سلیم احمدo


آیئے سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا اور کب پیدا ہوا؟ آپ کو معلوم ہے انگریز جب برعظیم میں آئے تو اپنے ساتھ دھواں گاڑی اور بھاپ جہاز بھی لائے۔ برعظیم پاک و ہند کے لوگوں کے لیے یہ اتنی نئی چیزیں تھیں کہ غالب نے جو کلکتے میں اُن کی جھلک دیکھی تو دیوانے ہوگئے۔ سرسیّد جو بعد میں انگریزوں کی حمایت کی علامت بنے، اُس وقت آئینِ اکبری لکھ رہے تھے۔انھوں نے غالب سے اس کی تقریظ لکھنے کی فرمایش کی تو غالب نے یک بیک پکی روشنائی سے لکھ کر دیا کہ: ’’میاں آئینِ اکبری کو کیا روتے ہو، اہلِ انگلستان کا آئین دیکھو اور ان چیزوں پر نظر ڈالو، جو وہ اپنے ساتھ لائے ہیں‘‘۔

اس معاملے میں غالب تنہا نہیں تھے۔ جہاں تک انگریزوں کی دھواں گاڑی کا تعلق ہے  اس سے کون انکار کرسکتا تھا، لیکن جب انگریزوں کی دھواں گاڑی کے ساتھ ان کی کوٹ پتلون اور چھری کانٹے بھی چلنے لگے، تو اکبر الٰہ آبادی جیسے بزرگ بُرا مان گئے۔ ان کا اعتراض انگریزوں کی برتری پر نہیں تھا۔ اگر ہوتا بھی تو حالات اس کی تردید کر رہے تھے۔ انگریز اپنی فوجی اور سیاسی برتری ثابت کرچکے تھے۔ علمی برتری کا ثبوت، ان کی دھواں گاڑی کی صورت میں موجود تھا، لیکن اکبر کا کہنا یہ تھا کہ: ’’فوجی اور سیاسی برتری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انگریز تہذیبی طور پر برتر ہیں‘‘۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی تہذیب کے بارے میں کسی احساسِ مرعوبیت کا شکار نہ ہوں اور [اسے] قربان  نہ کریں۔ اکبر الٰہ آبادی کے مقابلے پر دوسرا گروہ سرسیّد احمد اور ان کے ساتھیوں کا تھا۔ سرسیّد، انگریزوں کی ہمہ جہت برتری کے اتنے قائل ہوگئے تھے کہ تقریباً ہرمعاملے میں انگریز کی تقلید ضروری سمجھتے تھے۔ وہ انگریزی تہذیب سے اتنے مرعوب تھے کہ ایک بار انھوں نے میزکرسی کی حمایت اور دسترخوان کی مخالفت میں لکھ ڈالا۔

مولانا الطاف حسین حالی نے اس پر حاشیہ لگایا کہ: ’’میزکرسی انگریزوں کی چیزیں تھوڑی ہیں، یہ تو اندلس کے مسلمانوں کی ایجاد ہیں‘‘۔ اس رویے کو یاد رکھیے۔ پتا نہیں ہم سرسیّد کو ’ذہنی غلام‘ کہیں گے یا نہیں، لیکن اُن پر اکبر کا اعتراض یہ تھا کہ وہ مسلمانوں پر مغربی تہذیب کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اب ایک بات مسلمانوں کی تہذیب کے بارے میں۔ لباس، نشست و برخواست کے طریقے، دسترخوان اور کھانے پینے کے آداب، تہوار اور نکاح اور شادی کے معاملات، اور بچے کے کان میں اذان دینے سے میت کی نماز تک کے تمام اوضاع [طورطریقے] کسی نہ کسی طرح اسلام سے وابستہ ہیں۔ یہ تہذیب اُوپر سے نیچے تک ایک کُل ہے، جس کے تمام اجزا ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ اس کے کسی جزو کو اس کے کُل سے، کُل کو نقصان پہنچائے بغیر الگ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اس زمانے کی بحثوں میں یہ حدیث مسلسل بیان کی جاتی تھی کہ: جو کسی دوسری قوم سے مشابہت اختیار کرے گا اُس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا۔

اس لیے عام مسلمان سرسیّد پر صرف یہی اعتراض نہیں کرتے تھے کہ وہ مذہب میں ’نیچریت‘ پھیلا رہے ہیں، بلکہ ان کا اعتراض یہ بھی تھا کہ وہ انگریزوں کی تہذیب کی تقلید کے ذریعے مسلمانوں کو کرسٹان [عیسائی]بنا رہے ہیں۔ سرسیّد ان اعتراضات کا بُرا مانتے اور انھیں قل اعوذیوں کے اعتراضات کہتے تھے۔ اکبر کچھ ہوں بہرحال جج تھے اور سرسیّد انھیں قل اعوذیا نہیں کہہ سکتے تھے، اس لیے ہمیں اکبر الٰہ آبادی کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔ اکبر کا کہنا تھا کہ انگریزوں سے آگ پانی کا انجن بنانا ضرور سیکھو، لیکن اپنے دین اور اپنے بزرگوں کی تہذیب کو نہ چھوڑو۔ چنانچہ اکبر کے نزدیک ذہنی غلامی کے معنی یہ نہیں تھے کہ انگریزوں سے کچھ حاصل ہی نہ کیا جائے۔ اُن کا کلام غور سے پڑھیے تو وہ انگریزوں سے ہرمفید چیز حاصل کرنے کے حق میں ہیں، لیکن انگریزوں کی اندھی تقلید کے خلاف ہیں کہ ان کے چکّر میں اپنی اس تہذیب ہی کو چھوڑ دیا جائے جس کی برتری کے      اکبر بہرحال قائل تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اکبر کے نزدیک ذہنی غلامی کے معنی انگریزوں یا مغرب کی اندھی تقلید ہے، اور ذہنی غلامی کی یہ تعریف درست ہے۔

ذہنی غلام اندھے مقلد ہی کو کہتے ہیں۔ اب یہ بات ماننے کی ہے کہ اندھی تقلید شدید احساسِ مرعوبیت اور احساسِ کمتری سے پیدا ہوتی ہے۔ جب کوئی فرد کسی فرد سے اتنا مرعوب ہوجاتا ہے، کہ اس کے آگے اپنے آپ کو صفرِ محض سمجھنے لگتا ہے، تو اس فرد کی نقالی اس کا مقدر ہوجاتی ہے۔ یہی حال قوموں کا ہے۔ میں سرسیّد پر اس کا الزام نہیں لگائوں گا، لیکن برعظیم پر انگریزوں کے غلبے کے بعد مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ضرور پیدا ہوگیا تھا، جو انگریزوں کی ہر چیز کو مثالی سمجھنے لگا تھا اور اس کے سامنے اتنے شدید احساسِ کمتری میں مبتلا تھا کہ اسے اپنی کسی چیز میں کوئی اچھائی نظر نہیں آتی تھی۔ اکبر نے دراصل اسی طبقے کے خلاف اپنا قلمی جہاد کیا تھا۔

  •  ازالے کی کوششیں: اب اگر ہم نے مسئلے کی صحیح تفہیم کرلی ہے تو آیئے یہ دیکھیں کہ مسلمانوں نے ذہنی غلامی کے مرض کا دفیعہ کرنے کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کیے؟ حالی کا ذکر کرچکا ہوں۔ وہ گلی گلی سرسیّد تحریک کے ساتھ تھے، مگر ان میں مسلمانوں کی عظمت کا احساس سرسیّد سے زیادہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمان اس وقت پست حالت میں ہیں۔ اور بے شک ان کا یہ خیال بھی تھا کہ وہ اس پستی کو انگریزوں کی تقلید کے ذریعے دُور کرسکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں مسلمانوں کے ماضی پر فخر بھی تھا۔ اس کے بغیر مسدس حالی  جیسی چیز لکھی نہیں جاسکتی تھی۔ اس لیے حالی نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ انھیں یہ بتایا جائے کہ انگریزوں میں جو اچھی چیزیں ہیں،   وہ انھوں نے مسلمانوں ہی سے لی ہیں اور مسلمانوں کو ان سے جھجکنا نہیں چاہیے اور انھیں خود اپنا مال سمجھ کر اس پر قابض ہوجانا چاہیے۔ حالی کے یہاں تو یہ خیال بالکل ابتدائی شکل میں ہے، لیکن   ان کے بعد آنے والے اس بات کو بہت دُور تک پھیلا دیتے ہیں۔

حالی کے بہت بعد ڈاکٹر محمد اقبال نے یہ طریقہ اختیار کیا اور مسلمانوں کو سائنس کے حصول کی ترغیب دیتے ہوئے یہی کہا کہ سائنس خود مسلمانوں کی ایجاد ہے اور مسلمانوں کی اپنی چیز ہے، جسے مسلمان سازش کا شکار ہوکر کھوبیٹھے۔ ورنہ وہ خود آج مغرب کی طرح سائنس کی دنیا میں سب سے آگے ہوتے۔ مسلمانوں کے احساسِ کمتری کے ازالے کے لیے کچھ لوگوں نے ایک اور طریقہ نکالا، جو اسی طریقے کی ایک شاخ ہے۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کے شان دار ماضی کے نغمے گانے شروع کیے اور مسلمانوں کو یہ بتانا شروع کیا کہ زندگی کے ہر میدان میں مسلمان ماضی میں کتنے آگے تھے۔ جسٹس امیرعلی اور مولانا شبلی نعمانی کی تاریخ نویسی اسی مقصد سے پیدا ہوئی۔ شبلی منطق اور کلام کے آدمی تھے، اس لیے انھوں نے مسلمانوں کو یہ بتایا کہ فلسفہ اور کلام میں مسلمان پہلے کیا کارنامے انجام دے چکے ہیں۔ المامون اور الغزالی کی طرف وہ اسی مقصد سے گئے۔ 

یہ رویّے آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو اقبال میں بھی مل جائیں گے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ مذکورہ طریقے کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور مسلمانوں کے احساسِ کمتری کا بڑی حد تک ازالہ ہوگیا۔ وہ اپنے ماضی پر فخر کرنے لگے اور ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ بھی کوئی چیز ہیں، لیکن اس طریقے میں بھی خرابی کی ایک صورت مضمر ہے۔ احساسِ کمتری کی طرح احساسِ برتری بھی صحت مندی کی علامت نہیں ہے۔ احساسِ کمتری سے تقلید پیدا ہوتی ہے اور احساسِ برتری سے خوداطمینانی۔ احساسِ کمتری کا شکار اپنے آپ سے اتنا غیرمطمئن ہوجاتا ہے کہ اپنے سوا ہر چیز    بن جانا چاہتا ہے۔ احساسِ برتری کا شکار اپنے سوا کسی کو دیکھتا ہی نہیں اور اس طرح مقابلہ اور موازنہ اور مسابقت کے جذبے سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایک کا نتیجہ نقالی، اندھی تقلید اور ذہنی غلامی ہے، تو دوسرے کا فطری نتیجہ جمود۔ مسلمانوں کے لیے یہ دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔ ہم دنیا میں رہتے ہیں اور دنیا کی دوسری قوموں اور انسانوں کے درمیان ہیں۔ ہمیں ان کے درمیان عزت اور وقار سے رہنا ہے اور دنیا کی تعمیر میں اپنی بساط کے مطابق حصہ لینا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے سامنے زندگی کا ایک صحت مند معیار ہو، جس کے مطابق ہم خود باقی بھی رہیں اور اپنی استعداد کے مطابق ترقی بھی کریں۔ اس کے لیے ہمیں دوسروں سے جہاں بہت کچھ سیکھنا ہے، وہاں انھیں کچھ سکھانا بھی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: حکمت تمھاری گم شدہ دولت ہے، جہاں پائو لے لو۔ اسی طرح حضوؐر نے علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ مسلمان جب اپنی ترقی کے عروج پر تھے تو ان کا رویّہ یہی تھا۔ انھوں نے دنیا کے بہترین علوم سے کسب ِ فیض کیا اور انھیں ترقی دی۔ ہمیں بھی اپنے زمانے میں یہی کرنا ہے اور اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ ہم یہ کام صرف اُس وقت کرسکتے ہیں، جب ہم ذہنی طور پر آزاد ہوں، غلام نہ ہوں۔ ہمیں معلوم ہو کہ ہماری کیا کیا چیز اچھی ہے؟ کس کس چیز میں ہم کمزور ہیں؟ کون کون سی چیزیں ہیں، جنھیں ہمیں بدلنا ہے؟ اور اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ دوسروں میں کون کون سی چیزیں اچھی ہیں، کون کون سی چیزیں بُری، کون کون سی چیزیں قابلِ قبول ہیں اور کون کون سی چیزیں قابلِ ترک۔

  •  خود شناسی: ہم یہ باتیں اس وقت تک معلوم نہیں کرسکتے، جب تک ہم میں وہ چیز  نہ پیدا ہو جسے ’خودشناسی‘ کہتے ہیں۔ ’خودشناسی‘ اور ’جہاں شناسی‘ خود کو پہچاننا اور دوسروں کو پہچاننا،  یہ ہماری پہلی ضرورت ہے، جو ظاہر ہے کہ علم صحیح کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہمارے اندر کون کون سی چیزیں اچھی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ ہمارا مذہب دنیا کا بہترین مذہب ہے۔ وہ اخلاق جو ہمارا مذہب سکھاتا ہے، دنیا کا بہترین اخلاق ہے۔ وہ تہذیب جو ہمارے مذہب سے پیدا ہوئی ہے، دنیا کی بہترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ہمیں ان سب چیزوں کو قائم رکھنا ہے۔ انھیں اپنے باطن اور ظاہر کی پوری قوت سے اختیار کرنا ہے۔ نہ صرف خود اختیار کرنا ہے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینی ہے۔

لیکن، اس کے ساتھ ہی ہماری کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ ہمیں ان کا احساس پیدا کرنا ہے۔ خود اپنی تاریخ کی روشنی میں اور پھر دوسری قو موںکی مثالوں کے ذریعے، پہلے انھیں سمجھنے اور پھر دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح اپنی اچھائیوں اور بُرائیوں، اپنی صلاحیتوں اور کوتاہیوں ، اپنی قوتوں اور کمزوریوں کو جان کر ہی ہم ان کے بارے میں صحیح رویّہ اختیار کرسکتے ہیں اور اس کی مدد سے اپنے اور دوسروں کے بارے میں صحیح فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دوسروں کی خوبیوں کا احساس و اعتراف بُری بات نہیں ہے، نہ اپنی خامیوں پر مطمئن رہنا کوئی اچھی بات ہے۔ اسی طرح نہ دوسروں کی بُرائیوں کو مرعوبیت کے سبب اچھا سمجھنا کوئی اچھی بات ہے، نہ اپنی خوبیوں کو احساسِ کمتری کے سبب بُرا سمجھنا کوئی اچھی بات ہے۔

دوسرے لفظوں میں ہمیں پہلے اچھائی اور بُرائی کی صحیح تمیز حاصل کرنا ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک ہم چیزوں کو دیکھنے کے لیے صحیح داخلی رویّہ نہ پیدا کریں۔ یہ صحیح داخلی رویّہ احساسِ کمتری اور احساسِ برتری دونوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اس آزادی کے ذریعے ہم اندھی تقلید اور جمود دونوں کمزوریوں پر فتح حاصل کرسکتے ہیں۔ ذہنی غلامی جو کہ ذہن سے تعلق رکھتی ہے،    اس لیے اس سے آزادی بھی ذہن کے ہی ذریعے ممکن ہے، اور ذہن کو بدلنے کے لیے صحیح خیال کی دولت، کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحیح خیال کی دولت، صحیح علم سے پیدا ہوتی ہے اور صحیح عمل کے ذریعے ہم اچھائی بُرائی میں تمیز کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ خود آگاہی کی اس منزل سے گزرنے کے بعد ہمیں  کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنا پڑے گا اور ایک صحت مند قوم کی حیثیت سے اچھائی کو حاصل کرنا اور بُرائی کو ترک کرنا پڑے گا۔

معزز حضرات! آپ کا تعلق علم کے پیشے سے ہے۔ یاد رکھیے یہ صرف آپ ہیں جو صحیح علم کے ذریعے صحیح خیال، صحیح خیال کے ذریعے صحیح داخلی رویّے اور صحیح داخلی رویّے کے ذریعے صحیح عمل، اور صحیح کردار پیدا کرسکتے ہیں۔ نوجوان نسل اب کئی حالتوں میں کچی مٹی کی طرح ہے۔ آپ اسے کچھ بھی بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی آیندہ نسلیں ذہنی غلامی کے اس خطرناک مرض سے آزاد ہوں، جو دورِ غلامی کی ابتدا سے ہمارے وجود کو گھُن کی طرح کھا رہا ہے، تو آپ کو ان نوجوانوں میں دو چیزیں پیدا کرنی اور انھیں ترقی دینی پڑے گی۔

  •  تنقیدی شعور: ایک چیز وہ ہے جسے تنقیدی شعور کہتے ہیں۔ تنقیدی شعور کے ذریعے ہی انسان اپنا اور دوسروں کا احتساب کرتا ہے۔ اپنی اور دوسروں کی اچھائیوں اور بُرائیوں کو سمجھتا ہے اور زندگی کے داخلی اور خارجی انتشار میں اپنے راستے کی تلاش کرتا ہے۔ آپ کو نوجوان نسل میں یہ مادہ پیدا کرنا ہے کہ وہ ہرچمکتی ہوئی چیز کو سونا نہ سمجھیں۔ پروپیگنڈے کے بل پر پھیلائے ہوئے ہرخیال پر ایمان نہ لے آئیں۔ ہر دل کش اور پروان چڑھتی ہوئی چیز کو اپنی راہ نجات نہ سمجھ لیں، بلکہ ہرچیز اور ہرخیال پر سنجیدگی سے نظر ڈالیں۔ اُس پر غوروتامّل کریں اور اُس وقت تک اُسے  قبول نہ کریں، جب تک اُس کی حقیقی قدروقیمت انھیں نہ معلوم ہوجائے۔
  •  تجزیے کی قوت:دوسری چیز جو ذہنی غلامی سے نجات کے لیے ضروری ہے، وہ تجزیے کی قوت ہے۔ ہمارے چاروں طرف وہ جال پھیلے ہوئے ہیں جو ہمیں ذہنی غلامی میں پھنساتے ہیں۔ تجزیے کی قوت کے ذریعے ہم ان جالوں کے ایک ایک پھندے کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے خیالات، اپنے جذبات اور اپنے محسوسات تک کے تجزیے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں کہ ہمارے اندر مرعوبیت، احساسِ کمتری، اندھی تقلید یا خود اطمینانی، احساسِ برتری اور جمود کے رجحانات کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ اپنی ذات کا یہ تجزیہ ہمیں اپنے بارے میں صحیح علم دے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں ہر اُس چیز کا تجزیہ کرنا ہے، جوہم پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کے تجزیے کا مقصد، اس کی صحیح قدروقیمت کو دریافت کرنا ہے۔

یوں داخلی اور خارجی تجزیوں کے ذریعے ہم اپنے ذہن کو آزادی کی تربیت دے سکتے ہیں۔ اکبرالٰہ آبادی مرحوم نے اپنے زمانے میں نوجوان نسل سے کہا تھا کہ: ’’ہوشیار رہ کر پڑھیے۔ اس جال میں نہ آیئے کہ یورپ نے یہ کیا ہے، یورپ نے یہ کہا ہے‘‘۔ آپ کو بھی نوجوان نسل میں ہوشیاری اور چوکناپن پیدا کرنا ہے۔ اس کے بغیر ذہن میں کاہلی اور انفعالیت پیدا ہوتی ہے جو تنقیدی شعور اور قوتِ تجزیہ کی ضد ہے۔ سویا ہوا ذہن آسانی سے شکار ہوتا ہے اور ذہنی غلامی، ذہن کے سو جانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔

  •  مقصد کا تعین:نوجوان نسل کو تنقیدی شعور اور تجزیے کے ذہنی ہتھیاروں سے لیس کرنے کے بعد، ان کے داخلی رویّے کو درست کرنے کے لیے ایک تیسری چیز کی ضرورت ہوگی، جو اُن کے جذبات کا ایک رُخ مقرر کردے۔ جذبات قوی ترین محرکِ عمل ہیں اور شخصیت کی تعمیر میں اہم ترین حصہ لیتے ہیں، مگر یہ بات ذہن میں تازہ رکھیے کہ عام طور پر جذبات میں ایک خرابی ہے۔ اور وہ یہ کہ ان میں پایے داری اور استقلال نہیں۔ وہ ایک بے لنگر کی کشتی کی طرح حرکت کرتے ہیں اور ہوا کے ہرنئے جھونکے کے ساتھ اپنا رُخ بدل لیتے ہیں۔ اس لیے جذبات کو ایک تعمیری رُخ پر ڈالنے کے لیے ایک نئی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قوت مقصدکے ایک گہرے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔

مقصد سے وابستہ ہوکر جذبات پایے دار اور مستحکم ہوجاتے ہیں اور ان کے لیے ایک مستقل سمت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ مقصد جتنا اعلیٰ ہو، شخصیت کی تعمیر بھی اتنی ہی اعلیٰ ہوتی ہے۔ ایک مکمل طور پر آزاد شخصیت، ذہنی آزادی اور مقصد کے تابع جذبات کے اشتراک سے پیدا ہوتی ہے، اور اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ زندگی کے نت نئے بدلتے ہوئے حالات میں اپنی آزادی کو برقرار رکھ سکے۔ چنانچہ ایک اعلیٰ مقصد کا تعین بھی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کی لازمی شرطوں میں سے ایک ہے۔[تنظیم اساتذہ پاکستان کے کُل پاکستان اجتماع میں خطبہ]

کسی بھی نظریاتی مملکت میں تعلیم کا مقصد ایسے افراد پیدا کرنا ہوتا ہے، جو اس کے نظریے پر پختہ یقین رکھتے ہوں اور اپنی زندگیوں کو اس نظریے کے مطابق ڈھال سکیں۔ پاکستان ان معنوں میں ایک نظریاتی مملکت ہے کہ اس کی بنیاد اسلام پر ہے، اور یہ [عصرِحاضر] میں اسلام کو زندگی کے ہرشعبے میں نافذ کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔ اس لیے پاکستان میں تعلیم کا مقصد     ایسے افراد پیدا کرنا ہے، جو اسلام پر مکمل یقین رکھتے ہوں اور اسلام کے مطابق زندگی بسر کرسکیں، یعنی پکّے اور سچے مسلمان ہوں۔

بظاہر یہ ایک سیدھی سادی اور منطقی بات ہے، جس میں کوئی پیچیدگی یا اُلجھائو نظر نہیں آتا۔ لیکن جب ہم اس بات پر عملی نقطۂ نظر سے غور کرتے ہیں تو بہت سے سوالات پیدا ہونے لگتے ہیں، جن پر غور کیے بغیر اور ان کا کوئی تشفی بخش جواب سوچے بغیر، ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ایک سوال یہ ہے کہ ہم جب اسلام کو عہد ِ جدید کے تقاضوں سے مشروط کرتے ہیں تو   اس سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا [اکیسویں] صدی عیسوی میں مسلمان ہونا، پندرھویں صدی ہجری میں مسلمان ہونے سے مختلف بات ہے؟ دوسرے لفظوں میں ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو [عصرِحاضر] سے تعلق رکھتی ہیں، اور وہ کیا چیزیں ہیں، جو اسلام سے تعلق رکھتی ہیں اور پھر لمحۂ موجود میں ان کا اشتراک کیامعنی رکھتا ہے؟

ہمارے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ظہورِ اسلام سے اب تک ہماری معاشرت بہت کچھ بدلتی رہی ہے۔ اسلام عرب کے قبائلی نظام میں پیدا ہوا تھا اور اپنی تاریخ کے مختلف اَدوار میں متعدد معاشروں سے دوچار ہوا۔ ان کے اعتبار سے عرب،عجم، ہندستان،وسطی ایشیا، افریقہ وغیرہ میں مسلمانوں نے کم از کم ظاہری طور پر مختلف شکلیں اختیار کیں۔ اب ان سب ملکوں کی معاشرت میں واضح اور نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام ان تبدیلیوں کے بارے میں کیا رویّہ رکھتا ہے؟شاید یہ سوال ایک مثال سے زیادہ واضح ہوسکے۔

عہدِ جدید سے پہلے پردے کی مختلف شکلیں مسلمان ملکوں اور معاشروں میں رائج تھیں۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں میں بھی اس کی ایک مخصوص شکل تھی۔ ہندستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد جب عورتوں میں بے پردگی پھیلی، تو پورے معاشرے میں بڑی بے چینی پیدا ہوئی اور عورتوں کے پردے سے باہر نکلنے کو خلافِ اسلام قرار دیا گیا۔ اس کے مقابلے پر جو جدیدیت پسند لوگ بے پردگی کے حامی تھے، انھوں نے ایسے دلائل دینے شروع کیے کہ: ’’برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں میں جو پردہ رائج تھا وہ تو غیراسلامی تھا اور اس کے مقابلے پر موجودہ بے پردگی ہی اسلامی ہے‘‘۔ یہ بحثیں کچھ عرصے تک زوروشور سے جاری رہیں، لیکن اس کے بعد بے پردگی کے رجحان نے قوت پکڑلی اور معاشرے میں دو طبقات وجود میں آگئے۔ ایک طبقہ اُن لوگوں کا، جو اَب بھی عورتوں کو پردہ کراتے ہیں۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا، جن کی عورتیں پردہ نہیں کرتیں۔

تاہم، پردہ کرنے والوں میں بھی اب وہ سختی باقی نہیں رہی اور ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا [بقاے باہم کا] نظام وجود میں آیا کہ ماں برقعہ اُوڑھ کر باہر نکلتی ہے تو بیٹی بے پردہ ساتھ ہوتی ہے۔  بہ ظاہر حالات جوں جوں تبدیل ہوتے جارہے ہیں بے پردگی کا رجحان زیادہ تقویت پکڑتا جارہا ہے۔ اب عملاً تو یہ بے عملی موجود ہے، لیکن نظریاتی طور پر یہ بات کھل کر طے نہیں ہوسکی کہ دونوں طبقات میں کس طبقے کا عمل اسلام کے مطابق ہے اور کس کا اسلام کے خلاف؟ کم از کم اسلام کے مستند شارحین اس مسئلے پر ویسی بات نہیں کرتے جیسی پہلے کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پچھلے مقتدر نقطۂ نظر کی جگہ ایک خاموش قسم کے سمجھوتے نے لے لی ہے، اور زبان سے صاف طور پر قبولے بغیر بے پردگی کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔

یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعے بہت سے دوسرے مسائل کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ عورتوں ہی سے متعلق ایک دوسرا سوال مخلوط تعلیم کا ہے۔ آپ ان مثالوں کو پیش نظر رکھیں تو آپ کو بہت سے ایسے مسائل نظر آئیں گے، جن میں اسلام کا وہ نقطۂ نظر جو اِن تبدیلیوںکے آغاز میں اختیار کیا گیا تھا، عہدِ حاضر کے رویوں سے متصادم نظر آئے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں اسلام کا نفاذ [پہلے والے] نقطۂ نظر کے مطابق ہوگا، یا اس میں ان جدید رویوں کو قبول کرلیا جائے گا، جو خواہ کسی زمانے میں اسلامی نہ سمجھے گئے ہوں، مگر موجودہ زمانے میں کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں قبول یا رائج ہوگئے ہیں؟

اُوپر دی ہوئی وضاحت کی روشنی میں یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے کی طرح ہمارا معاشرہ بھی آئے روز نت نئی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اس جبر و اختیار کی فضا میں: اسلامی نقطۂ نظر سے ہمارا رویّہ کیا ہونا چاہیے؟ ہمیں ان تبدیلیوں کو قبول کرنا چاہیے یا انھیں رد کرنا چاہیے؟ اگر قبول کرنا چاہیے تو اسلام میں اس کا اصول کیا ہے؟ اگر رد کرنا چاہیے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمیں ویسا رہنا چاہیے جیسے ہم عہدِ حاضر کے آغاز سے پہلے تھے، اور کیا یہ ممکن ہے؟

جہاں تک دین و مذہب کے مستند نمایندوں کا تعلق ہے، ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ انھوں نے ابتدا میں معاشرے میں رُونما ہونے والے ہر چھوٹے بڑے تغیر کی مخالفت کی۔ بالوں کی وضع قطع، لباس، داڑھی کی مقدار، پردہ ، تصویریں کھنچوانا، مسجدوں میں لائوڈ اسپیکر کا استعمال تک ایسے ہی   بے شمار مسائل پر اختلاف موجود تھا کہ یہ اسلامی ہیں یا غیراسلامی؟ یہاں تک کہ خود جدید تعلیم کا مسئلہ بھی ایک اختلافی مسئلہ تھا۔ بعد میں حالات کی تبدیلی کے ساتھ خاموشی اور پھر رفتہ رفتہ سمجھوتے کا رویہ اختیار کیا گیا۔

اعتراض یہ نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اعتراض یہ ہے کہ عملاً اگر کچھ چیزیں ابتدائی مخالفت کے بعد اختیارکرلی گئیں تو اس اصول کو واضح کیوں نہیں کیا گیاکہ جن کے تحت تبدیلیوں کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ دین کے شارحین اور علماے کرام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بنیادی سوال کی وضاحت کریں کہ معاشرتی تبدیلیوں کے بارے میں اسلام کا رویّہ کیا ہے؟ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک گروہ جو مذہب سے بھی کچھ شغف رکھتا ہے ’اجتہاد‘ کے اصول پر زور دیتا ہے۔ لیکن جیساکہ ہم سب جانتے ہیں، ہمارے یہاں ایسے مذہبی مکاتب ِ فکر موجود ہیں، جو ’اجتہاد‘ کے بجاے تقلید کے قائل ہیں۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان بطور ایک نظریاتی مملکت کے ’اجتہاد‘ کو اپنا اصول بنائے گا یا تقلید کو؟ اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ اجتہاد کا حق کسے حاصل ہوگا؟ اب تک صورتِ حال یہ رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے انفرادی طو ر پرجو ’اجتہاد‘ کرنا چاہا ہے، علما اور معاشرے کی اکثریت نے اسے رد کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ’ اجتہاد‘ اگر ہماری ضرورت ہے تو اس کے لیے باقاعدہ ایک ادارے کی ضرورت ہوگی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ ادارہ کس قسم کے لوگوں پر مشتمل ہوگا؟ اگر اس کی باگ ڈور علما کے ہاتھ میں ہوگی تو کیا ان میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو تقلید سے ایک انچ بھی ہٹنے کے لیے تیار نہیں؟ اگر نہیں تو پھرکیا علما کے تعاون کے بغیر کوئی ’اجتہاد‘ مستند سمجھا جاسکے گا؟

یہ سوال بظاہر تعلیم کے مسئلے سے غیرمتعلق معلوم ہوتے ہیں، لیکن ذرا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو تعلیم کے مسئلے سے ان کا براہِ راست تعلق ہے۔ تعلیم کا مقصد اگر سچے اور پکّے مسلمان تیار کرنا ہے، تو ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ ایک سچے اور پکّے مسلمان کا ہمارے ذہن میں کیا تصور ہے؟ یعنی وہ ظاہر اور باطن میں کیسا ہوگا؟ اکبر الہ آبادی [م:۱۵فروری ۱۹۲۱ئ]کے الفاظ میں ہم اسے ’مسٹر‘ دیکھنا پسند کریں گے یا ’مولانا‘، یا دونوں کی کوئی ملی جلی شکل؟

ہم نے معاشرتی تبدیلیوں کے حوالے سے جو سوال اُٹھائے ہیں، اب تعلیم سے اُن کے تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا جواب پردے کے بارے میں یہ ہے کہ پردہ ہونا چاہیے تو تعلیم پر اس کے مختلف اثرات نمایاں ہوں گے۔ سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوگا کہ عورتوں کو کس قسم کی تعلیم دی جائے؟ جو نقطۂ نظر پردے کے حق میں ہے، وہ عورتوں کے مخصوص سماجی کردار کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک عورت: ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے خاتونِ خانہ ہے، لیکن معاشرے میں اس کا گھر سے باہر کوئی کردار نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نقطۂ نظر سے عورتوں کو ایسی تعلیم نہیں دی جائے گی، جس سے وہ ملازمتوں یا دوسرے پیشوں میں، جہاں مردوں سے اُن کے آزادانہ ربط ضبط کے مواقع ہوں داخل ہوسکیں۔

اسی طرح مردوں کے بارے میں یہ سوال اُٹھایا جائے گا کہ ان کی تعلیم میں سیرت و کردار کی تعمیر کو اوّلین اہمیت دی جائے یا پیشہ ورانہ ہنرمندی کو، یا دونوں کو۔ کچھ عرصہ پہلے جھوٹی گواہی کے مسئلے پر اسلامی نقطۂ نظر سے سفارشات کی گئی ہیں۔ ہمارے خیال میں ایسا ہی مسئلہ خود وکالت کے پیشے کے سلسلے میں بھی پیدا ہوتا ہے۔ وکالت بطور پیشے کے، جھوٹے مقدمات سے دامن نہیں چھڑا سکتی۔ اب پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا عدالت کا کوئی ایسا نظام پیدا کرنا ہوگا، جس میں وکیل کی ضرورت نہ پڑے یا وکیلوں میں خود ایسی ماہیت ِ قلب کرنی پڑے گی کہ وہ جھوٹے مقدمات کی پیروی نہ کریں؟ اگر ہمارا جواب یہ ہو کہ اسلامی معاشرے میں پیشہ ور وکیل کی ضرورت نہیں ہوگی، تو نظامِ تعلیم میں اس کے مطابق ردّ و بدل کرنا پڑے گا۔ ایک طرف ضروری ہوگا کہ وکالت کی مخصوص تعلیم ختم کردی جائے۔ دوسری طرف اس کے بدل کے طور پر ہر طالب ِ علم کو اتنا قانون سکھاناپڑے گا کہ وہ وقت ِ ضرورت اپنے مقدمے کی پیروی خود کرسکے۔

معاشرتی تبدیلیوں کے بارے میں ایک زیادہ گہری بات یہ ہے ،کہ وہ ذہنی تبدیلیوں کا نتیجہ یا سبب بنتی ہیں۔ ذہنی تبدیلی میں خیال، جذبہ اور احساس سب کی تبدیلی شامل ہے۔ ایک ایسا فرد جو بچپن سے مذہبی ماحول میں رہا ہو، ایک ایسے فرد سے مختلف ہوتا ہے ، جو طبعاً آزادانہ ماحول کا تربیت یافتہ ہو۔ اس کی مثالیں آپ عورتوں اور مردوں میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایک لڑکی جو پردے میں رہی ہو اور روایتی مشرقی ماحول میں پروان چڑھی ہو، وہ جدید تعلیم و تربیت کے گہوارے میں پلی بڑھی لڑکیوں سے اپنے پورے طرزِ احساس میں مختلف ہوتی ہے اور قطعی مختلف قسم کے معاشرتی رویّے کا اظہار کرتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں کس قسم کے معاشرتی رویوں کو پروان چڑھائیں گے اور تعلیم و تربیت کے ذریعے ان میں سے کون سے رویے کی حوصلہ افزائی کریں گے ؟

ذہنی تبدیلیوں کے سلسلے میں دوسرا اہم سوال خالص نصابی نوعیت رکھتا ہے۔ ایک نوجوان، جس کو تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ انسان کے دینی عقائد کی تعلیم دی گئی ہے، وہ اس نوجوان سے مختلف ذہنیت رکھتا ہے جو مثال کے طور پر ڈارون [م:۱۹؍اپریل ۱۸۸۲ئ]کے نظریۂ ارتقا پر یقین رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے نصاب میں ان نظریات اور خیالوں کو شامل کریں گے یا نہیں جو دین کی عام تعلیم سے لگّا نہیں کھاتے؟ یہ نظریہ کہ انسان آدم کی اولاد ہے اور یہ نظریہ کہ انسان بندر سے بنا ہے؟ ہم اپنے بچوں کو دونوں طرح کی باتیں بغیر کسی ترجیح کے سکھاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ان کی شخصیت میں تضاد، ثنویت اور کش مکش پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں بہرحال یہ طے کرنا پڑے گا کہ ایسے علوم جو اسلام سے مختلف تصورات پر قائم ہیں۔ ان کے بارے میں ہمارا رویّہ کیا ہو؟ ایسے علوم پڑھانے سے کیا ہم گریز کریں گے یا ان کے نظریات سکھانے کے باوجود ان کے بارے میں ایک تنقیدی نقطۂ نظر کو پیدا کرنے پر زور دیں گے؟ جن نظریات سے اسلامی سیرت و کردار کی تعلیم پر گہرا اثر پڑسکتا ہے، ان میں بعض نفسیاتی نظریے بھی شامل ہیں۔ ایک طالب علم جو لاشعوری محرکات کے نفسیاتی نظریات سے اثر قبول کرتا ہے، وہ سیرت و کردار کی شعوری تعمیر کے نصب العین سے     ہم آہنگی محسوس نہیں کرتا۔ ہمیں اپنی تعلیم میں اس بات کو طے کرنا پڑے گا کہ ہم اپنے بچوں کو ایسے نظریات پڑھائیں یا نہ پڑھائیں؟ اگر ہمارا فیصلہ یہ ہو کہ ایسے نظریات کی تعلیم دینا مناسب نہ ہوگا، تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو کس کس علم کی تعلیم نہ دیں؟ دیں تو کس حد تک ، اور اس کے بارے میں ہمارا مجموعی رویّہ کیا ہو؟

ہمارے پُرانے نظامِ تعلیم میں جو فکروعمل کی یک جائی پائی جاتی تھی، اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اس نظام کا بنیادی پتھر مذہب تھا۔ اس کے نصاب میں جو کچھ سکھایا جاتا تھا، وہ مذہب کی روشنی میں سکھایا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کے ہر شعبے کی تشریح و تفسیر، مذہبی نقطۂ نظر ہی سے کی جاتی تھی، اور اگر ایسے علوم کی تعلیم دی بھی جاتی تھی جو مذہب سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتے تھے، تو اُن میں مذہبی نقطۂ نظر شامل کر دیا جاتا تھا۔مثال کے طور پر فلسفۂ یونان کی تعلیم تو دی جاتی تھی،  مگر اس کی خالص شکل میں نہیں، بلکہ اُس کے اس جواب کی شکل میں جو مسلمانوں میں ’علم الکلام‘ کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ اس لیے ایک مسلمان طالب علم، فلسفۂ یونان کے مسائل کو کلامی استدلال کی روشنی میں پڑھتا تھا۔ اب اگر اس اصول کو ہم نئے علوم پر منطبق کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمیں سب سے پہلے مذہب کی روشنی میں ان علوم کا جواب پیش کرنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنے بچوں کو ان علوم کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر کی تعلیم دے سکیں گے۔

جذباتی باتوں کا تو خیر معاملہ ہی اور ہے، لیکن جو لوگ ٹھوس بنیادوں پر اسلام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے کہ موجودہ زمانہ غالب طور پر ایک  مخالف ِ مذہب زمانہ ہے۔ جدید سائنسی اور معاشرتی علوم اپنی بنیاد میں اگر مذہب دشمن نہیں تو کم از کم غیرمذہبی یا سیکولر ضرور ہیں۔ طبیعیات [Physics] میں ہم پہلا اصول کچھ اس طرح پڑھتے ہیں کہ: ’’’مادّہ‘ [matter] کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے، نہ ختم کیا جاسکتا ہے‘‘۔ دوسری طرف مذہب میں ہمیں تعلیم دی جاتی ہے کہ: ’’ہرچیز کا پیدا اور ختم کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔ بالکل اسی طرح نفسیات، بشریات، حیاتیات اور دیگر علوم میں ہمیں بہت سی ایسی باتیں پڑھائی جاتی ہیں، جو مذہبی نقطۂ نظر کے بجاے ایک غیرمذہبی نقطۂ نظر کے حق میں زیادہ جاتی ہیں۔ پاکستان میں اگر تعلیم کا مقصد سچّے اور پکّے مسلمان پیدا کرنا ہے تو ہمیں یا تو ان علوم کی تعلیم بند کرنی پڑے گی یا پھر ان کے مقابلے پر اسلامی علوم پیدا کرنے ہوں گے۔

ہم اگر اسلام کو علوم کی بنیاد بنانا چاہیں گے، تو ہمیں غیرمذہبی یا سیکولر طبیعیات کے مقابلے پر اسلامی طبیعیات، غیرمذہبی یا سیکولر حیاتیات کے مقابلے پر ایک اسلامی حیاتیات، اور اسی طرح درجہ بہ درجہ دیگر اسلامی علوم پیدا کرنے یا پروان چڑھانے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ سرسیّد احمد خاں [م: ۲۷مارچ ۱۸۹۸ئ] کے زمانے میں کچھ حالات ایسے پیدا ہوگئے تھے، جو نوجوانوں کو مذہب سے دُور لے جارہے تھے، مثلاً: فلکیات کا نیا علم بظاہر ان عقائد سے متصادم تھا، جو اس وقت ہمارے معاشرے میں رائج تھے۔ زمین کے گول ہونے اور حرکت کرنے کا نظریہ، مادے کے خواص میں تبدیل نہ ہونے کا نظریہ، یہ سب نئے نئے مشہور ہوئے تھے اور یہاں تعلیمی دنیا میں مروجہ تصورات سے متصادم تھے۔

سرسیّد احمد کو ان نظریات کی روشنی میں اسلامی عقائد کی ایک ایسی تاویل پیش کرنی پڑی، جس نے پورے معاشرے میں کہرام برپا کردیا۔ مذہبی حلقوں کی طرف سے سرسیّد کی تکفیر کی گئی اور عوام میں اُن کو ’نیچری‘ قرار دیا گیا۔ اکثر حلقوں میں ان پر اب بھی یہ اعتراض ہوتا ہے کہ :’’انھوں نے اسلامی عقائد میں جدید سائنس کا پیوند لگایا‘‘۔ یہ بات اگر بُری تھی تو ہمیں اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ سائنس سے تصادم کی صورت میں ان عقائد کے بارے میں کیا رویّہ اختیار کیا جائے، جو اَب جدید ذہن کو کسی طرح قابلِ قبول نہیں معلوم ہوتے؟ جواب شاید یہ ہے کہ سوال کو ذہن میں آنے ہی نہ دیا جائے، لیکن یہ رویّہ چند در چند خطرات سے خالی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر یا تو آپ ایک ایسا ذہن پیدا کریں گے جو جدید ماحول اور اس کے تقاضوں سے یکسر بے خبر ایک جامد ذہن ہوگا، یا پھر طالب علموں میں خودبخود ایک ناگزیر منافقت کا رویّہ پیدا ہوجائے گا۔ ایسے طالب علم اجتماعی طور پر آپ کے سامنے تو سرتسلیم خم کے رویّے کا اظہار کریں گے، مگر شخصی اور انفرادی طور پر اس پر یقین نہ کریں گے، بلکہ شاید تنفّر اور حقارت کا رویہ اختیار کریں گے۔

ہماری دانست میں یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ایک طرف تو یہ بات بالکل واضح طور پر سرکاری پالیسی کی بنیاد ہو کہ: اسلام کی وہ کون سی چیزیں ہیں جو جزوِ دین ہیں؟ اور کون سی چیزیں ہیں جو صرف ماحول اور زمانے کے اثر سے کسی خاص وقت میں اسلامی سمجھ لی گئی ہیں؟ جب کہ موجودہ زمانے میں اُن کی validity[اعتبار، صحت] باقی نہیں رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ان مسائل سے دوچار ہوکر مسلمان ائمہ فکر نے جو کچھ سوچا ہے، اس میں کتنا حصہ  ہمارے لیے قابلِ قبول ہے اور کتنا حصہ نظرثانی کا محتاج ہے۔کچھ عرصہ پہلے پروفیسر کرّار حسین [م:۷نومبر ۱۹۹۹ئ]اور محمد حسن عسکری [م:۱۸ جنوری ۱۹۷۸ئ] نے مولانا اشرف علی تھانوی [م:۴جولائی ۱۹۴۳ئ]کے ایک رسالے کا انگریزی ترجمہ شائع کیا تھا، جس میں مولانا تھانویؒ نے جدید ذہن کے مسائل کی روشنی میں مذہبی نقطۂ نظر سے بعض اصولوں کی تشریح کی ہے۔ یہ کام ابتدائی نوعیت کا ہے اس لیے موجودہ حالات میں زیادہ کارگر اور مؤثر معلوم نہیں ہوتا۔ بہرحال اصولی طور پر ہمیں ایسے کام کی شدید ضرورت ہوگی اور وہ بھی بڑے پیمانے پر جدید ذہن کے اشکالات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر اسلامی عقائد کی قابلِ فہم اور دل لگتی تشریحات کے بغیر ہم اپنے نظامِ تعلیم کو ایک قدم بھی آگے نہ لے جا پائیں گے۔

پاکستان کو اگر نظریاتی مملکت کی حیثیت سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنا ہے، تو اسے اوّلین اہمیت اسی کام کو دینا پڑے گی اور اپنے پورے وسائل کے ساتھ ایسے ادارے قائم کرنے پڑیں گے، جو ایک طرف ایسے لوگوں پر مشتمل ہوں جو دینِ اسلام کا صحیح اور مستند علم رکھتے ہوں، اور دوسری طرف ایسے لوگوں پر مبنی ہوں جو جدید ذہن کے مسائل کو سمجھتے ہوں۔ ان دونوں کے اشتراک سے اسلام کی ایسی تشریح کی جاسکے گی، جو جدید ضروریات کے مطابق مذہب کو نئے ذہن کے لیے نئی زبان اور نئے طریق استدلال کے ساتھ ہم آہنگ کرسکے۔یہ کام جتنا زیادہ گہرا اور وسیع ہوگا، اتنی ہی آسانی سے ہمارے نظامِ تعلیم کی بنیاد بن سکے گا۔