حامد ابونصر


ترجمہ: حافظ محمد ادریس

مجھے مرشدعام امام حسن البنا شہیدؒ کے ساتھ مختلف دیہات و قصبات میں دورے کرنے کے کافی مواقع ملے۔ ہمارے ہاں سطح مرتفع کے علاقے میں امام کے وہ دورے اب تک لوگوں کو یاد ہیں۔ اسی طرح میں نے قبائلی اور ساحلی علاقوں میں بھی امام شہید کے ساتھ طویل دورے کیے۔ ان دوروں کے دوران میں بہت سے ایمان افروز واقعات و مشاہدات کا تجربہ ہوا، مختلف شخصیات اور خاندانوں سے تعارف ہوا۔

ان مخلص اور جواں ہمت لوگوں کا جماعت پر یہ حق ہے کہ اُنھیں ہمیشہ یاد رکھیں۔ اُنھوں نے اپنا تن من دھن اس راہ میں قربان کر دیا۔ جماعت نے اُنھیں شعوروجذبہ دیا اور اُن کے خفتہ ایمان کو بیدار کیا۔ جماعت کی تاریخ پر قلم اُٹھانے والا مؤرخ کبھی ان کو فراموش نہیں کرسکتا۔ بہت سے گم نام ساتھیوں کی بدولت تحریک کا نام زندہ و درخشاں ہے۔ اُنھوں نے جس ذات کے لیے قربانیاں پیش کیں وہ علیم و خبیر ہے اور اُن کا اجرمحفوظ ہے۔ جس زمین پر اُنھوں نے عہدِ وفا باندھا، وہ بھی اُن کے حق میں خیر کی گواہی دے گی۔

۲۰ویں صدی کے تیسرے عشرے [۱۹۲۸ء] میں الاخوان المسلمون کی بنیاد پڑی۔ چوتھے عشرے میں اُس نے تناور درخت کی صورت اختیار کرلی، اور امام حسن البنا شہید کی شخصیت مصر کے ماحول پر چھا گئی تھی۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے دوروں کا رنگ ان سے بالکل مختلف ہوتا تھا۔ اُن کے ہاں نمود و نمایش اصل چیز تھی۔ پوسٹر اور بینر لگتے، آرایشی محرابیں آراستہ کی جاتیں، جلسہ گاہ کو سجایا جاتا، بجلی کے قمقمے روشن ہوتے، سرخ قالین بچھتے، نعرے لگتے، سپاس نامے پیش کیے جاتے اور تصویریں اُتاری جاتیں۔ اس کے برعکس امام شہید کی آمد پر ہرچیز میں سادگی اور خلوص نظر آتا تھا۔ نہ تکلف، نہ تصنّع، استقبال کے لیے آنے والے محبت میں ڈوب جاتے۔ سامعین گوش برآواز ہوتے۔ بات دل سے نکلتی اور دل میں اُترتی چلی جاتی۔ لوگ زمین پر بیٹھتے  مگر اُن کی سوچ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہوتی۔ امام حسن البنا ہرسطح پر اور ہرقسم کی فضول خرچی کے سخت خلاف تھے۔ تحریکِ اسلامی کا یہی رنگ اسے ہرمیدان میں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔

  •  صحراکی ایک یادگار رات: امام شہید جب کبھی ہمارے علاقے کا دورہ کرنے کا ارادہ کرتے تو مجھے ٹیلی گرام بھیج دیتے تھے۔ میں حسب ِ پروگرام کبھی جیزہ میں اور کبھی بنی سویف میں آپ کا استقبال کرتا اور پھر ہربستی میں امام کا ہم سفر رہتا تھا۔ انھی سفروں کے دوران ایک مرتبہ   ہم ایک گائوں حجازہ گئے۔ وہیں پر ہم نے رات گزاری۔ اس بستی کے لوگوں نے جس محبت کے ساتھ ہمارا استقبال کیا وہ کبھی بھول نہیں سکتا۔ اُن کے دل پیار و محبت سے لبریز اور چہرے خلوص و وفا کے ترجمان تھے، نہ کوئی ریا نہ کوئی تصنّع۔

چاندنی رات تھی اور وہ لوگ صحرا میں ریت پر چٹائیاں بچھائے ہمارے منتظر تھے۔ ماحول پُرسکون اور فضا خاموش تھی۔ رات کا سکون اُتر آیا اور رات خُنکی میں ڈوب گئی تھی۔ پورا گائوں صحرا میں نکل آیا تھا۔ جس طرح مہمان تکلف و نمایش سے پاک تھے، اسی طرح میزبان بھی اپنے دل کی گہرائیوں سے مہرووفا کے پھول نچھاور کر رہے تھے۔

اس ایمان افروز ماحول اور رات کے سکوت میں امام شہید کا خطاب بھی ماحول کے عین مطابق تھا۔ امام کی زبان سے نکلنے والا ہرلفظ لوگوں کے دلوں میں اُتر رہا تھا۔ دیہاتی ماحول کی مناسبت سے اُنھوں نے نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں دعوت پیش کی۔ لوگوں نے بار بار پُرجوش نعروں اور گرم آنسوئوں سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔ خطاب ختم ہوا تو ہرشخص امام کے گرد پروانہ وار جمع تھا۔ اُنھیں آج کی رات بہت کچھ مل گیا تھا۔

لوگوں کو رخصت کر کے ہم اس سادہ کمرے میں آئے جہاں ہمارا قیام تھا۔ مٹی گارے کا  یہ کمرہ ہمیں بہت بھلا لگا۔ اس میں خلوص کی خوشبو اور محبت کی چاشنی تھی۔ نہ یہاں صوفے اور کرسیاں تھیں، نہ قالین اور فانوس۔ پھر بھی وہ کمرہ آج تک میری آنکھوں میں رچا ہوا تھا۔

ساتھیوں نے رات کے کھانے کا دسترخوان بچھایا۔ برتن صاف، اُجلے اور نہایت خوب صورت تھے۔ دیہاتی لوگوں کی عام غذا پر مشتمل یہ سادہ طعام بڑا لذیذ تھا۔ وہ رات کیوں کر بھلائی جاسکتی ہے۔ قرآنِ مجید نے حضوؐر اور آپؐ کے پیروکاروں کا منصب یوں متعین کیا ہے:

تم ان سے کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ مَیں لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے پیروکار بھی۔ اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔(یوسف ۱۲:۱۰۸)

  •  اسکندریہ کا سفر: امام شہید نے ایک روز مجھے اپنے ساتھ اسکندریہ جانے کی دعوت دی۔ مَیں نے اسے اپنی خوش قسمتی سمجھا کہ حسن البنا کی رفاقت میں ایک اور سفر کا موقع ملا۔ ریلوے اسٹیشن سے ہم ایک گاڑی میں سوار ہوئے۔ جب ہم اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تو مختصر گفتگو کے بعد مرشدعام نے اپنے چھوٹے سے سفری بیگ میں سے قرآنِ مجید کاایک نسخہ نکالا اور تلاوت میں مصروف ہوگئے۔ امام حسن البنا کا تقریباً یہ مستقل معمول تھا کہ سفر میں قرآنِ کریم ساتھ رکھتے، اور سفروحضر میں روزانہ قرآنِ مجید کی تلاوت میں خاصا وقت گزارتے تھے۔ اخوان کے اکثر ساتھیوں نے بھی امام شہید کا یہ طرزِ عمل اپنا لیا ہے، اور مَیں بھی اس پر باقاعدگی سے کاربند ہوں۔

خدیو اسماعیل ریلوے اسٹیشن پر ہم گاڑی سے اُترے اور عوامی معیار کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں قیام کیا۔ ہوٹل میں پہنچ کر سب سے پہلے نمازِ ظہر ادا کی۔ نماز کے بعد مرشدمحترم نے کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ ہوٹل میں قیام کا انتظام تو تھا، مگر طعام کا اہتمام نہیں تھا۔ میں نے عرض کیا: آپ کھانے میں کیا چیز پسند کریں گے؟‘‘ آپ نے جواب دیا: ’’بس روٹی، پنیر اور انگور لے آئیں‘‘۔ چنانچہ یہ طعام لایا اور ہم نے تناول کیا۔ کھانے کے بعد مختصر وقت کے لیے ہم نے قیلولہ کیا اور عصر کی اذان کے وقت جاگ اُٹھے۔ نمازِ عصر ادا کر کے ہم ٹرام میں سوار ہوئے اور قباری پہنچے۔ یہاں پروگرام کے مطابق امام حسن البنا شہید کو نمازِ مغرب کے بعد درسِ قرآن دینا تھا۔ ہم ٹھیک وقت پر جاے مقررہ پر پہنچ گئے۔ امام مسجد نے مرشدعام کو خطاب کی دعوت دی۔ امام حسن البنا نے نہایت ایمان افروز خطاب فرمایا جس کے بعد لوگوں سے اجازت لے کر ہم واپس چل دیے۔

اس سفر کے دوران میں ایک واقعہ رُونما ہوا جو بظاہر چھوٹا سا ہے، مگر اپنی اہمیت کے لحاظ سے اس قابل ہے کہ اس کا ذکر کیا جائے۔ ٹرام وے پر لوگ سوار ہوجایا کرتے تھے اور کنڈکٹر   اُن سے کرایہ وصول کر کے اُن کے اسٹیشن کا ٹکٹ جاری کر دیتا تھا۔ اس سفر کے دوران نہ کنڈکٹر ہمارے پاس آیا اور نہ ہم نے ٹکٹ حاصل کیا۔

اُترنے سے پہلے امام شہید نے مجھ سے پوچھا: ’’آپ نے ٹکٹ لے لیے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کنڈکٹر ہمارے پاس آیا ہی نہیں‘‘۔ آپ نے کہا: ’’اگر وہ نہیں آیا تو ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اسے آواز دیں اور ٹکٹ حاصل کریں‘‘۔میں نے عرض کیا: ’’ممکن ہے اُس نے آپ کو پہچان لیا ہو اور کرایہ وصول نہ کرنا چاہتا ہو‘‘۔ آپ نے کہا: ’’بھائی، اسے اس بات کا کیا حق ہے؟ یہ ٹرام اس کی ذاتی ملکیت تو نہیں، یہ تو اس کمپنی کا مال ہے جو اسے چلاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو فائدہ پہنچانا چاہے یا اُس کی اعانت کا ارادہ کرے تو اُسے اپنی جیب سے خرچ کرنا چاہیے، نہ کہ دوسروں کے مال پر ڈاکا ڈال کر یہ کام کرے‘‘۔

مَیں نے کنڈکٹر کو آواز دی۔ وہ آیا تو مَیں نے اُس سے ٹکٹ مانگا۔ اُس نے کہا: ’’جناب، مَیں نے آپ کو دیکھ لیا تھا۔ آپ ٹکٹ نہ لیں۔ یہ ایک غیرملکی کمپنی ہے‘‘۔ امام بھی یہ بات سن رہے تھے۔ وہ مسکرائے اور فرمایا: ’’ملکی ہویا غیرملکی، کسی کو اُس کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ آپ کو ہدایت اور اجر دے۔دو ٹکٹوں کے پیسے لیں اور ٹکٹ دیں‘‘۔ میں نے اُسے کرایہ دیا اور اس نے ہمیں ٹکٹ دے دیے۔ امام شہید کرایہ ادا کرنے کے بعد ہمیشہ ٹکٹ کا مطالبہ بھی کیا کرتے تھے۔

اس عظیم شخص کی تربیت میں میرے چند سال گزرے۔ اسی تربیت نے مجھے انسانیت سے روشناس کرایا۔ اس عظیم مربی کا قلب ِ سلیم سرچشمۂ رُشد و ہدایت تھا۔ اُنھوں نے اپنے طرزِعمل سے یہ بات سکھائی کہ بنی نوع انسان کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔ کسی کا دین اور شہریت کچھ بھی ہوں بحیثیت انسان اس کا یہ حق ہے کہ اس کے ساتھ عدل کرے۔

قرآنِ مجید کی اس آیت کی زندہ تصویر حسن البنا کی زندگی میں دیکھی جاسکتی تھی:

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (المائدہ ۵:۸)

ایک دل چسپ سفر کی رُوداد

ہمیں ایک مرتبہ برادر گرامی العیلی مرحوم نے دعوتِ خطاب دی۔ اُنھوں نے اپنے  دعوت نامے میں لکھا تھا: مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان ایک مسجد میں عوام کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کریں اور پھر رات کا کھانا اور قیام وہیں کریں‘‘۔ یہ پروگرام ضلع منیا کے ایک گائوں میں منعقد ہونا تھا۔ امام شہید نے دعوت قبول کرلی اور مجھے ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوئے۔

ہمارے  میزبان ریلوے اسٹیشن پر استقبال کرنے کے بعد ہمیں سیدھے مسجد لے گئے۔ نمازِ مغرب پڑھ کر امام شہید نے سوز وگداز سے بھرپور تقریر فرمائی، عنوان تھا: ’’اطاعت الٰہی اور حرام سے پرہیز‘‘۔ اسی تقریر میں امام شہید نے دعوتِ اسلامی کے احیا اور اس سے دل لگانے کی ضرورت و اہمیت بیان کی۔ اُنھوں نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی کہ کامیابی کا راستہ ایک ہی ہے، دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور وہ ہے کلمۂ حق کی سربلندی اور سچائی کا راستہ۔

جوں ہی تقریر ختم ہوئی تو لوگ امام شہید سے ملنے کے لیے لپکے۔ ہرشخص مہمانِ گرامی کے لیے سراپا احترام بنا اُن سے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کے لیے بے تابی سے اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ لوگوں کے جذبات، احترام و محبت اُن کے چہروں سے بالکل عیاں تھے۔ لوگ امام کے ہاتھ اور پیشانی چوم رہے تھے اور تحریک کی کامیابی کے لیے دعائیں دے رہے تھے۔ یہاں  نمازِ عشا ء کے بعد رات بسر کرنے ہم اپنے میزبان کے ساتھ ’آرام گاہ‘ چلے گئے۔

جس ’آرام گاہ‘ میں ہمارا قیام تھا وہ اس قصبے کی بلدیہ کے زیرتصرف تھی۔ہمارے میزبان نے ہمیں بتایا تھا کہ بلدیہ کا چیئرمین ’آرام گاہ‘ میں ہم سے ملاقات کرے گا، مگر موصوف کا یہاں دُور دُور تک پتا نہ تھا۔ اس ’آرام گاہ‘ میں سونے کے کمرے میں داخل ہوئے، جہاں دو چارپائیاں پڑی تھیں۔ ہمارے ساتھی نے ہم سے اجازت چاہی کہ میں چیئرمین کو امام کی آمد کی اطلاع کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ چلا گیا اور ہم آدھی رات تک اس کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ انتظار کی یہ طویل گھڑیاں بڑی بوجھل تھیں۔

امام شہید نے بڑے پُرسوز لہجے میں قرآنِ مجید کی تلاوت شروع کر دی۔ وہ تلاوت کے وقت اس کے الفاظ و معانی میں ڈوب جایا کرتے تھے۔ پھر مسلمانوں کی حالت ِ زار پر حسرت اور تاسف سے شعر پڑھنے لگے۔ ان اشعار میں اُمت مسلمہ کی دین سے دُوری اور داعیانِ حق سے بے رُخی کا مضمون بڑے اثرانگیز اور دردناک انداز میں سمو دیا گیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں امام شہید نے میری دلی کیفیت کا اندازہ کر کے محسوس کیا کہ ان کا ساتھی یاس و حُزن کا شکار ہوکر کہیں حوصلہ نہ ہار بیٹھے، تو اُنھوں نے اپنا رُخ بدلا اور اُمید و رجا کا دروازہ کھول دیا۔

اب قرآنِ مجید کی وہ آیات پڑھنے لگے، جن میں فتح و نصرت کی نوید سنائی گئی ہے اور جن میں اہلِ حق کی کامیابیوں کے تذکرے ہیں۔ اسی مناسبت سے اُنھوں نے ایسے اشعار منتخب کیے جو بزدلوں کو بہادری کا راستہ بتانے اور نااُمیدو مایوس دلوں کو روشنی کی کرن دکھانے والے تھے۔   اسی دوران میں ہمارے دوست، چیئرمین صاحب سے مل کر واپس آئے تو معذرت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ: ’’میں نے رئیس بلدیہ کو دریا کے کنارے ایک کلب میں دیکھا ہے، جہاں وہ علاقے کے بڑے سرکاری افسر کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ میں نے اُنھیں آپ کی آمد کی اطلاع دی ہے، مگر اُنھوں نے سلام بھیجتے ہوئے حاضری سے معذوری ظاہر کی ہے‘‘۔

ہمارے میزبان خود بھی بہت نادم اور مغموم تھے مگر بے چارے کیا کرسکتے تھے۔ ہمیں اطلاع دے کر وہ فوراً اپنے گھر گئے اور ہمارے لیے کھانا لائے۔ ہم نے شوق سے کھانا کھایا اور اپنے میزبان دوست کا شکریہ ادا کیا۔ رات تو گزر گئی، مگر اپنے پیچھے عبرت اور سبق کی یادیں چھوڑ گئی۔ یہ تو بس ایک رات تھی۔ ایسی ہی کئی راتیں دیگر دیہات و قصبات میں اس سے ملتے جلتے حالات میں مجھے امام شہید کی پُرکشش رفاقت میں گزارنے کے مواقع ملے۔

اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کا حال قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے:

جب یہ اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اصل میں ہم تو تمھارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کر رہے ہیں۔ اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے اور وہ اُن کی رسّی دراز کیے جاتا ہے۔ یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے مگر یہ سودا اُن کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۴-۱۶)

  •   بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے:  امام شہید کی جس سفری رُوداد کا ابھی تذکرہ   ہوا ہے، وہ اخوان کے قیام کے چند سال بعد کا واقعہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اس بستی کے   اصحابِ اقتدار نے امام سے ملاقات اور اُن کی مہمان نوازی سے پہلوتہی کی۔ اخوان کا قافلہ کٹھن گھاٹیوں کو عبور کرتا منزل کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو امام شہید کر دیے گئے، مگر تحریک کا کام مسلسل پھیلتا رہا۔ استعماری طاقتوں کے آلۂ کار شاہ فاروق برسرِاقتدار تھے، جن سے نجات حاصل کرنے کے لیے جولائی ۱۹۵۲ء کا فوجی انقلاب اخوان کے تعاون سے آیا تھا۔ اگر اخوان کے اثرات اور خیرخواہی انقلاب کے پشت پناہ نہ ہوتے تو یہ انقلاب کبھی کامیاب نہ ہوسکتا تھا۔

عوام الناس شاہ فاروق کی بدکرداری اور ظلم و ستم سے تنگ تھے۔ اُن کی نظریں اخوان کی جانب اُٹھتی تھیں۔ انقلاب آیا تو اس کے آغاز میں پوری مصری قوم نے چین کا سانس لیا اور اخوان کی تعریف و تحسین کا چرچا ہونے لگا۔ اُس وقت جناب حسن الہضیبی اخوان کے مرشدعام تھے۔ ضلع منیا کے ایک قصبے میں مرشدعام دوم کسی پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے۔ اب صورتِ حال اور پوری فضا بدل چکی تھی۔

اس علاقے کی ایک معروف سیاسی شخصیت جو کئی مرتبہ انتخابی معرکوں میں کامیابی حاصل کرچکی تھی اور اپنی اخوان دشمنی کے لیے پورے علاقے میں شہرت رکھتی تھی، مرشدعام کی خدمت میں حاضر تھی۔اس سیاسی رہنما نے بڑی لجاجت اور اصرار کے ساتھ مرشدعام سے درخواست کی کہ: میرے گھر میں چند لمحات کے لیے قدم رنجا فرما کر عزت افزائی کریں۔

شیخ الہضیبی خاموش طبع انسان تھے۔ اُنھوں نے فرمایا: ’’ہم جب کسی علاقے میں جاتے ہیں تو ہمارے پروگرام ہمارے مقامی ذمہ داران ترتیب دیتے ہیں۔ آپ اُن سے بات کریں‘‘۔

یوں میں نے دیکھا کہ ۲۰ سال قبل جو لوگ اخوان کے رہنمائوں سے ملنے میں اپنی سُبکی محسوس کرتے تھے، اب دست بستہ مرشدعام کی خدمت میں حاضریاں دینے لگے تھے۔ پروگرام طے ہوا تو مرشدعام پانچ دس منٹ کے لیے اس ’نواب‘ کے محل پر تشریف لے گئے اور چائے کا ایک کپ پی کر واپس چلے آئے۔ علاقے کے سبھی سیاسی لیڈر، مذہبی عمائدین، علما و مشائخ اور جاگیردار دست بستہ امام کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد بھی اس موقعے پر وہاں موجود تھی۔ نعرے لگے، ہوائی فائرنگ ہوئی، آتش بازی ہوئی اور نواب خوش ہوگیا کہ اُس کی عزت و وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ دراصل یہ چڑھتے سورج کے پُجاری سمجھ رہے تھے کہ اب اقتدار الاخوان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہمیشہ اپنا قبلہ اقتدار کی جانب دُرست کرتے رہتے ہیں۔

حالات نے دوسرا رُخ اختیار کرلیا اور اخوان ابتلا کے سخت ترین دور سے دوچار ہوگئے، مگر اس واقعے کو یاد کر کے میں سوچتا ہوںکہ کس طرح کمزور اور بے سہارا لوگوں کو اللہ تعالیٰ قوت اور ہمت عطا کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں کمزور بنا دیے گئے تھے اور اُنھیں رہنمائی کے منصب پر فائز کردیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور اُن سے فرعون و ہامان اور اُن کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا اُنھیں ڈر تھا۔(القصص ۲۸:۵-۶)