ہمارے اکثر دکھوں،پریشانیوں اور شکایتوں کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کی نظروں میں اچھا بننا یا سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش خصوصاً اس وقت مری نہیں، جب ہم اپنی اخلاقی خوبیوں، مثلاً دوسروں کا حال احوال دریافت کرکے، دوسروں کی مدد کرکے اور ان کی مشکلات میں معاونت کرکے، ان کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانا چاہیں۔ تاہم، یہ خواہش اس وقت ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے، جب ہم اپنی دولت، اپنے اسٹیٹس اور اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کے بیان کرتے، یا اپنی کار اور کوٹھی سے دوسروں کو مرعوب کرنے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ اسی چیز سے دکھاوے اور نمود و نمایش کا مرض پیدا ہوتا ہے، جو آج ہمارے معاشرے میں عام ہے۔
ایک مثا ل پر غور کیجیے: ایک متوسط اور نچلے متوسّط طبقے کا فرد بھی جب اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کرتا ہے تو استطاعت نہ ہونے کے باوجود وہ ادھر اُدھر سے قرض لے کر ، یا سامان بیچ کر، محض اس لیے تین چار سو مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام کرتاہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو عزیز و رشتہ دار کیا کہیں گے؟ کچھ یہی معاملہ اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے کا ہے کہ جو شادی بیاہ کی تقریبات میں محض دکھاوے کے لیے کئی کئی ڈشیں کھانے پہ رکھتا ہے۔ اسی طرح بارات اور ولیمے کے علاوہ مہندی، مایوں وغیرہ کی غیر ضروری رسومات پہ روپے پیسے کو پانی کی طرح بہادیا جاتاہے۔ یہ فضول خرچی محض اس لیے کی جاتی ہے کہ سوسائٹی میں اپنی ناک اونچی ہو۔ عزیزو رشتہ دار کہیں کہ واہ کیا مہندی کی تقریب تھی! دلہن کے ملبوسات اور میک اپ پر ہر گھرانہ ہزاروں روپے لٹا دیتا ہے اور اب تو دلہن کے ساتھ ساتھ دولہا میاں کو بھی کوئی مہنگا بیوٹیشن میک اپ کرکے تقریب میں شرکت کے قابل بناتا ہے۔ گویا ایک بیٹے یا بیٹی کی شادی ہی میں اتنے اخراجات اُٹھ جاتے ہیں کہ عام آدمی کی کمر بوجھ سے جھک جاتی ہے۔
ان ساری پریشانیوں کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم دکھاوے اور نام و نمود کی فرسودہ ، تکلیف دہ سماجی روایات کی ڈور سے بندھ گئے ہیں اور بعض صورتوں میںا ن سے متفق نہ ہونے کے باوجود روایات کی ان زنجیروں کو توڑنے کی اپنے اندر ہمّت نہیں پاتے کہ ’’دنیا کیا کہے گی؟‘‘
ہم میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ کہہ دیں:’’دنیا جو کہے میری بلاسے‘‘ اور پھر اپنی استطاعت کے مطابق سادگی سے یہ ضروری فریضہ انجام دیں۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ محض لوگوں کے کہنے سننے کے خوف سے ہم خود کو مقروض بنالیں۔
اس دکھاوے اور نمود و نمایش نے ہمارے اخلاقی معیارات کو اتنا کھوکھلا اور مضحکہ خیز بنادیا ہے کہ اب شرافت ، کردار، تعلیم اور صحت جیسی خوبیوں پر دولت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دولت ہی خوبی کا واحد معیار بن کر رہ گیا ہے۔ یہ معیار اتنی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اگر اسکول اچھا ہو، فیس معقول ہو، اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ، تب بھی ہم ایسے اسکول میں بچّوں کو نہیں پڑھاتے جس کی شہرت اونچے اسکول کی نہ ہو۔ پڑھاتے ایسے اسکول میں ہیں جس کی فیس مہنگی ہو اور جس کا نام اور شہرت ایسی ہو کہ لوگ سن کر کہیں کہ: ’’اچھا، آپ کا بچّہ فلاں اسکول میںپڑھتا ہے ‘‘۔ ایسے مشہور اسکولوں کا حال یہ ہے کہ ہوش رہا فیس دینے اور ٹرانسپورٹ کا خرچ برداشت کرنے کے باوجود بچّے کو پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانا پڑتی ہے۔ سربلند کرنے کے سماجی مرتبے کے علاوہ اگلے درجوں میں تعلیم اور کیریئر بنانے میں مددگارو معاون بننے کی بھی اُمید ہوتی ہے۔ ہم ایسی ہی ’اونچی دکان‘سے ’پھیکا پکوان‘ خریدنا پسند کرتے ہیں۔ اسکول سے بچّے نے کیا اور کتنا سیکھا اور اسکول کے اساتذہ نے کتنی محنت کی اور کیا کچھ سکھایا اور تربیت دی___ ان سوالات سے والدین کا عموماً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
لوگوں کی سوچ اس درجہ طبقاتی ہوگئی ہے کہ ہم آدمی کی حیثیت اور مرتبے کا اندازہ اُس علاقے سے لگاتے ہیں جہاں وہ رہتاہے ۔ ایک اچھے کردار اور اخلاق کا آدمی اگر کسی نواحی یا نیم پس ماندہ بستی کا رہایشی ہو تو عموماً وہ بے وقعت ہوجاتاہے۔ رشتہ دار اگر بدقسمتی سے ایسی بستی کے رہایشی ہوں تو ان کے پاس آنا جانا اور ملنا جلنا بھی براے نام ہی ہوتاہے۔
اس کی وجہ اور کیا ہے کہ ہماری نظروں میں زندگی کی سب سے بڑی قدر دھن دولت، کار،کوٹھی او ر بنک بیلنس ہے۔ یہ مادی اشیا یقینا زندگی میں اہمیت رکھتی ہیں اور ان کے جائز حصول میں کوئی عیب نہیں ہے۔ لیکن اس سے زیادہ بُری بات اور کیا ہوگی کہ دولت اور مادی اشیا کے سامنے ہم انسانی اور اخلاقی اوصاف اور خوبیوں کو کم تر اور بے وقعت سمجھنے لگیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ دولت باوجود اپنی طاقت اور اہمیت کے، عمر اور جوانی کی طرح ڈھلتی چھاؤں ہے۔ ہم نے کتنے دولت مندوں کو قلاّش ہوتے اور کتنے قلاّشوں کو دولت مند ہوتے دیکھا ہے۔ روپیہ پیسہ تو گردش کرنے والی چیز ہے۔ ایسی عارضی اور پُر فریب حقیقت پر جان دینا، اسی کو سب کچھ سمجھ لینا، اچھّائی اور برائی کا اسی کو پیمانہ بنالینا، کوتاہ نظری اور سطحی سوچ کا شاخسانہ ہے۔
آج معاشرے میں بدعنوانی کی شرح اس درجہ کیوں بڑھ گئی ہے کہ کوئی محکمہ، کوئی شعبہ اور کوئی کاروبار اس بدعنوانی کے ناسور سے محفوظ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ زرپرستی کانتیجہ ہے۔ روپیہ پیسہ لوگوں کا ایمان اس لیے بن گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کی ساری سہولتیں ، عزّت، وقار، بچّوں کی تعلیم اور ان کا محفوظ مستقبل سب کچھ دولت ہی سے ممکن ہے۔ یہ یقین اس درجہ ہے کہ زندگی سے قناعت، صبر و استغنا اور سادگی و کفایت شعاری کی صفات غائب ہوگئی ہیں۔ اس کے برعکس دولت کی محبت نے جو بیماریاں ہمارے اندر پیدا کردی ہیں، وہ ہیں: حرص و ہوس، لالچ، غرور، تکبر، غفلت، بے خوفی اور دیدہ دلیری۔ جس کا حتمی نتیجہ ہے احترام آدمیّت کا خاتمہ۔ جب آدمی کو دولت اور سماجی مرتبے سے تولا جائے گا تو احترامِ آدمیّت کا خاتمہ منطقی نتیجہ ہے۔
ول ڈیورانٹ نے لکھا ہے کہ: ’’آدمی اور پست حیوان میں بہت کم فرق ہوتاہے اور زیادہ تر لوگ اس فر ق کو بھی مٹادیتے ہیں‘‘۔ یہ فرق اُس وقت مٹتا ہے جب آدمی اپنی جبلّتوں اور خواہشوں کا غلام ہوجائے اور دولت کو ان کی تکمیل کا ذریعہ بنالے۔ ہمارے معاشرے میں جب کسی شخص کے پاس دولت آتی ہے تو وہ ایک شان دار بنگلہ یا کوٹھی بناتاہے ، سالِ رواں کی مہنگی اور پُرتعیش کار خریدتا ہے، قیمتی اور مہنگے لباس پہننے لگتا ہے۔ بیوی ، زیورات سے لد پھند جاتی ہے، ہیرے جواہرات کے نیکلس اورقیمتی انگوٹھیاں، غرض دولت ہے کہ ہر ہر چیز سے امارت چھلکی پڑتی ہے۔ دولت کا فقط یہی استعمال رہ گیا ہے کہ اس کی نمایش سے محروم لوگوں کو ترسایا تڑپایا اور للچایا جائے۔ دوسرے ملکوں اور دوسری قوموں میں آپ نمود و نمایش اور دکھاوے کا یہ انداز نہیںپائیں گے۔
اسلام نے اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو ’شیطان کا بھائی‘ کہاہے۔ جو دولت مند ہوتے ہیں، کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ رزق کی اس کشادگی کا فیض وہ اپنے غریب رشتہ داروں اور ضرورت مندوں کو پہنچائیں۔ اس لیے کہ جو دولت محنت سے کمائی جاتی ہے، وہ محنت دولت کی محبت بھی دل میں پیدا کردیتی ہے۔ اسے رفاہ عامّہ کے کاموں میں خرچ کرنے اور ضرورت مندوں کی امداد کرنے میں دل دُکھتا ہے اور یہ خیال روکتا ہے خرچ کرنے سے کہ اپنی محنت اور خون پیسے کی کمائی میں دوسروں پر کیوں لٹاؤں؟ دوسروں کا اس میں کیا حصّہ ہے جو میں اپنی کمائی میں سے ان کا حصّہ نکالوں۔ لہٰذا، دولت آتی ہے تو ساتھ اپنی محبت بھی لاتی ہے بلکہ دولت اکثر صورتوں میں جمع ہوتی ہی دولت کی محبت اور بخل سے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں امیر ، امیر تر اور غریب ، غریب تر ہوتا جارہا ہے ۔ دولت مندوں اور کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ اگر غریب غربا کو دینے دلانے میں ذرا دریادلی اور فیاضی دکھائیں تو معاشرے میں غربت و افلاس میں اضافہ کیوںہو، لوگ فاقہ کشی پر مجبور کیوں ہوں، نان شبینہ سے محتاجی انھیں خودکشی اور ڈاکازنی پر مجبور کیوں کرے؟
آج کسی بھی متّمول علاقے میں چلے جائیے، جہاں وسیع و عریض کوٹھیاں اور بنگلے بنے ہیں۔ وہاں اکثر صورتوں میں آپ کو ویرانی اور سناّٹے کا راج نظر آئے گا۔ اس لیے کہ بچّوں کی شادیاں ہوگئیں یا بہتر مستقبل کی تلاش میں وہ ملک سے باہر چلے گئے اور اب کوٹھی یا بنگلے میں دو میاں بیوی، چند ایک ملازمین کے ساتھ بڑھاپے اور بیماری کے دن کاٹ رہے ہیں۔ دولت اور اسراف نے کیا دیا؟ تنہائی اور ویرانی!
دولت یقینا ایک نعمت ہے، اگر اس نعمت سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا جائے، اور یہ لعنت ہے اگر اسے نمود و نمایش، دکھاوے یا اسراف میں اڑایا جائے۔
جن اخلاقی بیماریوں میںہمارا معاشرہ مبتلا ہے، یوں تو وہ بے شمار ہیں، لیکن ان میں سب سے بڑی بیماری ’بے حسّی‘ ہے۔ صورت کچھ یوں ہے کہ ایک شخص اپنی ذات اور اپنے معاملات کے بارے میں تو بہت حسّاس نظر آتا ہے، لیکن وہی شخص دوسروں کی ذات اور ان کے مسائل کے حوالے سے بے حس اور بیگانہ ہوتاہے۔
اس بے حسّی اور بیگانگی کے بطن سے کتنی اور بیماریاں اور امراض جنم لیتے ہیں، اس کا اندازہ ایسے شخص کو نہیں ہوسکتا ۔ مثلاً اسی بے حسّی سے خود غرضی جنم لیتی ہے ، ناشکرگزاری پیدا ہوتی ہے۔ اس بے گانگی سے ’احسان فراموشی‘ جیسے برے مرض کو بڑھاوا ملتاہے۔ یہی بے حسّی دوسروں کو اذّیت پہنچاتی ہے اور یہی بے حسّی اور لاتعلقی باہمی تعلقات میں زہر گھول دیتی ہے۔ یہ بے حسّی سنگ دلی اور شقی القلبی کی بھی ایک شکل ہے۔ اور یہ بے حسّی ہمیں پڑوسیوں ، رشتہ داروں ، دوست احباب اور اس سے آگے بڑھ کر معاشرے ، ملک و ملّت اور پھر پوری انسانیت سے بے گانہ کردیتی ہے ۔ اس بے حسّی کو ہم لوگوں کے روّیوں میں چلتے پھرتے، رستے گھاٹ میں، دفتروں میں، شادی بیاہ کی تقریبات میں، بازاروں میں اور گلی محلّوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ٹریفک کے ہجوم میں جب ہرگاڑی دوسری گاڑیوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جانا چاہتی ہے۔ بسوں میں سوار ہوتے، یوٹیلیٹی بل جمع کراتے یا دکانوں میں سودا سلف خریدتے یا ہسپتال میں اپنا علاج کرنے یا اپوائنٹمنٹ لینے یا کسی تقریب میں پلیٹ تھام کر کھانا لینے میں جو کیفیت ہوتی ہے وہ بھی یہی ہوتی ہے کہ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا کام پہلے ہوجائے، چاہے وہ بعد ہی میں آیا ہوا کیوں نہ ہو۔ سرکاری دفتروں میں، بنکوں میں، تعلیمی اداروں میں وہ ملازمین جو عوام سے رابطے (پبلک ڈیلنگ) پر مامور ہوتے ہیں ان کا رویّہ بھی عام طور پر بے حسّی کا ہوتاہے۔ وہ آنے والے ضرورت مند کو ٹال دیتے ہیں، کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اگلے دن آنے کا کہہ دیتے ہیں۔ کسی دفتر میں کسی کلرک یا افسر کا رویّہ خوش اخلاقی اور تعاون کرنے والا ہو تو حیرت ہوتی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ فرشتہ ٔ رحمت کہاں سے آگیا۔
اس کے برعکس آپ یورپ کے کسی ملک یا امریکا چلے جائیے تو صورت حال بالکل برعکس ملے گی۔ اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ کئی سال پہلے میں نیویارک ایرپورٹ پراترا، مجھے ڈیٹورائٹ کی فلائٹ لینی تھی۔ کاؤنٹر پر پہنچا تو وہاں بیٹھی ہوئی خاتون نے مسکرا کر استقبال کیا، نہایت مستعدی سے میرا ٹکٹ بنایا۔ اسی دوران اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا سامان کہاں ہے؟ میں نے فرش پر رکھے ہوئے اپنے بھاری سوٹ کیس کی طرف اشارہ کیا۔ خاتون تیزی سے اپنی کرسی سے اتری اور کاؤنٹر کے باہر آکر اس نے میرا سوٹ کیس اٹھا کر وزن کرنے والی مشین پر رکھا۔ اس کاٹیگ اور ٹکٹ میرے حوالے کرکے ایک بار پھر خوش اخلاقی سے مسکرا کر Thank youاور Have a nice journeyکہہ کر مجھے رخصت کیا۔کیا اس مہذّبانہ اور مہربانی کے روّیے کا ہم اپنے ملک میں تصّور کرسکتے ہیں؟
عوام سے رابطے کے کام پر جو شخص بھی مامور ہوتاہے، وہ سمجھتا ہے کہ جو لوگ قطار باندھے سامنے کھڑے ہیں، وہ صرف اسے پریشان کرنے آئے ہیں۔ لہٰذا اوّل تو اس کا موڈ خوش گوار نہیں ہوتا، تیوریاں چڑھی ہوتی ہیں، آواز میں ملائمت مفقود ہوتی ہے، اکثر تو صریحاً بداخلاقی اور بدمزاجی پر اترے ہوتے ہیں۔ کسی دفتر میں چلے جائیے افسر موصوف کادروازہ بند ملتا ہے۔ چپراسی کو ہدایت ہوتی ہے کہ ہر آنے والے سے کہہ دے کہ صاحب میٹنگ میں مصروف ہیں، جب کہ اندر صاحب کسی دوست کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں۔ فرض کیجیے میٹنگ ہورہی ہے تو کیا میٹنگ کا وقت دوپہر کے بعد نہیں رکھا جاسکتا۔ جب لوگوں کی شکایات سننے یا دُور کرنے کی ذمّہ داری آپ کے پاس ہے تو آپ انھیں کیوں انتظار کراتے ہیں؟ یہ ساری چیزیں بے حسّی اور بے گانگی کا نتیجہ ہیں۔ اس طرح کے روّیے کا مظاہرہ کرنے والا کبھی نہیں سوچتا کہ اگر اس شخص کی جگہ’’میں ہوتا تو مجھ پر کیا گزرتی‘‘۔
دفتروں میں چھوٹے ملازمین کے ساتھ بڑے افسران کا رویّہ صریحاً غیر انسانی ہوتاہے۔ ہر دفتر میں صاحب کو چپراسی کو طلب کرنے کے لیے ایک گھنٹی دے دی جاتی ہے جو سارا دن چیختی رہتی ہے اور ہر گھنٹی کی پکار پر چپراسی کو چشم زدن میں صاحب کے حضور حاضر ہونا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ صاحب کو ایک گلاس پانی بھی پینا ہو،تو اس کے لیے بھی وہ چپراسی ہی کو حکم دیتا ہے۔ اسی ملک میںملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، جہاں افسرانِ بالا کو’ کالنگ بیل‘سے محروم کرکے اس کا عادی بنادیا گیا ہے کہ چائے پینی ہو یا پانی، فائل اپنے کمرے سے دوسرے کمرے میں پہنچانا ہو، یا کسی ماتحت کو کوئی ہدایت دینی ہو، یہ کام انھیں خود ہی انجام دینے ہیں۔ کوئی چپراسی یا خدمت گار ان کے حوالے نہیں کیا جاتا۔
گھروں کے اندر دیکھ لیجیے بیوی، بہن یا بیٹی وہ باپ، شوہر یا بھائی کی ایک طرح سے خدمت گزار ہوتی ہیں۔ ناشتہ کھانا تیار کرنے، برتن سمیٹنے اور دھونے سے لے کر گھر کی جھاڑپونچھ تک جُملہ ذمہ داریاں ان ہی کی ہوتی ہیں۔ بعض ـصورتوں میں کپڑے استری کرنا اور مردوں کے جوتے پالش کرنا بھی ان ہی کے ذمّے ہوتاہے۔ آنے والے مہمانوں کی تواضع، بچّوں کی تعلیمی ذمّہ داریوں اور سودا سلف لانے کا بوجھ بھی ان ہی کو اٹھانا پڑتاہے۔ اور اگر عورت ملازمت کررہی ہو تو بھی اسے گھر کی ذمّہ داری سے نجات پھر بھی نہیں ملتی۔ اسے دوہرا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ مرد حضرات خواہ شوہر ہوں یا باپ، بھائی یا بیٹا، گھر کی عورت کے لیے بالعموم بے حسّی کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ عورت صنفی اعتبار سے کمزور واقع ہوئی ہے، وہ اس پر رحم نہیں کرتے، ترس نہیں کھاتے۔ ایک مرتبہ کسی طالبہ نے مجھ سے کہا تھا کہ سر! مجھ پر تین ذمّہ داریاں ہیں: تعلیمی ذمّہ داری، دفتری ذمّہ داری اور گھر کی ذمّہ داری ۔ جب میں یونی ورسٹی سے دفتر اور دفتر سے گھر جاتی ہوں تو تھک کر چور ہوجاتی ہوں۔ پھر بھی مجھے بھائیوں کے لیے کھانا تیار کرنا ہوتا ہے کہ امّی بیمار رہتی ہیں۔ اگر کھانا ٹھنڈا ہوجائے تو حکم ملتا ہے کہ کھانا گرم کرکے دو۔ کھانا من پسند نہ ہو تو اس پر الگ باتیں سننی پڑتی ہیں۔اسے آپ کیا کہیں گے؟ بے حسّی اور سنگ دلی کے علاوہ اس روّیے کوکیا نام دیا جائے۔
آپ کسی دکان پر خریداری کے لیے فٹ پاتھ کے ساتھ گاڑی پارک کرتے ہیں، واپسی پر آپ دیکھیں گے کہ آپ کی گاڑی کے پیچھے کوئی موٹر سائیکل کھڑی ہے یا کسی دوسرے نے اپنی گاڑی کھڑی کردی ہے حالاں کہ آس پاس جگہ موجود تھی۔ آ پ کی گاڑی کا راستہ روکنا ضروری نہ تھا لیکن بے حسّی اور دوسروں کی اذّیت سے بے گانگی کا رویّہ ہی ہے جو ایسے نامعقول ، اور تکلیف دہ کام کراتا ہے۔
شادی بیاہ کی تقریبات ہی کو دیکھ لیجیے کہ کراچی میں کوئی تقریبِ شادی مہمانوں کو اذّیت دیے بغیر انجام پذیر نہیں ہوتی۔ بارہ بجے بارات اور ساڑھے بارہ بجے عشائیہ اور ایک ڈیڑھ بجے رات گھر واپسی ۔ میزبان یہ سوچنے کی زحمت تک نہیں کرتے کہ جن مہمانوں کو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنی ہے، ان کی واپسی رات گئے گھر تک کیسے ہوگی؟ یہ بھی بے حسّی کا ہی معاملہ ہے۔ پھر عشائیے کے وقت ’کھانا کھُلنے‘ کا اعلان ہوتے ہی کھانے کی میز پر جو بھگڈر مچتی ہے، جس طرح ہر شخـص دوسرے کو دھکیل کر خود پہلے کھانا لینے کے لیے ٹوٹتا ہے اور پھر پلیـٹ میں جس طرح کھانا بھرلیتاہے۔ا س سے بہت کم غذا میں اس کا پیٹ بھر سکتاہے، یہ جاننے کے باوجود زائد کھانا لے کر اسے بے دردی سے ضائع کرنا کیا اس روّیے کو ہم بے حسّی کا نام نہیں دیں گے؟ یہ بے حسّی اور بے دردی ہی نہیں بد تہذیبی بھی ہے۔ خصوصاً اس وقت جب ایسا کرنے والے ماشاء اللہ تعلیم یافتہ بھی ہوں۔
بے حسّی، سنگ دلی ، بد تہذیبی اور اذّیت دہی کے یہی وہ روّیے ہیں جس نے آج ہمارے معاشرے میں رہنے سہنے اور زندگی گزارنے کو ناقابل برداشت بنادیا ہے۔ ایسے افراد جو اس اجتماعی روّیے کے برعکس مہذّب اطوار کے مالک ہوتے ہیں، دوسروں کے ساتھ خوش خلقی اور مدد کرنے کا رویّہ اپناتے ہیں، انکسار اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انھیں اکثر انھی کے دوست احباب اور شناسا اپنے مقاصد کے لیے ’استعمال‘کرتے ہیں اور پھر کام نکل جانے پر اس طرح ہوجاتے ہیں جیسے یہ تو ان کا حق تھا۔ احسان کا بدلہ احسان سے دینے کے بجاے احسان فراموشی سے دیا جاتا ہے۔ اب تو معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کہ جس کے ساتھ نیکی کا معاملہ کیجیے وہی آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوجاتاہے۔ مُحسن کشی کا یہ رویّہ بھی بے حسّی ہی سے پیدا ہوتاہے۔ احسان کرنے والے کے احسان کا احساس ہی جب دل سے نکل جائے تبھی آدمی اپنے محسن کو تکلیف پہنچا سکتاہے۔
اور یہ بھی بے حسّی ہی ہے کہ آدمی اپنی بے حسّی کو محسوس ہی نہ کرسکے۔ کبھی اپنا جائزہ ہی نہ لے پائے کہ اس کا طرزِ عمل اکثر صورتوں میں دوسروں کے لیے کتنا تکلیف دہ ہوتاہے۔ یہی بے حسّی ہے کہ ہم اپنی تکلیف کے اسباب خود اپنے اعمال اور اپنے روّیے اور اپنی ذات میں تلاش نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو اس کا ذمّہ دار ٹھیرا کر خود کو مظلوم سمجھتے رہتے ہیں۔ قرآن کہتاہے کہ تمھیں جو بھی تکلیف یا رنج پہنچتاہے وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ اس لیے بیماری ہو، کاروبار میں گھاٹا ہو، نوکری چاکری میں پریشانیاں ہوں یا اسی طرح کے اور مسائل اور الجھنیں___ ان کا باطنی سبب یہی ہماری ذات سے دوسروں کو پہنچنے والی تکلیف اور اذّیتیں ہیں جس کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی۔
آج ہمارے معاشرے میں جو عمومی بے سکونی ، عدم تحفّظ کا احساس جیسی طرح طرح کی بلائوں کی وجہ سے ہمہ وقت جو موت کا وحشت ناک رقص جاری ہے اس کی ذمّہ داری ویسے تو ہم جس پر چاہیں ڈالیں، ورنہ حقیقتاً اس کے ذمّہ دار ہم لوگ خود ہیں۔ ہماری بے حسّی اور بیگانگی کا رویّہ ہے کہ ہم ہر ظلم اور بہیمیت کو، سنگ دلی اور بے رحمی کے واقعات کو یہ سوچ کر نظر انداز کردیتے اور بھول جاتے ہیں کہ اس کے شکار ہم نہیں دوسرے ہیں۔بے شک اس وقت دوسرے ہیں لیکن یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کل کلاں کو ہماری باری بھی تو آسکتی ہے، اور ضرور آئے گی، اور آتی ہے لیکن پھر بھی ہم نہیں سمجھ پاتے کہ یہ اپنا ہی بویا ہے جسے ہم کاٹ رہے ہیں۔
اپنی بے حسّی سے واقف ہونا، یہ جان جانا کہ ہم بے حس ہیں، یہی اس کا علاج ہے۔ بے حسّی غفلت اور بے خبری سے پیدا ہوتی ہے۔ جو آدمی اپنے مرض سے آگاہ ہوجاتاہے، وہ اپنا معالج خود بن سکتاہے۔
بے حس آدمی اگر اپنی بے حسّی سے واقف ہوکر اپنے روّیے کو درست کرنا چاہے تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ ہم دوسروں کی ذات ا ور مسائل کو اہمیت دینے لگیں۔ دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور مہربانی سے پیش آنا، دوسروں کے کام آنا، ان کی پریشانیوں میں مددگار ہونا،دوسروں سے محبت اور التفات برتنا___ یہی ہے بے حسّی کا علاج جس میں فرد کی بھی نجات ہے اور معاشرے کی بھی!