مولانا فضلِ ربی


مسلمان فقہا کے درمیان ہر دور میں اختلافات پائے گئے ہیں، کیوںکہ وہ لوگ زمانے کی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کیا کرتے تھے اور اجتہاد میں اختلاف کا وقوع پذیر ہونا ناگزیر ہے۔ بقول مفتی محمد شفیع صاحب ’’اختلاف صرف احمقوں میں نہیں ہوتا یا ان ضمیر فروش لوگوں میں کہ جو اپنے آقائوں کی ہر بات آنکھیں بند کر کے مان لیتے ہیں‘‘۔ چنانچہ سلف صالحین میں بھی اختلاف راے کا سلسلہ جاری رہا۔ مزید برآں بعض اوقات سیاسی مخالفت کی بنا پر محاذ آرائی کی نوبت آئی ۔ ایسے تمام مراحل میںاسلاف کا عمل جاننے کے لیے ہم یہاں پر کچھ واقعات پیش کرتے ہیں، جس سے یہ اندازہ ہو گا کہ بظاہر کسی نہ کسی انداز میں مخالفت کے باوجود دینی معاملات اور شرعی احکامات کے سلسلے میں وہ لوگ نہایت احتیاط برتتے تھے اور ان کا یہ اختلاف راے کبھی بھی دین میں شقاق وفرقہ بندی کا باعث نہیں بنی۔

  •  امام بیہقی نے سنن میں راویت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ان کے آزاد کردہ غلام کریب نے آ کر یہ شکایت کی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تین کے بجاے ایک وتر پڑھتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ’’معاویہ ٹھیک ہی کرتے ہوں گے کیوںکہ وہ ہم سے بڑھ کر عالم ہیں‘‘ ۔ یاد رہے عبد اللہ بن عباس ؓ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے، جب کہ اس وقت حضرت معاویہؓ ،حضرت علی ؓ سے برسرِ پیکار تھے۔
  • حضرت علی ؓ کے خلاف اہل شام نے جو بغاوت کی تھی اور ان کے لیے جو مشکلات پیدا کی تھیں ان سے ہر صاحبِ علم واقف ہے، مگر جب حضرت علی ؓ سے ان کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ کافر ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا:’’ نہیں ! کفر سے تو وہ بھاگے ہیں‘‘۔پھر پوچھا گیا:ــ’’ کیا وہ منافق ہیں؟ ‘‘ حضرت علی ؓ نے فرمایا: ’’ نہیں ،منافق کثرت سے خدا کو یاد نہیں کرتے اور وہ لوگ خدا کو کثرت سے یاد کرتے ہیں‘‘۔ سوال کیا گیا کہ پھر وہ کیا ہیں ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ وہ ہمارے بھائی ہیں جنھوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے ‘‘ ۔
  • مولانا مفتی محمد شفیع  ؒ نے معارف القرآن میں تفسیر در منشور کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ: ایک مرتبہ ان کو کسی نے یہ خبر دی کہ فلاں فلاں آدمیوں کے مابین سخت جھگڑا ہے اور وہ ایک دوسرے کو مشرک کہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ سن کر فرمایا: ’’ تمھارا کیا خیال ہے کہ میں تم سے کہوں گا کہ جائو اور ان سے لڑو ؟ ہرگز نہیں ، جائو اور ان کو نرمی سے سمجھائو۔ مان جائیں تو ٹھیک ورنہ اپنی فکر کرو۔ (تفسیر سورئہ مائدہ، معارف القرآن، ۳، ص ۲۵۱)
  • ابو حنیفہ دینوری ؒ اخبار الطوال  میں لکھتے ہیں کہ: ایک دفعہ حضرت علی ؓ کو یہ خبر پہنچی کہ ان کے بعض رفقا اہل شام کو برا کہتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو پیغام بھیج کر ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ انھوں نے جواب دیا : ’’ اے امیر المومنین ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور وہ باطل پر نہیں ہیں ؟ ‘‘ حضرت علی ؓ نے فرمایا : ’’بے شک، مگر میں تمھارے لیے پسند نہیں کرتا کہ تم لعن طعن کرو‘‘۔
  • امام مالکؒ خود ایک فقہی مسلک کے بانی تھے، مگر جب ان سے امام ابو حنیفہؒ کی استعداد علمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے قریب ہی واقع ایک ستون کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ’’ابوحنیفہ پتھر کے اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں تو دلیل سے ثابت کر دکھائیں گے‘‘۔
  • شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنے رسالہ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف میں علامہ سیوطیؒ کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ: ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید عباسی نے امام مالک سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ: ان کی کتاب موطا  خانہ کعبہ میں آویزاں کر دی جائے اور لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اختلاف ترک کر دیں اور اس کتاب کے مطابق عمل کریں۔ یہ سن کر حضرت امام مالک نے فرمایا : ’’ایسا نہ کیجیے ۔ فروعی مسائل میں خود صحابہ کرامؓ آپس میں اختلاف رکھتے تھے اور وہی صحابہ کرام اطراف ممالک اسلامی میں بکھر گئے ہیں اور یہ انھی کے مختلف طریقے ہیں جو مختلف علاقوں میں پھیل چکے ہیں‘‘۔
  •  امام ابو حنیفہ ؒ کو فقہ اسلامی پر بہت زیادہ عبور حاصل تھا اور اکثر ائمہ انھیں امام تسلیم کرتے تھے۔ ان کے شاگردوں اور زیر تربیت لوگوں میں کئی ایک مجتہد اور فقہ کے امام ثابت ہوئے ۔ تا ہم، فتنہ معاصر کی وجہ سے بعض لوگوں کی ان سے مخالفت تھی اور وہ ان پر سخت لعن طعن  کیا کرتے تھے۔ مگر امام صاحب کا حال یہ تھا کہ ان کے بارے میں عبد اللہ بن مبارک ؒ نے سفیان ثوری ؒ سے کہا: تعجب ہے ابو حنیفہ کے ہاں غیبت بالکل نہیں ہے‘‘۔سفیان ثوری ؒ نے جواب دیا : ’’اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ ابو حنیفہ نادان نہیں کہ اپنے نیک اعمال دوسروں کو دے ڈالیں‘‘ (حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص دوسروں کی غیبت کرتا ہے قیامت کے دن اس کی نیکیاں اس شخص کے لیے شمار کی جائیں گی جس کی غیبت اس نے کی ہو گی)۔
  • علامہ شبلی نعمانی نے امام ابو حنیفہ کے حالات بیان کرتے ہوئے دوواقعات نقل کیے ہیں:

___ امام سفیان ثوری کو امام ابو حنیفہ سے کچھ شکر رنجی تھی۔ ایک شخص نے آکر امام ابو حنیفہ سے کہا کہ سفیان ثوری آپ کو برا کہتے ہیں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ: اللہ، میری اور سفیان دونوں کی مغفرت کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کے ہوتے ہوئے بھی اگر سفیان ثوری دنیا سے اُٹھ جاتے تو مسلمانوں کو سفیان کے مرنے کاماتم کرنا پڑتا۔

___ ایک دن حلقۂ درس کے دوران ایک نو عمر لڑکے نے کوئی مسئلہ پوچھا۔ امام ابوحنیفہ  نے جواب دیا۔ اس لڑکے نے کہا : ’’امام صاحب! آپ نے غلط جواب دیا ہے‘‘۔ابوالخطاب جرجانی درس میں موجود تھے۔ انھیں لڑکے کی بات سن کر بڑا غصہ آیا اور حاضرین کو مخاطب کر کے کہا : ’’تعجب ہے کہ ایک لونڈا جو بھی منہ میں آئے امام سے کہہ دے اور آپ لوگ ٹس سے مس نہ ہوں‘‘۔امام ابوحنیفہ نے ابوالخطاب سے کہا : ’’ان لوگوں پر کچھ الزام نہیں، میں اس جگہ بیٹھا اس لیے ہوں کہ لوگ آزادانہ میری غلطیوں کی نشان دہی کریں اور میں تحمل سے سنوں ‘‘ ۔

  • امام احمد بن حنبلؒ نکسیر پھوٹنے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے قائل تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا : ’’ کیا آپ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھیں گے جس نے جسم سے خون نکلنے کے بعد وضو نہ کیا ہو ؟‘‘امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ’’ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں امام مالک اور سعید بن المسیب کے پیچھے نماز نہ پڑھوں ‘‘(یاد رہے کہ یہ دونوں حضرات اس بات کے قائل تھے کہ نکسیر پھوٹنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ) ۔
  •  عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ اپنے ایک مرید کو نصیحت فرماتے ہوئے کہا : ’’خدائی اور نبوت کا دعویٰ مت کرنا ‘‘۔اس نے حیرت سے پوچھا : ’’حضرت! کیا اس بات کا امکان ہے کہ بندۂ ناچیز اس قسم کا دعویٰ کرے ؟ ‘‘ انھوں نے فرمایا :’’ اللہ وہ ہے جو وہ کہہ دے وہی اٹل ہے اور اس کی خلاف ورزی ممکن نہیں۔ پس جو انسان اپنی راے کو یہ حیثیت دے کہ اس سے اختلاف کرنا ممکن نہ رہے تو اس سے بڑھ کر خدائی کا دعویٰ کیا ہو گا ؟ اسی طرح نبی وہ ہے جو بات وہ کہے وہی سچ ہے اور اس میں جھوٹ کا احتمال نہیں۔ پس جو شخص اپنے قول کے بارے میں یہ دعویٰ کرے کہ یہی سچ ہے تو اس نے نبوت کا دعویٰ کیا‘‘۔
  • اختلافِ راے کے باوجود رواداری ، خیر خواہی اور احترام باہمی کی ایک اعلیٰ اور عمدہ مثال امام شافی نے قائم کی ہے۔ آپ نے ایک مرتبہ امام ابو حنیفہ کی قبر کے قریب نماز فجر پڑھتے ہوئے دعاے قنوت چھوڑ دی۔ جب ان سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا : ’’ بعض اوقات  ہم اہل عراق کے مسلک پر بھی عمل کر لیتے ہیں‘‘۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ امام صاحب نے فرمایا : ’’صاحب قبر کے لحاظ نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے ‘‘۔

ان واقعات پر غور کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ہمارے سلف صالحین میں اختلاف راے اور سیاسی مخالفت کے باوجود کس قدر رواداری پائی جاتی تھی اور وہ باہمی احترام اور عزت نفس کو کس قدر ملحوظ رکھتے تھے۔ انھوں نے اختلاف راے کو کبھی اپنی اَنا کا مسئلہ نہیں بنایا اور کبھی یہ نہ کہا کہ صرف میری ہی بات حق ہے اور دوسروں کی باطل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ معمولی معمولی فقہی اُمور پر لڑتے ہوئے امت میں افتراق پیدا کرنا نہایت خطرناک اور دین دشمنی سمجھتے تھے اور اس سے سختی سے پرہیز کرتے تھے۔ تاہم، اس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ موجودہ دور میں اس قسم کے لوگ بالکل نہیں پائے جاتے اور یہ خاصیت صرف اسلاف کی تھی جو اب ناپید ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ تعصب اور تنگ نظری کے اس ظلمت کدہ میں اب بھی ایسے ستارے موجود ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو وسعت نظر اور حقیقی دین داری سے بہرہ مند فرمائے ۔ آمین    !