل نہیں جو مادی دنیا میں تصرف کرنے والی ہو۔ اسپائنوزا(Sponiza،م: ۱۶۷۷ء) سترھویں صدی میں عقلیت کا سب سے بڑا علَم بردار تصور کیاجاتاہے۔ اس نے مادہ، روح اور خدا کے درمیان کوئی فرق نہ رکھا۔ خدا اور کائنات کو ملاکر ایک کُل بنادیا اور اس کل میں خدا کے اختیارِ مطلق کو تسلیم نہ کیا۔ لایبنز(Leibniz،م: ۱۷۱۶ء) اور لاک(Locke، م:۱۷۰۴ء) خدا کے قائل تھے، مگر دونوں کا میلان نیچریت کی جانب تھا۔

۱۴-         تنقیحات،ص۱۴-۱۵      ۱۵-ایضاً،ص۱۵، ۱۷      ۱۶-ایضاً، ص ۱۶-۱۷                 ۱۷-ایضاً، ص ۱۷

۱۸-         قرآن کریم، سورہ اعراف۷:۱۱۔ وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (ہم نے تمھاری تخلیق کی ابتداکی، پھر تمھاری صورت بنائی،پھر فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو)۔ مولانا مودودی نے تخلیق آدم کے مراحل کی توضیح کے لیے درج ذیل آیات سے بھی استدلال کیا ہے: ص۷۱-۷۲،حجر:۲۸-۲۹،

۱۹-         سیّد مودودی،تفہیم القرآن، جلد دوم، ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور ،ص۱۱              ۲۰-ایضاً، ص ۵۰۴

۲۱-         سیّد مودودی،تفھیمات، حصہ دوم، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ڈھاکہ، نومبر ۱۹۶۸ء، ص ۲۸۴

۲۲-         تفھیمات، ص۲۸۰۔ سیّد مودودی علمی و عقلی حیثیت سے نظریۂ ارتقاء کی کج فہمی کو واضح کرتے ہوئے استدلال کرتے ہیں کہ اس نظریے کی حمایت میں تیار کردہ لٹریچر کی ساری بنیاد ’ہوگا‘ پر ہے (یعنی امکانات پر ہے، بجاے حقائق کے)، حالاں کہ سائنس میں اصل قابل اعتبار چیز ’ہے‘ ہے نہ کہ ’ہوگا‘۔ میں پوچھتاہوں کہ اگر سائنس میں ’ہوگا‘ بھی کوئی اہمیت رکھتا ہے تو ایک ’ہوگا‘ اور دوسرے ’ہوگا‘ میں فرق کیوں ہو؟ خصوصاً، جب کہ ایک ’ہوگا‘ دوسرے ’ہوگا‘ سے کچھ زیادہ ہی لگتاہوا ہوگا۔ جب آپ اس کے لیے تیار ہیں کہ مشہودات کی توجیہہ میں ’ہوگا‘ کو بھی مان لیں تو ڈارون کے ’ہوگا‘ سے میرا یہ ’ہوگا‘ کچھ زیادہ ہی لگتاہواہے کہ زندگی کا آغاز اور زندہ اشیا کا تنوع اور ان کا تفاضل سب کا سب ایک حکیم کے امر اور حکیمانہ تدبر سے ہوا ہوگا۔ میرا یہ ’ہوگا‘ ڈارون کے ’ہوگا‘ سے زیادہ بہتر طریقے پر تمام مشہودات کی توجیہہ کرتا ہے،کسی سوال کو لاجواب نہیں چھوڑتا۔ اور سب سے بڑھ کر اس کے حق میں وجہ ترجیح یہ ہے کہ  اُس طرف تو آدمی صداقت کے ساتھ ’ہوگا‘ سے زیادہ کچھ کہنے کے قابل نہیں ہے، مگر اس طرف بکثرت صالح ترین انسان ،جو کبھی جھوٹ بولتے نہیں پائے گئے، پورے زور کے ساتھ اس حقیقت کا دعویٰ کرچکے ہیں کہ ’ہے‘۔ تفھیمات، دوم،ص ۲۸۳۔

۲۳-         تفھیمات، دوم،جنوری، فروری ۱۹۴۴ء،ص۲۷۷-۲۸۴۔               ۲۴- ایضاً، ص۲۶۴-۲۶۵

۲۵-         قرآن کریم، سورۂ مائدہ۵:۱۲ کا آخری حصہ ہے: فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ  (مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سَوَآءَ السَّبِیْلِ گم کردی۔)

۲۶-         تفہیم القرآن ، جلد اوّل ،ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، جنوری ۱۹۷۲ء، ص ۴۵۳-۴۵۴

۲۷-تفھیمات، دوم، ص ۲۶۶   ۲۸- ایضاً،ص۲۶۹            ۲۹-ایضاً،ص۲۷۲

۳۰-         ایضاً، ص۲۷۵، ۲۷۶۔یہاں فاضل مصنف نے درج ذیل آیت سے استدلال کیا ہے :  لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷:۲۵) (ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) اُتاری، تاکہ لوگ عدل کے طریقے پر قائم ہوں۔)

۳۱-         تعلیمات، مکتبہ جماعت اسلامی ہند، رامپور، طبع دوم، مئی ۱۹۵۰ء، ص۹

۳۲-         ایضاً، ص ۱۶-۱۷                   ۳۳- ایضاً ،ص۱۷   ۳۴-  ایضاً،ص۱۸

۳۵-         تعلیمات، ص۲۰-۲۱۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ’مجلس اصلاح نصاب دینیات‘ نے سیّد مودودی سے ایک جامع نصاب بنانے کی گزارش کی ۔ اس کے جواب میں سیّدمودودی نے’مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل‘ کے عنوان سے مضمون ترجمان القرآن میں شائع کیا۔ جس میں اسلامی تعلیمی پالیسی کی وضاحت کی اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے آٹھ تجاویز دیں۔ تفصیل دیکھیے: ص ۳۳-۴۳

۳۶-         سیّد مودودی، تفھیمات، دوم، ص ۲۸۶-۲۸۷

چند در چند وجوہ اور منفی پروپیگنڈے کی بنیاد پر خواتین کے حوالے سے بحث کو صرف اسلام اور مسلمانوں سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس طرح جہاں ’اسلام اور خواتین‘ ایک وضاحتی مسئلہ بن گیا ہے، وہیں اسلامی تحریکوں کے سامنے اس پہلو سے غوروفکر کے امکانات نمایاں ہوئے ہیں۔

خواتین کے اسلامی کردار کی مناسبت سے

شیخ عبد الحلیم ابو شقہ نے کتاب : خواتین کی آزادی عہد رسالتؐ  میں، میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ آج کی مسلمان عورت دو جاہلیتوں میں سے کسی ایک کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک طرف’’ چودھویں صدی ہجری میں پائے جانے والے غلو، تشدد اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید کی جاہلیت‘‘ ہے، اور دوسری طرف ’’بیسویں صدی عیسوی میں پائی جانے والی برہنگی، اباحیت اور مغرب کی اندھی تقلید کی جاہلیت‘‘ ہے، اور یہ دونوں جاہلیتیں اللہ کی شریعت سے بغاوت کے مترادف ہیں۔ ۲۸  مسلم عورت روایت اور تجدد کی ان دونوں جاہلیتوں کے درمیان پس کر رہ گئی ہے۔

فاضل مصنف کا خیال ہے کہ عورت معاشرے کا نصف حصہ ہے، لیکن وہ ایک طرح سے عضوِ معطل کی مانند ہے، کیوں کہ وہ ایک مجاہد نسل پیدا نہیں کر رہی ہے اور نہ اُمت مسلمہ کی سیاسی و معاشرتی بیداری میں حصہ لے رہی ہے۔ لہٰذا، مسلم عورت کی آزادی مسلمان معاشرے کے نصف حصے کی آزادی ہے اور عورت اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتی، جب تک مرد نہ آزاد ہو اور دونوں اسی صورت میں آزاد ہو سکتے ہیں جب اللہ کی شریعت و ہدایت کا اتباع کیا جائے۔۲۹

مصنّف نے معاشرتی زندگی میں خواتین کے اسلامی کردار کی کمی کے درج ذیل اسباب بیان کیے ہیں:

                ۱-            باقی ماندہ جاہلی عادات و رسوم کے اثرات، خواہ عرب جاہلیت کی رسوم ہوں یا اسلام میں داخل ہونے والی دوسری اقوام کی رسوم و روایات۔

                ۲-            مسلم معاشرے میں موجود تشدد اور غلو کے رجحانات۔

                ۳-            بعض علماے سلف کے اجتہادات کی تقلید۔

                ۴-            ائمہ کے بعض اقوال، احادیث کی میزان پر تولے نہیں جا سکتے اور خود حدیث پر تحقیق کی ضرورت و اہمیت۔ ۳۰

دورِ نبویؐ میں خواتین کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا اور وہ جن حقوق اور آزادیوں سے بہرہ ور تھیں، انھیں بحال کرنا اسلامی تحریکوں کی ترجیحات میں داخل ہے۔ دعوت و اصلاح اور تجدید و احیا کا کام تشفی بخش طریقے سے اسی وقت انجام پا سکتا ہے، جب کہ معاشرے کے اس نصف حصے کی سماجی زندگی اسلام کی روشنی میں بحال ہو۔

مصری مصنف شیخ محمدالغزالیؒ( ۱۹۱۷ء-۱۹۹۶ء) چودھویں صدی ہجری میں مسلم اُمت کے زوال کے اسباب پر گفتگو کرتے ہیں تو درج ذیل امور کی نشان دہی کرتے ہیں:

۱- دین کا ناقص فہم ، ۲- نااہل اور بددیانت افراد کا قیادت کے منصب پر فائز ہونا، ۳-دین سے خواتین کے تعلق کی کم زوری، ۴- اساطیری تصور مذہب پر بڑھتا ہوا یقین۔ ۳۱

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کی ایک بیوی مسجد نبویؐ میں فجر اور عشاء کی نماز یں جماعت سے ادا کرتی تھیں۔ ان سے پوچھا گیا: ’’آپ گھر سے باہر کیوں نکلتی ہیں؟ جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ عمرؓ اسے سخت ناپسند کرتے ہیں اور خلافِ غیرت تصور کرتے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’پھر وہ مجھے حکماً کیوں نہیں روک دیتے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ’’انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روک رہا ہے کہ ’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے مت روکو‘‘۔ ۳۲   حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے یہ حدیث روایت کی تو ان کے بیٹے نے کہا: ’’بخدا، ہم انھیں مسجدوں میں نہیں جانے دیں گے‘‘۔ باپ بیٹے پر سخت ناراض ہوئے اور ان کی یہ ناراضی آخر تک برقرار رہی۔

اس تاریخی واقعے کو نقل کر کے شیخ الغزالی تأسف کا اظہار کرتے ہیں:’’یہ عجیب معاملہ ہے کہ ملت اسلاامیہ اپنے آخری ادوار میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے صاحب زادے کے مسلک کی تو قائل ہو گئی، لیکن باپ کی روایت کر دہ حدیث سے اس نے نظریں پھیر لیں۔ چنانچہ پنج وقتہ نمازوں کی مسجدوں میں ادایگی اور خطبات و دروس کی سماعت و استفادے سے عورتیں آج تک محروم چلی آرہی ہیں۔مسجدوں سے عورتوں کو محروم کرنے کی یہ روش پوری تاریخ میں برقرار رہی، جس کی وجہ سے مسلم خاندان کا زبردست نقصان ہوا اور فرض عبادات سے بھی ان کا رشتہ ٹوٹ گیا‘‘۔ ۳۳

ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ خواتین کے حقوق سے غفلت اور غیر دانش مندانہ حکمت عملی اختیار کرنے کو تحریک اسلامی کے لیے مضر خیال کرتے ہیں۔ ان کا درمندانہ تجزیہ یہ ہے کہ: علماے دین اور اسلامی تحریکوں کو خواتین کے معاملے میں ’دفاع اور تحفظ‘ کی جگہ اسلامی نقطۂ نظر کا پوری قوت سے اثبات کرنا چاہیے اور اقدامی انداز اختیار کرنا چاہیے۔ ایسا اثبات کہ جس سے ایک طرف اسلامی نظام فکر کی خیر و برکات اور اس کا توازن اور عدل واضح ہوتے جائیں اور دوسری طرف عصری نقطۂ نظر کی بنیادیں منہدم ہوتی چلی جائیں، اور اس کی اساس پر تشکیل پانے والے معاشرے کی خیرہ کن تاب ناکی کے پس پردہ تاریکیوں کی جھلک بھی دکھائی جاتی رہے۔

اس اثبات کا محور ، ڈاکٹر فریدی کے الفاظ میں: ’’اسلامی نظام فکر و عمل اور اس کے اصول و اقدار ہوں گے۔ ان کی واضح اور جرأت مندانہ تفسیر اور تعبیر کی ضرورت ہے۔ خواتین کے کردار کے اس اثبات کا مطلب اُس تاریخی ثقافت اور ان تمام اداروں کا اثبات ہر گز نہیں ہے، جسے ملّتِ اسلامیہ نے اپنے طویل سفر میں اپنی اجتماعی زندگی کا لازمی جزو بنا لیا ہے۔ ہمارے رجحانات اور ہماری مرضیات ، ہمارے رسم و رواج اور ہماری کلچر ل اقدار، ان سب سے نکھار کر اس کا اثبات اور توضیح وقت کا بھی تقاضا ہے اور ہماری دینی ذمہ داری بھی‘‘۔ ۳۴

ڈاکٹر فریدی کو اس بات کا ادراک ہے کہ علماے اُمت نے ہر دور میں خواتین کے حقوق اور ازدواجی تعلقات کے متعلق اسلامی بنیادوں کی تعلیم اور تشریح کے ذریعے اصلاح کی جدو جہد جاری رکھی، مگر ان پر بھی تحفظ کا داعیہ غالب آگیا۔ خطرے کے مبالغہ آمیز احساسات کی وجہ سے اس امر کا اہتمام نہ کیا جا سکا کہ حقیقی اسلامی اقدار اور کلچر کے حشو و زوائد کو ممیز کیا جاتا رہے، بلکہ دین دار حلقوں کی ہمت افزائی کی گئی کہ جو کچھ بھی سرمایہ موجود ہے، اس کو برقرار رکھا جائے اور انحطاط سے بچایا جائے۔ تحفظ کی اس جدو جہد میں اسلامی تعلیمات اور مسلم کلچر کی تفریق کا لحاظ نہ کیا جا سکا۔ ۳۵

ڈاکٹر فریدی یہ اعتراض نقل کرتے ہیں کہ: ’’مدینہ ایک پاکیزہ سو سائٹی تھی، لیکن ہم ایسے دور میں سانس لے رہے ہیںجہاں اباحیت کا غلبہ ہے، اس لیے ہمیں مزید پابندیاں لگانی پڑیں گی، بعض مباحات کو ممنوع قرار دینا ہوگا اور اجتماعی تعامل کی بعض راہوں کو بند کرنا پڑے گا، جو اُس پاکیزہ سماج میں موجود تھیں‘‘۔ ڈاکٹر فریدی اس اعتراض کو دووجوہ سے رد کرتے ہیں:

                ۱-            مدینہ کے معاشرے میں بھی غلط عناصر موجود تھے، ا گر چہ ان کی تعداد حد درجہ قلیل تھی۔ منافقین ہر وقت گھات لگائے رہتے تھے۔

                ۲-            قرآن کریم کے احکام ہر معاشرے کے لیے ہیں، خواہ وہ مدینہ منورہ کا پاکیزہ معاشرہ ہو، یا آج کاا باحیت زدہ ماحول۔ ۳۶

ڈاکٹر فریدی دور حاضر کے بعض رجحانات کو صحت مند قرار دیتے ہیں، کیوں کہ یہ اپنی اصل کے اعتبار سے اسلامی نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہیں، حالاں کہ خدائی ہدایات کی بے نیازی نے ان کی تعبیر میں افراط و تفریط کی راہ پیدا کر دی ہے۔ وہ رجحانات یہ ہیں:

                ۱-            خواتین کی عمومی مظلومیت کو دُور کرنے اور ان کو انسانی حقوق دلانے کی عام جدوجہد ۔

                ۲-            اجتماعی امور میں ان کے اشتراکِ عمل میں اضافے کی جدو جہد ۔

                ۳-            خواتین سے جہالت دُور کرنے اور تعلیم کے ممکنہ وسائل بہم پہنچانے کی جدو جہد ۔

                ۴-            عائلی زندگی میں خواتین کو منصفانہ حقوق دلانے کی جدو جہد ۔

                ۵-            عورت کو مرد سے کم تر سمجھنے کے نقطۂ نظر کی اصلاح۔

                ۶-            معاشی زندگی میں عورت کو استقلال عطا کرنے کی جدو جہد ۔ ۳۷

ڈاکٹر فریدی مرحوم ان رجحانات کو بلا سوچے سمجھے تسلیم کرنے کا مشورہ نہیں دیتے، کیوں کہ ان کے علَم بردار بالعموم دین و مذہب سے بیگانہ ہیں۔ ان کی فکر میں ژولیدگی اور ابہام ہے۔ ان کی تعبیریں خواہش نفس اور تجدد کی ترجمان ہیں، اور ان میں افراط و تفریط بھی ہے اور رد عمل بھی۔ اگر اسلامی تحریک کوشش کرے تو اسلام کے عادلانہ اور متوازن فکر کے طفیل ان قدروں کا متوازن امتزاج اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے، جو عصری اصطلاحات کی زبان میں سمجھ میں آسکے۔ ۴۰

غیر مسلموں سے تعلقات

بیسویں صدی میں مغرب کے لادینی نظام کی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں نے بلاشبہہ عظیم الشان لٹریچر تیار کیا ہے۔ جس نے مغرب کے الحاد پر تنقید کے ساتھ اس کے استعماری عزائم کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ مغرب کی فکری و عسکری یلغار نے مسلمان علما و مصلحین کو آمادہ کیا کہ   وہ ایک نئے علم الکلام کے ذریعے اسلام کی حقانیت پر مسلمانوں کے ایمان و اعتقاد کو بحال کریں اور عقلی استدلال کے ساتھ غیرجانب دار اسلوب میں نظام زندگی کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کریں۔

علّامہ محمد اقبال(۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء)، سیّد مودودی(۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء)، سید ابو الحسن علی ندوی (۱۹۱۴ء- ۱۹۹۹ء) مریم جمیلہ (۱۹۳۴ء- ۲۰۱۲ء)، سیّد قطب (۱۹۰۶-۱۹۶۶ء)، محمد قطب  (۱۹۱۹ء-۲۰۱۴ء)، محمدالغزالی (۱۹۱۷ء-۱۹۹۶ء)، ڈاکٹر علی شریعتی (۱۹۳۳ء-۱۹۷۷ء)،  طارق رمضان (پ:۱۹۶۲ء) پروفیسر خورشید احمد (پ: ۱۹۳۲ء)، مالک بن نبی (۱۹۰۵ء-۱۹۷۳ء)، بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۳ء- ۱۹۶۰ء) جیسے دانش وروں اور علما کی ایک قوسِ قزح ہے، جس نے مغربی فکر و فلسفہ کے خلاف اسلام کی صداقت ، معقولیت اور نافعیت کوثابت کرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں دینی و فکری ادب عالیہ تیار کیا۔ اس لٹریچر کا بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ ہوا، جس کی وجہ سے اس کے اثرات کسی ایک خطے تک محدود نہ رہ سکے۔ دھیرے دھیرے مغربی فکر سے مرعوبیت ، احساس کم تری اور معذرت خواہانہ ذہنیت کا خاتمہ ہوا۔ مسلم نوجوان اسلام و ایقان کی دولت سے مالا مال ہوکر دعوت و احیاے دین کی جدو جہد میں لگ گئے۔

مغرب نے اسلامی تحریکوں کو بدنا م کرنے اور احیاے اسلام کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے عسکری، ابلاغی، مذہبی اور علمی تمام حربے اختیار کیے، مگر عالم اسلام میں مغرب کے خلاف نفرت بڑھتی گئی اور اسلامی تحریکوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ رفتہ رفتہ بعض عوامل کے تحت پوری غیر مسلم دنیا مسلمانوں کی نفرت میں محارب اور معاند بن گئی۔ امریکا اور مغرب کی جارحیت پسند حکومتیں ہی نہیں، وہاں کے عوام بھی دشمنوں کی صف میں کھڑے کر دیے گئے اور ان سے مسلمانوں کا باہمی تعلق اور انسانی تعامل تھم گیا ، جس کے نتیجے میں دعوت اسلامی کا دائرۂ کار عملاً مسلمانوں کے اندر محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کا براہ راست نقصان اسلامی تحریکوں کو پہنچا۔ اسلام، مسلمان اور اسلامی تحریک سے مغرب کی دُوری بڑھی۔ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں تیزی سے پرورش پائیں۔

طرفہ تماشا یہ ہوا کہ مسلم ممالک کی مغرب نواز قیادت نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسلامی قائدین کو ہر طرح کی بنیادی سہولتوں اور آئینی و دستوری حقوق سے محروم کیا، بلکہ ان پر بے پناہ ظلم و ستم روا رکھا۔ قیدوبند سے لے کر تختۂ دار تک تمام صعوبتیں ان پر مسلط کر کے ان کی زندگی اجیرن بنا دی۔ردّ عمل میں اسلامی تحریکوں اور مسلم سربراہان مملکت کے درمیان کشاکش بڑھی۔ اوپر سے مغرب نے مسلم ممالک پر مسلط کر دہ رہ نمائوں کی حمایت کی اور انھیں عوام پر بدترین مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دے دی۔

جمہوری و انسانی اقدار کی کھلم کھلا خلاف ورزی نے مسلم ممالک میں بھی اور مغرب میں کام کرنے والے بعض افراد، حلقوں اور اداروں کے اندر بھی انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ دیا، جس کا خمیازہ آج پوری امتِ مسلمہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بعض حلقے اور جماعتیں پورے مغرب کو دشمن قرار دے کر اس کے خلاف جنگ لڑنے کی نظریہ سازی کر رہے ہیں۔ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان یہ کشاکش دعوت اسلامی کو کام کرنے کا موقع نہیں دے رہی ہے۔ مغرب نے مسلمانوں کو مسلسل  حالتِ جنگ میں رکھ کر وہاں کے انسانوں سے سماجی و معاشرتی تعامل و تعلقات کی راہ بند کر دی ہے۔ اس پر وقفے وقفے سے انجام پانے والی پُرتشدد کارروائیاں حالات کو اور سنگین بنا دیتی ہیں۔ معصوموں کے قتل عام سے اسلام اور دعوت اسلامی کی تضحیک ، استہزا اور تذلیل میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

اس صورتِ حال میں استحصالی قوتیں مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتیں۔مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ان دنوں مسلمانوں سے منسوب ایسی پوسٹوں کا خوب پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا اور انھیں انتہاپسند اور دہشت گردی کو فروغ دینے والی قوم کے طور پر لعن طعن کرنا ہے۔ سوشل ویب سائٹس پر ایسی قابلِ اعتراض پوسٹس آئے دن کا معمول بن چکی ہیں جن کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں بعض ایسے طائفے بھی پیدا ہوچکے ہیں جو صرف جنگ کو اسلام کا تقاضا سمجھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عام انسانوں سے تعامل کی قرآنی بنیاد حُسنِ سلوک اور عدل و اانصاف ہے نہ کہ عداوت و نفرت۔ سورۂ ممتحنہ کی آیات ۸-۹ اس باب میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں،   جن میں صراحت ہے کہ جو غیر مسلم تمھارے ساتھ عداوت نہیں برتتے، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ  تم بھی ان کے ساتھ عداوت نہ برتو،بلکہ تم ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔ آیت ۹ میں مزید صراحت ہے کہ کفار سے ترکِ تعلق کا جو حکم اس سورہ کی ابتدائی آیات میں دیا گیا ہے اس کی وجہ ان کا کفر نہیں، بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے۔

مولانا سیّد ابوالا علیٰ مودودیؒ نے ان آیات کی بہترین تشریح اس واقعے کو قرار دیا ہے جو سیرت و تاریخ کی کتابوں میں حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ اور ان کی کافر والدہ سے متعلق بیان ہوا ہے۔ بخاری ، مسلم اور مسند احمد میں یہ واقعہ مروی ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبد العزیٰ کافر تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ حضرت اسما ؓ انھی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکہ کے درمیان آمد و رفت کا راستہ کھل گیا تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئیں اور کچھ تحائف بھی لائیں۔ حضرت اسماء ؓ کی اپنی روایت ہے کہ میں نے جا کر رسولؐ اللہ سے پوچھا: ’’کیا میںاپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟‘‘آپؐ نے جواب دیا:’’ ہاں، ان سے صلہ رحمی کرو‘‘۔ حضرت اسماؓ کے صاحب زادے عبد اللہ بن زبیر ؓ اس واقعے کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماؓ نے ماں سے ملنے سے انکار کر دیا تھا، بعد میں جب اللہ اور اس کی رسول کی طرف سے اجازت مل گئی تب وہ ان سے ملیں۔ ۳۹

قرآن کریم نے تو یہاں تک ہدایت دی ہے کہ دشمن قوم اگر ظلم و زیادتی کرے تو بھی اس کے جواب میں مسلمانوں کو ناروا ظلم کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں سب کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے:

وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْام وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ص  وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ص (المائدۃ ۵: ۲) اور (دیکھو)، ایک گروہ نے جو تمھارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تو اس پر تمھارا غصہ تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلے میں نا روا زیادتیاں کرنے لگو۔( نہیں) جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔

اسی سورہ میں آگے اللہ نے حکم دیا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرو۔ اس لیے کہ تقویٰ اور خدا ترسی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے:

وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط  اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز (المائدۃ۵: ۸) کسی گروہ کی دشمنی تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

اسلامی تحریکیں غیر مسلموں سے انسانیت نواز اور ہمدردانہ تعامل کی ناگزیریت محسوس کرنے لگی ہیں۔ پچھلے دنوں عالمی سطح پر تشدد اور دہشت گردی کے جو ناخوش گوار اور ہول ناک واقعات پیش آئے ہیں اور پورے مغرب میں ’اسلامو فوبیا‘ کی جو لہر پھیلی ہے، اس نے خاص طور پر مسلم تحریکوں کو اپنی پالیسی و پروگرام پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے علما، دانش ور، مصنف اور سماجی کارکن سب محسوس کرنے لگے ہیں کہ دشمن اور غیر دشمن میں تفریق کی جائے۔ جارحیت پسند حکومتوں ، افراد اور اداروں کی تمام تر سازشوں کے باوجود عام انسانوں سے معاشرتی روابط بڑھائے جائیں اور ان سے سماجی تعلقات میں بہتری لائی جائے۔

۷ جنوری ۲۰۱۵ء کو پیرس میں چارلی ہیبڈو میگزین کے دفاتر میں خود کش بندوق برداروں نے حملہ کر کے اس کے ۱۰ کارکنوں اور ۲ پولیس اہل کاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس کی وجہ اس مزاحیہ رسالے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت تھی۔ میگزین کی گستاخانہ اور اخلاق سے گری حرکت کے باوجود اس تشدد آمیز کارروائی کی مسلمانوں کے نمایندہ اداروں نے مذمت کی۔۴۲

پیرس کے مسلمانوں نے آئینِ فرانس سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا۔ اتحاد اسلامی تنظیمات براے فرانس نے ایک بیان میں کہا :’’ ہم اپنے ملک فرانس کے تئیں وفادار ہیں۔ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ ہم اپنے رسولؐ سے عشق کرتے ہیں، مگر ہم اپنے مسکن فرانس سے بھی محبت کرتے ہیں‘‘۔

اس ادراک کی ضرورت ہے۔ اسلامی تحریکیں ان فکری و علمی مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیں تو اُمت مسلمہ کا مستقبل درخشاں ہے۔ جہاں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں پر سماجی توازن برقرار رکھنے اور دعوت کے مواقع پیدا کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں کو غیر اسلامی قوتوں سے اشتراکِ عمل کی ضرورت کا احساس ہے۔ خدمت خلق سے اس کی بڑھتی ہوئی دل چسپی ، ملکی تعمیر و ترقی کے پروگراموں میں وہاں کے اکثریتی اہل مذہب اور باشندوں سے تعاون و تعامل میں اضافہ ہوا ہے۔ ضرورت ہے کہ کارکنوں کے اندر اس کی ناگزیریت کے احساس میں اضافہ کیا جائے اور عبادت و خدمت کے لزوم کے تصور کو ان کے دلوں میں جاگزیں کیا جائے۔ دوسرے ملکوں میں کام کرنے والی اسلامی تحریکیں اس جانب پیش رفت کر رہی ہیں، کہیں حالات کے دبائو میں، تو کہیں منصوبہ بندی کے تحت۔ ضرورت ہے کہ اس انسانیت نواز تعامل کی مؤثر تفہیم و تشریح ہو اور شرعی استدلال کے ساتھ دلوں کو اس پر مطمئن کیا جائے۔ یہ مرحلہ مشکل تو ہے، مگر ناقابلِ عبور نہیں۔

حواشی و مراجع

۲۸- عبد الحلیم محمد ابو شقہ، تحریر المرأۃ فی عصر الرسالۃ، کویت، دار القلم، ۱۹۹ء، ۶؍ جلدیں۔ اردو ترجمہ، خواتین کی آزادی عہد رسالت میں۔ تلخیص احمد کبیسی، مترجم: شعبہ حسنین ندوی، ہیزنڈن، ورجینیا، ص ۱۴

۲۹- حوالہ سابق ، ص ۱۵                                      ۳۰۔ حوالۂ سابق، ص ۲۲۔۲۴

۳۱۔ محمدالغزالی، الدعوۃ الاسلامیہ تستقبل قرنھا الخامس عشر  [اُردو ترجمہ، عبید اللہ فہد فلاحی، دعوت اسلامی، پندرھویں صدی ہجری کے استقبال میں، دہلی، ۱۹۸۱ء۔ ص۸۰- ۸۳]

۳۲- مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب خروج النساء الی المساجد اذا لم   یرتب علیہ      فتنۃ، الرقم : ۴۴۲

۳۳- محمد الغزالی، حوالہ بالا، ص ۸۲     ۳۴- فضل الرحمٰن فریدی، اقامت  دین کا سفر،حوالہ بالا

۳۵-حوالۂ سابق                                       ۳۶- حوالۂ سابق

۳۷-حوالۂ سابق، ص۳۸،  ۸۲۔۸۳         ۳۸-حوالۂ سابق، ص ۸۴

۳۹- سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۸۸ء، جلد پنجم، ص ۴۳۳، حاشیہ ۱۳

۴۰- عبید اللہ فہد فلاحی، چارلی ہیبڈو ( Charlie Hebdo) کے خاکے اور مسلمانوں کا رد عمل‘، مشمولہ در، فکر محمدؐ، ترتیب: عبید اللہ فہد اور ضیاء الدین فلاحی، سیرت کمیٹی، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، ۲۰۱۶ء، ص ۱۶۷-۱۹۷

http://mirajnews.com/international/europel. .41

french_muslim_right_dominate_le_lourget