علامہ محمد اقبال


تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے۔ اگر طریق تعلیم علمی اصولوں پر مبنی ہو تو تھوڑے ہی عرصے میں تمام تمدنی شکایات کافور ہوجائیں اور دُنیوی زندگی ایک ایسا دل فریب نظّارہ معلوم ہو کہ اُس کے ظاہری حُسن کو مطعون کرنے والے فلسفی بھی اُس کی خوبیوں کے ثناخواں بن جائیں۔

انسان کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ دنیا کے لیے اس کا وجود زینت کا باعث ہو اور جیساکہ ایک یونانی شاعر کہتا ہے: اس کے ہرفعل میں ایک قسم کی روشنی ہو، جس کی کرنیں اوروں پر پڑکے ان کو دیانت داری اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سبق دیں۔ اس کی ہمدردی کا دائرہ [روز بروز] وسیع ہونا چاہیے، تاکہ اس کے قلب میں وہ وسعت پیدا ہو، جو روح کے آئینے سے تعصبات اور توہمات کے زنگ کو دُور کرکے اُسے مجلّاو مصفّا کردیتی ہے۔

صدہا انسان ایسے ہیں، جو دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر اپنے اخلاقی تعلقات سے محض جاہل ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی بہائم [جانوروں] کی زندگی ہے، کیوں کہ ان کا ہرفعل خودغرضی اور بے جا خودداری کے اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔ ان کے تاثرات کا دائرہ زیادہ سے زیادہ اپنے خاندان کے افراد تک محدود ہوتا ہے اور وہ اس مبارک تعلق سے غافل ہوتے ہیں جو بحیثیت انسان ہونے کے، ان کو باقی افراد بنی نوع سے ہے۔ حقیقی انسانیت یہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض سے پوری پوری آگاہی ہو اور وہ اپنے آپ کو اس عظیم الشان درخت کی ایک شاخ محسوس کرے، جس کی جڑ تو زمین میں ہے مگر اُس کی شاخیں آسمان کے دامن کو چھوتی ہیں۔ اس قسم کا کامل انسان بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہرانسانی بچے کی تربیت میں یہ غرض ملحوظ رکھی جائے، کیوں کہ یہ کمال، اخلاقی تعلیم و تربیت ہی کی وساطت سے حاصل ہوسکتا ہے۔ جو لوگ بچوں کی تعلیم و تربیت کے صحیح اور علمی اصول کو مدنظر نہیں رکھتے، وہ اپنی نادانی سے سوسائٹی کے حقوق پر ایک ظالمانہ دست درازی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ تمام افراد سوسائٹی کے لیے انتہا درجے کا مضر ہوتا ہے۔

اس مضمون کی تحریر سے ہماری یہ غرض ہے کہ علمی اصولوں کی رُو سے بچپن کا مطالعہ کر کے یہ معلوم کریں کہ بچوں میں کون کون سے قوا کا ظہور پہلے ہوتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کس طرح ہونی چاہیے۔ ہم ایک ایسا طریق پیش کرنا چاہتے ہیں جو محض خیالی ہی نہیں ہے، بلکہ ایک قابلِ عمل طریق ہے، جس سے بچوں کی تعلیم کے لیے ایسے آسان اور صریح اصول ہاتھ آجاتے ہیں، جن کو معمولی سمجھ کا آدمی سمجھ سکتا ہے اور ان کے نتائج سے مستفید ہوسکتا ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ ناظرین ان سے فائدہ اُٹھائیں گے اور اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم میں ان اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھیں گے کیوں کہ  ؎

خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج

تا ثّریا می رود دیوار کج

(اگر معمار، پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتا ہے تو دیوار، آسمان کی وسعتوں تک ٹیڑھی ہی چلی جائے گی)

سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کون سے اُمور ہیں جو عالمِ طفلی کے ساتھ مختص ہیں، تاکہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں اُن کو ملحوظ رکھا جائے اور ان سے باحسن وجوہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے:

۱- اس ضمن میں پہلی بات جو ہرمطالعہ کرنے والے کو صاف دکھائی دیتی ہے، یہ ہے کہ بچوں میں ایک قسم کی اضطراری حرکت کا میلان ہوتا ہے، جو نہ صرف انسان کے ساتھ ہی خاص ہے بلکہ ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔ دیکھیے بلّی کا بچہ کیا مزے سے خودبخود کھیلتا ہے۔ چھوٹے کتّے کی زنجیر کھول دو تو اضطراری حرکت کی خوشی میں پھولے نہیں سماتا۔

..... انیسویں صدی کے مشہور حکما..... اس اضطراری جوش کو بچے کی نشوونما کے لیے بڑا ضروری جزو خیال کرتے ہیں، کیوں کہ اس حالت ِ اضطرار میں اُس کے اعضا حرکت میں آنے کے لیے کسی بیرونی محرک کے محتاج نہیں ہوتے۔ بچوں میں اعصابی قوت کی ایک زائد مقدار ہوتی ہے، جو کسی نہ کسی راہ سے صرف ہوکر اُن کی خوشی کا موجب ٹھیرتی ہے۔ اگرچہ بسااوقات ان کے ماں باپ کو اس سے تکلیف بھی اُٹھانی پڑتی ہے۔ بعض دفعہ اعصابی قوت کی یہ زائد مقدار رونے چلّانے میں صرف ہوجاتی ہے، بعض دفعہ بے تحاشا ہنسنے اور کھیلنے کود میں۔ پس، جو لوگ بچوں کے رونے سے تنگ آتے ہیں، اُن کو یاد رہے کہ یہ بھی اُن کے جسمانی اور روحانی نمو [ترقی یا بڑھوتری] کے لیے ایک ضروری جزو ہے۔ اس کے علاوہ اس قوت کے صرف ہونے کی اور بھی راہیں ہیں۔ مِن جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ بچے کے حواس خود بخود حرکت میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے اسے خارجی اشیا کا رفتہ رفتہ علم ہوتا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بچہ ایک متعلّم ہستی نہیں بلکہ سراپا ایک متحرک ہستی ہے، جس کی ہرطفلانہ حرکت سے کوئی نہ کوئی تعلیمی فائدہ اُٹھانا چاہیے، مثلاً اینٹوں کے گھر بنانا ، لڑی میں منکے پرونا، گانا وغیرہ۔ وہ زائد اعصابی قوت جو رونے اور بے جا شور کرنے میں صرف ہوتی ہے، ایک باقاعدہ شور یا راگ میں آسانی سے منتقل ہوسکتی ہے اور وہ قوت جو ضرر رساں اشیا کے چھونے اور دیگر چیزوں کو اِدھر اُدھر پھینکنے میں صرف ہوتی ہے، اینٹوں کے گھر بنانے میں سہولت سے صرف ہوسکتی ہے۔

۲- بچپن کا ایک اور خاصّہ یہ ہے کہ اس عمر میں کسی شے پر مسلسل توجہ نہیں ہوسکتی۔ جس طرح اُس کے جسمانی قوا کو ایک جگہ قرار نہیں ہوسکتا، اسی طرح اُس کے قواے عقلیہ بھی ایک نکتے پر عرصے کے لیے قرار پذیر نہیں رہ سکتے۔ جس طرح ہاتھ نچلے [آرام سے] نہیں رہ سکتے، اسی طرح اُس کی توجہ میں بھی ایک طرح کی بے قراری ہے، جو اُسے ایک مقام پر جمنے نہیں دیتی۔ لہٰذا، ہرطریقِ تعلیم میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ سبق طویل نہ ہوں اور چھوٹے چھوٹے حصوں پر منقسم ہوں، تاکہ پڑھتے وقت بچوں کے مختلف قوا کو تحریک ہو۔ اس کے علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ ہرسبق میں ایک خاص مشترک بات ہو، تاکہ ایک خاص مقام پر توجہ لگانے کی عادت بھی ترقی کرتی جائے۔

۳- بچوں کو اشیا کے غور سے دیکھنے اور بالخصوص ان کے چھونے میں لطف آتا ہے۔ تین مہینے کی عمر کا بچہ ہو اور اُس کی توجہ روشنی کی طرف منتقل ہوجائے تو ہاتھ پھیلاتا ہے اور شمع کے شعلے کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ نظر کے فعل سے اُس کی تسلی نہیں ہوتی۔ حسِ لامسہ [چھونے کی حِس] سے بھی مدد طلب کرتا ہے، کیوں کہ اُسے قدرتاً اشیا خارجی کے چھونے میں مزا آتا ہے۔ یہ بات توہرشخص کے تجربے میں آئی ہوگی کہ جب بچے کی نظر دیوار کی کسی تصویر پر جاپڑے تو بے اختیار چلّانے لگتا ہے اور چاہتا ہے کہ تصویر اُتار کر اُس کے ہاتھوں میں دے دی جائے۔ چلّانے سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے میاں اب چپ ہونے میں نہیں آئیں گے، مگر جب مطلوبہ شے سامنے رکھ دی جائے تو چپ ہو جانا، تو ایک طرف بعض اوقات آپ کی ہنسی بھی نکل جاتی ہے۔ پس، جس شے کے متعلق سبق دو، اس کو بچے کے سامنے رکھو اور جب سبق ختم ہوجائے تو شے مذکور اُس کے ہاتھ میں دے دو۔ مشاہدے سے حسِ بصر [دیکھنے کی صلاحیت] کی تربیت ہوتی ہے۔ چھونے سے قوتِ لمس معتدبہ فروغ پاتی ہے۔ گفتگو اور راگ وغیرہ سے قوتِ سامعہ [سننے کی صلاحیت] ترقی کرتی ہے۔ اس طرح لَمس اور بصر کے متحدہ استعمال سے بچے کو صورتِ شے کا ادراک ہوتا جائے گا۔

۴- بچے کی توجہ صورتِ شے سے زیادہ رنگِ شے کی طرف لگتی ہے۔ جن اشیا کا رنگ شوخ ہو، اُس کا دھیان زیادہ تر اُنھی کی طرف رہتا ہے۔ کسی اعلیٰ درجے کے مصوّر کی بنائی ہوئی تصویر اُس کے سامنے رکھ دو۔ اگر اُس کا رنگ شوخ اور چمکیلا نہیں تو اُسے اس کی پروا بھی نہیں ہوگی۔ برخلاف اس کے اپنی چھوٹی سی کتاب کی رنگین تصویروں پر جان دیتا ہے۔ بول چال میں ملاحظہ کیجیے: لفظ سرخ ، نیلا وغیرہ تو پہلے سیکھ جاتا ہے اور لفظ مربع، تکون وغیرہ کہیں بعد میں جاکر۔ اس سے یہ اصول قائم ہوا کہ بچے کے ابتدائی سبق رنگین اشیا کے متعلق ہونے چاہییں۔

۵- بچے میں بڑوں کی مدد کرنے کا مادّہ خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے۔ ماں ہنستی ہے تو خود بھی بے اختیار ہنس پڑتا ہے۔ باپ کوئی لفظ بولے تو اُس کی آواز کی نقل اُتارے بغیر نہیں رہتا۔ ذرا بڑا ہوجاتا ہے اور کچھ باتیں بھی سیکھ جاتا ہے، تو اپنے ہم جولیوں کو کہتا ہے: ’’آئو بھئی، ہم مولوی بنتے ہیں، تم شاگرد بنو‘‘۔ کبھی بازار کے دکان داروں کی طرح سودا سلف بیچتا ہے۔ کبھی پھر پھر کر اُونچی آواز دیتا ہے کہ: ’’چلے آئو! انار سستے لگا دیے‘‘۔ اس وقت میں بڑا ضروری ہے کہ استاد اپنی مثال بچے کے سامنے پیش کرے، تاکہ اُسے اُس کے ہرفعل کی نقل کرنے کی تحریک ہو۔

۶- قوتِ متخیلہ یا واہمہ بھی بچوں میں بڑی نمایاں ہوتی ہے۔ شام ہوئی اور لگا سِتانے اپنی ماں کو: ’’اماں جان! کئی کہانی تو کہہ دو‘‘۔ ماں چڑیا یا کوّے کی کہانی سناتی ہے تو خوشی کے مارے لوٹ جاتا ہے۔ ذرا بڑا ہوا، اور پڑھنا سیکھ گیا تو ناولوں اور افسانوں کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ استاد کو چاہیے کہ قوتِ واہمہ کی نمو [اَن دیکھی چیزوں کو تصور میں لانے کے اضافے] کی طرف بالخصوص خیا ل رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ قوت بے قاعدہ طور پر بڑھ جائے اور اس سے قواے عقلیہ کی ترقی میں نقص پیدا ہو۔ بعض حکما کی راے ہے کہ اس قوت کی تربیت کی اتنی ضرورت نہیں، جس قدر کہ اُسے مناسب حدود کے اندر رکھنے کی ہے۔ بچے کی اس خصوصیت سے بے انتہا تعلیمی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اکثر مکتبوں میں لڑکے کاغذ کی کشتیاں دن رات بنایا کرتے ہیں۔ قوتِ واہمہ کے لیے یہ اچھی مشق ہے۔

۷- بچوں میں ہمدردی کی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں، جن سے بچے کی اخلاقی تعلیم میں ایک نمایاں فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ کسی کو ہنستا دیکھے تو خود بھی ہنستا ہے۔ ماں باپ غمگین نظر آئیں تو خود بھی ویسی ہی صورت بنا لیتا ہے۔ تجربے اور مشق سے یہ جبلّی قوت بڑھتی جاتی ہے۔ ابتدا میں اوروں کے غم سے متاثر ہوتا معلوم ہوتا ہے۔ اُستاد کو چاہیے کہ اُسے ہمدردی کے متعلق عمدہ عمدہ کہانیاں سنائے اور یاد کرائے۔ جس حیوان کے متعلق اسے سبق دینا ہو، اُس کے ساتھ اچھا سلوک کرے، تاکہ بچے کے لیے ایک عمدہ مثال تقلید کرنے کے لیے قائم ہوجائے۔

۸- الفاظ یاد رکھنے کے لیے بچے کا حافظہ حیرت ناک ہے۔ اپنی مادری زبان کی پیچیدگیاں کس آسانی سے سیکھ جاتا ہے اور یاد کرلیتا ہے۔ معلّم کو لازم ہے کہ اپنے شاگردوں کو عمدہ عمدہ اشعار اور نظمیں یاد کرائے اور پڑھے ہوئے سبقوں کے مضامین کی طرف بار بار اشارہ کرے۔

۹- اس عمر میں قوتِ متمیزہ [تمیز اور فرق کرنے کی صلاحیت] کمزور ہوتی ہے۔ اشیا   کے باریک باریک فرق تو معلوم نہیں کرسکتا ، ہاں بڑے ظاہر اور نمایاں اختلافات، مثلاً: اختلافاتِ صُورِ اشیا [مختلف چیزوں کی صورت میں فرق] معلوم کرلیتا ہے۔ لہٰذا ،ابتدا میں ظاہر اختلافات کی طرف اُسے توجہ دلانی چاہیے، مثلاً: دو چیزیں ایک گیند اور ایک پہلودار شے اس کے سامنے رکھ دو اور دونوں کے اختلافات مندرجہ ذیل طور سے بیان کرو:

  •  گیند       پہلودار شے
  •   ایک ہی سطح ہے بہت سی سطحیں ہیں
  •   کوئی گوشہ نہیں ہے            بہت سے گوشے ہیں
  •   کوئی کنارا نہیں   بہت سے کنارے ہیں

ان نمایاں اور ظاہری اختلافات کا علم دے چکنے کے بعد ، کسی اور شکل کی شے پیش کرو اور علیحدہ علیحدہ گیند اور پہلودار شے سے اس کا مقابلہ کرکے باریک باریک اختلافات واضح کرو۔

۱۰- قواے عقلیہ، مثلاً تصدیق اور استدلال کا کمزور ہونا۔ بچے سے ایسی فہمید [سمجھ]کی توقع نہ رکھو، جو ابھی تجربے اور علم سے بڑھنی ہے۔ ان قوا کے مدارج ترقی کا لحاظ استاد کے لیے نہایت ضروری ہے۔ دو عام اشیا اُس کے سامنے رکھو اور اُن کے بڑے بڑے اختلافات بیان کرو۔ اسی طرح مقابلہ کرتے کرتے تصدیق پیدا کرو۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تصدیق بغیر تصورات کے محال ہے، کیوں کہ یہ اصل میں دو تصوّرات کے مقابلہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے، جو خود مختلف مدرکات کا مقابلہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں، مثلاً: بہت سے افرادِ نوعِ انسان کا مقابلہ کرنے سے ان میں بعض مشترک اوصاف معلوم ہوتے ہیں، جن کے اشتراک کی وجہ سے ہم ان سب افراد کو ایک مشترک اور [سب کے لیے مناسب] نام دے دیتے ہیں، جو ہر فرد پر صادق آتا ہو۔ پس، معلوم ہوا کہ بچے سے ایسے تصوّرات کے علم کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، جس کے ضمنی مدرکات [ذیلی]کا علم ہی اُس کو نہیں ہے۔ ایک برس کے بچے کو کیا علم کہ ’حُب ِ وطن‘ کس جانور کا نام ہے؟ ہمارے بعض معلم، بچے کے ہاتھوں میں ایسی ابتدائی کتابیں رکھ دیتے ہیں، جن کا پہلا باب،   مثلاً: ’خدا کی صفات‘ سے شروع ہوتا ہے۔ مگر انھیں یہ معلوم نہیں کہ خدا ایک ایسا مجرد تصور ہے، جو قواے عقلیہ کی حدِکمال پر پہنچنے اور بہت سا علم حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور صفاتِ شے کا اُس شے سے علیحدہ تصور کرنا ایک ایسا فعل ہے، جو بچے سے کسی صورت میں ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا، اس قسم کا علم دینا ممکن ہے کہ بعض وجوہ سے اچھا ہو،مگر علمی اصولوں کی رُو سے بچے کے حافظے پر ایک بے جا اور غیرمفید بوجھ ڈالنے سے زیادہ نہیں ہے۔

۱۱- آخری خاصّہ بچے کا یہ ہے کہ اخلاقی محرکات سے یا تو بچہ متاثر ہی نہیں ہوتا، یا اگر ہوتا ہے تو نہایت اقل [تھوڑے یا معمولی] درجے پر۔ کیوں کہ اس قسم کی تحریکوں سے متاثر ہونا اور اس اثر کو عملی زندگی کے دائرے میں ظاہر کرنا، ایک ایسا امر ہے کہ جو اعلیٰ درجے کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے۔ معلّموں کا فرض ہے کہ ابتدا سے ہی بچے میں اخلاقی تحریکوں سے متاثر ہونے کی قابلیت پیدا کرنے کی کوشش کریں، مثلاً: شروع سے ہی اُن کو ہمدردی کرنا سکھائیں اور نیز اس امر کی طرف پوری توجہ دیتے رہیں کہ بچہ اپنے سبق کے متعلق ضروری ترتیب کا لحاظ رکھے، کیوں کہ امن اور   صلح کاری کی عادت انھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نفسِ ناطقہ قوا کا ایک مجموعہ نہیں ہے، بلکہ یہ اپنی ذات میں ایک واحد غیرمنقسم شے ہے اور اس کی ہر ایک قوت کا نشوونما ہر دوسری قوت کے نشوونما پر منحصر ہے۔ جس طرح جسمانی اعضا تناسب کے اصولوں کے مطابق بڑھتے ہیں، اسی طرح نفسِ ناطقہ کی قوا کا نشوونما بھی انھی اصولوں کے تحت ہے۔ لہٰذا، طریق تعلیم کامل وہی ہوگا، جو نفسِ ناطقہ کے تمام قوا کے لیے یکساں ورزش کا سامان مہیا کرے۔ ادراک، تخیل، تاثر اور مشیت، غرض یہ کہ نفسِ ناطقہ کی ہرقوت تحریک میں آنی چاہیے، کیوں کہ کامل طریقِ تعلیم کا منشا یہ ہے کہ نفسِ ناطقہ کی پوشیدہ قوتیں کمال پذیر ہوں، نہ یہ کہ بہت سی علمی باتیں دماغ میں جمع ہوجائیں۔

مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوگیا ہوگا کہ ایک عمدہ اور مضبوط تعلیمی بنیاد رکھنے کے لیے بچے کے نشوونما کا مطالعہ کہاں تک ضروری ہے۔

معلّم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں، کیوں کہ آیندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انھی کی قدرت میں ہے۔ سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور سب کارگزاریوں سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلّموں کی کارگزاری ہے۔ اگرچہ بدقسمتی سے اس ملک میں اس مبارک پیشے کی وہ قدر نہیں جو قدر ہونی چاہیے۔ معلّم کا فرض تمام فرضوں سے زیادہ مشکل اور اہم ہے ،کیوں کہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے، اور تمام تر    ملکی ترقی کا سرچشمہ اسی کی محنت ہے۔ پس، تعلیم پیشہ اصحاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیشے کے تقدس اور بزرگی کے لحاظ سے اپنے طریق تعلیم کو اعلیٰ درجے کے علمی اصولوں پر قائم کریں، جس کا نتیجہ یقینا یہ ہوگا کہ اُن کے دم قدم کی بدولت علم کا ایک سچا عشق پیدا ہوجائے گا، جس کی گرمی میں وہ تمدنی اور سیاسی سرسبزی [سیاسی صحت مندی] مخفی ہے جس سے قومیں معراجِ کمال تک پہنچ سکتی ہیں۔