نتالی الکوبا


ہزاروں لوگوں نے ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرز میں مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ ’’عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) سے قرض پر نظرثانی کے معاہدے پر دستخط نہ کرے‘‘۔ مظاہرین کا ازدحام بیونس آئرز میں اُمڈا چلا آرہا تھا۔ انھوں نے پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے، جن پر درج تھا: ’’آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات بند کرو‘‘ اور ملک کی سماجی تنظیموں کے رنگ برنگے بینر چلچلاتی دھوپ میں لہرا رہے تھے، جب کہ آئی ایم ایف کے خلاف لاؤڈ اسپیکر پر نعرے بلند ہورہے تھے۔ ’آرگنائزیشن لبرس ڈل پیوبولو‘ ایک اتحاد ہے، جس نے یہ احتجاجی ریلی منعقد کی تھی، اس کے رہنما کارلوس ازنیریز نے کہا: ’’لوگ بہت سی چیزوں سے باخبر نہیں ہیں، لیکن وہ اس بات سے ضرور باخبر ہیں کہ آئی ایم ایف نے اس ملک میں ہمارے لیے ہمیشہ تکالیف میں اضافہ اور دوسروں پر انحصارمیں اضافہ ہی کیا ہے۔ ہم لوگ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اس معاہدے پر دستخط کیے تو پھر ہمیں تباہی کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔

ارجنٹائن کی حکومت، آئی ایم ایف کے ساتھ ۴۴؍ارب ڈالر کے معاہدے پر نظرثانی کے لیے مذاکرات کررہی ہے۔ ۲۰۱۸ء میں یہ قرض لیا گیا تھا، جب مارسیو میکری صدر تھے اور انھوں نے ۵۷؍ارب ڈالر کے قرض کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، جو آئی ایم ایف کی تاریخ میں سب سے بڑا قرض تھا۔ ۴۴؍ارب ڈالر کی ادائیگی کردی گئی ہے، لیکن صدر البرٹو فریننڈس، جنھوں نے ۲۰۲۰ء میں صدارت سنبھالی، مزید ادائیگی سے انکار کر دیا اور قرض کی ادائیگی کے لیے اَزسرنو معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حالیہ معاہدے کے تحت ۱۹؍ارب ڈالر اگلے دوبرس ۲۰۲۲ء اور ۲۰۲۳ء میں ادا کرنا ہوں گے۔ لیکن جب بڑھتی ہوئی کساد بازاری ہو، افراطِ زر آسمان سے باتیں کر رہا ہو اور غربت میں اضافہ ہورہا ہو، تو حکومت کے لیے اس قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہوگی۔

احتجاج کرتی سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’’اس قرض کی ادائیگی کے لیے حکومت کو سخت اقدامات اُٹھانا ہوں گے، جس کے نتیجے میں ارجنٹائن کے ایک عام شہری کی زندگی محال ہوجائے گی‘‘۔ انھیں خدشہ ہے کہ ’’اس کے نتیجے میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا، شرح سود بڑھ جائے گی، عوامی خدمات کے منصوبوں میں کمی واقع ہوجائے گی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی اور پنشن اور دیگر سماجی خدمات میں کمی ہوجائے گی‘‘۔

ایسے اقدامات کا ارجنٹائن کے عوام پہلے بھی سامنا کرچکے ہیں، جب ۲۰۱۸ء میں حکومت نے قرض کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف کا تجویز کردہ منصوبہ نافذ کرتے ہوئے عوامی خدمات کے پروگراموں پر کٹوتی کی تھی۔

یہ وہ کردار ہے جو آئی ایم ایف نے ۲۰۰۱ء کی معاشی سردبازاری کے دوران نمایاں طور پر ادا کیا اور جس نے ارجنٹائن کے عوام کے اشتعال میں اضافہ کیا۔اس زمانے میں حکومت نے کرنسی کی قدر میں کمی کردی تھی، اور ۹۳؍ارب ڈالر قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ڈیفالٹ ہونے پر بنکوں سے ادائیگی پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافے اور غربت کا آسمان کو چھونے کی بنا پر بڑے پیمانے پر سماجی بے اطمینانی پھیل گئی تھی۔

البرٹو فریننڈس جس نے گذشتہ ماہ مڈٹرم انتخابات میں سیاسی حمایت کھو دی تھی، ایک طرف بلندبانگ دعوے کر رہا ہے کہ ’’ارجنٹائن، آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا‘‘، اور دوسری طرف قرض اُتارنے کا وعدہ بھی کر رہا ہے۔ اس کی جماعت کے ایک مؤثر گروپ نے طاقت وَر نائب صدر کرسٹینا فریننڈس کی سرکردگی میں عوامی خدمات کے منصوبوں کی کٹوتی کی مخالفت کی۔ یومِ جمہوریت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کرسٹینا فریننڈس نے صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملک پر پابندیاں عائد کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور ملک کے پاس ڈالروں کی بھی کمی ہے۔ درحقیقت ملک میں ڈالروں کی کمی نہیں ہے، بلکہ وہ زیادہ ڈالروں کے حصول کے لیے بیرونِ ملک منتقل کیے گئے ہیں۔ یہ وعدہ کرو کہ ہر وہ ڈالر جو ٹیکس ادا کیے بغیر باہر لے جایا گیا ہے واپس لیا جائے گا۔اسے مذاکرات کی بنیاد بنایا جائے‘‘۔ صدر البرٹو نے کرسٹینا فریننڈس سے کہا کہ ’’اطمینان رکھیں ہم کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے، جس سے ارجنٹائن کی ترقی متاثر ہو‘‘۔

اسی روز آئی ایم ایف نے واشنگٹن میں مذاکرات کے آخری دور کے اختتام پر ایک بیان جاری کیا کہ ’’مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، مزید مذاکرات کی ضرورت ہے‘‘۔بیان کے مطابق: ’’معاشی پروگرام کی کامیابی کے لیے اندرونِ ملک اور عالمی تائید کی ضرورت ہے۔ لیکن ارجنٹائن سے اس تائید کا حصول مشکل ہے جو کئی مرتبہ بیرونی قرض کی ادائیگی کے لیے ڈیفالٹ کرچکا ہے اور آئی ایم ایف سے مدد کا طلب گار ہے‘‘۔

ایک ماہر اقتصادیات مارٹن کولس نے بتایا کہ ’’عوام کی ایک بڑی تعداد کو آئی ایم ایف پر بھروسانہیں ہے۔ ارجنٹائن کی پالیسیوں پر آئی ایم ایف کا دبائو بہت دفعہ واضح ہوچکا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں مالی بحران کے موقعے پر جس طرح سے واضح طور پر آئی ایم ایف نے معاشی پروگرام دیا تھا، اس بنا پر آئی ایم ایف اور حکومتی اہل کاروں نے اعتراف کیا ہے کہ ’’ارجنٹائن، آئی ایم ایف کا بہترین شاگرد ہے‘‘۔ ایک حقیقت شناس دانش وَر نے کہا ہے: ’’یہ پالیسیاں بحران میں کبھی کمی اور بہتری کا باعث نہیں بنیں بلکہ اکثر اوقات یہ معاونت کے بجائے مزید بحران میں مبتلا کرنے کا باعث بنی ہیں‘‘۔

مارٹن کولس نے کہا کہ ’’آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ کرنے کی صورت میں مالی بحران سے نکلنے کے لیے ارجنٹائن کو جس مالی امداد کی ضرورت ہے اس کے حصول کے لیے بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف نہ تو اس غرض کے لیے بنایا گیا ہے اور نہ وہ اس میں دلچسپی رکھتا ہے کہ ارجنٹائن کے نہ ختم ہونے والے مالی بحران کے بنیادی اسباب کا جائزہ لے۔ درحقیقت مسئلہ مالیات کا نہیں ہے بلکہ ملکی معیشت میں بڑے پیمانے پر پیداواری شعبے میں کمی کا ہے۔ ارجنٹائن کو پیداوار میں اضافے کے لیے نئے پیداواری یونٹس قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اسی سے وہ اپنی پیداوار میں اضافہ کرسکے گا‘‘۔

بیونس آئرز میں احتجاج کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’’اس بات کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ کیا حکومت کو آئی ایم ایف کو قرض واپس کرنا چاہیے؟‘‘ ان کا مطالبہ ہے کہ یہ مسئلہ ریفرنڈم کی صورت میں عوام کے سامنے رکھا جائے۔ حکومت کو قرض کی ادائیگی فوری طور پر روک دینی چاہیے تاکہ وہ عوام کی مدد کرسکے جن کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو بمشکل ماہانہ اخراجات پورے کرپاتے ہیں جنھیں اپنے خاندان کے لیے محض سوپ کی تیاری تک کے لیے بھی لوگوں سے مدد حاصل کرنا پڑتی ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ’’قیمتیں گذشتہ ایک سال میں ۵۲ فی صد بڑھ چکی ہیں۔ آبادی کا ۴۰ فی صد سے زائد حصہ ِ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور لوگوں کے پاس کھانے کے لیے خوراک نہیں ہے‘‘۔ ریلی سے ملحق پارک میں پاؤلا اویلس نے کہا کہ ’’ہم اپنی آمدن سے بہ مشکل گزر بسر کر رہے ہیں۔ اسی طرح حکومت کی طرف سے سماجی معاونت کے کام اور سہولیات آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں خطرے میں پڑسکتی ہیں‘‘۔

آئی ایم ایف کے پروگرام سے وابستگی اختیار کرکے ترقی کا راستہ اختیار کرنا اور اپنے عوام کو معاشی غلامی سے رہائی دلانا، ایک موہوم خواب ہے!